تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی
|
دعا یعنی بندے کا خدا سے اپنی حا جتیں طلب کرنا ۔
دعا کی اس تعریف کی اگرتحلیل کی جا ئے تو اس کے مندرجہ ذیل چار رکن ہیں :
١۔مدعو:خدا وند تبارک و تعالیٰ۔
٢۔داعی :بندہ۔
٣۔دعا :بندے کا خدا سے ما نگنا۔
٤۔مدعو لہ:وہ حا جت اور ضرورت جو بندہ خدا وند قدوس سے طلب کر تا ہے ۔
ہم ذیل میں ان چاروں ارکان کی وضاحت کر رہے ہیں :
١۔مدعو :یعنی دعا میں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خدا وند قدوس کی ذات ہے :
١۔خداوند قدوس غنی مطلق ہے جو آسمان اورزمین کا مالک ہے جیسا کہ ارشاد ہو تا ہے :
(أَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللَّہَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ)(١)
''کیا تم نہیں جا نتے کہ آسمان و زمین کی حکو مت صرف اﷲ کیلئے ہے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ بقرہ آیت ١٠٧۔
(وَ لِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاواتِ وَالْاَرْضِ وَمَابیْنَھُمَایَخْلُقُ مَایَشَا ئُ)(١)
''اور اﷲ ہی کیلئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل حکو مت ہے ''
٢۔خداوند عالم کا خزانہ جود و عطا سے ختم نہیں ہو تا :
(اِنَّ ھَٰذَالرزْقنَامَالَہُ مِنْ نِفَاد)(٢)
''یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہو نے والا نہیں ہے ''سورئہ ص آیت ٥٤۔
(کُلّاًنُمِدُّ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلَائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَائُ رَبِّکَ مَحْظُوراً)(٣)
''ہم آپ کے پر ور دگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن سب کی مدد کر تے ہیں اور آپ کے پر ور دگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے ''
اور دعا ئے افتتاح میں وارد ہو ا ہے :''لَاتَزِیْدُہُ کَثْرَة العَطَائِ اِلَّاجُوْداًوَکَرَماً ''
''اور عطا کی کثرت سوائے جود و کرم کے اور کچھ زیا دہ نہیں کر تی ''
٣۔وہ اپنی ساحت و کبریا ئی میں کو ئی بخل نہیں کر تا ،کسی چیز کے عطا کر نے سے اس کی ملکیت کا دائرہ تنگ نہیں ہو تا ،وہ اپنے بندو ں پر اپنی مر ضی سے جو جو د و کرم کرے اس سے اس کی ملکیت میں کو ئی کمی نہیں آتی اور وہ بندوں کی حا جتوں کو قبول کر نے میں کوئی دریغ نہیں کرتا ۔
اگر کو ئی بندہ اس کو پکا رے تو وہ دعا کو مستجاب کر نے میں کسی چھو ٹے بڑے کا لحاظ نہیں کرتاہے چونکہ خود اسی کا فر مان ہے :(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )''مجھ سے دعا کرومیں قبول کرونگا''مگر یہ کہ خود بندہ دعا مستجا ب کرانے کی صلا حیت نہ رکھتا ہو ۔چو نکہ بندہ اس با ت سے آگاہ نہیں ہو تا کہ کو نسی دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ ما ئدہ آیت١٧ ۔
(٢)سورئہ ص آیت ٥٤۔
(٣) سورئہ اسرا ء آیت ٢٠۔
قبول ہو نی چا ہئے اور کو نسی دعا قبول نہیں ہو نی چا ہئے فقط خدا وند عالم اس چیز سے واقف ہے کہ بندے کیلئے کونسی دعاقبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے اور کو نسی قبولیت کی صلا حیت نہیں رکھتی جیساکہ دعا ئے افتتاح میں آیا ہے :
(وَلَعَلَّ الَّذِیْ اَبْطَأْعَنّیْ ھُوَخَیْرلِیْ لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَةِ الْاُمُوْرِ،فَلَمْ اَرَمَوْلیً کَرِیْماًاَصْبِرْعَلَیٰ عَبْدٍلَئِیْمٍ مِنْکَ عَلََّ)
''حالانکہ توجانتا ہے کہ میرے لئے خیر اس تاخیر میںہے اس لئے کہ تو امور کے انجا م سے باخبرہے میں نے تیرے جیساکریم مولا نہیں دیکھا ہے جو مجھ جیسے ذلیل بندے کوبرداشت کرسکے ''
٢۔داعی :(دعا کر نے والا )
بندہ ہر چیز کا محتاج ہے یہا ں تک کہ اپنی حفا ظت کر نے میں بھی وہ اﷲ کا محتا ج ہے ارشاد ہو تا ہے :
(یَٰأَیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَائُ اِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ)(١)
''انسانوں تم سب اﷲ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اﷲ صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ''
(وَاللَّہُ الغَنُِّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَائُ)(٢)
''خدا سب سے بے نیاز ہے اور تم سب اس کے فقیر اور محتاج ہو ''
انسان کے پاس اپنے فقر سے بہتر اور کو ئی چیز نہیں ہے جو اس کی بار گاہ میں پیش کر سکے۔ اور اﷲ کی بارگاہ میں اپنے کو فقیر بنا کر پیش کر نے سے اس کی رحمتوں کا نزول ہو تا ہے۔
اور جتنا بھی انسان اﷲ کی بارگاہ کا فقیر رہے گا اتنا ہی اﷲ کی رحمت سے قریب رہے گا اور اگر وہ تکبر کر ے گا اور اپنی حا جت و ضرورت کو اس کے سا منے پیش نہیں کر ے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فاطر آیت ١٥
(٢)سورئہ محمد آیت ٣٨۔
دور ہو تا جا ئے گا ۔
٣۔ دعا :(طلب ،چا ہت، مانگنا)
انسان جتنا بھی گڑ گڑا کر دعا ما نگے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے قریب ہو تا جا ئے گا ۔انسا ن کے مضطر ہو نے کی سب سے ادنیٰ منزل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اختیارات کا مالک خدا کو سمجھے یعنی خدا کے علا وہ کو ئی اس کی دعا قبول نہیں کر سکتا ہے اور مضطر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دو سرا کو ئی اختیار نہ رہے یعنی اگر کو ئی اختیار ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کا اختیار ہے اور اس کے علا وہ کو ئی اختیار نہیں ہے جب ایسا ہوگا تو انسان اپنے کو اﷲ کی بارگاہ میںنہایت مضطر محسوس کرے گا ۔۔۔اور اسی وقت انسان اﷲ کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہو گا:
(أَ مّنَّ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ) (١)
''بھلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کوآوازدیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کر دیتا ہے ''
مضطر کی دعا اور اﷲ کی طرف سے اس کی قبولیت کے درمیان کو ئی فاصلہ نہیں ہے اور دعا میں اس اضطرار اورچاہت کا مطلب خدا کے علاوہ دنیا اور ما فیہا سے قطع تعلق کر لینا اور صرف اور صرف اسی سے لو لگاناہے اس کے علا وہ غیرخدا سے طلب ا ور دعا نہیںہو سکتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعا انسان کو کو شش اور عمل کر نے سے بے نیاز کر دیتی ہے ،جس طرح کوشش اور عمل، دعا کر نے والے کو اﷲ سے دعا کرنے سے بے نیاز نہیں کر تے ہیں۔
٤۔مد عوّلہ ( جس کے لئے یاجو طلب کیا جا ئے؟ )
انسا ن کو خدا وند قدوس سے اپنی چھو ٹی سے چھو ٹی اور بڑی سے بڑی تمام جا جتیں طلب کر نا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ النمل آیت ٦٢۔
چاہئیں خدا اس کی حا جتوں کو پورا کر نے سے عا جز نہیں ہو تا اور نہ اس کے ملک و سلطنت میں کو ئی کمی آتی ہے ،اور نہ ہی بخل اس کی ساحتِ کبریا ئی سے ساز گار ہے ۔
انسا ن کیلئے خدا وند عالم سے اپنی چھو ٹی سے چھوٹی حاجت طلب کر نے میں بھی کو ئی حرج نہیں ہے (یہاں تک کہ وہ اپنے لئے جوتی ،جانوروں کیلئے چارا اور اپنے آٹے کیلئے نمک بھی ما نگ سکتا ہے ) جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ خدا وند عالم چھوٹی بڑی حا جتوں کو پورا کر کے اپنے بندے کو ہمیشہ اپنے سے لو لگانے کو دوست رکھتا ہے ۔نہ چھوٹی دعا ئیں، اور نہ ہی بڑی حاجتیں ہو نے کی وجہ سے خداوند عالم اپنے اور بندوں کے درمیان پردہ ڈالتا ہے ۔خدا وند عالم تو ہمیشہ اپنے بندوں کی چھو ٹی اور بڑی تمام حاجتوں کو پورا کر تا ہے اور اپنے بندے کے دل کو ہر حال میں اپنی طرف متوجہ کرنا چا ہتا ہے ۔
انسان اور خدا کے درمیان دعا اور حاجت کے مثل کوئی چیز واسطہ نہیں بن سکتی ہے ۔دعا کے یہی چار ارکان ہیں ۔
دعاکی قدر و قیمت
(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِ نَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ )(١)
''اور تمہا رے پر ور دگار کا ارشاد ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
دعا یعنی بندے کا اپنے کو اﷲ کے سامنے پیش کرنا اور یہی پیش کرنا ہی روح عبادت ہے اور عبادت انسان کی غرض خلقت ہے۔
یہی تینوں باتیں ہما ری دعاؤں کی قدر وقیمت کو مجسم کر تی ہیں ،دعا کی حقیقت کو واضح کر تی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مومن آیت ٦٠۔
ہیں ،ہم اپنی بحث کا آغاز تیسری بات سے کر تے ہیں اس کے بعد دوسرے مطلب کو بیان کر نے کے بعد پھر پہلی بات بیان کریں گے ۔
قرآن کریم نے صاف طور پر یہ بیان کیا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ)(١)
''اور میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگراپنی عبادت کے لئے ''
اسی آخری نقطہ کی دین اسلام میں بڑی اہمیت ہے ۔
اور عبادت کی قدروقیمت یہ ہے کہ یہ انسان کو اسکے رب سے مربوط کر دیتی ہے ۔
عبادت میں اﷲ سے قصد قربت اس کے محقق ہو نے کیلئے اصلی اور جوہر ی امر ہے اور بغیر جو ہر کے عبا دت ،عبادت نہیں ہے ،عبادت اصل میں اﷲ کی طرف حرکت ہے،اپنے کو اﷲ کی بارگاہ میں پیش کر نا ہے۔
اور یہ دوسری حقیقت پہلی حقیقت کی وضا حت کر تی ہے ۔
اور پہلی حقیقت انسان کا اﷲ کی طرف متوجہ ہونا اﷲ سے براہ راست مستحکم رابطہ ہے ۔۔اور عبادات میں دعا کے علاوہ کو ئی عبادت ایسی نہیں ہے جو اس سے زیادہ انسان کو اﷲ سے قریب کرسکتی ہو
سیف تمار سے مر وی ہے :میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فر ما تے سنا ہے:
(علیکم بالدعاء فانکم لاتتقربون بمثلہ)(١)
''تم دعا کیا کرو خدا سے قریب کر نے میں اس سے بہتر کو ئی چیز نہیں ہے ''
جب بھی انسان کی حا جت اﷲ کی طرف عظیم ہوگی اور وہ اﷲ کا زیادہ محتاج ہوگا اور اس کی طرف وہ زیادہ مضطرہوگاتووہ اتناہی دعاکے ذریعہ اﷲکی طرف زیادہ متوجہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ ذاریات آیت ٥٦۔
(٢)بحار الا نوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣۔
انسان کے اندر اﷲ کی نسبت زیادہ محتاجی کا احساس اور اس کی طرف زیادہ مضطر ہو نے اور دعا کے ذریعہ اس کی بارگاہ میں ہو نے کے درمیان رابطہ طبیعی ہے ۔بیشک ضرورت اور اضطرار کے وقت انسان اﷲ کی پناہ ما نگتا ہے جتنی زیادہ ضرورت ہو گی اتنا ہی انسان اﷲ کی طرف متوجہ ہوگا اور اس
کے بر عکس بھی ایسا ہی ہے یعنی جتنا انسان اپنے کو بے نیاز محسوس کرے گا خدا سے دور ہو تا جا ئیگا۔
اﷲ تعالیٰ فر ماتا ہے :
(کَلَّااِنَّ الِانْسَانَ لَیَطْغیٰ٭اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنیٰ)(١)
''بیشک انسان سر کشی کرتا ہے جب وہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے ''
بیشک انسان جتنا اپنے کو غنی سمجھتا ہے اتنا ہی وہ اﷲ سے روگردانی کرتا ہے اور سرکشی کرتا ہے اور جتنا اپنے کو فقیر محسوس کرتا ہے اتنا ہی اﷲ سے لو لگاتا ہے ۔قرآن کی تعبیر بہت دقیق ہے :
(أَنْ رَاٰہُ اسْتَغْنیٰ)انسان اﷲ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا بلکہ انسان اﷲ کا محتاج ہے :
(یَااَیُّھاالنَّاسُ اَنْتُمْ الْفُقَرَائُ اِلَی اﷲِ وَاﷲُ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ)(٢)
''انسانوں تم سب اﷲ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اﷲ صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ''
لیکن انسان اپنے کو مستغنی سمجھتا ہے ،انسان کا غرور صرف خیالی ہے ۔
جب انسان اپنے کو اﷲ سے بے نیاز دیکھتا ہے تو اس سے روگردانی کر تا ہے اور سرکش ہوجاتا ہے ۔
جب اس کو نقصان پہنچتا ہے اور اﷲ کی طرف اپنے مضطر ہو نے کا احساس کر تا ہے تو پلٹ جاتا ہے اور خدا کے سا منے سر جھکا دیتا ہے ۔
معلوم ہوا کہ اﷲ کے سامنے سر جھکا دینے کا نام حقیقت دعا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ علق آیت ٦۔٧۔
(٢)سورئہ فاطر آیت ١٥۔
جو اﷲ سے دعا کر تا ہے اور اس کے سا منے گڑگڑاتا ہے تو اﷲ بھی اس کی دعا قبول کر تا ہے ۔
اﷲ کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے لو لگانا ہی دعا کی حقیقت، اسکا جوہر اور اس کی قیمت ہے۔
قرآن کریم میںخدا کی بارگاہ میں حاضری کے چار مرحلے
خدا وند عالم نے اپنی بارگاہ میں حاضری کیلئے اپنے بندوں کے سامنے چار راستے رکھے ہیںجن میں دعا سب سے اہم راستہ ہے ان چاروں راستوں کا قر آن و سنت میں تذکرہ ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :انسان کے لئے چار چیزیں انجام دینا اس کے حق میں مفید ہے اور اس میں اس کا کو ئی نقصان نہیں ہے :ایک ایمان اور دوسرے شکر ،خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :
(مَایَفْعَل اﷲُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ )(١)
''خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا اگر تم اس کے شکر گزار اور صاحب ایمان بن جا ؤ''
تیسرے استغفار خداوند عالم ارشاد فر ماتا ہے :
(وَمَاکَانَ اﷲُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَاکَانَ اﷲُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ) (٢)
''حا لانکہ اﷲ ان پر اس وقت تک عذاب نہیں کرے گا جب تک ''پیغمبر ''آپ ان کے درمیان ہیں اور خدا ان پر عذاب کر نے والا نہیں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کر نے والے ہو جا ئیں ''
چوتھے دعا، خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ )(٣)
''پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئیں نہ ہو تیں تو پرور دگار تمہاری پروا ہ بھی نہ کرتا ''
معاویہ بن وہب نے حضرت امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایاہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نساء آیت١٤٧۔
(٢)سورئہ انفال آیت ٣٣۔
(٣)سورئہ فرقان آیت ٧٧،بحار الا نوار جلد ٩٣صفحہ ٢٩١۔
''یامعاویة !من اُعطیَ ثلاثة لم یُحرم ثلاثة:من اُعطی الدعاء اُعطی الاجابة،ومن اُعطی الشکراُعطی الزیادة،ومن اُعطی التوکل اُعطی الکفایة :فانّ اللّٰہ تعالیٰ یقول فی کتابہ:(وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلی اﷲِ فَھُوَحَسْبُہ )(١)
ویقول:(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَ نَّکُمْ )(٢)
ویقول:(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )(٣)
''اے معا ویہ !جس کو تین چیزیں عطا کی گئیں وہ تین چیزوں سے محروم نہیں ہوگا :جس کو دعا عطا کی گئی وہ قبول بھی کی جا ئیگی ،جس کو شکر عطا کیا گیا اس کے رزق میں برکت بھی ہو گی اور جس کو توکل عطا کیا گیا وہ اس کے لئے کا فی ہو گا اس لئے کہ خدا وند عالم قر آن کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :
(وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلی اﷲِ فَھُوَحَسْبُہ )
''اور جو خدا پر بھروسہ کر ے گا خدا اس کے لئے کا فی ہے ''
(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ )
''اگر تم ہمارا شکریہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کر دیں گے''
(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا ''
عبد اﷲ بن ولید وصافی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ کا فرمان ہے :
''ثلاث لایضرمعھن شیٔ:الدعاء عند الکربات،والاستغفارعندالذنب،و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ طلاق آیت٣۔
(٢) سورئہ ابراہیم آیت٧۔
(٣)سورئہ غافر آیت٦٠،خصال صدوق جلد ١ صفحہ ٥٠،المحاسن للبرقی صفحہ ٣،الکافی جلد ٢ صفحہ ٦٥۔
الشکرعندالنعمة''(١)
''تین چیزوں کے ساتھ کوئی چیزضرر نہیں پہنچا سکتی ہے :بے چینی میں دعا کرنا ،گناہ کے وقت استغفار کرنا اور نعمت کے وقت خدا کا شکر ادا کرنا ''
اﷲ سے لو لگانے کے یہی ذرائع ہیں اور اﷲ سے لو لگانے کے بہت زیادہ ذرائع ہیں جیسے توبہ، خوف و خشیت ،اﷲ سے محبت اور شوق ،امید ،شکر اور استغفار وغیرہ۔
انسان پر اﷲ سے لو لگانے کے لئے اس طرح کے مختلف راستوں کااختیار کرنا ضروری ہے اور اسلام خدا سے رابطہ رکھنے کے لئے صرف ایک راستہ ہی کو کافی نہیں جانتاہے ۔
خدا سے رابطہ کرنے اور اس کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کر نے کا سب سے اہم وسیلہ دعا ہے
کیونکہ فقر اور نیاز مندوں سے زیادہ اور کو ئی چیز انسان کو خدا کی طرف نہیں پہونچا سکتی ہے
پس دعا خدا وند عالم سے رابطے اور لو لگا نے کا سب سے وسیع باب ہے ۔
حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(الحمدﷲالذی اُنادیہ کلماشئت لحاجت واخلوبہ حیث شئت لسّر بغیرشفیع فیقض ل حاجت)
''تمام تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں جس کو میں آواز دیتا ہوں جب اپنی حا جتیں چا ہتا ہوں اور جس کے ساتھ خلوت کرتا ہوں جب جب اپنے لئے کو ئی رازدار چا ہتا ہوں یعنی سفارش کرنے والے کی حاجت کو پوری کرتا ہے ''
دعا ،روح عبادت ہے
دعا عبادت کی روح ہے ؛انسان کی خلقت کی غرض عبادت ہے ؛اور عبادت کر نے کی غرض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أمالی شیخ طوسی صفحہ ١٢٧۔
خدا وند عالم سے شدید رابطہ کرنا ہے ؛اوریہ رابطہ دعا کے ذریعہ ہی محقق ہوتا ہے اور اس کے وسائل وسیع اور قوی ہوتے ہیں :
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
(الدعاء مخ العبادة ؛ولایھلک مع الدعاء احد )(١)
دعا عبادت کی روح ہے اور دعا کر نے سے کو ئی بھی ہلاک نہیں ہوتا ہے ''
اور یہ بھی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فر مان ہے :
(افزعواالی اللّٰہ فی حوائجکم،والجأواالیہ فی ملمّاتکم،وتضرّعوا الیہ،وادعوہ؛فنّ الدعاء مخ العبادة ومامن مؤمن یدعوااللّٰہ الّااستجاب،فمّاان یُعجّلہ لہ فی الدنیاأویُؤجّل لہ فی الآخرة ،واِمّاأَن یُکفّرعنہ من ذنوبہ بقدرمادعا؛ما لم یدع بمأثم )(٢)
تم خدا کی بارگاہ میں اپنی حا جتوں کو نالہ و فریاد کے ذریعہ پیش کرو ،مشکلوں میں اسی کی پناہ مانگو،اس کے سامنے گڑگڑاؤ،اسی سے دعا کرو ،بیشک دعا عبادت کی روح ہے اور کسی مومن نے دعا نہیں کی مگر یہ کہ اس کی دعا ضرور قبول ہو ئی ،یا تو اسکی دنیا ہی میں جلدی دعا قبول کر لیتا ہے یا اس کو آخرت میں قبول کرے گا،یا بندہ جتنی دعاکرتاہے اتنی مقدارمیںہی اسکے گناہوںکوختم کردیتا ہے۔
گویا روایت ہم کو خدا وند عالم سے دعا کرنے اور ہم کو اس کی بارگاہ میں پیش ہو نے کا طریقہ سکھاتی ہیں ۔
ان فقرات :(افزعواالی اﷲفی حوائجکم )''اپنی حا جتیں خدا کی بارگاہ میں پیش کرو ''(والجاؤاالیہ فی ملمّاتکم)''مشکلوں میں اسی کی پناہ مانگو''(وتضرّعواالیہ)''اسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٣٠٠۔
(٢)بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٣٠٢۔
کی بارگاہ میں گڑگڑاؤ''کے سلسلہ میں غور وفکر کریں ۔
اور دوسری روایت میں حضرت رسول خدا فر ماتے ہیں :
(الدعاء سلاح المؤمن وعمادالدین )(١)
''دعا مو من کا ہتھیار اور دین کا ستون ہے ''
بیشک دعا دین کا ستون ہے اور اس کا مطلب اﷲ کی طرف حرکت کرنا ہے اور اﷲ کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کرنے کا نام دعا ہے ۔
اور جب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ میں پیش کر نے کا نام دعا ہے تو دعا خدا وندعالم کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے اکرم چیز ہے ۔
حضرت رسول خدا ۖ فرما تے ہیں :
(مامن شی ء اکرم علیٰ اللّٰہ تعالیٰ من الدعاء )(٢)
''خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اکرم چیز دعا ہے ''
حنان بن سدیر اپنے پدر بزرگوار سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقر کی خدمت اقدس میں عرض کیا :
''ای العبادةافضل؟فقال:''مامن شیٔ أحبّ الیٰ اللّٰہ من أن یُسأل ویُطلب مماعندہ،ومااحدابغض الیٰ اللّٰہ عزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادتہ ولایسأل مما عندہ'' ( ٣)
''کونسی عبادت سب سے افضل ہے ؟تو آپ (امام )نے فرمایا: خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور خدا وند عالم کے نزدیک سب سے مبغوض ترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٢٨٨۔
(٢)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١١۔
(٣)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١١۔اور محاسن بر قی صفحہ ٢٩٢۔
شخص وہ ہے جو عبادت کرنے پر غرور کرتا ہے اور خداوند عالم سے کچھ طلب نہیں کرتا ''
بدھ کے دن پڑھی جانے والی دعا میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام فر ما تے ہیں :
(الحمدﷲالذی مرضاتہ فی الطلب الیہ،والتماس مالدیہ وسخطہ فی ترک الالحاح فی المسألة علیہ)(١)
دعا ء کمیل میں فر ما تے ہیں :
''فَاِنَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبَادِکَ بِعِبَادَتِکَ وَاَمَرْتَھُمْ بِدُعَائِکَ وَضَمِنْتَ لَھُمُ الِاجَابَة،فَاِلَیْکَ یَارَبِّ نَصَبْتُ وَجْھِیْ وَاِلَیْکَ یَارَبِّ مَدَدْتُ یَدِیْ۔۔۔''
''اس لئے کہ تو نے اپنے بندوں کے با رے میں طے کیا ہے کہ وہ تیری عبادت کریں اور تو نے اپنے سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور تو اس کے قبول کرنے کا ضامن ہے پس اے خدا !میں نے تیری ہی طرف لو لگا ئی ہے اور اے پروردگار تیری ہی جانب اپنے ہاتھ پھیلائے ہیں ''
دعا سے رو گردانی ، خدا وندعالم سے روگردانی ہے
خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :
(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(٢)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جو میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
اس آیۂ کریمہ میں عبادت سے استکبار کرنا دعا سے روگردانی کرنا ہے ،پس سیاق آیت دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)دعا یوم الاربعائ۔
(٢)سورئہ مومن آیت٦٠۔
کر نے کی دعوت دے رہا ہے ۔خداوند عالم فر ماتا ہے :
(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )
''مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا''
اور اس کے بعد فوراً فرماتا ہے :
(اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(١)
''اور یقیناجو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''۔
اس آیۂ کریمہ میں دعا سے اعراض کرنا عبادت نہ کرنے کے مترادف ہے اس لئے کہ یہ اﷲ سے روگردانی کرنا ہے ۔
اور اس آیت کی تفسیر میں یہی معنی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کئے گئے ہیں :
(ھی واﷲ العبادة،ھی واﷲ العبادة)
''خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ،خدا کی قسم یہی عبا دت ہے ''۔
حماد بن عیسیٰ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''انّ الدعاء ھوالعبادة؛انّ اللّٰہ عزّوجلّ یقول:( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)(٢)
''بیشک دعا سے مراد عبادت ہے اور خداوند عالم فرماتا ہے :( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ)
''اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا اور یقیناً جولوگ میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مومن آیت٦٠۔
(٢) وسا ئل الشیعہ جلد ٤ صفحہ ١٠٨٣۔
عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ''
اور اﷲ کے نزدیک دعا اور دعا کی مقدار کے علاوہ انسان کی کو ئی قیمت و ارزش نہیں ہے اور خدا وند عالم اپنے بندے کی اتنی ہی پروا ہ کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے اور اس کو قبول کرتا ہے :
(قُلْ مَایَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ )(١)
''پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہو تیں تو پرور دگار تمہاری پر وا بھی نہ کرتا ''
بیشک دعا خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کر نے کے مساوی ہے جیسا کہ دعا سے اعراض(منھ موڑنا) کرنا اﷲ سے اعراض کرنا ہے ۔
اور جو اﷲ سے منھ مو ڑتا ہے تو خدا وند عالم بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا ،اور نہ ہی اﷲ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت ہے ۔
حضرت امام باقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
(ومااحد ابغض الی اﷲعزّوجلّ ممن یستکبرعن عبادتہ،ولایسأل ما عندہ)(٢)
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
(لتسألنَّ اﷲ أولیغضبنّ علیکم،انّﷲعبادایعملون فیعطیھم ،وآخرین یسألُونہ صادقین فیعطیھم ثم یجمعھُم فی الجنة،فیقول الذین عملوا:ربناعملنا فاعطیتنا،فبمااعطیت ھؤلائ؟فیقول:ھؤلاء عباد اعطیتکم اجورکم ولم التکم من اعمالکم شیئا،وسألن ھؤلاء فاعطیتھم واغنیتھم،وھوفضل اوتیہ مَنْ أشائ) (٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فرقان آیت٦٠
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤ :صفحہ ١٠٨٤،حدیث ٨٦٠٤۔
(٣) وسا ئل الشیعہ جلد ٤ :صفحہ ١٠٨٤حدیث ٨٦٠٩۔
بیشک اﷲ اپنے بندے کی دعا کا مشتاق ہے
جب بندہ خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کیلئے حاضرہوتا ہے تو اﷲ اس سے محبت کرتا ہے ۔
اور جب بندہ اﷲ سے روگردانی کرتا ہے تو خدا بھی اسے پسندنہیں کرتا ہے ۔
کبھی کبھی خدا وند عالم اپنے مومن بندے کی دعا مستجاب کرنے میں اس لئے دیر لگا دیتا ہے تاکہ وہ دیر تک اس کی بارگاہ میں کھڑا رہے اوراس سے دعا کرکے گڑگڑاتا رہے۔کیونکہ اسے اپنے بندے کا گڑگڑانابھی پسند ہے اسی لئے وہ دعا اور مناجات کا مشتاق رہتا ہے ۔
عالم آل محمد یعنی امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ اللّٰہ عزّوجلّ لیؤخّراجابة المؤمن شوقاًالیٰ دعائہ ویقول:صوتاً احبّ أن اسمعہ۔ویعجّل جابة دعاء المنافق،ویقول:صوتاً اکرہ سماعہ)(١)
''خداوند عالم مومن کی دعا کے شوق میں اس کی دعاکودیر سے مستجاب کرتاہے اور کہتا ہے : مجھے یہ آواز پسندہے اورمنافق کی دعاجلدقبول کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ مجھے اس کی آواز پسند نہیں ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(أکثروا من أن تدعوااللّٰہ،فنّ اللّٰہ یحبّ من عبادہ المؤمنین أن یدعوہ، وقد وعد عبادہ المؤمنین الاستجابة)(٢)
''تم خدا وند عالم سے بہت زیادہ دعائیں کرو بیشک اﷲ کویہ پسند ہے کہ اس کے مومن بندے اس سے دعائیں کریں اور اس نے اپنے مومن بندوں کی دعا قبول کر نے کا وعدہ کیا ہے''
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار جلد ٩٧صفحہ ٢٩٦۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤:صفحہ ١٠٨٦،حدیث ٨٦١٦۔
(احبّ الأعمال لیٰ اللّٰہ عزّوجلّ فی الأرض:الدعاء )(١)
''زمین پر اﷲ کا سب سے پسندیدہ عمل:دعا ہے ''
حضرت امام محمدباقر علیہ السلام سے مروی ہے :
(نّ المؤمن یسأل اللّٰہ عزّوجلّ حاجة فیؤخرعنہ تعجیل اجابتہ حّباً لصوتہ واستماع نحیبہ )(٢)
''بیشک جب کوئی مو من اﷲ عز و جل سے کو ئی سوال کرتا ہے تو خدا وندعالم اس مومن کی دعا کی قبولیت میں اس کی آوازکو دوست رکھنے اور سننے کی خاطرتاخیر کرتا ہے ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ العبد لید عوفیقول اﷲ عزّوجلّ للملکین:قداستجبت لہ،ولکن احبسوہ بحاجتہ،فانّی اُحبّ ان اسمع صوتہ،وانّ العبدلیدعوفیقول اﷲ تبارک وتعالیٰ:عجلوا لہ حاجتہ فانی ابغض صوتہ)(٣)
''جب ایک بندہ خدا وند عز وجل سے دعا مانگتا ہے تو خداوند عالم دو فرشتوں سے کہتا ہے: میں نے اس کی دعا قبول کر لی ہے لیکن تم اس کواس کی حاجت کے ساتھ قید کرلو ،چونکہ مجھے اس کی آواز پسند ہے ،اور جب ایک بندہ دعا کرتا ہے تو خداوندعالم کہتا ہے :اس کی حاجت روا ئی میں جلدی کرو چونکہ مجھے اس کی آواز پسندنہیں ہے ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ العبد الولی ﷲ لیدعواﷲ عزّوجلّ فی الامرینوبہ،فیُقال للملک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ ١٠٨٩،حدیث ٨٦٣٩۔
(٢)قرب الاسناد صفحہ ١٧١،اصول کافی صفحہ ٥٢٦۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ ١١١٢،حدیث ٨٧٣١،اصول کافی جلد٢،صفحہ ٥٢٦۔
الموکل بہ:اقض لعبد حاجتہ،ولاتُعجّلھافانّ اشتھی ان اسمع صوتہ ونداء ہ وانّ العبدالعدوﷲ عزّوجلّ یدعواﷲ عزّوجلّ فی الامرینوبہ،فیُقال للملک الموکل بہ:اقض حاجتہ،وعجّلھافانّ اکرہ ان اسمع صوتہ وندائہ )(١)
''اﷲ کو دوست رکھنے والا بندہ دعا کرتے وقت اﷲ کو اپنے امر میں اپنا نائب بنا دیتا ہے تو خدا وندعالم اس بندے پر موکل فرشتو ں سے کہتا ہے :میرے اس بندے کی حاجت قبول کرلو مگر اسے پوری کرنے میں ابھی جلدی نہ کرنا چونکہ میں اس کی آواز سننے کو دوست رکھتا ہوں اورجب اﷲکا دشمن بندہ اﷲ سے دعا کرتے وقت اس کو اپنے کسی کام میںاپنا نائب بنانا چاہتا ہے تو خدا وند عالم اس بندے پر مو کل فرشتوں سے کہتا ہے اس کی حاجت کو پورا کرنے میں جلدی کرو اس لئے کہ میں اس کی آواز سننا پسندنہیں کرتا ہوں ''
خداوند عالم کو ہر گز یہ پسند نہیں ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے سے سوال کریں بلکہ اگروہ اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیںتواس کو یہی پسند ہے لیکن اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنی بارگاہ میں مومنین کے سوال کوپسندکرتا ہے اور اپنے سامنے ان کے گریہ و زاری اور دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ۔
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
(انّ اﷲ احبّ شیئاًلنفسہ وابغضہ لخلقہ،ابغض لخلقہ المسألة،واحبّ لنفسہ ان یُسأل،ولیس شیء احبّ الیٰ اﷲ عزّوجلّ من ان یُسأل،فلایستح احدکم من ان یسأل اﷲ من فضلہ،ولوشسع نعل )(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٢٧،وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ ١١١٢،حدیث ٨٧٣٢۔
(٢)فرو ع الکافی جلد ١ صفحہ ١٩٦،من لا یحضر ہ الفقیہ جلد ١ صفحہ ٢٣۔
''خدا وند عالم ایک چیز اپنے لئے پسندکرتا ہے لیکن اس کو مخلوق کیلئے پسند نہیں کرتا ،وہ اپنے لئے اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور اﷲ کے نزدیک اس سے سوال کر نے کے علا وہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے پس تم میں سے کو ئی اﷲ سے اس کے فضل کاسوال کرنے میں شرم نہ کرے اگر چہ وہ جو تے کے تسمے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ اللّٰہ یحبّ العبد أن یطلب الیہ ف الجرم العظیم،ویبغض العبد أن یستخفّ بالجرم الیسیر )(١)
''اﷲ بندے کی اس بات کو پسندکرتا ہے کہ وہ اس کو بڑے جرم میں پکارے اور اس بات سے ناراض ہو تا ہے کہ وہ اس کو چھوٹے جرم میںنہ پکارے''
محمد بن عجلان سے مروی ہے کہ :(اصابتن فاقة شدیدة واضاقة،ولاصدیق لمضیق ولزمن دین ثقیل وعظیم ،یلحّ ف المطالبة،فتوجّھت نحودارالحسن بن زید۔وھویومئذأمیرالمدینة۔لمعرفة کانت بینی وبینہ،وشعربذلک من حال محمد بن عبد اللّٰہ بن عل بن الحسین علیہ السلام،وکان بینی وبینہ قدیم معرفة،فلقینی فی الطریق فأخذ بید وقال:قد بلغن ماأنت بسبیلہ،فمن تؤمّل لکشف مانزل بک؟
قلت:الحسن بن زید۔فقال اذن لایقض حاجتک،ولاتسعف بطلبتک، فعلیک بمن یقدرعلی ذلک،وھواجودالاجودین،فالتمس ماتؤمّلہ من قبلہ،فنّ سمعت ابن عم جعفربن محمد یُحدّث عن ابیہ،عن جدہ،عن ابیہ الحسین بن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)المحا سن للبرقی صفحہ ٢٩٣،بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٢۔
عل،عن ابیہ عل بن ابیطالب علیہ السلام عن النب ۖقال:اوحیٰ اللّٰہ الیٰ بعض انبیائہ فی بعض وحیہ:وعزّت وجلال لأقطعن أمل کل آمل امّل غیر بالیاس،ولأکسونّہ ثوب المذلّة فی الناس،ولأبعدنّہ من فَرَجِ وفضلی،أیأمل عبد فی الشدائدغیر والشدائدبید؟ویرجو سوا واناالغن الجواد؟بید مفاتیح الابواب وھی مغلقة،وباب مفتوح لمن دعان۔
الم تعلمواانّ من دھاہ نائبة لم یملک کشفھاعنہ غیری،فمالی أراہ یأملہ معرضا عن وقد اعطیتہ بجود وکرم مالم یسألن؟
فأعْرَضَ عن،ولم یسألن،وسأل فی نائبتہ غیر،وأنااللّٰہ ابتدیٔ بالعطیة قبل المسألة ۔
أفاُسأل فلا أجُوَد؟کلّا۔ألیس الجود والکرم ل ؟ألیس الدنیاوالآخرة بید؟فلوانّ اھل سبع سماوات وارضین سألون جمیعاواعطیت کل واحد منھم مسألتہ مانقص ذلک من ملک مثل جناح البعوضة،وکیف ینقص مُلْک أناقیّمہ فیابؤسا لمن عصان،ولم یراقبن۔
فقلت لہ:یابن رسول اللّٰہ،أعدعلّھذاالحدیث،فأعادہ ثلاثاً،فقلت:لا واللّٰہ ماسألت احدا بعدھاحاجة ۔فمالبث أن جائَ ن اللّٰہ برزق من عندہ )(١)
''میں شدید فقر و فاقہ کی زندگی گزار رہا تھا، میری تنگدستی کو دور کرنے والا بھی کو ئی میرا ساتھی نہیں تھا اور مجھ پر دین کی اطاعت بڑی مشکل ہو گئی تھی اور میں اپنی ضروریات زندگی کیلئے چیخ اور چلارہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٣۔٣٠٤۔
تھاتو میںنے اس وقت اپنا وظیفہ معلوم کر نے کے لئے حسن بن زید (جو اس وقت مدینہ کے امیر وحاکم تھے) کے گھر کا رخ کیا اور ان تک میرے حالات کی خبر میرے قدیمی ہمنشین محمد بن عبد اﷲ بن علی بن الحسین علیہ السلام نے پہنچا ئی ،میری ان سے راستہ میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا :مجھ کو تمہا رے حالات کے بارے میں خبر ملی ہے میں تمہا رے بارے میں نا زل ہو نے والی مشکلات کے بارے میں سوچ رہا ہوں ؟
میں نے کہا :حسن بن زید ،اس نے کہا تمہاری حاجت پوری نہیں ہوگی اور تم اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتے تم ایسے شخص کے پاس جا ئو جو تمہاری حاجت روائی کی قدرت رکھتا ہے اور تمام سخا وت کرنے والوں سے زیادہ سخی ہے اپنی مشکلات کیلئے ان کے پاس جائو اس لئے کہ میں نے سنا ہے کہ میرے چچازاد بھا ئی جعفر بن محمد علیہما السلام نے اپنے والد کے ذریعہ اپنے جد سے پھر ان کے والد سے حسین بن علی علیہما السلام سے انھوں نے اپنے والد علی بن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے :خداوند عالم نے اپنے بعض انبیاء علیہم السلام کی طرف وحی نا زل کی کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے میں ہر اس شخص کی امید ما یو سی میں بدل دو نگا جو میرے علا وہ کسی اور سے امید لگا ئے گا ،اسے ذلت کا لباس پہنا ئوں گا اور اسے اپنے فضل و کرم سے دور کر دونگا ۔کیا میرا بندہ مشکلات میںمیرے علاوہ کسی اور سے امید کرتا ہے حالانکہ میں غنی جواد ہوں؟ تمام ابواب کی کنجی میرے ہاتھ میں ہے حالانکہ تمام دروازے بند ہیں اور مجھ سے دعا کرنے والے کیلئے میرا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔
کیا تم نہیں جانتے کہ جس کو کو ئی مشکل پیش آئے اس کی مشکل کو میرے علا وہ کو ئی اور دور نہیں کر سکتاتو میں اس کو غیر سے امید رکھتے ہوئے اور خود سے رو گردانی کرتے ہو ئے دیکھتا ہوں جبکہ میں نے اپنی سخا وت اور کرم کے ذریعہ وہ چیزیں عطا کی ہیں جن کا اس نے مجھ سے مطالبہ نہیں کیا ہے ؟
لیکن اس نے مجھ سے رو گردانی کی اور طلب نہیں کیا بلکہ اپنی مشکل میں دو سروں سے ما نگا جبکہ میں ایسا خدا ہوں جو ما نگنے سے پہلے ہی دیدیتا ہوں۔
توکیاایسا ہو سکتا ہے کہ مجھ سے سوال کیا جائے اور میں جود و کرم نہ کروں ؟ایساہر گز نہیں ہو سکتا۔کیا جود و کرم میرے نہیں ہیں ؟کیا دنیا اور آخرت میرے ہاتھ میں نہیں ہیں ؟اگرسات زمین اور آسمان کے لوگ سب مل کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ایک کی ضرورت کے مطابق اس کو عطا کردوں تو بھی میری ملکیت میں ایک مچھرکے پَر کے برابر بھی کمی نہیں آئیگی اور کیسے کمی آبھی سکتی ہے جس کا ذمہ دار میں ہوں ،لہٰذا میری مخالفت کرنے والے اور مجھ سے نہ ڈرنے والے پر افسوس ہے ۔
را وی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا : اے فرزند رسول اس حدیث کی میرے لئے تکرارفر ما دیجئے تو آپ نے اس حدیث کی تین مرتبہ تکرار فر ما ئی ۔
میں نے عرض کیا :خدا کی قسم آج کے بعد کسی سے کو ئی سوال نہیں کروں گا تو کچھ ہی دیر گذری تھی کہ خدا وند عالم نے مجھ کو اپنی جا نب سے رزق عطا فر مایا ''
|
Post a Comment