وسیلہ کے ذریعہ دعا


تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی   
اب ہم ان (وسائل )اسباب کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں جن کو دعا کرتے وقت انجام دنیا چاہئے ۔
پروردگار عالم کافرمان ہے کہ ہم اس سے وسیلہ کے ذریعہ دعا کریں :
ارشاد خدا وند عالم ہے :
(اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلیٰ رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَةَ)(١)
'' یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں ''                   (یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااﷲَ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ) (٢)
''اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو ''
خداوندعالم نے یہ وسائل ان بندوں کیلئے قرار دئے ہیں جن کے اعمال اور دعا ئیں اﷲ کی رحمت تک پہنچنے سے عاجز ہیں اور وہ (خدا )ارحم الراحمین ہے ۔
خداوندعالم فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ اسرا آیت ٥٧ ۔
(٢)سورئہ مائدہ آیت٣٥۔
(اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ )(١)
''پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہیں اور عمل صالح انھیں بلند کرتا ہے ''
بیشک انسانی حیات میں کلمۂ طیب اور عمل صالح ہے ۔
(کلم الطیّب) سے مراد انسان کا اﷲ پر ایمان رکھنا ،اخلاص ، اُس (خدا ) پر اعتماد رکھنا ، اس سے امید رکھنا ، اس سے دعا کر نا اور اس کی با رگاہ میں گڑ گڑا نا اور گر یہ و زاری کر نا ہے ۔
عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی انسا نیت قا ئم ہو تی ہے اور وہ ایمان ، اخلاص ، اعتماد اور امید ہے ۔
اور (کلم الطیب ) ''خوشگوار گفتگو ''قرآن کی تصریح کی رو سے خدا وند عالم کی جا نب چلی جا تی ہے لیکن قرآن ہی کی صراحت کی بنا پر اس خو شگوار گفتگو کو خداوند عالم کی جا نب نیک عمل ہی لے جاتا ہے ۔
اگر عمل صالح نہ ہو تو ( کلم الطیب ) اﷲ تک نہیں پہنچ سکتا ، کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ (عمل صالح ) عا جز اور کمز ور ہو تا ہے اور اس میں( کلم الطیب ) کو اﷲ تک پہنچا نے کی طا قت و قدر ت نہیں ہو تی لہٰذا ایسی صورت میں نہ تو انسان کی دعا اﷲ تک پہنچتی ہے اور نہ ہی اس کی دعا مستجاب ہو تی ہے ۔
اﷲ نے انسان کی زندگی میں اس کے ہاتھوں میں کچھ ایسے وسائل دید ئے ہیں جن کے ذریعہ وہ خدا وند عالم تک پہنچ سکتا ہے اگر یہ وسائل واسباب نہ ہوں تو انسان کیلئے اس کی دعا اور فریادکے اﷲ تک پہنچنے کا کو ئی امکان ہی نہیں ہے ۔
یہی وہ وسائل واسباب ہیں جن کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ فرمایا ہے ۔ان ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورئہ فاطر آیت ١٠ ۔
وسائل میں سے رسول اﷲ کا اپنی امت کے لئے دعا اور استغفار کرناہے ۔خداوندعالم کا ارشاد ہے :
(وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَلَمُوْااَنْفُسَھُمْ جَائُ وْکَ فَاسْتَغْفِرُوْااﷲَ وَاسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْااللّٰہَ تَوَّابًا رَحِیْماً )(١)
''اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گنا ہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ''
قرآن کریم کی یہ آیت صاف طورپر یہ بیان کرتی ہے کہ رسول اﷲ  ۖکا مومنین کے لئے استغفار کرنا ان وسائل میں سے ہے جن میں پروردگار عالم اپنے بندوں کو اس چیز کی رغبت دلاتا ہے جو دعا اور استغفار میں ان کیلئے وسیلہ قرار پائے ۔
جو کچھ رسول اسلام  ۖکیلئے ان کی حیات طیبہ میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مومنین کیلئے خدا سے استغفار کیاہے وہ وفات کے بعد استغفار نہیں کرسکتے نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ رسول اﷲ  ۖتو وفات کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنے پروردگا ر کی طرف سے رزق پاتے ہیں ۔
رسول خدا  ۖ اور اہل بیت علیم السلام سے تو سل کرنا
اسلامی روایات میں رسول خدا  ۖاور اہل بیت علیہم السلام سے تو سل کیلئے بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔
دائو وبرقی سے مروی ہے :''ِنِّ کنت اسمع اباعبد اللّٰہ علیہ السلام اکثرمایلحّ ف الدعاء علی اللّٰہ بحقّ الخمسة،یعن رسول اللّٰہ،و امیرالمؤمنین، و فاطمة ، والحسن ، والحسین '' ( ٢ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نساء آیت٦٤۔       (١)وسائل الشیعہ جلد ٤ ١١٣٩،حدیث ٨٨٤٤۔
''میں نے ابو عبد اﷲ علیہ السلام کو دعا میں اکثر پنجتن پاک کے وسیلہ سے دعا کرتے دیکھا  ہے یعنی رسول اﷲ، امیر المو منین ، فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ''
سما عہ سے مرو ی ہے :مجھ سے ابو الحسن علیہ السلام نے فرمایا :اے سماعہ جب تمھیں خداوند عالم سے کو ئی سوال درپیش ہو تو اس طرح کہو :
(اللھم انّ أَسالک بحقّ محمّد وعلی ٰفانّ لھماعندک شأْناًمن الشأن وقدراًمن القدر،وبحقّ ذلک القدران تُصلَّ علیٰ محمّد وآل محمّد وان تفعل ب کذا وکذ ا )(١)
''پروردگارا میں تجھ کو محمد اور علی کا واسطہ دیکر سوال کرتا ہوں جن کا تیرے نزدیک بلند و بالا مقام ہے اور اسی عظمت کے پیش نظر تو محمد وآل محمد پر درود بھیج اور میرے لئے ایسا ایسا انجام دے ''
دعا ئے کمیل کے ذریعہ اﷲ تک رسائی کے وسائل
ہم دعا ء کمیل میں ان وسائل کا مشاہد ہ کر تے ہیں جن کے ذریعہ سے امیر المو منین دعا میں خداوندعالم سے متوسل ہو ئے ہیں ۔
یہ وسائل دعا کے دوسر ے حصہ میں بیان ہوئے ہیں جن کو امیر المو منین علیہ السلام نے خداوند عالم سے دعا اور حاجتوں کو پیش کر نے سے پہلے مد نظر رکھا ہے۔ اس دعا ئے شریف میں بیان فرمایا ہے ان کو بیان کرنے سے پہلے ہم اس دعا ء کمیل کا مختصرسا خا کہ بیان کر تے ہیں ،اور جن بلند افکارپر یہ دعا مشتمل ہے ان کو بیان کریں گے نیز اس کی بھی وضاحت کریںگے کہ آپ نے اس دعا میںان بلند افکار کے مابین کن طریقوں سے استفادہ فر مایا ہے ۔
کیونکہ ائمہ سے منقول مشہور ادعیہ کی ہر عبارت کے معین افکاراورمنظم اسلوب نیزدعا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)عدةالدا عی صفحہ ٣٨۔
آغاز اوراختتام کی مخصوص روش ہے ۔
معروف ادعیہ میں سے ہر دعا کی ایک مخصوص شکل ہے ان کیفیات کے مطالعہ سے ہمیں یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دعا کی روش نیز خداوند عالم سے منا جات کر نے کا طریقہ کیا ہے ۔
ہر دعا کیلئے بلند وبا لا اور بنیادی فکر ہے ،افکار کا مجمو عہ اسی فکر سے پرورش پاتا ہے ،یہ بنیادی مطلب ہے اور دو سرے مطالب کا مجموعہ اسی اساسی مطلب سے پرورش پاتا ہے ،سوال کر نے کا طریقہ اور سوال کرنے اور ختم کرنے کے اسلوب و طریقوں کو بتا تا ہے ۔
اگر علما نے اس مسئلہ کو بطور کا فی و وافی بیان کیا ہو تا تو اس سے مفید نتا ئج کا اخراج کرتے ۔
اب ہم دعا ئے کمیل کے سلسلہ میں اس کے بنیادی افکار اور کیفیت کے متعلق بیان کرتے ہیں:
دعا کمیل کی عام تقسیم
دعا ء کمیل مومنین کے درمیان بڑی مشہور ومعروف ہے جس کو مومنین ہر شب جمعہ کو پڑھا  کر تے ہیں ،اور اس کو کبھی تنہااورکبھی ایک ساتھ مل کر بھی پڑھا کر تے ہیں ۔
یہ دعا حضرت امیر المو منین علیہ السلام سے منسوب ہے جو آپ نے کمیل بن زیاد نخعی کو تعلیم فرما ئی تھی اسی طرح یہ دعا ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں مومنین تک پہنچتی رہی ہے ۔
یہ دعا عبودیت ، فروتنی و انکساری کے مفا ہیم کے لحاظ سے بیش بہا خزانہ نیز زندہ اشکال میں تضرع ،فریاد خوا ہی نیز توبہ اورانابہ کا مو جیں مارتا سمندر ہے ۔
ہم اس دعا ء میں بیان شدہ تمام مطالب ومفاہیم کی تشریح کرنا نہیں چاہتے چونکہ یہ طولا نی بحثیں ہیں انشاء اﷲ اگر موقع ملا ،قسمت نے ساتھ دیا اور اسباب بھی پید ا ہو گئے تو ضرور ان مطالب کی تشر یح کریں گے۔
لیکن اب ہم صرف اس دعا کی کیفیت کی وضاحت کرتے ہیں یہ دعا تین مخصوص مرحلوں پر مشتمل ہے اور ہر مرحلہ آنے والے مرحلہ میں شمار ہوتا ہے ان تمام باتوں کی اساس وبنیاد دعا کی کیفیت سے درک ہو تی ہے یہ ہمارے دعا پڑھنے ،اس میں بیان ہو نے والے مفا ہیم و افکار کے سلسلہ میں غور و فکر کرنے اور ان سے متاثر ہو نے میں ہماری بہت زیادہ مدد کرتے ہیں۔
شاید پرورد گار عالم اس جہدو کو شش کو ان مومنین کیلئے نفع بخش اور مفید قراردے جنھوں نے اس دعا کو پڑھنے کی اپنی عادت بنا لی ہے ۔
تصمیم دعا کی فکر
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ دعا تین مرحلوں پر مشتمل ہے:
پہلا مرحلہ :جو دعا کے شروع کرنے کے حکم میںہے جس میں دعا کرنے والا اﷲ کی بارگاہ میں کھڑاہوکر دعا کرتا ہے ۔گڑاگڑا تا ہے اور خدا سے مانگتا ہے ،چونکہ گناہ انسان اور اﷲ کے درمیان حائل ہوکر دعا کو مقید کر دیتے ہیں اور اگر بندہ خدا کے سامنے کھڑے ہوکر دعا کرنے کا موقف اپنا تا ہے تو اس کیلئے اس پہلے مرحلہ کی رعایت کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔
اس مرحلہ (ابتدائے دعا)میں اﷲسے مانگنے، طلب کرنے کے طریقہ کی ابتداء بیان کرتے ہیںان میں سے ایک اﷲسے مغفرت طلب کرنا ہے:
(اَللَّھُمَّ اغْفِرْلَِ الذُّنُوْبَ الَّتِْ تَھْتِکُ الْعِصَمَ اَللَّھُمَّ اغْفِرْلَِ الذُّنُوْبَ الَّتِْ تُنْزِلُ النِّقَمَ۔۔۔)
''خدایا میرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ہیں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہیں ''
یہ جملے مغفرت سے متعلق ہیں ۔
اوردوسرے مرحلہ میں خدا کی یاد ،شکر اور اسکاتقرب طلب کیا گیا ہے:
(واَسْأَلُکَ بِجُوْدِکَ اَنْ تُدْنِیَنِْ مِنْ قُرْبِکَ وَاَنْ تُوْزِعَنِْ شُکْرَکَ وَاَنْ تُلْھِمَنِْ ذِکْرَکَ)
''تیرے کرم کے سہارے میرا سوال ہے کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الہام کرامت فرما''
پہلے تو انسان کے لئے خداوند عالم کی بار گاہ میں دعا کرنے کیلئے کھڑاہونا ضروری ہے۔
جس کے نتیجہ میں خداوند عالم اسکے گناہوں کو معاف کریگا،اسکے دل سے پردے ہٹا دیگا۔
دوسرے خداوند عالم کا بندے کو اپنے سے قریب ہونے اسکا شکر کرنے اوراس کے دل میں تذکرہ کرنے کی اجازت دینا ضروری ہے۔
یہ دعا میں وارد ہونے کے ابتدائی فقرے ہیں۔
اسکا دوسرا فقرہ اﷲکی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں کو پیش کرنا اوراسکی طرف راغب ہوناہے :
(اَللَّھُمَّ وَاَسْألُکَ سُؤَالَ مَنْ اشْتَدَّتْ فَاَقَتُہُ وَاَنْزَلَ بِکَ عِنْدَ  َالشَّدَائِدِحَاجَتَہُ وَعَظُمَ فِیْمَا عِنْدَک رَغْبَتُہُ)
''مجھے ہر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرماخدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ہوں اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ہو ''
اﷲسے کوئی فرار نہیں کرسکتا اور نہ ہی خدا کے علاوہ بندے کی کوئی اور پناہگاہ ہے۔
یہ دو حقیقتیں ہیں:
الف۔اﷲسے کوئی مفر نہیں ہے
(اَللَّھُمَّ عَظُمَ سُلْطَانُکَ وَعَلَا مَکَانُکَ وَخَفَِ مَکْرُکَ وَظَہَرَاَمْرُکَ وَ غَلَبَ قَھْرُکَ وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ وَلَاْیُمْکِنُ الْفِرَارُ مِنْ حُکُوْمَتِکَ )
''خدایا تیری سلطنت عظیم ،تیری منزلت بلند،تیری تدبیر مخفی ،تیرا امر ظاہر،تیرا قہر غالب اور تیری قدرت نافذ ہے اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ہے ''
ب:اﷲ کے علاوہ کو ئی اور پناہ گاہ نہیں ہے
(اَللَّھُمَّ لاَاَجِدُلِذُنُوْبِْ غَافِراًوَلَالَِقبَائِحِْسَاتِراً،وَلَالِشَْ ئٍ مِنْ عَمَلَِ الْقَبِیْحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاًغَیْرَکَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ )
''خدایا میرے گناہوں کے بخشنے والے،میرے عیوب کی پردہ پوشی کرنے والے ، میرے قبیح اعمال کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ''
یہ اس ابتدائی مرحلہ کا دوسرا فقرہ ہے اور اس مرحلہ کے تیسرے فقرے میں حضرت علی   انسان کی مایوسی اور اس کی طویل شقاوت کے بارے میں فرماتے ہیں :
(اَللَّھُمَّ عَظُمَ بَلَائِْ وَ اَفْرَطَ بِْ سُوئُ حَالِْ،وَقَصُرَتْ بِْ اَعْمَالِْ،وَقَعَدَتْ بِ اَغْلَالِْ،وَحَبَسَنِْ عَنْ نَفْعِْ بُعْدُاَمَلِْ وَخَدَعَتْنِ الدُّنْیَابِغُرُوْرِھَا،وَنَفْسِ بِجِنَایَتِھَاوَمِطَال یَاسَیِّدْ )
''خدایا میری مصیبت عظیم ہے ،میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ہوئی ہے ،میرے اعمال میں کوتاہی ہے،مجھے کمزوریوں کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ہے اور مجھے دور درازکی امیدوں نے فوائد سے روک دیا ہے،دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ہے اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ہے اے میرے سردار''
اس بے بسی ،رنج وغم اور شقا وت کے اسباب انسان کا عمل اور اس کی کوششیں ہیںلہٰذا وہ خداوند عالم سے دعا کرے کہ اس کے گنا ہوں کو معاف کردے اور ان گنا ہوں کو اپنے اور دعا کے درمیان حا ئل نہ ہونے دے۔
(فَأَسْئَلُکَ بِعِزَّتِکَ اَنْ لَایَحْجُبَ عَنْکَ دُعَائْ سُوْئُ عَمَلِْ وَفِعَالِْ وَلَا تَفْضَحْنِْ بِخَفِ مَااطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّْ وَلَاتُعَاجِلْنِْ بِالْعُقُوْبَةِ عَلیٰ مَاعَمِلْتُہُ فِیْ خَلَوَاتِْ مِنْ سُوْئِ فِعْلِْ وَ اِسَائَتِْ وَدَوَامِ تَفْرِیْطِْ وَجَھَا لَتِْ وَکَثْرَةِ شَہْوَاتِْ وَغَفْلَتْ)
''تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاؤں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں اور میں اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاؤں۔میں نے تنہا ئیوں میں جو غلطیاں کی ہیں ان کی سزا فی الفور نہ ملنے پائے، چاہے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ہو ں یا بے ادبی کی شکل میں۔مسلسل کوتاہی ہو یا جہالت یا کثرت خواہشات و غفلت ''
اس مرحلہ کے چو تھے فقرے میں ایک بہت بڑے مطلب کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے کہ بندہ کااپنے نقصان اور مایوسی کے وقت خدا کے علاوہ اس کا کو ئی ملجاو مأویٰ نہیں ہے :
(اِلٰہِیْ مَنْ لِْ غَیْرُکَ اَسْأَلَہُ کَشْفَ ضُرِّْ وَالنَّظَرَ فِْ اَمْرِ)
''خدایا۔پروردگار۔میرے پاس تیرے علاوہ کون ہے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے''
اس مرحلہ کے پانچویں فقرے میں دوباتوں کا اعتراف کیا گیا ہے :
١۔گناہوں کا اعتراف ۔
٢۔اس چیز کا اعتراف کہ بندہ جب اﷲ کے حدودو احکام کی مخالفت کرتاہے اور اپنی خواہشات نفسانی میں غرق ہوجاتا ہے تو وہ خدا کے سامنے کوئی حجت پیش نہیں کرسکتا ہے۔
اس مرحلہ کے آخری اور چھٹے حصہ میں بندہ کا اپنے گناہوں ،معصیت ،نا امیدی شقاوت کا اعتراف کرناہے اوریہ اعلان کہ خدا سے کوئی فرار اختیار نہیں کرسکتا اور اسکے علاوہ بندہ کی کوئی پناہگاہ نہیں ہے،اور ا ﷲسے یہ درخواست کرناکہ وہ بندے سے اس کے برے افعال ،جرم وجرائم کا مواخذہ نہ کرے،اﷲکے سامنے گریہ و زاری اور اپنے مسکین ہونے کا اعتراف کرنے کے بعد بندہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے مولا کی بارگاہ میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے،اس سے نادم ہے ، انکساری کرتا ہے چونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ اپنے نقصان اور رنج و غم کے وقت اﷲ کے علاوہ کسی اور کے سامنے گڑگڑا نہیں سکتا ہے :
(وَقَدْاَتَیْتُکَ یَااِلٰھِ بَعْدَتَقْصِیْرْ وَاِسْرَافِ عَلٰی نَفْسِْ مُعْتَذِراًنَادِماً مُنْکَسِراًمُسْتَقِیْلاًمُنِیْباًمُقِرّاًمُذْعِناًمُعْتَرِفاً لَا أَجِدُمَفَرّاًمِمَّاکَانَ مِنِّْ وَلاَمَفْزَعاًاَتَوَجَّہُ اِلَیْہِ فِیْ اَمْرِغَیْرَقَبُوْلِکَ عُذْرْ وَاِدْخَالِکَ اِیَّاَ فِْ سَعَةِ رَحْمَتِکَ )
''اب میں ان تمام کوتاہیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکساری، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضرہو رہاہوں کہ میرے پاس ان گناہوں سے بھاگنے کے لئے کوئی جائے فرار نہیں ہے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے''
اس مقام پر یہ مرحلہ ختم ہو جاتا ہے ۔
اور اس جملہ(وقد اتیتکَ )کے ذریعہ انسان خداوندعالم کی بارگا ہ میں دعا اور تضرع کرنے کااعلان کرتا ہے۔
یہاں سے دعا کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلہ میںامام علیہ السلام ان وسائل کا  تذکر ہ فرماتے ہیں جن کے ذریعہ اﷲ سے متوسل ہوا جاتا ہے اور ہمارے( مولف) نظر یہ کے مطابق وہ چار وسائل ہیں :
پہلا وسیلہ: خداوندعالم کا اپنے بندوں پر فضل وکرم ورحمت اور ان سے محبت کرنا ہے :
(یَامَنْ بَدَئَ خَلْقِْ وَذِکْرِْ وَتَرْبِیَتِْ وَھَبْنِْ لِاِبْتِدَائِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِْ )
''اے میرے پیداکرنے والے ۔اے میرے تربیت دینے والے۔اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے ''
دوسرا وسیلہ: ہمارا خداوندعالم سے محبت (لو لگا نا )کرنا اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے:                         (اَتُرَاکَ مُعَذِّبِْ بِنَارِکَ بَعْدَ تَوْحِیْدِ کَ وَبَعْدَ مَاانْطَویٰ عَلَیْہِ قَلْبِْ مِنْ مَعْرَفَتِکَ وَلَھِجَ بِہِ لِسَانِْ مِنْ ذِکْرِکَ وَاعْتَقَدَہُ ضَمِیْرِْ مِنْ حُبِّکَ وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرَافِْ وَدُعَائِْ خَاضِعاًلِرَبُوْبِیَّتِکَ)
''پروردگار!کیا یہ ممکن ہے کہ میرے عقیدۂ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابر تیری محبت جاگزیں رہی ہے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ہوں ''
تیسرا وسیلہ: ہمارا عذاب کے تحمل کر نے میں کمزوری کا اعتراف ہے اپنی کھال کی کمزوری اور ہڈیو ں کے ناتواںہونے کا اقرار کرناہے :
(وَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِعَنْ قَلِیْلٍ مِنْ بَلاَئِ الدُّنْیَاوَعُقْوْبَاتِھَاوَمایَجْرِْ فِیْھَامِنْ الْمَکَارِہِ عَلیٰ اَھْلِھَاعَلیٰ اَنَّ ذٰلِکَ بَلاَ ئ وَمَکْرُوْہ قَلِیْل مَکْثُہُ یَسِیْربَقَائُہُ قَصِیْرمُدَّتُہُ فَکَیْفَ اِحْتِمَالِْ لِبَلاَئِ الآخِرَةِ وَجَلِیْلِ وَقُوْعِ الْمَکَارِہِ فِیْھَا۔۔۔ اِلٰھِ وَرَبِّْ وَسَیِّدِ لِاَّ الاُمُوْرِاِلَیْکَ اَشْکُوْوَلِمَامِنْھَااَضِجُّ وَاَبْکِْ لِاَلِیْمِ الْعَذَابِ وَشِدَّتِہِ اَمْ لِطُوْلِ الْبَلاَئِ وَمُدَّتِہِ )
''پروردگار تو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو میں ان آخرت کی بلاؤں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظیم ہیں۔۔۔خدایا۔ پروردگارا۔ میرے سردار۔میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے''
چو تھا وسیلہ : امام علیہ السلام نے اس دعا میں بیان فرمایا ہے وہ اس بھاگے ہو ئے غلام کی طرح ہے جس نے اپنے آقا کی نافرمانی کی ہو اور وہ پھر اپنے آقا کی پناہ اور اس کی مدد چاہتا ہو جب اسکے تمام راستہ بند ہو گئے ہوں اور اس کی اپنے مولا کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہ ہو۔
اس وسیلہ کی امام علیہ السلام ان کلمات میں عکاسی فرماتے ہیں :
(فَبِعِزَّتِکَ یَاسَیِّدِْ وَمَوْلَا اُقْسِمُ صَادِقاً لَانْ تَرَکْتَنِ نَاطِقاًلأضِجَّنَّ اَلَیْکَ بَیْنَ اَھْلِھَاضَجِیْجَ الْآمِلِیْنَ وَلأصْرُخَنَّ صُرَاخَ الْمُسْتَسْرِخِیْنَ وَلَأبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکَائَ الْفَاقِدِیْنَ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَیْنَ کُنْتَ یَاوَلَِّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَاغَایَةَ آمَالِ الْعَارِفِیْنَ  یَاغَیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ یَاحَبِیْبَ قُلُوْبِ الصَّادِقِیْنَ وَ یَااِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ)
''تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا!  اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اہل جہنم کے درمیان بھی امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ''عزیز گم کردہ ''کی طرح تیری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بھی ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس ۔صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ہے''
یہاں پراس دعا ئے شریفہ کے چار وں وسیلے پیش کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے  جن کے ذریعہ بندہ اﷲ سے دعا اور سوال کرنے کیلئے لو لگاتا ہے ۔
اب ہم اس دعا ئے شریفہ کے تیسر ے مرحلہ کو پیش کر تے ہیں ۔(امام علیہ السلام ان چاروں وسیلوں سے اﷲ سے متوسل ہو نے کے بعد )جس میں امام علیہ السلام اپنی حاجات ومطالب کو یکے بعد دیگر ے خدا کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں یہ تمام حاجتیںایک پست نقطہ یعنی بندہ کی حیثیت اور اس کے عمل سے شروع ہوتی ہیں اور بلندترین نقطہ قمہ یعنی انسان کا اپنے آقا کی رحمت کے سلسلہ میں وسیع شوق پر ختم ہو تی ہیں ۔
ہم پستی کے مقام پر اس طرح پڑھتے ہیں :
(أَنْ تَھَبَ لِفِْ ھٰذِہ ِ اللَّیْلَةِ وَفِْ ھٰذِہِ السَّاعَةِ  کُلَّ جُرْمٍ اَجْرَمْتُہُ وَکُلَّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ وَکُلَّ قَبِیْحٍ اَسْرَرْتُہُ )
'' مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائیاں۔۔۔ ''
اور بلند نظری کے سلسلہ میں ہم اس طرح پڑھتے ہیں :
(وَاجْعَلْنِْ مِنْ اَحْسَنِ عَبِیْدِکَ نَصِیْباً عِنْدَکَ وَاَقْرَبِھِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ وَاَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَّدَیْکَ )
'' اور مجھے بہترین حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا ''
اور جن حاجتوں کو امام علیہ السلام نے ان فقروں میں بیان فرمایا ہے ان کے چار گروہ ہیں ۔
١۔پہلا گروہ :خداوندعالم ہم کو بخش دے اور ہم سے ہمار ے گناہوں کا مواخذ ہ نہ کرے ہماری برایئو ں سے در گذرفرما ہمار ے جرم اور جن برائیوں کا ہم نے ارتکاب کیا ان کو معاف فرما:
(أَنْ تَھَبَ لِْ فِیْ ھٰذِہ ِ اللَّیْلَةِ وَفِْ ھٰذِہِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرْمٍ اَجْرَمْتُہُ وَکُلَّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ وَکُلَّ قَبِیْحٍ اَسْرَرْتُہُ وَکُلَّ جَھْلٍ عَمِلْتُہُ کَتَمْتُہُ اَوْاَعْلَنْتُہُ،اَخْفَیْتُہُ اَوْ اَظْھَرْتُہُ،وَکُلَّ سَیِّئَةٍ اَمَرْتَ بِاِثْبَاتِھاَالْکِرَامَ الْکَاتِبِیْنَ الَّذَیْنَ وَکَّلْتَھُمْ بِحِفْظِ مَایَکُوْنُ مِنِّْ وَجَعَلْتَھُمْ شَھُوْداًعَلَیَّ مَعَ جَوَارِحْ )
'' مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائیاں اور ساری جہالتیں جن کو میں نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان چھپاکر یا ظاہر کر کے عمل کیا ہے اور میری تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ہے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ہے اور میرے اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے ''
دوسرے گروہ میں امام علی علیہ السلام اﷲ سے رحمت نازل کرنے کیلئے عرض کرتے ہیں اور خدا سے عرض کرتے ہیں اے پروردگار وہ ہر شان ،ہر رزق اور خیر جو تو نازل کرتاہے اس میں میرا حصہ قرار دے ۔
(وَاَنْ تُوَفِّرَحَظِّْ مِنْ کُلِّ خَیْرٍاَنْزَلْتَہُ اَوْبِرٍّ نَشَرْتَہُ اَوْ رِزْقٍ بَسَطَّتَہُ )
''میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ہونے والے ہر خیر و احسان اور نشر ہونے والی ہرنیکی ،ہر وسیع رزق،ہر بخشے ہوئے گناہ،عیوب کی ہر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے ''
یہ وسیع دعا ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو اﷲ کی رحمتوں سے خارج نہیں ہو سکتی ہیں ۔
اس دعاکے تیسرے گروہ میں طولا نی فقرے ہیں اور اس مطلب کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے اﷲ سے لو لگانے کا بڑا اہتمام فرمایا ہے ۔
مولائے کائنات خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ میرے اوقات کو اپنے ذکر  سے پر کردے اپنی خدمت میں لگے رہنے کی دھن لگادے ، اپنے (خدا ) سے ڈرتے رہنے کی تو فیق عطا کر ، اپنے سے قریب کر اور اپنے جو ارمیں جگہ عطا فرما :
(اَسْأَلُکَ اَنْ تَجْعَلَ اَوْقَاتِ مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُوْرَةً وَبِخِدْمَتِکَ مَوْصُوْلَةً۔۔۔ قَوِّعَلیٰ خِدْمَتِکَ جَوَارِحِْ، وَاشْدُدْعَلَی الْعَزِیْمَةِ  جَوَانِحِْ وَھَبْ لِیَ الْجِدَّفْ خَشْیَتِکَ وَالدَّوَامِ فِْ الْاِتِّصَالِ بِخِدْمَتِکَ حَتّیٰ اَسْرَحَ اِلَیْکَ فِْ مَیَادِیْنِ السَّابِقِیْنَ،وَاشْتَاقَ اِلٰی قُرْبِکَ فِْ الْمُشْتَاقِیْنَ وَادْنُوَمِنْکَ دُنُوَّالْمُخْلِصِیْنَ،وَاَخَافَکَ مَخَافَةَالْمُؤْقِنِیْنَ،وَاجْتَمِعَ فِْ جَوَارِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ )
''میں تجھ سے سوال کرتاہوںکہ دن اوررات میںجملہ اوقات اپنی یادسے معمور کرد ے ۔ اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا فرما۔۔۔اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادۂ دل کو مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصین کی طرح تیری قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں''
ہمارے لئے یہ بتا نا ضروری ہے کہ پہلے اور تیسرے گروہ کے دعا کے تمام فقرے بندے کے اﷲ سے لولگانے کیلئے مخصوص ہیں لیکن پہلے گروہ (قسم) میں سلبی پہلو اختیار کیا گیا ہے اس میں انسان اﷲ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے ان سے در گذر چاہتا ہے ؛اور تیسرے گروہ (قسم)میں ایجابی (مثبت)پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے اس میں خدا سے اخلاص ، خوف ، خشیت ،حب اور شوق کی بنیاد پر اﷲ سے لولگانے کو کہا گیا ہے ۔
چوتھے گروہ (قسم ) میں ان مطالب کو مد نظر رکھا گیا ہے جن میں امام  نے خداوند عالم سے ظالموں کے مکراوران کے شر سے بچنے کی در خواست کی ہے اور ان کے شر کو خود ان ہی کی طرف پلٹنا نے کو کہا ہے اور ظالموں کے ظلم اور ان کی اذیتوں سے محفوظ رہنے کی در خواست کی ہے :
( اَللَّھُمَّ وَمَنْ اَرَادَنِْ بِسُوْئٍ فَاَرِدْہُ،وَمَنْ کَادَنِ فَکِدْہُ )
''خدایا !جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاہے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا ''
(وَاکْفِنِْ شَرَّالْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اَعْدَائِْ)
''اورمجھے تمام دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا ''
یہ اس دعا شریف کا بہت ہی مختصر اور مفید خلاصہ ہے ۔
لہٰذا اس اجمال کی تشریح کرنا ضروری ہے ۔
دعا ء کمیل کے چارو سیلے
اب ہم دعاء کمیل کے چارو سیلوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں اور یہ اس دعا شریف کی دوسری فصل ہے ۔
پہلا وسیلہ
خدا وند عالم نے اپنے بندے پر پہلے ہی اپنا فضل و کرم فرمادیا ہے ۔جب بندہ اپنے عمل و     کو شش میں عاجزہو جاتا ہے اور اس کے اور اﷲ کے درمیان پر دے حائل ہوجاتے ہیں تو خدا کا بندے پر فضل اور اس کی رحمت خدا تک پہنچنے کے لئے بندہ کی شافع ہوتی ہے ۔
خدا کا بندے پر سابق فضل اور رحمت نازل کرنا اﷲ کا بندے سے محبت کرنے کی علامت ہے ۔
اور اسی (حب الٰہی)کے ذریعہ بندہ خدا وند عالم کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتا ہے جب بندہ خدا کی رحمت کا مستحق نہیں ہوتا تو اﷲ کی محبت اس کو اپنی رحمت اور فضل کا اہل بنا دیتی ہے اور اس کو مقام اجابت تک پہنچاتی ہے امام علیہ السلام اس وسیلہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
(یَامَنْ بَدَ ئَ خَلْقِْ وَذِکْرِْ وَتَرْبِیَتِْ وَبِرِّْ،ھَبْنِِلاِبْتِدَائِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِْ )
''اے میرے پیداکرنے والے ،اے میرے تربیت دینے والے،اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے ''
ہماری پیدائش بھی اﷲ سے سوال کرنے سے پہلے نیکی کاذکر، خلق اور تربیت کے ذریعہ ہو ئی جبکہ ہم اس کے مستحق نہیں تھے ۔
جب ہما رے گناہ اور ہماری برائیاں اﷲ کی نیکی اور اس کی رحمت کے درمیان حا ئل       ہو جا تے ہیں تو اﷲ کی محبت ہماری شفاعت کرتی ہے اور ہم کو اﷲ کے روبر واور اسکی رحمت کے مقام پر لاکر کھڑاکردیتی ہے ۔
دوسرا وسیلہ
ہماری خدا سے محبت ، اس کی ہمارے لئے کا میاب محبت کا وسیلہ ہے ۔امام علیہ السلام نے پہلے وسیلہ میں خدا کی محبت کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد خداوند عالم سے اپنی محبت کو وسیلہ قرار دیا ہے ۔
اس وسیلہ کے سیاق میں ہمارا خدا کی وحدانیت کا اقرار ، اس کی بارگاہ میں خضوع و خشوع، ہماری نمازیں سجدے ، ذکر ، شھادت (گواہی )، اس کی ربوبیت کا اقرار نیز اس کی عبودیت کا اقرار کرنایہ تمام چیزیں آتی ہیں ۔
ان تمام چیزوں کا مرجع دو ہی چیزیں ہیں :ہمارا اس سے محبت کرنا اور اس کی توحید کا اقرار کرنا ہے ۔بیشک (حب)اور (توحید )دونوں ایسے سرمایہ ہیں جن کو اﷲ ردنہیں کرتا ہے اور ہم کو بھی  دو نوں چیزوں میں ایک لحظہ کیلئے بھی کو ئی شک نہیں کرنا چاہئے ۔
امام علیہ السلام اس وسیلہ سے متوسل ہونے کیلئے فرماتے ہیں :
( اَتُرَاکَ مُعَذِّبِْ بِنَارِکَ بَعْدَ تَوْحِیْدِکَ وَبَعْدَ مَاانْطَویٰ عَلَیْہِ قَلْبِْ مِنْ مَعْرَفَتِکَ وَلَھِجَ بِہِ لِسَانِمِنْ ذِکْرِکَ وَاعْتَقَدَہُ ضَمِیْرِْ مِنْ حُبِّکَ وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرَافِوَدُعَائِْ خَاضِعاً لِّرُبُوْبِیِّتِکَ )
''کیا یہ ممکن ہے کہ میرے عقیدۂ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے دل میں اپنی معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابر تیری محبت جاگزیں رہی ہے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ہوں '
یہاں پرہم دعا کے اس فقرہ سے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے :جب خدا وند عالم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کی حکو مت وسلطنت عطا کی توآپ ایک دن اپنے گھر کے سامنے تخت پر ایک ایسے نیک وصالح بندے کے ساتھ تشریف فرماتھے جس کو اﷲ نے علم اور نور عطا کیاتھا ، اسی وقت اس تخت کے پاس سے ایک نوجوان کا گذر ہواتو اس صالح بندے نے حضرت یوسف علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیاآپ اس جوان کو پہچانتے ہیں؟
آپ نے فرمایا :نہیں تو اس بندے نے عرض کیا :یہ وہی بچہ ہے جس نے آپ کے      بری وپاک ہونے کی اس وقت گواہی دی تھی جب عزیز مصر کی زوجہ نے آپ پر الزام لگایا تھا ۔
(وَشَھِدَشَاھِد مِنْ اَھْلِھَااِنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَمِنَ  الْکَاذِبِیْنَ ۔وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّمِنْ دُبُرٍفَکَذَبَتْ وَھُوَمِنَ الصَّادِقِیْنَ )(١)
''اور اس پر اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گو اہی بھی دیدی کہ اگر ان کا دامن   سا منے سے پھٹا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جھوٹوں میں سے ہیں اور اگر ان کا کر تا پیچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھو ٹی ہے اور یہ سچو ں میں سے ہیں ''
یہ وہی شیر خوا ربچہ ہے جس نے گہوار ے میں آپ کی گواہی دی تھی اور یہ اب جوان ہوگیا ہے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو بلا یا ،اپنے پہلو میں بیٹھایا اور اس کا بہت زیادہ احترام کیا اور وہ عبد صالح حضرت یو سف علیہ السلام کے پاس متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے حضرت یوسف کے اس برتائوکا مشاہد ہ کرتارہا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس نیک بندے سے فرمایا۔کیا تم کو میرے اس جوان کے عزت وکرام کر نے پر تعجب ہو رہاہے ؟ تو اس نے کہا :نہیں لیکن اس جوان کی آپ کے بری الذمہ     ہو نے کی گواہی کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں ہے ،خدا نے اس کو قوت گویائی عطا کی جبکہ اس کی خود اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ یو سف آیت٢٦۔٢٧۔
میں کوئی فضیلت نہیں ہے ،اس کے باوجود آپ نے اس کا اتنا زیادہ اکرام کیا اس کو اتنی عزت دی ہے ۔
تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ اﷲ کے سامنے اتنے طولانی سجد ے کرے اور وہ اس کو جہنم کی آگ میں جلادے ،یا اس بندے کے اس دل کو جلادے جو اس کی محبت سے لبریزہے ،یا اس کی اس زبان کو جلادے جس سے اس نے خدا کو بہت زیادہ یاد کیایا اسکی وحدانیت کی گواہی دی اور اس کی وجہ سے شرک کا انکار کیا ہے ؟
حضرت امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
(وَلَیْتَ شِعْرِْ یَاسَیَّدِْ وَاِلٰھِْ وَمَوْلَائِْ اتُسَلِّطُ النَّارَعَلیٰ وُجُوْہٍ خَرَّتْ لِعَظْمَتِکَ سَاجِدَةً وَعَلٰی اَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحِیْدِکَ صَادِقَةً وَبِشُکْرِکَ مَادِحَةً وَعَلیٰ قُلُوْبِ اعْتَرَفَتْ بِاِلٰھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً وَعَلٰی ضَمَائِرَحَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّیٰ صَارَتْ خَاشِعَةً وَعَلیٰ جَوَارِحَ سَعَتْ اِلٰی اَوْطَانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً،وَاَشَارَتْ بِاِ سْتِغْفَارِکَ مُذْعِنَةً مَا ھٰکَذَاا لظَّنُّ بِکَ وَلَااُخْبِرْنَابِفَضْلِکَ عَنْکَ یَاکَرِیْمُ )
''میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چہرے تیرے سامنے سجدہ ریز رہے ہیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گااور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رہی ہیں اور تیری حمد وثنا کرتی رہی ہیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی کا اقرار ہے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ہیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ہیں یا جو اعضاء و جوارح تیرے مراکز عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ہیں ؛ان پر بھی تو عذاب کرے گا۔ہر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نہیں ہے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے  ''
تیسرا وسیلہ
عذاب برداشت کرنے کے مقابلہ میں ہمارا کمزور ہو نا ، ہماری کھال کا باریک ہونا ،ہماری ہڈیوں کا کمزور ہونا ،ہم میں صبر اور قوت برداشت کے مادہ کاکم ہونا ،کمزوری، قوی متین تک پہنچنے میں ایک کا میاب وسیلہ ہے ،ہر کمزورقوی کو جذب کرنے اور اس کی عطوفت ومحبت کو اخذ کر نے کی خواہش کرتا ہے ۔
بیشک کمزور میں ایک راز ہے جس کی بنا پراسے ہمیشہ قوی کی طلب ہو تی ہے اسی طرح قوی (طاقتور )کو ہمیشہ کمزور کی تلاش رہتی ہے یعنی دونوں میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی تلاش رہتی ہے ۔
بیشک شیرخوار اپنی کمزوری کی بناء پر اپنی ماں کی محبت چاہتا ہے جس طرح مادر مہربان کو بچہ کی کمزوری اوراس کی رقت کی چاہت ہو تی ہے ۔
کمزور کا اسلحہ اور وسیلہ بکا اور امید ہے امیرالمو منین علی علیہ لاسلام اس دعا ء کمیل میں فرماتے ہیں :
(یَامَنِ اسْمُہُ دَوَائ،وَذِکْرُہُ شِفَائ وَطَاعَتُہُ غِنیً اِرْحَمْ مَنْ رَّاسُ مَالَہُ الرَّجَائُ وَسِلاَحَہُ الْبُکَائُ )
''اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا۔۔۔ اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے''
بیشک فقیر کا اصل سرما یہ غنی (مالدار )سے امید رکھناہے ،کمزور کا اسلحہ، قوی کے نزدیک گریہ وزاری کر ناہے ،اوردنیا میں جو کمزور کے ،قوی وطاقتور سے اور طاقتور کے کمزور سے لو لگا نے کے سلسلہ میں اﷲ کی سنتوں کو نہیں سمجھ پا ئے گا وہ اس دعا ء کمیل میں حضرت علی علیہ السلام کے ان موثر فقروں کو نہیں سمجھ پائیگا ۔
حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ السلام دوسری مناجات میں فرماتے ہیں :
(انت القو واناالضعیف وھل یرحم الضعیف الاالقو)
''تو قوی ہے اور میں کمزور ہوں اور کیا طاقتور کے علاوہ کو ئی کمزور پر رحم کر سکتا ہے ''
امام علیہ السلام اس دعا کمیل میں بندے کی کمزور ی ،اس کی تدبیر کی کمی اسکے صبر وتحمل کے جلد ی ختم ہوجانے ،کھال کے رقیق ہو نے اور اسکی ہڈیوںکے رقیق ہونے سے متوسل بہ بارگا ہ     خد ا و ند قدوس ہوتے ہیں ۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
(یَارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِْ وَرِقَّةَجِلْدِْ وَدِقَّةَ عَظْمْ)
''پروردگار میرے بدن کی کمزوری، میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما '
ہم کو دنیا میں کا نٹا چبھتا ہے ،انگارے سے ہمارا ہاتھ جل جاتا ہے اور جب ہم کودنیا میں ہلکی سی بیماری لا حق ہو جاتی ہے تو ہماری نیند اڑجاتی ہے اور ہم بے چین ہو جاتے ہیں ،جبکہ اس تھوڑی سی دیر کی بیماری کو خداوندعالم نے امتحان کے لئے قرار دیا ہے تو ہم اس وقت کیا کریں گے جب ہم    درد ناک عذاب کی طرف لے جائے جا ئیںگے اورعذاب کے فرشتوں سے کہا جائیگا :
(خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ ثُمَّ الْجَحِیْمُ صَلُّوْہُ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍذَرْعُھَاسَبْعُوْنَ ذِرَاعاً          فَاسْلُکُوْہُ )(١)
''اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو ،پھر اسے جہنم میں جھونک دو ،پھر ستر گز کی ایک رسی میں اسے جکڑلو ''
امام علیہ السلام فرما تے ہیں :
(وَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِعَنْ قَلِیْلٍ مِنْ بَلاَئِ الدُّنْیَاوَعُقْوْبَاتِھَاوَمایَجْرِیْ فِیْھَا مِنْ الْمَکَارِہِ عَلیٰ اَھْلِھَاعَلیٰ اَنَّ ذٰلِکَ بَلاَ ئ وَمَکْرُوْہ قَلِیْل مَکْثُہُ یَسِیْربَقَائُہُ قَصِیْرمُدَّتُہُ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ الحاقة آیت٣٠،٣١،٣٢۔
فَکَیْفَ اِحْتِمَالِیْ لِبَلاَئِ الآخِرَةِ وَجَلِیْلِ وَقُوْعِ الْمَکَارِہِ فِیْھَاوَھُوَ بَلَائ تَطُوْلُ مُدَّتُہُ وَیَدُوْمُ مُقَامُہُ وَلَایُخَفِّفُ عَنْ اَھْلِہِ لِاَنَّہُ لَایَکُوْنُ  ِلَّاعَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقَامِکَ وَسَخَطِکَ وَھٰذَا مَالَاتَقُوْمُ لَہُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ یَاسَیِّدِْ فَکَیْفَ لِْ وَاَنَاعَبْدُکَ الضَّعِیْفُ الذَّلِیْلُ الْحَقِیْرُالْمِسْکِیْنُ الْمُسْتَکِیْنُ یَااِلٰہِْ وَرَبِّْ وَسَیِّدِیْ وَمَوْلا)
''پروردگار اتو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو میں ان آخرت کی بلاؤں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ہے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اس لئے کہ یہ بلائیں تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ہیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نہیں لاسکتے ،تو میں ایک بندۂ ضعیف و ذلیل و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ہوںخدایا، پروردگارا، میرے سردار،میرے مولا''
چو تھا وسیلہ
امام علیہ السلام اس دعا میں بندہ کے اﷲ سے مضطر ہو نے کو بیان فر ماتے ہیںاورانسان کیلئے اضطرار ایک کا میاب وسیلہ ہے اور اس کی حا جتیں اﷲ کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ پوری نہیںہو سکتی ہیں ۔
ہماری اضطرار سے مراد یہ ہے کہ انسان کی حا جتیں اﷲ کے علاوہ کو ئی اورپورا نہیں کر سکتا ہے اور اس کی پنا ہگاہ کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہیں ہے ،انسان اﷲ کے علاوہ کسی اور جگہ بھاگ کر جاہی نہیں سکتا اﷲ کے علاوہ اس کو کوئی اور پناہگاہ نہیں مل سکتی ہے ۔
چھو ٹابچہ بچپن میں اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی اورکو ایسا نہیں پاتا جو اس کے کام آئے اس کا دفاع کر ے اس کی حاجتیں پوری کرے اس کی ہر خواہش وچاہت پر لبیک کہے اس پر عطوفت کرے لہٰذا وہ اپنے والدین سے مانوس ہوتا ہے وہ اپنے ابھرتے بچپن میں ان دونوں سے اپنے ہر مطالبہ اور ہر ضرورت کوان کی رحمت رافت شفقت سے پاتا ہے جب بچہ کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو ان کو تکلیف ہو تی ہے جب اس کو کسی چیز کا خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کی پناہ میں آجاتا ہے اور ان کے پاس اس کو امن وچین ،رحمت اور شفقت ملتی ہے اس کی ضرورتیں پوری ہو تی ہیں اور جس چیز سے اس کو خوف ہو تا ہے ان سے امان ملتی ہے ۔
جب وہ کبھی ایسا کام انجام دیتا ہے جس میں وہ ان دونوں کے عقاب کا مستحق ہو تا ہے اور اس کو اپنی جان کا خوف ہو تا ہے تو وہ اپنے دائیں بائیں نظریں ڈالتا ہے تو اس کو کوئی پناہگا ہ نظر نہیں آتی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے فرار کر سکتا ہے اور ان کے علاوہ کوئی امن کی جگہ اس کو نظر نہیں آتی تو انھیں کی پنا ہگا ہ میں چلا جاتا ہے اور اپنے نفسں کو ان کا مطیع وفرمانبردار کہہ کران سے فریاد کرتا ہے حالا نکہ وہ دونوں اس کو مار نے اور مواخذ ہ کرنے کا اراد ہ کرتے ہیں ۔
والدین کو بھی اس طرح کے اکثر مناظردیکھنے کو ملتے ہیں اور بچہ ان کی محبت اور عطو فت کوحاصل کرلیتا ہے ۔
امام علیہ السلام اس دعا ئے شریفہ میں اسی معنی کی طرف اشارہ فر ماتے ہیں کہ آپ ہر مسئلہ میں اللہ سے پناہ مانگتے تھے جب آپ پر کو ئی سخت وقت آتاتھا،کو ئی مصیبت پڑتی تھی یا کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو آپ اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے تھے اور اسی سے لو لگاتے تھے لیکن پھر بھی آ پ کو اپنی مصیبت کے سلسلہ میں اللہ کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہیں ملتی تھی امام علیہ السلام انسان کا اسی حالت میںمشاہدہ کرتے ہیں وہ خداوند عالم کے اسی غضب کے سا منے ہے جس کی رحمت کی اسے امید ہے اور اس خداوند قدوس کی عقوبت کے سامنے ہے جس کے غضب سے وہ سلا متی چاہتا ہے ۔
بندے کی (جب وہ اپنے کو اﷲ کے عذاب کا مستحق دیکھتا ہے )اﷲ کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہیںہے اﷲ کے علاوہ وہ کہیںفرارا ختیار نہیں کرسکتا نہ اس کو خدا کے علا وہ کسی کی حمایت حا صل ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ خدا کے علا وہ کسی اور سے سوال کرسکتا ہے ۔
جب عذاب کے فرشتے اس کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں تو وہ خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا تا ہے اس سے امن وچین طلب کر تا ہے اس سے فریاد کر تا ہے ،اپنے نفس کیلئے اس سے رحمت طلب کرتا ہے جیسے وہ بچہ کہ جب اس کے والدین اس سے ناراض ہو جاتے ہیں تو اس کے پاس ان دونو ں کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار کر نے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے اوروہ ان کے علاوہ وہ کسی کو اپنا مونس ومدد گار نہیں پاتا ہے ۔
ہم امام علیہ السلام سے ان کلمات میں دقیق ورقیق و شفاف مطالب کو سنتے ہیں جن کو توحید اور دعا کی روح وجان کہا جاتا ہے :
(فَبِعِزَّتِکَ یَاسَیِّدِْ وَمَوْلَا اُقْسِمُ صَادِقاً لَانْ تَرَکْتَنِْ نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَیْکَ بَیْنَ اَھْلِھَاضَجِیْجَ الْآمِلِیْنَ وَلأصْرُخَنَّ صُرَاخَ الْمُسْتَصْرِخِیْنَ وَلَأبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکَائَ الْفَاقِدِیْنَ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَیْنَ کُنْتَ یَاوَلَِّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَاغَایَةَ آمَالِ الْعَارِفِیْنَ  یَاغَیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ یَاحَبِیْبَ قُلُوْبِ الصَّادِقِیْنَ وَ یَااِلٰہَ الْعَا لَمِیْنَ)
''تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا!  اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اہل جہنم کے درمیان بھی امیدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ''عزیز گم کردہ ''کی طرح تیری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بھی ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس،صادقین کے دلوں کا محبوب اور عالمین کا معبود ہے''
قضیہ کی یہ پہلی وجہ ہے اور دوسری وجہ بھی پہلی وجہ کی طرح واضح وروشن ہے یعنی خداوند عالم کا اپنے بندہ سے رابطہ ۔
پہلی وجہ کا خلا صہ یہ ہے کہ بندہ جب مضطر ہو تا ہے تو خدا سے ہی لو لگا تا ہے اس کی رحمت اور اس کی امن کی تلاش میں رہتا ہے ۔
بندہ سے خداوند عالم کے محبت کرنے کا دو سرا رخ اس وقت نظر آتا ہے جب وہ تیز بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور اُس (خدا ) کی رحمت کا طلبگار ہو تا ہے خدا وند عالم سے خود اسی خدا کی طرف فرار کرتا ہے خداوند عالم کی رحمت اور فضل کو اس حال میں طلب کرتا ہے کہ وہ خداوند عالم کی عقوبت اور انتقام کے سامنے ہوتا ہے ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ارحم الراحمین ہو نے کے باوجود بندہ کی فریاد سنتا ہو اور اس(بندہ )کو اس کی عقل کی کمی اور جہالت کی وجہ سے اس کا ٹھکانا جہنم بنا دے جبکہ وہ اس سے فریا د کرتا ہے ،اس کا نام لیکر چیختا ہے ،اپنی زبان سے اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے ،اس سے جہنم سے نجات کا سوال کرتا ہے ،اور اسی کی بارگاہ میں گڑگڑاتا ہے ۔۔۔اور وہ اس کو جہنم کے عذاب میں ڈال دے اور اس کے شعلے اس کو جلا دیں ،اس کو جہنم کی آواز پریشان کرے ،اس کے طبقوں میں لوٹتارہے، اس کے شعلے اس کو پریشان کریں جبکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ یہ بندہ اس سے محبت کرتا ہے یہ سچ بول رہاہے اس کی توحید کا اقرار کر رہا ہے اس سے پناہ مانگ رہا ہے اور اسی کا مضطر ہے ۔
پس تم غور سے سنو :
اَفَتُرَاکَ سُبْحَانَکَ یَااِلٰھِْ وَبِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فِیْھَاصَوْتَ عَبْدٍمُسْلِمٍ سُجِنَ فِیْھَابِمُخَالَفَتِہِ وَذَاقَ طَعْمَ عَذَاِبھاَبِمَعْصِیَتِہِ وَحُبِسَ بَیْنَ اَطْبَاقِھَابِجُرْمِہِ وَجَرِیْرَتِہِ وَھُوَیَضِجُّ اِلَیْکَ ضجٍیجَ  مُُؤمِّلٍ ِلرَحْمَتِکَ وَیْنٰادیکَ بِلِسٰانِ أَھْلِ تَوْحیدِکَ وَیَتَوَسَّلُ ُاِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ ٰیامَوْلٰایَ فَکَیْفَ یَبْقٰی فِی اْلعَذٰابِ وَھُوَیَرْجوُ مٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ اَمْ کَیْفَ تُؤلِمُہُ النّٰارُ وَھُوَیَاْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ َامْ کَیْفَ  یُحْرِقُہُ ُلَھیبُھٰاوَاَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہ ُوَتَریٰ مَکٰانَہُ اَمْ کَیْفَ یَشْتَمِل ُعَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ ُاَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اَطْبٰاٰقِھٰاوَاَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ اَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ َزبٰانِیَتُھٰاوَھُوَیُنٰادیکَ یاٰرَبَّہُ اَمْ کَیْفَ یَرْجُو فَضْلَکَ فی عِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰاھَیْھٰاتَ مٰاذٰالِکَ الظَّنُّ بِکَ وَلَاالْمَعْروُفُ مِنْ فَضْلِکَ وَلٰامُشْبِہ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاِحْسٰانِکَ )
''اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندۂ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم میں گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحید کی طرح پکارنے والا ،ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہیں سنتا ہے۔
خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رہے گا اور تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا،جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکھ رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رہا ہوگا،وہ جہنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ،جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جھڑکیں گے جبکہ وہ تجھے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوگا ،ہر گز تیرے بارے میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نہیں ہے ،تونے جس طرح اہل توحید کے ساتھ نیک برتاؤ کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے''

Post a Comment

[blogger][facebook][disqus]

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget