امام علی( ع)فرماتے هیں
🌷نہج البلاغہ🌷
(خطبہ:221)
خُدا کی قسم ! مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گُزارنا اور طوق و زنجیر میں مقید ہو کر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسُولؐ سے اس حالت میں مُلاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظُلم کیا ہو،یا مالِ دُنیامیں سے کوئی چیز غصب کی ہومیں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظُلم کر سکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مُدّتوں تک مِٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے۔
بخدا میں نے (اپنے بھائی) عقیل کو سخت فقروفاقہ کی حالت میں دیکھا، یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصّہ کے) گیہوں میں ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جِن کے بال بِکھرے ہوئے اور فقرو بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہو چکے تھے، گویا ان کے چہرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دیے گئے ہیں، وہ اِصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو بار بار دُھرایا ،میں نے ان کی باتوں کو کان دے کر سُنا تو انھوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کی کھینچ تان پر ان کے پیچھے ہو جاؤں گا۔ مگر میں نے کیایہ کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں۔ چُنانچہ وہ اس طرح چیخے جِس طرح کوئی بیمار دَردوکرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا بدن اس داغ دینے سے جل جائے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ: اے عقیل! رونے والیاں تُم پر روئیں کیا تُم اس لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اُٹھے ہو جسے ایک اِنسان نے ہنسی مذاق میں(بغیر جلانے کی نیّت سے) تپایا ہے اور تُم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خُدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے۔ تُم تو اَذیّت سے چیخو اور میں جہنّم کے شعلوں سے نہ چِلّاؤں۔ اس سے عجیب تر واقع یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت (شہد میں ) گُندھا ہو ا حلوہ ایک سربلند برتن میں لیے ہوئے ہمارے گھر پر آیا جِس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گُوندھا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ :کیا یہ کسی بات کا انعام ہے ،یا زکوٰۃ ہے، یا صدقہ ہے کہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے؟ تو اس نے کہا کہ :نہ یہ ہے، نہ وہ ہے ،بلکہ یہ تحفہ ہے۔ تو میں نے کہا کہ :سپر مُردہ عورتیں تجھ پر روئیں ،کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کے لیے آیا ہے؟ کیا تو بہک گیا ہے، یا پاگل ہو گیا ہے ،یا یونہی ہذیاں بک رہا ہے؟ خُدا کی قسم! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانو ں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں، صِرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جَو کا ایک چِھلکا چھین لُوں تو کبھی بھی ایسا نہ کروں گا۔ یہ دُنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے مُنہ میں ہو کہ جِسے وہ چَبا رہی ہو۔ علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذّتوں سے کیا واسطہ۔ ہم عقل کے خوابِ غفلت میں پڑ جانے اور لغزشوں کی بُرائیوں سے خُداکےدامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔
Post a Comment