تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی |
ہمارے بعض علماء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:راوی کہتاہے کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا ؟اﷲ کی کتاب میں دوایسی آیات ہیں جن کی میں تاویل نہیں جا نتا ؟ آپ نے فرما یا وہ کو نسی دو آیات ہیں ؟ میںنے عرض کیا :
(اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )(١)''مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا ''
میں دعا کرتا ہوں لیکن مستجاب نہیں ہوتی ۔آپ نے مجھ سے فرمایا :تم نے اﷲ پربہتان باندھا ،کیا اﷲ نے جو وعد ہ کیا ہے وہ اس کی مخالفت کرے گا ؟
میں نے عرض کیا :نہیں
آپ نے فرما یا: پھر کیا مطلب ہے؟
میں نے عرض کیا :میں نہیںجانتاہوں۔
آپ نے فرمایادوسری آیت کو نسی ہے؟
میں نے عرض کیااﷲ کایہ قول :(وَمَااَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیئٍ فَھُوَیُخْلِفُہُ)(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔سورئہ مو من آیت٦٠۔
٢۔سورئہ سبأ آیت٣٩۔
''میں انفاق کر تا ہوں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں دیکھتا ہوں ''
آپ نے فرمایا :کیا ہونا چاہئے ؟
میں نے عرض کیا :میں نہیں جانتا ۔
آپ نے فرمایا :لیکن میں تم کو باخبر کرونگا انشاء اﷲ، آگاہ ہو جائوجو کچھ خداوند عالم نے تم کو حکم دیا ہے اگر تم اس کی اطاعت کروگے اور اس کے بعد اس سے دعا کروگے تو وہ تمہاری دعا مستجاب کر ے گا لیکن اگر تم اس کے حکم کی مخالفت کروگے اور اس کی معصیت (نافرمانی )کر وگے تو وہ تمہارا کوئی جواب نہیں دے گا ۔
لیکن رہی تمہاری یہ بات کہ تم انفاق کر تے ہو اور اس کا کو ئی نتیجہ تمہارے سامنے نہیں آتا توآگاہ ہو جائو کہ اگر تم نے مال اس کے حلال طریقہ سے کسب کیا پھر اس کو اسی کے حق میں خرچ کردیا ہے تو کسی بند ے نے کوئی درہم خرچ نہیں کیا مگر یہ کہ اﷲ نے اس کو اس کابدلہ عطا کیا اگر تم اس کو دعا کے ذریعہ پکارو گے تو وہ تمہاری دعا ضرور مستجاب کر یگا اگر چہ تم نے گناہ ہی کیوں نہ کیا ہو ۔
میں نے عرض کیا :جہت دعا سے کیا مراد ہے ؟آپ نے فرمایا :جب تم نے فریضہ اداکیا تو تم نے اﷲ کی تمجید وتعریف وتعظیم کی اور جتنی تم میں قدرت تھی تم نے اس کی مدح کی اور جتنا ممکن ہو نبی پر زیادہ صلوات بھیجتے رہو،ان کی تبلیغ رسالت کی گواہی دو ،اپنے اوپر نا زل ہو نے والی مصیبتوں اور ملنے والی نعمتوں کی بنا پرنبی پر درود بھیجو ،اپنے پاس اس کی نعمتوں کا تذکرہ کیا ،اور جتنا تم سے ہو سکا تم نے اس پر اﷲ کی حمد وثنا کی اور اس کا شکر ادا کیا ،پھر ایک ایک کر کے اپنے تمام گنا ہوں کا اعترف واقرار کیا ، یا ان میں سے جو گناہ تمہار ے یا د آگئے اس کا اقرار کیا ،اور جو مخفی رہ گئے ان کا مجمل طور پر اقرار کیا ،پس تم نے تمام گناہوں کی اﷲ سے توبہ کی اور یہ نیت کی کہ اسکے بعد پھر گناہ نہیں کرونگا ،اور میں اﷲ سے ندامت ،صدق نیت اور خوف ورجا ء سے استغفار کرتا ہوں ،اور اس طرح کہو :
(اللّھمّ انّ اعتذرالیک مِن ذنوب واستغفرک واتوب الیک فاعن علیٰ طاعتک ووفقنی لمااوجبت علَّ من کلّ مایُرضیک،فان لم أرأحداًبلغ شیئاًمِن طاعتک الابنعمتک علیہ قبل طاعتک،فانعم علّ بنعمة انال بھا رضوانک والجنّة) (١)
''پروردگا ر میں اپنے گناہوں کی تجھ سے معذرت چاہتاہوں ،تجھ سے استغفار کرتاہوں اور توبہ کرتاہوں ،اپنی طاعت پر میری مدد کر ،جن چیزوں سے تو راضی ہوتا ہے اور وہ تونے مجھ پر واجب کی ہیں مجھے ان کے ادا کرنے کی توفیق عطا کر ،میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا کہ اس کے اطاعت کر نے سے پہلے تیری نعمتیں اس کو عطا ہو گئیں پس مجھ پر وہ نعمتیں نازل کر جن کے ذریعہ میں تیری رضا اور جنت تک پہنچ جائوں ،،
اس کے بعد سوال کروہم امید کرتے ہیں تم نا مراد نہیں رہو گے انشاء اللہ ۔
آداب دعا کے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:
(احفظ آداب الدعائ،وانظرمَن تدعو،وکیف تدعو،ولماذا تدعو،وحقق عظمةاﷲ وکبریائہ،وعاین فی قلبک علمہ بماف ضمیرک واطّلاعہ علیٰ سرّک،ومایکن فیہ من الحق والباطل،واعرف طرق نجاتک وھلاکک کی لاتدعواﷲبش ء فیہ ھلاکک وأنت تظن فیہ نجاتک)
قال اﷲعزوجل:(وَیَدْعُ الِانْسٰانُ بِالشَّرِّدُعٰاء َہُ بِالْخَیْرِ وَکٰانَ الِانْسٰانُ عَجُولاً)(٢)
وتفکّرماذاتسأل،ولماذاتسأل۔
والدعاء استجابةالکل منک للحق،وتذویب المھجةف مشاھدةالربّ،وترک الاختیارجمیعاً،وتسلیم الأُمورکلھاظاھراًوباطناًالی اﷲ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔بحار الانوار جلد٩٣صفحہ٣١٩،فلاح السائل صفحہ ٣٨۔٣٩،عدة الداعی صفحہ ١٦۔
٢۔سورئہ اسراء آیت١١۔
فان لم تأت بشروط الدعاء فلاتنتظرالاجابة،فانّہ یعلم السرّ وأخفیٰ،فلعلک تدعوبش ء قد علم من سرّک خلاف ذلک)(١)
آداب دعا کی حفاظت کرو ،یہ دیکھو کہ کس سے مانگ رہے ہو ،کس طرح مانگ رہے ہو اور کیوں مانگ رہے ہو ، خداوند عالم کی عظمت و بزر گی پر نظر رکھوجو کچھ تمہار ے دلوں میں علم ہے اور جن رازوں سے تم واقف ہو اسکے ذریعہ اپنے دل کا معائنہ کر و اور یہ دیکھو کہ کس میں ہلا کت ہے اور کس میں نجات ہے تا کہ ہلاکت کا مطالبہ نہ کر بیٹھو ، اپنی نجات اور ہلاکت کے راستوںکو پہچانو کہ کہیں تم ایسی دعا نہ کر بیٹھو جس میں تمہاری ہلاکت ہورہی ہو اور تم اس سے اپنی نجات کا گمان کر رہے ہو ۔
اورخداوند عالم فرماتا ہے :
( وَیَدَعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّدُعَائَ ہُ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً )(٢)
''اور انسان کبھی کبھی اپنے حق میں بھلا ئی کی طرح برا ئی کی دعا ما نگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہو ا ہے ''
جو کچھ مانگ رہے ہو اس کے متعلق اور کیوں مانگ رہے ہو اس کے سلسلہ میں فکر کرو ۔
دعا یعنی تمہارا حق کو مکمل طور پر قبول کرنا، تمہارا اپنے پروردگار کے دیدار میں اپنے کوپگھلا دینااپنے تمام اختیارات خداوند عالم کے حوالے کردینا اور اپنے تمام ظاہری اور باطنی امور اسی کے حوالے کردینا۔
اگر تم دعا کو اس کی تمام شرطوں کے ساتھ انجام نہیں دو گے تو اس کے مستجاب ہو نے کا بھی انتظار نہ کرنا بیشک خداوند عالم تمام رازوں اور پوشیدہ چیزوں سے آگا ہ ہے ،شاید تم ایسی چیز کے بارے میں دعا کر بیٹھو جسکو وہ تمہار ی بھلائی کے خلاف جانتا ہو ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الا نوا ر جلد :٩٠صفحہ ٣٢٢ ۔ (٢)سورئہ اسراء آیت١١۔
یہ روایت دعا کے مستجاب ہو نے اور دعا کے آداب کی شرطوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ہم اس فصل میںسب سے پہلے دعا کے مستجا ب ہو نے کی شرطوں کو بیان کریں گے اس کے بعد اگر شروط و آداب کی تقسیم میں بعض مشکلات سامنے نہ آئیںتو آداب دعا کے متعلق بحث کر یں گے۔
ہم اس فصل میں سب سے پہلے دعا قبول ہونے کی شرطوں کے سلسلہ میں بحث کرنا چا ہتے ہیں پھر آداب دعا کے سلسلہ میں گفتگو کریں گے اگرچہ شرطوں کو آداب دعا سے جدا کرناہمارے لئے مشکل ہے لہٰذاہم نے شرائط و آداب کو ایک ساتھ بیان کرنا بہتر سمجھا ہے ۔
ہم ذیل میں سرسر ی طور پر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں دعا کے آداب اور اس کی شرطوں کو بیان کر رہے ہیں ۔
١۔اﷲ کی معرفت
دعا مستجاب ہو نے کی شرطوں میں سے سب سے اہم شرط اﷲ کی معرفت ہے اور اس کی مطلق قدرت وسلطنت پر ایمان رکھنا کہ اس کا بندہ جو کچھ اس سے چاہتا ہے وہ ضرور حاصل ہو گا ۔
در منثور میں معا ذ بن جبل نے رسول اﷲ ۖ سے یہ راویت نقل کی ہے :
(لوعرفتم اﷲ حق معرفتہ،لزالت لدعائکم الجبا ل )(١)
''اگر تم اﷲ کی معرفت ا س کے حق کے ساتھ حاصل کرو تو تمہار ی دعا ئیں پہاڑوں کو بھی ان کی جگہ سے ہٹادیںگی ''
تفسیر عیاشی میں خداوند عالم کے اس فرمان: (فلیستجیبوالی ولیؤمنوا ب )(٢)
''لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پر اعتماد رکھیں ''کے متعلق امام جعفر صادق سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)المیزان جلد ٢ صفحہ ٤٣۔ (٢)سورئہ بقرہ آیت١٨٦۔
روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :
(یعلمون انی اقدران اعطیھم مایسألونی )(١)
''وہ (بند ے )جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ مجھ سے سوال کریں گے میں ان کووہ عطا کر دونگا''
طبر سی نے مجمع البیان میں مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ :(ولیومنوابی)(٢)
'' اور مجھ ہی پر اعتماد رکھیں ''
یعنی یہ بات با لکل متحقق ہے کہ جو کچھ وہ سوال کریں گے میں وہ ان کو عطا کر نے پر قادر ہوں:
(لَعَلَّھُمْ یُرْشِدُوْنَ)(٣)
''شاید اس طرح راہ راست پر آجا ئیں ''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فر ما ئی:
( اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَادَعَاہُ) (٤)
''بھلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آوازدیتا ہے ''
فسئل مالناندعو،ولایستجاب لنا؟فقال لأنّکم تدعون مالاتعرفون و تسألون مالاتفھمون(٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)المیزان جلد ٢صفحہ ٤٣ ۔
(٢)سورئہ بقرہ آیت١٨٦۔
(٣)سورئہ بقرہ آیت١٨٦ ۔
(٤) سورۂ نمل آیت ٦٢۔
(٥)الصافی صفحہ ٥٧ (طبع حجریہ ۔ایران )سورئہ بقرہ آیت نمبر ٨٦ کی تفسیر میں ہے۔
آپ سے سوال کیا گیا :ہم دعا کرتے ہیںلیکن ہماری دعا مستجاب نہیں ہو تی ،آپ نے فرما یا : تم ان چیزوں کی دعا کرتے ہو جن کی تمھیں معرفت نہیں ہے اور وہ سوالات کرتے ہو جن کو تمسمجھتے نہیں ہو ۔
اس حدیث میں دعا مستجاب ہو نے کے باب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سائل کواپنے سوال اور جس سے سوال کر رہا ہے ان سے با خبر ہو نا چاہئے ۔
امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :جس نے مجھ سے سوال کیا اور وہ یہ جانتا ہے کہ نفع و نقصان میری طرف سے ہے تومیں اس کی دعا قبول کرونگا
امام علی بن الحسین زین ا لعابدین علیہ ا لسلام کی مناجات میں آیا ہے :
(تمدّحت بالغناء عن خلقک وانت اھل الغنیٰ عنھم،ونسبتھم الی الفقروھم اھل الفقرالیک،فمن حاول سدّ خلّتہ من عندک،ورام صرف الفقر عن نفسہ بک،فقدطلب حاجتہ فی مظانھاواتٰی طلبتہ من وجھھا) (١)
''تو نے اپنی تعریف یہ کی ہے کہ تو مخلوقات سے بے نیاز ہے اور اس بے نیازی کا اہل ہے اور تو نے مخلوقات کو فقر کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ واقعا تیرے محتاج ہیں لہٰذا جو شخص بھی اپنی حا جت کو تیری بارگاہ سے پورا کرانا چا ہتا ہے اور اپنے نفس سے فقر کو تیرے ذریعہ دور کرنا چا ہتا ہے اُس نے حاجت کو اس کی منزل سے طلب کیا ہے اور مقصد تک صحیح رخ سے آیا ہے ''
حضرت امیرالمو منین علیہ السلام منا جات میں ارشاد فرما تے ہیں :
(سبحان الذی یتوکّل کلّ مؤمن علیہ ویضطرکلّ جاحدالیہ،ولایستغن احد الابفضل مالدیہ) (٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)صحیفہ کاملہ سجادیہ دعا : ١٣ ۔ (٢)بلد امین صفحہ ٩٦ ۔
''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس پر ہر مو من توکل کر تا ہے اور جس کے سامنے ہر انکار کر نے والا اپنے کو مضطر محسوس کر تا ہے اور کو ئی بھی اس کے فضل کے بغیر بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ''
حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام صحیفہ کا ملہ سجادیہ کی دعا نمبر٧میں فرما تے ہیں :
(اَصْبَحْنَافِیْ قَبْضَتِکَ یَحْوِیْنَامُلْکُکَ وَسُلْطَانُکَ وَتَضُمُّنَامَشِیَّتُکَ وَنَتَصَرَّفُ عَنْ اَمْرِکَ وَنَتَقَلَّبُ فِیْ تَدْبِیْرِکَ لَیْسَ لَنَامِنَ الْاَمْرِاِلَّامَاقَضَیْتَ وَمِنَ الْخَیْرِاِلَّامَااَعْطَیْتَ)
''اور ہم بھی تیرے ہی قبضہ میں ہیں تیرا اقتدار تیری سا ری سلطنت ہما رے سارے وجود پر حا وی ہے اور تیری مشیت ہمیں اپنے دا من میں لئے ہو ئے ہے ۔ہم تیرے ہی حکم سے تصرف کرتے ہیں اورتیری ہی تدبیر سے کر وٹیں بدلتے ہیں ہمار ا حصہ معا ملا ت میں اتنا ہی ہے جس کا تو نے فیصلہ کر دیا ہے اور خیر بھی وہی ہے جو تو نے عطا کردیا ہے ''
اور صحیفہ ٔ علویہ میں ہے:''مَن ذالذی یضارک ویغالبک أویمتنع منک أو ینجومِنْ قدرکَ''''کون تم کو نقصان پہنچاتا ہے اور کون تمہار امقابلہ کرتا ہے یا وہ تم سے اجتناب کرتا ہے یا تیری قدر و قضا سے فرار کر تا ہے ''
یہ معرفت ہی تو ہے کہ دعا کرنے والایہ جا نتا ہے کہ اﷲ اس سے قریب ہے ا ور ہر شئے اس سے بہت قریب ہے ،وہ اس(بندے)کے نفس میں ہو نے والے وسواس سے بھی با خبر ہے وہ اس کے نفس سے اس کی شہ رگ حیات سے بھی زیا دہ قریب ہے وہ اس کے اور اس کے نفس کے در میان حائل ہے خدا وند عالم کا ار شادہے :(وَاِذَاسَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب )(١)
''اور اے پیغمبر اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ بقرہ آیت ٨٦ا۔
قریب ہوں ''
(وَنَحْنُ اَقْرَبُ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ)(١)
''اور ہم تواس کی شہرگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ''
(اِنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہِ)(٢)
''بیشک خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حا ئل ہو جاتا ہے ''
حضرت امیر المو منین علیہ السلام دعا میں ار شاد فرما تے ہیں :
(اتقرب الیک بسعة رحمتک الت وسعت کلّ شی ء وقد تریٰ یاربّ مکان و تطلع علیٰ ضمیر وتعلم سر ولایخفیٰ علیک امر وانت اقرب الَّ من حبل الورید )(٣)
''میں تیری اس وسیع رحمت سے قریب ہو نا چا ہتا ہو ں جوہر چیز کا احا طہ کئے ہو ئے ہے ،تو میرے مکان سے بخوبی آگاہ ہے ،میرے ضمیرسے با خبر ہے ،میرے رازوں کو جانتا ہے ،میرا کوئی امر تجھ سے پو شیدہ نہیں اور تو میر ی شہ رگ حیات سے زیا دہ مجھ سے قریب ہے ''
جمعہ کے دن کی دعا میں آپ ارشاد فرماتے ہیں :
(لاالہ الااﷲ المجیب لمن ناداہ بأخفض صوتہ،السمیع لمن ناجاہ لأغمض سرّہ،الرؤوف بمن رجاہ لتفریج ھمّہ القریب ممّن دعاہ لتنفیس کربہ وغمّہ)(٤)
''کو ئی خدا نہیں ہے سوائے اﷲ کے جو اپنے بندے کی ہلکی سی آواز کا بھی جواب دیتا ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ ق آیت ٦ا۔
(٢)سورئہ انفال آیت ٢٤۔
(٣)البلد الامین صفحہ ٩٦۔
(٤)البلد الامین صفحہ ٩٣۔
اس کی آواز کو بھی سنتا ہے جو اس کو اپنے راز کو پوشیدہ رکھ کر اسے پکا رتا ہے اس شخص پر مہر بان ہے جواپنی مشکل دور کرنے میں خداوند عالم سے لو لگاتا ہے اس شخص سے قریب ہے جو اپنے غم کے دورہونے کے سلسلہ میں اس سے دعا کرتا ہے ''
امام علیہ السلام ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
(سبق ف العلوّفلاش ئٍ أعلامنہ،وقرب فی الدنوفلا شئی اقرب منہ،فلا استعلا ؤہ باعدہ عن ش ئٍ من خلقہ ولاقربہ ساواھم فی المکان بہ)(١)
''وہ اتنا بلند و بر تر ہے کہ کو ئی چیز اس سے بلند نہیں ہو سکتی اور اتنا قریب سے قریب تر ہے کہ کو ئی شے اس سے قریب نہیں ہے اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کردیا ہے اور نہ اس کے قرب نے اُسے دو سروں کی سطح پر لا کر اُن کے برابر کر دیا ہے ''
٢۔اﷲ سے حسن ظن
اﷲ سے حسن ظن رکھنا اﷲ کی معرفت کے پہلوئوں میں سے ایک پہلوہے ،اﷲ اپنے بندو ںکو اتنا ہی عطا کر تاہے جتنا وہ اﷲ سے حسن ظن رکھتے ہیں اور اس کی رحمت اور کرم کی وسعت کا یقین رکھتے ہیں ۔
حدیث قدسی میں آیا ہے :
(اناعند ظن عبد بّ ،فلایظُنُّ بِّ الا خیراً)(٢)
''میں اپنے سلسلہ میں اپنے بندے کے ظن و گمان کے مطابق اس کی حا جت پوری کرتا ہوںاس سے قریب ہوں لہٰذا وہ میرے بارے میں خیر کے علا وہ کو ئی ظن و گمان نہ رکھے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)نہج البلا غہ خطبہ ٤٩
(٢)المیزان جلد ٢صفحہ ٣٧ ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
(ادعوااﷲ وانتم موقنون بالاجابة )
''اﷲ سے دعا مستجاب ہو نے کے یقین کے ساتھ دعا کرو ''
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جناب مو سیٰ کو وحی کی :
(مادعوتن ورجو تن فان سامع لک )(١)
''اے موسیٰ جو کچھ مجھ سے دعا کرتے ہو اور مجھ سے امید رکھتے ہو میں اس کو تمہار ی خاطر سنتا ہوں ''
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(اذا دعوت فأقبل بقلبک وظنّ حاجتک بالباب)(٢)
''جب دعا کرو تو اپنے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو اور اپنی حا جت کو قبولیت کے دروازے پر سمجھو ''
اور یہ بھی آپ ہی کا فرمان ہے :
(فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم اسْتَیْقِن الاجابة) (٣)
''جب دعا کرو تو اپنے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو اور اجابت کا یقین رکھو ''
اس کے با لمقابل اﷲ کی رحمت اور دعا کے مستجاب ہو نے سے ما یوس ہو جانا ہے یہ اﷲ کی رحمت سے دور ہو جانے کاایک سبب ہے کبھی کبھی انسان اﷲ سے دعا کر تا ہے تو خداوند عالم اس کی دعا مستجاب کر نے میں تا خیر کرتا ہے اور اس وقت تک تا خیر کرتا ہے جب تک وہ اس کی مصلحت کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل اشیعہ جلد ٤ صفحہ ١١٠٥،،حدیث ٨٧٠٣ ۔
(٢)اصول کا فی صفحہ ٥١٩ ،اور وسائل اشیعہ جلد ٤ صفحہ ١١٠٥حدیث ۔٨٧٠٠
(٣)اصول کا فی باب الا قبال علی الد عا ۔
نہ ہو جائے لیکن انسان اس کی معرفت نہیں رکھتا اور اﷲ اس کو جانتا ہے لہٰذا انسان اﷲ سے سوء ظن کر بیٹھتا ہے اور اﷲ کی رحمت سے نا امید ہو جاتا ہے یہی نا امید ی اﷲ کی رحمت میں مانع ہو تی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا م سے مروی ہے :
''لایزال العبد بخیر و رجاء ورحمة من اللّٰہ عزّوجلّ،مالم یستعجل، فیقنط،ویترک الدعائ،وقیل لہ:کیف یستعجل ؟قال:یقول:قد دعوت منذکذا وکذاوماأریٰ الاجابة''(١)
''انسان اس وقت تک نیکی کی امید اور رحمت الٰہی میں رہتا ہے جب تک وہ جلدی بازی نہ کرے اوربندہ جلدبازی کر نے کے نتیجہ میں مایوس ہو جاتا ہے اور دعا کرناچھو ڑدیتا ہے ۔امام سے سوال کیا گیا بند ہ کی جلد بازی کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ فرمایا وہ کہتا ہے :میں یہ دعا مانگ رہا ہوں لیکن قبول نہیں ہو رہی ہے''
احمد بن محمد بن ابی نصر سے مروی ہے کہ میں نے ابو الحسن کی خدمت اقدس میں عرض کیا:
''جُعلت فداک ن قد سألت اللّٰہ الحاجة منذ کذا وکذا سنة،وقددخل قلب من ابطائھاشٔ،فقال:یاأحمد،ایاک والشیطان ان یکون لہ علیک سبیل حتّیٰ یقنطک۔اخبرن عنک لوأنّ قلت لک قولاکنت تثق بہ من۔فقلت لہ :جعلت فداک،اذالم اثق بقولک فبمن أثق،وانت حجة اللّٰہ علیٰ خلقہ؟قال فکن باللّٰہ اوثق،فنّک علیٰ موعد من اللّٰہ عزّوجلّ۔ألیس اللّٰہ یقول(وَاِذَاسَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْباُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ)(٢)وقال:(لَاتَقْنَطُوْا مِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کا فی صفحہ ٥٢٧ )اور وسائل اشیعہ جلد ٤ صفحہ ١١٠٧ حدیث ٨٧١١ ۔
(٢)سورئہ بقرہ آیت ٨٦ا۔
رَّحْمَةِاﷲِ )(١) وقال:(وَاﷲُ یَعِدُکُمْ مَغْفِرَةً مِنْہُ وَفَضْلاً)(٢)فکن باللّٰہ أوثق منک بغیرہ ولاتجعلوافی انفسکم الاخیراًفانہ لغفور لکم ''(٣)
''میری جان آپ پر فدا ہو میں پرور دگار سے ایک سال تک اپنی فلاں فلاں حاجتیں مانگتا رہا اب میر ے دل میں ان کے قبول نہ ہو نے کے سلسلہ میں خدشہ آگیا ہے :آپ نے فرمایا :اے احمد شیطان سے بچو! اس لئے کہ وہ تمہیں مایوسی کے راستہ پر لگادے گا :مجھے ثبوت دو کہ اگر میں تمہیں کچھ بتائو ں تو تم اس پر اعتماد کروگے :میں نے عرض کیا :میری جان آپ پر فدا ہو اگر میں آپ کے فرمان پر اعتماد نہیں کرونگا تو پھر کس کے فرمان پر اعتماد پر کرونگا اور آپ تو مخلوق پر اﷲ کی حجت ہیں ؟آپ نے فرمایا :اﷲ پر سب سے زیادہ اعتماد رکھو چونکہ خداوند عالم نے تم سے وعدہ کیا ہے ''کیا پر ورد گار عالم نے نہیں فرمایا :
(وَاِذَاسَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْباُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ)
''اور اے پیغمبر اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے ''
اور یہ فرمان :(لَاتَقْنَطُوْامِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ )''رحمت خدا سے ما یوس نہ ہو نا ''
اور یہ فرمان :(وَاﷲُ یَعِدُکُمْ مَغْفِرَةً مِنْہُ وَفَضْلاً)
''اور خدا مغفرت اورفضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے ''
لہٰذا تم سب سے زیادہ اﷲ پر اعتماد کرو اور اپنے نفس میں خیر کے علاوہ اور کچھ نہ قرار دو بیشک اﷲ تمہار ے لئے غفور ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ زمر آیت٥٣۔
(٢)سورئہ بقرہ آیت ٢٦٨۔
(٣)قرب الا سنا د صفحہ ١٧١۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ العبد اذا عجل فقام لحاجتہ (یعن انصرف عن الدعاء ولم یطل ف الدعائ،والوقوف بین ید اللّٰہ طالباًللحاجة)یقول اللّٰہ عزّوجلّ:أمایعلم عبدأنّ أنااللّٰہ الّذ اقض الحوائج )(١)
''بندہ جب جلد بازی کرتا ہے تو وہ اپنی حاجت کیلئے قیام (یعنی دعا کر نے سے منصرف ہو جاتا ہے زیادہ دیر تک دعا نہیں مانگتا اور اﷲ کی بارگاہ میںحاجت روائی کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے ) کر لیتا ہے ۔ پرور دگار فرماتا ہے :کیا میرا بندہ نہیں جانتا بیشک میں خداہوں جو حاجتوں کو پورا کرنے والا ہوں ؟''
ہشام بن سالم نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
(کان بین قول اللّٰہ عزّوجلّ :(قَدْاُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا)(٢)
خداوند عالم کے قول :(قَدْاُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا) اور فرعون کی تنبیہ کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے'' (٣)
اسحاق بن عمار سے مروی ہے :
(قلت لاب عبداللّٰہ علیہ السلام:یستجاب للرجل الدعاء ثم یؤخّر ؟
قال:نعم،عشرین سنة)(٤)
''میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا :میری جان آپ پر فدا ہوکیا بند ے کی دعا مستجاب ہو نے میں تا خیر ہو سکتی ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل اشیعہ صفحہ ١١٠٦حدیث ٨٧٠٩۔
(٢)سورئہ یونس آیت ٨٨۔
(٣)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٦٢ ۔
(٤)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٦٢۔
آپ نے فرمایا :ہاں بیس سال تاخیر ہو سکتی ہے ''
٣۔ اﷲ کی بار گاہ میں اضطرار
دعا میں انسان کیلئے اﷲ کی پناہ مانگنا ضروری ہے چونکہ مضطر خداوند عالم کے علاوہ کسی کو اس لا ئق نہیں پاتا جس سے امید لگا ئے اور اپنی حا جتوں کیلئے اس پر بھروسہ رکھے ۔
جب انسان اﷲ اور اﷲ کے علاوہ اس کے بندوں میں سے کسی سے اپنی امید لگا ئے رہتا ہے تو اس کو خدا وندعالم سے جس طرح لو لگا نی چاہئے تھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا اور اپنے نفس میں اﷲ سے مضطر ہو نے کی حالت نہیں پیداکی حالانکہ دعا کے مستجاب ہو نے کی بنیاد ی شرط وہی ہے ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے وقت فر مایا :
(وبالخلاص یکون الخلاص فاذااشتدَالفزع فالی اﷲ المفزع)(١)
''انسان اخلاص کے ذریعہ ہی چھٹکارا حاصل کرتا ہے جب زیادہ شدت و اضطراب و گھبراہٹ ہو گی تو انسان اللہ سے خو ف کھائے گا ''
مجبوری کی حالت میں انسان کی تمام امید یں ہر ایک سے منقطع ہو جاتی ہیں اور صرف اﷲ کی بارگاہ میں گڑگڑاتا ہے اور خدا کے علاوہ وہ کسی اور سے امید نہیں رکھتا
روایت کی گئی ہے کہ اﷲ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی :
(ادعن دعاء الحزین الغریق لیس لہ مغیث،یاعیسیٰ!سلنی ولا تسأل غیر،فیحسن منک الدعائ،ومنّ الاجابة)(٢)
''اے عیسیٰ جس کا کو ئی فریاد رس نہ ہو اس کی طرح گڑگڑاکر محزون ور نجیدہ ہو کر مجھ سے دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل اشیعہ جلد ٤ صفحہ ١١٢١حدیث ٨٧٦٤۔
(٢)وسائل اشیعہ جلد ٤ :صفحہ نمبر ١١٧٤حدیث ٨٩٥٨ ۔
ما نگو،میرے علاوہ کسی اور سے دعا نہ ما نگو جومجھ سے اچھی دعا مانگے گا تو میں ضرور مستجاب کرونگا''
امیرالمو منین حضرت علی علیہ السلام اﷲ سے مناجات کر تے ہو ئے فرما تے ہیں :
(الٰھ لیس تشبہ مسألت مسألة السائلین لاَنّ السائل اذا مُنع امتنع عن السؤال،وأنالاغناء ب عمّاسألتک علیٰ کل حال،الٰہ اِرضَ عن،فان لم ترضِ فاعف عن،فقدیعفوالسیدعن عبدہ وھوعنہ غیرراضٍ الٰہ کیف أدعوک وأنا أنا؟وکیف أیْأس منک وأنت أنت ؟)(١)
''پرور دگار میرا مسئلہ سا ئلوں کے سوالوں جیسا کب ہو سکتا ہے چو نکہ سا ئل کو جب منع کر دیا جاتا ہے تو وہ سوال کر نے سے رک جاتا ہے اور میں تجھ سے بے نیاز نہیں ہوں مجھے تو ہر حال میں تجھ سے سوال کرنا ہی ہے ،خدا یا مجھ سے را ضی ہو جا ،اگر تو مجھ سے راضی نہیں ہوتا تو مجھ کو معاف فر ما دے، کیونکہ آقا اپنے غلام کو راضی نہ ہو نے کی صورت میں بھی معاف کر دیتا ہے ،پرور دگار میں تجھ سے کیسے دعا کروں حا لانکہ میں میں ہوں ؟اور تجھ سے کیسے ما یوس ہوں حا لانکہ تو تو ہے ؟''
اسی کو حالت اضطرار کہا جاتا ہے جس میں بندہ اﷲ کے علاوہ کسی اور کوپناہ گاہ نہیں سمجھتا اور اپنی حاجتوں کو اﷲ کی بارگاہ میں پیش کر تا ہے ۔
جیسا کہ ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ حالت اضطرار اﷲ کی یاد میں غرق ہو جانا ہے جب بندہ اس بات سے با خبر ہوتا ہے کہ وہ اﷲ کی بار گاہ میں اپنی حاجت پیش کر نے پر مضطر ہے اور اﷲ کے علاوہ اس کا کو ئی اور نہیں ہے جس کی بارگاہ میں وہ اپنی حاجت پیش کر سکے تو وہ اسی کی یاد میں غرق ہو جاتا ہے اور اﷲ کے علاوہ کسی اور سے لو نہیں لگا تا وہ اﷲ کی ہی یاد میں منہمک رہتا ہے اور اس کے علاوہ کسی کی یادمیں منہمک نہیں ہو تا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)البلد الامین صفحہ ٣١٦۔
حضرت امام زین العابد ین علیہ السلام دعا میں فرما تے ہیں :
(وَاجْعَلْنِیْ مِمَّنْ یَدْعُوْکَ مُخْلِصاً فِیْ الرَّخَائِ دُعَائُ الْمُضْطَرِّیْنَ لَکَ ) (١)
''مجھے ان لوگوں میں قرار دے جو سکون کے لمحات میں اس خلوص سے دعا کرتے ہیں جس طرح پریشانی کے اوقات میں مضطر لوگ دعا کرتے ہیں ''
ایک اور مقام پر آپ فرما تے ہیں :
(اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَخْلَصْتُ بِاِنْقِطَاعِْ اِلَیْکَ وَاَقْبَلْتُ بِکُلِّْ عَلَیْکَ وَصَرَفْتُ وَجْھِْ عَمَّنْ یَّحْتَاجُ اِلیٰ رِفْدِکَ وَقَلَبْتُ مَسْألَتِْ عَمَّنْ لَمْ یَسْتَغْنِ عَنْ فَضْلِکَ وَرَأیْتُ اَنَّ طَلَبَ الْمُحْتَاجِ اِلیٰ الْمُحْتَاجِ سَفْہ مِنْ رَاْیِہِ وَضَلَّة مِنْ عَقْلِہِ )(٢)
''خدا یا میں مکمل اخلاص کے ساتھ تیری طرف آرہا ہوں اور پور ے وجود کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوں میں نے اپنا رخ ان تمام لوگوں سے مو ڑلیا ہے جو خود ہی تیری عطا کے محتا ج ہیں اور اپنے سوال کو ان کی طرف سے ہٹا لیا ہے جو خود بھی تیرے فضل و کرم سے بے نیاز نہیں ہیں اور میں نے یہ اندازہ کرلیا ہے کہ محتاج کا محتاج سے ما نگنا فکر کی نا دانی اور عقل کی گمرا ہی ہے ''
ان باتو ں پر زور دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان وہ مادی وسائل واسباب جن کو اﷲ نے لو گوں کی حاجتوں کو پورا کر نے کا وسیلہ قرادیا ہے ان کا سہار انہ لے جبکہ اﷲ نے ان کا سہارا لینے کا حکم دیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ نے ان اسباب کو اپنی مشیت وارادہ میں دائمی قراردیا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا م سے مروی ہے :
(واذا أراد احدکم ان لایسأل ربّہ شیئاالّااعطاہ فلییأس من الناس کلھم، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)صحیفہ کا ملہ سجادیہ دعا ٢٢۔
(٢)صحیفہ کاملہ سجادیہ دعا ٢٨۔
ولایکون لہ رجاء الَّاعنداﷲعزَّوجلَّ،فاِذَاعلِمَ اﷲ ذٰلک من قلبہ لم یسألہ شیئاالَّا اعطاہ )(١)
''جب تم میں سے کو ئی ایک یہ ارادہ کرے کہ ان کا پروردگار ان کو عطا کرنے کے علا وہ ان سے کسی چیز کاسوال نہیں کر تا ہے اور وہ اﷲ کے علا وہ کسی اور سے کو ئی امید و آرزو نہیں رکھتا ہے ،جب پروردگار عالم اس کے دل کی اس حالت سے آگاہ ہو جاتا ہے تو وہ (خدا)اس (بندہ )کو عطا کرنے کے علا وہ کو ئی سوال نہیں کرتا ہے ''
٤۔انھیںراستوں سے جاناجو خدا نے بتائے ہیں
اﷲ کی بارگاہ میں دعا کر تے وقت فروتنی کر نا اور یہ فروتنی اُن ہی طریقوں سے کی جائے جن کا اﷲ نے حکم دیا ہے ۔
روایت کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس رات اﷲ کی عبادت کی اور پھر اﷲ سے دعا کی اور وہ مستجاب نہ ہو سکی تو اس نے عیسیٰ بن مریم علیہا السلام سے گلہ شکوہ کیا۔
حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نے خداوند عالم سے اس کے متعلق سوال کیا تو پروردگار عالم نے فرمایا:
''یاعیسیٰ !انّہ دعان،وف قلبہ شک منک ''(٢)
''اے عیسیٰ اس نے مجھ سے دعا کی لیکن اس کے دل میں تمہار ے متعلق شک تھا ''
٥۔خداوند عالم کی طرف پوری قلبی توجہ
دعا قبول ہو نے کی سب سے اہم شرط یہی ہے بیشک دعا کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)تفسیر صافی :٥٨،طبع الحجریة ۔ایران ،اصول کا فی :٣٨٢،وسا ئل الشیعہ جلد ٤ ١١٧٤،حدیث ٨٩٥٦۔
(٢)کلمة اﷲ حدیث٣٧١ ۔
دل کو خدا کے سامنے جھکا دے اگر انسان کا دل اﷲ کے علاوہ دنیا کے مشاغل میں سے کسی ایک کی طرف لگا ہوا ہو تو انسان دعا کی حقیقت کو محقق نہیں کرسکتا ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
(انّ اﷲ عزوجلّ لایقبل دعائً بظہرقلب ساہٍ)(١)
''بیشک خدا وند عالم بھلا دینے والے دل کی دعا قبول نہیں کرتا ''
آپ کا ہی فرمان ہے :
(فاذادعوت أقبِل بقلبک ثم استیقن الاجابة)(٢)
''جب تم دعا کرو تو پہلے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو پھر اس کے مستجاب ہو نے کا یقین کرو ''
اور یہ بھی آ پ ہی کا فرمان ہے کہ (امیر المو منین علیہ السلام )نے فرمایا :
(لایقبل اللّٰہ عزّوجلّ دعاء قلب لاہٍ)(٣)
''خدالہو ولعب میں مشغول دل کی دعا قبول نہیں کرتا ہے ''
حدیث قدسی میں آیا ہے :
(یاموسیٰ ادعن بالقلب النق واللسان الصادق) (٤)
''اے مو سی ٰمجھ سے پاک وصاف دل اور سچی زبان سے دعا کرو ''
رسول اﷲ ۖنے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت میں فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی باب الاقبال علی الدعائ۔
(٢)اصول کافی باب الاقبال علی الدعاء حدیث ١۔
(٣)اصول کافی باب الاقبال علی الد عا ح٢۔
(٤)بحارلاانو ار جلد ٩٣ صفحہ ٣٤ ۔
(لایقبل اللّٰہّ دُعاء قلب ساہٍ)(١)''اﷲ سہوکر نے والے دل کی دعا قبول نہیں کر تا ''
سلیمان بن عمر وسے مروی ہے کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کو یہ فرما تے سنا ہے:
( انّ اﷲ عزوجلّ لایستجیب دعاء بظہرقلب ساہ فاذا دعوت أقبِل بقلبک ثم استیقن الاجابة)(٢)
''خدا وند عالم ظا ہری طور پر فراموش کار قلب کی دعا قبول نہیں کر تا ،پہلے دعا کو اپنے دل کے سامنے پیش کرو پھر اس کے قبول ہو نے کا یقین کرو ''
اور یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کا فر مان ہے :
(انّ اللّٰہ عزّوجلّ لَایستجیب دعاء بظہرقلب قاس )(٣)
''بیشک خداوند عالم قسی القلب کی دعا قبول نہیں کرتا ''
دعا میں اﷲ کے سامنے اپنے دل کا جھکانا ضروری ہے اور اپنے کو اﷲ کے حضور میں پیش کرنا ہے لہوولعب ،سہو اور قساوت یہ تینوں چیزیں انسان کو اﷲ کے سامنے دل جھکا نے سے روک دیتی ہیں
ہم ماثور ہ دعائوں میں پڑھتے ہیںکہ دعا کر نے والا خداکے سامنے دعا کی حالت میں آئے اور ایسا نہ ہو کہ اس کے دل اور زبان الگ الگ چیزوں میں مشغول ہو ں وہ زبان سے تو دعا کرر ہا ہو لیکن اس آدمی کا دل دنیا وی کا موں میں مشغول ہو ۔
عارف فقیہ شیخ جودا ملکی تبریز ی اپنی کتاب (المراقبات )میں تحریر کرتے ہیں :جان لو جب تک تمہاری روح اور تمہارا دل صفات دعا سے متصف نہ ہو اس وقت تک تمہاری دعا قبول نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)من لا یحضرہ الفقیہ جلد ٢ صفحہ٣٣٩۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤ ١١٠٥،حدیث ٨٧٠٥۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد ٤ ١١٠٦،حدیث ٨٧٠٧۔
اور صفات دعا سے متصف ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ دعا تمہار ے راز،روح اور دل سے جاری ہو،
مثال کے طور پر جب تم یہ کہو ''ارجوک لکل خیر''میں تجھ سے ہرخیر و اچھائی کی امید رکھتا ہوں۔تو تم کو اپنے باطن،روح اور دل سے اﷲسے امید کر نا چا ہئے اور ان میں سے ہر ایک کے کچھ آثار ہوتے ہیں اور ان آثار کا تمہارے اعمال سے اظہار ہونا چاہئے تو جس کے با طن اور حقیقت
میں آرزو محقق ہو جا ئے تو گویا وہ مجسم آرزو ہو جا ئے گا اور یہ جس کی روح میں ہو تو گو یا اس کی زندگی آرزو کے ذریعہ ہوگی ،جو اپنے قلب کے ذریعہ آرزو مند ہو گا تو قصد و اختیار سے صادر ہو نے والے اس کے اعمال آرزو کے ہمراہ ہوں گے لہٰذا اس بات سے ڈرو کہ تمہارے معا ملات میں کچھ آرزو نہ پا ئی جا ئے اس کو اپنے اعمال میں آزمائو ۔یہ دیکھو کہ کیا تم کو اپنی حرکات میں آرزو کا اثر یعنی طلب نظر آرہا ہے یا نہیں ؟کیا تم نے معصوم علیہ السلام کا قول نہیں سنا :''مَنْ رَجَاشَیْئاًطَلَبَہُ ''''جو شخص کسی چیز کی آرزو رکھتا ہے اس کو طلب کرتا ہے ''اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ تم دنیوی امور میں آرزو مند اہل دنیا کے حالات میں اس مطلب کو دیکھو گے کہ جب وہ کسی شخص یا شئے سے کسی خیر کی امید کرتے ہیں تو وہ اپنی امید کی مقدار بھر اس شخص سے اس کو طلب کرتے ہیں کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تا جر اپنی تجارت سے جدا نہیں ہوتا ،ہنر مند اپنے ہنر سے چپکا رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجارت اور پیشہ میں بھلا ئی کی امید کرتے ہیں اسی طرح ہر جماعت اپنی مراد کو اس چیز میں تلاش کرتی ہے جس میں ان کو امید ہو تی ہے اور جب تک ان کو مل نہیں جاتا جدا نہیں ہو تے ،مگر جنت اور آخرت کا امید وار اور فضل و کرامت الٰہی کا امید وار ۔صفات کے یہ آثار ایسے نہیں ہیں جن کا خدا وند عالم نے حکم لگایا ہواور آپ روش الٰہی میں کو ئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے لیکن گڑ بڑی دعوے کی حقیقت سے مشتبہ ہونے میں پیش آتی ہے ورنہ جب ذرّہ برابر امید نظر آتی ہے تو اس کے پاس اتنی ہی طلب ہو تی ہے اور اسی طرح الیٰ آخر اس مطلب کو اخذ کر لیجئے ۔
آرزو ہی کی طرح تسبیح ،تہلیل،تحمید ،تضرع ،استکانت ،خوف ،استغفار اور تو بہ جیسے مطالب دعا ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی کچھ حقیقتیں اور دعوے ہیں چنا نچہ حقیقت کا اثر تخلف پذیر نہیں ہوتا ہے ۔
٦۔دل پر خضوع اور رقت طاری کرنا
جب انسان اپنی دعا مستجاب کر انے کا ارادہ کر ے تو اس کیلئے قلب پر رقت طاری کرنا ضروری ہے اور انسان اپنے دل پر رقت طاری کر نے کی کو شش کر ے اس لئے کہ جب دل پر رقت طاری ہو جاتی ہے تو وہ صاف وشفاف ہو جاتاہے، اﷲ اور اس بند ے کے درمیان سے مانع ہو نے والی چیزیں ہٹ جاتی ہیں اور بند ہ اﷲ سے قریب ہو جاتاہے ۔
دعا اور سوال کر نے کے طریقوں میں دل پر رقت طاری ہو نامؤثر ہے اور روایات میں دعا کر تے وقت اپنے کو اسکی بارگاہ میں ذلیل وخوار کر کے پیش کر نا وارد ہو اہے ۔
احمد بن فہدحلی نے کتاب (عدةالداعی )میں نقل کیا ہے :
(اَنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اذاابتہل ودعاکان کمایستطعم المسکین)(١)
''جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گریہ وزاری فر ماتے تھے تو آپ کی وہی حالت ہو تی تھی جو مسکین کی کھاناطلب کرتے وقت ہو تی ہے ''
روایت کی گئی ہے کہ جب اﷲ نے جناب مو سیٰ علیہ السلام پروحی نازل فرمائی :
(ألق کفیک ذُلّابین یدّ کفعل العُبیدالمستصرخ الی سیّدہ،فاذا فعلت ذالک رحمت،وأنااکرم الأکرمین القادرین)(٢ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)عدة الداعی صفحہ ١٣٩ ،والجالس للمفید صفحہ ٢٢۔
(٢)عد ةالد اعی صفحہ ١٣٩ ۔
''میر ے سامنے تم اُس ذلیل وخوار غلام کی طرح آئو جو اپنے آقا کے سامنے بالکل ذلیل وخوار ہو تا ہے اس لئے کہ جب وہ غلام ایسا کر تا ہے تو آقا اس پر رحم کر تا ہے اور میں سب سے زیادہ اکر ام کرنے اور قدرت رکھنے والا ہوں ''
محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے خداوند عالم کے اس فرمان :
(فَمَااسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَایَتَضَرَّعُوْنَ )(١)
''پس وہ اپنی سر کشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہو تے جا ئیں گے ''کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
(سألت اباجعفرعلیہ السلام عن قول اللّٰہ عزّوجلّ:(فَمَااسْتَکَانُوْالِرَبِّھِمْ وَمَایَتَضَرَّعُوْنَ)فقال علیہ السلام:الاستکانة ھ الخضوع،والتضرع،ھورفع الیدین والتضرع بھما) (٢)
'' استکانت سے مراد خضوع اور تضرع سے مراد دونوں ہا تھوں کو بلند کر کے خدا کی بارگاہ میں گڑگڑانا''
دعا میں اس طرح کے طریقوں کا مقصد لو گوں کیلئے واضح نہیں ہے ،شک کرنے والے لوگ، لو گوں کو دعا کے طریقوں میں شک کر نے والا بناد یتے ہیں ۔ہم دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کیوں دعا کر یں ؟ کیا اﷲ آسمان کی طرف ہے جو ہم آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کریں؟ ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ان کیلئے یہ بیان فرمادیا ہے کہ اﷲ ہر جگہ ہے لیکن دعا کے اس طریقہ کو ہم نے اﷲ کے سامنے خضوع وخشوع کرنے سے اخذ کیا ہے اور یہ علامت ونشانی دل پررقت طاری ہو نے اور سختی کو دور کر نے اور اﷲ کے سامنے خضوع وخشوع پیش آنے میں مؤ ثر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مومنون آیت ٧٦۔
(٢)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٣٤٨ ۔
طبر سی نے کتاب احتجاج میںاباقرہ سے نقل کیا ہے کہ میںنے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :
(مابالکم اذا دعوتم رفعتم ایدیکم الیٰ السمائ؟قال ابوالحسن علیہ السلام:ِنّ اللّٰہ استعبدخلقہ بضروب من العبادة۔۔۔واستعبدخلقہ عندالدعاء والطلب والتضرع ببسط الاید ورفعھاالیٰ السماء لحال الاستکانة،علامة العبودیةوالتذلل لہ)(١)
''کیا وجہ ہے کہ آپ دعا کرتے وقت ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں ؟ابو الحسن علیہ السلام نے فرمایا :خداوند عالم نے بندوں کو عبادت کے کئی طریقہ بتلائے ہیں اور اس نے اپنی مخلوق کو دعا ،تضرع اور طلب کر تے وقت ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلند کرکے خشوع کی حالت کی تعلیم دی ہے اور یہ خدا کی عبودیت اور خشوع وخضوع کی علامت ہے ''
رقت طاری ہو نے کے اوقات میںرحمت نازل ہوتی ہے ۔انسان اﷲ سے دعا کر تے وقت اس وقت کو غنیمت شمار کر ے اس لئے کہ ان اوقات میں خداوند عالم کی بے حساب رحمت نازل ہو تی ہے ،نہ یہ کہ خدا کی رحمت نازل ہو نے کا کوئی وقت محدود اور مخصوص ہے بلکہ اﷲ کی رحمت کے استقبال کر نے کا وقت محدود اور اس کی خاص حالت ہے اور وہ حالت رقت کا طاری ہو نا ہے جب انسان کے دل پر رقت طاری ہو تی ہے تو اس کیلئے رحمت کا استقبال کر نا ممکن ہے ۔
رسول اﷲ ۖ سے مروی ہے :
(اغتنمواالدعاء عند الرقة فِنّھا رحمة )(٢)
''رقت طاری ہو نے کے وقت کو اپنے لئے غنیمت سمجھو اس لئے کہ یہ رحمت ہے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی صفحہ ٥٢٢ ۔ وسائل اشیعہ جلد ٤: ١١٠١حدیث ٨٦٨٧ ۔
(٢)بحار الانوا ر جلد ٩٣ صفحہ ٣١٣ ۔
ابو بصیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
(اذا رقّ احدکم فلیدع؛فاِنّ القلب لایرقّ حتیٰ یخلص )(١)
''جب تم میں سے کسی ایک پر رقت طاری ہو جا ئے تو اسے دعا کر نا چاہئے اس لئے کہ جب تک دل میں اخلاص نہ ہو اس وقت تک اس پر رقت طاری نہیں ہو سکتی ''
امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں :
(اذااقشعرّجلدک ودمعت عیناک،فدونک دونک فقد قصد قصدک )(٢)
''جب تمہاری جلد کے رونگٹے کھڑے ہو جا ئیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا ئیں تو اس حالت کو ضرور غنیمت سمجھو کیونکہ تمہاری یاد کی برآوری نزدیک ہو چکی ہے ''
حدیث بہت دقیق ہے ،بیشک دعا مستجاب ہو نے کیلئے دعا کر نے والے کی حالت کا براہ راست رابط ہے ،جب دل پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور اس میں خشوع آجاتا ہے تودعا کرنے والا دعا کے مستجا ب ہو نے کے بہت قریب ہو جاتا ہے اس کے بر خلاف جب دعا کرنے والا قسی القلب ہو جاتا ہے تو اس کی دعا مستجاب ہو نے سے بہت دور ہو جاتی ہے ۔
اسلامی نصوص میں وارد ہو ا ہے کہ نفس کے انکسا ر اور دل پر رقت طاری ہو نے کے وقت سے استفادہ کر نا چا ہئے اس لئے کہ انسان اس دنیا کے مصائب کو اﷲ سے دعا اور سوال کر کے آسان کر لیتا ہے ۔
یہی او قات انسان کو اﷲ کی بارگاہ میں جھکنے اور اس کی رحمت کا استقبال کرنے کیلئے زیادہ آمادہ کر تے ہیں ،اس کا راز یہ ہے کہ انسان خود پر طاری ہو نے وا لی رقت کے بغیر خدا کے سا منے جھکنے اور رحمت کا استقبال کر نے کیلئے متمکن نہیں ہو تا ہے ،جوانسان اﷲ کی با رگاہ میں جھکنااور دعا کرنا چاہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل اشیعہ جلد ٤ :١١٢٠۔حدیث صفحہ ٨٧٦١، اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٢١ ۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤ صفحہ ١١٤١،حدیث٨٧٦٣۔
ہے اس کیلئے دعا میں رقت کا طاری کرنا ضروری ہے ۔
اسحاق بن عمار سے مروی ہے :میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا :
(ادعوافاشتھی البکائ،ولایجیئن،وربّماذکرت بعض مَنْ مات مِنْ أھل فأرقّ وابک،فھل یجوزذالک؟فقال:نعم،فتذکّرفاذا رققت فابکِ،وادع ربک تبارک وتعالیٰ )(١)
''میں دعا کرتا ہوں اور رونا چاہتا ہوں لیکن مجھے رو نا نہیں آتا لیکن جب اپنے مرنے والے رشتہ داروں کو یاد کرتا ہوں تو گریہ کرنے لگتا ہوں کیا یہ جا ئز ہے امام علیہ السلام نے فر مایا :ہاں تم ان کو یاد کرو اور جب رقت پیدا ہو جائے تو گریہ کرو اور خداوند عالم سے دعا کرو ''
سعد بن یسارسے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :
(ِنّی اتباک ف الدعائ،ولیس ل بکائ۔قال:نعم )(٢)
''میں دعا کر تے وقت دوسر وں کو رُلا دیتا ہو ں لیکن خود نہیں روتا ۔
توآپ نے فرمایا :ہاںیعنی بہت اچھی بات ہے ''
ابو حمز ہ سے مروی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے ابو بصیر سے فرمایا:
(ِنْ خفت امراً یکون أَوحاجة تریدھا،فأبدأباللّٰہ فمجّدہ،واثن علیہ کما ھواھلہ،وصلّ علیٰ النبۖ وسل حاجتک،وتباک ۔۔ِنَّاب کان یقول: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢ صفحہ ٥٢٣۔وسائل الشیعہ جلد ٤ صفح١ ١١٢٢حدیث ٨٧٦٧۔
(٢)وسائل اشیعہ جلد ٤ صفحہ ١١٢٢حدیث١ ٨٧٦۔اصول کا فی جلد٢ صفحہ ٥٢٣ ۔
ِنّ اقرب مایکون العبد من الربّ عزّوجلّ وھوساجد باکٍ )(١)
''اگر تم پر کو ئی امر (بات )مخفی ہو یا تمہار ی کو ئی حاجت ہو اور تم حاجت روائی چاہتے ہو تو تم اس کی ابتد ا ء اﷲ کی تمجید سے کرو ،خدا کی ایسی حمد وثنا کرو جس کا وہ اہل ہے ،نبی پر صلوات بھیجو اور حاجت پیش کرو اور گریہ وزاری کرو ۔۔۔بیشک میرے والد بزرگو ار فرمایا کرتے تھے :بیشک پرور دگار عالم کے سب سے زیادہ نز دیک وہ شخص ہے جو گر یہ وزاری کی حالت میں سجدہ ریز ہو ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سجدوں میں یہ ذکر فرماتے تھے :
سجدوجھ الذلیل لوجھک العزیز،سجدوجھ البال لوجھک الدائم الباق،سجدوجھ الفقیرلوجھک الغنسجدوجھ وسمع وبصر ولحم ودم وجلد وعظم ومااقلت الارض منّ ﷲربّ العالمین )(٢)
''میں اپنے حقیر چہرہ کے ذریعہ تیری مقتدر ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوا میں نے اپنے بو سیدہ چہرہ کے ذریعہ تیری بے نیاز ذات کے سامنے سجدہ کیا میں نے اپنے چہرے ،کان ،آنکھ ، گو شت ،خون ،کھال ،ہڈی اور ان چیزوں کے ذریعہ تمام جہان کے پالنے والے خدا کے سامنے سجدہ کیا جن کا بار زمین پر ہے ''
٧۔مشکلات اور راحت و آرام میں ہمیشہ دعا کرنا
اسلامی روایات میں ہمیشہ آسانی کے وقت دعا کر نے کو پریشانی کے وقت دعا کر نے پر مقدم رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔
حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢ صفحہ ٥٢٤ ،و سائل الشیعہ جلد ٤:١١٢٢،حدیث ٨٧٧٠۔
(٢)البلد الا مین صفحہ ٣٣١۔
(تعرّف الی اﷲ ف الرخاء یعرفک ف الشدّة )(١)
''تم آسانی کے وقت اﷲ کو پہچانو (اﷲ کا تعارف کرائو )وہ تمہارا سختی کے وقت خیال رکھے گا (یعنی تمہاری مشکل آسان کردیگا )''
حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(مَنْ تقدّم ف الدعاء استجیب لہ اذا نزل البلائ،وقیل:صوت معروف، ولم یحجب عن السمائ،ومن لم یتقدم فی الدعاء لم یستجیب لہ اذانزل البلائ، وقالت الملا ئکة :ذاالصوت لانعرفہ )(٢)
''جس شخص پر مصیبتیں پڑرہی ہوں اور پھر بھی دعا کو مقدم رکھے یعنی دعا کر تا رہے تو اسکی دعا مستجاب ہو تی ہے ،اور کہاگیا ہے کہ اسکی ایک مشخص ومعین آواز ہو تی ہے جس میں آسمان بھی مانع نہیں ہو تے ہیں اور جو آسانی کے وقت دعا مقدم نہیں کر تا تو بلائیں نازل ہوتے وقت اس کی دعا قبول نہیں ہو تی اور ملائکہ کہتے ہیں :ہم اس آواز سے آشنا نہیں ہیں ''
حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(نّ الدعاء ف الرخاء یستخرج الحوائج ف البلاء )(٣)
''آسانی کے وقت دعا کرنا مصیبتوں میں حاجتوں کو روا کرتا ہے ''
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ہی فرمان ہے :
(مَنْ سرّ ہ ان یُستجاب لہ ف الشدّة فلیکثرالدعاء فی الرخاء ) (٤)
''اگر کوئی سختیوں میں اپنی دعا قبول کرانا چاہتا ہے تو اس کو آسانی کے اوقات میں بہت زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد ٤:١٠٩٧ حدیث ٨٦٧٢ ۔ (٢)وسائل اشیعہ جلد٤ ١٠٩٦،حدیث ٨٦٦٤ ۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد ٤ :١٠٩٦ ،حدیث ٨٦٦٥۔
(٤)وسائل الشیعہ جلد ٤۔١٠٩٦،حدیث ٨٦٦٠۔
دعائیں کرناچاہئے''
اور آپ ہی کا فرمان ہے :
(کان جد یقول:تقدّمواف الدعائ،فنّ العبد اذاکان دعّائً فنزل بہ البلاء فدعا،قیل:صوت معروف۔واذالم یکن دعّائً،یقول:فنزل بہ البلائ،قیل:أین کنت قبل الیوم ؟)(١)
''میر ے جد فرمایاکرتے تھے:دعا میں پیش قدمی کرو بیشک جب بندہ بہت زیادہ دعا کر تا ہے اور اس پر مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ہیں تو بھی دعا کر تا ہے ،تو اس کو ندا دی جا تی ہے یہ جا نی پہچا نی آواز ہے اور جب وہ زیادہ دعا نہیں کرتا اور اس پر بلائیں نازل ہو نے لگیں تو اس سے کہا جاتا ہے :اس سے پہلے تم کہاں تھے ؟''
یہ روایات بہت ہی دقیق و لطیف معنی کی طرف اشارہ کرتی ہیں بیشک دعا کا مطلب اپنے کو اﷲ کی بار گاہ میں جھکا دینا دعا کا پُر معنی اور دعا کو مستجاب ہونے کے نزدیک کرتا ہے اور جتنا زیادہ انسان اﷲ کی بارگاہ میں جھکتا ہے اتناہی اس کی دعا قبول ہو تی ہے ۔
جب انسان مکمل طور سے خدا کی بارگاہ میںخلوص دل سے اپنے کو جھکا دے اور بالکل خدا ہی سے لو لگائے تو اس وقت دعا اور دعا مستجاب ہو نے کے در میان کوئی رکاوٹ نہیں رہتی اور جتنا خدا کی بار گاہ میں جھکے گا اتنا ہی اس کی دعا مستجاب ہو گی ،خداکی بارگاہ میں جھکنا اور اس کے سامنے خشوع وخضوع سے پیش آناانسان کو زیادہ دعا کرنے کیلئے آما دہ کر تا ہے ۔
انسان کی زند گی کا کوئی بھی عمل ہو اس کی شان یہی ہو نی چاہئے اور انسان جتنی زیادہ دعا کر ے گا اتنا ہی اس کا دل اﷲ کی بارگاہ میں جھکے گا اور اس کا دل اﷲ کی اطاعت کر نے کیلئے آمادہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد ٤۔١٠٩٦،حدیث ٨٦٦٧۔
پس جب انسان پر مصیبت پڑے گی اور اس کا دل مصیبت نازل ہو تے وقت اﷲ کا مطیع ہو گا اور فوری طور پر خدا کی طرف متوجہ ہوگا تواسکی دعا استجابت کے قریب ہوگی اور اس دن اسکی دعا اور استجابت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوگی۔
فضل بن عباس سے مروی ہے :
(قال ل رسول اللّٰہۖ:احفظ اللّٰہ یحفظک۔ احفظ اﷲ تجدہ امامک۔تعرّف الی اللّٰہ ف الرخاء یعرفک ف الشدّة )(١)
''مجھ سے رسول اﷲ ۖنے فرمایا:اﷲکو یاد کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا،اﷲکو یاد کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا ،اﷲ کو یاد کرو تو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے تم آسانیوں میں خدا کا تعارف کرائو وہ تمہارا سختیوں میں تعارف کرائیگا ''
حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے مروی ہے :
(لم أرَ مثل التقدم ف الدعائ،فانّ العبد لیس تحضرہ الاجابة ف کلّ ساعة)(٢)
''دعا کو مقدم کر نے سے زیادہ میں کسی چیز کو نہیں سمجھتا اس لئے کہ بندہ کی دعا ہر وقت قبول نہیں ہوتی ہے''
جناب ابو ذر سے مروی ہے :
(قال رسول اللّٰہ ۖ:یاأباذرتعرّف الیٰ اللّٰہ فی الرخاء یعرفک ف الشّدة،فذاسألت فاسأل اللّٰہ،واذا استعنت فاستعن باللّٰہ )(٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)من لایحضر ہ الفقیہ جلد ٢۔صفحہ ٣٥٨۔(٢)ارشاد مفیدصفحہ ٢٧٧۔
(٣)وسائل اشیعہ جلد ٤صفحہ ١٠٩٨ ،عدة الداعی لابن فہد حلی صفحہ ١٢٧۔
''رسول خدا ۖنے مجھ سے فرمایا:اے ابوذر تم آسانیو ںمیں اﷲ کی معرفت حاصل کرو تو وہ تمہارا سختیوں میں تعارف کرائیگا اور جب تمھیں کوئی سوال در پیش ہو تو اﷲ سے سوال کرو اور جب کسی مددکی ضرورت پڑے تو اﷲ سے مدد مانگو ''
حضرت ابو جعفر علیہ السلام سے مروی ہے:
(ینبغ للمؤمن أنْ یکون دعائہ ف الرخاء نحواًمن دعائہ ف الشدّة، لیس اذااعطی فتر،فلا تملّ الدعاء فنّہ من اﷲ عزّوجل بمکانَّ)(١)
''مومن کو سختی اور آسانی دو نوں میں ایک ہی طریقہ سے دعا کرنا چاہئے ایسا نہیں ہو نا چا ہئے کہ نعمت ملنے کی صورت میں دعا میں سستی پیدا ہو جا ئے لہٰذا دعا کرنے سے مت تھکو کیونکہ دعا کا خداوند عالم کے نزدیک درجہ ہے ''
٨۔ عہد خداکووفاکرے
تفسیر قمی میں حضرت امام جعفر صادق علسیہ السلام سے مروی ہے :
(ان اﷲ تعالیٰ یقول:اُدْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ(٢)وانّ ندعوہ فلایستجاب لنا فقال:(لأنکم لاتوفون بعہد اﷲ وان اﷲیقول:)أفوا بھعدی أوفِ بعھدکم)(٣) واﷲلووفیتم ﷲلوفیٰ لکم)(٤)
آپ سے سوال کیا گیا کہ خداوند عالم فر ما تا ہے :(اُدْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ )'' تم مجھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل اشیعہ جلد ٤صفحہ ١١١١حدیث٨٧٢٩۔
(٢)سورئہ مومن آیت ٦٠۔
(٣)سورئہ بقرہ آیت ٤٠۔
(٤)تفسیر الصافی :ص٥٧(ط حجریة)تفسیر آیت ١٨٦ از سورئہ بقرہ۔
سے دعا کرو میں پوری کرو نگا ''ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی ہے ۔آپ نے فرمایا :تم اﷲ کے عہد کو پورا نہیں کرتے ہو اور اﷲ فرماتا ہے :
(اَوْفُوْابِعَھْدِیْ اُوفِ بِعَھْدِکُمْ )
''تم میر ے عہد کو پورا کرو میں تمہار ے عہد کو پورا کرو نگا ''
٩۔ دعا اورعمل کا ساتھ
دعا قبول ہو نے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل سے متصل ہونی چاہئے، بغیر عمل کے دعا کسی کو فائدہ نہیں پہنچا تی ہے اور عمل دعا سے بے نیاز نہیں کر سکتا ہے ۔
اس میں دو باتیں ہیں :پہلی بات یہ ہے کہ:دعا عمل کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ۔
رسول خدا ۖ نے جناب ابوذرسے فرمایا :
(یاأباذرمثل الّذ یدعوبغیرعمل کمثل الذ یرم بغیر وتر)(١) ''اے ابوذر عمل کے بغیر دعا کر نے والا اس تیر چلانے والے شخص کے مانند ہے جو بغیرکمان کے تیر پھنک رہا ہو ''
عمر بن یزید سے مروی ہے :میں نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیاکہ ایک شخص کہتا ہے :
(لأقعدنّ فی بیت،ولأصلینّ ولأصومنّ،ولأعبدنّ ربّ،فأمّا رزق فسیأتین،فقال:ھذااحد الثلاثةالّذین لایستجاب لھم)(٢)
''میں اپنے گھر میں بیٹھوں گا ،نماز پڑھو نگا ،روز ے رکھوں گا اور اپنے پروردگار کی عبادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسا ئل الشیعہ کتاب الصلا ة۔ابواب دعا باب ٣٢ح٣۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤:٦٠ ١١۔حدیث ٨٩١٣۔
کرونگا اور مجھے بغیر کام کئے رزق بھی ملے گا ''
آپ نے فرمایا :یہ ان تین افراد میں سے ہے جن کی دعا قبول نہیں ہوتی ''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(الداع بلاعمل کالرام بلا وتر) (١)
''بغیرعمل دعا کر نے والا اس تیر چلا نے والے کے مثل ہے جو بغیر کمان کے تیر چلا رہاہے''
آپ ہی کا فرمان ہے :
(ثلا ثة ترد علیھم دعوتھم :
رجل جلس فی بیتہ وقال:یارب ارزقن،فیُقال لہ :الم اجعل لک سبیلاً الیٰ طلب الرزق ۔۔۔)(٢)
''تین طرح کے لوگوں کی دعا رد کردی جاتی ہے :
ایک وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں بیٹھ کر کہے :اے پروردگار مجھے رزق عطا کرتو اس کو جواب دیا جاتا ہے :کیا میں نے تمہارے رزق طلب کر نے کیلئے کوئی راستہ معین نہیں کیا ہے۔۔۔ ''
اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کی اصلاح اور ہدایت کیلئے خدا سے دعا کر ے لیکن وہ اس کی تربیت کا کوئی اہتمام نہ کرے تو اس کی دعا قبول نہیں ہو گی ،اور یہ دعا ان چیزوں میں سے ہے جو اس کے مستجاب ہو نے میں رکاوٹ ڈالتی ہے اسی طرح اگر کوئی مریض ڈاکٹرسے مراجعہ کئے بغیر اپنے مرض سے چھٹکارے کی خاطر خدا سے دعا کرتا ہے اور دوا نہیں کھاتاہے اور شفاء کیلئے دوسری لازمی چیزوں کو بروئے کار نہیں لاتاہے تو یہ دعا کے مستجاب ہو نے میں مانع ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد ٤:٧٥ ١١۔حدیث ٨٩٦٥۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤ ١١٧٥،حدیث ۔٨٩٦٥۔
دوسری بات یہ ہے کہ عمل دعا سے بے نیاز نہیں ہے عمل کے بغیر دعا نہیں ہو سکتی ۔
حضرت رسول خدا ۖ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
(یدخل الجنة رجلان کانایعملان عملاًواحداً،فیریٰ احدھماصاحبہ فوقہ فیقول:یارب بم اعطیتہ وکان عملناواحداً ؟
فیقول اللّٰہ تعالیٰ:سألن ولم تسألن۔
ثم قال:اسألوا اللّٰہ من فضلہ،واجزلوا فانّہ لایتعاظمہ ش ئ)(١)
''جنت میں ایسے دومرد داخل ہو ںگے جن کا عمل ایک ہی ہو گا لیکن ان میں ایک اپنے کو دوسرے سے برتر دیکھے گا تو ایک کہے گا :
پروردگار اس کو مجھ سے زیادہ کیوں عطا کیا جبکہ ہم دونو ں نے ایک ہی عمل انجام دیا تھا ۔
پروردگار عالم جواب دیگا :اُس نے مجھ سے سوال کیا ،لیکن تم نے سوال نہیں کیا ۔
پھر فرمایا :اﷲ کے فضل سے سوال کرو اور اسکے علاوہ کوئی اور چیز اسکے نزدیک بڑی نہیں ہے ''
یہ بھی رسول خدا ۖ کا ہی فرمان ہے :
(نّ ﷲ تعالیٰ عباداً یعملون فیعطیھم،وآخرین یسألون صادقین فیعطیھم ثم یجمعھم ف الجنة،فیقول الذین عملوا:ربّنا عملنا فأعطیتنا،فبمااعطیت ھٰؤلائ؟
فیقول:ھٰؤلاء عباد ۔اعطیتکم اجورکم ولم ألتکم من اعمالکم شیئاً،و سألن ھٰؤلاء فأعطیتھم واغنیتھم،وھوفضل اوتیہ مَنْ اشائ)(٢)
''بیشک جن بندوں نے اس کی عبادت عمل کے ساتھ کی خداوند عالم نے ان کو عطا کیا ،اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسا ئل الشیعہ جلد ٤ صفحہ نمبر ١٠٨٤ ۔حدیث ٨٦٠٨ ۔
(٢)وسائل الشیعہ ٤:١٠٨٤ ۔حدیث ٨٦٠٩ ۔
دوسروں نے صدق دل سے سوال کیاتو ان کو بھی عطا کیا پھر ان سب کو اس نے جنت میں داخل کر دیا تو عمل کرنے والے کہیں گے :پروردگار ہم نے عمل کیا تو تو نے ہم کو عطا کیا لیکن تو نے ان کو کیوں عطا کیا، جبکہ انھوں نے عمل نہیں کیا ؟
پروردگار کہے گا :اے میر ے بندو!میں نے تم کو تمہارے عمل کی اجرت عطاکی ،لیکن رہا تمہارا یہ سوال کہ ان کو کیوں عطا کیا ان کو غنی کیوں کیا ؟وہ تو میرا فضل ہے جس پر ہو جائے ''
١٠۔ سنت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو تی
دعا کا مطلب فطرت ،کائنات ،معاشرہ اور تاریخ میں شگاف ڈا لنا نہیں ہے اور اﷲ کی سنتوں میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔
دعا کرنے والے کو دعا میں ان چیزوں کا سوال نہیں کر نا چاہیے جو معاشرہ ے ،تاریخ اور یا عالم فطرت وکائنا ت یا شریعت الٰہیہ کے خلاف ہو ں۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام سے سوال کیا گیا :
(اّدعوة اضلّ ؟
قال:الداع بمالایکون )(١)
''کو ن سی دعا سب سے زیادہ گمر اہ کرنے والی ہے ؟
آپ نے فرمایا: نہ ہو نے والی چیز کے بارے میں سوال کرنا ''
حضرت امیر المو منین علیہ السلام سے مروی ہے :
(ویاصاحب الدعا لاتسأل مالایکون ومالایحل)
''اے دعا کر نے والے جو چیز نہ ہو نے والی ہو اور جو چیز محال ہو اس کے بار ے میں سوال نہ کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار انوار جلد ٩٣ ۔صفحہ ٣٢٤۔
اور( مالایکون )جو چیز نہ ہو نے والی ہو یعنی معا شرے، تاریخ یا فطرت ،کا ئنات میں سنت الہٰی میں تغیر وتبد ل کی دعاکرنا ۔
اور (مالایحل )حلال نہ ہوں ،یعنی انسانی حیات میں اﷲ کے نظام شریعت کی مخالفت کرنا ۔اس سلسلہ میں خدا وند عالم فرماتا ہے :
(اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَاﷲُ لَھُمْ )(١)
''اگر ستر مر تبہ بھی استغفار کریں گے تو خدا انھیں بخشنے والا نہیں ہے ''
١١۔ گنا ہوں سے اجتناب
دعا مستجاب ہو نے کی ایک شرط گنا ہوں سے اجتناب اور ان کی طرف توجہ کرنا ہے ،بیشک دعاکا جو ہر اپنے کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرنا ہے ،کیسے انسان اﷲ کی معصیت کرنے کی تمرین کرتا ہے اس کے امر اور حکم سے رو گردانی کرتا ہے ،اﷲ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرتا اور اپنے کو اﷲ کی بارگاہ میں کیسے پیش کرے ؟
محمد بن مسلم امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کر تے ہیں :
(انّ العبد یسأل اللّٰہ تعالیٰ الحاجة ،فیکون من شأنہ قضاؤُھاالیٰ اجلٍ قریب،أوالیٰ وقت بط ئٍ،فیذنب العبد ذنباً،فیقول اللّٰہ تعالیٰ للملک :لاتقض حاجتہ،واحرمہ ایّاھا،فانّہ تعرّض لسخط واستوجب الحرمان منّ)(٢)
''جب بند ہ اﷲ سے اپنی حاجت طلب کرتا ہے توپر وردگار عالم کی شان یہ ہے کہ اس کی حاجت کو کچھ مدت کے بعد پورا کر ے یا کچھ تا خیر سے پورا کرے تو بندہ گناہ کر نے لگتا ہے پروردگار عالم فرشتہ سے کہتا ہے :اس کی حاجت پوری نہ کرنا، اس کو محروم اور دور رکھنا وہ مجھ سے سختی کے ساتھ پیش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ توبہ آیت٠ ٨۔
(٢)اصول کا فی جلد٢صفحہ ٤٤٠۔
آیالہٰذا وہ مجھ سے محروم ہو نے کا سبب بنا''
حضرت رسول خدا ۖ سے مروی ہے :
(مرّموسیٰ برجل وھوساجد،فانصرف من حاجتہ وھوساجد،فقال علیہ السلام :لوکانت حاجتک بید لقضیتھا لک،فأوحیٰ اللّٰہ الیہ،یاموسیٰ لوسجد حتی ینقطع عنقہ ماقبلتہ (مااستجبت لہ)حتیٰ یتحوّل عمّا أکرہ الیٰ ماأُحبّ)(١)
''ایک مرتبہ مو سیٰ علیہ السلام ایک سجدہ کر نے والے کے پاس سے گزر ے ،وہ جب سجدہ میں اپنی حاجت طلب کر کے اٹھا تو جناب مو سیٰ نے فرمایا :تم اپنی حاجت مجھ سے بیان کرو میں پورا کرونگا ،اﷲ نے وحی نازل کی اے مو سیٰ یہ بندہ اگر اتنے سجدے کرے کہ اسکی گردن بھی سجدہ کی حالت میں کٹ جائے تو بھی اس کی دعا مستجاب نہیں ہو گی جب تک وہ اس ناپسند گناہ کو ترک نہ کرے ''
١٢۔ اجتماعی طور پر دعا کرنا اور مومنین کا آمین کہنا
اسلامی روایات میں مومنین کے ایک ساتھ جمع ہو کر دعا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے :
مومنین کے اﷲ کی بار گاہ میں ایک ساتھ جمع ہو نے پر اﷲ نے ہمیشہ ان پر رحمت نازل کی ہے۔ مو منین نے اجتماع نہیں کیا اور اﷲ ان کے اس اجتماع سے را ضی نہیں ہوا مگر یہ کہ ان کا اجتماع اﷲ کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہے اور ان پر اﷲ کی رحمت اور فضل کی منا زل میں سے ہے ۔
ابن خالد سے مروی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرما یا :
(مامِنْ رھط اربعین رجلاً اجتمعوا ودعوااللّٰہ عزّوجلّ فی امرالّا استجاب لھم،فان لم یکونوااربعین فأربعة یدعون اللّٰہ عزّوجلّ عشرمرّات الّااستجاب اللّٰہ لھم فانّ لم یکونوااربعة فواحد یدعوااللّٰہ اربعین مرّة،فیستجیب اللّٰہ العزیزالجبّار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)عد ةالداعی صفحہ ١٢٥ ۔
لھم )(١)
'' کوئی ایسا گروہ نہیںہے کہ اگرچالیس آدمی جمع ہو کر اﷲ سے دعا کریں تو خدا ان کی دعا قبول کرے گا اگر چالیس آدمی جمع نہ ہو سکیں تو چار آدمی جمع ہو کر دس مر تبہ دعا کریں تو خدا ان کی دعا مستجاب کرے گا ،اور اگر چارآدمی جمع نہ ہو سکیں تو ایک آدمی چالیس مرتبہ دعا کرے تو خداوند عزیز و جباراس کی دعا قبول کرے گا ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مر وی ہے :
(کان أب اذا حزنہ أمر دعاالنساء والصبیان ثمّ دعا وأمّنوا)(٢)
''میرے پدر بزرگوار جب محزون ہو تے تو مجھے اور عورتوں کو جمع کرتے پھر دعا کرتے اور ان سے آمین کہلواتے ''
١٣۔آزادانہ طورپر ،کسی تکلف کے بغیر د عا
انسان کیلئے خدا وند عالم سے آزادانہ اور کسی تکلف کے بغیر دعا کرناسب سے بہترین چیز ہے بیشک دعا کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ اﷲ سے سوال کرتے وقت گریہ و زاری کرے گڑگڑاکر دعا ما نگے کسی طرح کاکوئی تکلف نہ کرے روایات میں وارد ہو نے والی دعا ئیں پڑھے اور دعا کرنے والا کسی طرح بھی دعا کر تے وقت اس حالت کو نہ چھو ڑے اس لئے کہ انسان اﷲ سے گڑاگڑا گر دعا کر تے وقت اپنے نفس میں اس چیز کا احساس کرتا ہے جس کا وہ روایات میں وارد ہو نے والی دعا ئوں کو پڑھتے وقت احساس نہیں کر تے ہیں۔
اس لئے دعا کر تے وقت انسان کو اپنے نفس میں اس حالت کا خیال رکھنا چاہئے کہ اﷲ سے گڑاگڑا کر اور گریہ وزار ی کر کے دعا مانگنے میں کسی تکلف سے کام نہ لے ۔کبھی کبھی ائمہ معصو مین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٢٥ ۔
(٢)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٣٥،وسائل الشیعہ جلد ٤:١١٤٤حدیث٨٨٦٣۔
دعا کرنے والے کوبے تکلف ہو کر دعا کرنے کی تلقین فرماتے تھے روایات میں وارد ہو نے والی دعائوں کے ذریعہ نہیں، اسلئے کہ کہیں ماثور ہ دعائوں کے ذریعہ دل کی یہ بے تکلفی ختم نہ ہو جائے ۔
زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :
(علّمنی دعائً ۔فقال :انّ أفضل الدعاء ماجریٰ علیٰ لسانک )(١)
''مجھ کو دعا کی تعلیم دیجئے۔
آپ نے فرمایا :سب سے افضل وہ دعا ہے جو تمہار ی زبان پرجاری ہو تی ہے''
١٤۔نفس کو دعا، حمد وثنا ئے الٰہی،استغفار اور صلوات پڑھنے کیلئے آمادہ کرنا
دعا یعنی خودکو اﷲ کی بار گاہ میں پیش کر نا اور خود کو اس کی بارگاہ میں پیش کر نے کیلئے حضور نفس کا ہو نا ضروری ہے ۔حضور نفس کی ابتد ا ء حمد وثنا ئے الٰہی سے کرے ،اس کی نعمتوں اور فضل وکرم کا شکرادا کرے ،اﷲ کے حضور میں اپنے گناہوں سے استغفار کر ے ،رسول اور اہل بیت رسول پر صلوات بھیجے دعا کیلئے حضور نفس کے یہی طریقے ہیں اور انسان اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر کر نے اور اس سے سوال کرنے کیلئے اپنے نفس کو آمادہ کرے ،اکثر دعائوں کے مقدمہ میں حمدوثنا ئے الٰہی ،شکر، استغفار اور محمد وآل محمد پر صلوات بھیجنا وارد ہو ا ہے ۔
عیص بن قاسم سے مرو ی ہے کہ ابو عبد اﷲ علیہ السلام نے فرمایا : جب بھی تم میں سے کوئی ایک خدا سے حا جت طلب کرنا چاہے تو اس کو سب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد وثنا کرنا چاہئے جب تم اپنی حاجتیں خدا سے طلب کرو تو اﷲ کی تعریف و تمجید کرو،اور اس کی حمد و ثنا کرتے ہو ئے اس طرح کہو : یاأجود مَنْ اعطیٰ،ویاخیرمن سُئل ویاأرحم مَنْ استُرحم،یااحد، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)الامان من الاخطار لابن طائو س صفحہ ٣۔
یاصمد،یامن لم یلدولم یولد،ولم یکن لہ کفوااحد،یامن لم یتخذصاحبةولاولداً ٰیامن یفعل مایشائ،ویُحکم مایریدُویقض مااُحب،یامن یحول بین المرء وقلبہ،یامن ھوبالمنظرالاعلیٰ،یامن لیس کمثلہ شء یاسمیع یابصیر''
اور اﷲ عزوجل کے اسماء کی زیا دہ تکرار کرو چونکہ خدا کے اسماء بہت ہیںاور محمد آل محمد پر صلوات بھیجو اور کہو(اللَّھم اوسع علّ من رزقک الحلا ل ما اکفّ بہ وجھ،واود بہ عن(عن )امانت،واصل بہ رحم،ویکون عونا ل ف الحج والعمرة)
اور یہ بھی نقل کیا ہے کہ :
''انّ رجلاً دخل المسجد فصلّی رکعتین ثم سأل اللّٰہ عزّوجلّ وصلّی علی النبی ۖفقال رسول اللّٰہ عجّل العبد ربہ ،وجاء آخر فصلّیٰ رکعتین،ثم اثنیٰ علی اللّٰہ عزّوجل،ّوصلّیٰ علیٰ النب ۖ،فقال رسول اللّٰہ ۖ سل تعط )(١)
''ایک شخص مسجد میں آیا اور اس نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد خدا سے اپنی حاجت طلب کی ،تو رسول اﷲ ۖنے فرمایا :اس نے اپنے رب کی عباد ت کرنے میں جلد ی کی ہے :اور دوسرا شخص مسجد میں آیا اس نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد خدا کی حمد وثنا کی ،نبی ۖپر صلوات بھیجی تو رسول اﷲ ۖ نے فرمایا :سوال کرو تا کہ تم کو عطا کیا جا ئے''
ابو کہمس نے حضرت امام جعفرصاد ق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
(دخل رجل المسجد فابتدأ قبل الثناء علی اللّٰہ والصّلاة علی النب ۖ فقال النبعجّل العبد ربّہ ثمّ دخل آخر فصلّیٰ،واثنیٰ علی اللّٰہ عزّوجل،ّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کا فی جلد٢صفحہ٥٢٤۔وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ١١٢٦حدیث٨٧٨٦۔
فصلّیٰ علیٰ رسول اللّٰہ ۖ،فقال رسول اللّٰہ سل تعطہ )(١)
''ایک شخص مسجد میں داخل ہو ا تو اس نے اﷲ کی حمد وثنا اور نبی پر صلوات بھیجنے سے پہلے نماز پڑھنا شروع کی تو رسول اﷲ ۖ نے فرمایا: اس بند ے نے اپنے رب کی عبادت کرنے میں جلد بازی سے کام لیا ہے ،پھر دوسرا شخص مسجد میں داخل ہو ا اس نے نماز پڑھی اور خدا کی حمد وثنا کی اور رسول ۖپر صلوات بھیجی تو رسول اﷲ ۖ نے فرمایا :سوال کر تا کہ تجھکو عطا کیا جائے ''
صفوان جمال نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
(کلّ دعاء یُدعیٰ اللّٰہ عزّوجلّ بہ محجوب عن السماء حتّی یصلیٰ علی محمّد وآل محمّد)(٢)
''اﷲ سے کی جانے والی دعا اس وقت تک آسمان کے پردوں سے اوپر نہیں جاتی جب تک محمد وآل محمد پر صلوات نہ بھیجی جائے '
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(لایزال الدعاء محجوباًعن السماء حتّی یصلیٰ علی محمّد وآل محمّد)(٣)
''جب تک محمد وآل محمد پر صلوات نہ بھیجی جائے دعاآسمان کے پردوںسے اوپر نہیںجاسکتی ہے''
١٥۔خداسے اس کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنا
بیشک اﷲ تبارک و تعالی اس بات کو پسندکرتا ہے کہ اس کے بند ے اس کو اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ١١٢٧حدیث ٨٧٨٨۔اصول کافی جلد٢صفحہ٥٢٥۔
(٢)اصول کافی جلد٢صفحہ٥٢٨،وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ١١٣٥حدیث ٨٨٢٦۔
(٣)مجالس مفیدصفحہ ٠ ٦، وسائل الشیعہ جلد ٤: ١١٣٧حدیث٣٧ ٨٨۔
اسما ئے حسنیٰ کے ذریعہ پکاریں:
(قُلِ ادْعُوْااﷲَ اَوِادْعُوْاالرَّحْمٰنَ اَیَّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الأَسْمَائُ الْحُسْنٰی)(١)
''آپ کہہ دیجئے کہ اﷲ کہہ کر پکا رو یا رحمن کہہ کر پکا رو جس طرح بھی پکارو گے اس کے تمام نام بہترین ہیں ''
اﷲ کے اسما ئے حسنیٰ میں سے ہر ایک اسم اسکی رحمت اور فضل کے ابواب میں سے ایک باب کی کنجی ہے ۔
شریعت اسلامیہ کی متعدد روایات میں پرور دگار عالم کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنے پربہت زیادہ زوردیا گیا ہے ،اور متعدد روایات میں وارد ہوا ہے جب مومن اﷲ کو اس کے اسمائے حسنٰی کے ذریعہ دس مرتبہ پکار تا ہے تو اﷲ اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(من قال یااللّٰہ عشرمرّات قیل لہ:لبیک ماحاجتک )(٢)
''جس نے دس مرتبہ یا اﷲ کہا تو اس کو ندا دی جا تی ہے بولو تمہار ی کیا حاجت ہے ؟''
ابو بصیر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
(من قال یااللّٰہ عشرمرّات قیل لہ:لبیک ماحاجتک؟ )(٣)
''جب بندہ سجد ے کی حالت میں دس مرتبہ یااﷲ ،یارباہُ،یاسید اہ ُ ،کہتا ہے تو پر ورد گار اس کی دعا کو قبول کرتے ہوئے کہتا ہے : لبیک اے میرے بندے بتا تیر ی کیا حاجت ہے ؟''
عبد اﷲ بن جعفر نے قرب الا سناد میں مسعد ہ بن صدقہ سے نقل کیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ اسرا ء آیت١١٠۔
(٢)اصول کافی جلد٢صفحہ٥٤١۔وسائل الشیعہ جلد ٤ ١١٣٠،حدیث٨٧٩٨۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ١١٣١۔حدیث٨٨٠٢۔
(قل عشرمرّات یااللّٰہ یااللّٰہ فانّہ لم یقلہ احد مِنْ المؤمنین قط الّاقال لہ الربّ تبارک وتعالیٰ:لبیک یاعبد سل حاجتک )(١)
''دس مرتبہ یااﷲ یا اﷲ کہو ،جب بھی کو ئی مو من اﷲ کو دس مرتبہ پکار تا ہے تو خداوند عالم اس سے کہتا ہے :لبیک میر ے بند ے بتا تیر ی کیا حاجت ہے ؟''
حضرت علی ٰبن الحسین علیہ السلام سے مروی ہے : رسول خدا ۖنے ایک شخص کو یاارحم الراحمین کہتے سناتوآپ نے اس شخص کا شانہ پکڑکر فرمایا:ھٰذا ارحم الراحمین قد استقبلک بوجھہ سل حاجتک ''یہ ارحم الراحمین ہے جس نے مکمل طور پر تمہاری طرف توجہ کی ہے ''(٢)
١٦۔اپنی حاجتیں اﷲکے سامنے پیش کرو
پروردگار عالم جانتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہمارا کیا ارادہ ہے، وہ ہمارے سوال سے بے نیاز ہے لیکن خداوند عالم اپنی بارگاہ میں ہماری حاجتیں پیش کرنے کوپسندکرتا ہے۔
کبھی کبھی کوئی بندہ ایسا ہوتا ہے جو اپنے کو خدا سے بے نیاز سمجھتا ہے یہاں تک کہ نہ اس سے سوال کرتا ہے اور نہ ہی اس کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کرتا ہے۔
بیشک جب انسان خدا کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتا ہے تو وہ بندہ اس سے قریب ہوتا ہے، اس سے لو لگاتا ہے،اس سے مانوس ہوتا ہے،وہ اپنے کو خدا کا محتاج ہو نے کا احساس کرتا ہے اور خداوند عالم ان تمام چیزوں کو دوست رکھتا ہے۔
جب ہم اپنے تمام امور میں اﷲسے دعا کر تے ہیں تو خداوند عالم کو یہ اچھا لگتا ہے کہ ہم اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)قرب الا سناد جلد٢،وسائل الشیعہ جلد ٤:١١٣٢،حدیث٨٨٠٩۔
(٢)محا سبة النفس :١٤٨،وسا ئل الشیعہ جلد ٤ ١١٣٢،حدیث ٨٨١٥۔
سے تفصیل کے ساتھ دعا کریں اختصار کے ساتھ دعا نہ کریں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ االسلام سے مروی ہے:
(انّ اللّٰہ تعالیٰ یعلم مایرید العبد اذا دعاہ،ولکن یُحبّ ان یبث الیہ الحوائج،فاذادعوت فسمّ حاجاتک )(١)
''بیشک جب بندہ خداوند عالم سے دعا کرتا ہے تو خدا جانتا ہے کہ بندہ کیا چاہتا ہے لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ بند ہ اس کے سامنے نام بنام اپنی حاجتیں بیان کرے پس جب تم اس سے دعا کرو تو نام بنام اپنی حاجتیں بیان کرو''
١٧۔دعامیں اصرار
دعا میں بہت زیادہ اصرار کرنے سے بندے کے خدا پر گہرے اعتماد اور خدا سے اپنی امیدیں رکھنے اور گہرے تعلقات کا پتہ چلتا ہے، انسان کا جتنازیادہ اﷲپر اعتماد ہوگا اتنا ہی وہ دعا میں اصرار کرے گا،اسکے برعکس جب انسان کا اﷲپر کم اعتماد ہوتا ہے تو جب اسکی دعا قبول نہیں ہوتی تو وہ دعا کرنا چھوڑدیتا ہے اور مایوس ہوجاتا ہے۔
جس طرح دعا میں اصرار کرنے سے اﷲپر اعتماد اور اس سے گہرے تعلقات کا پتہ چلتا ہے اسی طرح دعا میں اصرار کرنے سے اﷲپر زیادہ اعتماد اور اس سے گہرا لگائو پیدا ہوجاتا ہے۔
جتنا انسان کا اﷲپر اعتماد اور اس سے لگائو ہوگا اتنا ہی وہ اﷲسے قریب ہوگا۔
اسلامی روایات میں متعدد مرتبہ دعا میں اصرار کرنے اور کسی بھی حال میں دعا کے مستجاب نہ ہونے سے مایوس نہ ہونے پر زور دیا گیا ہے۔
رسول اﷲ ۖسے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢صفحہ٥٢٠،وسائل الشیعہ جلد٤،ص١٠٩١حدیث ٨٦٤٢۔
(انّ اللّٰہ یُحبّ الملحّینَ ف الدعاء )(١)
''خداوندعالم دعامیںبہت زیادہ اصرار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''
یہ بھی آپ ہی کا فرمان ہے کہ:
(انّ اللّٰہ یُحبّ السائل اللحوح)(٢)
''خداوندعالم زیادہ اصرارکرنے والے سائل کودوست رکھتاہے ''
امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے:
(الدعاء ترس المؤمن ومتیٰ تکثر قرع الباب یُفتح لک )(٣)
''دعا مومن کی سپر ہے اور جب بھی وہ بہت زیادہ دروازہ کھٹکھٹائے گا تو وہ کھل جائیگا''
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
(الدعاء یردّ القضاء بعد مااُبرم ابراماً فاکثرمن الدعاء فانّہ مفتاح کلّ رحمة ونجاح کلّ حاجة ولاینال ماعند اﷲ عزّوجل ّ ا لاّبالدعاء وانّہ لیس باب یُکثرقرعہ ا لا اوشک انْ یفتح لصاحبہ )(٤)
''محکم و مضبوط دعا سے قضا ٹل جا تی ہے، دعائیںبہت زیادہ کرو یہ ہر رحمت کی کنجی ہے۔ہر حاجت و ضرورت کی کامیابی کا سرچشمہ ہیں اور اﷲکے پاس جو کچھ ہے وہ دعا کے علاوہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے،اور جب بھی کسی دروازے کو زیادہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو وہ کھٹکھٹانے والے کیلئے کھل جاتا ہے''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الانوارجلد٩٣صفحہ٣٠٠۔
(٢)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٧٤۔
(٣)وسائل الشیعہ جلد١٠٨٥٤حدیث٨٦١٢۔
(٤)وسائل الشیعہ جلد١٠٨٦٤حدیث٨٦١٦۔
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے مروی ہے:
(انّ اﷲ کرہ الحاح الناس بعضھم علیٰ بعض فی المسألة وأحبَّ ذلک لنفسہ )(١)
''خداوندعالم بعض بندوںکوبعض دوسرے بندوں کے سامنے گڑگڑانے اور خوشامد کرنے کو ناپسند کرتا ہے اور اپنی بارگاہ میںاصرار کرنے کو دوست رکھتا ہے''
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:
(فالحح علیہ ف المسألة یفتح لک ابواب الرحمة )(٢)
''تم کسی مسئلہ میں اس(اﷲ)سے اصرار کرو تو وہ تمہارے لئے رحمت کے دروازے کھول دیگا''
ولید بن عقبہ ہجری سے مروی ہے میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے:
(واللّٰہ لایلحّ عبد مؤمن علیٰ اللّٰہ فی حاجتہ الّاقضاھا لہ )(٣)
''خدا کی قسم کوئی بندہ اپنی دعا میں خدا سے خوشامدنہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اسکی دعا مستجاب کرتا ہے''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت امام رضا علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں:
(رحم اﷲ عبداً طلب من اﷲ عزّ وجلّ حاجة فألحّ َ ف الدعاء استجیب لہ أو لم یستجب ثم تلا ھذہ الآ یة(وَادْعُوْا رَبِّیْ عَسیٰ اَنْ لَااَکُوْنَ بِدُعَائِ رَبِّیْ شَقِیّاً)
''خداوند عالم رحم کرے اس بندے پر جو اپنی دعا میں اصرار اور خوشامدکرتا ہے،اسکی دعا مستجاب کرے یا مستجاب نہ کرے پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوارجلد٩٤ص٣٧٤۔
(٢)بحار الانوارجلد٧٧صفحہ٢٠٥۔
(٣)اصول کافی صفحہ٥٢٠۔
(وَادْعُوْارَبِّیْ عَسیٰ اَنْ لَااَکُوْنَ بِدُعَائِ رَبِّیْ شَقِیّاً)۔(١)
''اور اپنے رب کو آواز دو نگا کہ اس طرح میں اپنے پرور دگار کی عبادت سے محروم نہیں رہو نگا ''
حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
(سل حاجتک والح ف الطلب فانّ اﷲ یحبّ لحاح الملحّین من عبادہ المؤمنین)(٢)
حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
(سل حاجتک وألحّ فی الطلب فنّ اﷲ یُحبّ لحاح الملحّین من عبادہ المؤمنین)(٣)
''خدا کی قسم کسی بندے نے اﷲسے دعا کرنے میںخوشامدنہیں کی مگر یہ کہ خدا نے اسکی دعا مستجاب فرمائی''
١٨۔ایک دو سرے کے لئے دعا کرنا
اس سلسلہ میں عنقریب اس کتاب کی آئندہ آنے والی بحث'' دعا کے سلسلہ میں کو نسی چیزیں سزا وار ہیں اور کو نسی چیزیں سزا وار نہیں ہیں ''بیان کریں گے ،اب ہم یہاں پر صرف اتنی ہی بحث کریں گے جو دعا کے آداب اور اس کی شرطوں سے متعلق ہے ۔پس جب انسان اﷲ سے دو سروں کیلئے دعا ما نگتا ہے اور اپنے اور اس دوست کے درمیان سے کینہ و نفرت دور کر دیتا ہے تو خدا وند عالم اس کیلئے دروازہ کھول دیتا ہے ۔بیشک مو منین کا ایک دو سرے سے محبت ،عطوفت اور مہر بانی کرنا دعا کرنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مریم آیت٤٨۔
(٢)اصول کافی جلد٢ص٥٢٠۔
(٣)قرب الاسنادص٥٢٠۔
والے اور جس کیلئے دعا کی جا رہی ہے اس کیلئے اﷲ کی رحمت کی کنجیوں میں سے ہے ۔
دعا کرنے والے کے سلسلہ میں معا ویہ بن عمار نے اامام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
(الدعاء لاخیک بظھرالغیب یسوق الی الد اع الرزق ویصرف عنہ البلاء ویقول الملک ولک مثل ذلک )(١)
''تمہا ری نظروں سے پو شیدہ بھائی کیلئے تمہارے دعا کرنے سے تمہارے رزق میں برکت ہو تی ہے ،دعا کرنے والے سے بلائیں دور ہو تی ہیں اور فرشتہ کہتا ہے : تمہا رے لئے بھی ایسا ہی ہے جو تم نے دو سروں کیلئے دعا کی ہے (یعنی خدا وند عالم تمہارے رزق میں بھی برکت کر دے گا ''
رسول اﷲ ۖ سے مروی ہے :
(مَنْ دعا لمؤمن بظھرالغیب قال الملک فلک مثل ذلک ) (٢)
''جو نظروں سے پو شیدہ مو من کیلئے دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے :تمہا رے لئے بھی ایسا ہی ہے ا س لئے کہ تم نے دو سرے کیلئے دعا کی ہے''
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(دعاء المرء لأخیہ بظھرالغیب یدرّ الرزق وید فع المکروہ )(٣)
''انسان کا اپنے غائب مومن بھا ئی کیلئے دعا کرنے سے اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے اور اس سے بلائیں دور ہو تی ہیں ''
ابن خا لد قمّاط سے مروی ہے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے :
(اسرع الدعاء نجحاً للجابة دعاء الاخ لاخیہ بظھرالغیب یبدأ بالدعائ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ ٢٩٠ ،بحا ر الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨٧۔
(٢)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ ٢٩٠ ،بحا ر الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٨٤۔
(٣)اصول کا فی جلد٢صفحہ ٤٣٥ ،وسائل الشیعہ جلد ٤:١١٤٥،حدیث ٨٨٦٧۔
لأخیہ فیقول لہ ملک موکّل بہ آمین ولک مثلا ہ )(١)
''سب سے جلدی وہ دعا مستجاب ہو تی ہے جو کسی بھا ئی کیلئے اس کی غیر مو جود گی میں کی جا تی ہے دعا کی ابتدا میں پہلے دو سرے کیلئے دعا کرنا شروع کرو تو اس کا موکل فرشتہ آمین کہتا ہے اور تمہا رے لئے بھی ایسا ہی ہے ''
اور جس کیلئے دعا کی جا رہی ہے اس کے سلسلہ میں روایت نقل کی گئی ہے کہ:
(ادعن علیٰ لسان لم تعصن بہ ۔
قال:یارب،انّیٰ لی بذلک ؟قال:اُدعن علیٰ لسان غیرک )(٢)
اﷲ تعالیٰ نے مو سیٰ بن عمران سے کہا :مجھے اس زبان سے پکار وجس زبان سے تم نے گناہ نہ کئے ہوں ۔
موسیٰ بن عمران نے عرض کیا : پالنے والے کیا میں ایسا کرسکتا ہوں؟ پروردگار نے فرمایا :مجھ سے کسی دوسرے کیلئے دعا کرو''
١٩۔رحمت الٰہی نازل ہوتے وقت دعا
انسان پردعا کے ذریعہ اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے :
دعا کے سب سے بہترین اوقات وہ اوقات ہیںجن میں رحمت نازل ہوتی ہے ،انسان اﷲ کی رحمت سے قریب ہو جاتا ہے ۔
رحمت نازل ہو نے کے بہت زیادہ اوقات ہیں :
قرآن کی تلاوت کرتے وقت ، اذان کے وقت ،بارش کے وقت ، جنگ کے دوران شہید ہوتے وقت ۔
یہ آخری وقت سب سے افضل وقت ہے چونکہ اس میں زمین والوں کیلئے اﷲ کی رحمت کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کا فی صفحہ ٤٣٥ ،وسائل الشیعہ جلد ٤:١١٤٥،حدیث ٨٨٦٧۔
(٢)بجارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٤٢،عدةالداعی صفحہ ١٢٨۔
دروازے کھل جاتے ہیں ۔
سکونی نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
(اغتنمواالدعاء عند اربع :عند قراء ة القرآن،وعندالأذان،وعند نزول الغیث،وعند التقاء الصفین للشھادة )(١)
'' چار موقعوں پر دعا کر نا غنیمت شمار کرو :قرآن کی تلاوت کرتے وقت ،اذان کے وقت بارش ہو تے وقت اور جنگ کے دوران شہید ہوتے وقت ''
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے :
(اغتنمواالدعاء عند خمسة مواطن:عند قراء ة القرآن،وعند الأذان، وعند نزول الغیث،وعند التقاء الصفین للشھادة ،وعند دعوة المظلوم ،فنّھالیس لھاحجاب دون العرش )(٢)
''پانچ مقا مات پر دعا کرنا غنمیت سمجھو : تلاوت قرآن کے وقت ،بار ش ہوتے وقت ، جنگ میں شہادت کیلئے لڑتے وقت اور مظلوم کیلئے دعا کرتے وقت ان پانچو ں وقتوں میں دعا کرنے میں عرش الٰہی کے علاوہ کو ئی حجاب نہیں ہے ''
حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا ہی فرمان ہے :
(مَنْ قرأ مائة آیة من القرآن،من اّ القرآن شاء ثم قال:یااﷲ سبع مرات فلودعا علی الصخرة لقلعھانْ شاء اﷲ )(٣)
''اگر کوئی شخص کسی جگہ سے بھی قرآن کی سو آیات کی تلاوت کرنے کے بعد سو مرتبہ یا اﷲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)١صول کافی جلد٢صفحہ٥٢١،وسائل الشیعہ جلد ٤صفحہ١١١٤،حدیث ٨٧٣٩۔
(٢)وسائل الشیعہ جلد ٤ :١١١٥،حدیث ٨٧٤٢ ۔
(٣)ثواب الاعمال الصدوق صفحہ ٥٨ ۔
کہے اور وہ پہاڑکیلئے دعا کرے تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جا ئے انشا ء اﷲ ''
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(کان أ بی اذاطلب الحاجة طلبھاعند زوال الشمس،فاذا اراد ذلک قدّم شیئاًفتصدق بہ وشم شیئاًمن طیب،وراح الی المسجدودعا ف حاجتہ بما شاء اﷲ)(١)
'' میرے والد بزر گوار زوال کے وقت اپنی حاجت طلب کرتے تھے ،جب آپ حاجت طلب کرنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے صدقہ دیتے خوشبو لگاتے مسجد جاتے اور اﷲ سے اپنی حاجتیں طلب فرماتے ''
٢٠۔آدھی رات کے وقت دعا
رات میں تنہا ئی میں اپنے کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرنے کا عظیم اثر ہے ، اﷲ کی رحمت انسان کی طرف متوجہ ہوتی ہے ،انسان رات کے آخر ی حصہ میں اپنے نفس کو خدا کی طرف متوجہ ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں پاتا ، رات کے آخری حصہ میں انسان خدا کی رحمت کا استقبال کرنے کیلئے آمادہ ہوجاتا ہے اور خدا وند عالم نے رات کے آخری حصہ میں وہ رحمتیں اور بر کتیں قرار دی ہیں جو دن اور رات کے دوسرے حصوں میں نہیں قرار دی ہیں ۔
اور اسلامی روایات میں غور و فکر کرنے والے کیلئے اس میں کو ئی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ تمام وقت برابر نہیں ہیں ۔اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ اوقات ہیں جن میں انسان پر اﷲ کی رحمت کے دروازے کھلتے ہیں ، بہت سے اوقات ہیں جن میں انسان پر اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے البتہ یہ اوقات بہت ہی افضل ہیں اور رات کے آخری حصہ میں اﷲ کی رحمت زیادہ نازل ہوتی ہے ۔
خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(یَااَیُّھَاالْمُزِّ مِّلْ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّاقَلِیْلاً نِصْفَہُ اَوِنْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْزِدْعَلَیْہ وَرَتِّلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی جلد٢صفحہ ٥٢١۔
الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاًاِنَّاسَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاًثَقِیْلاً اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاًوَّاَقْوَمُ قِیْلاً)(١)
''اے میرے چادر لپیٹنے والے رات کو اٹھو مگر ذرا کم آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کردو یا کچھ زیادہ کرو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر با قا عدہ پڑھو ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگین حکم نا زل کرنے والے ہیں بیشک رات کا اٹھنا نفس کی پامالی کیلئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے ''
مفضل بن عمر ونے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''کان فیماناجیٰ اﷲ بہ موسیٰ بن عمران أنْ قال لہ:یابن عمران،کذّب مَنْ زعم أنّہ یحبن،فاذاجنّة اللیل نام عنّ،الیس کل محبّ یحبّ خلوةحبیبہ ؟ھاانا یابن عمران مطّلع علیٰ احبائ،اذاجنّھم اللیل حوّلت ابصارھم فی قلوبھم ومثلت عقوبت بین أعینھم ،یخاطبون عن المشاھدة،ویکلمون عن الحضور۔
یابن عمران،ھبّ ل من قلبک الخشوع،ومن بدنک الخضوع،ومن عینیک الدموع،وادعن فی الظلمات فانّک تجدن قریباًمجیباً''(٢)
''جب موسیٰ بن عمران نے اﷲ سے منا جات کی تو اﷲ نے فرمایا :اے موسیٰ جو شخص یہ گمان کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو تم اس کی تکذیب کرو ، جب رات کی تاریکی چھا جاتی ہے تو وہ سو جاتا ہے کیا ہر محبوب اپنے حبیب سے تنہائی میں ملنا نہیں چاہتا ؟ آگاہ ہو جاؤ اے ابن عمران میں اپنے دوستوں کو بخوبی جانتا ہوں جب رات کی تا ریکی چھا جا تی ہے تومیں ان کی آنکھوںکوان کے دلوں کی طرف پھیر دیتا ہوںاپنی عقوبت کو ان کی نظروں میں مجسم کر دیتا ہوںوہ دیکھنے کے بجا ئے مجھ سے خطاب کر تے ہیں اور حاضر ہو نے کے بجا ئے مجھ سے ڈرتے ہیں۔
اے ابن عمران تم اپنے دل سے خشوع ، اپنے بدن سے خضوع اور اپنی آنکھوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مزمل آیت ١۔٦۔
(٢)مجالس المفید صفحہ ٢١٤ ، وسائل الشیعہ جلد ٤ :١١٤٢٥حدیث ٨٧٨١ ۔
آنسوئوں کو میرے لئے ہبہ کردو اور تا ریکیوں میں مجھے پکارو پس تم مجھے اپنے سے قریب اور دعا قبول کرنے والا پائو گے ''
اس روایت میں کئی باتیں غور طلب ہیں لیکن ہم بحث کے طولانی ہو جانے کی وجہ سے ان سے قطع نظر کرتے ہیں ۔شب اولیائے الٰہی کیلئے آتی ہے اور ان کو زند گا نی اور اس کی مصروفیات سے رو ک دیتی ہے گو یا شب انسان کو ان مصروفیات دنیا کے درمیان سے جدا کر دیتی ہے جو اس کو خداوند عالم کی طرف متوجہ ہو نے سے روک دیتے ہیں اور یہ رات کی تنہا ئی کی فرصت ہو تی ہے جس میں انسان کے سامنے ذات الٰہی کسی رکا وٹ کے بغیر سا منے ہو تی ہے اور وہ اس خلوت میں خدا وند عالم سے لو لگاتا ہے ۔
جو یہ گمان کر تاہے کہ وہ اﷲ کو دوست رکھتا ہے لیکن جب رات چھا جا تی ہو تو انسان جس کو دو ست رکھتا ہے اس کے حضور میں مناجات اور تضرع کرنے کے بجا ئے سوجا ئے تو وہ شخص جھوٹا ہے کیا ہر حبیب اپنے محبوب کی خلوت کو پسند نہیں کرتا ؟
جب تا ریکی ٔ شب چھا جا تی ہے اور ہم زندگی کے مشکلات سے فارغ ہو جا تے ہیں تو ہماری دن میںپراکندہ ہو جانے والی قوت بصارت اور سما عت یکجا ہو جا تی ہے اور باہر سے اندر کی طرف چلی جا تی ہے دل میں زند گی کی زحمت سے اس دل کے اندر چلی جا تی ہے جو انسانی زند گی میں بصیرت و نور کا سرچشمہ ہے اس وقت ہما ری بکھری ہو ئی بصیرت اکٹھی ہو جا تی ہے اور باہر سے اندر کی طرف چلی جا تی ہے اور خداوند عالم اس وقت قلب انسا نی کیلئے بصیرت و نور کے دروازے کھول دیتا ہے اس جملہ ''اذاجنّھم اللیل حوَّلت ابصارھم فی قلوبھم ''کا یہی مطلب ہے اس وقت انسان خود کو خداوند عالم کی بارگاہ میں حا ضر پاتا ہے اور غضب و رحمت الٰہی کو اپنے سا منے مجسم دیکھتا ہے تو جب وہ خداوند عالم سے مخا طب ہوتا ہے تو مشاہدہ اور حا ضری کی بنا پر مخا طب ہوتا ہے دور ی اور غیر حا ضری کی بنا پر نہیں اور اس فقرہ ''یخاطبون عن المشا ہدة ''کا یہی مطلب ہے اور جب وہ خداوند عالم سے بات کرتا ہے تو خداوند عالم کو حا ضر سمجھ کر بات کرتا ہے غائب سمجھ کر بات نہیں کرتا ہے اور اس فقرہ ''یکلمونی عن الحضور''کا یہی مطلب ہے ۔ اس کی نظروں میں عقوبت اور عذاب الٰہی مجسم ہو جاتا ہے اور اس فقرہ ''مثّلت عقوبت بین اعینھم''کا یہی مطلب ہے حبیب کی مو جود گی کی انسیت نیز ان کی نظروں میں مجسم عقوبت کا خوف نیند کا سکون چھین لیتا ہے اور بھلا وہ کیسے سو سکتا ہے جو خود کو رات کی خلوت میں اپنے حبیب کے سامنے پا ئے ؟اور اس کوکیسے اونگھ آ سکتی ہے جبکہ وہ اپنی نظروں میں عذاب الٰہی کو مجسم دیکھ رہا ہو؟
یہ حالت یعنی قوت بصارت کے خارج سے اندرکی جا نب چلے جا نااور دن میں پرا گندہ ہو نے کے بعد رات میں اکٹھا ہو جا نے کا فطری نتیجہ ہے ۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے معروف خطبہ متقین میں فرماتے ہیں :
(اَمَّااللَّیْلُ فَصَافُّوْنَ اَقْدَامَھُمْ ،تَالِیْنَ لِاَجْزَائِ الْقُرْآنِ یُرَتِّلُوْنَھُا تَرْتِیْلاً، یُحَزِّنُوْنَ بِہِ اَنْفُسَھُمْ وَیَسْتَثِیْرُوْنَ بِہِ دَوَائَ دَائِھِمْ۔فَاِذَا مَرُّوْابِاٰیَةٍ فِیْھَا تَشْوِیْق رَکَنُوْا اِلَیْھَاطَمَعاًوَتَطَلَّعَتْ نُفُوْسُھُمْ اِلَیْھَا شَوْقاً،وَظَنُّوا اَنَّھَا نُصُبُ اَعْیُنِھِمْ۔وَاِذَامَرُّوْابِاٰیَةٍ فِیْھَا تَخْوِیْف اَصْغَوْااِلَیْھَامَسَامِعَ قُلُوْبِھِمْ وَظَنُّوْااَنَّ زَفِیْرجَھَنَّمَ وَشَھِیْقَھَافِیْ اُصُوْلِ اٰذَانِھِم، فَھُمْ حَانُوْنَ عَلیٰ اَوْسَاطِھِمْ مُفْتَرِشُوْنَ لِجِبَاھِھِمْ وَاَکُفِّھِمْ وَرُکَبِھِمْ وَاَطْرَافِ اَقْدَامِھِمْ یَطَلِّبُوْنَ اِلیَ اللّٰہِ تَعَالیٰ فِیْ فَکَاکِ رِقَابِھِمْ وَاَمَّاالنَّھَارُفَحُلَمَائُ عُلَمَائُ اَبْرَاراَتْقِیَائ)(١)
''رات ہو تی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہرکر تلا وت کرتے ہیں جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تا زہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈھتے ہیں جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں جنت کی ترغیب دلا ئی گئی ہو ،تو اس کی طمع میں اس طرف جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تا بانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف )منظر ان کی نظروں کے سا منے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٩٣۔
میں (جہنم )سے ڈرایا گیا ہو تو اس کی جا نب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ و پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے ،وُہ (رکوع ) میں اپنی کمریں جھکا ئے اور (سجدہ میں اپنی پیشانیاں ہتھیلیاں گھٹنے اور پیروں کے کنا رے (انگوٹھے) زمین پر بچھا ئے ہو ئے ہیں اور اﷲ سے گلوئے خلا صی کے لئے التجا ئیں کرتے ہیں ۔دن ہو تا ہے تو وہ دانشمند عالم ،نیکو کار اور پرہیز کار نظر آتے ہیں ''
نہج البلاغہ میں ہی حضرت امیر المو منین علیہ السلام نوف بکا لی سے رات کی تعریف یوں بیان فر ما تے ہیں :یَانُوْف اِنَّ دَاؤُد(ع)قَامَ فِیْ مِثْلِ ھٰذِالسَّاعَةِ مِنَ اللَّیْل،فَقَالَ:اِنَّھَا سَاعَة لَایَدْعُوْ فِیْھَا عَبْد اِلَّااسْتُجِیْبَ لَہُ)(١)
''اے نوف بیشک داود علیہ السلام رات کے اس حصہ میں عبادت کے لئے کھڑے ہو تے تھے ،پھر فرمایا :یہ وہ وقت ہے کہ جس میں دعا کرنے والے کی دعا ضرور مستجاب ہو تی ہے ''
حضرت رسول اﷲ ۖ سے مروی ہے ؟
(اذاکان آخراللیل یقول اﷲ عزّوجلّ:ھل من داع فاُجیبہ ؟وھل من سائل فاُعطیہ سؤلہ ؟وھل من مستغفرفاغفرلہ ؟ ھل من تائب فاتوب علیہ )
''جب رات کا آخری حصہ آتا ہے تو اﷲ عزوجل کہتا ہے: ہے کوئی دعا کر نے والا جس کی دعا قبول کی جا ئے ؟ہے کوئی سوال کرنے والا جس کواس کے سوال کا جواب دیا جائے ؟ہے کو ئی استغفار کرنے والا کہ اس کی بخشش کرو ں ؟ ہے کوئی تو بہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کرو ں ؟ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)نہج البلاغہ دو سری قسم صفحہ ١٦٥۔
٢١۔دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے اور سرپر پھیرنا
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(ماابرزعبد یدہ الی اﷲ العزیزالجبارالااستحیااﷲ عزّوجلّ ان یردّھا صفراً،حتیٰ یجعل فیھامن فضل رحمتہ مایشائ،فاذا دعا احدکم فلایردّ یدہ حتّیٰ یمسح علیٰ وجھہ ورأسہ)(١)
''کو ئی بندہ اپنے ہاتھ خدائے عزیز و جبار کے سامنے نہیں پھیلا تا مگر یہ کہ خداوند عالم اس کو خالی ہاتھ واپس کرنے پر حیا محسوس کرتا ہے اور اپنے فضل و رحمت سے جو کچھ چاہتا ہے اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے لہٰذا تم میں سے کو ئی دعا کرے اور اپنے ہاتھ ہٹائے تو وہ اپنے ہاتھوں کو چہرے پر مل لے ''
(١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٣٤٢؛من لا یحضر ہ الفقیہ جلد ١ صفحہ ١٠٧؛بحارالانوار جلد ٩٣صفحہ ٣٠٧
|
Post a Comment