ھمارے کچھ احباب جو علم الرجال کی حجیت کے قائل نہیں ہے




کافی عرصے سے ھمارے کچھ احباب جو علم الرجال کی حجیت کے قائل نہیں ہے کچھ اعتراضات کرتے آرہے ہیں اور ان ہی اعتراضات میں سے دو اعتراضوں کے بارے میں آج ان شاء اللہ وضاحت بیاں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اعتراضات : 
* کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی سند میں کوئی راوی یا باھر والا خود ہی معصوم کی طرف کوئی سند بنا دے ؟
* کیا ایک ثقہ راوی کبھی غلطی نہیں کر سکھتا ہے یا ایک ضعیف راوی کبھی سچ نہیں بول سکھتا ہے ؟

الجواب : اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں اعتراضات علم الحدیث و الرجال کے اصول و ضوابط سے ناواقفیت کی وجہ سے کئے جاتے ہے کیونکہ جب ھم کسی بھی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتے ہے تو اس میں بنیادی دو اھم نکات کی وجہ سے حکم لگایا جاتا ہے :
-ایک اسکے رواہ ثقہ ہو
-دوسرا اتصال سند

* کیا کوئی راوی خود کوئی سند وضع کر سکھتا ہے ؟
تو اسکا جواب پہلے نکتے سے اخذ ہوتا ہے کیونکہ جب ھم کسی راوی کے بارے میں کہتے ہے کہ وہ ثقہ ہے اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں تین اوصاف رکھتا ہے :
۱ - عادل [ مطلب عام حالت میں نہ روایت میں کمی کرتا ہے اور نہ زیادتی بلکہ جو کچھ سنا ئے وہی آگے پہنچاتا ہے ] ، 
۲ - حافظہ / ضاطہ [مطلب عام حالت میں جو کچھ سنتا ہے اسکو یاد یا محفوظ کرتا ہے اور پھر آگے منتقل کرتا ہے ،] 
۳- صدوق [ مطلب عام حالت میں سچ بولتا ہے ]

نوٹ : ان تینوں اوصاف میں پہلے لفظ " عام حالت میں " کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
لہذا جب کسی شخص میں یہ تینوں اوصاف پائے جاتے ہیں تو اسکو بعد میں اختصار کے طور پر ثقہ کہا جاتا ہے اور اسکا فیصلہ بھی کوئی عام انسان نہیں بلکہ اس فن میں ماہرین کرتے ہے جنکو علماء اسماء الرجال کہتے ہیں۔ لہذا جس شخص میں یہ سارے اوصاف پائے جاتے ہے تو اس سے یہ بات غالباً بعید ہی لگ رہی ہے کہ وہ خود عام حالت میں ایک سند وضع کرے اور اسکو معصوم کی طرف منسوب کرے۔
اب اگر کوئی کہے گا کہ کیا پتا بیچ میں کسی دوسرے شخص نے خود ہی فلان راوی سے حدیث منسوب کی اور بعد میں آنے والوں نے اس کی اتباع کی تو اس اشکال کا جواب دوسرے نکتے سے دیا جاتا ہے جسکو "اتصال سند" کہا جاتا ہے ، مطلب اگر کسی روایت کی سند میں چار راوی ہو جو ایک سلسلے سے معصوم سے روایت نقل کر رہے ہیں تو اتصال سند کا مطلب ہوتا ہے کہ اس سلسلہ سند میں ہر کوئی راوی اپنے اوپر والے راوی سے برائے راست سن رہا ہے مطلب انکے درمیان کوئی فاصلہ نہیں [ نہ وقتی فاصلہ اور نہ علاقائی فاصلہ ] لہذا کیا یہ عقلی طور پر ممکن ہے کہ اس سند جس کے تمام راوی ثقہ ہو اور ہر راوی اہنے اوپر والے سے Direct سن کر روایت کرتا ہوں اس میں کوئی بیچ میں آجائے اور سند وضع کریں ، مثال کے طور پر ، ایک سند میں A, B , C , D راوی ہے اور اس میں سے A نے B سے اور B نے C سے اور C نے D سے روایت سنی ہو تو یہ کیسے گمان کیا جا سکھتا ہے کوئی آدمی بھیج میں سے آگیا اور حدیث کو وضع کیا۔یہ اعتراض تب کیا جا سکھتا تھا جب سلسلہ سند میں اتصال نہیں ہوتا بلکہ منقطع ہوتی [ جو صحیح حدیث کی اصطلاح سے خارج ہے ]
* جو دوسرا اعتراض کیا جات ہے کہ کیا کوئی ثقہ روای کبھی غلطی یا جھوٹ نہیں بول سلکھتا ہے یا ضعیف راوی کبھی سچ نہیں بول سکھتا ہے ؟ تو اسکا تعلق بھی اصول علم الحدیث سے ناواقفیت کی وجہ ہے کیونکہ ھمارے پاس دو طرح کے اسلامی علوم ہے
۱- ایک قطعی علوم ہے جسکی مثال قرآن پاک اور متواتر احادیث ہے ، یہ وہ علوم ہے جنکے بارے میں ھمیں قطعی [ absolute ] طور پر معلوم ہے کہ یہ معصوم کا کلام ہے اور اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں ہوتا
۲- دوسرا ظنی علوم ہے جس میں خبر احاد آتے ہیں ، یہ وہ علم ہے جسکے بارے میں قطعی طور پر [سو فیصد یقین کے ساتھ ] نہیں کہہ سکھتے ہیں کہ یہ معصوم کا کلام ہے بلکہ اس میں شک کا کچھ مقدرا بھی ہوتا ہے ، اب شک کا مقدرا کتنا ہے یہی پتا کرنا کام علم الرجال کام ہوتا ہے جسکی وجہ سے ایک حدیث صحیح [ جس میں یقین کا مقدار زیادہ اور شک کا قلیل ] یا ضعیف [ جس میں شک کا مقدار زیادہ اور یقین کا مقدار قلیل ہوتا ہے ] قرار پاتی ہے۔
لہذا جب ھم علم الرجال کی بات کرتے ہیں تو ھم ھمیشہ اسکا استعمال ظنی علموم پر کرتے ہیں اور جب کسی حدیث کو صحیح کہا جاتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غالب گمان ہے کہ معصوم نے ایسا کہا ہو اور جب ضعیف حدیث کہا جاتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غالب گمان ہے کہ معصوم نے ایسا نہیں کہا ہوگا ۔ کبھی کوئی یہ دعوہ نہیں کر سکھتا ہے کہ صحیح حدیث قطعی طور پر معصوم کا کلام ہے اور ضعیف قطعی طور پر معصوم کا کلام نہیں ۔۔۔
اس نکتے سے اس سوال کہ کیا ثقہ راوی کبھی غلطی نہیں کر سکھتا یا ایک ضعیف راوی کبھی سچ نہیں بول سکھتا ہے کا جواب خودبخود نکلتا ہے کہ ہاں ایسا ممکن ہے لیکن غالب / زیادہ تر ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسا فعل بہت ہی نادر / کبھی کبہار ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ خبر احاد کو ظنی کہا جاتا ہے کیونکہ اگر راویوں سے غلطی کا امکان نہیں ہوتا تو یہ سب بھی قطعی علوم کہلاتا ۔ اس وجہ سے ھم نے پہلے والے اعتراض کے جواب میں " عام حالت میں " کی قید لگائی تھی۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ علم الرجال کا استعمال تو ہر کوئی کرتا ہے بلکہ یہ ایک فطری فعل ہے ، جب آپکو کوئی ایسی خبر دیتا ہے جس پر آپکی دنیا یا آخرت کی خیرخوئی کا دارومدار ہو تو ایک عاقل انسان ھمیشہ پہلے یہ دیکھے گا کہ خبر دینے والا کون ہے اور کیسا بندہ ہے اور اسکے پاس یہ خبر کس طرح آئی ۔۔۔ لہذا علم الرجال کا انکار فطرت کا انکار ہے۔
شکریہ : ڈاکٹر آصف حسین صاحب
Labels:

Post a Comment

[blogger][facebook][disqus]

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget