استجابت دعا (دعا کا قبول ہونا)

تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی   
دعا توفیق اور استجا بت کے حصار میں
دعا دو طرف سے اﷲ کی رحمت سے گھری ہوئی ہو تی ہے :اﷲ کی طرف سے توفیق اور دعا کی قبولیت ۔بندے کی دعا اﷲ کی دی ہو ئی توفیق کے علا وہ قبول نہیں ہو تی ہے اﷲ اپنے بندہ کو دعا کر نے کی تو فیق کارزق عطاکرتاہے چونکہ بندہ اس توفیق کے بغیر اﷲ کی بارگاہ میں دعاپیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا لہٰذادعا سے پہلے اس توفیق کا ہو نا ضروری ہے اور جب بندہ خدا سے دعا کر تا ہے تو اﷲ اس کی دعا قبول کرتا ہے :
(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )
''مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا ''
تو پہلے اﷲ سے دعا کرنے کی توفیق لازم ہوتی ہے اورپھر دعا بارگاہ معبودمیں قبول ہو تی ہے۔یہ دونوں چیزیںدعاکا احا طہ کئے ہو ئے ہیں ،یہ دونوں اﷲ کی رحمت کے دروازے ہیں جو بندے کیلئے اس کے دعا کرنے سے پہلے اور دعا کرنے کے بعد کھلے رہتے ہیں ۔حضرت رسول خدا ۖ سے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مو من آیت ٦٠۔
(مَنْ فُتح لہ منکم باب الدعاء فتحت لہ أبواب الرحمة)(١)
''تم میں سے جس شخص کیلئے دعا کا دروازہ کھل جا ئے اس کیلئے ابواب رحمت کھل جا تے ہیں ''
حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے مروی ہے :
(فذکروک بمنّک وشکروک )
جب بندہ اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے تو یہ اﷲ کی عصمت اور اس کے فضل کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے وہ (خدا )بندہ کے شکر کا مستحق ہے اور امام زین العا بدین علیہ السلام ہی منا جات خمس عشرہ میں فر ما تے ہیں :
(فَاِنَّابِکَ وَلَکَ وَلَاوَسِیْلَةَ لَنَااِلَیْکَ اِلَّااَنْتَ )
''ہم تیری وجہ سے ہیں اور تیرے لئے ہیں اور ہما رے پاس تیرے علاوہ تیرے پاس آنے کا کو ئی ذریعہ نہیں ہے ''
بندہ اپنے پروردگار کو اس کے احسان و فضل کی بناپر ہی یاد کرتا ہے (پہلے خدا وند عالم کا فضل و کرم ہو تا ہے پھر بندہ خدا کو یا د کرتا ہے)،بندے کیلئے اﷲ تک پہنچنے کیلئے اس کے فضل اور رحمت کا ہی وسیلہ ہے ،جب بندہ اپنے پروردگار کو یاد کر تا ہے تو اس کے فضل سے ہی یاد کرتا ہے ،جب دعا کرتا ہے تو یہ اس کی دی ہو ئی توفیق ہی سے دعا کرتا ہے اور جب اس کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اسی کی دی ہو ئی رحمت کی وجہ سے ہی اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام دعا ئے عر فہ میں فر ما تے ہیں:
(لَمْ یَمْنَعُکَ جَھْلِْ وَجُرْأَتِْ عَلَیْکَ اَنْ دَلَلْتَنِْ اِلیٰ مَایُقَرِّبُنِْ اِلَیْکَ وَوَفَّقْتَنِْ لِمَایُزْلِفُنِْ لَدَیْکَ)
''تو میری جہا لت اور میری جرأت نے تجھ کو میری رہنما ئی کرنے سے نہیں روکا ،اس چیز کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)در منثور کے نقل کے مطابق المیزان جلد ٢ صفحہ ٤٢۔
طرف جو مجھ کو تجھ سے قریب کر دے اور تو نے مجھ کو تو فیق دی اس امر کی جا نب کہ جو مجھ کو تجھ سے قرب عطا کرے ''
دعا کیلئے سب سے نازک چیز دعا کی توفیق ہو نا ہے ،بندہ کو خدا وند عالم سے یہ دعا کرنا     چا ہئے کہ خداوند عالم اس کو دعا کرنے کی توفیق عطا کرے ۔صحیفہ ٔ سجا دیہ کی دعا ؤ ں میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(وَاْعْمُرْلَیْلِْ بِاَیْقَاضِْ فِیْہِ لِعِبَادَتِکَ ،وَاِنْزَالِ حَوَائِجِْ بِکَ )(١)               ''اور میر ی راتوں کو عبا دت کیلئے شب بیداری اور تنہا ئی میں تہجد اور سب سے الگ ہو کر تجھ سے لو لگا نے اور اپنی حا جتوں کو تیرے سا منے پیش کر نے کیلئے آباد رکھنا ''
حضرت امام جعفر صا دق  ، اﷲ سے دعا کی توفیق طلب کرتے ہوئے عرض کر تے ہیں :
(فَاعِنِّْ عَلیٰ طَاعَتِکَ وَوَفَقّْنِْ لِمَااَوْجَبْتَ عَلََّ مِنْ کُلِّ مَایُرْضِیْکَ فَاِنِّْ لَمْ اَرَاَحَداًبَلَغَ شَیْئاًمِنْ طَا عَتِکَ اِلَّابِنِعْمَتِکَ عَلَیْہِ قَبْلَ طَاعَتِہِ،فَاَنْعَمْ عَلََّ بِنِعْمَةٍاَنَالَ بِھَارِضْوَانُکَ )(٢)
''پس اپنی اطاعت پر میری مدد کر اور مجھے اپنی ادائیگی کی توفیق دے اس طرح کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو تیری اطاعت تک پہونچاہو مگر اطاعت سے پہلے تیری ہی نعمت توفیق کے ذریعہ لہٰذا مجھ پر نعمت نازل کرجن کے ذریعہ میں تیری خو شنودی حاصل کرسکوں''
حضرت امام علی بن الحسین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(اَللَّھُمّ اجْعَلْنِ اَصُوْلَ بِکَ عِنْدَالضَّرُورَةِ وَاَسْأَلُکَ عِنْدَ الْحَاجَةِ وَاَتَضَرَّعُ اِلَیْکَ عِنْدَ الْمَسْکَنَةِ وَلَاتَفْتِنِّْ بِالْاِسْتِعَانَةِ بِغَیْرِکَ اِذَااضْطُرِرْتُ)(٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)صحیفۂ سجا دیہ دعا ٤٧۔  (٢)بحا ر الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٠۔
(٣)صحیفۂ سجادیہ دعا ٢٠۔
''پروردگار !مجھے ایسا بنا دے کہ ضرورت کے وقت تیرے ذریعہ حملہ کروں اور حا جتکے  مو قع پر تجھ سے سوال کروں ،مسکینی میں تیری بارگاہ میں گڑگڑائوں اور مجھے ایسی آزما ئش میں نہ ڈال دینا کہ مجبوری میں تیرے غیر سے مدد ما نگنے لگوں ''
قبولیت دعاکی دو جزائیں
بندہ کی دعا قبول ہونے کی اہمیت خداوند عالم کے یہاں دو جہتوںسے ہے ایک جہت سے نہیں ہے اوران میں سے ایک جہت دوسری جہت سے زیادہ عظیم ہے۔
کم اہمیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سوال کے ذریعہ اس مطلب کا اظہار کرے جس کے ذریعہ انسان اﷲسے صرف دنیا یاصرف آخرت یاان دونوں کو ایک ساتھ طلب کرتا ہے۔
بیش قیمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم بنفس نفیس بندہ کی دعا کا جواب دے تو اس کا مطلب خدا وند عالم کا اپنے بندہ کی دعا قبول کرنا ہی ہے کیونکہ جتنی مرتبہ بھی خداوند عالم قبول کرے گا اتنی ہی مرتبہ گویا بندہ کی طرف توجہ کرے گا ۔
دنیا کی ہر چیزکی قیمت اور حد ہوتی ہے لیکن خداوند قدوس کا اپنے بندہ کی طرف متوجہ ہونے کے لئے نہ کوئی حساب ہے اور نہ کو ئی حدہے۔
لیکن جب بندہ پر خدا کی خاص عنایت ہوتی ہے تو اس وقت بندہ کی سعادت کی کوئی حد نہیں ہوتی اور اس سعادت سے بلندکوئی اور سعادت نہیں ہوتی جس کو اﷲاپنے بندوں میں سے بعض بندوں سے مخصوص کردیتاہے اور اسکی دعا قبول کرکے یہ نشاندہی کراتا ہے کہ جس چیز کا بندہ نے خدا سے سوال کیا ہے وہ کتنی قیمتی اور اہم ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
''لقد دعوت اللّٰہ مرة فأستجاب،ونسیت الحاجة،لأنّ استجابتہ بقبالہ علیٰ عبدہ عند دعوتہ اعظم واجل مما یرید منہ العبد،ولوکانت الجنة ونعیمھاالأبد ولکن لایعقل ذلک الّاالعالمون،المحبون،العابدون،العارفون، صفوة اللّٰہ وخاصتہ'' (١)
''میں نے ایک مرتبہ خدا وند عالم سے دعا کی اور اس نے قبول کرلی تو میں اپنی حا جت ہی کو بھول گیا اس لئے کہ اس کا دعا کی قبولیت کے ذریعہ بندہ کی طرف توجہ کرنا بندہ کی حاجت کے مقابلہ میں بہت عظیم ہے چا ہے وہ صاحب حا جت اور اس کی ابدی نعمتوں سے متعلق ہی کیو ں نہ ہو لیکن اس بات کو صرف خداوند عالم کے علماء ،محبین ،عابدین ،عرفاء اور اس کے مخصوص بندے ہی سمجھ سکتے ہیں ''
پس دعا اور استجابت دونوں اﷲ اور بندہ کے مابین ایک تعلق ولگائو ہے یعنی سب سے افضل و اشرف تعلق ہے۔ اﷲاور اسکے بندوں کے درمیان اس سے افضل کونسا تعلق ولگائو ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کے حضور میں اپنی حاجت پیش کرے اﷲاس کو قبول کرے اور اس سے مخصوص قراردے۔
اس تعلق کی لذت اور نشوونما اور بندہ پر خداوند عالم کی توفیق وعنایات میں اسی وقت مزہ ہے جب انسان اپنی مناجات ،ذکر اور دعاکو خداسے مخصوص کردے۔
ہم(مولف)کہتے ہیںاﷲسے اس تعلق ولگائو کی لذت یہ بندہ پر اﷲکی عنایت ہے کہ بندہ اس طرح خداوند عالم کی یاد میںغرق ہوجاتاہے کہ انسان خداکی بارگاہ میں اپنی حا جتیں پیش کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے ۔
اور کون لذت اس لذت کے مقابل ہوسکتی ہے ؟اور کونسی دولت خداوند عالم کے حضور میں پیش ہونے،اس سے ملاقات ،مناجات اور اسکا تذکرہ کرنے اور اسکے جلال وجمال میں منہمک ہونے کے مانند ہوسکتی ہے اور دعاکرنے کیلئے اﷲکے سامنے کھڑے ہونا یہ خدا کے سامنے حاضر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)مصباح الشریعة صفحہ ١٤۔١٥؛بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ٣٢٣۔
ہونے اس سے ملاقات ،مناجات اور اسکو یاد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
ایک عارف کا کہناہے:اﷲکے حضور میں اﷲکے علاوہ کسی اورسے کوئی سوال کرنااﷲکے نزد یک بہت برا ہے اور خدا کے علاوہ اس کے جلال اور جمال میں منہمک ہوجاناہے۔
رسول خدا  ۖ سے مروی ہے کہ حدیث قدسی میں آیاہے:
''من شغلہ ذکر عن مسألت اعطیتہ افضل مااعطی السائلین ''(١)
جو شخص مجھ سے کوئی سوال کرے گاتومیںاس کوسوال سے زیادہ عطاکرونگا ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
''وانّ العبد لتکون لہ الحاجة الی اللّٰہ فیبدأبالثناء علی اللّٰہ والصلاة علی محمد وآلہ حتّی ینسیٰ حاجتہ فیقضیھامن غیران یسألہ ایاھا''(٢)
''اگر بندہ ،خداسے کوئی حاجت رکھتا  ہواور وہ خداوند عالم سے اپنی حاجت کی ابتداء اس کی حمدوثنا اور محمد وآل محمد پر صلوات بھیج کر کرے اور اسی دوران وہ اپنی حاجت بھول جائے تو اس سے پہلے کہ وہ خداوند عالم سے حاجت کا سوال کرے وہ اس کی حاجت پوری کردے گا ''
مناجات محبین میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے :
(۔۔۔اِجْعَلْنَامِمَّنْ ھَیَّمْتَ قَلْبَہُ لِاِرَادَتِکَ وَاجْتَبَیْتَہُ لِمُشَاھَدَتِکَ ،وَاَخْلَیْتَ وَجْھَہُ لَکَ وَفَرَّغْتَ فُؤَادَہُ لِحُبِّکَ وَرَغَّبْتَہُ فِیْمَاعِنْدَکَ ۔۔۔وَقَطَعْتَ عَنْہُ کُلَّ شَْئٍ یَقْطَعُہُ عَنْکَ )(٣)
''ہم کو ان میں سے قر ار دے کہ جن کے دلوں کو اپنی چاہت کے لئے گرویدہ کرلیا ہے اور    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد٩٣صفحہ٣٢٣۔
(٢)بحارالانوارجلد٩٣صفحہ٣١٢۔
(٣)مناجات محبین۔
اپنے مشاہدے کیلئے انھیںچن لیا ہے اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عنایت کی ہے اور اپنی محبت کے لئے ان کے دلوںکو خا لی کر لیا ہے اور اپنے ثواب کے لئے راغب بنا یا ہے ۔۔۔اور ہر اس چیز سے الگ کر دیا ہے جو بندہ کو تجھ سے الگ کرسکے ''
دعا اور استجابت دعا کا رابطہ
خداوند عالم ارشاد فرماتاہے:
(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ    سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(١)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
دعا قبول ہونے کے درمیان کیا رابطہ ہے؟
استجابت کیسے تمام ہوتی ہے؟
ہم اس فصل میں ان ہی دو سوالات سے متعلق بحث کریں گے۔
بیشک خداوند عالم کی طرف سے دعا استجابت کے الٰہی سنتوں اور قوانین کے ذریعہ انجام پاتی ہے جیسا کہ تمام افعال میں خدا کا یہی طریقہ رائج ہے۔
منفعل ہونا خداکی ذات میں نہیں ہے جیسا کہ ہم انسانوں کی فطرت ہے کہ کبھی ہم غصہ ہوتے ہیں ،کبھی خوشحال ہوتے ہیں،کبھی غصہ ہو تے ہیں ،کبھی خوش ہو تے ہیں ،کبھی چُست رہتے ہیں اور کبھی ملول و رنجیدہ رہتے ہیں ۔
اور خداوند عالم کے افعال ایک طرح کے قانون ا ور سنت ہیں ان میں خوشی یا غصہ کاکوئی دخل  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مومن آیت٦٠۔
نہیںہوتا تمام سنتیں اور قوانین الٰہیہ اپنی جگہ پر ثابت ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ خداوند عالم خوش ہوگا تو دعا قبول کرے گا اور ناراض ہوگاتو دعاقبول نہیں کرے گا ۔
یہ تمام الٰہی سنتیںافق غیب(مٹافیزیکی )میںاس طرح جاری ہوتی ہیںجس طرح فیزیکس، کیمیا،اور میکانیک میں بغیر کسی فرق کے جاری ہوتی ہیں۔
(لَنْ تَجِدَلِسُنَّةِاﷲِتَبْدِیْلاً)(١)
''تم خدا کی سنت میں ہر گز تبدیلی نہیں پا ؤ گے ''
(لَنْ تَجِدَلِسُنَّةِ اﷲِتَحْوِیْلاً)(٢)
''ہر گز خدا کے طریقۂ کار میں کو ئی تغیر نہیں ہو سکتا ہے ''
دعاقبول ہونے میں اﷲکی سنت کیا ہے؟
دعا ،رحمت کی کنجی ہے
دعا اور استجابت کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں نصوص اسلامیہ میں دعا اجابت کی کلید کے عنوان سے تعبیر کی گئی ہے اور یہی کلمہ دعااور استجابت کے درمیان رابطہ کی نوعیت کو معین ومشخص کرتاہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے :
(الدعاء مفتاح الرحمة)(٣)
''دعاکلید رحمت ہے''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ احزاب(٦٢)
(٢)سورئہ فاطرآیت٤٣۔
(٣)بحار جلد٩٣صفحہ٣٠٠)
اور امام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت فرمائی:
(ثم جعل فی یدک مفاتیح خزأئنہ بمااذن فیہ من مسألتہ فمتٰی شئت استفتحت بالدعاء ابواب خزائنہ)(١)
''تمہارے ہاتھوں میںاپنے خزانوں کی کلید قرار دی پس جب تم چاہو تو اس دعاکے ذریعہ خزانوں کے دروازے کھول سکتے ہو''
دعا اور استجابت کے درمیان رابطہ کی واضح و روشن تعبیر ''فمتی شئت استفتحت بالدعاء ابواب خزائنہ''ہے۔
پس معلوم ہواکہ جس کلید سے ہم اﷲ کی رحمت کے خزانوں کو کھول سکتے ہیں وہ دعا ہے۔
اور ا ﷲکی رحمت کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام لوگ اﷲکی رحمت کے خزانوں کے مالک بن جائیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام لوگ آسانی سے اﷲکی رحمت کے خزانوں کو حاصل کرسکیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے خداوند عالم کے قول:
(مَایَفْتَحِ اﷲُ لِلنَّا سِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَامُمْسِکَ لَھَا )(٢)
''اﷲ انسا نوں کیلئے جو رحمت کا دروازہ کھول دے اس کا کو ئی روکنے والا نہیں ہے ''کے بارے میںروایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ دعاہے۔(٣)
بیشک دعا وہ کلید ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم لوگو ں کیلئے اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الانوار جلد ٩٣صفحہ٢٩٩
(٢)سورئہ فا طر آیت ١۔
