زمين پر سجدہ


زمين پر سجدہ
عبادات ميں سجدہ كى اہميت:
اسلام كى نظر ميں سجدہ، اللہ تعالى كى سب سے اہم يا اہم ترين عبادات ميں سے ايك ہے_ اور جيسا كہ احاديث ميں بيان كيا گيا ہے، كہ انسان سجدہ كى حالت ميں ديگر تمام حالات كى نسبت سب سے زيادہ اللہ تعالى كے نزديك ہوتا ہے_ تمام بزرگان دين بالخصوص رسو ل اكرم(ص) اور اہلبيتبہت طولانى سجدے كيا كرتے تھے_ خدا كى بارگاہ ميں طولانى سجدے انسان كى روح اور جان كى نشو ونما كرتے ہيں_ اور يہ اس لم يزل كى بارگاہ ميں خضوع اور عبوديت كى سب سے بڑى علامت شمار ہوتے ہيں_ اسى ليے نماز كى ہر ركعت ميں دو سجدے بجالانے كا حكم ديا گيا ہے_
اسى طرح سجدہ شكر اور قرآن مجيد كى تلاوت كے دوران مستحب اور واجب سجدے بھى اسى سجدہ كا واضح ترين مصداق شمار ہوتے ہيں_
انسان سجدہ كى حالت ميں سوائے خدا كے ہر چيز كو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ كو اس كے بہت نزديك پاتا ہے اور گويا وہ اپنے آپ كو بساط قرب پر پاتا ہے_
يہى وجہ ہے كہ سيرو سلوك و عرفان كے اساتيد اور اخلاق كے معلم حضرات ،سجدہ كے مسئلہ پر انتہائي تاكيد فرماتے ہيں_
مذكورہ بالا مطالب اس مشہور حديث پر ايك روشن دليل ہيں كہ انسان كا كوئي عمل بھى شيطان كو اتنا پريشان نہيں كرتا جتنا سجدہ اسے پريشان كرتا ہے_
ايك اور حديث ميں آيا ہے كہ '' جناب ختمى مرتبت نے اپنے ايك صحابى كو مخاطب كرتے ہوئے ارشاد فرمايا: اگرچاہتے ہو كہ قيامت كے دن ميرے ساتھ محشور ہو تو خداوند قہار كے حضور طولانى سجدے انجام ديا كرو''
و اذا اَرَدتَ ا ن يحشُرَك الله معى يَومَ القيامة فأطل السّجودَ بين يَدَي الله الواحد القہّار'' (1)
غير خدا كے ليے سجدہ كرنا جائز نہيں ہے:
ہمارا عقيدہ ہے كہ اس واحد و يكتا پروردگار كے سوا كسى كو سجدہ كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ سجدہ انتہائي عاجزى اور خضوع كى علامت اور پرستش كا روشن مصداق ہے اور پرستش و عبوديّت صرف ذات خدا كے ساتھ مخصوص ہے_
قرآن مجيد كى اس آيت '' وللّہ يَسجُد مَن فى السموات و الارض'' (2) ميں كلمہ '' اللہ '' كو مقدم كيا گيا ہے اور يہ تقديم حصر پر دلالت كر رہى ہے يعنى زمين اور آسمان كى ہر چيز صرف اور صرف اللہ تعالى كو سجدہ كرتى ہے
اسى طرح سورہ اعراف كى 206 نمبر آيت '' و لہ يسجدون'' بھى اس بات پر بہترين دليل ہے كہ سجدہ صرف اللہ تعالى كى ذات كے ساتھ مخصوص ہے_
----------------------------
1) سفينة البحار ، مادہ سجدہ_
2) سورة رعد، آيہ 15_
133 حقيقت ميں سجدہ خضوع كا آخرى درجہ ہے اور يہ درجہ خداوند عالم كے ساتھ مخصوص ہے_ لہذا كسى اور شخص يا چيز كے ليے سجدہ كرنا گويا خداوند عالم كے برابر قرار دينا ہے اور يہ درست نہيں ہے_
ہمارے نزديك توحيد كے معانى ميں سے ايك معنى '' توحيد در عبادت'' ہے يعنى پرستش اور عبادت صرف اللہ تعالى كے ساتھ مخصوص ہے اور اس كے بغير توحيد كامل نہيں ہوتى ہے_
دوسرے الفاظ ميں: غير خدا كى عبادت كرنا شرك كى ايك قسم ہے اور سجدہ عبادت شمار ہوتا ہے_ اس ليے غير خدا كو سجدہ كرنا جائز نہيں ہے_
اور جو سجدہ ملائكہ نے حضرت آدم كو كيا تھا ( اور اسكا قرآن مجيد ميں كئي مقامات پر تذكرہ ہے ) مفسرين كے بقول يا تو يہ حضرت آدم(ع) كى تعظيم ، تكريم اور احترام كا سجدہ تھا نہ عبادت كا سجدہ، بلكہ اسى سجدہ سے ملائكہ كى مراد يہ تھى كہ چونكہ يہ سجدہ اللہ تعالى كے حكم كى تعميل ہے لہذا اس ذات حق كى عبوديت ہے _ اور يا يہ شكر خدا كا سجدہ تھا_اسى طرح جو سجدہ حضرت يعقوب(ع) اورانكے بيوى بچّوں نے حضرت يوسف _ كے ليے كيا تھا اور اسے قرآن مجيد نے '' خرَّ و لہ سُجَّداً'' اور سب انكے سامنے سجدہ ميں گر پڑے'' كے الفاظ كے ساتھ ياد كيا ہے_ يہ بھى اللہ تعالى كے سامنے سجدہ شكر تھا_ يا ايك قسم كى تعظيم، تكريم اور احترام كے معنى ميں سجدہ تھا_
اور قابل توجہ يہ ہے كہ '' وسائل الشيعہ'' كہ جو ہمارى كتب حديث كاايك مصدرشمار ہوتى ہے، ميں سجدہ نماز كے ابواب ميں ايك مكمل باب ''عدم جواز السجود بغير الله '' كے عنوان سے ذكر ہوا ہے اور اس ميں پيغمبر اكرم(ص) اور آئمہ معصومينسے سات احاديث نقل كى گئي ہيں كہ غير خدا كو سجدہ كرنا جائز نہيں ہے_(1)
------------------------------
1)وسائل الشيعہ، جلد 4، ص 984_
اس بات كو اچھى طرح ذہن نشين فرما ليجئے كيونكہ آئندہ اسى گفتگو سے ہم نتيجہ اخذ كريںگے_
كس چيز پر سجدہ كرنا چاہيے:
مكتب اہلبيت(ع) كے پيروكاروں كا اس بات پر اتفاق ہے كہ زمين كے علاوہ كسى چيز پر سجدہ نہيں ہوسكتا ہے، ہاں البتہ جو چيزيں زمين سے اُگتى ہيں اور كھانے و پہننے كے كام نہيں آتيں جيسے درختوں كے پتے اور لكڑى و غيرہ اسى طرح حصير و بوريا و غيرہ_ ان پر سجدہ كيا جاسكتا ہے_ جبكہ علماء اہلسنت عام طور پر معتقد ہيں كہ ہر چيز پر سجدہ كيا جاسكتا ہے_ ہاںان ميں سے صرف بعض علماء نے لباس كى آستين اور عمامہ وپگڑى كے گوشے كو مستثنى كيا ہے كہ اُن پر سجدہ كرنا جائز نہيں ہے_
اس مسئلہ ميں مكتب اہلبيت(ع) والوں كى دليل، رسولخدا(ص) اور آئمہ اطہار(ع) سے نقل ہونے والى احاديث اور اصحاب كا عمل ہے_ ان محكم ادلّہ كى وجہ سے وہ اس عقيدہ پر اصرار كرتے ہيں اور اس ليے مسجد الحرام اور مسجد نبوي(ص) ميں اس بات كو ترجيح ديتے ہيں كہ قالين و غيرہ پر سجدہ نہ كريں بلكہ پتھر پر سجدہ كريں اور كبھى حصير اور مصلى و غيرہ اپنے ساتھ لاتے ہيں اور ا س پر سجدہ كرتے ہيں_
ايران، عراق اور ديگر شيعہ نشين ممالك كى تمام مساجد ميں چونكہ قالين بچھے ہوئے ہيں، اس ليے خاك سے ''سجدہ گاہ'' بنا كر اسے قالين پر ركھتے ہيں اور اس پر سجدہ كرتے ہيں تاكہ پيشانى كو كہ جو تمام اعضاء ميں اشرف و افضل ہے اللہ تعالى كے حضور، خاك پر ركھا جاسكے_ اور اس ذات احديّت كى بارگاہ ميں انتہائي تواضع و انكسارى كا مظاہرہ كيا جاسكے_ كبھى يہ '' سجدہ گاہ''
شہداء كى تربت سے بنائي جاتى ہے تا كہ راہ خدا ميں ان كى جانثارى كى ياد تازہ ہو اور نماز ميں زيادہ سے زيادہ حضور قلب حاصل ہوسكے_اور پھر شہدائے كربلا كى تربت كو دوسرى ہر قسم كى خاك پر ترجيح دى جاتى ہے ليكن شيعہ ہميشہ اس تربت يا دوسرى خاك كے پابند نہيں ہيں بلكہ جيسا كہ بيان كيا گيا ہے مساجد كے صحنوں ميں لگے ہوئے پتھروں ( جيسے مسجد الحرام اور مسجد نبوى كے صحن والے سنگ مرمر) پر بھى با آسانى سجدہ كر ليتے ہيں ( غور كيجئے)
بہرحال مكتب اہلبيت(ع) كے پاس زمين پر سجدہ كے وجوب كے بارے ميں بہت سى ادلّہ ہيں من جملہ پيغمبر اكرم(ص) كى احاديث ، صحابہ كى سيرت جو آئندہ بحث ميں بيان ہوگى اور آئمہ اطہار سے نقل ہونے والى روايات كہ جنہيں ہم عنقريب نقل كريں گے_
ہميں تعجب يہ ہے كہ بعض اہلسنت برادران ہمارے اس فتوى كے مقابلے ميں كيوں اسقدر شديد ردّعمل كا مظاہرہ كرتے ہيںاور كبھى اسے بدعت سے تعبير كرتے ہيں حتى بعض اوقات اسے كفر اور بُت پرستى شمار كرتے ہيں_
اگر ہم خود ان كى اپنى كتابوں سے ثابت كرديں كہ رسولخدا(ص) اور انكے اصحاب، زمين پر سجدہ كرتے تھے تو كيا پھر بھى يہ عمل بدعت ہوگا؟
اگر ہم ثابت كرديں كہ آنحضرت(ص) كے بعض اصحاب جيسے جناب جابر ابن عبداللہ انصارى وغيرہ جب شديد گرمى كى وجہ سے پتھر اور ريت گرم ہوجاتى تھى تو وہ كچھ مقدار ريت كو ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ميں تبديل كرتے تھے تا كہ كچھ ٹھنڈى ہوجائے اور اس پر سجدہ كيا جاسكے''(1) تو كيا اس صورت ميں جناب جابر ابن عبداللہ كو بت پرست يا بدعت گزار شمار كريں گے؟
-----------------------------
1) مسند احمد ، ج 3، ص 327و سنن بيہقى جلد 1ص 239_
پس جو شخص حصير پر سجدہ كرتا ہے يا ترجيح ديتا ہے كہ مسجد الحرام يا مسجد نبوي(ص) كے فرش پر سجدہ كرے تو كيا وہ حصير كى پرستش كرتا ہے يا مسجد كے فرش كى پوجا كرتا ہے؟
كيا ضرورى نہيں ہے كہ يہ برادران اس موضوع پر مشتمل ہمارى ہزاروں فقہى كتابوں ميں سے كم از كم ايك كتاب كا مطالعہ كريں تا كہ انہيں پتہ چل جائے كہ ان ناروا نسبتوں ميں ذرّہ برابر بھى حقيقت كى جھلك نہيں ہے؟
آيا كسى پر بدعت يا كفر و بت پرستى كى تہمت لگنا،كم گناہ ہے اور قيامت كے دن اللہ تعالى اسے آسانى سے معاف كرديگا؟
اس بات كو جاننے كے ليے كہ كيوں شيعہ زمين پر سجدہ كرتے ہيں، امام صادق _ كى اس حديث كى طرف توجہ كافى ہے_ ہشام بن حكم نے كہ جو امام كے خصوصى اصحاب ميں سے تھے سوال كيا، كہ كس چيز پر سجدہ كيا جاسكتا ہے اور كسى چيز پر سجدہ كرنا جائز نہيں ہے؟ امام (ع) نے جواب ميں فرمايا'' السجود لا يجوز الا على الارض او ما انبتت الارض الا ما أكل اَو لبس'' كسى چيز پر سجدہ كرنا جائز نہيں ہے مگر صرف زمين پر يا ان چيزوں پر جو زمين سے اگتى ہيں اور كھانے اور پہننے كے كام نہيں آتيں ہشام كہتا ہے ميں نے عرض كى آپ(ع) پر قربان ہوجاؤں اس كى حكمت كيا ہے ؟
آپ(ع) نے فرمايا:''لانّ السّجُودَ ہُو الخضوع للّہ عزّوجل فلا ينبغى أن يكونَ على ما يُؤكَلُ و يُلبس لانّ أَبناء الدُّنيا عَبيد ما يا كلون و يلبسون و الساجدُ فى سُجودہ فى عبادة الله فلا ينبغى أن يَضَعَ جَبہَتَہُ فى سُجودہ على معبود أبناء الدُّنيا الذين اغتَرُّ وا بغرورہا'' كيونكہ سجدہ اللہ تعالى كے سامنے خضوع اور انكسارى ہے اس ليے مناسب نہيں ہے كہ انسان كھانے اور پہننے كى چيزوں پر سجدہ كرے_
كيونكہ دنيا پرست لوگ كھانے اور پہننے والى چيزوںكے بندے ہوتے ہيں_ جبكہ وہ شخص جو سجدہ كر رہا ہے سجدہ كى حالت ميں اللہ تعالى كى عبادت ميں مشغول ہے پس مناسب نہيں ہے كہ انسان اپنى پيشانى كو سجدہ كى حالت ميں ايسى چيزوں پر ركھے جو دنيا پرستوں كے معبود ہيںاور انكى زرق و برق كے وہ فريفتہ ہيں_
اس كے بعد امام _ نے اضافہ فرمايا: '' و السّجودُعلى الارض أفضلُ لانّہ أبلغ للتواضع و الخُضوع للّہ عزوجل''كہ زمين پر سجدہ كرنا افضل ہے كيونكہ يہ اللہ تعالى كے حضور بہتر طور پرخضوع وتواضع اور انكسارى كى علامت ہے_(1)
4_ مسئلہ كى ادلّہ:
اب ہم اس مسئلہ كى ادلّہ بيان كرتے ہيں _سب سے پہلے رسول اكرم(ص) كے كلام سے شروع كرتے ہيں:
الف) زمين پر سجدہ كے سلسلہ ميں معروف حديث نبوي:
اس حديث كو شيعہ و اہل سنت نے پيغمبر اكرم(ص) سے نقل كيا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا ''جُعلت لى الارضُ مسجداً و طہوراً'' كہ زمين ميرے ليے محل سجدہ اور طہارت ( تيمم) قرار دى گئي ہے'' (2)
بعض علماء نے يہ خيال كيا ہے كہ حديث كا معنى يہ ہے كہ پورى روئے زمين اللہ كى عبادت كا مقام ہے_ پس عبادت كا انجام دينا كسى معيّن مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے جيسا كہ يہود
-----------------------------------
1) علل الشرائع، جلد 2، ص 341_
2) صحيح بخارى جلد 1، ص 91و سنن بيہقي، جلد 2_ ص 433 (ا ور بہت سى دوسروى كتابوں ميں يہ حديث نقل ہوئي ہے)_
138 و نصارى گمان كرتے تھے كہ عبادت كو حتماً كليساؤں اور عبادت خانوں ميں انجام دينا چاہيے''_
ليكن اگر غور كيا جائے تو معلوم ہوتا ہے كہ يہ تفسير حديث كے حقيقى معنى كے ساتھ سازگار نہيں ہے كيونكہ پيغمبر اكرم(ص) نے فرما يا'' زمين طہور بھى ہے اور مسجد بھي'' اور ہم جانتے ہيں كہ جو چيز طہور ہے اور جس پر تيمّم كيا جاسكتا ہے وہ زمين كى خاك اور پتھر ہيں پس سجدہ گاہ كو بھى وہى خاك اور پتھر ہونا چاہيے_
اگر پيغمبر اكرم(ص) اس معنى كو بيان كرنا چاہتے كہ جسكا بعض اہلسنت كے علماء نے استفادہ كيا ہے تو يوں كہنا چاہيے تھا كہ '' جُعلت لى الارض مسجداً و ترابُہا طہوراً'' پورى سرزمين كو ميرے ليے مسجد قرار ديا گيا اور اس كى خاك كو طہارت يعنى تيمم كا وسيلہ قرار ديا گياہے'' ليكن آپ(ص) نے يوں نہيں فرمايا_ اس سے واضح ہوجاتا ہے كہ يہاں مسجد سے مراد جائے سجدہ ہے لہذا سجدہ گاہ كو بھى اسى چيز سے ہونا چاہيے جس پر تيمم ہوسكتا ہے_
پس اگر شيعہ زمين پر سجدہ كرنے كے پابند اور قالين و غيرہ پر سجدہ كو جائز نہيں سمجھتے تو يہ كوئي غلط كام نہيں كرتے بلكہ رسولخدا(ص) كے دستور پر عمل كرتے ہيں_
ب) سيرت پيغمبر(ص) :
متعدّد روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) بھى زمين پر سجدہ كرتے تھے، كپڑے يا قالين و غيرہ پر سجدہ نہيں كرتے تھے_
ابوہريرہ كى ايك حديث ميں يوں نقل ہوا ہے وہ كہتا ہے '' سجد رسول الله (ص) فى يوم مطير حتى أنّى لانظر الى أثر ذلك فى جبہتہ و ارنبتہ'' ميں نے رسولخدا(ص) كو ايك
بارانى دن زمين پر سجدہ كرتے ہوئے ديكھا _ سجدہ كے آثار آپ كى پيشانى اور ناك پر نماياں تھے_(1)
اگر سجدہ كپڑے يا درى و غيرہ پر جائز ہوتا تو ضرورت نہيں تھى كہ آنحضرت(ص) بارش كے دن بھى زمين پر سجدہ كريں_
حضرت عائشےہ نيز فرماتى ہيں '' ما رأيتُ رسول الله متقياً وجہہ بشيئ''ميں نے كبھى نہيں ديكھا كہ آنحضرت(ص) ( سجدہ كے وقت ) اپنى پيشانى كسى چيز سے ڈھانپ ليتے ہوں'' (2)
ابن حجر اسى حديث كيتشريح ميں كہتے ہيں: كہ يہ حديث اس بات كيطرف اشارہ ہے كہ سجدہ ميں اصل يہ ہے كہ پيشانى زمين پر لگے ليكن اگر قدرت نہ ہو تو پھر يہ واجب نہيں ہے_(3)
ايك دوسرى روايت ميں جناب ميمونہ ( رسول اكرم(ص) كى ايك دوسرى زوجہ) سے يوں نقل ہوا ہے كہ ''و رسول الله يصّلى على الخُمرة فيسجد'' پيغمبر اكرم حصير (چٹائي) پر نماز پڑھتے اور اس پرسجدہ كرتے تھے_
اہلسنت كى معروف كتب ميں متعدّد روايات نقل ہوئي ہيں كہ پيغمبر اكرم(ص) '' خمرہ'' پر نماز پڑھتے تھے ( خُمرہ اس چھوٹے سے مصلى يا حصير كو كہتے ہيں جو كجھور كے پتوں سے بنايا جاتا تھا)تعجب يہ ہے كہ اگر شيعہ اسى طرح عمل كريں اور نماز پڑھتے وقت كوئي مصلى بچھاليں تو ان پر بعض متعصب لوگوں كى طرف سے بدعت كى تہمت لگائي جاتى ہے_ اور غصے كے ساتھ انہيں
-------------------------------
1) مجمع الزوائد، جلد 2، ص 126_ 2) مصنف ابن ابى شيبہ ، جلد 1 ، ص 397_
3) فتح البارى ، جلد1، ص 404_
ديكھا جاتا ہے_
حالانكہ يہ احاديث بتاتى ہيں كہ يہ كام پيغمبر اكرم(ص) كى سنت ہے_
كتنے افسوس كا مقام ہے كہ سنّت كو بدعت شمار كيا جائے
مجھے نہيں بھولتا كہ ايك مرتبہ حج كے موقع پر مدينہ ميں، ميں مسجد نبوي(ص) ميں ايك چھوٹى سى چٹائي پر نماز پڑھنا چاہتا تھا تو ايك متعصّب وہابى عالم دينآيا اور اس نے بڑے غصّے كے ساتھ چٹائي اٹھاكر كونے ميں پھينك دى گويا وہ بھى اس سنت كو بدعت سمجھتا تھا_
ج) صحابہ اور تابعين كى سيرت
اس بحث ميں دلچسپ موضوع يہ ہے كہ اگر ہم اصحاب اور انكے بعد آنے وال-ے افراد (يعنى تابعين) كے حالات كا غور سے مطالعہ كريں تو پتہ چلتا ہے وہ بھى زمين پر سجدہ كرتے تھے مثال كے طور پر:
1_ جابر ابن عبداللہ انصارى فرماتے ہيں'' كنتُ اُصلّى مع النّبى الظہر فآخذ قبضة من الحصى فاجعلہا فى كفّى ثُم احولہا الى الكفّ الاُخرى حتى تبرد ثم اضعہا لجبينى حتى اسجد عليہا من شّدة الحرّ''ميں پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا_ شديد گرمى كى وجہ سے كچھ سنگريزے ہاتھ ميں لے ليتا تھا اور انہيں ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ميں تبديل كرتا رہتا تھا تا كہ وہ كچھ ٹھنڈے ہوجائيں اور ان پر سجدہ كرسكوں يہ كام گرمى كى شدت كى وجہ سے تھا'' (1)
-------------------------------
1) مسند احمد ، جلد 3، ص 327 ، سنن بيہقى ، جلد1 ، ص 439_
اس حديث سے واضح ہوجاتا ہے كہ اصحاب پيغمبر(ص) زمين پر سجدہ كرنے كے پابند تھے، حتى كہ شديد گرمى ميں بھى اس كا م كے ليے راہ حل تلاش كرتے تھے_ اگر يہ كام ضرورى نہ ہوتا تو اتنى زحمت كى ضرورت نہيں تھي_
2_ انس بن مالك كہتے ہيں '' كُنّا مع رسول الله (ص) فى شدّة الحرّ فيأخذأحدنا الحصباء فى يدہ فإذا برد وضعہ و سجّد عليہ '' ہم شديد گرمى ميں رسولخدا(ص) كے ساتھ تھے ہم ميں سے بعض لوگ كچھ سنگريزے ہاتھ ميں لے ليتے تھے تا كہ ٹھنڈے ہوجائيں پھر انہيں زمين پر ركھ كر اُن كے اوپر سجدہ كرتے تھے_(1)
يہ تعبير يہى بتاتى ہے كہ يہ كام اصحاب كے درميان رائج تھا_
3_ ابوعبيدہ نقل كرتے ہيں '' انّ ابن مسعود لا يسجد _ أو قال لا يصلّى _ الا على الارض'' كہ جناب عبداللہ ابن مسعود صرف زمين پر سجدہ كرتے تھے يا يوں كہا كہ صرف زمين پر نماز پڑھتے تھے_(2)
اگر زمين سے قالين يا درى و غيرہ مراد ہوتى تو كہنے كى ضرورت نہيں تھى اس سے پتہ چلتا ہے كہ زمين سے وہى خاك: ريت اور سنگريزے و غيرہ مراد ہيں_
4_ عبداللہ ابن مسعود كے ايك دوست مسروق بن اجدع كے بارے ميں نقل ہوا ہے كہ '' كان لا يرخص فى السجود على غير الارض حتى فى السفينة وكان يحمل فى السفينة شيئاً يسجدعليہ'' وہ سوائے زمين كے كسى شے پر سجدہ كرنے كى اجازت نہيں ديتے تھے حتى اگر كشتى ميں سوار ہونا ہوتا تو كوئي چيز اپنے ساتھ كشتى ميں ركھ ليتے تھے جس
-------------------------------
1) السنن الكبرى بيہقى ، جلد 2، ص 106_
2) مصنف ابن ابى شيبہ ، جلد 1، ص 397_
پر سجدہ كرتے'' (1)
5_ جناب على ابن عبداللہ ابن عباس نے '' رزين '' كو خط ميں لكھا'' ابعث اليّ بلوح من أحجار المروة عليہ اسجُد'' كہ مروہ كے پتھروں ميں سے ايك صاف سا پتھر ميرے ليے بھيجنا تا كہ ميںاس پر سجدہ كرسكوں'' (2)
6_ كتاب فتح البارى ( شرح صحيح بخاري) ميں نقل ہوا ہے كہ '' كان عمر ابن عبدالعزيز لا يكتفى بالخمرة بل يضع عليہا التراب و يسجد عليہ'' عمر ابن عبدالعزيز نماز كے ليے صرف چٹائي پر اكتفا نہيں كرتے تھے بلكہ اس پر مٹى ركھ ليتے اور اس پر سجدہ كرتے تھے_(3)
ان تمام روايات سے كيا سمجھ ميں آتا ہے؟ كيا يہى سمجھ ميں نہيں آتا كہ اصحاب اور انكے بعد آنے والے افراد كى ( ابتدائي صديوں ميں) يہى سيرت تھى كہ زمين پر يعنى خاك ، پتھر، ريت اور سنگريزوں و غيرہ پر سجدہ كرتے تھے_
اگر آج ہمارے زمانے ميں كچھ مسلمان اس سنت كو زندہ ركھنا چاہيں تو كيا اسے بدعت كے عنوان سے ياد كيا جائے؟
كيا فقہائے اہلسنت كو نہيں چاہيے كہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس سنّت نبوى (ص) كو زندہ كريں، وہى كام جو اللہ تعالى كى بارگاہ ميں انتہائي خضوع، انكسارى اور عاجزى سے حكايت كرتا ہے اور سجدہ كى حقيقت كے ساتھ زيادہ سازگار ہے_ ( ايسے دن كى اميد كے ساتھ)_
------------------------
1) طبقات الكبرى ، ابن سعد، جلد 6، ص 53_
2) اخبار مكّہ ازرقي، جلد 2 ،ص 151_
3) فتح البارى ، جلد 1 ، ص 410_
Labels:

Post a Comment

[blogger][facebook][disqus]

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget