عالم غیب اور عالم مادہ
تحریر علامہ سید علی شہرستانی( مترجم سید سبط حیدر زیدی ) |
یہ واضح ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اور مشرکین عرب اپنی سطحی فکر پر زندگی گذار رہے تھے ، اگر ان کے حالات پر غور کریں تو روشن ہوجائے گا کہ وہ حقیقت رسالت کودرک نہ کرنے کی وجہ سے جو کچھ بھی پیغمبراکرمۖ لائے تھے اس پر اعتراض کرتے اور کہتے تھے کہ کیوں پیغمبراکرمۖ ایک عظیم بادشاہ کی طرح نہیں ہیں ؟آپ کے پاس کیوں مال و دولت کے انبار نہیں ہیں ؟ ۔
کس طرح خد اوندعالم مردوں کو زندہ کرے گا ؟ کس طرح لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے ؟۔
اور اس طرح کے ہزاروں سوال ۔
یہ تمام سوالات مشرکین کی جانب سے ہیں کہ جن میں سے زیادہ تر مادی اور امور حسی سے مربوط ہیں کہ جن کا عالم غیب سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ خداوندعالم نے مؤمنین سے غیب پر ایمان لانے کی فرمائش کی ہے کہ تمام حوادث کو ایک مادی نگاہ سے نہ دیکھا جائے بلکہ عالم غیب پر ایمان رکھا جائے ۔
حدیثی منابع و مصادر میں ابوبکر کے متعلق نقل ہوا ہے کہ وہ جنگ حنین میں بعض غیبی حوادث کے متعلق مادی نظر رکھتے تھے اسی لیے کہا کہ ہم آج قلت افراد کی وجہ سے اصلا ًکامیاب نہیں ہوسکتے!
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٢٥
خدا اور اس کے رسول نے اس مادی فکر کو پسند نہ فرمایا چونکہ ان کا مقصد ایمان اور غیبی مدد پر یقین کو تقویت دینا تھا ، لہذا ارشاد فرمایا :
(ویوم حنین اذاعجبتکم کثرتکم )(١)
اور روز حنین ان کی زیادتی نے تم کو تعجب میں ڈا ل دیا۔
بہت سے مسلمان اسی سطحی فکر پر ایمان لائے ہوئے تھے اور ان کی نظر اکثر امور کے متعلق مادی ہوا کرتی تھی ، ہر چیز کو اس کے ظاہری اعتبار سے دیکھتے اور اس کو معیار قرار دیتے تھے ،انبیاء و اولیا ء اور اللہ کے نیک بندوں کے مقامات اور ان کی معنوی شأن و منزلت کے متعلق شک و شبہہ کرتے اور یہ دعوی کرتے کہ ان حضرات کے بدن مٹی میں ملنے اور خاک ہوجانے کے باوجود کیسے یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ جب کہ یہ فکرظاہری ، حیات مادی اور دنیوی خیال کی وجہ سے ہے کہ جو زمانہ جاہلیت سے سرچشمہ لے رہی ہے اور اسی کی دین ہے ۔
اگر یہ لوگ خداوندعالم کے اس فرمان کو کہ جس میں ارشاد ہے (کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن اللہ واللہ مع الصابرین ) (٢) چہ بسا تھوڑے لوگ ، خدا وندعالم کے اذن سے زیادہ لوگوں پر غالب آجاتے ہیں اور خداوندعالم صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے ۔حقیقت میں درک کرتے تو انبیاء اور اوصیاء کے مقامات کو کہ جو خداوندعالم نے ان کو عطا فرمائے ہیں خوب سمجھ لیتے اور پھر کبھی شک نہ کرتے اور بے اساس و بے بنیاد اور بیہودہ باتیں نہ کرتے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ توبہ (٩) ، آیت ٢٥۔
(٢) سورہ بقرہ(٢)، آیت٢٤٩۔
عالم غیب اور عالم مادہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٢٦
ابلیس اپنی تمام خباثتوں کے ساتھ خداوندعالم سے مخاطب ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں سے اولاد آدم کو بہکائے گا اور راہ حق سے گمراہ کرے گا لیکن ان افراد کے علاوہ کہ جن کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔
(لا حتنکن ذریتہ الا قلیلا)(١)
میں یقینا آدم کی اولاد کے لگام ڈالوںگا اور ان پر مسلط ہوجائوں گا مگر کچھ افراد کے علاوہ ۔یا اس کا یہ کلام کہ:(فبعزتک لاغوینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین )(٢)
تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر وں گا مگر سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔(٣)
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ اسراء (١٧)، آیت٦٢۔
(٢) سورہ ص(٣٨)، آیت٨٢ـ٨٣۔
(٣) مخلص ،(زبر کے ساتھ) ، مخلص ،(زیر کے ساتھ)سے جدا اور ممتاز ہے ۔
مخلص، (زیر کے ساتھ)وہ شخص ہے کہ جو اپنے اعمال میں اخلاص سے کام لے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی ہر حرکت ورفتار و گفتار صرف خدا کے لیے ہواور ریاکاری ، نفاق اور ہر وہ شیٔ کہ جس کو خدا وند پسند نہیں فرماتا اس کے عمل میںنہ پائی جائے ، اس اعتبار سے ہر انسان باایمان اور مخلص ، اخلاص کی راہ پر گامزن ہے اور خطروں سے بچا ہوا نہیں ہے ، اخلاص کے مراتب و مقامات ہیں کہ ہر شخص مخلص کے اخلاص کا درجہ جدا جدا ہے۔
لیکن مخلص، (زبر کے ساتھ) وہ شخص ہے کہ جو پیغمبروں کی توصیف میں آیا ہے اور ان کی ممتاز خصوصیتوں میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا وندعالم کی جانب سے کسی بندے کا انتخاب یعنی اخلاص کے تمام مراحل کو طے کرکے خطاء و غلطی سے مصونیت و معصومیت کے درجہ پر فائز ہوگیا ہے ۔ اس حیثیت سے کہ اپنے نفس کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے اور جن و انس اور شیطان کوئی بھی اس کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔۔ ۔بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٢٧
اسی بناء پر عالم غیب کے اسرار و رموز سے آگا ہی ہمارے لیے امکان فراہم کرتی ہے کہ ہم تمام امور میں جس مقام و حیثیت میں ہیں اس سے زیادہ حقیقت بینی سے کام لیں اور ان کو کما حقہ درک کرنے کی کشش کریں ۔
حق یہ ہے کہ کہاجائے کہ ہم پیغمبراکرمۖ ، حضرت فاطمہ زہرا اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقامات کو درک نہیں کرپاتے چونکہ ان کا عالم غیبی و معنوی ہمارے سطحی عالم سے کہیں بلند و بالاہے اور ہمارے یہاں ان کے مقام کو درک کرنے اورسمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
اسی وجہ سے وہ لوگ کہ جو مادی و سطحی فکر رکھتے ہیں جیسے عصر حاضر میں فرقہ وہابیت وہ لوگ اصلاً اس بات کو درک نہیں کرسکتے کہ پیغمبراکرمۖ چودہ صدیوں کے بعد آج بھی ہم پر گواہ و شاہد ہیں جب کہ یہ گواہی وشہادت خداوندمتعال کے کلام پاک میں موجود ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔ ۔ ۔
دوسر ے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ مخلص (زبر کے ساتھ) وہ شخض ہے کہ جو توفیق الٰہی کے ساتھ تمام تر آزمائشات و امتحانات سے سربلند و کامیاب نکلا ہو اور کسی بھی فتنے میںاس کے قدم نہ ڈگمگائے ہوں ۔
جی ہاں ! اخلاص ایک وظیفہ ہے کہ جو ہر مخلص مرد و عورت اپنا شیوہ بناتا ہے ۔ اور مخلص (زبر کے ساتھ) خداوندعالم کی جانب سے ایک رتبہ اور مقام ہے اور ایک ایسی منزلت ہے کہ جو مسلسل علمی وعملی جہاد اور کوششوں کے بعد اور ایمان کے آخری درجہ پر فائز ہونے کے بعد ، خدا کے بعض بندوں کو نصیب ہوتی ہے اور ان کو خدا کا منتخب بندہ بناتی ہے ۔
عالم غیب اور عالم مادہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٢٨
(وکذالک جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا)(١) اور اسی طرح آپ کو درمیانی امت قرار دیا تاکہ آپ لوگوں پر گواہ رہیں اوررسول آپ پر گواہ ہو ۔
اسی طرح یہ دوسری آیت : (وقل اعملو فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون و ستردون الی عالم الغیب والشھادة فینبٔکم بما کنتم تعملون)(٢)
اے رسول کہدو کہ جوتمہارا دل چاہے انجام دو ، جبکہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے اور اس کا رسول اور مؤمنین آپ کے اعمال کو دیکھتے ہیں اور عنقریب آپ عالم غیب و شہادت کی طرف پلٹادیئے جائوگے تاکہ جو کام انجام دیتے ہو ان سے تم کو باخبر کردیا جائے ۔
اور خداوندعالم کا یہ ارشادگرامی :
(قل کفٰی باللہ شہیدا بینی و بینکم ومن عندہ علم الکتاب )(٣)
اے رسو ل کہدو، میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے خدا کافی ہے اور وہ کہ جس کے پاس تمام کتاب کا علم ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا گواہی و شہادت اور پیغمبراکرمۖ کا دوسروں کے اعمال کو دیکھنا صرف انپے ہم عصر اور صحابہ تک مخصوص ہے یا ہر زمانے اور مکان اور تمام نسلوں کوشامل ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ بقرہ (٢)، آیت ١٤٣۔
(٢) سورہ توبہ(٩)، آیت ١٠٥۔
(٣) سورہ رعد(١٣) ، آیت ٤٣۔
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٢٩
اور پھر اس آیت کے کیا معنی ہیںکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(ولو انھم اذظلموا انفسھم جائوک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لو جدوا اللہ توابا رحیما)(١)
اے رسول ، اگر یہ لوگ اپنے اوپر ظلم و ستم کریں اور پھر آپ کے پاس آئیں کہ خود بھی خداوندعالم کے حضور استغفار کریں اور پیغمبر بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرے تو خداوندعالم کو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم پائیں گے۔
کیا یہ کلام صرف عصر رسول سے مخصوص ہے ؟ یا یہ کہ دوسرے زمانوں کو بھی شامل ہے ۔اور اگر یہ صرف عصر رسول سے مخصوص ہے تو کیا یہ آئندہ نسلوں پر ظلم و ستم نہیں ہے ؟۔
اور اس کے علاوہ گذشہ آیت میں گواہی و شہادت کے کیا معنی ہیں ؟ اور کس طرح مادی قوانین و ضوابط کی بنیاد پر کہ جو ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ پیغمبراکرم ۖ انسانوں پر گواہ ہیں جبکہ وہ رحلت فرماچکے ہیں اور ظاہراً فوت ہوچکے ہیں ۔
یہ امور سب کے سب عالم غیب سے مربوط ہیں اور ان باتوں پر ایمان رکھنا لازم ہے اگرچہ ان کی حقیقت اور تفصیلی کیفیت سے ہم ناواقف ہوں چونکہ غیب پر ایمان ، خداوندعالم کی اس آیت (الذین یؤمنون بالغیب) (وہ لوگ کہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں)اور فرمان کے مطابق ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ جی ہاں! غیب کے معنوی معانی و مفاہیم ہماری اسلامی زندگی میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں کہ جن کی معرفت ہم پر لازم ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ نساء (٤) ، آیت ٦٤۔
عالم غیب اور عالم مادہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٠
میرے عقیدے میں ، اس روش کو تو جہ کا مرکز قرار دینا بہت زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ یہ روش اعتقادی مسائل کےـ کہ جن کی گہرائی تک دوسرے نہیں پہنچ سکتے ـحل ہونے کا سبب ہے ۔ چونکہ تمام امور کو مادی و سطحی نظر سے دیکھنا وہابیت و مارکسیستی نظریہ ہے ،کہ جو اسلامی نظریہ سے بہت دور ہے ، یہ نظریہ آخری دوصدیوں میں مسلمانوں کے ایمان اورا نبیاء و صالحین کے مقامات و منزلت میں تغافل و بے تو جھی کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ۔
غیب پر ایمان ، تقریباً خداوندعالم کے لیے تمام موجودات کے تسبیح کرنے کی طرح ہے کہ جس کو ہم درک نہیں کرپاتے یا جس طرح خداوندعالم ،ماہ مبارک رمضان میں اپنے بندوں کی مہمان نوازی کرتا ہے ، لیکن یہ میزبانی عام انسانوں کی ایک دوسر ے کی میزبانی کی طرح نہیں ہے چونکہ اکل و کھانے کا مفہوم خداکے نزدیک ہمارے یہاں کے مفہوم سے جدا و متفاوت ہے ، اسی طرح مفہوم شہادت و شہود ہیں اور دیگراصطلاحات کہ جن کا دوسری جہت اور معنوی اعتبار سے اسلام کے اصل افکار میں لحاظ رکھا گیا ہے ، ان کو سطحی فکر اورپست خیالی سے درک نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کو صحیح اور کامل صرف پیغمبراکرمۖ سمجھ سکتے ہیں اور وہ افراد کہ جن کے پاس علم کتاب ہے ۔
پس اس تمام گفتگو کے بعد عرض کرتے ہیں کہ امت اسلامی کے بہت سے افراد ، پیغمبراکرمۖ کے زمانے یا ان کے بعد ، حقیقت رسالت اور رسول خدا ۖ کے معنوی مقام کو درک نہیں کرتے تھے یا نہیں چاہتے تھے کہ کما حقہ درک کریں ۔
اسی بناء پر آنحضرت سے ایک آدمی و معمولی انسان کی طرح ملتے اور ارتباط رکھتے اور یہ اعتقادرکھتے کہ ان کے یہاں امکان خطاء و صواب ہے اور وہ غصے میں وہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو رضایت و خوشنودی میں کبھی بھی زبان پر نہیں لاسکتے ۔
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣١
امیرالمؤمنین یہی چاہتے تھے کہ ابوبکر کے لیے یہ واضح کردیں کہ وہ اسلامی عقیدہ کی گہرائی تک نہیں پہنچے اور اپنے کاموں میں قرآن کریم کے خلاف عمل کررہے ہیں اور تمام امور میں سطحی فکر رکھتے ہیں اور سادہ لوحی و پست خیالی سے کام لے رہے ہیں جبکہ اس کے بر خلاف امیر المؤمنین اپنی ہر گفتار و رفتار اور ہر احتجاج و مقام پر باآواز بلند یہ آشکار فرمارہے ہیں کہ وہ تمام وجود سے شأن رسالت اور اس کی گہرائی کو خوب سمجھتے ہیں اور پیغمبراکرمۖ کے حکم کو نماز سے بھی زیادہ مہم جانتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ پیغمبرا کرمۖ پر وحی نازل ہوتے وقت کہ جب پیغمبراکرمۖ کا سرمبارک علی کی آغوش میں ہے خدااوررسول کی اطاعت اور امتثال امر کی خاطر نماز کے لیے نہیں اٹھتے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اور نماز کی فضیلت کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔
لیکن علی کی یہ اطاعت شعاری خداوندمتعال کو اتنی پسند آئی ہے کہ آپ کے لیے سورج کو دوبارہ پلٹاتا ہے ۔(١)
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) فتح الباری : ٦ ١٥٥۔
ابن حجر کا بیان ہے کہ طحاوی نے شرح معانی الآثار :١ ٤٦ اور طبرانی نے المعجم الکبیر :٢٤ ١٥١، حدیث ٣٩٠۔ اور حاکم و بیہقی نے دلائل النبوة میں اسماء بنت عمیس سے روایت نقل کی ہے ۔ پیغمبراکرمۖ نے اپنے سرمبارک کو علی کے زانو پر رکھا اور سوگئے ان کی نماز عصر کا وقت نکل گیا تو آنحضرت نے دعافرمائی پس سورج دوبارہ پلٹا اور علی نے نماز عصر ادا کی پھر سورج غروب ہوا ۔
اور اس کے بعد کہتا ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو اپنی کتاب موضوعا ت (گھڑی ہوئی حدیثیں) میں نقل کیا ہے جب کہ یہ خطاء و اشتباہ ہے اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الرد علی الروافض میں بھی نقل کیا ہے ۔
عالم غیب اور عالم مادہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٢
اسی کے بالکل برعکس ابو سعید بن معلی انصاری کی حالت ہے کہ جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ وہ نماز میں مشغول تھا کہ رسول خداۖ نے اس کو طلب فرمایا ، ابوسعید نے آنے میں تاخیر کی اور نماز کو پورے آرام و اطمیٔنان کے ساتھ انجام دیا پھر حضور ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا ، رسول اکرمۖ نے اس سستی و تاخیرپر اعتراض کیااور اس کو نصیحت فرمائی اس طرح کہ کیا نہیں سنا کہ خداوندعالم کا ارشادگرامی ہے ۔(١)
(یا ایھا الذین آمنوا استجیبوللہ و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم )(٢)اے ایمان دارو جب کبھی خدا اور اس کا رسول تم کو بلائے اس کا جواب دو تاکہ تمہیں زندگی عطا ہو ۔
حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکورہے کہ رسول خدا ۖ نے سواد بن قیس محاربی سے ایک گھوڑا خریدا اور اس نے بیچنے کے بعد انکار کردیا ، خزیمہ بن ثابت نے رسول خدا ۖکی طرف سے گواہی دی ، رسول خداۖ نے خزیمہ سے سوال کیا : آپ جب کہ ہمارے درمیان نہیں تھے تو آپ کس وجہ سے گواہی دے رہے ہو ، خزیمہ نے کہا آپ کی بات کی تصدیق کرتاہوںچونکہ میرا عقیدہ ہے کہ آپ حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ، پیغمبراکرمۖ نے فرمایا :
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) صحیح بخاری : ٥ ١٤٦ و ١٩٩ و ٢٢٢، کتاب التفسیر ۔ و جلد: ٦ ١٠٣، کتاب فضائل القرآن ۔ مسند احمد :٣ ٤٥٠۔ وجلد: ٤ ٢١١۔ سنن ابی داؤد :١ ٣٢٨، حدیث ١٤٥٨۔ سنن نسائی (المجتبیٰ):٢ ١٣٩۔ صحیح ابن حبان :٣ ٥٦۔ المعجم الکبیر :٢٢ ٣٠٣ ۔ سنن ترمذی :٤ ٢٣١، حدیث ٣٠٣٦۔ مستدرک حاکم :١ ٥٥٨۔ السنن الکبری (البیہقی ) :٢ ٢٧٦۔
(٢) سورہ انفال (٨)، آیت ٢٧٦۔
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٣
خزیمہ کی گواہی تنہا ہی کافی ہے اور کسی بھی معاملے میں ان کے ساتھ دوسرے گواہ کی ضرورت نہیں ہے ۔(١)
آخر کلا م میں آپ کے لیے ایک روایت اور پیش کرتا ہوں کہ جو جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی عرب) کومیں نے دیکھا کہ وہ حضرت فاطمہ زہرا کے خانہ اقدس کے دروازے پر کھڑا کچھ مانگ رہا ہے کہ اپنا پیٹ بھر سکے ، بھوک کو مٹاسکے اور اپنے بدن کو چھپا سکے ۔ حضرت فاطمہ زہرا نے ہرن کی کھا ل اور درخت سلم کے پتے کہ جن پر حضرات حسنین سویا کرتے تھے لاکر دیے ۔ اوراس سے کہا : اے سائل اس کو لے لو امید ہے کہ خداونداس سے بہتر آپ کو عطا کرے گا کہ خوشحال ہوجائوگے۔
اعرابی نے کہا اے محمد کی بیٹی میں نے آپ سے بھوک کی شکایت کی تھی اور آپ ہرن کی کھا ل مجھے دے رہی ہیں، میں اس بھوک کی حالت میں اس کا کیا کرو ں گا ؟ حضرت فاطمہ زہرا نے جیسے ہی اس کی یہ باتیں سنیں اپنے گلے سے گردن بند کو کھولا اور سائل کودیدیا ۔ یہ گردن بند آپ کی چچا زاد پھوپی فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب نے آپ کو ہدیہ دیا تھا ۔ اور فرمایا اس کو لے لو اور بیچ دو ، امید ہے کہ خداوند اس کے بدلے میں آپ کو کوئی اچھی چیز عطا فرمائے ۔
اعرابی نے گردن بند کو لیا ،مسجد رسول میں حاضر ہوا ، دیکھا کہ پیغمبراکرمۖ اصحاب کے درمیان تشریف فرماہیں ، اس نے کہا اے رسول خدا ۖ یہ گردن بند فاطمہ نے مجھے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کو بیچ دو تاکہ خداوندعالم آپ کے لیے کوئی بہترین اسباب فراہم کرے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) الآحاد والمثانی :٤ ١١٥۔ المعجم الکبیر :٤ ٨٧۔ مستدرک حاکم : ٢ ١٨۔
عالم غیب اور عالم مادہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٤
پیغمبراکرمۖ گریہ فرمانے لگے اور ارشاد فرمایا کس طرح خداوندعالم تیرے لیے اچھے حالات نہ لائے جب کہ یہ گردن بند فاطمہ بنت محمد ۖ اور سارے عالم کی شہزادی نے تجھے عطا فرمایا ہے ۔
تب عمار یاسر کھڑے ہوئے اور عرض کی اے رسول خدا ۖ کیا مجھ کو اجازت ہے کہ میں یہ گردن بند خرید لوں ؟۔
پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : اے عمار اس کو خرید لو اگر جن و انس مل کر اس کو خرید نے میں آپ کے شریک ہوں تو خداوندعالم ان سب سے عذاب جہنم کو ختم کردے گا ۔
عمار نے کہا : اے اعرابی اس گردن بند کو کتنی قیمت میں بیچوگے ؟
اعرابی نے کہا : ایک پیٹ بھر نے کے قابل روٹی اور گوشت ، ایک بردیمانی کہ جس کو اوڑھ کر میں اپنے آپ کو چھپا سکوں اور اس میں اپنے پروردگار کی نماز و عبادت انجام دے سکوں اور ایک سواری و مرکب تاکہ میں اس کے ذریعہ اپنے اہل و عیال تک پہنچ سکوں ۔
عمار نے کہ جو فتح خیبر سے ملا ہوا اپنا حصہ بیچ چکے تھے ،کہا: تیرے اس گردن بند کو ٢٠ دینا ر ایک چادر یمانی اور ایک سواری کہ جو تجھ کو تیرے اہل و عیال تک پہنچادے اور ایک وقت کا کھانا روٹی و گوشت کے ساتھ خرید تا ہوں ۔
اعرابی نے کہا : اے مرد اس مال کی بخشش میں کس قدر سخاوت مند ہو!۔
عمار جلدی سے اس کو اپنے ساتھ لے گئے اور جو کچھ اس سے طے پایا تھا بطور کامل ادا کیا ۔
اعرابی اس کے بعد پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا ، رسول اکرمۖ نے معلوم کیا کہ کیا سیر ہوگئے اور پہننے کو بھی مل گیا ؟
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٥
اعرابی نے جواب دیا : اے رسول خدا ۖ میں اور میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں بے نیاز ہوگیا ۔(١)
جناب عمار ، اہل بیت علیہم السلام کی منزلت اور مقا م کی معرفت رکھنے کی وجہ سے اس ہدیہ کی قدر وقیمت جانتے تھے ، لیکن اعرابی اپنے پیٹ بھر نے اور بدن چھپانے کے علاوہ کچھ اور اس کی نظر میں اس گردن بند کی قیمت نہ تھی ۔ لہذا عمار نے جو کچھ بھی اس سے وعد ہ کیا اس کو عطا کیا وہ خوشحال ہوگیا ۔جب کہ اس کویہ نہیں معلوم کہ اس نے کیا گھاٹا و نقصان اٹھایا ہے اور دوسر ے کو کیا فائدہ پہنچایا ہے ۔
یہ ہے معرفت اہل بیت اور اس معرفت کے لیے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے عمار جیسے ہی کافی ہیں ۔
بنابراین ،مقام معنوی کی معرفت اور مفاہیم الہٰی کو کما حقہ سمجھنے کو ہمارے لیے بہت زیادہ راستے اور دریچے کھلتے ہیں کہ جن کی شعاؤں میں ہم معانی معراج واسراء کو درک کرسکتے ہیں ۔
حضرت موسی کا خداوندعالم سے کلام کرنا سمجھ میں آسکتا ہے ۔ پیغمبراکرمۖ کا اس صاحب قبر سے کلام اور جواب دینا کہ جب اس نے آپ پر سلام کیا ، درک کرسکتے ہیں ہم جب آئمہ کو مخاطب کرتے ہیں اور ان کو بلاتے ہیں مدد کو پکارتے ہیں اور وہ ہماراجواب دیتے ہیں یہ باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ اس لیے کہ الہٰی نقطہ نظر سے موت ، حیات جاودانی ہے نہ کہ فناء و نابودی ، وجود و ہستی ہے نہ کہ عدم و نیستی ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) بشارة المصطفیٰۖ ٢١٩۔ اور اس سے منقول ہے بحارالانوار:٤٣ ٥٧ میں۔
عالم غیب اور عالم مادہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٦
اسی لیے خداوندعالم نے موت و حیات کو ایک ساتھ خلق فرمایا ہے یعنی دونوں مخلوق و موجود ہیں ۔ جیسا کہ ارشادہے ۔
(تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیٔ قدیر الذی خلق الموت و الحیاة لیبلوکم ایکم احسن عملا )(١)
مبارک ہے وہ ذات کہ جس کے قبضہ قدرت میں حکومت وفرمانروائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ ہی ہے کہ جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل انجام دیتا ہے ۔ لیکن اگر موت ، زندگی ہے تو پھر اس دنیوی زندگی سے اس کی وجہ شباہت کیا ہے؟۔ اور کیا معقول ہے کہ ایک شخص بغیر کچھ کھائے پئے اور بات کیے زندہ رہ سکتا ہے ؟۔
لازم ہے کہ یہ امور و مسائل بیان ہوں اور ان کے متعلق بحث کی جائے ،لیکن واقعا بہت زیادہ افسوس کا مقام ہے کہ امت اسلامی کے بہت سے افراد وفرقے اس فکر کی گہرائی تک نہیں پہنچتے اور اس کو خوب درک نہیں کرتے اور پیغمبراکرمۖ و آئمہ طاہرین کے بارے میں عام و عادی انسان کی طرح فکر کرتے ہیں اور ان کے معنوی مقام ، الہٰی موہبات و ملکوتی درجات کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔
یہی سبب ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر ، آیہ تطہیر کی حقیقت کو درک نہیں کرتے اور ایک عام مسلمان عورت کی طرح حضرت فاطمہ زہرا سے سلوک روا رکھتے ہیں جب کہ ابوبکر کا یہ عمل قرآن کریم اور شریعت رسول اکرمۖ کے بالکل خلاف ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
(١) سورہ ملک (٦٧)، آیت ١ـ٢۔
کون ہیں صدیق اور صدیقہـــــــــــــــــــــــــــــــــ ١٣٧
جی ہاں ! کبھی کبھی الہٰی مقامات کی معرفت نہ ہونا اور مخلص (زبر کے ساتھ ) بندوں کو نہ سمجھنا سبب بنتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے اور کبھی کبھی شخصی مفاد و مادی غرض سبب ہوتا ہے کہ ان بزرگواروں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے ۔ اگر چہ جو کچھ بھی واقع ہوا ہے وہ دوسرے سبب سے زیادہ نزدیک ہے ۔
٭٭٭٭٭
|
Post a Comment