(٣)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٩ ۔
دیتا ہے اور اس کلید کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے ہاتھوں میں قرار دیا ہے۔
رسول اﷲ  ۖسے مروی ہے کہ:''من فتح لہ من الدعاء منکم فتحت لہ ابواب الاجابة ''(١)
''تم میں سے جس شخص کیلئے باب دعا کھل جائے تو اس کے لئے اجابت کے دروازے کھل جاتے ہیں ''
اﷲتبارک وتعالیٰ جو دعا کے ذریعہ بندے کے لئے دروازے کھول دیتا ہے وہ اس کے لئے ابواب اجابت بھی کھول دیتاہے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے:
''من قرع باب اللّٰہ سبحانہ فتح لہ ''(٢)
''جو اﷲکے دروازے کو کھٹکھٹاتاہے تو اﷲ اس کیلئے دروازہ کھول دیتا ہے''
اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
''اکثرمن الدعائ،فانہ مفتاح کل رحمة،ونجاح کل حاجة،ولاینال ماعند اللّٰہ الابالدعائ،ولیس باب یکثرقرعہ الایوشک انْ یُفتح لصاحبہ ''(٣)
''زیادہ دعا کرو اس لئے کہ دعا ہر رحمت کی کنجی ہے۔ہر حاجت کی کامیابی ہے اور اﷲکے پاس جو کچھ ہے اس کو دعا کے علاوہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور ایسا کوئی دروازہ نہیں جس کو بہت زیادہ کھٹکھٹایا جائے اور وہ کھٹکھٹانے والے کے لئے نہ کھلے''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کنزالعمال حدیث نمبر٣١٥٦۔
(٢)غررالحکم حدیث ٨٢٩٢۔
(٣)بحارالانوارجلد٩٣صفحہ٢٩٥،وسائل الشیعہ جلد٤صفحہ١٠٨٦حدیث٨٦١٦۔
اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مروی ہے:
''الدعاء مفاتیح النجاح،ومقالیدالفلاح،وخیرالدعاء ماصدرعن صدر نق وقلب تق'' (١)
''دعا کامیابی کی کلید اوررستگاری کے ہار ہیں اور سب سے اچھی دعاوہ ہوتی ہے جو پاک وصاف اورپرہیزگار دل سے کی جاتی ہے''
ر سو ل ١ﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مر و ی ہے کہ :
''الاادلّکم علی سلاح ینجیکم من اعدائکم،ویدرّارزاقکم ؟ قالوا:بلیٰ، قال:تدعون ربّکم باللیل والنھار،فانّ سلاح المؤمن الدعاء ''(٢)
''آگاہ ہو جاؤکیا میں تمہاری اس اسلحہ کی طرف را ہنمائی کروںجو تم کو تمہارے دشمنوں سے محفوظ رکھے اور تمہارا رزق چلتا رہے ؟توانھو ں نے کہا : ہا ں آپ نے فر ما یا :خدا وند عا لم کو رات دن پکارو اس لئے کہ دعا مو من کا اسلحہ ہے''
عمل اور دعا اﷲکی رحمت کی دو کنجیا ں
اﷲنے ہما رے ہا تھو ںمیں کنجیا ں قرار د ی ہیںجن کے ذر یعہ ہم اﷲکی رحمت کے      خز انو ںکے دروازے کھول سکتے ہیںاور ان کے ذر یعہ ہم اﷲکا رزق اور اس کا فضل طلب کر سکتے ہیں اور وہ دو نو ں کنجیا ں عمل اور دعا ہیں اور ان میں سے ایک دو سر ے سے بے نیا زنہیں ہو سکتی ۔
عمل، دعا سے بے نیا زنہیںہے یعنی انسان کیلئے عمل کے بغیر دعا پر اکتفا کر لینا کافی نہیں ہے
رسول اﷲ  ۖ نے جناب ابوذر سے وصیت کرتے ہو ئے فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد٤صفحہ١٠٩٤حدیث٨٦٥٧،اصول کافی جلد٢صفحہ٥١٧۔
(٢)وسا ئل الشیعہ جلد٤ صفحۂ ١٠٩٥،حدیث ٨٦٥٨۔
''یاأباذرمَثَلُ الذ یدعوبغیرعمل کمثل الذ یرم بغیروتر '' (١)
''اے ابوذر بغیر عمل کے دعا کرنے والا اسی طرح ہے جس طرح ایک انسان بغیر کمان کے تیر پھینکے ''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
''ثلاثة ترود علیھم دعوتھم:رجل جلس فی بیتہ وقال:یاربِّ ارزقن، فیُقال لہ:ألم اجعل لک السبیل الیٰ طلب الرزق ؟۔۔۔''(٢)
''تین آدمیوں کی دعائیں واپس پلٹادی جاتی ہیں : ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے گھر میںبیٹھا رہے اور یہ کہے : اے پرور دگارمجھے رزق عطا کر تو اس کو جواب دیا جاتاہے : کیا میں نے تمہارے لئے طلب رزق کا را ستہ مقررنہیں کیا ؟۔۔۔''
اور انسان کیلئے دعا کے بغیر عمل پر اکتفا کر لینا بھی صحیح نہیں ہے ۔
رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
''نّ ﷲعباداًیعملون فیعطیھم،وآخرین یسألونہ صادقین فیعطیھم،ثم یجمعھم فی الجنة۔فیقول الذین عملوا:ربّنا،عملنافأعطیتنا،فبمااعطیت ھؤلائ؟ فیقول:ھؤلاء عباد،أعطیتکم اجورکم ولم ألتکم من أعمالکم شیئاً،وسألن ھؤلاء فأعطیتھم واغنیتھم،وھوفضل اُوتیہ مَنْ أشائ''(٣)
''بیشک اﷲ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو عمل کرتے ہیں اور خدا انکو عطا کرتا ہے اوردوسرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) وسا ئل شیعہ ابواب دعا باب ٣٢ حدیث ٣ ۔
(٢)وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٥٠ح٣ ۔
(٣) وسائل الشیعہ جلد ٤ صفحہ ١٠٨٤حدیث ٨٦٠٩۔
بندے ہیں جو صدق دل سے سوال کر تے ہیں اور خدا وند عالم ان کو بھی عطا کر تاہے پھرجب ان کوجنت میں جمع کیا جا ئیگا تو عمل کرنے والے بندے کہیں گے : اے ہمارے پالنے والے ہم نے عمل کیا تو تو نے ہم کو عطا کیا لیکن ان کو کیوں عطا کیا گیا جواب ملے گا یہ میرے بندے ہیں میں نے تم کو تمہارا اجر دیا ہے اور تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کیا ہے اور ان لوگوں نے مجھ سے سوال کیا میں نے ان کو دیا اور ان کو بے نیاز کردیا اور یہ میرا فضل ہے میں جس کو چا ہتا ہوں عطا کرتا ہوں ''
اگر انسان عمل کرنے سے عاجز ہو تو اﷲ نے اس کی تلافی کیلئے دعا قرار دی تا کہ انسان اپنے نفس پر اعتماد کرے ،جو کچھ حول و قوۂ الٰہی کے ذریعہ عطا کیا گیا ہے اورجو کچھ اس نے عمل کے ذریعہ قائم کیا ہے اس کے فریب میں نہ آئے ۔
معلو م ہو ا کہ عمل اور دعا دو نوں سب سے عظیم دو کنجیاں ہیں جن دو نوں کے ذریعہ انسان پر اﷲ کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں ۔
ا ب ہم عمل اور اس کے رحمت سے رابطہ کے مابین اور اس کے با لمقا بل دعا اور ا ﷲ کی رحمت کے خزا نوں کے ما بین رابطہ اور عمل سے دعا کے رابطہ کے بارے میں بحث کریں گے چونکہ یہ روابط ہی اسلام کے ابتدائی اور اصلی مسائل ہیں۔
اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کو ''عمل اور دعا''دونوں چیزیں ایک ساتھ عطا کی ہیں۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کو وہی سب کچھ عطا کیا''جو ان کے پاس ہے''۔''وہ سب کچھ نہیں جو ان کے پاس نہیںہے''اور ان کے پاس ان کی کوششیں اور ان کے اعمال ہیں۔وہ اپنی کوشش سے جو کچھ اﷲکے سامنے پیش کرتے ہیں اور اپنے نفوس اور اموال سے خرچ کرتے ہیں وہ عمل ہے ،اور جو کچھ ان کے پاس نہیں ہے وہ ان کا فقر،اور اﷲ کا محتاج ہونا ہے اور اﷲ کے سامنے اپنے فقیر اور محتاج ہونے کا اقرار کرنا ہے۔
انسانی حیات میں یہ دونوں اﷲ کی رحمت کو نازل کرنے کی کنجیاں ہیں،جسے وہ اپنی کوشش عمل،نفس اور مال کے ذریعہ اﷲ سے حاصل کرتا ہے اور اﷲکے حضور میں اپنی حاجت ،فقر اور مجبور ی کو دکھلاتاہے۔
دعااور عمل کے درمیان رابطہ
ہمارا دعا کو اﷲکی سنتوں سے جدا سمجھنا صحیح نہیں ہے بیشک اﷲنے کائنات میں اپنے بندوں کے لئے ان کی حاجتوں کی خاطرسنتوں کو قرار دیا ہے۔اور لوگوں کا اپنی تمام حاجتوں اور متعلقات میں ان سنتوں کو مہمل شمار کرناحرمت نہیں ہے۔
دعا ان سنتوںکا بدل قرار نہیں دی جاسکتی یہ الٰہی سنتیں انسان کو دعاسے بے نیاز نہیں کرتی ہیں(یعنی ان سنتوں کو دعائوں کا بدل قرار نہیں دیا جاسکتاہے۔)
یہ نکتہ اسلامی ربانی ثقافت میں ایک بہت لطیف نکتہ ہے،لہٰذا فلّاح( کا شتکار ) کیلئے زمین کھودنااس میںپانی دینا،زمین کی فصل میں رکاوٹ بننے والی اضافی چیزوں کو دور کرنا، زراعت کی حفاظت کرنا اور مزرعہ سے نقصان دہ چیزوں کو دور کرنے کیلئے دعا کردینا ہی کا فی نہیں ہے ۔
بیشک ایسی دعا قبول نہیں ہو تی ہے اور ایسی دعائیں امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس قول کا مصداق ہیں :
(الداع بلاعمل کالرام بلاوتر)
'' عمل کے بغیر دعا کرنے والابغیر کمان کے تیر پھینکنے والے کے ما نند ہے ۔
جس طرح بیمار اگر حکیم اور دوا کو بیکار سمجھنے لگے تو اس کی دعا قبول نہیں ہو تی ہے اور یہ دعا قبول ہی کیسے ہو جس میں انسان اﷲ کی سنتوں سے منھ مو ڑلے ۔لہٰذا الٰہی سنتوں کے بغیر دعا قبول نہیں ہو سکتی ہے ۔بیشک اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرنے والا فطری طور پر ان سنتوں کا خالق ہے وہ وہی خدا ہے جس نے اپنے بندوں کو ان سنتوں کو جا ری کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ تم اپنا رزق اور اپنی حا جتیں ان سنتوں کے ذریعہ حاصل کرو اور خدا وند عالم فر ماتا ہے :
(ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلاًفَامْشُوْافِیْ مَنَاکِبِھَا وَکُلُوْامِنْ رِزْقِہِ ۔۔۔)(١)
''اسی نے تمہا رے لئے زمین کو نرم بنا دیا ہے کہ اس کے اطراف میں چلو اور رزق خدا تلاش کرو ۔۔۔''
اور خدا وند عالم کا یہ فرمان ہے :
(فَانْتَشِرُوْافِیْ الْاَرْضِ وَابْتَغُوْامِنْ فَضْلِ اﷲِ)(٢)
''پس زمین میں منتشر ہو جا ئو اور فضل خدا کو تلاش کرو ''
جس طرح دعا عمل کا قائم مقام نہیں ہو سکتی اسی طرح عمل دعا کا قائم مقام نہیں ہو سکتا بیشک اس کا ئنات کی کنجی اﷲ کے پاس ہے ،دعا کے ذریعہ اﷲ اپنے بندوں کووہ رزق عطا کرتا ہے جس کو وہ عمل کے ذریعہ حا صل نہیں کر سکتے اور دعا کے ذریعہ فطری اسباب سے اپنے بندوں کووہ کا میابی عطا کرتا ہے جس پر وہ عمل کے ذریعہ قادر نہیں ہو سکتے ہیں ۔
انسان کیلئے رزق کی خاطر فطری اسباب کے مہیا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان فطری اسباب کے ذریعہ اﷲ سے دعا ،سوال اور ما نگنے سے بے نیاز ہو جا ئے ۔
بیشک اﷲ تبارک و تعالیٰ باسط ،قابض،معطی ،نافع ،ضار،محیی و مہلک،معزّ و مذل،رافع اور واضع(یعنی بلندی اور پستی عطا کرنے والا )ہے ،دنیائے ہستی کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں کو ئی چیزاس کے امر میں مانع نہیں ہو سکتی ،اس دنیا کی کو ئی بھی چیز اس کے امر و سلطنت سے با ہر نہیں ہو سکتی اس دنیائے ہستی کی ہر طاقت و قوت ،سلطنت ،نفع پہنچانے والی اورنقصان دہ چیز اس کے امر، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ ملک آیت٥ا۔
(٢)سورئہ جمعہ آیت٩۔
حکم اور سلطنت کے تابع ہے اور خدا کی سلطنت و ارادہ کے علا وہ اس دنیا میں کسی چیز کا وجود مستقل نہیں ہے یہا ں تک کہ انسان بھی اﷲ سے دعا ،طلب اور سوال کے ذریعہ معا ملہ کر نے سے بے نیاز نہیں ہے
ہم اﷲ کی تسبیح کرتے ہیں اور یہودیوں کے اس قول :
(ید اﷲ مغلولة)(١)
''خدا کے ہاتھ بندھے ہو ئے ہیں ''سے اس کو منزہ قرار دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو قرآن کہتا ہے :
(بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ)(٢)
''بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہو ئے ہیں ''
ہم اپنے تمام معا ملات خدا سے وابستہ قراردیتے ہیں ہم خدا کے ساتھ معاملہ کر نے اور جن سنتوں کو اﷲنے بندوں کے لئے رزق کا وسیلہ قرار دیا ہے ان کے مابین جدائی کے قائل نہیں ہیں اور ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ یہ تمام طاقتیں اور روشیں خداوند عالم کے ارادہ مشیت اور سلطنت کے طول میں ہم کو فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیںیہ خداوند عالم کے ارادہ اور سلطان کے عرض میں نہیں ہیں اور نہ ارادہ و سلطان سے جدا ہیں ۔
ہم اپنے چھوٹے بڑے تمام امور میں اﷲکی رحمت،فضل اور حکمت سے یہی لولگاتے ہیں اور ہم اپنی زندگی میں اﷲکے ارادے اسکی توفیق اوراسکے فضل سے ہی لولگاتے ہیں ہم اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں اﷲکے محتاج ہیں اور پوری زندگی میں اسکے فضل و رحمت ،حمایت،توفیق اور ہدایت کے محتاج ہیں اور ہم دعاکرتے ہیں کہ وہ ہمارے امور کااستحکام ان کی ،تائید،ہدایت،توفیق کا سرپرست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ ما ئدہ آیت ٦٤۔
(٢)سورئہ ما ئدہ آیت٦٣۔
ہے۔ہم خدا وند عالم کی ذات کریمہ سے اس بات کی پناہ چا ہتے ہیں کہ وہ ایک لمحہ کیلئے بھی ہم کو ہمارے حال پر چھوڑدے خداسے ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ خود ہی ہماری حاجتیں پوری کرے اور ہم کو کسی غیر کا محتاج نہ بنائے ۔
اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی حاجتوں کو لوگوں سے مخفی رکھے جبکہ اس کا ئنات میں فطری اسباب مو جود ہیں بشرطیکہ انسان خداوند عالم سے دعا کرے بلکہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم سے یہ دعا کرے کہ خداوند عالم غیر سے اس کی حاجت کو، اپنی حاجت کے طول میں قرار دے ۔غیر پر اس کے اعتماد کو اپنے اعتماد کے طول میں قرار دے غیر سے معاملہ کرنے کو خود سے معاملہ کرنے کے طول میں قرار نہ دے اور نہ جدا قرار دے چنا نچہ یہ کائنات تمام کی تمام ایسے اسباب پر مشتمل ہے جو خداوند عالم کے تابع ہیں اور خداوند عالم نے ان کو مخلوق کا تابع قرار دیا ہے ۔
ان اسباب کے ساتھ معاملہ کرنا ان کو اخذ کرنا ،ان پر اعتماد کرنا خداوند عالم کے ساتھ معاملہ کرنے ،خدا سے اخذ کرنے ،خدا پر اعتماد کرنے کے طول میں ہے نیز اس توحید کا جزء ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے وہ نہ خدا کے ساتھ ہے اور نہ خدا وند عالم سے جدا ہے ۔
اس روش کی بنا ء پر ہم کہتے ہیں کہ انسان کا فریضہ ہے کہ ہر چیز میں خداوند عالم کو پکارے ،ہر چیز کو خدا وند عالم سے طلب کرے چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ،روٹی(کھانا) ،آٹے کے نمک اور جانوروں کی گھاس سے لیکر جنگ کے میدانوں میں دشمنوں پر کا میابی تک ہر چیز خداوند عالم سے مانگے۔اپنی حاجتوں اور دعائوں میں سے کسی چیز میں غیر خدا کا سہارا نہ لے اور اس بات سے خدا وند عالم کی پناہ مانگے کہ وہ اس کو کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں اس کے حال پر چھوڑدے ۔
فعلی طور پر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم اس عام فضاء میں ہر چیز کے سلسلہ میں اﷲسے لولگائیں، ہر چیز اﷲسے طلب کریں ۔۔۔ یہ بات اس چیز سے کوئی منافات نہیں رکھتی کہ انسان جس کو اﷲنے پیدا کیا اور اس دنیامیں کچھ چیزیں اسکے لئے مسخر کردی ہیں اور وہ اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ مریض ہونے کی حالت میں اﷲسے شفامانگتا ہے پھر ان اسباب شفاء اور علاج کوعلم طب اور دوا میں ڈھونڈھتا جواس نے اِن میں قرار دئے ہیں۔
بلکہ ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر انسان تمام چیزوں کو چھوڑکر اور اس دنیا میں اﷲکی سنتوں کو بروئے کار نہ لاکر اﷲسے دعا کرتا ہے تو اسکی دعا قبول نہیںہوتی اور وہ اس تیر چلانے والے کے مانند ہے جو بغیر کمان کے تیر پھینکتاہے۔
یہ دقیق ، پاک و صاف اسلامی ثقافت ہم کو اﷲ سے رابطہ رکھنے اور اس کا ئنات میں اﷲ کی سنتوں کے ساتھ ہما ہنگی رکھنے کی دعوت دیتی ہے ۔
ہم اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام سے وارد ہونے والی دعائیں اﷲسے طلب کرنے کا ذخیرہ ہیں اور بندہ خدا کے علاوہ کسی اور سے کوئی حاجت نہ رکھے،اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے،اپنی رسی کواﷲکی ریسمان سے ملا دے اور ہر اس چیز سے منقطع ہو جا ئے جو اس کو خداسے منقطع کردیتی ہے۔
امام زین العا بدین علیہ السلام دعامیں فر ما تے ہیں:
(وَ لَاتَکِلْنِیْ اِلیٰ خَلْقِکَ بَلْ تَفَرَّدْ بِحَاجَتِْ،وَتَوَلَّ کِفَایَتِْ،وَانْظُرْ اِلَّّ، وَانْظُرْ لِْ فِیْ جَمِیْعِ اُمُوْرِْ)(١)
''اور مجھے اپنی مخلوقات کے حوالہ نہ کر دینا تو تن تنہا میری حاجت روا کرنا ،اور میرے لئے  کا فی ہو جانا ،اور میری طرف نگاہ رکھنا ،اور میرے تمام امور پر اپنی نظریں رکھنا ''
حضرت ا مام حسین علیہ السلام دعا ئے عر فہ میں فرماتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)صحیفہ کاملہ سجا دیہ دعا نمبر ٢٢۔
(اللَّھُمَّ مَااَخَافَ فَاکْفِنِْ وَمَااَحْذَرَفَقِنِْ،وَفِیْ نَفْسِْ وَدِیْنِْ فَاحْرِسْنِْ،وَفِیْ سَفَرِْ فَاحْفَظْنِْ،وَفِیْ اَھْلِْ وَمَالِْ فَاخْلُفْنِْ،وَفِیْمَارَزَقْتَنِیْ فَبَارِکَ لِْ وَفِیْ نَفْسِْ فَذَلِّلْنِْ،وَفِْ اَعْیُنِ النَّاسِ فَعَظِّمْنِْ وَمِنْ شَرِّالْجِنِّ وَالْاِنْسِ فَسَلِّمْنِْ،وَبِذَنُوْبِْ فَلَاتَفْضَحْنِْ،وَبِسَرِیْرَتِْ فَلَا تُخْزِنِْ،وَبِعَمَلِْ فَلَاتَبْتِلْنِْ،وَنِعَمِکَ فَلَاتَسْلُبْنِْ وَاِلیٰ غَیْرِکَ فَلَا تَکِلْنِْ)(١)
'' خدایاجس چیزکامجھے خوف ہے اس کیلئے کفایت فرما اور جس چیز سے پرہیزکرتا ہوں اس سے بچا لے اور میرے نفس اور میرے دین میںمیری حراست فرما اور میرے سفر میں میری حفاظت فرما اور میرے اہل اور مال کی کمی پوری فرما اور جو رزق مجھ کو دیا ہے اس میں برکت عطافرما مجھے خود میرے نزدیک ذلیل بنادے اور مجھ کو لوگوں کی نگاہ میں صاحب عزت قرار دے اور جن وانس کے شر سے محفوظ رکھنا اورگنا ہوں کی وجہ سے مجھے رسوا نہ کرنا میرے اسرارکوبے نقاب نہ فرمانااور میرے اعمال میںمجھے مبتلا نہ کرنا اور جونعمتیں دیدی ہیںانھیںواپس نہ لینااور مجھ کو اپنے علاوہ کسی اور کے حوالہ نہ کرنا''
اب ہم دعا اور دعا قبول ہو نے کے درمیان رابطہ کو بیان کر تے ہیں ۔
دعا اوراستجا بت دعاکے درمیان را بطہ
حاجت اور فقر کی طرف متوجہ ہونا ایک رازہے جسکے ذریعہ ہم دعا اور استجابت دعا کے درمیان رابطہ کو کشف کر تے ہیں ،اور یہ سمجھتے ہیں کہ دعا رحمت کی کنجی کیسے ہے اور دعا سے اﷲ کی رحمت کیسے نا زل ہو تی ہے ۔
بیشک ہر دعا فقرکی طرف متوجہ ہو نے کے درجہ کومجسم کر دیتی ہے اوراﷲ کی طرف حاجت کے مرتبہ کومعین ومشخص کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)دعا عرفہ امام حسین علیہ السلام ۔
انسان جتنا زیادہ اﷲ کی بارگاہ میںاپنی حاجت پیش کرے گا اتنی ہی اس کی دعا قبولیت سے زیادہ قریب ہوگی اور اﷲ کی رحمت انسان سے بہت زیادہ قریب ہو جائیگی ۔ اﷲ اپنی رحمت کے نازل کرنے میں کو ئی بخل نہیں کرتا بلکہ اﷲ کی رحمت بندوں کی سرشت و طینت کے اعتبار سے مختلف طریقوں سے نازل ہو تی ہے ۔
یہ تعجب خیز بات ہے کہ حاجت اور فقر ،اور حاجت اور فقر کی طرف متو جہ ہو نا یہ انسان کا ظرف ہے جسکے ذریعہ وہ اﷲ کی رحمت کو حاصل کرتا ہے ۔
اور جتنا زیادہ انسان اپنے فقر کی طرف متو جہ اور اﷲ کی با رگاہ میں دادو فریاد کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کا ظرف اﷲ کی رحمت حاصل کر نے کیلئے وسیع ہو جا ئیگا ۔
اﷲ تعالیٰ انسان کو اس کی ضرورت کے مطا بق عطا کر تا ہے اور ہر انسان اپنے ظرف کے مطابق ہی اﷲ کی رحمت کو پاتا ہے اور جس کا ظرف زیادہ وسیع ہو گا اﷲ کی رحمت کا حصہ بھی اس کے لئے اتنا ہی زیادہ ہو گا اب ہم دعا کو مختصر تین کلموں میں بیان کر تے ہیں :
١۔فقر کی ضرورت ۔
٢۔فقر سے آگاہی ۔
٣۔حا جت طلب کرنا ،اس کو وسیع کر نا اور اﷲ کے حضور میں پیش کرنا ۔
تیسرا کلمہ دوسر ے کلمہ سے جدا ہے اور دوسرا کلمہ پہلے کلمہ سے جدا ہے ۔
بیشک ضرور ت اور ہے اور ضرورت سے با خبر ہو نا اورہے ۔ کبھی انسان ہر چیز کا اﷲسے اظہار نہیں کرتا۔
اور کبھی انسان ضرور ت سے متعلق اﷲ کا محتاج ہو تا ہے لیکن وہ اپنی ضرور ت کو اﷲ کی بار گا ہ میں پیش کرنا اچھا نہیں سمجھتا اور اﷲ سے ما نگنے ، سوال کر نے اور دعا کر نے کو اچھا نہیں سمجھتا ہے ۔
لیکن جب تک یہ تینوں کلمے ایک سا تھ جمع نہیں ہو ں گے اس وقت تک دعا متحقق نہیں    ہو سکتی ۔ یہاں پر ضرور ت، فلسفی اعتبار سے ہے صرف حادث ہو نے کے اعتبار سے ضرور ت نہیں ہے جیسے ایک عما رت کی تعمیر کے لئے انجینئر اور معما روں کی ضرور ت ہو تی ہے عمارت حادث اور باقی رہنے کی محتاج ہے جس طرح جب تک بجلی کا سوئچ آن رہیگااس وقت تک بلب روشن رہے گا اور جیسے ہی سوئچ آف ہو گا ویسے ہی بلب کی روشنی بھی ختم ہو جائیگی ۔
حدوث اور بقاء کے اعتبار سے انسان بھی اسی طرح اﷲ کا محتاج ہے،انسان کا وجود ،اسکا چلنا پھرنا اور اسکی زندگی سب اﷲسے مربوط ہیں ہر صورت میں ہر حال میں وہ اﷲکا محتاج ہے ۔
خداوند عالم فرماتاہے:
(یاأیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَائُ اِلیٰ اﷲِ وَاﷲُ ھُوَالْغَنُِّ الْحَمیْدُ)(١)
''انسانوں تم سب اﷲ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اﷲ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ہے ''
ضرورت اور فقر دونوں ہی سے انسان پر اسکے ظرف کے اعتبار سے رحمت نازل ہوتی ہے۔ خواہ انسان ان دونوں کو اﷲکے حضور میں پیش کرے یا پیش نہ کرے لیکن ضرورت و فقر کا اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنا اور اس سے کھل کر مانگنا اﷲکی رحمت کو جذب کرنے کیلئے زیادہ قوی ہے۔
اب ہم فقر اور فقر کے اﷲکی رحمت سے رابطہ، فقر سے آگاہی اور اسکو اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنے سے پہلے اور اس سے آگاہی اور اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنے کے بعد کے متعلق گفتگو کرتے ہیں:
حاجت سے باخبر ہونے سے پہلے اور اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنے سے پہلے حاجت :
اﷲکی بارگاہ میں حاجت پیش کرنا حاجت کی ضرورت کے مطابق رحمت نازل کرتا ہے یہاں تک کہ اگرچہ حاجت سے باخبر ہونے اور اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنے سے پہلے ہی کیوں نہ ہو  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فاطر آیت٥ا۔
اسکی مثال اس سوکھی زمین کے مانند ہے جو پانی کو جذب کرلیتی ہے اور چوس لیتی ہے۔
جس طرح اﷲسے غرور وتکبر کرنا اس سخت زمین کے مانند ہے جس پر پانی ڈالا جائے تو وہ اس کواپنے سے دور کردیتی ہے۔یعنی اپنے اندر جذب نہیں کرتی ہے۔اسی طرح اﷲکی عبادت اور دعا نہ کرنے والوں پر اﷲکی رحمت نازل نہیں ہوتی اور ان کو کچھ نہیں ملتا ہے۔
بیشک فقر اور رحمت کے درمیان تکوینی تعلق ہے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے،اﷲسے فقر انسان کو اسکی رحمت سے قریب کرتا ہے اور اﷲکی رحمت ضرور ت اور فقر کے مقامات کو تلاش کرتی ہے جس طرح بچہ کی کمزوری اور اسکی ضرورت کے درمیان مہربان ماں اور اسکی عطوفت کا رابطہ ہے ان میں سے ہر ایک،ایک دوسرے کو چاہتا ہے بچہ کی کمزوری، مہربان ماں کو تلاش کرتی ہے اور مہربان ماں اور اسکی رحمت و عطوفت دونوں بچہ کی کمزوریوں کو تلاش کرتی ہیں۔
بلکہ ممکنات کے دائرہ حدود میں ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے بچہ کی کمزوری کی رعایت کرنے میں ماں کی ضرورت بچہ کو مہربان ماں کی ضرورت سے کم نہیں ہے۔
اسی طرح عالم تعلیم دینے کی خاطر جاہل کو ڈھونڈھتا ہے جس طرح جاہل کچھ سیکھنے کی خاطر عالم کی تلاش میں رہتا ہے۔عالم کی جاہل کو تعلیم دینے کی ضرورت جاہل کی عالم سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت سے کم نہیں ہے۔
حکیم مریضوں کا علاج کرناچاہتا ہے اور مریضوں کا علاج کرنے کی خاطر وہ اپنی ڈگری کا اعلان کرتا ہے جس طرح مریض حکیم کی تلاش میں رہتا ہے حکیم کو مریض کی ضرورت مریض کو حکیم کی ضرورت سے کم نہیں ہے۔
طاقتور،کمزور کی مدد کر نے کی تلاش میں رہتا ہے جس طرح کمزور اس تلاش میں رہتا ہے کہ طاقتور میری مدد کرے ،بیشک طاقتور کی کمزور کی مدد کر نے کی ضرورت ،کمزور کی طاقتور سے اپنی حمایت و مدد کی ضرورت سے کم نہیں ہے ۔
بیشک تمام چیزوں میں یہ اﷲکی سنت ہے۔
یہی حال اﷲکی رحمت اور بندوں کی ضرورت کا ہے جس طرح ضرورت و حاجت رحمت طلب کرتی ہے اسی طرح رحمت، فقر اورضرورت کی تلاش میں رہتی ہے اور خداوند سبحان حاجت و ضرورت سے منزہ ہے اور وہ محتاج نہیں ہے لیکن اﷲکی رحمت حاجت وضرورت کے مقامات کی تلاش میں رہتی ہے۔
بخل سے کام لینا اﷲکے شایان شان نہیں ہے اوراس کی رحمت کے مرتبوں میں اختلاف بندے کی ضرورت وحاجت کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔
زمین سے اگنے والے دانہ کو گرمی،روشنی،پانی اور ہواکی ضرورت ہے تو اﷲنے اسکے لئے حرارت ،نور،پانی اور ہوا کی مقدار معین فرمائی لیکن تکوین کی زبان میں اس حاجت و ضرورت کو طلب اور سوال کہا جاتا ہے۔
خداوند عالم فرماتا ہے:
(یَسْأَلُہُ مَنْ فِیْ السَّمٰواتِ وَالاَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأن)(١)
''آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے سب اسی سے سوال کر تے ہیں اور وہ ہر روز ایک نئی شان والا ہے ''
بیشک جب شیر خوار بچہ کو سخت پیاس لگتی ہے اور وہ بذات خود کسی چیز کے ذریعہ اسکا اظہار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو خداوندعالم نے اسکورونے اور چیخنے کی تعلیم دی اور اسکے ماں باپ کے دل کو اس کے لئے مہربان کردیا تاکہ وہ اس کی دیکھ بھال کریںاور اس کو سیراب کریں ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ رحمن آیت٢٩۔
شیر خوار بچہ کی بھوک و پیاس اﷲکی رحمت اور اسکی مہربانی کو بغیر کسی طلب و دعاکے نازل کرتی ہیں۔مریض جب اپنے دردوالم کا احساس کرتا ہے تو اسکے ذریعہ بھی اﷲکی رحمت نازل ہوتی ہے۔
جب ہم اﷲکی معصیت و نافرمانی کرتے ہیںاور گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو ہم اﷲسے اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی بخشش و مغفرت اپنے سوال اور دعا کے ذریعہ چاہتے ہیں اور کبھی کبھی بغیر سوال اور دعا کے بھی مغفرت حاصل ہو جاتی ہے،جب بندہ اپنے مو لا کی سر کشی نہ کرے ، قسی القلب نہ ہو اور رحمت خدا سے دور نہ کیا گیا ہوخداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
(قُلْ یَاعِبَادَِ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْاعَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْامِنْ رَّحْمَةِاللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعاًاِنَّہُ ھُوَالْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ)(١)
''پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندوجنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے ما یو س نہ ہونا اللہ تمام گنا ہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقیناً بہت زیادہ بخشنے والا اور مہر بان ہے ''
کتنے ایسے بھوکے فقیر ہیں جن کو خداوند عالم بغیر سوال اور دعا کے رزق عطا کرتا ہے۔
کتنے ایسے مجبور و ناچار ہیں جو سمندر کی لہروں میں آجاتے ہیں یا غرق ہونے والے ہوتے ہیں یا تلوارکی دھار کے نیچے آجاتے ہیں یا آگ کے اندر گھرجاتے ہیں اور بغیر سوال ودعا کے خدا ان کوبچالیتا ہے اور ان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔
کتنے ایسے پیاسے ہیں جواپنی جان دینے کے قریب ہو تے ہیں لیکن اﷲ کی رحمت بغیر کسی سوال و طلب کے ان کو موت سے نجات دیتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ زمرآیت ٥٣
کتنے ایسے انسان ہیں جن کو خطروں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ خطروں سے دو کمان کے فا صلہ پر تھے جبکہ ان کو کبھی معلوم تھا اور کبھی نہیں معلوم تھا اس وقت خداوند عالم کی پردہ پو شی نے آکر ان کو نجات دی ۔
کتنے ایسے انسان ہیں جن پرزندگی کے راستے بند ہو جاتے ہیں لیکن خداوند عالم ان کے لئے ہزار راستے کھول دیتا ہے اور یہ سب کچھ بغیر کسی سوال و دعا اور طلب کے ہوتا ہے۔
کتنے ایسے شیر خوار بچے ہیں جن کے شامل حال خداوند عالم کی رحمت ہوتی ہے جبکہ وہ اﷲسے نہ کوئی سوال کرتے ہیں اور نہ دعا کرتے ہیں ۔(١)
دعاء افتتاح میں وارد ہواہے:
(فکم یاالٰہ من کربة قدفرّجتھا،وھموم قدکشفتھا،وعثرة قداقلتھا، ورحمةقدنشرتھاوحلقةبلاء قدفککتھا)
''اے میرے خداتو نے کتنے ہی غمو ں کو دور کیا ہے کتنے ہی مصیبتوں کو ختم کیا ہے اور کتنی ہی لغزشوں کو معاف کر دیا ہے اور رحمت کو پھیلا دیا ہے اور بلائوں کی زنجیروں کو کھول دیا ہے ''
ایام رجب کی دعاؤںمیں وارد ہواہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ زلزلہ میں عما رتوں کے نیچے نہیں مرتے یا آگ لگنے کی صورت میں نہیں جلتے ، سمندروں کی گہرا ئیوں میں نہیں مرتے ،کو ئی انسان بیما ری اور درد سے نہیں مرتا ،کو ئی شیر خوار بچہ نہیں مرتا چنانچہ خدا وند عالم نے اپنی رحمت و حکمت کی وجہ سے اس کا ئنات کو بہراکر دیا ہے تو جب حکمت الٰہی انسان یاحیوان یا نباتات میں کسی اہم چیز کے وقوع کا تقاضا کر تی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم خداوند عالم کے فضل اور صفات حسنیٰ کے دو سرے رخ یعنی رحمت کا انکار کر دیں ۔کچھ لوگ ایسے ہو تے ہیں جو بلا اور پریشانی میں حکمت اور روش خدا کے تا بع ہو تے ہیں وہ آسانی اور مشکل نیز زند گی کے سخت لمحات میں رحمت الٰہی کا احساس نہیں کرتے، کچھ لوگ ایسے ہو تے ہیں جو اپنی زند گی کے سخت اضطراری لمحات میں خدا وند عالم کی رحمت واسعہ سے آشنا نہیں ہو تے ہیں۔
(یامن یعط مَن سألہ،یامَن یعط مَن لم یسألہ ومَن لم یعرفہ تحننا منہ ورحمة)
''اے وہ خدا جو اسے عطا کرتا ہے جو اس سے سوال کرتا ہے اے وہ جو اسے عطا کرتا ہے جو اس سے سوال نہ کرے اور جو اس کو نہ پہچانے اپنی رحمت و لطف سے مجھ کو عطا کر ''
اور مناجات رجبیہ میں آیا ہے:
(ولکن عفوک قبل عملنا)
''اور لیکن تیرا عفو ہمارے عمل سے پہلے سے ہے ''
بیشک اﷲکی بخشش کو ہمارے گناہوں کی ضرورت ہے۔
حاجت اور فقر کے ذریعہ اﷲکی رحمت نازل ہوتی ہے۔
ہم اس سلسلہ میں ایک مشہور و معروف رومی عارف کے اشعار میں سے ایک شعر کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں:
رومی عارف کا کہنا ہے:پانی نہ مانگو اور اتنی پیاس مانگو کہ تمہارے چاروں طرف پانی کے چشمے پھوٹ جائیں۔
اﷲکی رحمت اور اﷲکے بندوں کی حاجت و ضرورت کے مابین رابطہ کی طرف حضرت علی علیہ السلام کی مناجات میں اشارہ کیا گیا ہے:
مولی یامولا،انت المولیٰ واناالعبد،وھل یرحم العبدَ اِلّاالْمَوْلیٰ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاَ اَنْتَ الْمَالِکُ وَاَنَاالْمَمْلُوْکُ وَھَلْ یَرْحَمُ الْمَمْلُوْکَ اِلَّا الْمَالِکُ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ وَاَنَا الذَّلِیْلُ وَھَلْ یَرْحَمُ الذَّلِیْلَ اِلَّاالْعَزِیْزُ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاَ اَنْتَ الْخَالِقُ وَاَنَاالْمَخْلُوْقُ وَھَلْ یَرْحَمُ الْمَخْلُوْقُ اِلّا     الْخَالِقُ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاُ اَنْتَ الْقَوِیُّ وَاَنَاالضَّعِیْفُ وَھَلْ یَرْحَمُ الضَّعِیْفَ اِلَّاالْقَوُِ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاَ اَنْتَ الْغَنُِّ وَاَنَاالفَقِیْرُوَھَلْ یَرْحَمُ الْفَقِیْرَاِلَّاالْغَنِْ ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاَ اَنْتَ الْمُعْطِْ وَاَنَاالسَّا ئِلُ وَھَلْ یَرْحَمُ السَّائِلَ اِلَّاالْمُعْطِْ؟
مَوْلَاَ یَامَوْلَاَ اَنْتَ الْحَُّ وَاَنَاالْمَیِّتُ وَھَلْ یَرْحَمُ الْمَیِّتَ اِلَّاالْحَُّ؟
''اے میرے مو لا اے میرے مو لا تو مولا ہے اور میں بندہ ہوں اور بندے پر مو لا کے علاوہ اور کون رحم کرے گا ؟
اے میرے مو لا اے میرے مولا تو مالک ہے اور میں مملوک ہوں اور مملوک پر مالک کے سوا کون رحم کرے گا ؟
مو لا اے میرے مولا تو عزت و اقتدار والا ہے اور میں ذلت و رسوائی والا اور ذلیل پر عزت والے کے علاوہ اور کون رحم کرے گا ؟
اے میرے مو لا اے میرے مو لا تو خالق ہے اور میں مخلوق ہوں اور مخلوق پر خالق کے سوا کون رحم کرے گا ؟
اے میرے مو لا اے میرے مو لا تو عظیم ہے اور میں حقیر ہوں اور حقیر پر سوائے عظیم کے کون رحم کرے گا ؟
مو لا اے میرے مو لا تو طاقتور ہے اور میں کمزور ہوں اور کمزور پر طاقتور کے علا وہ اور کون رحم کرے گا ؟
مو لا اے میرے مو لا تو مالدار ہے اور میں محتاج ہوں اور محتاج پر ما لدار کے علاوہ اور کون رحم کرے گا ؟
مو لا اے میرے مو لا تو عطا کرنے والا ہے اور میں سائل ہوں اور سائل پر سوائے عطا کرنے والے کے اور کون رحم کرے گا ؟
میرے مو لا اے میرے مولا تو زندہ ہے اور میں مردہ ہوں اور مردہ پر سوائے زندہ کے اور کون رحم کرے گا ؟
ضرورت سے پہلے دعا کرنا
جس حاجت و فقر کی طرف انسان متوجہ ہو تا ہے اور اس کو اﷲ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے ، اس سے دعا کرتا ہے اور اس سے طلب کرتا ہے (وہ فقر کی طرف متوجہ ہو نے کے بعد دعا کرنا ہے )۔
ضرورت سے با خبرہونے اور طلب سے متصل ضرورت کے ذریعہ اﷲکی رحمت زیادہ نازل ہو تی ہے اس حاجت و ضرورت کی نسبت جو دعا سے متصل نہیں ہو تی ہے ۔
دونوں کے ذریعہ اﷲ کی رحمت نا زل ہو تی ہے لیکن حاجت جب طلب اور دعا سے متصل ہوتی ہے تو اﷲ کی رحمت کو زیادہ جذب کرتی ہے اور اﷲ کی رحمت غیر کی نسبت اس کو زیادہ جواب دیتی ہے۔
اور اسی حاجت کی طرف سورۂ نمل کی اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے :
(أمّنُ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ)(١)
''بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی آواز کو سنتا ہے جب وہ آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور   کر دیتا ہے ''
آیہ کریمہ میںدوباتوںپر زیادہ توجہ دی گئی ہے اضطرار اوردعا ( الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ) (٢)
اور ان دو نوںیعنی اضطرار اور دعامیں سے ہرایک رحمت کو جذب کرتا ہے جب اضطرار اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نمل آیت ٦٢۔
(٢)سورئہ نمل آیت ٦٢۔
دعا دو نوں جمع ہو جا ئیں تو رحمت کا نازل ہو نا ضروری ہے ۔
اسلام میں اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعا اور سوال کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور ا س کی رحمت کو حاصل کر نے کیلئے اس کی بار گا ہ میں اپنی حاجتوں کو پیش کر نے اور اس کے سا منے اپنی حاجت کی تشریح کر نے پربھی زور دیاگیا ہے ۔
اسلامی نصوص میں حاجت برآوری کو دعا سے مربوط قراردیا گیاہے:
(وَقَالَ رَبّکم اُدْعُوْنِْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (١)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرومیں قبول کرونگا''
اور قرآن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اﷲکے نزدیک اس کے بندے کی قدر و قیمت اس بندے کی دعا کے ذریعہ ہی ہے :
(قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّْ لَوْلادُعَاؤُکُمْ)(٢)
''پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہا ری دعا ئیں نہ ہو تیں تو پرور دگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا ''
قرآن کریم نے تو اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر کو ئی دعا سے منحرف ہو تا ہے تو وہ اﷲ کی   عبا دت کر نے سے اکڑنے والا قرار دیاجاتا ہے :
( اُدْعون اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ )
''مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقینا جو لوگ میری عبا دت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں دا خل ہو ں گے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مومن آیت ٦٠۔
(٢)سورئہ فرقان آیت ٧٧۔
(٣)سورئہ مومن آیت ٦٠۔
دعا اور استجابت کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں تین قوا نین
اب ہما را سوال یہ ہے کہ جب حا جت و ضر ورت دعا کے ساتھ ہو تی ہے تو رحمت کے نزو ل میںتیزی کیسے آ جا تی ہے اور دعا و ا ستجا بت کے در میان رابطہ کی شدت اور اس پر زیادہ زور دینے کی کیا وجہ ہے ؟ در حقیقت ہم نے اس فصل کا آغاز اسی سوال کا جواب دینے اور دعا وا ستجا بت کے درمیان رابطہ کی تحلیل کر نے کیلئے کیا ہے ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے : دعا کے ذریعہ اﷲ کی رحمت نا زل ہو نے کے تین قوانین ہیں:
١۔اللہ کی رحمت اور فقر و حاجت کے درمیان رابطہ ؛ ہم اس قانون کو پہلے وضاحت کے ساتھ بیان کرچکے ہیں لہٰذا اب اس کو دوبارہ نہیں دُہرائیں گے اور دعا کی ہر حالت، حاجت اور فقر میں اللہ کی رحمت کی متضمن ہوتی ہے اور یہ اللہ کی رحمتوں کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ۔
٢۔فقر اور حاجت میں اللہ کی رحمت سے آگاہ ہوجانے کے بعد رابطہ۔
آگاہ ہوجانے کے بعد ضرورت اور آگاہ ہو نے سے پہلے ضرورت کے مابین فرق ہے ۔
ان میں سے ہر ایک حا جت و ضرو رت ہے اور ہر ایک سے اللہ کی رحمت مجذوب ہو تی ہے اور نازل ہوتی ہے لیکن ان میں سے ایک با خبر ہو نے سے پہلے اور ایک فقر و حا جت سے با خبر ہو جا نے کے بعد ہے ۔
جس حاجت وضرورت سے انسان با خبر نہیں ہو تا اس میں وہ اﷲ کا محتاج ہو تا ہے اور وہ اپنی حا جتوںکو اﷲ کی بارگاہ میں پیش نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی تو وہ اﷲ کو پہچا نتا بھی نہیں۔
لیکن فقر وضرور ت سے آگا ہ انسا ن اپنی ضرور توںاور حا جتوں کو ا ﷲ با ر گا ہ میں پیش کر تا ہے اور یہ با خبر ہو نا ہی اس کے اﷲسے محتاجی کو تا ریکی سے نکا ل کر با خبر ہو نے تک پہنچادیتا ہے حا لا نکہ حا جت و ضرورت سے ناسمجھ و بے خبرانسان تا ریکی میںگھر جا تا ہے اور وہ اس کو سمجھ بھی نہیں پا تا ۔
لیکن وہ فقیر و محتاج جو اپنی حاجتو ں کو اﷲکی بار گاہ میں پیش کر تا ہے وہ اﷲ کی رحمت اور اس کا فضل چا ہتا ہے حا لا نکہ اپنی ضرو رتو ں سے نا آگاہ فقیر اپنی حا جتو ں کو اﷲ کی با ر گاہ میں پیش نہیںکر تاہے
گو یا حا جتو ں سے با خبر انسا ن حا جت وضرور ت کی حا لت سے صحیح معنوں میںدو چار ہو تا ہے اور ضرورت جتنی زیا دہ ہو گی اتنا ہی اﷲکی رحمت کو قبو ل کر نے کیلئے نفس وسیع ہو گا اور ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ اﷲکی رحمت کے خزانو ںمیں نہ بخل ہے اور نہ مجبوری ۔ہا ں اﷲکی رحمت کو قبو ل  کر نے کیلئے لو گو ں کے ظروف مختلف ہو تے ہیں ۔جس انسان کا ظرف بہت زیا دہ بڑا ہو گا اﷲکی رحمت میں اس کا حصہ اتنا ہی زیا دہ ہو گا اور ظر ف سے مراد یہا ں پر ضرورت ہے یعنی جس ضرور ت کی کو ئی اہمیت ہو اور انسان اپنی ضرورت کو اﷲ کی با ر گاہ میں پیش کر ے۔
ایک خطا کا ر مجرم کیلئے جب سو لی کا حکم صادر کیا جاتا ہے تو وہ اس سے با خبر ہو تا ہے ۔وہ عوام الناس اور حکا م کے دلو ں کواپنی طرف اس جرم سے زیا دہ معطوف کرتا ہے جو اپنے لئے سو لی کا حکم    نا فذکر انا چا ہتا ہے اور اس کو یہ بھی نہیں معلو م کہ اسے کہا ں جا ناہے ۔سولی کا حکم صا در ہو نے کے متعلق دونوں برابر کا علم رکھتے ہیں۔ہاں وہ مجرم جواپنے جرم کا معتر ف اور اپنی سزاسے واقف ہے وہ      دو سروں کے مقابلہ میں لوگوں سے زیادہ رحمت کا خو استگار ہوتا ہے کیونکہ ایسا شخص جرم اور سزا کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے جبکہ دو سرے افراد جرم اور سزا کی طرف اتنا متوجہ نہیں ہو تے ۔
بارگاہ خدامیںاحساس نیازمندی کی علامتیں
باخبر ضرورت کو دعائوں کے ذریعہ اﷲکی بارگاہ میںپیش کرنے کی چند نشانیاں اور علامتیں ہیں۔جتنا زیادہ انسان اپنی ضرورتوں کو اﷲکی بارگاہ میں پیش کرتا ہے اتنا ہی یہ نشانیاں اسکی دعائوں میں واضح ہوتی ہیں۔
ان نشانیوں میں سے اہم نشانیاں :دعامیں خشوع،خضوع،رونا گڑگڑانا ،اﷲکی بارگاہ میں حاضر ہونا اور اپنی مجبوری کا اظہار کرنا ہیں۔
اسلامی نصوص میں دعائوں میں ان تمام حالتوں اور نشانیوں پر زور دیا گیا ہے،اور دعا ء کی قبولیت میں ان باتوں پر زور دیا گیا ہے۔
حقیقت میں یہ علامتیں دعا میں دوسرے اور تیسرے سبب پر توجہ دینے کو  کشف کرتی ہیں۔وہ دونوں سبب ضرورتوں کی اطلاع ہونااور سوال کرنا ہے اور جتنا ہی انسان دعامیں خضوع وخشوع کرے گا اتنی ہی اسکی طلب وچاہت میں شدّت ہوگی اور انسان اپنی حاجتوں کو اﷲکی بارگاہ میں پیش کرے گا۔
ان حالتوںمیں دعا قبول ہونے کے یہی دواسباب ہیں ان حالات اور ان کی طرف رغبت کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے کچھ اسباب کو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں:
خداوند عالم کا ارشاد ہے:١:(تَدْعُوْنَہُ تَضَرُّعاً وَخُفْیَةً ) (١)
''جسے تم گڑگڑاکر اور خفیہ طریقہ سے آواز دیتے ہو ''
٢: ( وَادْعُوْہُ خَوْفاًوَطَمَعاًاِنَّ رَحْمَةَ اﷲِ قَرِیْبمِنَ الْمُحْسِنِیْنَ )(٢)
''اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور امید وار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صا حبان ِ حسن عمل سے قریب تر ہے ''
تضّر ع اورخوف یہ دو نوں حا لتیں انسان کو اﷲ کی بار گا ہ میں اپنی ضرور توں کو پیش کر نے کے بارے میں زور دیتی ہیں ۔
اور طمع وہ حا لت ہے جو انسان کو اس چیز کی ر غبت دلاتی ہے کہ جو کچھ اﷲ کے پاس ہے بندہ اس کو حاصل کرے ۔
خفیہ(رازدارانہ )طور پر دعا کرنا انسان کو اﷲ کی بارگاہ میں حا ضری دینے پر آمادہ کرتا ہے
٣۔(وَذَاالنُّوْنِ اِذْذَھَبَ مُغَاضِباًفَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَقْدِرَعَلَیْہِ فَنَادیٰ ٰفِیْ الظُّلُمَاتِ اَنْ لاَاِلٰہَ اِلاَّاَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْینَ فَاسْتَجَبْنَالَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنْجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ )(٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سو رۂ انعام آیت ٦٣ ۔      (٢)سورئہ اعراف آیت ٥٦۔
(٣)سور ۂ انبیاء آیت ٨٧۔٨٨۔
''اور یونس کو یاد کرو جب وہ غصہ میں آکر چلے اور یہ خیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تا ریکیوں میں جا کر آواز دی کہ پرور دگار تیرے علا وہ کو ئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا ۔تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور انھیں غم سے نجات دلا دی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلا تے رہتے ہیں ''
اس آیت میں بندہ کی طرف سے خداوند عالم کی بارگاہ میں ظلم کا اعتراف اور اقرار ہے :
(سُبْحَانَکَ  اِنِّْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْینَ ۔)(١)
''پرور دگار تیرے علا وہ کو ئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا''
ظلم کا اقرار کر نا ظلم سے با خبر ہو نا ہے اور اس سے گناہگارانسان اپنے نفس میں استغفار کا بہت زیادہ احساس کر تا ہے اور جتنا ہی انسان اپنے ظلم اور گناہ سے با خبر ہو گا اتنا ہی وہ اﷲ سے استغفار کر نے کے لئے زیادہ مضطر و بے چین ہو گا ۔
٤: (وَیَدْعُوْنَنَارَغَباًوَرَھْباًوَکَانُوْالَناَخَاشِعِیْنَ )(٢)
''اور رغبت اور خوف کے عالم میں ہم کو پکارنے والے تھے ''
رغبت ، خوف اور خشو ع وہ نفسانی حالات ہیں جو اپنی حا جتوں سے با خبر انسان کو اپنی      حا جتوں کو اﷲ کی بار گاہ میں پیش کر نے پر زور دیتی ہیں ۔ انسان اﷲ کے عذاب سے خوف کھاتاہے اور اﷲ کے رزق اور ثواب سے اس کو رغبت ہو تی ہے ۔
٥:(اَمَنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْئَ) (٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ انبیاء آیت ٨٧۔                 (٢)سورۂ انبیاء آیت ٩٠ ۔
(٣)سورئہ نمل آیت ٦٢۔
اضطرار وہ نفسا نی حالت ہے جو انسان کے اپنی حا جتیں اﷲ کی بارگاہ میں پیش کرنے پر زور دیتی ہے اور انسان کا اپنی ضرورتوں سے با خبر ہو نا اﷲ کے علاوہ دوسرے تمام وسیلوں سے دور کرتا ہے (یعنی صرف اﷲ ہی نجات دے سکتا ہے )۔
٦۔:(یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفاًوَطَمَعاً)(١)
''اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور طمع کی بنیاد پر پکارتے رہتے ہیں ''
اپنی حا جتوں سے با خبر انسان جتنا زیادہ اﷲ کی بارگاہ میں اپنی مجبوری و لا چا ری کا اظہار کرے گا خدا وند عالم اسی سوال اور حاجت کے مطابق اس کو عطا کر ے گا خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(وَادْعُوْہُ خَوْفاًوَطَمَعاًاِنّ رَحْمَة اللّٰہ قَرِیْب مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ)(٢)
''اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور امید وار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صا حبان ِ حسن عمل سے قریب تر ہے ''
اﷲ کی رحمت بندے سے اتنی ہی قریب ہو گی جتنا وہ اپنے نفس میں اﷲ کے عذاب سے خوف کھا ئے گا اور اﷲ کے احسان کی طمع کرے گا ۔
انسان کے نفس میں جتنا زیادہ خوف ہو گا اتنی ہی اس کے نفس میں تڑپ پیدا ہو گی، اﷲ کی  بار گاہ میں اس کی دعا استجابت سے زیادہ قریب ہو گی اور اﷲ کے رزق و ثواب کے لئے جتنی طمع انسان کے اندر ہوگی تو اتنی ہی زیادہ اﷲ کی بارگاہ میں اس کی دعا قبول ہو نے کے نزدیک ہو گی ۔
٣۔دعا اور استجابت دعا کے درمیان رابطہ اور یہ بالکل واضح وروشن قانون ہے جس کو انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ سجدہ آیت ١٦۔
(٢)سورئہ اعراف آیت ٥٥۔
بذات خود فطری طورپر سمجھ سکتا ہے اور آیہ کریمہ اسی چیز کو بیان کرتی ہے:
(اُدْعُوْنِْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ)(١)
بیشک ہر دعا قبول ہوتی ہے اور خداوند عالم اس فرمان کا یہی مطلب ہے :(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ)اور یہ فطری و واضح قانون ہے جس کو انسان کی فطرت تسلیم کرتی ہے اور یہ عام قانون ہے لیکن اگر کوئی دعا قبول ہونے کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوجائے تو دوسری بات ہے۔
دوطرح کی چیزیں دعا قبول ہونے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں:
١۔مسئول عنہ جس سے سوال کیا جائے اس کی طرف سے کچھ رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
٢۔سائل(سوال کرنے والے)کی طرف سے کچھ رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
مسئول (جس سے سوال کیا جائے )کی طرف سے آڑے آنے والی رکاوٹیںجیسے دعا قبول کرنے سے عاجز ہوجائے ،دعا قبول کرنے میں بخل کرنے لگے ۔
کبھی بذات خودسائل کی طرف سے رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں جیسے دعا قبول کرنا بندہ کے مفادمیں نہ ہو اور بندہ اس سے جاہل ہو اور اﷲاسکو جانتا ہے۔
پہلی قسم کی رکاوٹیں اﷲکی سلطنت کے شایان شان نہیں ہیں چونکہ خداوند عالم بادشاہ مطلق ہے وہ کسی چیز سے عاجز نہیں ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس سے فوت ہوتی ہے،نہ ہی کوئی چیز اسکی سلطنت و قدرت سے باہر ہوسکتی ہے،نہ ہی اسکے جودوکرم کی کوئی انتہا ہے ،نہ اسکے خزانہ میں کوئی کمی آتی ہے اور کثرت عطا اس کے جودوکرم سے ہی ہوتی ہے۔
پس معلوم ہواکہ دعا کے قبول ہونے میں پہلی قسم کی رکاوٹوں کے تصور کرنے کا امکان ہی نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مومن آیت ٦٠۔
لیکن سائل کی طرف سے دعا قبول نہ ہونے دینے والی رکاوٹوں کا امکان پایا جاتا ہے اورسب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم بہت سے بند وں کی دعا کو قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہے لیکن وہ ایسا اپنے عاجز ہوجانے یا نجیل ہوجانے کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے علم کی بناء پر یہ جانتا ہے کہ اس بندے کے لئے دعا کا دیر سے قبول کرنا بہتر ہے اور سب اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس صورت میں دعاکا قبول ہونا بندے کیلئے مضر ہے اور خدا بندے کی دعا قبول نہیں کرتا لیکن اس دعا کے بدلہ میں اسکو دنیا میںبہت زیادہ خیر عطا کردیتا ہے اور اسکے گناہوں کو بخش دیتاہے یا اسکے درجات بلند کردیتا ہے۔یا اسکو یہ سب چیزیںعطا کردیتا ہے۔
پہلے ہم پہلی قسم کے موانع سے متعلق بحث کریں گے،اسکے بعد دوسری قسم کے موانع کے سلسلہ میں بحث کریں اسکے بعد دعا اور اجابت کے درمیا ن رابطہ کے سلسلہ پر روشنی ڈالیں گے۔
پہلی قسم کے موانع دعا
پہلی قسم کے موانع (رکاوٹوں)کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جیسا کہ ہم اﷲکی سلطنت کے متعلق عرض کرچکے ہیں کہ خدا کی سلطنت مطلق ہے وہ کسی چیز سے عاجز نہیں ہوتا،کوئی چیز اس سے چھوٹ نہیں سکتی،اسکی سلطنت اور قدرت کی کوئی حد نہیں ہے،کائنات میں ہر چیز اسکی سلطنت اور قدرت کیلئے خاضع ہے اور جب وہ کہہ دیتا ہے تو کوئی چیز اسکے ارادے اور امر سے سرپیچی نہیں کرسکتی ہے:
(وَاِذَاقَضیٰ اَمْراً فَاِنَّمَایَقُوْلُ  لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ )(١)
''اور جب کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو صرف کن کہتا ہے اور وہ چیز ہو جا تی ہے ''
(اِنَّمَاقَوْلُنَالِشَْئٍ اِذَااَرَدْنَاہُ اَنْ نَقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ)(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ بقرہ آیت ١١٧۔
(٢)سورئہ نحل آیت٤٠۔
''ہم جس چیز کا ارادہ کرلیتے ہیں اس سے فقط اتنا کہتے ہیں کہ ہو جا اور وہ ہو جا تی ہے ''
(اِنَّمَااَمْرُہُ اِذَااَرَادَ شَیْئاًاَنْ یَقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ)(١)
''اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شئی کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہو جا اور وہ شئی ہو جا تی ہے ''
کائنات میں کوئی بھی چیز اسکی سلطنت اور قدرت سے باہر نہیں ہوسکتی ہے:
(وَالْاَرْضُ جَمِیْعاًقَبَضْتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّات بِیَمِیْنِہِ)(٢)
''جبکہ روز قیا مت تمام زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اسی کے ہاتھ میں لپٹے
ہو ئے ہو ں گے ''
(اِنَّ اﷲَعَلیٰ کُلِّ شَْ ئٍ قَدِیْر)(٣)
'' اور یقیناً اﷲ ہر شیٔ پر قدرت رکھنے والا ہے ''
خداوند عالم کا امر (حکم)کسی چیز پر موقوف نہیں ہے،نہ ہی کسی چیز پر متعلق ہے۔
(وَمَااَمْرُالسَّاعَةِ اِلَّاکَلَمْحِ الْبَصَرِاَوْھُوَاَقْرَبُ اِنَّ اﷲَعَلیٰ کُلِّ شَْئٍ قَدِیْر)(٤)
''اور قیا مت کا حکم تو صرف ایک پلک جھپکنے کے برابر یا اس سے بھی قریب تر ہے اور یقیناً اﷲ ہر شیٔ پر قدرت رکھنے والا ہے ''
یہ آیت خداوند عالم کی سلطنت و قدرت کے وسیع ہونے اور اسکے حکم اور امر کے نافذ ہونے کو بیان کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ یس آیت٨٢۔
(٢)سورئہ زمر آیت ٦٧۔
(٣)سورئہ آل عمران آیت١٦٥۔
(٤)سورئہ نحل آیت٧٧۔
بخل اسکی ساحت کبریائی کے شایان شان نہیں ہے خداوند عالم ایسا جواد و سخی ہے جسکی سخاوت اور کرم کی کوئی حد نہیں ہے۔
(رَبَّنَاوَسِعَتْ کُلَّ شْ ئٍ رَحْمَةً وَعِلْماً)(١)
''خدا یا تیری رحمت اور تیرا علم ہر شیٔ پر محیط ہے ''
(فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْرَحْمَةٍوَاسِعَةٍ)(٢)
''پھر اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا ئیں تو کہہ دیجئے کہ تمہارا پرور دگار بڑی وسیع رحمت والا ہے ''
خداوند عالم کی عطا وبخشش دائمی ہے منقطع ہونے والی نہیں ہے ۔
(کَلاَّ نُمِدُّ ھٰؤُ لاَئِ وَھٰؤُلَائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَائُ رَبِّکَ  مَحْظُوْراً)(٣)
''ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن کی سب کی مدد کرتے ہیں اور آپ کے پرور دگا ر کی عطا کسی پر بند نہیں ہے ''
(وَاَمَّاالَّذِیْنَ سُعِدُوْافَفِی الْجَنَّةِ۔۔۔عَطَائً غَیْرَمَجْذُوْذٍ)(٤)
''اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہو ں گے ۔۔۔یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہو نے والی نہیں ہے ''
جب خداوند عالم رحمت نازل کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی ہے:
(مَایَفْتَحِ اﷲُلِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَاْمُمْسِکَ لَھَاوَمَایُمْسِکْ فَلاَمُرْسِلَ لَہُ مِنْ بَعْدِہِ)(٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ غافر آیت٧۔                     (٢)سورئہ انعام آیت ١٤٧۔
(٣)سورئہ اسراء آیت ٢٠۔
(٤)سورئہ ہود آیت ١٠٨۔
(٥)سورئہ فاطرآیت٢۔
''اﷲ انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کھول دے اس کا کو ئی روکنے والا نہیں ہے اور جس کو روک دے اس کا کو ئی بھیجنے والا نہیں ہے ''
اﷲکی رحمت کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے:
(وَﷲِخَزَائِنُ السَّمٰاوَاتِ وَالْاَرْضِ)(١)
''حالانکہ آسمان و زمین کے تمام خزا نے اﷲ ہی کے لئے ہیں ''
(وَاِنْ مِنْ شَیْ ئٍ اِلاَّعِنْدَنَاخَزَائِنُہُ وَمَانُنَزِّلُہُ اِلاَّبِقَدَرٍمَعْلُوْمٍ )(٢)
''اور کو ئی شے ایسی نہیں ہے جس کے ہما رے پاس خزا نے نہ ہوں اور ہم ہر شے کو ایک معین مقدار میں میں ہی نا زل کرتے ہیں ''
خداوند عالم جو رزق اپنے بندوں کو عطا کردیتا ہے اس سے اﷲکی رحمت کے خزانے ختم نہیں ہوتے وہ اپنے جودوکرم سے زیاد ہ عطا نہیں کرتا۔
دعاافتتاح میں آیا ہے:
(اَلْحَمْدُﷲِالْفَاشِْ فِیْ الْخَلْقِ اَمْرُہُ وَحَمْدُہُ۔۔۔اَلْبَاسِطِ بِالْجُوْدِ یَدَہُ الَّذِْ لَا تَنْقُصُ خَزَائِنُہُ وَلَاتَزِیْدُہُ کَثْرَةُالْعَطَائِ اِلَّاجُوْداً وَکَرَماً)
''حمد اس خدا کے لئے ہے جس کا امر اور حمد مخلوق میں نا فذ ہے ۔۔۔اور جس کا ہاتھ بخشش کے لئے کشا دہ ہے جس کے خزا نے میں کو ئی کمی نہیں ہو تی اور عطا کی کثرت اس میں سوائے جود و کرم کے اور کچھ زیا دہ نہیں کر تی ''
علامہ شریف رضی کی روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن سے یہ وصیت فرمائی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ منافقون آیت٧۔
(٢)سورئہ حجر آیت ٢١۔
(علمْ انّ الذ بیدہ خزائن السماوات والارض قد اذن لک ف الدعاء وتکفّل لک بالاجابة،وامرک انْ تسألہ لیعطیک،وتسترحمہ لیرحمک،ولم یجعل بینک وبینہ من یحجبک عنہ،ولم یلجئک الی مَن یشفع لک الیہ،ولم یمنعک ان اسات من التوبة،ولم یعاجلک بالنقمة،ولم یفضحک حیث الفضیحة،ولم یشددعلیک فی قبول الانابة،ولم یناقشک بالجریمة،ولم یؤیسک من الرحمة،بل جعل نزوعک عن الذنب حسنة،وحسب سیئتک واحدة،وحسب حسنتک عشرا،وفتح لک باب المتاب وب الاستعتاب۔
فاذانادیتہ سمع نداء ک واذا ناجیتہ علم نجواک،فافضیت الیہ بحاجتک،وابثثتہ ذات نفسک،وشکوت الیہ ھمومک،واستکشفتہ کروبک، واستعنتہ علی امورک،وسالتہ من خزائن رحمتہ مالایقدرعلی اعطائھاغیرہ،من زیادة الاعماروصحة الابدان،وسعةالارزاق۔
ثم جعل فی یدک مفاتیح خزائنہ بمااذن لک فیہ من مسالتہ،فمتی شئت استفتحت بالدعاء ابواب النعمة،واستمطرت شآبیب رحمتہ،فلا یقنطنّک ابطاء اجابتہ،فان العطیہ علی قدر النیہ)(١)
''جا ن لو !جس کے قبضۂ قدرت میں آسمان و زمین کے خز ا نے ہیں اس نے تمھیں سوال کر نے کی اجا زت دے رکھی ہے ،اور قبول کرنے کی ذمہ دار ی لی ہے اور تم کو مانگنے کا حکم دیا ہے تا کہ وہ دے ،اس سے رحم کی درخوا ست کرو تا کہ وہ تم پر رحم کرے ،اس نے اپنے اور تمہا رے درمیان دربان نہیں کھڑے کئے جو تمھیں رو کتے ہوں ،نہ تمھیں اس پر مجبور کیا ہے کہ تم کسی کو اس کے یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)نہج البلاغہ ،قسم الرسائل والکتب ،الکتاب:٣١۔
سفارش کے لئے لا ئو تب ہی کام لو اور تم نے گناہ کئے ہوں ،اس نے تمہارے لئے تو بہ کی گنجا ئش ختم نہیں کی ہے ،نہ سزا دینے میں جلدی کی ہے اور نہ تو بہ و انابت کے بعد وہ کبھی طعنہ دیتا ہے (کہ تم نے پہلے یہ کیا تھا ،وہ کیا تھا )نہ اس نے تمھیں ایسے مو قعوں پر رسوا کیا جہاں تمھیں رسوا ہی ہو نا چا ہئے تھا اور نہ ہی اس نے تو بہ قبول کرنے میں (سخت شرطیں لگا کر )تمہارے ساتھ سخت گیری کی ہے نہ ہی گناہ کے بارے میں تم سے سختی کے ساتھ جرح کرتا ہے اور نہ اپنی رحمت سے مایوس کرتا ہے بلکہ اس نے گناہ سے کنا رہ کشی کو بھی ایک نیکی قرار دیا ہے اور برا ئی ایک ہو تو اسے ایک (برائی ) اور نیکی ایک ہو تو اسے دس نیکیوں کے برابر قرار دیا ہے اس نے تو بہ کے دروازہ کھول رکھا ہے ۔
جب بھی تم اس کو پکارتے ہو وہ تمہاری سنتا ہے اور جب بھی راز و نیاز کرتے ہو ئے اس سے کچھ کہو تو وہ جان لیتا ہے ،تم اسی سے مرا دیں مانگتے ہو ،اور اسی کے سامنے دل کے راز و بھید کھو لتے ہو، اسی سے اپنے دکھ درد کا رونا رو تے ہو اور مصیبتوں سے نکا لنے کی التجا کرتے ہو اور اپنے کا موں میں مدد کے خو استگار ہو اور اس کی رحمت کے خزا نوں سے وہ چیزیں طلب کرتے ہو جن کے دینے پر اور کو ئی قدرت نہیں رکھتا جیسے عمروں میں درازی ،جسمانی صحت و توانائی اور رزق میں وسعت ۔
اور اس نے تمہارے ہاتھ میںاپنے خزانوںکو کھو لنے والی کنجیاں دیدی ہیںاس طرح کے تمھیں اپنی بارگاہ میں سوال کرنے کا طریقہ بتایا اس طرح جب تم چا ہو اس کی رحمت کے دروازوں کو کھلوالو،اس کی رحمت کے جھا لوں کو بر سالو،ہاں بعض اوقات اگر دعا قبول ہو نے میں دیر ہو جا ئے تو اس سے نا امید نہ ہو جا ؤاس لئے کہ عطیہ نیت کے مطابق ہو تا ہے ''
اور حدیث قدسی میں آیا ہے :
( یاعباد کلکم ضال الّامَن ھدیتہ،فاسألون الھدی اھدکم وکلکم فقیرالامَن اغنیتہ ،فاسألون الغنیٰ ارزقکم وکلکم مُذْنِب اِلَّا مَنْ عَافَیْتَہُ،فَاسْالُوْنِْ الْمَغْفِرَة أغفرلکم۔۔۔ولوانّ اولکم وآخرکم وحیّکم ومیتکم اجتمعوافیتمنیّٰ کل واحد مابلغت امنیتہ، فاعطیتہ لم یتبین ذلک فی ملک ۔۔۔فاذااردت شیئافانّما اقول لہ کن فیکون) (١)
''بندو تم سب بھٹکے ہو ئے ہو مگر جس کو میں را ستہ دکھا دوں لہٰذا مجھ سے ہدایت طلب کرو    تا کہ میں تمہاری ہدایت کردوں اور تم سب فقیر ہو مگر جس کو میں بے نیاز کردوں لہٰذا مجھ سے بے نیازی طلب کرو تا کہ میں تم کو رو زی عطا کروں تم سب گنا ہگار ہو مگر جس کو میں عا فیت عطا کروں لہٰذا مجھ سے بخشش طلب کرو تا کہ میں تمھیں بخش دوں اگر تمہارا پہلا ،آخری ،زندہ، مردہ سب اکٹھے ہو کر مجھ سے اپنی مرادیں ما نگیں اور میں ان کی مرا دیں پوری کر دوں تو اس سے میری حکو مت کو کو ئی ضرر نہ پہنچے گا اس لئے کہ جب میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو میں اس سے کہتا ہوں ہو جا، تو وہ ہو جا تی ہے ''
موانع (رکا و ٹوں)کی دوسری قسم
دعا قبول ہو نے میں رکا وٹ ڈالنے والے دوسری قسم کے موانع بہت زیادہ ہیں ۔
کبھی کبھی دعا کاقبول ہو ناسائل کے لئے مضر ہو تا ہے لیکن سائل کو اس کا علم نہیں ہو تا ہے اوراﷲ اس کے حق میںاس دعا کے مفید یا مضر ہو نے سے واقف ہے ۔
کبھی کبھی دعا کا جلدی قبول ہو نا بھی مضرہو تاہے اور خدا وند عالم جا نتا ہے کہ بندہ کیلئے اس دعا کو قبول کر نے میں تا خیر کر نا اس کے حق میںبہتر اور بہت زیادہ فائدہ مند ہے ۔لہٰذا خدا وند عالم اس کی دعا کو قبول کر نے میں تا خیر کر تا ہے ۔
جیساکہ ہم دعا افتتاح میں پڑھتے ہیں :
( فَصِرْتُ اَدْعُوْکَ اٰمِناًوَاَسْألُکَ مُسْتَانِساًلاَخَائِفاًوَلَاوَجِلاً مُدِلّاً عَلَیْکَ فِیْمَاقَصَدْتُ فِیْہِ اِلَیْکَ فَاِ نْ اَبْطَاَعَنِّْ عَتَبْتُ بِجَھْلِْ عَلَیْکَ وَلَعَلَّ الَّذِیْ اَبْطَأعَنِّْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) تفسیر امام ١٩۔٢٠،بحار الا نوار جلد ٩٢ صفحۂ ٢٩٣ ۔
ھُوَخَیْرلِْ لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَةِ الْاُمُوْرِ)
''تو میں مطمئن ہو کر تجھ کو پکارنے لگااور انس و رغبت کے ساتھ بلا خوف و خطر اور ہیبت کے تجھ سے سوال کرتا ہوں جس کا بھی میں نے تیری جا نب ارادہ کیا ہے اگر تو نے میری حا جت کے پورا کرنے میں دیر کی تو میں نے جہا لت سے عتاب کیا اور شاید کہ جس کی تا خیر کی ہے وہ میرے لئے بہتر ہو کیونکہ تو امور کے انجام کا جا ننے والا ہے ''
کبھی خدا وند عالم بند ے کی دعا قبول کر نے میںاس لئے تا خیر کر تا ہے تا کہ وہ مسلسل اﷲ کے سامنے گر یہ و زاری کر تا رہے کیونکہ خدا وند عالم اپنے سا منے بندے کے گر یہ و زاری کر نے کو پسندکرتا ہے ، حدیث قدسی میں آیا ہے :
( یاموسیٰ ان لست بغافل عن خلق ولکن احّ ان تسمع ملا ئکت ضجیج الدعاء من عباد) (١)
''اے مو سیٰ میں اپنی مخلوق سے غا فل نہیں ہوں لیکن میں یہ دو ست رکھتا ہوں کہ میرے    ملا ئکہ میرے بندوں کی گڑگڑاکر دعا کر نے کی آواز کو سنتے رہیں ''
امام جعفر صاق علیہ السلام سے مر وی ہے :
( ان العبد لیدعوفیقول اﷲ عزّوجل للملکین قداستجبت لہ،ولکن احسبوہ بجاجتہ فان احبّ ان اسمع صوتہ وانّ العبد لیدعوفیقول اﷲ تبارک و تعالیٰ:عجّلوالہ حاجتہ فان ابغض صوتہ)(٢)
''انسان دعا کرتا ہے تو خدا دو فرشتوں سے کہتا ہے کہ میں نے اس کی دعا قبول کرلی لیکن ابھی اس کی حاجت پوری مت کرو کیونکہ میں اس کی آواز سنناہوںتووہ مجھے اچھی لگتی ہے اور کبھی کو ئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)عد ة الداعی
(٢)وسائل الشیعہ کتاب الصلو ة ابواب الدعا باب ٢١ حدیث ٣۔
انسان دعا کرتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ اس کی مراد جلدی پو ری کرو کیونکہ مجھے اس کی آواز اچھی نہیں لگتی ہے ''
اگردعاکی قبولیت بندے کے حق میں مضرہوتی ہے تو خداوندعالم مطلق طور پر اس کی دعا کو لغو نہیں قر ار دیتا بلکہ اس کو بند ے کے گنا ہوں کے کفا ر ہ میں بدل دیتا ہے ،اس کی بخشش کر تا ہے یا کچھ وقفہ کے بعد اس کو دنیا میں جلد ہی رزق عطا کر تا رہتا ہے یا جنت میں اس کے در جا ت بلند کر دیتا ہے۔          اورہم مذکورہ دو نو ں حا لتو ں،تبدیل اور تا خیر کے متعلق رسو ل خدا  ۖاور امیر الو منین علیہ السلام سے مروی تین حد یثیںذیل میں نقل کر رہے ہیں ۔
دعا کی قبو لیت میں تا خیریا تبد یلی
رسو ل اﷲ  ۖسے مروی ہے :
(مامِن مسلم دعااللّٰہ سبحانہ دعوة لیس فیھاقطیعة رحم ولااثم ،الّااعطاہ  اللّٰہ احد یٰ خصال ثلا ثة:امّاان یُعجّل دعوتہ،واماان یؤخّرلہ،وامّاان یدفع عنہ من السوء مثلھا )قالوا:یارسول اللّٰہ ،اذن نُکثِر۔قال:''اکثروا ''۔(١)
''جو مسلمان بھی خداوندعالم سے ایسی دعا ما نگتا ہے جس میں رشتہ داروں سے رابطہ ختم کرنے یا کسی گناہ کا مطالبہ نہیں ہوتا توخداوند عالم اس کو تین صفات میں سے کو ئی ایک صفت عطا    کر دیتا ہے یا اس کی دعا جلد قبول کرلیتا ہے یاتا خیر سے قبول کرتا ہے یا اس سے کو ئی بلا دور کردیتا ہے لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو ہم بہت زیادہ دعا کریں گے ۔
آپ نے فرمایا :ہاں بہت زیادہ دعاکیاکرو۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
(الدعاء مخ العبادة،ومامِن مؤمن یدعواللّٰہ الّااستجاب لہ،اِمّاأن یعجّل  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسا ئل الشیعہ جلد ٤ صفحہ ١٠٨٦ حدیث٨٦١٧۔
لہ فی الدنیا،اویؤجّل لہ فی الآخرة،واماان یُکفّرمن ذنوبہ بقدرمادعا مالم یدع بمأثم )(١)
''دعا عبادت کی روح و جان ہے اور کو ئی ایسا مومن نہیں ہے جسکی دعا اﷲقبول نہ کرتا ہو یاتو  اس دعا کو دنیا میں جلدی قبول کر لیتا ہے یا اس کے مستجاب ہو نے میں آخرت تک تا خیر کر دیتا ہے یاجتنی وہ دعا کرتا ہے خدا اس کو اس بندے کے گنا ہو ں کا کفارہ قرار دیتا ہے ''
حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے فر زند امام حسن   کو وصیت کر تے ہو ئے فرمایا :
( فَلاَیُقَنِّطَنَّکَ اِبْطَائُ اِجَابَتِہِ فَاِنَّ الْعَطِیَّةَ عَلیٰ قَدْرِالنِّیَّةِ وَرُبَمَااُخِّرَتْ عَنْکَ الِاجَابَةُ لِیَکُوْنَ ذٰلِکَ اَعْظَمَ لِاَجْرِالسَّائِلِ وَاجْزَلَ لِعَطَائِ الآمِلَ وَرُبَمَاسَألْتَ الشَّئَ فَلَاتُؤتَاہُ وَاُوْتِیَتَ خَیْراً مِنْہُ عَاجِلاً اَوْآجلاً اوْصُرِفَ عَنْکَ لِمَاھُوَخَیْرلَکَ فَلِرُبَّ اَمْرٍقَدْ طَلَبْتَہُ فِیْہِ ھَلَاکُ دِیْنِکَ لَوْاُوْتِیْتَہُ فَلْتَکُنْ مَسْألتُکَ فِیْمَایَبْقیٰ لَکَ جَمَالُہُ وَیَنْفیٰ عَنْکَ وَبَالُہُ وَالْمَالُ لَایَبْقیٰ لَکَ وَلَاتَبْقیٰ لَہُ) (٢)
''ہاں بعض اوقات قبو لیت میں دیر ہو تو،اس سے نا امید نہ ہو اس لئے کہ عطیہ نیت کے مطابق ہو تا ہے اور اکثر قبو لیت میں اس لئے دیر کی جا تی ہے کہ سا ئل کے اجر میں اور اضافہ ہو اور امیدوار کو عطیے اور زیادہ ملیں اور کبھی یہ بھی ہو تا ہے کہ تم ایک چیز ما نگتے ہو اور وہ حا صل نہیں ہو تی مگر دنیا یا آخرت میں اس سے بہتر چیز تمھیں مل جا تی ہے یا تمہا رے کسی مفاد کے پیش نظر تمھیں اس سے محروم کردیا جاتا ہے اس لئے کہ تم کبھی ایسی چیزیں بھی طلب کر لیتے ہو کہ اگر تمھیں دیدی  جا ئیں ،تو تمہارا دین تباہ ہو جا ئے لہٰذا تمھیں بس وہ چیزیں طلب کرنا چا ہئے جس کا جمال پا ئیدار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ،ابواب الدعا باب ١٥۔جلد ٤ صفحہ ١٠٨٦حدیث ٨٦١٨۔
(٢)نہج البلاغہ قسم الر سائل و الکتب ، الکتاب ا٣۔
ہو اور جسکا وبال تمہارے سر نہ پڑنے والا ہو رہا دنیا کا مال ،تو یہ نہ تمہارے لئے رہے گا اور نہ تم اس کیلئے رہو گے ''
ہم ان تینوں روایات کو جمع کر نے کے بعد دعا مستجاب ہو نے کی پانچ حالتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں :
١۔(عجلت)خدا وند عالم کی بارگاہ میں بندے کی دعا کا جلدی مستجا ب ہو نا ۔
٢۔(مدت ) جس حا جت کیلئے بندے نے اﷲ سے دعا کی ہے اس کو مستجاب کر نے میں وقت لگا نا ۔
٣۔(عوض)(تبدیلی)دعا کو تبدیل کر کے مستجاب کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والے سے اس دعا کے بدلہ برا ئیوں کو دور کر تاہے جس کے قبو ل ہو نے میںفی الحال کو ئی مصلحت نہیںہوتی ہے ۔
٤۔جس دعا کو قبول کر نے میں کو ئی مصلحت نہ ہو اﷲ اس کے بدلے دعا کر نے وا لے کو آخرت میں بلند در جا ت عطا کر تا ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(واﷲ مصیّردعاء المؤمنین یوم القیامةلھم عملایزیدھم فی الجنة)(١)
''خداوند عالم بروز قیامت مو منین کی دعا کو ان کے حق میں ایسے عمل میں بدل دیگا جس سے جنت میںان کا مرتبہ بلند ہو تا رہے گا ''
دوسری حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(واللّٰہ مااخّراللّٰہ عزّوجلّ عن المؤمنین مایطلبون من ھٰذہ الدنیاخیرلھم عمَّاعجّل لھم منھا )(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسا ئل الشیعہ جلد ٤ ٠٨٦ا،حدیث٥ا٨٦۔       (٢)قرب الاسناد صفحہ ١٧١۔اصول کا فی صفحہ ٥٢٦۔
''خدا کی قسم مو منین جو کچھ اس دنیا میں خدا سے طلب کر تے ہیں اُس میں اِس دنیا میں عطا کر دینے سے ان کیلئے تا خیر کر نا بہتر ہے''
٥۔(تبدیل)جب دعا کو قبول کرنا بندے کی مصلحت کے خلاف ہو تا ہے تو خدا وند عالم اس کی دعا مستجاب کر تے وقت اس کی دعا کو اس کے گنا ہوں اور برا ئیوں کا کفارہ قرار دیتا ہے۔ (١)
اور کبھی کبھی ان کو تبد یل نہ کر نا اور مدّت معین کر نا دو حا لتو ںمیں دعا مستجاب ہو نے میں وقت در کار ہو نا اور اس کو معین قر ار دینے کے وقت دعا کر نے والے کی مصلحت کیلئے ہو تا ہے ۔کبھی کبھی یہ نظا م کی مصلحت کیلئے ہو تا ہے جو سا ئل اوردو سر ے افر اد کو بھی شا مل ہو تا ہے دعا مستجا ب ہو نے یاجلدی دعا مستجا ب ہو جا نے سے نظا م میں خلل واقع ہو تا ہے جس کو اﷲنے خا ص انسا ن یا عام دنیا کیلئے معین فرمایا ہے ۔
جبدعا عمل میں تبد یل ہو جاتی ہے
دعا اور عمل دونو ں الگ الگ مقولہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رحمت کے نا زل ہو نے کا سبب ہے بیشک عمل سے اﷲکی رحمت اسی طرح نا زل ہو تی ہے جس طرح دعا سے اﷲکی رحمت نازل ہو تی ہے خد اوند عا لم فر ما تا ہے :
(وَقُلْ اعْمَلُوْا فَسَیَریَ اﷲُعَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہُ )(٢)
''اور پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو اﷲ ،رسول اور صاحبان ایمان دیکھ رہے ہیں''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ان پانچوں باتوں میں سے آخری تین با تیں صرف بندے کی دعا کو ملغیٰ قرار دینے سے مخصوص ہیں      خدا وند عالم اپنے بندے کی دعا قبو ل کر نے کے ساتھ ساتھ اس کی دعا کو اس کے گنا ہوںکا کفا رہ قرار دتیا ہے اس سے    برائیا ں دور کر دتیا ہے اور آخرت میں بلند درجات عطا کر تا ہے ۔
(٢)۔سور ئہ تو بہ آیت١٠٥۔
(فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَہُ )(١)
''پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ''
اسی طر ح دعا رحمت کی کنجی ہے: (اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )(٢)
لیکن ایسا نہیں ہے کہ انسان جوکچھ سوال کرے وہ اِس دنیاکے عام نظام میں ممکن بھی ہو،بلکہ کبھی کبھی انسان اﷲ سے ایسی دعاکرتاہے جواس دنیاکے عام نظام (قضا و قدر )میں ممکن نہیںہوتی لہٰذا اس کی دعا مستجاب نہیں ہو تی۔
کبھی کبھی دعا کے مستجاب ہو نے یا دعا کے جلدی مستجاب ہو نے میں صاحب دعا کیلئے کو ئی مصلحت نہیں ہو تی ، تو انسان دعامیں اتنی جد وجہدو کو شش کیوںکر تا ہے ؟
جواب : بیشک دعا بذات خو دعمل اور عبا دت میں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے اﷲ کی رحمت   نا زل ہو تی ہے ۔
لہٰذا (قضا و قدر )مصلحت دعا کے موانع میں سے نہیں ہیں ۔ بیشک اﷲ تبارک و تعالیٰ اگرچہ اپنے بندے کی دعا قبول نہیں کر تا ہے بلکہ بندے کی دعا تو خود اسی کے عمل اور عبادت پر مو قوف ہے اور اسی کے مطابق اس کو دنیا اور آخرت میں جزایا سزا دی جا ئیگی ۔
اسلامی رو ایات میں اس دقیق معنی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دعا عمل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
حما د بن عیسیٰ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
(سمعتہ یقول:ادع،ولاتقل قدفرغ من الامر(٣)فان الدعاء ھوالعبادة )(٤)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سور ئہ الزلزلہ آیت٧۔                 (٢)سورئہ مومن آیت ٦٠۔
(٣)یعنی یہ امر خداوند عالم کے قضاء وقدر میں ہے جس سے تجا وز کرنا ممکن نہیں ہے اور دعا کے ذریعہ اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتاہے ''
(٤)وسائل الشیعہ صفحہ ٩٢۔حدیث ٨٦٤٣، اصول کافی صفحہ ٥١٦)
میںنے آپ کو یہ فرما تے سنا ہے : دعا کرو اور یہ نہ کہو کہ خدا کا حکم تمام ہو گیا ہے بیشک دعا عبادت ہے
''یعنی یہ امر اﷲ کے قضا و قدر میں ہے اور دعا کے ذر یعہ اسکو آگے پیچھے کردینا ممکن نہیں ہے ۔
اور دو سری حدیث میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے :
''ادعہ،ولاتقل قدفرغ من الأمر،فانّ الدعاء ھوالعبادة انّ اللّٰہ عزّوجلّ یقول:( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْن(١))(٢)
''خدا کو پکار و یہ نہ کہو کہ خدا کا امر( حکم ) تمام ہو گیا ہے بیشک دعا عبادت ہے خداوند عالم فرماتا ہے :
( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)
''اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
دعا کی قبو لیت اور دعا کے در میان رابطہ
ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ مطلق طورپرپہلی قسم کے موا نع خدا وندعالم کی کبر یائی کے شایان شان نہیںہیںلیکن دوسری قسم کے موانع حقیقی ہیںاوربندوںکی زندگی اوردعاؤں میں پائے جاتے ہیںاسی لئے کبھی کبھی خداوندعالم دعا مستجاب کرنے میںمدت معین کردیتا ہے اور کبھی مستجاب کر کے اس کو دوسر ی چیز سے بد ل دیتا ہے ۔
اور ان دو نو ں حالتو ں (حالت تاخیر اور حالت تبدیل)کے علا وہ دعا کا مستجاب ہونا ضروری ہے اس کا منبع قطعی فطری حکم ہے اور یہ اس وقت ہو تا ہے جب سا ئل ،مسئول (جس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢)سورئہ مؤ من آیت٦٠۔
(٣)وسائل الشیعہ ٤: ١٠٩٢ حدیث ٨٦٤٠ ، اصول کا فی : فرو ع کا فی جلد ١سطر ٩٤ ۔
سو ال کیا جا رہاہے )کا محتاج ہوتاہے اور مسئول سائل کی حا جت قبول کرنے پرقادر ہوتا ہے اور اپنی مخلوق کے ساتھ بخل سے کام نہیں لیتاہے۔(١)
١۔( اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئ) (٢)
''بھلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آوازدیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کر دیتا ہے ''
لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور اپنی بلا دور ہونے کے سلسلہ میں دعا کے قبول ہونے کاشدید محتاج ہو اس کو فقط دعا کرنے کی ضرورت ہو تی ہے جب وہ خداوند عالم کو پکارتا ہے تو خداوند عالم اس کی دعا قبول کر کے اس سے بلا کو دور فر ما دیتا ہے ۔
جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا مستجاب کر تا ہے اور اس کے لئے برائیوں کو واضح کردیتا ہے ۔
٢۔:( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ )(٣)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرومیں قبول کرونگا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اس رابطہ کے ضروری ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اﷲپر یہ امر واجب ہو گیا ہے بلکہ خود قرآن کریم اس یقینی اور ضروری رابطہ پر اس طر ح زور دیتا ہے :
اس نے اپنے او پر رحمت لکھ لی ہے :
(فَقُلْ سَلَام عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَة ) (سور ۂ انعام آیت ٥٤)
''پس ان سے سلام علیکم کہئے تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دے لی ہے ''
(٢)سورۂ نمل آیت ٦٢۔
(٣)سورئہ مو من آیت٦٠۔
یہ آیت ِ کریمہ دعا اور استجابتِ دعا کے درمیان رابطہ کو صاف طور پر واضح کر رہی ہے:
( ا ُ دْعُوْنِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ )(١)''مجھ سے دعا کرومیں قبول کرونگا ''
(وَاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ) (٢)
''پکار نے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے ''
ان آیات میں دعا اور اس کے مستجاب ہو نے کا رابطہ صاف اور واضح ہے ، اور اس میں کو ئی شک و شبہہ ہی نہیں ہے کہ خدا وند عالم ہر دعا کو قبول کر تا ہے لیکن اگر دعا قبول کر نا بندہ کے حق میں مضر ہو یا اس عام نظام کے خلا ف ہو جس کا بند ہ خود جز ء شمار ہو تا ہے ،اور ان آیات میں دعا کے مستجاب   ہو نے کی کو ئی شرط نہیں ہے اور نہ ہی کسی چیز پر معلّق ہے ۔
جن شرطوں کو ہم عنقریب بیان کر یں گے وہ حقیقت میں دعا کے محقق ہو نے کیلئے ضروری  ہو تی ہیں یا بذات خو د دعا کر نے وا لے کی مصلحت کیلئے ہو تے ہیں اور اگر یہ دو نوں نہ ہوں تو پھر یا تو دعا کا اثر کم ہو جا تا ہے یا ختم ہو جا تا ہے ۔
معلوم ہو ا کہ دعا اور استجا بت کے در میان ایسا رابطہ ہے جس کے بدلنے کا کو ئی امکان ہی نہیں ہے اور ایسا مطلق تعلق ہے جو کسی سے متعلق نہیں ہو تا مگر کو ئی ایسی شرط ہو جس کی تا کید کی گئی ہو یا وہ دعا کی حالت کا اثبات کر تی ہو جیسے خداوند عالم فرماتاہے:(َّاِذَادَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ )(٣)
''جب وہ اس کوآوازدیتا ہے تووہ اس کی مصیبت کو دور کر دیتا ہے ''
شر یعت اسلا میہ میں احا دیث نبی اور احا دیث اہل بیت علیہم السلام میں دعا اور دعا کے  مستجا ب ہو نے کے در میان اس رابطہ پر زور دیا گیا ہے ۔ حدیث قد سی میں آیا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مو من آیت ٦٠۔
(٢)سورۂ بقرہ آیت ١٨٦۔
(٣)سورئہ نمل آیت ٦٢۔
(یاعیسیٰ ن اسمع السامعین استجیب للداعین اذادعونی) (١)
''اے عیسیٰ میں اسمع السامعین (سننے والوں میں سب سے زیادہ سننے والا) ہوں دعا کر نے والے جب دعا کرتے ہیں تو میں ان کی دعا مستجاب کرتا ہوں ''
رسو ل اﷲ  ۖ سے مروی ہے :
(مامن عبدیسلک وادیافیبسط کفّیہ فیذکراﷲ ویدعوالَّاملأاﷲ ذلک الواد حسنات فلیعظم ذلک الواد اولیصغر)(٢)
''جو بندہ بھی کسی وادی کو طے کرتا ہے اور دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر خداوند عالم کو یاد کرتا ہے اور دعا کرتا ہے تو خداوند عالم اس وادی کو نیکیوں سے بھر دیتا ہے چاہے وہ وادی بڑی ہو یا چھوٹی ''
اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(لوأَ نَّ عبداًسدَّ فَاہُ،لم یسأل لم یعط شیئاًفسل تعط )(٣)
''اگر بند ہ اپنا منھ بند رکھے اور وہ خدا سے سوال نہ کر ے تو اس کو کچھ عطا نہیں کیا جا ئیگا ، لہٰذا سوال کرو خدا عطا کر ے گا''
''میسر بن عبدالعزیز نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''یامیسرنّہ لیس من باب یُقْرع لّایُوشک انْ یُفتح لصاحبہ )(٤)
''اے میسر! اگر کسی در وا زے کو کھٹکھٹا یا جا ئے تو وہ عنقریب کھٹکھٹانے والے کیلئے کھل جا تا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) اصو ل کا فی ۔
(٢)ثواب الا عمال صفحہ ٔ ١٣٧ ۔
(٣)وسا ئل الشیعہ جلد ٤ صفحہ ٔ ١٠٨٤ ، حدیث ٨٦٠٦ ۔
(٤)وسا ئل الشیعہ ٤ : صفحہ ٔ ١٠٨٥ ح ٨٦١١۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا فر مان ہے :
(متیٰ تُکثرقرع البابُ یفتح لک )(١)
''جب دروازہ پہ زیادہ دستک دی جا ئیگی تو کھل جائیگا ''
حضرت رسول اﷲ  ۖنے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
(یاعلأُوصیک بالدعاء فانّ معہ الاجابة)(٢)
''اے علی میںتم کو دعا کر نے کی سفارش کرتاہوں بیشک اگر دعا کی جائے تو ضرور مستجاب ہوگی''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(اذااُلھم احدکم الدعاء عند البلاء فاعلمواأَنّ البلاء قصیر )(٣)
''جب تم میںسے کسی کومصیبت کے وقت دعا کرنے کا الہام ہوجا ئے تو جان لو کہ مصیبت چھوٹی ہے ''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
(لاواللّٰہ لایلحّ عبدعلیٰ اللّٰہ عزّوجلّ الّااستجاب اللّٰہ لہ )(٤)
''خداکی قسم بندہ خداوند عالم کی بارگاہ میں نہیں گڑگڑاتا مگر یہ کہ خدا اسکی دعا مستجاب کرتا ہے''
اسلامی روایات میں دعا اور دعاکی مقبولیت کے درمیان رابطہ کے یقینی اور مطلق ہونے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسا ئل الشیعہ ٤ : صفحہ ٔ ١٠٨٥ ح ٨٦١٣۔
(٢) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢ حدیث ١٨ ۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد٤ص١٠٨٧حدیث٨٦٢٤۔
(٤)اصول کافی کتاب الدعا باب الالحاح فی الدعاء حدیث٥۔
زور دیا گیا ہے اور یہ واضح ہے کہ جب بندہ خداوند عالم سے دعاکرتا ہے تو خداکو اسکی دعا رد کرنے سے حیا آتی ہے۔
حدیث قدسی میں آیا ہے:
(ماانصفنی عبد،یدعون فاستحی انْ اردّہ،ویعصین ولایستحی   من )(١)
''میرے بندے نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا چونکہ جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو مجھے اسکی دعا رد کرنے میں حیا آتی ہے لیکن جب وہ میری معصیت کرتا ہے تومجھ سے کوئی حیا نہیں کرتا ''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
(ماابرزعبد یدہ الی اللّٰہ العزیزالجبارالّااستحیٰ اللّٰہ عزّوجلّ أنْ یردّھا)(٢)
''بندہ خداوند عالم کی بارگاہ میں ہاتھوں کو بلند کرتا ہے توخداکوا سکی دعا رد کرنے سے حیا آتی ہے'
حدیث قدسی میں آیا ہے:
(من احدث وَتوضأوصلیّٰ ودعان فلم اُجبہ فیما یسأل عن امردینہ ودنیاہ فقدجفوتہ ولست بربٍّ جافٍ)(٣)
''جس شخص سے حدث صادر ہو اور وہ وضو کرکے نماز پڑھے پھر مجھ سے دعا مانگے لیکن میں اس کی دینی اور دنیا وی حاجت پوری نہ کروں تو میں نے اس پر جفا کی جبکہ میں جفا کرنے والا پرور دگار نہیں ہوں ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ارشاد القلوب للدیملی۔
(٢)عدةالدامی وسائل الشیعہ کتاب الصلاةابواب الدعا باب ٤حدیث١۔
(٣)ارشاد القلوب للدیلمی۔
امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے:
(ماکان اللّٰہ لیفتح باب الدعائ،ویغلق علیہ باب الاجابة )(١)
''ایسا نہیں ہے کہ خدا وند عالم بندہ پر باب دعا تو کھول دے اوراس پر باب اجا بت کو بند  رکھے ''
اور امیر المومنین علیہ السلام سے ہی مروی ہے :
(من اُعط الدعاء لم یُحرم الاجابة ) (٢)
''جس کو دعا عطا کی گئی اسکو دعا کے مستجاب ہونے سے محروم نہیں کیا گیا''
آخر ی دو روایتوں میں اہم اور بلند درجہ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے بیشک اﷲتعالیٰ کریم اور وفیّ ہے جب اس نے دعا کا دروازہ کھول دیا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دعا مستجاب ہو نے کے دروازہ کوبند کردے ۔ جب خداوندعالم نے بندہ کو دعا کر نے کی توفیق عطا کردی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس کی دعامستجاب نہ کرے۔
رسول اﷲ  ۖسے مروی ہے :
(مافُتح لأحد باب دعاء الّافتح اللّٰہ لہ فیہ باب اجابة،فاذافُتح لأحدکم باب دعاء فلیجھد فانّ اللّٰہ لایمل ّ)(٣)
''خداوند عالم نے کسی کیلئے دعا کا دروازہ نہیںکھولا ہے مگر یہ کہ اسکے لئے اسکی دعا کے قبول ہونے کا دروازہ بھی کھول دیا ہے ۔جب تم میں سے کسی ایک کیلئے باب اجابت کھل جائے تو اسکو کوشش کرنا چاہئے بیشک خدا کسی کو ملول نہیں کرتا''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب٢حدیث ١٢اور٤ :١٠٨٧۔حدیث ٨٦٢٤۔
(٢)وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب٢اور٤ صفحہ١٠٨٦۔حدیث ٨٦٢٢۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد ٤ ١٠٨٧حدیث٨٦٢٤۔
یہ اﷲکی رحمت نازل ہونے کی تیسری منزل ہے۔
اللھم سمعناوشھدناوآمنّا
''خدایا ہم نے سنا اور گواہی دی اور ایمان لائے ''
رحمت نازل ہو نے کی تین منزلیں
جناب ہاجرہ اور اسمعیل علیہما السلام اور ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں ہم تینوں منزلوں کایکجا طور پر مشاہدہ کرسکتے ہیں:
١۔فقر وحاجت
٢۔دعا اور سوال
٣۔سعی اور کوشش
جب ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خداوند عالم نے ان کی زوجہ جناب ہاجرہ کے ساتھ بے آب و گیاہ وادی(چٹیل میدان )میں بھیجا اور انھوں نے وہاں ہاجرہ کے ساتھ ان کے فرزند شیر خوار جناب اسمعیل کو چھوڑاتویہ دعا کی:
( رَبَّنَااِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍغَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُواالصَّلاَ ةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ)(١)
''پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تا کہ نما زیں قا ئم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مو ڑ دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فر ما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جا ئیں ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔سورئہ ابراہیم آیت٣٧۔
اسکے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام خداوند قدوس کے حکم کی تعمیل کیلئے گئے ۔جناب ہاجر ہ اور طفل شیر خوار کو اس بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑدیااور ان کے پاس پانی کاذخیرہ ختم ہوگیا، بچہ پرپیاس کا غلبہ ہوا ،جناب ہاجرہ نے چاروں طرف پانی ڈھونڈھا لیکن پانی کا کوئی نام ونشان نہ ملا،بچہ چیخنے،چلانے اورہاتھ پیر مارنے لگا۔آپ کی والدہ ادھر ادھر دوڑلگانے لگیں،کبھی صفا پہاڑی پر     جا تیںاور دور دراز تک پانی دیکھتیں اسکے بعد نیچے اتر آتیں اوردوڑتی ہوئیںمروہ پہاڑی پر پانی کی تلاش میں جاتیں،اور خداوند عالم سے اپنے اور بچہ کیلئے اس بے آب و گیاہ وادی میں پانی کا سوال     کر تیں اور بچہ بیت حرام کے نزدیک چیختا چلاتا اور ہاتھ پیر ماررہاتھا۔
اﷲنے بچہ کے قدموں کے نیچے پانی کا چشمہ جاری کیا، ماں پانی کی طرف دو ڑی تا کہ اپنے شیر خوار بچہ کو سیراب کر سکے اور پانی کو ضائع ہو نے سے بچا سکے لہٰذا انھوں نے پا نی سے کہا زم زم یعنی ٹھہر ٹھہرکہ وہ اس کیلئے ایک حوض بنارہی تھیں ۔
یہ عجیب وغریب منظر رحمت کے نازل ہونے کا سبب بنا، خداوند عالم نے بے آب وگیاہ وادی میں چشمہ زم زم جاری کیا اور اسکو اس مبارک زمین پر متعدد برکتوں کا مصدر قرار دیا ۔
خداوند عالم نے اس عمل کو اعمال حج کا جزء قرار دیا اور اسکو سب سے اشرف فرائض میں قرار دیا۔
اس منظر کا کیا راز ہے؟اور اسکو اصل دین میں داخل کرنے اور حج کے احکام میں ثبت کرنے کا اتنا اہتمام کیوں کیا گیا؟ وہ موثر اور طاقت ورسبب کیا ہے جسکی وجہ سے خداوند عالم نے اس منظر کی قوت سے رحمت نازل کی اور تاریخ میں آنے والے تمام موحدوں کیلئے بہت زیادہ برکتوں کا مبدأ قرار دیا ؟
پس اس منظر میں ایک خاص راز ہے جس کیلئے اس بے آب و گیاہ وادی میں اﷲ کی رحمت نازل ہو نے کی استدعا کی گئی ہے ، اس رحمت کے ہمیشہ باقی رہنے کی استدعا کی گئی ہے ، اس کو متعدد برکتوں کیلئے مصدر اور مبدأ قرار دیا گیا ہے اور یہ استد عا کی گئی ہے کہ خدا وند عالم اس کو اپنے بیت حرام کے نزدیک موحدین کی آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح قائم و دائم رکھے ۔
ہمارا(مؤلف)عقیدہ ہے کہ(خداوند عالم اس منظر کے تمام اسرار کو جانتا ہے)ایسے منظر شاذونادر ہی ہوتے ہیں جن میں اﷲکی رحمت نازل ہونے کے تینوں پہلو جمع ہوجاتے ہیں اور ہر ایک سے رحمت نازل ہوتی ہے۔
پہلی منزل :حاجت وضرورت ہے جویہاںپر پیاس ہے جو شیر خوار بچہ کیلئے نقصان دہ تھی اور حاجت و ضرورت کا اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنا اﷲکی رحمت نازل ہونے کا ایک پہلو ہے۔
جب ضرورت صاحب ضرورت کیلئے زیادہ نقصان دہ ہوگی تووہ اﷲکی رحمت سے زیادہ قریب ہوگا۔اسی لئے ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب شیرخوار بچوں کیلئے دکھ درد ،یا بھوک یاپیاس یا سردی یا گرمی بہت زیادہ مضر ہوجاتی ہے جسکو وہ برداشت نہیں کرسکتے تو وہ ان بزرگوںکے ذریعہ جو ان تمام چیزوں کو برداشت کرسکتے ہیں اﷲکی رحمت سے قریب ہوجاتے ہیں۔چونکہ دوسروں کے مقابلہ میںان کیلئے اس حاجت کا نقصان زیادہ ہے ۔
معلوم ہواکہ حاجت ان کے غیروں کے علاوہ خود ان کیلئے بہت زیادہ مضر ہے۔
دعا میں وارد ہوا ہے :''اَللَّھُمَّ اَعْطِنِْ لِفَقْرِْ'' صرف اﷲکی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کر نے سے اﷲکی رحمت نازل ہوتی ہے اور جب بھی اﷲکی بارگاہ میں پیش ہونے والی حاجت جتنی عظیم ہوگی اتنا ہی وہ اﷲکی رحمت کے نزول کا باعث ہوگی۔
بیشک اﷲکی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنا انسان کو اﷲکی رحمت سے قریب کردیتا ہے چاہے انسان اﷲکی بارگاہ میںاپنی حاجت سے باخبر ہوکر پیش کر ے یا نہ کرے اگر انسان اپنی حاجتوں سے باخبر ہوکران کو اﷲکی بارگاہ میں پیش کرتا ہے تو اﷲکی رحمت نازل کرانے میں اسکی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے۔جس کو ہم بیان کرچکے ہیں۔
لیکن اس میں یہ شرط پائی جاتی ہے کہ انسان اپنی حاجت میں تحریف نہ کرے یعنی انسان یہ تصور کرے کہ اسکو مال کی ضرورت ہے یا حطام دنیا(دنیوی چیزیں) کی ضرورت ہے لہٰذابندگان خدا کی طرف حاجت پیش نہ کرے ۔
نیز یہ شرط بھی ہے کہ انسان اپنی ضرورت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹائے اور یہ تصور نہ کرنے لگے کہ یہ دو لت یا سر مایہ ٔ دنیا کی ضرورت خداوند عالم کے کچھ بندوں کی ضرورت کی بنا پر ہے اس کے   بجا ئے کہ وہ فقر کو خداوند عالم کی طرف نیاز مندی پر حمل کرے ۔
اِس حاجت اور اُس حاجت میں فرق ہے۔جس حاجت سے اﷲکی رحمت نازل ہوتی ہے وہ اﷲکی بارگاہ میں حاجت پیش کرنا ہے اور جب انسان اس ضرورت کو اﷲکی بارگاہ میں پیش کرنے کے بجائے اﷲکے بندوں کی خدمت میں پیش کرتا ہے تو اسکے ذریعہ اﷲکی رحمت نازل ہونے کی قدروقیمت ختم ہوجاتی ہے اور لوگوں کی اکثر حاجتیں اسی قسم کی ہیں۔
اس منظر میں بچہ کاپیاس کی شدت سے چیخناچلانا گر یہ وزاری کرنا اﷲکی رحمت نازل کرنے میں بڑا موثر ہے ۔
خداوند عالم کی طرف نیاز مندی کے منا ظر میں خداوند عالم کی رحمت کا سبب بننے والا اثر  اور رقت آور منظر اس بچہ کے منظر سے زیادہ نہیں جو پیاس سے جھلس رہا ہو اور اس کی ماں کو اس کیلئے    پا نی نہ مل رہاہو۔
اﷲکی رحمت کا اس منظر میں دوسرا پہلوسعی ہے ،یہ رزق کیلئے شرط ہے،بغیر سعی و کوشش کے رزق نہیں ہے اور اﷲتعالی نے سعی اور حرکت کو انسان کی زندگی میں رزق کی کنجی قرار دیا ہے۔
جب فقرکا سبب انسان سے عزم ،قوت،ارادہ،حرکت اور نشاط چاہتا ہے اور جتنی انسان میں حرکت و سعی اور عزم ہوگا اتنا ہی اﷲاس کو اپنی رحمت سے رزق عطا کریگا۔
جب جناب ہاجرہ کے پاس پانی ختم ہوگیااورحضرت اسماعیل پر پیاس کا غلبہ ہوا تو جناب ہاجرہ نے پانی تلاش کیا اور اسی پانی کی تلاش میں آپ کبھی صفاپہاڑی پرجاتیں اور دور تک نظر دوڑاتیں اور پھر صفا سے اترکر مروہ پہاڑی پر جاتیں اور دور تک نظر دوڑاتیں اسی طرح آپ جب صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوںپر گئیں توآپ کو کہیں پانی کا نام ونشان نہیںدکھائی دیا توآپ مایوس نہیں ہوئیںاور اس عمل کی تکرار کرتی رہیں اور صفاومروہ کے درمیان دوڑلگا تی رہیںیہا ں تک کہ آپ نے ان کے در میان سات چکر لگا ئے ۔
اگر یہ آرزو اور امید نہ ہو تی تو ان کی سعی پہلے ہی چکر میں ختم ہو جا تی لیکن پانی کی امید نے ان دونوں کے دلوں کو زندہ رکھا اور اسی شوق میں وہ سعی کی تکرار کرتی رہیں یہاں تک کہ اﷲ نے ان کے اس امر کو آسان کیا اور جناب اسماعیل  کے قدموں کے نیچے چشمہ جا ری فرمادیا لیکن اس مقام پر آرزو اور امید اﷲ کی ذات سے ہے ان کی سعی میں نہیں ہے اگر آرزو وامید ان کی سعی میں ہو تی تو ان کی یہ آرزوو امید پہلے یا دو سر ے چکر میں ہی ختم ہو جا تی ۔
اﷲ تبا رک وتعا لیٰ نے اس سعی اور اس حر کت کو رزق کے لئے شر ط قراردیا، انسان پر اپنی رحمت کا نز ول قراردیااور اﷲ اپنے بند وں کو رزق دیتا ہے اور ان پر اپنی رحمت نازل کر تا ہے لیکن   خد ا  و ند عا لم نے انسان کی سعی اور حر کت کواپنے رزق اور رحمت کی کنجی قراردیاہے ۔
اﷲ کی رحمت کیلئے اس منظر میں تیسر اپہلو جناب اسمعیل کی والد ہ کی دعا ہے ان کا اﷲ سے  لو لگانا اوراس بے آب و گیاہ وادی میں پانی کی تلاش میں اﷲ سے گڑگڑاکردعاکرناہے۔
جتنا انسان اﷲ سے دعا کرتے وقت اپنے کو اس کی یاد میں غرق کردیگا اتنا ہی وہ اﷲ کی رحمت سے قریب ہو گا ۔
ہمیں نہیں معلو م کہ اس نیک وصا لح خا تو ن نے اس وقت اور اس واد ی میںاﷲ کی یاد میں منہمک ہو نے والی کس حا لت کا انتخاب کیا جبکہ ان کے پاس نہ کو ئی انسان تھا اور نہ حیوان ،صرف ایک پیا سا شیر خوار اپنی پیاس سے تڑپ رہا تھا گو یا وہ اپنی آخر ی سانسیں لے رہا تھا۔
اس وقت اس خاتون نے خداوند عالم سے اس طرح دعا کی کہ ملا ئکہ نے ان کیلئے گڑگڑ ا کر دعا کرنا شروع کردی اور اپنی آوازوں کو ان کی آواز، اور اپنی دعا ؤں کو ان کی دعا ؤں سے ملا دیا ۔
اگر تمام انسان اﷲ کی یاد میں اسی طرح منہمک ہو جا ئیں اور خدا کے علاوہ سب سے ہٹ کر صرف اس کی بارگاہ سے لو لگا ئیں تو اُن پرزمین و آسمان سے رزق کی بارش ہو گی ۔
(لَاَکَلُوْامِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْت اَرْجُلِھِمْ)(١)
''تو وہ ہر طرح سے اﷲ کی رحمت سے مالا مال ہو ں گے ''
اگر تمام لوگ خداوند عالم کی طرف اس طرح متوجہ ہو جا تے تو وہ آسمان و زمین کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے اور رحمت الٰہی ان کے شامل حال ہو تی ۔
اے مادر گرامی آپ پر اللہ کا سلام !اے اسماعیل کی مادر گرامی آپ پر اسماعیل کی اولاد کا سلام جس کو اللہ نے نور ،ہدایت ،ایمان، نبوت عطا کی ہے اور ان کی ہدایت اور نور سے ہدایت پانے والے ہیں ۔اگر آپ اس حجاز کی سخت گرمی میں اس بے آب و گیاہ وادی میں تنہا نہ ہوتیں،اور صفا و مروہ کی پہاڑیوںکے درمیان اس مشکل مو قع پر آپ خداوند قدوس سے اس طرح لو نہ لگاتیں اور آپ دونوں پر خداوند عالم کی رحمت نازل نہ ہو تی اور اگر وہ رحمت نہ ہو تی تو آپ اللہ سے اس طرح لو نہ لگاتیں تو آپ کی صفا و مروہ کے درمیان سعی حج میں شعائر اللہ میں قرار نہ دی جا تی۔
(اِنّ الصَّفَاوَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرَاﷲِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَفَلَاجُنَاحَ عَلَیْہِ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔سورئہ مائدہ آیت٦٦۔
اَنْ یَطَّوَّفَ بِھِمَاوَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَاِنَّ اﷲَ شَاکِر عَلِیْم)(١)
''بیشک صفا و مروہ دو نوں پہا ڑیاں اﷲ کی نشانیوں میں ہیں لہٰذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کیلئے کو ئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہا ڑیوں کا چکر لگا ئے اور جو مزید خیر کرے گا خدا اس کے عمل کا قدر دان اور اس سے خوب واقف ہے ''
اے مادر گرامی! اﷲ نے اپنی یا د میں اس وقت آپ کے انہماک کو دامن تاریخ میں ثبت  کر دیا پانی کی تلاش میں آپ کی سعی اور آپ کے بچہ اسما عیل کی چیخ وپکار کے تذکر ہ کو تاریخ میں لکھ دیا تا کہ آپ کے بعد آنے والی نسلو ں کو یہ معلو م ہو جائے کہ اﷲ کی رحمت کیسے نازل ہو تی ہے اور اﷲ کی رحمت کیلئے کیسے خشوع وخضو ع کیاجاتا ہے ؟
اﷲ کی رحمت وسیع ہے اس میں نہ کسی طرح کا بخل ہے نہ نقص اور نہ ہی وہ عا جز ہے لیکن لوگ اس کی رحمت کے نازل ہو نے کے مقامات کو نہیں جا نتے نہ ہی اس سے اچھی طرح پیش آتے ہیں اور نہ ہی اس سے استفا دہ کرتے ہیں ۔
آپ نے ہم کو یہ تعلیم دی کہ اﷲ کی رحمت کو کیسے نازل کرائیں اور اﷲ کی رحمت کے ساتھ کیسے پیش آئیں اور اے بی بی ہم نے آپ سے رحمت کی کنجیاں حاصل کی ہیں ۔
اگر ہم نے آپ کی ان کنجیوں کی حفاظت نہ کی جن کو آپ نے اپنے فرزندارجمند جناب اسمٰعیل کے سپرد کیا ،اسمٰعیل کے بعد یہ کنجیا ں اسمٰعیل کی اولاد کو وراثت میں ملیں اور ہم کو آپ کے بیٹے حضرت محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ میراث میںملیں تو ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے انبیا ء علیہم السلام کی میراث اور ان کی وراثت کو ضا ئع وبرباد کردیاہے ۔
ہم نے اپنے جد ابراہیم سے اﷲ کی وحدانیت کا اقرار کر نے کی تعلیم حاصل کی اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔سورئہ بقرہ آیت١٥٨۔
اپنی ماں جناب ہاجرہ سے اﷲ سے سوال کرنے کا طریقہ سیکھاہے ۔
اگر ہم خواہشات نفسانی اور طاغوت وسر کشی میں پھنس گئے تو ہم نے اِس کو بھی ضا ئع کیا اور اُس کو بھی ضائع وبربادکردیاہے۔
اے اﷲ ہم نے اپنے جد ابراہیم اور اپنی جدہ جناب ہاجرہ کی جس میراث کو ضائع وبرباد  کر دیا اس پر تجھ سے مدد چا ہتے ہیں ۔ہم کو ان کے خا ندان میں قراردے لہٰذااے پروردگار اس میراث کی بازیابی کے سلسلہ میں ہماری مدد فر ما ،جو ہم نے ضا ئع کردی ہے اور ہم کو ان کے پیرووںمیں قرار دے اور پروردگارا ہم کو اس گھر سے اولاد ابراہیم اور اولاد عمران سے مت نکالنا ۔
(اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوْحاًوَآلَ اِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ ذُرِّیَةً بَعْضُھَامِنْ بَعْضٍ وَاﷲُ سَمِیْع عَلِیْم )(١)
''اﷲ نے آدم نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیا ہے یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اﷲ سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے ''
(رَبَّنَاوَاجْعَلْنَامُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَااُمَّةً مُسْلِمَةً وَاَرِنَامَنَاسَکِنَاوَتُبْ عَلَیْنَااِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ)(٢)
''پرور دگار ہم دونوںکو اپنا مسلمان اور فر ماں بر دار قرار دیدے اور ہما ری اولا د میں بھی ایک فر مانبر دار پیدا کر ۔ہمیں ہما رے منا سک دکھلا دے اور ہما ری تو بہ قبول فر ما کہ تو بہترین تو بہ قبول کرنے والا مہربان ہے ''
جناب اسما عیل کی مادر گرامی نے اس دن اور اس وادی میں تمام اسباب خیراخذ کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔سورئہ آل عمران آیت٣٣۔٣٤۔
٢۔سورئہ بقر ہ آیت ١٢٨۔
جن کو سعی ،دعا اور حاجت کہاجاتاہے ۔
بیشک ہماری اس مادر گرامی نے پانی کی تلاش میں سعی کی کبھی آپ صفا پہا ڑی پر پانی کی تلاش میں جاتیں اور مروہ پہاڑی پرپانی کی تلاش میں جا تیںخداوند عالم اپنے بندوںکی سعی اور عمل  کو دوست رکھتا ہے اور اس نے انھیں رزق کی اہم شرطیں قراردیا ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ اس طرح سعی کرے کہ خدا کی یاد میں منہک ہو جائے اور اسی حالت میں خدا سے لولگائے ،دعا کر ے ، تاریخ انسانیت میں ایسی مثالیں بہت ہی کم نظرآتی ہیں ۔
سعی و کو شش خدا وند عالم کی راہ میں رکا وٹ نہیں بنتی اور انسان کو اس سے الگ نہیں کر دیتی اور صرف خداوند عالم سے وابستگی بھی انسان کی سعی و کو شش کی راہ میں حا ئل نہیں ہو تی جناب ہاجرہ کی پانی کیلئے کو شش ایک عورت کی قوت امکان کی آخری منزل تھی ۔
آج یہ ہمارے حج کے مناسک میں سے ہے اور ہم ان دو نوںپہا ڑوں کے در میان بغیر کسی زحمت ،تکلیف غم اور رنج کے سات چکر لگا تے ہیں سعی کر تے ہیںجس کی بنا پر ہم تھک جا تے ہیں مشقت میں مبتلا ہو جا تے ہیں ۔
اس بزرگ بی بی نے اس سعی کی اس بے آب و گیاہ وا دی میںبنیاد رکھی جب بچہ کی پیا س پور ے عروج پر تھی اور پیاساشیر خواراپنی آخری سا نسیں لے رہا تھا لیکن اس کے با وجود پانی کی تلاش میں اس سعی کو بڑی ہمت اور عزم وا ردہ کے ساتھ قائم کیا ۔
اس کے با وجوداس سعی کے دوران ایک منٹ بھی آپ خدا کی یا دسے غافل نہ ہو ئیں یہ پوری سعی یاد الٰہی کے ساتھ تھی نہ یہ یاد خدا میں رکا وٹ تھی اور نہ سعی و کو شش میں مانع! گو یا کوشش صرف خدا وند عالم سے وابستہ تھی اور خداوند عالم سے وابستگی سعی و کو شش کے ساتھ تھی ہم میں سے اس پر کون قدرت رکھ سکتا ہے ؟
ملا ئکہ اس روز اس منظر کو دیکھتے رہے اور تعجب کر تے ر ہے کہ آ پ نے اﷲ سے کیسے لو لگائی؟ اور آپ نے پانی کی تلاش میں اس طرح کیسے سعی کی ہے؟ اور آپ نے سعی اور اﷲ سے اس طرح لو لگانے کو ایک ساتھ کیسے جمع کردیا ؟اﷲ کی بار گاہ میں کیسے تضرع کیا کہ وہ آپ کی دعا اور سعی مستجاب کر ے اور آپ کی سعی اور دعا سے اﷲ رحمت نازل کرے اوراﷲ کی رحمت اتنی قریب ہو جائے کہ آسمان کے طبق زمین پر اتر جائیں ۔
اس دن دعا اور عمل صالح زمین سے آسمان پر پہونچے اور رحمت کے ستون آسمان سے زمین پر نازل ہوئے اور ملا ئکہ نے اس بے مثال واحد منظر کا نظار ہ کیاتو اﷲ کی بار گاہ میں تضرع کرنے لگے اور وہ چیز رونما ہوئی جو ان کے دل ودماغ میںبھی نہیں آئی تھی کہ شیر خوار بچہ کے قدموں کے نیچے سے صا ف وشفاف اورگوارا پانی کا چشمہ ابل پڑا۔
پا ک وپاکیزہ ہے خداوند عالم اور تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں اس نے ہاجرہ کی سعی اور دعا کو قبول فر مایا لیکن سعی کی بنا پر نہیں بلکہ اس شیر خوار بچہ کے قدموں تلے جو اپنے ہاتھ پیروں کو اس دن کی پیاس کی بنا پر پٹخ ر ہا تھا تا کہ خداوند عالم ہاجرہ کو بتا سکے کہ خدا ہی نے ان کو یہ ٹھنڈا اور گوارا پانی اس تپتی دھوپ میں عنایت فر مایا ہے خود ہاجرہ نے اپنی سعی کے ذریعہ اس کو پیدا نہیں کیا ہے اگر چہ ہا جرہ کیلئے سعی و کو شش کرنا ضروری تھا تا کہ خداوند عالم ان کو زمزم عطا فر ما تا۔
اﷲ نے (زمرم )کو شیر خوار بچہ کے قدموں کے نیچے جاری کیا ۔اپنے بیت حرام کو اسی وادی میں قائم کیا ،زمزم میں برکت عطا کی اور ہمیشہ آنے والی نسلوں کے تمام حاجیوں کیلئے اسے سیرابی کاذریعہ قراردیا ۔اس دعا اور سعی کا تاریخ میں تذکرہ ثبت کردیا اس کو مناسک حج کی ایک نشانی قراردیا جس کو حجاج ہرسال انجام دیا کرتے ہیں جس کو مدت سے ان کی والد ہ محترم جناب ہاجرہ اور ان (انسانوں )کے پدر بزرگوار ابراہیم وا سما عیل نے ان کے لئے مہیا کیا ۔
اس وادی میں اس دن اﷲ کی رحمت نازل ہو نے کے تین اسباب ،حاجت ،سعی اور دعا جمع ہو ئے ۔حاجت یعنی ضعف اور فاقہ کا انتہا ئی درجہ ،سعی اپنے آخری و حوصلہ کے مطابق اور دعا انقطاع اوراضطرار کے اعتبار سے ہے ۔
ہم ہر سال حج میں اس منظر کی یاد کو تاز ہ و زندہ کر تے ہیں جس کی حضرت اسما عیل  کی والدہ نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ ہم اﷲ کی رحمت کیسے طلب کر یں ،کیسے اس کے فضل ورحمت کو نازل کرائیں اور ہم اس کی معرفت کیسے حاصل کریں اور اس کی بارگاہ میں کیسے پیش آئیں ۔
Labels:

Post a Comment

[blogger][facebook][disqus]

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget