03/01/2012 - 04/01/2012

تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی   
اب ہم ان (وسائل )اسباب کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں جن کو دعا کرتے وقت انجام دنیا چاہئے ۔
پروردگار عالم کافرمان ہے کہ ہم اس سے وسیلہ کے ذریعہ دعا کریں :
ارشاد خدا وند عالم ہے :
(اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلیٰ رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَةَ)(١)
'' یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں ''                   (یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااﷲَ وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ) (٢)
''اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو ''
خداوندعالم نے یہ وسائل ان بندوں کیلئے قرار دئے ہیں جن کے اعمال اور دعا ئیں اﷲ کی رحمت تک پہنچنے سے عاجز ہیں اور وہ (خدا )ارحم الراحمین ہے ۔
خداوندعالم فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ اسرا آیت ٥٧ ۔
(٢)سورئہ مائدہ آیت٣٥۔
(اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ )(١)
''پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہیں اور عمل صالح انھیں بلند کرتا ہے ''
بیشک انسانی حیات میں کلمۂ طیب اور عمل صالح ہے ۔
(کلم الطیّب) سے مراد انسان کا اﷲ پر ایمان رکھنا ،اخلاص ، اُس (خدا ) پر اعتماد رکھنا ، اس سے امید رکھنا ، اس سے دعا کر نا اور اس کی با رگاہ میں گڑ گڑا نا اور گر یہ و زاری کر نا ہے ۔
عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی انسا نیت قا ئم ہو تی ہے اور وہ ایمان ، اخلاص ، اعتماد اور امید ہے ۔
اور (کلم الطیب ) ''خوشگوار گفتگو ''قرآن کی تصریح کی رو سے خدا وند عالم کی جا نب چلی جا تی ہے لیکن قرآن ہی کی صراحت کی بنا پر اس خو شگوار گفتگو کو خداوند عالم کی جا نب نیک عمل ہی لے جاتا ہے ۔
اگر عمل صالح نہ ہو تو ( کلم الطیب ) اﷲ تک نہیں پہنچ سکتا ، کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ (عمل صالح ) عا جز اور کمز ور ہو تا ہے اور اس میں( کلم الطیب ) کو اﷲ تک پہنچا نے کی طا قت و قدر ت نہیں ہو تی لہٰذا ایسی صورت میں نہ تو انسان کی دعا اﷲ تک پہنچتی ہے اور نہ ہی اس کی دعا مستجاب ہو تی ہے ۔
اﷲ نے انسان کی زندگی میں اس کے ہاتھوں میں کچھ ایسے وسائل دید ئے ہیں جن کے ذریعہ وہ خدا وند عالم تک پہنچ سکتا ہے اگر یہ وسائل واسباب نہ ہوں تو انسان کیلئے اس کی دعا اور فریادکے اﷲ تک پہنچنے کا کو ئی امکان ہی نہیں ہے ۔
یہی وہ وسائل واسباب ہیں جن کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ فرمایا ہے ۔ان ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورئہ فاطر آیت ١٠ ۔
وسائل میں سے رسول اﷲ کا اپنی امت کے لئے دعا اور استغفار کرناہے ۔خداوندعالم کا ارشاد ہے :
(وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَلَمُوْااَنْفُسَھُمْ جَائُ وْکَ فَاسْتَغْفِرُوْااﷲَ وَاسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْااللّٰہَ تَوَّابًا رَحِیْماً )(١)
''اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گنا ہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ''
قرآن کریم کی یہ آیت صاف طورپر یہ بیان کرتی ہے کہ رسول اﷲ  ۖکا مومنین کے لئے استغفار کرنا ان وسائل میں سے ہے جن میں پروردگار عالم اپنے بندوں کو اس چیز کی رغبت دلاتا ہے جو دعا اور استغفار میں ان کیلئے وسیلہ قرار پائے ۔
جو کچھ رسول اسلام  ۖکیلئے ان کی حیات طیبہ میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مومنین کیلئے خدا سے استغفار کیاہے وہ وفات کے بعد استغفار نہیں کرسکتے نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ رسول اﷲ  ۖتو وفات کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنے پروردگا ر کی طرف سے رزق پاتے ہیں ۔
رسول خدا  ۖ اور اہل بیت علیم السلام سے تو سل کرنا
اسلامی روایات میں رسول خدا  ۖاور اہل بیت علیہم السلام سے تو سل کیلئے بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔
دائو وبرقی سے مروی ہے :''ِنِّ کنت اسمع اباعبد اللّٰہ علیہ السلام اکثرمایلحّ ف الدعاء علی اللّٰہ بحقّ الخمسة،یعن رسول اللّٰہ،و امیرالمؤمنین، و فاطمة ، والحسن ، والحسین '' ( ٢ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نساء آیت٦٤۔       (١)وسائل الشیعہ جلد ٤ ١١٣٩،حدیث ٨٨٤٤۔
''میں نے ابو عبد اﷲ علیہ السلام کو دعا میں اکثر پنجتن پاک کے وسیلہ سے دعا کرتے دیکھا  ہے یعنی رسول اﷲ، امیر المو منین ، فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ''
سما عہ سے مرو ی ہے :مجھ سے ابو الحسن علیہ السلام نے فرمایا :اے سماعہ جب تمھیں خداوند عالم سے کو ئی سوال درپیش ہو تو اس طرح کہو :
(اللھم انّ أَسالک بحقّ محمّد وعلی ٰفانّ لھماعندک شأْناًمن الشأن وقدراًمن القدر،وبحقّ ذلک القدران تُصلَّ علیٰ محمّد وآل محمّد وان تفعل ب کذا وکذ ا )(١)
''پروردگارا میں تجھ کو محمد اور علی کا واسطہ دیکر سوال کرتا ہوں جن کا تیرے نزدیک بلند و بالا مقام ہے اور اسی عظمت کے پیش نظر تو محمد وآل محمد پر درود بھیج اور میرے لئے ایسا ایسا انجام دے ''
دعا ئے کمیل کے ذریعہ اﷲ تک رسائی کے وسائل
ہم دعا ء کمیل میں ان وسائل کا مشاہد ہ کر تے ہیں جن کے ذریعہ سے امیر المو منین دعا میں خداوندعالم سے متوسل ہو ئے ہیں ۔
یہ وسائل دعا کے دوسر ے حصہ میں بیان ہوئے ہیں جن کو امیر المو منین علیہ السلام نے خداوند عالم سے دعا اور حاجتوں کو پیش کر نے سے پہلے مد نظر رکھا ہے۔ اس دعا ئے شریف میں بیان فرمایا ہے ان کو بیان کرنے سے پہلے ہم اس دعا ء کمیل کا مختصرسا خا کہ بیان کر تے ہیں ،اور جن بلند افکارپر یہ دعا مشتمل ہے ان کو بیان کریں گے نیز اس کی بھی وضاحت کریںگے کہ آپ نے اس دعا میںان بلند افکار کے مابین کن طریقوں سے استفادہ فر مایا ہے ۔
کیونکہ ائمہ سے منقول مشہور ادعیہ کی ہر عبارت کے معین افکاراورمنظم اسلوب نیزدعا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)عدةالدا عی صفحہ ٣٨۔
آغاز اوراختتام کی مخصوص روش ہے ۔
معروف ادعیہ میں سے ہر دعا کی ایک مخصوص شکل ہے ان کیفیات کے مطالعہ سے ہمیں یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دعا کی روش نیز خداوند عالم سے منا جات کر نے کا طریقہ کیا ہے ۔
ہر دعا کیلئے بلند وبا لا اور بنیادی فکر ہے ،افکار کا مجمو عہ اسی فکر سے پرورش پاتا ہے ،یہ بنیادی مطلب ہے اور دو سرے مطالب کا مجموعہ اسی اساسی مطلب سے پرورش پاتا ہے ،سوال کر نے کا طریقہ اور سوال کرنے اور ختم کرنے کے اسلوب و طریقوں کو بتا تا ہے ۔
اگر علما نے اس مسئلہ کو بطور کا فی و وافی بیان کیا ہو تا تو اس سے مفید نتا ئج کا اخراج کرتے ۔
اب ہم دعا ئے کمیل کے سلسلہ میں اس کے بنیادی افکار اور کیفیت کے متعلق بیان کرتے ہیں:
دعا کمیل کی عام تقسیم
دعا ء کمیل مومنین کے درمیان بڑی مشہور ومعروف ہے جس کو مومنین ہر شب جمعہ کو پڑھا  کر تے ہیں ،اور اس کو کبھی تنہااورکبھی ایک ساتھ مل کر بھی پڑھا کر تے ہیں ۔
یہ دعا حضرت امیر المو منین علیہ السلام سے منسوب ہے جو آپ نے کمیل بن زیاد نخعی کو تعلیم فرما ئی تھی اسی طرح یہ دعا ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں مومنین تک پہنچتی رہی ہے ۔
یہ دعا عبودیت ، فروتنی و انکساری کے مفا ہیم کے لحاظ سے بیش بہا خزانہ نیز زندہ اشکال میں تضرع ،فریاد خوا ہی نیز توبہ اورانابہ کا مو جیں مارتا سمندر ہے ۔
ہم اس دعا ء میں بیان شدہ تمام مطالب ومفاہیم کی تشریح کرنا نہیں چاہتے چونکہ یہ طولا نی بحثیں ہیں انشاء اﷲ اگر موقع ملا ،قسمت نے ساتھ دیا اور اسباب بھی پید ا ہو گئے تو ضرور ان مطالب کی تشر یح کریں گے۔
لیکن اب ہم صرف اس دعا کی کیفیت کی وضاحت کرتے ہیں یہ دعا تین مخصوص مرحلوں پر مشتمل ہے اور ہر مرحلہ آنے والے مرحلہ میں شمار ہوتا ہے ان تمام باتوں کی اساس وبنیاد دعا کی کیفیت سے درک ہو تی ہے یہ ہمارے دعا پڑھنے ،اس میں بیان ہو نے والے مفا ہیم و افکار کے سلسلہ میں غور و فکر کرنے اور ان سے متاثر ہو نے میں ہماری بہت زیادہ مدد کرتے ہیں۔
شاید پرورد گار عالم اس جہدو کو شش کو ان مومنین کیلئے نفع بخش اور مفید قراردے جنھوں نے اس دعا کو پڑھنے کی اپنی عادت بنا لی ہے ۔
تصمیم دعا کی فکر
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ دعا تین مرحلوں پر مشتمل ہے:
پہلا مرحلہ :جو دعا کے شروع کرنے کے حکم میںہے جس میں دعا کرنے والا اﷲ کی بارگاہ میں کھڑاہوکر دعا کرتا ہے ۔گڑاگڑا تا ہے اور خدا سے مانگتا ہے ،چونکہ گناہ انسان اور اﷲ کے درمیان حائل ہوکر دعا کو مقید کر دیتے ہیں اور اگر بندہ خدا کے سامنے کھڑے ہوکر دعا کرنے کا موقف اپنا تا ہے تو اس کیلئے اس پہلے مرحلہ کی رعایت کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔
اس مرحلہ (ابتدائے دعا)میں اﷲسے مانگنے، طلب کرنے کے طریقہ کی ابتداء بیان کرتے ہیںان میں سے ایک اﷲسے مغفرت طلب کرنا ہے:
(اَللَّھُمَّ اغْفِرْلَِ الذُّنُوْبَ الَّتِْ تَھْتِکُ الْعِصَمَ اَللَّھُمَّ اغْفِرْلَِ الذُّنُوْبَ الَّتِْ تُنْزِلُ النِّقَمَ۔۔۔)
''خدایا میرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ہیں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہیں ''
یہ جملے مغفرت سے متعلق ہیں ۔
اوردوسرے مرحلہ میں خدا کی یاد ،شکر اور اسکاتقرب طلب کیا گیا ہے:
(واَسْأَلُکَ بِجُوْدِکَ اَنْ تُدْنِیَنِْ مِنْ قُرْبِکَ وَاَنْ تُوْزِعَنِْ شُکْرَکَ وَاَنْ تُلْھِمَنِْ ذِکْرَکَ)
''تیرے کرم کے سہارے میرا سوال ہے کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الہام کرامت فرما''
پہلے تو انسان کے لئے خداوند عالم کی بار گاہ میں دعا کرنے کیلئے کھڑاہونا ضروری ہے۔
جس کے نتیجہ میں خداوند عالم اسکے گناہوں کو معاف کریگا،اسکے دل سے پردے ہٹا دیگا۔
دوسرے خداوند عالم کا بندے کو اپنے سے قریب ہونے اسکا شکر کرنے اوراس کے دل میں تذکرہ کرنے کی اجازت دینا ضروری ہے۔
یہ دعا میں وارد ہونے کے ابتدائی فقرے ہیں۔
اسکا دوسرا فقرہ اﷲکی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں کو پیش کرنا اوراسکی طرف راغب ہوناہے :
(اَللَّھُمَّ وَاَسْألُکَ سُؤَالَ مَنْ اشْتَدَّتْ فَاَقَتُہُ وَاَنْزَلَ بِکَ عِنْدَ  َالشَّدَائِدِحَاجَتَہُ وَعَظُمَ فِیْمَا عِنْدَک رَغْبَتُہُ)
''مجھے ہر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرماخدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ہوں اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ہو ''
اﷲسے کوئی فرار نہیں کرسکتا اور نہ ہی خدا کے علاوہ بندے کی کوئی اور پناہگاہ ہے۔
یہ دو حقیقتیں ہیں:
الف۔اﷲسے کوئی مفر نہیں ہے
(اَللَّھُمَّ عَظُمَ سُلْطَانُکَ وَعَلَا مَکَانُکَ وَخَفَِ مَکْرُکَ وَظَہَرَاَمْرُکَ وَ غَلَبَ قَھْرُکَ وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ وَلَاْیُمْکِنُ الْفِرَارُ مِنْ حُکُوْمَتِکَ )
''خدایا تیری سلطنت عظیم ،تیری منزلت بلند،تیری تدبیر مخفی ،تیرا امر ظاہر،تیرا قہر غالب اور تیری قدرت نافذ ہے اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ہے ''
ب:اﷲ کے علاوہ کو ئی اور پناہ گاہ نہیں ہے
(اَللَّھُمَّ لاَاَجِدُلِذُنُوْبِْ غَافِراًوَلَالَِقبَائِحِْسَاتِراً،وَلَالِشَْ ئٍ مِنْ عَمَلَِ الْقَبِیْحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاًغَیْرَکَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ )
''خدایا میرے گناہوں کے بخشنے والے،میرے عیوب کی پردہ پوشی کرنے والے ، میرے قبیح اعمال کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ''
یہ اس ابتدائی مرحلہ کا دوسرا فقرہ ہے اور اس مرحلہ کے تیسرے فقرے میں حضرت علی   انسان کی مایوسی اور اس کی طویل شقاوت کے بارے میں فرماتے ہیں :
(اَللَّھُمَّ عَظُمَ بَلَائِْ وَ اَفْرَطَ بِْ سُوئُ حَالِْ،وَقَصُرَتْ بِْ اَعْمَالِْ،وَقَعَدَتْ بِ اَغْلَالِْ،وَحَبَسَنِْ عَنْ نَفْعِْ بُعْدُاَمَلِْ وَخَدَعَتْنِ الدُّنْیَابِغُرُوْرِھَا،وَنَفْسِ بِجِنَایَتِھَاوَمِطَال یَاسَیِّدْ )
''خدایا میری مصیبت عظیم ہے ،میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ہوئی ہے ،میرے اعمال میں کوتاہی ہے،مجھے کمزوریوں کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ہے اور مجھے دور درازکی امیدوں نے فوائد سے روک دیا ہے،دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ہے اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ہے اے میرے سردار''
اس بے بسی ،رنج وغم اور شقا وت کے اسباب انسان کا عمل اور اس کی کوششیں ہیںلہٰذا وہ خداوند عالم سے دعا کرے کہ اس کے گنا ہوں کو معاف کردے اور ان گنا ہوں کو اپنے اور دعا کے درمیان حا ئل نہ ہونے دے۔
(فَأَسْئَلُکَ بِعِزَّتِکَ اَنْ لَایَحْجُبَ عَنْکَ دُعَائْ سُوْئُ عَمَلِْ وَفِعَالِْ وَلَا تَفْضَحْنِْ بِخَفِ مَااطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّْ وَلَاتُعَاجِلْنِْ بِالْعُقُوْبَةِ عَلیٰ مَاعَمِلْتُہُ فِیْ خَلَوَاتِْ مِنْ سُوْئِ فِعْلِْ وَ اِسَائَتِْ وَدَوَامِ تَفْرِیْطِْ وَجَھَا لَتِْ وَکَثْرَةِ شَہْوَاتِْ وَغَفْلَتْ)
''تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاؤں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں اور میں اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاؤں۔میں نے تنہا ئیوں میں جو غلطیاں کی ہیں ان کی سزا فی الفور نہ ملنے پائے، چاہے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ہو ں یا بے ادبی کی شکل میں۔مسلسل کوتاہی ہو یا جہالت یا کثرت خواہشات و غفلت ''
اس مرحلہ کے چو تھے فقرے میں ایک بہت بڑے مطلب کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے کہ بندہ کااپنے نقصان اور مایوسی کے وقت خدا کے علاوہ اس کا کو ئی ملجاو مأویٰ نہیں ہے :
(اِلٰہِیْ مَنْ لِْ غَیْرُکَ اَسْأَلَہُ کَشْفَ ضُرِّْ وَالنَّظَرَ فِْ اَمْرِ)
''خدایا۔پروردگار۔میرے پاس تیرے علاوہ کون ہے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے''
اس مرحلہ کے پانچویں فقرے میں دوباتوں کا اعتراف کیا گیا ہے :
١۔گناہوں کا اعتراف ۔
٢۔اس چیز کا اعتراف کہ بندہ جب اﷲ کے حدودو احکام کی مخالفت کرتاہے اور اپنی خواہشات نفسانی میں غرق ہوجاتا ہے تو وہ خدا کے سامنے کوئی حجت پیش نہیں کرسکتا ہے۔
اس مرحلہ کے آخری اور چھٹے حصہ میں بندہ کا اپنے گناہوں ،معصیت ،نا امیدی شقاوت کا اعتراف کرناہے اوریہ اعلان کہ خدا سے کوئی فرار اختیار نہیں کرسکتا اور اسکے علاوہ بندہ کی کوئی پناہگاہ نہیں ہے،اور ا ﷲسے یہ درخواست کرناکہ وہ بندے سے اس کے برے افعال ،جرم وجرائم کا مواخذہ نہ کرے،اﷲکے سامنے گریہ و زاری اور اپنے مسکین ہونے کا اعتراف کرنے کے بعد بندہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے مولا کی بارگاہ میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے،اس سے نادم ہے ، انکساری کرتا ہے چونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ اپنے نقصان اور رنج و غم کے وقت اﷲ کے علاوہ کسی اور کے سامنے گڑگڑا نہیں سکتا ہے :
(وَقَدْاَتَیْتُکَ یَااِلٰھِ بَعْدَتَقْصِیْرْ وَاِسْرَافِ عَلٰی نَفْسِْ مُعْتَذِراًنَادِماً مُنْکَسِراًمُسْتَقِیْلاًمُنِیْباًمُقِرّاًمُذْعِناًمُعْتَرِفاً لَا أَجِدُمَفَرّاًمِمَّاکَانَ مِنِّْ وَلاَمَفْزَعاًاَتَوَجَّہُ اِلَیْہِ فِیْ اَمْرِغَیْرَقَبُوْلِکَ عُذْرْ وَاِدْخَالِکَ اِیَّاَ فِْ سَعَةِ رَحْمَتِکَ )
''اب میں ان تمام کوتاہیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکساری، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضرہو رہاہوں کہ میرے پاس ان گناہوں سے بھاگنے کے لئے کوئی جائے فرار نہیں ہے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے''
اس مقام پر یہ مرحلہ ختم ہو جاتا ہے ۔
اور اس جملہ(وقد اتیتکَ )کے ذریعہ انسان خداوندعالم کی بارگا ہ میں دعا اور تضرع کرنے کااعلان کرتا ہے۔
یہاں سے دعا کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلہ میںامام علیہ السلام ان وسائل کا  تذکر ہ فرماتے ہیں جن کے ذریعہ اﷲ سے متوسل ہوا جاتا ہے اور ہمارے( مولف) نظر یہ کے مطابق وہ چار وسائل ہیں :
پہلا وسیلہ: خداوندعالم کا اپنے بندوں پر فضل وکرم ورحمت اور ان سے محبت کرنا ہے :
(یَامَنْ بَدَئَ خَلْقِْ وَذِکْرِْ وَتَرْبِیَتِْ وَھَبْنِْ لِاِبْتِدَائِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِْ )
''اے میرے پیداکرنے والے ۔اے میرے تربیت دینے والے۔اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے ''
دوسرا وسیلہ: ہمارا خداوندعالم سے محبت (لو لگا نا )کرنا اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے:                         (اَتُرَاکَ مُعَذِّبِْ بِنَارِکَ بَعْدَ تَوْحِیْدِ کَ وَبَعْدَ مَاانْطَویٰ عَلَیْہِ قَلْبِْ مِنْ مَعْرَفَتِکَ وَلَھِجَ بِہِ لِسَانِْ مِنْ ذِکْرِکَ وَاعْتَقَدَہُ ضَمِیْرِْ مِنْ حُبِّکَ وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرَافِْ وَدُعَائِْ خَاضِعاًلِرَبُوْبِیَّتِکَ)
''پروردگار!کیا یہ ممکن ہے کہ میرے عقیدۂ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابر تیری محبت جاگزیں رہی ہے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ہوں ''
تیسرا وسیلہ: ہمارا عذاب کے تحمل کر نے میں کمزوری کا اعتراف ہے اپنی کھال کی کمزوری اور ہڈیو ں کے ناتواںہونے کا اقرار کرناہے :
(وَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِعَنْ قَلِیْلٍ مِنْ بَلاَئِ الدُّنْیَاوَعُقْوْبَاتِھَاوَمایَجْرِْ فِیْھَامِنْ الْمَکَارِہِ عَلیٰ اَھْلِھَاعَلیٰ اَنَّ ذٰلِکَ بَلاَ ئ وَمَکْرُوْہ قَلِیْل مَکْثُہُ یَسِیْربَقَائُہُ قَصِیْرمُدَّتُہُ فَکَیْفَ اِحْتِمَالِْ لِبَلاَئِ الآخِرَةِ وَجَلِیْلِ وَقُوْعِ الْمَکَارِہِ فِیْھَا۔۔۔ اِلٰھِ وَرَبِّْ وَسَیِّدِ لِاَّ الاُمُوْرِاِلَیْکَ اَشْکُوْوَلِمَامِنْھَااَضِجُّ وَاَبْکِْ لِاَلِیْمِ الْعَذَابِ وَشِدَّتِہِ اَمْ لِطُوْلِ الْبَلاَئِ وَمُدَّتِہِ )
''پروردگار تو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو میں ان آخرت کی بلاؤں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظیم ہیں۔۔۔خدایا۔ پروردگارا۔ میرے سردار۔میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے''
چو تھا وسیلہ : امام علیہ السلام نے اس دعا میں بیان فرمایا ہے وہ اس بھاگے ہو ئے غلام کی طرح ہے جس نے اپنے آقا کی نافرمانی کی ہو اور وہ پھر اپنے آقا کی پناہ اور اس کی مدد چاہتا ہو جب اسکے تمام راستہ بند ہو گئے ہوں اور اس کی اپنے مولا کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہ ہو۔
اس وسیلہ کی امام علیہ السلام ان کلمات میں عکاسی فرماتے ہیں :
(فَبِعِزَّتِکَ یَاسَیِّدِْ وَمَوْلَا اُقْسِمُ صَادِقاً لَانْ تَرَکْتَنِ نَاطِقاًلأضِجَّنَّ اَلَیْکَ بَیْنَ اَھْلِھَاضَجِیْجَ الْآمِلِیْنَ وَلأصْرُخَنَّ صُرَاخَ الْمُسْتَسْرِخِیْنَ وَلَأبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکَائَ الْفَاقِدِیْنَ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَیْنَ کُنْتَ یَاوَلَِّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَاغَایَةَ آمَالِ الْعَارِفِیْنَ  یَاغَیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ یَاحَبِیْبَ قُلُوْبِ الصَّادِقِیْنَ وَ یَااِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ)
''تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا!  اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اہل جہنم کے درمیان بھی امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ''عزیز گم کردہ ''کی طرح تیری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بھی ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس ۔صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ہے''
یہاں پراس دعا ئے شریفہ کے چار وں وسیلے پیش کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے  جن کے ذریعہ بندہ اﷲ سے دعا اور سوال کرنے کیلئے لو لگاتا ہے ۔
اب ہم اس دعا ئے شریفہ کے تیسر ے مرحلہ کو پیش کر تے ہیں ۔(امام علیہ السلام ان چاروں وسیلوں سے اﷲ سے متوسل ہو نے کے بعد )جس میں امام علیہ السلام اپنی حاجات ومطالب کو یکے بعد دیگر ے خدا کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں یہ تمام حاجتیںایک پست نقطہ یعنی بندہ کی حیثیت اور اس کے عمل سے شروع ہوتی ہیں اور بلندترین نقطہ قمہ یعنی انسان کا اپنے آقا کی رحمت کے سلسلہ میں وسیع شوق پر ختم ہو تی ہیں ۔
ہم پستی کے مقام پر اس طرح پڑھتے ہیں :
(أَنْ تَھَبَ لِفِْ ھٰذِہ ِ اللَّیْلَةِ وَفِْ ھٰذِہِ السَّاعَةِ  کُلَّ جُرْمٍ اَجْرَمْتُہُ وَکُلَّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ وَکُلَّ قَبِیْحٍ اَسْرَرْتُہُ )
'' مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائیاں۔۔۔ ''
اور بلند نظری کے سلسلہ میں ہم اس طرح پڑھتے ہیں :
(وَاجْعَلْنِْ مِنْ اَحْسَنِ عَبِیْدِکَ نَصِیْباً عِنْدَکَ وَاَقْرَبِھِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ وَاَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَّدَیْکَ )
'' اور مجھے بہترین حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا ''
اور جن حاجتوں کو امام علیہ السلام نے ان فقروں میں بیان فرمایا ہے ان کے چار گروہ ہیں ۔
١۔پہلا گروہ :خداوندعالم ہم کو بخش دے اور ہم سے ہمار ے گناہوں کا مواخذ ہ نہ کرے ہماری برایئو ں سے در گذرفرما ہمار ے جرم اور جن برائیوں کا ہم نے ارتکاب کیا ان کو معاف فرما:
(أَنْ تَھَبَ لِْ فِیْ ھٰذِہ ِ اللَّیْلَةِ وَفِْ ھٰذِہِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرْمٍ اَجْرَمْتُہُ وَکُلَّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہُ وَکُلَّ قَبِیْحٍ اَسْرَرْتُہُ وَکُلَّ جَھْلٍ عَمِلْتُہُ کَتَمْتُہُ اَوْاَعْلَنْتُہُ،اَخْفَیْتُہُ اَوْ اَظْھَرْتُہُ،وَکُلَّ سَیِّئَةٍ اَمَرْتَ بِاِثْبَاتِھاَالْکِرَامَ الْکَاتِبِیْنَ الَّذَیْنَ وَکَّلْتَھُمْ بِحِفْظِ مَایَکُوْنُ مِنِّْ وَجَعَلْتَھُمْ شَھُوْداًعَلَیَّ مَعَ جَوَارِحْ )
'' مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائیاں اور ساری جہالتیں جن کو میں نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان چھپاکر یا ظاہر کر کے عمل کیا ہے اور میری تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ہے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ہے اور میرے اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے ''
دوسرے گروہ میں امام علی علیہ السلام اﷲ سے رحمت نازل کرنے کیلئے عرض کرتے ہیں اور خدا سے عرض کرتے ہیں اے پروردگار وہ ہر شان ،ہر رزق اور خیر جو تو نازل کرتاہے اس میں میرا حصہ قرار دے ۔
(وَاَنْ تُوَفِّرَحَظِّْ مِنْ کُلِّ خَیْرٍاَنْزَلْتَہُ اَوْبِرٍّ نَشَرْتَہُ اَوْ رِزْقٍ بَسَطَّتَہُ )
''میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ہونے والے ہر خیر و احسان اور نشر ہونے والی ہرنیکی ،ہر وسیع رزق،ہر بخشے ہوئے گناہ،عیوب کی ہر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے ''
یہ وسیع دعا ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو اﷲ کی رحمتوں سے خارج نہیں ہو سکتی ہیں ۔
اس دعاکے تیسرے گروہ میں طولا نی فقرے ہیں اور اس مطلب کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے اﷲ سے لو لگانے کا بڑا اہتمام فرمایا ہے ۔
مولائے کائنات خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ میرے اوقات کو اپنے ذکر  سے پر کردے اپنی خدمت میں لگے رہنے کی دھن لگادے ، اپنے (خدا ) سے ڈرتے رہنے کی تو فیق عطا کر ، اپنے سے قریب کر اور اپنے جو ارمیں جگہ عطا فرما :
(اَسْأَلُکَ اَنْ تَجْعَلَ اَوْقَاتِ مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُوْرَةً وَبِخِدْمَتِکَ مَوْصُوْلَةً۔۔۔ قَوِّعَلیٰ خِدْمَتِکَ جَوَارِحِْ، وَاشْدُدْعَلَی الْعَزِیْمَةِ  جَوَانِحِْ وَھَبْ لِیَ الْجِدَّفْ خَشْیَتِکَ وَالدَّوَامِ فِْ الْاِتِّصَالِ بِخِدْمَتِکَ حَتّیٰ اَسْرَحَ اِلَیْکَ فِْ مَیَادِیْنِ السَّابِقِیْنَ،وَاشْتَاقَ اِلٰی قُرْبِکَ فِْ الْمُشْتَاقِیْنَ وَادْنُوَمِنْکَ دُنُوَّالْمُخْلِصِیْنَ،وَاَخَافَکَ مَخَافَةَالْمُؤْقِنِیْنَ،وَاجْتَمِعَ فِْ جَوَارِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ )
''میں تجھ سے سوال کرتاہوںکہ دن اوررات میںجملہ اوقات اپنی یادسے معمور کرد ے ۔ اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا فرما۔۔۔اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادۂ دل کو مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصین کی طرح تیری قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں''
ہمارے لئے یہ بتا نا ضروری ہے کہ پہلے اور تیسرے گروہ کے دعا کے تمام فقرے بندے کے اﷲ سے لولگانے کیلئے مخصوص ہیں لیکن پہلے گروہ (قسم) میں سلبی پہلو اختیار کیا گیا ہے اس میں انسان اﷲ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے ان سے در گذر چاہتا ہے ؛اور تیسرے گروہ (قسم)میں ایجابی (مثبت)پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے اس میں خدا سے اخلاص ، خوف ، خشیت ،حب اور شوق کی بنیاد پر اﷲ سے لولگانے کو کہا گیا ہے ۔
چوتھے گروہ (قسم ) میں ان مطالب کو مد نظر رکھا گیا ہے جن میں امام  نے خداوند عالم سے ظالموں کے مکراوران کے شر سے بچنے کی در خواست کی ہے اور ان کے شر کو خود ان ہی کی طرف پلٹنا نے کو کہا ہے اور ظالموں کے ظلم اور ان کی اذیتوں سے محفوظ رہنے کی در خواست کی ہے :
( اَللَّھُمَّ وَمَنْ اَرَادَنِْ بِسُوْئٍ فَاَرِدْہُ،وَمَنْ کَادَنِ فَکِدْہُ )
''خدایا !جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاہے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا ''
(وَاکْفِنِْ شَرَّالْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اَعْدَائِْ)
''اورمجھے تمام دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا ''
یہ اس دعا شریف کا بہت ہی مختصر اور مفید خلاصہ ہے ۔
لہٰذا اس اجمال کی تشریح کرنا ضروری ہے ۔
دعا ء کمیل کے چارو سیلے
اب ہم دعاء کمیل کے چارو سیلوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں اور یہ اس دعا شریف کی دوسری فصل ہے ۔
پہلا وسیلہ
خدا وند عالم نے اپنے بندے پر پہلے ہی اپنا فضل و کرم فرمادیا ہے ۔جب بندہ اپنے عمل و     کو شش میں عاجزہو جاتا ہے اور اس کے اور اﷲ کے درمیان پر دے حائل ہوجاتے ہیں تو خدا کا بندے پر فضل اور اس کی رحمت خدا تک پہنچنے کے لئے بندہ کی شافع ہوتی ہے ۔
خدا کا بندے پر سابق فضل اور رحمت نازل کرنا اﷲ کا بندے سے محبت کرنے کی علامت ہے ۔
اور اسی (حب الٰہی)کے ذریعہ بندہ خدا وند عالم کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتا ہے جب بندہ خدا کی رحمت کا مستحق نہیں ہوتا تو اﷲ کی محبت اس کو اپنی رحمت اور فضل کا اہل بنا دیتی ہے اور اس کو مقام اجابت تک پہنچاتی ہے امام علیہ السلام اس وسیلہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
(یَامَنْ بَدَ ئَ خَلْقِْ وَذِکْرِْ وَتَرْبِیَتِْ وَبِرِّْ،ھَبْنِِلاِبْتِدَائِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِْ )
''اے میرے پیداکرنے والے ،اے میرے تربیت دینے والے،اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے ''
ہماری پیدائش بھی اﷲ سے سوال کرنے سے پہلے نیکی کاذکر، خلق اور تربیت کے ذریعہ ہو ئی جبکہ ہم اس کے مستحق نہیں تھے ۔
جب ہما رے گناہ اور ہماری برائیاں اﷲ کی نیکی اور اس کی رحمت کے درمیان حا ئل       ہو جا تے ہیں تو اﷲ کی محبت ہماری شفاعت کرتی ہے اور ہم کو اﷲ کے روبر واور اسکی رحمت کے مقام پر لاکر کھڑاکردیتی ہے ۔
دوسرا وسیلہ
ہماری خدا سے محبت ، اس کی ہمارے لئے کا میاب محبت کا وسیلہ ہے ۔امام علیہ السلام نے پہلے وسیلہ میں خدا کی محبت کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد خداوند عالم سے اپنی محبت کو وسیلہ قرار دیا ہے ۔
اس وسیلہ کے سیاق میں ہمارا خدا کی وحدانیت کا اقرار ، اس کی بارگاہ میں خضوع و خشوع، ہماری نمازیں سجدے ، ذکر ، شھادت (گواہی )، اس کی ربوبیت کا اقرار نیز اس کی عبودیت کا اقرار کرنایہ تمام چیزیں آتی ہیں ۔
ان تمام چیزوں کا مرجع دو ہی چیزیں ہیں :ہمارا اس سے محبت کرنا اور اس کی توحید کا اقرار کرنا ہے ۔بیشک (حب)اور (توحید )دونوں ایسے سرمایہ ہیں جن کو اﷲ ردنہیں کرتا ہے اور ہم کو بھی  دو نوں چیزوں میں ایک لحظہ کیلئے بھی کو ئی شک نہیں کرنا چاہئے ۔
امام علیہ السلام اس وسیلہ سے متوسل ہونے کیلئے فرماتے ہیں :
( اَتُرَاکَ مُعَذِّبِْ بِنَارِکَ بَعْدَ تَوْحِیْدِکَ وَبَعْدَ مَاانْطَویٰ عَلَیْہِ قَلْبِْ مِنْ مَعْرَفَتِکَ وَلَھِجَ بِہِ لِسَانِمِنْ ذِکْرِکَ وَاعْتَقَدَہُ ضَمِیْرِْ مِنْ حُبِّکَ وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرَافِوَدُعَائِْ خَاضِعاً لِّرُبُوْبِیِّتِکَ )
''کیا یہ ممکن ہے کہ میرے عقیدۂ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے دل میں اپنی معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابر تیری محبت جاگزیں رہی ہے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ہوں '
یہاں پرہم دعا کے اس فقرہ سے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے :جب خدا وند عالم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کی حکو مت وسلطنت عطا کی توآپ ایک دن اپنے گھر کے سامنے تخت پر ایک ایسے نیک وصالح بندے کے ساتھ تشریف فرماتھے جس کو اﷲ نے علم اور نور عطا کیاتھا ، اسی وقت اس تخت کے پاس سے ایک نوجوان کا گذر ہواتو اس صالح بندے نے حضرت یوسف علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیاآپ اس جوان کو پہچانتے ہیں؟
آپ نے فرمایا :نہیں تو اس بندے نے عرض کیا :یہ وہی بچہ ہے جس نے آپ کے      بری وپاک ہونے کی اس وقت گواہی دی تھی جب عزیز مصر کی زوجہ نے آپ پر الزام لگایا تھا ۔
(وَشَھِدَشَاھِد مِنْ اَھْلِھَااِنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَمِنَ  الْکَاذِبِیْنَ ۔وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّمِنْ دُبُرٍفَکَذَبَتْ وَھُوَمِنَ الصَّادِقِیْنَ )(١)
''اور اس پر اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گو اہی بھی دیدی کہ اگر ان کا دامن   سا منے سے پھٹا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جھوٹوں میں سے ہیں اور اگر ان کا کر تا پیچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھو ٹی ہے اور یہ سچو ں میں سے ہیں ''
یہ وہی شیر خوا ربچہ ہے جس نے گہوار ے میں آپ کی گواہی دی تھی اور یہ اب جوان ہوگیا ہے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو بلا یا ،اپنے پہلو میں بیٹھایا اور اس کا بہت زیادہ احترام کیا اور وہ عبد صالح حضرت یو سف علیہ السلام کے پاس متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے حضرت یوسف کے اس برتائوکا مشاہد ہ کرتارہا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس نیک بندے سے فرمایا۔کیا تم کو میرے اس جوان کے عزت وکرام کر نے پر تعجب ہو رہاہے ؟ تو اس نے کہا :نہیں لیکن اس جوان کی آپ کے بری الذمہ     ہو نے کی گواہی کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں ہے ،خدا نے اس کو قوت گویائی عطا کی جبکہ اس کی خود اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ یو سف آیت٢٦۔٢٧۔
میں کوئی فضیلت نہیں ہے ،اس کے باوجود آپ نے اس کا اتنا زیادہ اکرام کیا اس کو اتنی عزت دی ہے ۔
تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ اﷲ کے سامنے اتنے طولانی سجد ے کرے اور وہ اس کو جہنم کی آگ میں جلادے ،یا اس بندے کے اس دل کو جلادے جو اس کی محبت سے لبریزہے ،یا اس کی اس زبان کو جلادے جس سے اس نے خدا کو بہت زیادہ یاد کیایا اسکی وحدانیت کی گواہی دی اور اس کی وجہ سے شرک کا انکار کیا ہے ؟
حضرت امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
(وَلَیْتَ شِعْرِْ یَاسَیَّدِْ وَاِلٰھِْ وَمَوْلَائِْ اتُسَلِّطُ النَّارَعَلیٰ وُجُوْہٍ خَرَّتْ لِعَظْمَتِکَ سَاجِدَةً وَعَلٰی اَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحِیْدِکَ صَادِقَةً وَبِشُکْرِکَ مَادِحَةً وَعَلیٰ قُلُوْبِ اعْتَرَفَتْ بِاِلٰھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً وَعَلٰی ضَمَائِرَحَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّیٰ صَارَتْ خَاشِعَةً وَعَلیٰ جَوَارِحَ سَعَتْ اِلٰی اَوْطَانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً،وَاَشَارَتْ بِاِ سْتِغْفَارِکَ مُذْعِنَةً مَا ھٰکَذَاا لظَّنُّ بِکَ وَلَااُخْبِرْنَابِفَضْلِکَ عَنْکَ یَاکَرِیْمُ )
''میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چہرے تیرے سامنے سجدہ ریز رہے ہیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گااور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رہی ہیں اور تیری حمد وثنا کرتی رہی ہیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی کا اقرار ہے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ہیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ہیں یا جو اعضاء و جوارح تیرے مراکز عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ہیں ؛ان پر بھی تو عذاب کرے گا۔ہر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نہیں ہے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے  ''
تیسرا وسیلہ
عذاب برداشت کرنے کے مقابلہ میں ہمارا کمزور ہو نا ، ہماری کھال کا باریک ہونا ،ہماری ہڈیوں کا کمزور ہونا ،ہم میں صبر اور قوت برداشت کے مادہ کاکم ہونا ،کمزوری، قوی متین تک پہنچنے میں ایک کا میاب وسیلہ ہے ،ہر کمزورقوی کو جذب کرنے اور اس کی عطوفت ومحبت کو اخذ کر نے کی خواہش کرتا ہے ۔
بیشک کمزور میں ایک راز ہے جس کی بنا پراسے ہمیشہ قوی کی طلب ہو تی ہے اسی طرح قوی (طاقتور )کو ہمیشہ کمزور کی تلاش رہتی ہے یعنی دونوں میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی تلاش رہتی ہے ۔
بیشک شیرخوار اپنی کمزوری کی بناء پر اپنی ماں کی محبت چاہتا ہے جس طرح مادر مہربان کو بچہ کی کمزوری اوراس کی رقت کی چاہت ہو تی ہے ۔
کمزور کا اسلحہ اور وسیلہ بکا اور امید ہے امیرالمو منین علی علیہ لاسلام اس دعا ء کمیل میں فرماتے ہیں :
(یَامَنِ اسْمُہُ دَوَائ،وَذِکْرُہُ شِفَائ وَطَاعَتُہُ غِنیً اِرْحَمْ مَنْ رَّاسُ مَالَہُ الرَّجَائُ وَسِلاَحَہُ الْبُکَائُ )
''اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا۔۔۔ اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے''
بیشک فقیر کا اصل سرما یہ غنی (مالدار )سے امید رکھناہے ،کمزور کا اسلحہ، قوی کے نزدیک گریہ وزاری کر ناہے ،اوردنیا میں جو کمزور کے ،قوی وطاقتور سے اور طاقتور کے کمزور سے لو لگا نے کے سلسلہ میں اﷲ کی سنتوں کو نہیں سمجھ پا ئے گا وہ اس دعا ء کمیل میں حضرت علی علیہ السلام کے ان موثر فقروں کو نہیں سمجھ پائیگا ۔
حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ السلام دوسری مناجات میں فرماتے ہیں :
(انت القو واناالضعیف وھل یرحم الضعیف الاالقو)
''تو قوی ہے اور میں کمزور ہوں اور کیا طاقتور کے علاوہ کو ئی کمزور پر رحم کر سکتا ہے ''
امام علیہ السلام اس دعا کمیل میں بندے کی کمزور ی ،اس کی تدبیر کی کمی اسکے صبر وتحمل کے جلد ی ختم ہوجانے ،کھال کے رقیق ہو نے اور اسکی ہڈیوںکے رقیق ہونے سے متوسل بہ بارگا ہ     خد ا و ند قدوس ہوتے ہیں ۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
(یَارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِْ وَرِقَّةَجِلْدِْ وَدِقَّةَ عَظْمْ)
''پروردگار میرے بدن کی کمزوری، میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما '
ہم کو دنیا میں کا نٹا چبھتا ہے ،انگارے سے ہمارا ہاتھ جل جاتا ہے اور جب ہم کودنیا میں ہلکی سی بیماری لا حق ہو جاتی ہے تو ہماری نیند اڑجاتی ہے اور ہم بے چین ہو جاتے ہیں ،جبکہ اس تھوڑی سی دیر کی بیماری کو خداوندعالم نے امتحان کے لئے قرار دیا ہے تو ہم اس وقت کیا کریں گے جب ہم    درد ناک عذاب کی طرف لے جائے جا ئیںگے اورعذاب کے فرشتوں سے کہا جائیگا :
(خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ ثُمَّ الْجَحِیْمُ صَلُّوْہُ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍذَرْعُھَاسَبْعُوْنَ ذِرَاعاً          فَاسْلُکُوْہُ )(١)
''اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو ،پھر اسے جہنم میں جھونک دو ،پھر ستر گز کی ایک رسی میں اسے جکڑلو ''
امام علیہ السلام فرما تے ہیں :
(وَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفِعَنْ قَلِیْلٍ مِنْ بَلاَئِ الدُّنْیَاوَعُقْوْبَاتِھَاوَمایَجْرِیْ فِیْھَا مِنْ الْمَکَارِہِ عَلیٰ اَھْلِھَاعَلیٰ اَنَّ ذٰلِکَ بَلاَ ئ وَمَکْرُوْہ قَلِیْل مَکْثُہُ یَسِیْربَقَائُہُ قَصِیْرمُدَّتُہُ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ الحاقة آیت٣٠،٣١،٣٢۔
فَکَیْفَ اِحْتِمَالِیْ لِبَلاَئِ الآخِرَةِ وَجَلِیْلِ وَقُوْعِ الْمَکَارِہِ فِیْھَاوَھُوَ بَلَائ تَطُوْلُ مُدَّتُہُ وَیَدُوْمُ مُقَامُہُ وَلَایُخَفِّفُ عَنْ اَھْلِہِ لِاَنَّہُ لَایَکُوْنُ  ِلَّاعَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقَامِکَ وَسَخَطِکَ وَھٰذَا مَالَاتَقُوْمُ لَہُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ یَاسَیِّدِْ فَکَیْفَ لِْ وَاَنَاعَبْدُکَ الضَّعِیْفُ الذَّلِیْلُ الْحَقِیْرُالْمِسْکِیْنُ الْمُسْتَکِیْنُ یَااِلٰہِْ وَرَبِّْ وَسَیِّدِیْ وَمَوْلا)
''پروردگار اتو جانتا ہے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو میں ان آخرت کی بلاؤں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ہے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اس لئے کہ یہ بلائیں تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ہیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نہیں لاسکتے ،تو میں ایک بندۂ ضعیف و ذلیل و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ہوںخدایا، پروردگارا، میرے سردار،میرے مولا''
چو تھا وسیلہ
امام علیہ السلام اس دعا میں بندہ کے اﷲ سے مضطر ہو نے کو بیان فر ماتے ہیںاورانسان کیلئے اضطرار ایک کا میاب وسیلہ ہے اور اس کی حا جتیں اﷲ کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ پوری نہیںہو سکتی ہیں ۔
ہماری اضطرار سے مراد یہ ہے کہ انسان کی حا جتیں اﷲ کے علاوہ کو ئی اورپورا نہیں کر سکتا ہے اور اس کی پنا ہگاہ کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہیں ہے ،انسان اﷲ کے علاوہ کسی اور جگہ بھاگ کر جاہی نہیں سکتا اﷲ کے علاوہ اس کو کوئی اور پناہگاہ نہیں مل سکتی ہے ۔
چھو ٹابچہ بچپن میں اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی اورکو ایسا نہیں پاتا جو اس کے کام آئے اس کا دفاع کر ے اس کی حاجتیں پوری کرے اس کی ہر خواہش وچاہت پر لبیک کہے اس پر عطوفت کرے لہٰذا وہ اپنے والدین سے مانوس ہوتا ہے وہ اپنے ابھرتے بچپن میں ان دونوں سے اپنے ہر مطالبہ اور ہر ضرورت کوان کی رحمت رافت شفقت سے پاتا ہے جب بچہ کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو ان کو تکلیف ہو تی ہے جب اس کو کسی چیز کا خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کی پناہ میں آجاتا ہے اور ان کے پاس اس کو امن وچین ،رحمت اور شفقت ملتی ہے اس کی ضرورتیں پوری ہو تی ہیں اور جس چیز سے اس کو خوف ہو تا ہے ان سے امان ملتی ہے ۔
جب وہ کبھی ایسا کام انجام دیتا ہے جس میں وہ ان دونوں کے عقاب کا مستحق ہو تا ہے اور اس کو اپنی جان کا خوف ہو تا ہے تو وہ اپنے دائیں بائیں نظریں ڈالتا ہے تو اس کو کوئی پناہگا ہ نظر نہیں آتی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے فرار کر سکتا ہے اور ان کے علاوہ کوئی امن کی جگہ اس کو نظر نہیں آتی تو انھیں کی پنا ہگا ہ میں چلا جاتا ہے اور اپنے نفسں کو ان کا مطیع وفرمانبردار کہہ کران سے فریاد کرتا ہے حالا نکہ وہ دونوں اس کو مار نے اور مواخذ ہ کرنے کا اراد ہ کرتے ہیں ۔
والدین کو بھی اس طرح کے اکثر مناظردیکھنے کو ملتے ہیں اور بچہ ان کی محبت اور عطو فت کوحاصل کرلیتا ہے ۔
امام علیہ السلام اس دعا ئے شریفہ میں اسی معنی کی طرف اشارہ فر ماتے ہیں کہ آپ ہر مسئلہ میں اللہ سے پناہ مانگتے تھے جب آپ پر کو ئی سخت وقت آتاتھا،کو ئی مصیبت پڑتی تھی یا کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو آپ اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے تھے اور اسی سے لو لگاتے تھے لیکن پھر بھی آ پ کو اپنی مصیبت کے سلسلہ میں اللہ کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہیں ملتی تھی امام علیہ السلام انسان کا اسی حالت میںمشاہدہ کرتے ہیں وہ خداوند عالم کے اسی غضب کے سا منے ہے جس کی رحمت کی اسے امید ہے اور اس خداوند قدوس کی عقوبت کے سامنے ہے جس کے غضب سے وہ سلا متی چاہتا ہے ۔
بندے کی (جب وہ اپنے کو اﷲ کے عذاب کا مستحق دیکھتا ہے )اﷲ کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہیںہے اﷲ کے علاوہ وہ کہیںفرارا ختیار نہیں کرسکتا نہ اس کو خدا کے علا وہ کسی کی حمایت حا صل ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ خدا کے علا وہ کسی اور سے سوال کرسکتا ہے ۔
جب عذاب کے فرشتے اس کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں تو وہ خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا تا ہے اس سے امن وچین طلب کر تا ہے اس سے فریاد کر تا ہے ،اپنے نفس کیلئے اس سے رحمت طلب کرتا ہے جیسے وہ بچہ کہ جب اس کے والدین اس سے ناراض ہو جاتے ہیں تو اس کے پاس ان دونو ں کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار کر نے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے اوروہ ان کے علاوہ وہ کسی کو اپنا مونس ومدد گار نہیں پاتا ہے ۔
ہم امام علیہ السلام سے ان کلمات میں دقیق ورقیق و شفاف مطالب کو سنتے ہیں جن کو توحید اور دعا کی روح وجان کہا جاتا ہے :
(فَبِعِزَّتِکَ یَاسَیِّدِْ وَمَوْلَا اُقْسِمُ صَادِقاً لَانْ تَرَکْتَنِْ نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَیْکَ بَیْنَ اَھْلِھَاضَجِیْجَ الْآمِلِیْنَ وَلأصْرُخَنَّ صُرَاخَ الْمُسْتَصْرِخِیْنَ وَلَأبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکَائَ الْفَاقِدِیْنَ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَیْنَ کُنْتَ یَاوَلَِّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَاغَایَةَ آمَالِ الْعَارِفِیْنَ  یَاغَیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ یَاحَبِیْبَ قُلُوْبِ الصَّادِقِیْنَ وَ یَااِلٰہَ الْعَا لَمِیْنَ)
''تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا!  اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اہل جہنم کے درمیان بھی امیدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ''عزیز گم کردہ ''کی طرح تیری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بھی ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس،صادقین کے دلوں کا محبوب اور عالمین کا معبود ہے''
قضیہ کی یہ پہلی وجہ ہے اور دوسری وجہ بھی پہلی وجہ کی طرح واضح وروشن ہے یعنی خداوند عالم کا اپنے بندہ سے رابطہ ۔
پہلی وجہ کا خلا صہ یہ ہے کہ بندہ جب مضطر ہو تا ہے تو خدا سے ہی لو لگا تا ہے اس کی رحمت اور اس کی امن کی تلاش میں رہتا ہے ۔
بندہ سے خداوند عالم کے محبت کرنے کا دو سرا رخ اس وقت نظر آتا ہے جب وہ تیز بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور اُس (خدا ) کی رحمت کا طلبگار ہو تا ہے خدا وند عالم سے خود اسی خدا کی طرف فرار کرتا ہے خداوند عالم کی رحمت اور فضل کو اس حال میں طلب کرتا ہے کہ وہ خداوند عالم کی عقوبت اور انتقام کے سامنے ہوتا ہے ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ارحم الراحمین ہو نے کے باوجود بندہ کی فریاد سنتا ہو اور اس(بندہ )کو اس کی عقل کی کمی اور جہالت کی وجہ سے اس کا ٹھکانا جہنم بنا دے جبکہ وہ اس سے فریا د کرتا ہے ،اس کا نام لیکر چیختا ہے ،اپنی زبان سے اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے ،اس سے جہنم سے نجات کا سوال کرتا ہے ،اور اسی کی بارگاہ میں گڑگڑاتا ہے ۔۔۔اور وہ اس کو جہنم کے عذاب میں ڈال دے اور اس کے شعلے اس کو جلا دیں ،اس کو جہنم کی آواز پریشان کرے ،اس کے طبقوں میں لوٹتارہے، اس کے شعلے اس کو پریشان کریں جبکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ یہ بندہ اس سے محبت کرتا ہے یہ سچ بول رہاہے اس کی توحید کا اقرار کر رہا ہے اس سے پناہ مانگ رہا ہے اور اسی کا مضطر ہے ۔
پس تم غور سے سنو :
اَفَتُرَاکَ سُبْحَانَکَ یَااِلٰھِْ وَبِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فِیْھَاصَوْتَ عَبْدٍمُسْلِمٍ سُجِنَ فِیْھَابِمُخَالَفَتِہِ وَذَاقَ طَعْمَ عَذَاِبھاَبِمَعْصِیَتِہِ وَحُبِسَ بَیْنَ اَطْبَاقِھَابِجُرْمِہِ وَجَرِیْرَتِہِ وَھُوَیَضِجُّ اِلَیْکَ ضجٍیجَ  مُُؤمِّلٍ ِلرَحْمَتِکَ وَیْنٰادیکَ بِلِسٰانِ أَھْلِ تَوْحیدِکَ وَیَتَوَسَّلُ ُاِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ ٰیامَوْلٰایَ فَکَیْفَ یَبْقٰی فِی اْلعَذٰابِ وَھُوَیَرْجوُ مٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ اَمْ کَیْفَ تُؤلِمُہُ النّٰارُ وَھُوَیَاْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ َامْ کَیْفَ  یُحْرِقُہُ ُلَھیبُھٰاوَاَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہ ُوَتَریٰ مَکٰانَہُ اَمْ کَیْفَ یَشْتَمِل ُعَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ ُاَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اَطْبٰاٰقِھٰاوَاَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ اَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ َزبٰانِیَتُھٰاوَھُوَیُنٰادیکَ یاٰرَبَّہُ اَمْ کَیْفَ یَرْجُو فَضْلَکَ فی عِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰاھَیْھٰاتَ مٰاذٰالِکَ الظَّنُّ بِکَ وَلَاالْمَعْروُفُ مِنْ فَضْلِکَ وَلٰامُشْبِہ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاِحْسٰانِکَ )
''اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندۂ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم میں گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحید کی طرح پکارنے والا ،ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہیں سنتا ہے۔
خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رہے گا اور تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا،جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکھ رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رہا ہوگا،وہ جہنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ،جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جھڑکیں گے جبکہ وہ تجھے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوگا ،ہر گز تیرے بارے میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نہیں ہے ،تونے جس طرح اہل توحید کے ساتھ نیک برتاؤ کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے''

تحریر آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی  
اس بحث میں ہم اس سوال کا جواب پیش کریں گے انشائَ اﷲ ۔
بیشک دعا کے بارے میں جیسا کہ کہا گیاہے کہ دعا وہ قرآن صاعد ہے جو اﷲ کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کے بالمقابل ہے ۔نازل ہونے والے قرآن میں عبودیت ،بندہ کوصرف خود کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرنے اور صرف اسی سے لولگا نے کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن صاعد میں اس دعوت پر لبیک کہی گئی ہے ۔
لیکن یہاں پر کچھ ایسے موانع ہیں جو دعائوں کو اﷲ کی بارگاہ میں پہنچنے سے روک دیتے ہیں اور اﷲ کی بارگاہ میں ان دعائوں کے پہنچنے سے روکنے والے اہم موانع گنا ہ اور معصیتں ہیں دعا ء کمیل میں واردہوا ہے :(اَللَّھُمَّ اغْفِرْلِیَ الذُّنُوْبَ الَّتِیْ تَحْبِسُ الدُّعَائَ )
''خدا یا میرے ان تمام گنا ہوں کو بخش دے جو دعا ئوں کو قبول ہو نے سے روک دیتے ہیں ''
اور اسی دعا ء کمیل میں آیاہے :(فَأَسْأَلُکَ بِعِزَّتِکَ اَنْ لَا یَحْجُبَ عَنْکَ دُعَائِیْ سُوْئُ عَمَلِیْ )
''میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری عزت کے واسطے سے کہ میری بد عملی میری دعا کو پہنچنے سے نہ روکے ''
ہم عنقریب ان موانع (رکاوٹوں )کی تحلیل کریںگے انشاء اﷲ :
گناہ بارگاہ خدا کی راہ میںایک رکاوٹ
حیات انسان میں گناہوں کے دواثر ہوتے ہیں :
١۔گناہ انسان اور خداوند عالم کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں ،انسان خدا سے منقطع ہوجاتا ہے اس کیلئے اپنے کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرنے اور اس سے لولگا نے کا امکان ہی نہیں رہتا ،اور نہ ہی اس کیلئے دعا کرنا ممکن ہوتا ہے بیشک دعاکا مطلب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ میں پیش کرنا ہے ۔
جب گناہ ،گناہ کرنے والے کو خدا تک پہنچا نے میں مانع ہوجاتے ہیں تو اس کی دعا میں بھی مانع ہوجاتے ہیں ۔
٢۔گناہ دعا کو اﷲ تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں ،چونکہ جب دعا اﷲ تک پہنچتی ہے تو خدا اس کو مستجاب کرتا ہے ،یہ خدا کے شایان شان نہیں کہ جب کسی بند ے کی دعا اس تک پہنچے تو وہ عاجز ہو جائے یا بخل سے کام لے ،بیشک دعا کی عاجز ی یہ ہے کہ وہ خدا تک نہیں پہنچتی ہے :کبھی کبھی گنا ہ انسان کو دعا کرنے سے مقید کردیتے ہیں اور کبھی کبھی دعا کو اﷲ تک پہنچنے میں مقید کردیتے ہیں ۔
ہم ذیل میں اس مطلب کی وضاحت کررہے ہیں :
اخذ اور عطا میں دل کادوہرا کردار
بیشک قلب ایک طرف تو خدا وند عالم سے رابطہ کیلئے ضروری چیزیں اخذ کرتا ہے اور اس سے ملاقات کرتا ہے ،اور دوسری طرف ان چیزوں کو عطا کرتا ہے جیسے حملہ آور قلب جو خون کو پھینکنے واپس  لا نے اور لوگوں کے درمیان سے اکٹھا کرنے کا کام دیتا ہے۔
جب دل میں انسان کو ملا نے اور خدا وند عالم سے مر بوط کرنے کی صلا حیت ختم ہو جا ئے تو گویا اس نے اپنی ساری اہمیت کھو دی اور اس کو کو ئی فائدہ نہیں ہوا جیسے وہ دل جو پوری طرح حملہ آور ہے۔
دل اس لینے دینے میں ایک طرف توخداوند عالم کی جانب سے ہدایت ،نو رانیت اور   آگا ہی حاصل کرتاہے اور دو سری طرف انسان کو اس کی حرکات و گفتار اور مو قف عمل میں یہ ہدایت اور نو رانیت عطا کرتے ہیں
پہلی شق (اﷲ سے ملاقات اور اخذ کرنا )کے سلسلہ میں خداوندعالم فرماتاہے :
(وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْلَانُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةًوَاحِدَةً کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً )(١)
''اور کافر یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر اِن پر یہ قرآن ایک دفعہ کل کا کل کیوں نہیں نازل ہوگیا۔ہم اسی طرح تدریجا نازل کرتے ہیں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کرسکیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے ''
تو قرآن رسول کے قلب مبارک پرایک دم اور آہستہ آہستہ نا زل ہو تا تھا اور دلوں کو تقویت بخشتا تھا نیزیہ دل اس سے نو رانیت اور ہدایت حا صل کرتے تھے ۔
خداوندعالم کا ارشاد ہے :
(اَﷲ ُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباًمُتَشَابِھاً مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْن یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ )(٢)
''اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فرقان آیت ٣٢۔
(٢)سورئہ زمر آیت ٢٣۔
جلتی ہیں اور بار بار دُہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کیلئے نرم ہو جاتے ہیں ''
قلوب، قرآن سے خشوع وخضوع اخذ کرتے ہیں ،نرم ہو جاتے ہیں خدا کی ہدایت اور اس نور کے ساتھ رابطہ پیدا کرتے ہیں جس کو خداوند عالم نے بندوں کی طرف بھیجا ہے کیونکہ قرآن خداوند عالم کی طرف سے ہدایت اور ایسا نور ہے جس کو خداوند عالم نے بندوں کی جانب بھیجا ہے نیز یہ قرآن خداوند عالم کا برہان اور مخلوق پر حجت ہے ۔
خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(یَأَایُّھَاالنَّاسُ قَدْجَآئَ کُمْ بُرْھَان مِنْ رَبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَااِلَیْکُمْ نُوْراً مُبِیْناً )(١)
''اے انسانو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکا ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور بھی نازل کردیا ہے ''
یہ نور اور ہدایت مو منین اور متقین لوگوں کے دلو ں سے مخصوص ہے وہ اس نور کو اخذ کرتے ہیں اور اس سے متأثر ہوتے ہیں :
(ھَذَابَیَان لِلنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةًلِلْمُتَّقِیْنَ )(٢)
''یہ عام انسانوں کیلئے ایک بیان حقائق ہے اور صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت اور نصیحت ہے'
(ھٰذَابَصَائِرُمِنْ رَبِّکُمْ وَھُدیً وَرَحْمَةلِقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ )(٣)
''یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل ہدایت اور صاحبان ایمان کیلئے رحمت کی حیثیت رکھتاہے ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)نساء آیت١٧٤)
(٢)سورئہ آ ل عمران آیت ١٣٨۔
(٣)سورئہ اعراف آیت ٢٠٣۔
دل کیلئے یہ پہلا دور ہے جو اﷲ سے ہدایت ،نور ،بصیرت اور بر ہان حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اﷲ نے اپنے بندوں کیلئے نور اور ہدایت نازل کیا ہے ان سے مخصوص ہوتا ہے ۔
دلوں کیلئے دوسرامرحلہ تو سعہ اور عطا
اس مرحلہ میں قلوب ایسے نور اور ہدایت کو پھیلاتے ہیں جو ان کو خداوند عالم کی جا نب سے ملا ہوتا ہے اوریہ قلوب انسان کی حر کت ،گفتار ،مو قف ،روابط اور اقدامات کو نور عطا کرتے ہیں اس وقت انسان نو رالٰہی اور ہدایت الٰہی کے ذریعہ آگے بڑھتا ہے نور خدا اور ہدایت خدا سے تکلم کرتا ہے نور خدا اور ہدایت کے ذریعہ اپنامو قف معین کرکے لوگوں کے درمیان چلتا ہے ۔
(اَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوْراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ) (١)
''کیا جو شخص مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیااور اس کیلئے ایک نور قرار دیاجس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے ''
(یَااَیُّھَاالَّذِ یْنَ آمَنُوااتَّقُوااﷲَ وَآمِنُوْابِرَسُوْلِہِ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَحْمَتِہِ وَیَجْعَلْ لَکُمْ نُوْراً تَمْشُوْنَ بِہِ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْررَّحِیْم )(٢)
''ایمان والو اللہ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آئو تا کہ خدا تمھیں اپنی رحمت کے دہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو اور تمھیں بخش دے اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے ''
یہ نور جس کے ذریعہ مومنین کا ایک دوسرے سے رابط برقرار رہتا ہے ،اس کے ذریعہ سے وہ لوگوں کی صفوں میں گھوما کرتے ہیں ،ان کی سیاست ،یاتجارت یاحیات انسانی کے دوسرے تمام  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ انعام آیت ١٢٢۔
(٢)سورئہ حدیدآیت ٢٨۔
کا موں میں لگے رہتے ہیں یہ خداوندعالم کا وہ نور ہے جس کو اﷲ نے اپنے بندوں کیلئے بھیجا ہے :
(وَمَنْ لم یَجْعَلِ اﷲُ لَہُ نُوْراً فَمَالَہُ مِنْ نُوْرٍ )(١)
''اور جس کیلئے خدا نور قرار نہ دے اس کے لئے کو ئی نور نہیں ہے ''
یہ وہ نور ہے جو اﷲ کی طرف سے قلب میں ودیعت کیا جاتا ہے پھر اس کے ذریعہ دل، انسان کی بینائی ،سماعت اور اس کے اعضا وجوارح کی طرف متوجہ ہو تا ہے ۔
اس اخذ اور عطا میں دل کا کردار درمیانی ہوتاہے نور اﷲ کی طرف سے آتا ہے اور اس کے ذریعہ انسان اپنا راستہ ،اپنی تحریک ،کلام اور موقف اختیار کرتا ہے ۔
یہ دل کے صحیح و سالم ہو نے کی علا مت ہے اور وہ قرآن کو صحیح طریقہ سے اخذ کرتا ہے ،اور اسکو عطا کرتا ہے جس طرح سرسبز زمین نور ،ہوا اور پانی کو اخذ کر تی ہے اور طیب و طا ہر پھل دیتی ہے۔
حضرت امرالمومنین علیہ السلام قرآن کی صفت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
(کتاب اﷲ تبصرون بہ وتنطقون بہ وتسمعون بہ )
''یہ اللہ کی کتاب ہے جس کے ذریعہ تمھیں سجھا ئی دیتا ہے اور تمہاری زبان میں گو یا ئی آتی ہے اور (حق کی آواز )سنتے ہو ''
جب دل صحیح وسالم نہ ہو تو اس میں اﷲ سے لولگانے کی خاصیت مفقود ہو جاتی ہے اور وہ اﷲ کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کا استقبال کرنے پر متمکن نہیں ہو تا۔
جب دل میں اﷲ کی طرف سے نازل ہو نے والے قرآن کا استقبال کر نے کی قدرت نہ  ہو گی تو وہ نماز اور دعا کے ذریعہ قرآن صاعد کو اﷲ تک پہنچا نے پر قادر نہیں ہو سکے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نورآیت ٤٠ ۔
اس حالت کو انغلاق قلب(دل کا بند ہوجانا) کہا جاتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے :
(صُمّ بُکْم عُمْی فَھُمْ لاَیَرْجِعُوْنَ )(١)
''یہ سب بہرے ،گونگے ،اور اندھے ہو گئے ہیں اور اب پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں ''
بہرااور اندھا نور کا استقبال کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے اسی طرح جو بولنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کو فطری طور پر گو نگا کہاجاتا ہے ۔
پروردگار عالم بنی اسرائیل سے فرماتا ہے :
(ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْ بُکُمْ مِنْ بَعْدِذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَةِاَوْاَشَدُّ ُقَسْوَةً)(٢)
''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت ''
بیشک پتھر، نور ،ہو ااور پانی کا استقبال کرنے پر متمکن نہیں ہوتا ہے اور نور ،ہو ااور پانی میں سے جو کچھ بھی اس پر گرتا ہے اس کو واپس کردیتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ وہ ثمر دینے کی استطاعت  نہیں رکھتا ہے ،بلکہ ثمر تو وہ زمین دیتی ہے جس میں نور ،ہوا اور پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے
اسی طرح جب دل صحیح وسالم نہیں ہوتا تو وہ نور کا استقبال نہیں کرتا اور نہ ہی نور سے استفادہ کرپاتا ہے اسی کومکمل انغلاق کی حالت کہاجاتا ہے اور وہ حالت (دل کا مرجانا )جس میں دل ہر طرح کی حیاتی چیز سے بے بہر ہ ہوجاتا ہے یعنی زندہ دل کی طرح اس میں کسی چیز کو لینے یادینے کی طاقت باقی نہیں رہ جاتی اور جس دل میں یہ خاصیت نہ پائی جاتی ہو وہ زندگی کا ہی خاتمہ کردیتا ہے۔
خداوندعالم دل کے مردہ ہو جانے کے متعلق فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ بقرہ ١٨۔
(٢)سورئہ بقرہ ٧٤۔
(اِنَّ اﷲَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَائُ وَمَااَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِیْ القُبُوْر )(١)
''اللہ جس کو چا ہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے اور آپ انھیں نہیںسنا سکتے جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں ''
اور یہ فرمان خدا :(اِنَّکَ لاَتُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلاتُسْمِعُ الصُّمُّ الدُّعَائَ) (٢)
''آپ مُردوں کواور بہروں کو اپنی آواز نہیں سنا سکتے ہیں اگر وہ منھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں ''
خدا وند عالم یہ فر ما تا ہے  :
(وَسَوَائعَلَیْھِمْ أَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَیُؤْمِنُوْنَ) (٣)
''اور ان کیلئے سب برابر ہے آپ انھیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ''
آوازاور انداز میں کوئی عجزو کمی نہیں ہے بلکہ یہ میت کی کمی اور عاجزی ہے کہ وہ کسی چیز کو سننے کی قابلیت نہیں رکھتی ہے ۔
دل کی اسی حالت کواس (دل) کا مرجانا ،بند ہو جانا اور اﷲ سے منقطع ہو جا نا کہا جاتا ہے ۔
اس قطع تعلق اوردل کے بند ہوجانے کی کیا وجہ ہے ؟
دلوں کے منجمد ہونے کے اسباب
اسلامی روایات میں دلو ں کے منغلق ہو نے اور ان کے اﷲ سے منقطع ہو جانے کے دواہم اسباب پر زور دیا گیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ فاطرآیت٢٢۔
(٢)سورئہ نمل آیت ٨٠ ۔
(٣)سورئہ یس آیت١٠۔
١۔اﷲ کی آیات سے اعراض روگردانی اور ان کی تکذیب ۔
٢۔گناہوں اور معصتیوں کا ارتکاب۔
خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے :
(وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْابِآیَاتِنَاصُمّوَبُکْم فِی الظُّلُمٰاتِ )(١)
''اور جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ بہرے گونگے تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ''
اس آیۂ کریمہ میں اﷲ کی آیات کی تکذیب، لوگوں کی زند گی میں تاریکیو ںکے بس جانے اور ان کے گونگے ہوجانے کا سبب ہے ۔
خدا وند عالم فرماتا ہے:
(وَاِذَاتُتْلٰی عَلَیْہِ آیَاتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِراً کَأَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَاکَأَنَّ فِیْ اُذُنَیْہِ وَقْراً)(٢)
''اور جب اس کے سامنے آیاتِ الٰہیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو اکڑکر منھ پھیر لیتا ہے جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں ہے اور جیسے اس کے کان میں بہرا پن ہے ''
ہم اس آیۂ کریمہ میں اللہ کی آیات سے رو گردانی ان سے استکبار کے درمیان ایک متبادل تعلق کامشاہدہ کرتے ہیں۔
اسی پہلے سبب کو اعراض و روگردانی کہا جاتا ہے ۔
اور دوسرے سبب(گناہ )کے سلسلہ میں خداوند عالم فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ انعام آیت ٣٩۔
(٢)سورئہ لقمان آیت ٧۔
(کَلاَّبَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ )(١)
''نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے''
آیۂ کریمہ میں صاف طور پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جن گناہوں کو انسان کسب کرتا ہے وہ دل کو زنگ آلود کردیتے ہیں جن کی وجہ سے دل پر پردہ پڑجاتا ہے اور وہ اﷲ سے منقطع ہو جاتا ہے۔
گناہوں سے دلوںکااُلٹ جانا
انسان جب بار بار گناہ کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل خدا سے منقطع ہو جاتا ہے اور جب دل خدا سے منقطع ہو جاتا ہے تو وہ برعکس (پلٹ جانا )ہوجاتا ہے گو یا او پر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہوجاتا ہے اور اس کے تمام خصو صیات ختم ہو جاتے ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مرو ی ہے :
(کان أب یقول:مامن شٔ افسد للقلب من خطیئتہ،انّ القلب لیواقع الخطیئة،فلاتزال بہ حتّیٰ تغلب علیہ،فیصیراعلاہ اسفلہ )(٢)
''میرے والد بزرگوار کا فرمایا کرتے تھے : انسان کی خطا و غلطی کے علاوہ کوئی چیز انسان کے دل کو خراب نہیں کرسکتی ،بیشک اگر دل خطا کر جائے تو وہ اس پر ہمیشہ کیلئے غالب آجاتی ہے یہاں تک کہ دل کا او پر والا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ او پر آجاتا ہے ''
اور یہ بھی امام جعفرصادق علیہ السلام کا فرمان ہے :
(اذااذنب الرجل خرج ف قلبہ نکتة سودائ،فان تاب انمحت،وان زاد زادت ،حتّیٰ تغلب علیٰ قلبہ،فلایفلح بعدھاأبداً )(٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ مطففین آیت١٤۔
(٢)بحا ر الانوار جلد ٧٣ صفحہ ٤١٢ ۔
(٣)بحار الا نوارجلد ٧٣صفحہ ٣٢٧۔
'' جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے اگروہ تو بہ کرلیتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے ، اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بھی بڑ ھتا جاتا ہے یہاں تک کہ پور ے دل پر غالب آجاتا ہے اور پھر کبھی وہ اس (دل )پر کا میابی نہیں پا سکتا ہے ''
گناہوں کے ذریعہ انسان کے دل سے حلاوت ذکر کا خاتمہ
اﷲ کے ذکر کیلئے مومنوں کے دلوں میں حلاوت پانی جاتی ہے ، اس حلاوت و شیرینی سے  بلند تر کو ئی حلاوت نہیں ہے ، لیکن جب انسان خداوند عالم سے روگردانی کر لیتا ہے تو وہ حلاوت بھی ختم   ہو جاتی ہے اور اس کا حلاوت ذکر کا ذائقہ چکھنے والوں میں شمار نہیں کیا جاتا ہے جیسے بیمار انسان جو اپنی تند رستی کھو بیٹھتا ہے تو اس کی قوت ذائقہ بھی مفقود ہوجاتی ہے نہ یہ کہ کھا نے والی چیزوں کا ذائقہ ختم ہوجاتا ہے ، بلکہ مریض کی قوت ذائقہ مفقود ہو جاتی ہے اسی طرح جب دل خدا سے پھر جاتے ہیں تو ان سے اﷲ کے ذکر کی حلاوت ختم ہو جاتی ہے اور ان کی نظر میں اﷲ کے ذکر کی کوئی حلاوت وجاذبیت نہیں رہ جاتی ہے جیسے وہ بیمار جو اپنی سلا متی و صحت و تندرستی سے محروم ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میںوہ لذیذ چیزوں کی لذت کھو بیٹھتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لذیذ چیزوں میں لذت نہیں رہی ہے بلکہ انسان کو ان کی اشتہا و خواہش نہیں رہی ہے اسی طرح جب قلوب اپنا اعتدال کھو بیٹھتے ہیں تو ان کے درمیان سے خداوند عالم کی یاد کی شیرینی کا ذائقہ ختم ہو جاتا ہے اور خداوند عالم کی یاد اور تذکرہ کیلئے ان میں کو ئی حلاوت وجذابیت باقی نہیں رہ جا تی ہے ۔
حدیث میں آیا ہے :
(اِنَّ اللّٰہَ اَوْحیٰ اِلیٰ دَاود اَن اَدنیٰ مَاأَنَا صَانع بِعبدٍ غَیْرَعَامِلٍ بِعِلْمِہِ مِنْ سَبْعِیْنَ عَقُوْبَة بَاطِنِیَّةٍ أَنْ اَنْزع مِنْ قَلْبِہِ حَلَاوَةَ ذِکْرِْ)(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)دار السلام مو ٔ لف شیخ نوری جلد ٣ صفحہ ٢٠٠۔
''خداوند عالم نے جناب دائود کو وحی کی کہ اپنے علم پر عمل نہ کرنے والے بندہ کو ستر باطنی سزائوں میں سے سب سے کم سزا یہ دیتاہوںکہ میں اس کے دل سے اپنے ذکر کی حلاوت ختم کردیتاہوں ''
ایک شخص نے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :
(یاامیرالمؤمنین،ن قدحرمت الصلاة باللیل ۔
فقال علیہ السلام :انت رجل قد قیدتک ذنوبک )(١)
''اے  امیر المو منین ایسا لگتا ہے کہ جیسے نماز شب مجھ پر حرام ہو گئی ہے ''
آپ نے فرمایا :تو ایسا شخص ہے کہ تیرے گناہوں نے تجھ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ''
حضر ت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ الرجل یذنب الذنب،فیحرم صلاة اللیل،وانّ العمل السیّیٔ أسرع ف صاحبہ من السکین ف اللحم)(٢)
''جب انسان گناہو ں پر گناہ کئے چلاجاتا ہے تو اس پر نماز شب حرام ہوجاتی ہے اور براعمل انسان کے اندر گوشت میں چھری سے کہیں زیادہ تیز اثر کرتا ہے ''
دعائوں کو روک دینے والے گناہ
براہ راست گناہوں کے انجام دینے سے انسان کا دل اﷲسے منقطع ہوجاتاہے اور جب انسان کا دل اﷲ سے منقطع ہو جاتاہے تو نہ اس میں کسی چیز کو اخذ کرنے کی صلاحیت باقی رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس کو کوئی چیز عطا کی جاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)علل اشر ائع جلد ٢ صفحہ ٥١ ۔
(٢)اصول کا فی ٢صفحہ ٢٧٢۔
جب انسان اﷲ کی طرف سے نازل ہو نے والے قرآن کا استقبال کرتاہے تو (دعا) انسان کو اﷲ تک پہنچاتی ہے ،اور جب انسان اﷲ کے نازل کئے جانے والے قرآن سے منقطع ہو جاتا ہے تو وہ ضروری طور پر قرآن صاعد سے بھی منقطع ہوجاتاہے ۔اس کی دعا محبوس (قید )ہوجاتی ہے اور وہ اس پر کامیاب نہیں ہوپاتایہاں تک کہ اگر وہ خدا کی بارگاہ میں بہت زیادہ گڑگڑائے یاپافشاری کرے ،اصرارکرے تب بھی خدا اس کی دعا کو اوپر پہنچنے سے روک دیتا ہے اور اس کی دعا مستجاب نہیں ہوتی ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے :
(المعصیة تمنع الاجابة)
''گناہ دعا کے مستجاب ہونے میں مانع ہوتے ہیں''
ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام سے خداوندعالم کے اس قول (ادعونی استجب لکم )کے سلسلہ میں سوال کیا :
(مالنا ندعو فلایُستجاب لنا؟قال:فأ دعاء یُستجاب لکم،وقد سددتم ابوابہ وطرقہ،فاتقوااللّٰہ واصلحوااعمالکم،واخلصوا سرائرکم ،وأمروا بالمعروف،وانھواعن المنکر،فیستجیب اللّٰہ معکم )(١)
'' کیا وجہ ہے کہ ہم خداوندعالم سے دعا کرتے ہیں لیکن ہماری دعا مستجاب نہیں ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہار ی دعا کیسے مستجاب ہو جب تم نے اس کے دروازوں اور راستوں کو بند کردیا ہے پس تم اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو ،نیک اعمال انجام دو ،اپنے اسرار کو پاکیز ہ کرو ،امربا لمعروف کرو ،نہی عن النکر انجام دو تو خدا تمہاری دعا قبول کرے گا ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانور جلد ٩٣صفحہ ٣٧٦۔
حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے :
(والذنوب التی تردّ الدعائ،وتُظلم الھواء عقوق الوالدین )(١)
''جوگناہ دعائوں کو رد کر دیتے ہیںاور فضا کو تاریک کر دیتے ہیںان سے مراد والدین سے سر کشی کرنا ہے ''
دوسری روایت میں آیاہے :
(والذنوب التی تردّالدعائ:سوء النیة وخبث السریرة،والنفاق، وترک التصدیق بالاجابة،وتاخیرالصلوات المفروضات حتّیٰ تذھب اوقاتھا،وترک التقرب الیٰ اللّہ عزّ وجلّ بالبرّ والصدقة،واستعمال البذاء والفحش فی القول)(٢)
''دعائوں کو مستجاب ہونے سے روک دینے والے گناہ یہ ہیں :بُری نیت ،خُبث باطنی، نفاق واجب صدقہ نہ دینا،واجب نمازوں کے اداکرنے میں اتنی تاخیر کرنا کہ نماز کا وقت ہی ختم ہوجائے، نیکی اور صدقہ دینے کے ذریعہ اﷲ سے قربت حاصل کرنے کو چھوڑدینا اور گفتگومیں گالیا ں دینا ''
حضرت مام محمدباقر علیہ السلام سے مروی ہے :
(انّ العبد یسأ ل اللّٰہ الحاجة،فیکون من شأنہ قضاؤھا الیٰ اجل قریب،ف ذنب العبد ذنباً،فیقول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ للملک:لاتقض حاجتہ،واحرمہ ایاھا،فنہّ تعرض لسخط واستوجب الحرمان من)(٣)
''جب بندہ خداوندعالم سے اپنی حاجت طلب کر تاہے تو خدا کی شان دعا کو پورا کر دینا ہے مگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)معانی الاخبار صفحہ ٢٧٠۔
(٢)معانی الاخبار صفحہ ٢٧١۔
(٣)اصول کا فی جلد ٣صفحہ ٣٧٣۔
بندہ گناہ کرلیتا ہے جسکی وجہ سے دعاقبول نہیں ہوتی، خداوندعالم فرشتہ سے کہتا ہے :اس کی حاجت روانہ کرنا ،اس کو اس کی حاجت سے محروم رکھنا ،وہ مجھکو نا خشنود کرتا ہے جسکی وجہ سے وہ مجھ سے محروم ہوا ہے ''
قبولیت اعمال کے موانع
اسلامی روایات میں (اعمال کے بلند ہو نے میں رکاوٹ ڈالنے والے موانع )اور (اﷲ کی بارگاہ میں اعمال پہنچا نے کے اسباب )کاتذکرہ موجود ہے :
ان دونوں چیزوں کا انسان کے عمل سے براہ رست تعلق ہے مگر یہ کہ (موانع )اعمال کے اﷲ کی بارگاہ تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ،اور (اسباب )اعمال کو اﷲ کی بارگاہ میںپہنچنے میں مددگار ہوتے ہیں :
ہم ذیل میں (موانع )کے متعلق اسلامی روایات میں وارد ہو نے والے ایک نمونہ کا تذکرہ کریں گے اور اسباب کے سلسلہ میں بھی ایک ہی نمونہ کا تذکرہ کریں گے اور اس مسئلہ کی اسلامی ثقافت وتربیت میں زیادہ اہمیت ہونے کی غرض سے اسکی تفصیل وتشریح ایک مناسب موقع کیلئے چھوڑدیتے ہیں ۔
صعود اعمال کے موانع (اسباب)
شیخ ابو جعفر محمد بن احمد بن علی قمی ساکن ری نے اپنی کتاب ''المنبیُ عن زھد النبی'' عبدالواحد سے اور انھوں نے معاذ بن جبل سے نقل کیا ہے :ان کا کہنا ہے کہ میں نے عرض کیا: میرے لئے ایک ایسی حدیث بیان فر ما دیجئے جس کو آپ نے رسول اکر م  ۖ سے سنا ہو اور حفظ کیا ہو انھوں نے کہا ٹھیک ہے پھر معاذ نے گریہ کرتے ہو ئے فر مایا :میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوںتو  اس وقت مجھ سے یہ حدیث نقل فر ما ئی جب میں ان کے پاس کھڑا ہوا تھا:
''بینا نسیراذ رفع بصرہ الی السماء فقال:الحمدﷲ الذ یقض ف خلقہ ماأحبّ،ثم قال:یامعاذ،قلت:لبیک یارسول اللّٰہ وسید المؤمینن قال: یا معاذ،قلت، لبیک یارسول اﷲ امام الخیرونب الرحمة فقال:احدثک شیئاًماحدّث بہ نب امتہ ان حفظتہ نفعک عیشک،وان سمعتہ ولم تحفظہ انقطعت حجتک عند اللّٰہ،ثم قال:انّ اللّٰہ خلق سبع أملاک قبل ان یخلق السماوات فجعل فی کل سماء ملکاًقدجللھا بعظمتہ،وجعل علیٰ کل باب من ابواب السماوات ملکاًبواباً،فتکتب الحفظة عمل العبد من حین یصبح الیٰ حین یمس،ثم ترتفع الحفظة بعملہ ولہ نورکنور الشمس حتّی اذابلغ سماء الدنیا فتزکیہ وتکثرہ فیقول الملک:قفوا واضربوابھذاالعمل وجہ صاحبہ،اناملک الغیبة،فمن اغتاب لاادع عملہ یجاوزن الیٰ غیر،امرن بذالک رب۔
قال :ثم تجیٔ الحفظة من الغد ومعھم عمل صالح،فتمّر بہ فتزکیہ و تکثرہ حتّی تبلغ السماء الثانیة،فیقول الملک الذ فالسماء الثانیة:قفوا واضربواھذ االعمل وجہ صاحبہ انّما اراد بھذاعرض الدنیا،اناصاحب الدنیا، لاادع عملہ یتجاوزن الیٰ غیر۔
قال:ثم تصعد الحفظة بعمل العبدمبتھجابصدقة وصلاة فتعجب بہ الحفظة،وتجاوز بہ الیٰ السماء الثالثة،فیقول الملک:قفوا واضربوا ھذاالعمل وجہ صاحبہ وظہرہ،أناملک صاحب الکبر،فیقول:انہ عمل وتکبرّعلی الناس ف مجالسھم؛امرن رب أن لاأدع عملہ یتجاوزن الیٰ غیر۔
قال:وتصعد الحفظة بعمل العبد یزھرکالکوکب الدر ف السمائ،لہ دو بالتسبیح والصوم والحج ،فتمّر بہ الی السماء الرابعة فیقول لہ الملک:قفوا واضربوا بھذا العمل وجہ صاحبہ وبطنہ،اناملک العُجب،انہ کان یعجب بنفسہ انہ عمل وادخل نفسہ العُجب،امرن ربّ ان لاادع عملہ یتجاوز ن الی غیر۔
قال وتصعد الحفظة بعمل العبدکالعروس المزفوفة الی اھلھا،فتمرّ بہ الی ملک السماء الخامسة بالجھاد والصلاة (والصدقة )مابین الصلاتین،ولذلک العمل رنین کرنین الابل وعلیہ ضوء کضوء الشمس،فیقول الملک:قفوا انا ملک الحسد،واضربوابھذ االعمل وجہ صاحبہ،واحملوہ علیٰ عاتقہ،انہ کان یحسد مَنْ یتعلم اویعمل ﷲ بطاعتہ،واذا رایٰ لاحد فضلاف العمل والعبادة حسدہ ووقع فیہ،فیحملہ علیٰ عاتقہ ویلعنہ عملہ ۔
قال:وتصعد الحفظة بعمل العبد من صلاة وزکاة وحج وعمرة، فیتجاوزون بہ الی السماء السادسة،فیقول الملک:قفوا اناصاحب الرحمة واضربوابھذاالعمل وجہ صاحبہ،واطمسواعینیہ لانّ صاحبہ لم یرحم شیئاًاذا اصاب عبداًمن عباداﷲ ذنب للاخرة اوضرّ ف الدنیاشمت بہ،امرن بہ رب ان لاادع عملہ یجاوزن ۔
قال وتصعد الحفظةبعمل العبد بفقہ واجتھاد وورع ولہ صوت کالرعد، وضوء کضوء البرق،ومعہ ثلاثة آلاف ملک،فتمرّبہ الی ملک السماء السابعة، فیقول الملک:قفوا واضربوا بھذاالعمل وجہ صاحبہ اناملک الحجاب احجب کل عمل لیس ﷲ،انّّہ ارادرفعة عندالقُوّاد،وذکراً ف المجالس وصیتاًف المدائن، امرن رب ان لاادع عملہ یتجاوزن الی غیر مالم یکن اﷲ خالصاً۔
قال:وتصعد الحفظة بعمل العبد مبتھجاً بہ من صلاة وزکاة وصیام وحج وعُمرة  وحسن الخلق وصمت وذکرکثیر ،تشیعہ ملائکة السماوات والملائکة السبعة بجماعتھم،فیطئاُون الحجب کلّھا حتیٰ یقوموابین یدیہ سبحانہ،فیشھدوا لہ بعمل ودعاء فیقول:انتم حفظة عمل عبد،وانا رقیب علیٰ ماف نفسہ انہ لم یردنی بھذا العمل۔وعلیہ لعنت فیقول الملائکة:علیہ لعنتک ولعنتنا قال :ثم بکیٰٰ معاذقال:قلت:یارسول اﷲ،ماا عمل واخلص فیہ ؟قال:اقتد بنبیک یامعاذف الیقین قال:قلت انت رسول اﷲ وانامعاذ قال:وان کان فی عملک تقصیر یامعاذ فاقطع لسانک عن اخوانک وعن حملة القرآن،ولتکن ذنوبک علیک لا تحملھاعلیٰ اخوانک،ولاتزک نفسک بتذ میم اخوانک،ولاترفع نفسک بوضع اخوانک،ولاتراء بعملک،ولاتدخل من الدنیاف الآخرة،ولا تفحش ف مجلسک لک یحذروک لسوء خلقک ولاتناج مع رجل وانت مع آخر،ولا تعظم علی الناس فتنقطع عنک خیرات الدنیا،ولاتمزق الناس فتمزقک کلاب اھل النار،قال اﷲ تعالیٰ:(وَالنّٰٰا شِطٰاتِ نَشْْطاًً)(١)افتدری ماالناشطات ؟انھا کلاب اھل النار تنشط اللحم واعظم قلت:ومن یطیق ھذہ الخصال ؟قال:یامعاذ، انہ یسیر علیٰ من یسّرہ اﷲ تعالیٰ علیہ قال:ومارایت معاذاً یکثرتلاوة القرآن کما یکثر تلاوة ھذاالحدیث ۔(٢)
''انھوں نے فرمایا :ہم راستہ چلے  جا رہے تھے تو انھوں نے اپنی آنکھ آسمان کی طرف   اٹھا تے ہو ئے فر مایا :تمام تعریفیں اس خدائے وحدہ لا شریک کیلئے ہیں وہ اپنی مخلوق میں جو چا ہتا ہے وہ فیصلہ کرتا ہے۔پھر انھوں نے کہا :اے معاذ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورئہ نازعات آیت٢۔
(٢)ہم نے یہ طویل حدیث کتاب عدة الداعی کے صفحہ ٢٢٨۔٢٣٠ سے نقل کی ہے ،اور اس کتاب میں اس حدیث کے حاشیہ میں تحریر ہے کہ :سلیمان بن خالد سے مروی ہے کہ میں نے ابا عبد اللہ علیہ السلام سے خداوند عالم کے اس قول : (وَقَدِمْنَااِلیٰ مَاعَمِلُوْامِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَائً مَنْثُوراً)سورئہ فرقا ن آیت ٢٣''پھر ہم انکے اعمال کی طرف توجہ کریں گے اور سب کو اڑتے ہوئے خاک کے ذروں کے مانند بنا دیں گے ''کے سلسلہ میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : خداکی قسم اگر انکے اعمال قباطی سے بھی زیادہ سفید(بہت زیادہ نورانی )رہے ہوں گے لیکن جب ان کے سامنے کسی حرام چیز کو پیش کیا جاتاتھا تو اسکو ترک نہیں کرتے تھے ''مرآة العقول میں آیا ہے :مذکورہ مطلب میں اس بات کی دلالت ہے کہ کھلم کھلا گناہ کر نے سے نیکیاں ختم ہو جاتی ہیں اور احباط کا مطلب یہ ہے کہ اچھا ئیوںپر ثواب نہ ملنا اسکے بالمقابل تکفیر ہے یعنی کسی برائی پر عذاب نہ ملنا ۔
میں نے کہا :لبیک یارسول اللہ  ۖاور مو منین کے سردار ۔فرمایا : اے معاذ میں نے عرض کیا :لبیک  یا رسول اللہ خیر کے امام اور نبی رحمت ،انھوں نے کہا میں تم سے ایک حدیث نقل کر رہا ہوں جیسی کسی نبی نے اپنی امت سے نقل نے کی ہو اگر تم اس کو حفظ کروگے تو زندگی میں مستفید ہو گے اگر سن کر حفظ نہیں کروگے تو تم پرخداوند عالم کی حجت تمام ہو جا ئے گی ۔پھر انھوں نے کہا کہ خداوند عالم نے آسمانوں کی خلقت سے پہلے سات فر شتے خلق کئے تو ہر اس آسمان میں ایک فرشتہ معین کیا جس کو اپنی عظمت کے ذریعہ مکرم فر مایاآسمانوں کے ہر در وازے پر ایک نگہبان فر شتہ معین فر مایا تووہ انسان کے اعمال   نا مہ میں اس بندہ کا صبح سے شام تک کا عمل لکھتے ہیں پھر یہ لکھنے والے فرشتے اس کے اعمال نا مہ کو لیکر اوپر جا تے ہیں اس کی روشنی دھوپ کے مانند ہو تی ہے یہاں تک کہ جب وہ آسمان دنیا پر پہنچتا ہے تو فرشتے اس کے عمل کو پاک و صاف و شفاف اور زیادہ کر دیتے ہیں تو فرشتہ کہتا ہے :ٹھہرو اور اس عمل کو صاحب عمل کے منھ پر ما ردو میں غیبت کا فرشتہ ہوں جو غیبت کرتا ہے میں اس کے عمل کو اپنے علاوہ کسی دو سرے تک نہیں پہنچنے دوںگا میرے پرور دگار نے مجھے یہ حکم دیا ہے۔
رسول اکر م  ۖ نے فرمایا : اگلے دن یہ نا مہ ٔ اعمال ،عمل صالح کے ساتھ تزکیہ اور زیادہ  ہو نے کی صورت میں دو سرے آسمان تک پہنچتا ہے ،تو دو سرے آسمان والا نگہبان فرشتہ کہتا ہے :ٹھہرو
اور اس عمل کو صاحب عمل کے منھ پر ماردو چونکہ اس نے اس عمل کے ذریعہ اپنے کو دنیا کے سامنے پیش کر نے کی کو شش کی ہے اور میں صاحب دنیا ہوں لہٰذا میں اس عمل کو اپنے علاوہ کسی دو سرے تک نہیں جا نے دو نگا ۔
فرمایا :پھر وہ لکھنے والے اس نامہ ٔ اعمال کو صدقہ اور نماز سے پُر،خو شی خو شی اوپر لیجا تے ہیں اور وہ تیسرے آسمان سے عبور کر جاتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے :ٹھہرو اور اس عمل کو صا حب عمل کے منھ اور پیٹھ پر مار دومیں صاحب کبر کا فر شتہ ہوں وہ کہے گا :اس نے اس عمل کے ذریعہ لوگوں کی مجلسوںمیں بیٹھ کر تکبر کیا میرے پروردگار نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس عمل کو اپنے علاوہ کسی دوسرے تک نہ پہنچنے دوں ۔
فرمایا :یہ نا مہ ٔ اعمال بندہ کے اس عمل کی وجہ سے جس میں تسبیح ،روزہ اور حج ہو گا ان کے ذریعہ آسمان میں کوکب دری کی طرح روشن ہو کر چوتھے آسمان سے گذر جا ئیگا تو فرشتہ ا س سے کہے گا : اس عمل کو صاحب عمل کے منھ اور پیٹ پر ماردو ،میں عُجب کا فرشتہ ہوں وہ اپنے نفس میں اس عمل کے ذریعہ عجب کرتا تھا اور اس کے نفس میں عُجب داخل ہو گیا ہے ؛میرے پرور دگارنے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ یہ عمل میرے علاوہ کسی اور تک نہ پہنچنے پائے ۔
فرمایا :یہ نا مہ ٔ  اعمال بندہ کے عمل کے ذریعہ اپنے شوہر کے گھر کی طرف جانے والی دُلہن کے مانند جہاد ،نماز اوردونمازوں کے درمیان دئے جا نے والے صدقہ سے پانچویں آسمان سے گذر جائیگا یہ اونٹ کی طرح آواز بلند کررہا ہوگا اور آفتاب کی طرح روشن ہوگا ،پس فرشتہ کہے گا: ٹھہرو میں حسد کا فرشتہ ہوں اور اس عمل کو صاحب عمل کے منھ پر مار دو اور اس کے کاندھوں پر رکھ دو ؛یہ طالب علم اور اللہ کی اطاعت کرنے والے سے حسد کرتا تھا اور جب بھی یہ عمل اور عبادت میں کسی اور کو اپنے سے برتر دیکھتا تھا تو اس سے حسد کرتا تھا لہٰذا اس عمل کو اسی کے کاندھوں پر رکھ دو اور اس کا عمل اس پر لعنت کریگا ۔
فرمایا :وہ نا مہ ٔ  اعمال نماز ،زکات ،حج اور عمرہ کے ذریعہ چھٹے آسمان سے گذر جا ئیگا تو فرشتہ کہے گا :ٹھہرو میں صاحب رحمت ہوں اس عمل کو صاحب عمل کے منھ پر ماردو اور اس کی آنکھوں کو بے نور کردو چونکہ اس شخص نے ذرہ برابر رحم نہیں کیاجب اللہ کا کو ئی بندہ اُخروی گناہ یا دنیوی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی شماتت کی جا تی ہے ۔
فرمایا :یہ نا مہ ٔ  اعمال بندہ کے فقہ ،اجتہاد اور ورع و پرہیزگاری کے ذریعہ جو بجلی کی طرح کڑک رہا ہوگا ،برق کی طرح اس کی روشنی ہو گی اور اس کے تین ہزار فرشتے ہوں گے یہ ساتویں آسمان سے گذر جائیگا تو فرشتہ کہے گا :ٹھہرو اس عمل کو صاحب عمل کے منھ پر ماردو میں حجاب کا فرشتہ ہوں اس نے جو عمل اللہ کیلئے نہیں تھا اس کو چھپایا؛اس نے رہنمائوں کی نظر میں بلندمرتبہ ،نشستوں میں اپنے تذکرہ اور شہروں میںاپنی شہرت کی تمنّا کی تھی ،میرے پروردگار نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ جو عمل خالص اللہ کے لئے نہ ہو اس کو میں اپنے علاوہ کسی دوسرے تک نہ جانے دوں ۔
فرمایا :یہ نا مہ ٔ  اعمال بندہ کے عمل کے ذریعہ خو شی خوشی جس میں نماز ،زکات ،روزے ،حج، عمرہ ،حُسن خلق ،صمت و وقاراور ذکر کثیر ہوگا آگے بڑھے گا جس کے ساتھ آسمان و زمین کے ملا ئکہ   ہو ں گے جوتمام پردوں کو روندھ دیتے ہیںیہاں تک کہ پروردگار عالم کے سامنے جا کھڑے ہوں گے اور وہ سب اس بندہ کے اس عمل اور دعا کی گو اہی دیں گے پس پروردگار آواز دے گا :تم نے میرے بندہ کا یہ نا مہ ٔ اعمال لکھا ہے اور میں بذات خود اس کا دیکھنے والا ہوں ۔اس عمل کو میرے پاس نہ لائو اس پر میری لعنت ہے ۔تو ملا ئکہ کہیںگے :اس پر تیری اور ہم سب کی لعنت ہے ۔
فرما یا :پھر معاذ گریہ کرنے لگے ۔
معاذ نے کہا میں نے رسول اللہ  ۖ کی خدمت میں عرض کیا :میں کیسے خالص عمل   انجام دوں ؟
فرمایا : اے معاذ تم یقین میں اپنے نبی اکرم  ۖ کی اقتدا کرو ۔
معاذ نے عرض کیا :یا رسول اللہ  ۖ آپ رسول خدا ہیں اور میں معاذ ہوں ۔
فرمایا :اگر تمہارے عمل میں کو ئی کو تا ہی ہے تو تم اپنے برادران کی غیبت کرنے سے پرہیز کرو قرآن کے حاملین کے سلسلہ میں اپنی زبان بند رکھو تمہارے گناہوں کا بوجھ تمہارے بھا ئیوں پر نہیں پڑنا چا ہئے ،اپنے بھا ئیوں کی برائی کرکے خود کو بہتر مت سمجھو ،اپنے بھائیوں کی تو ہین کرکے خود کو بلند مرتبہ مت سمجھو، ریاکاری نہ کرو،دنیاکے ذریعہ آخرت میں داخل نہ ہواگر تم کسی سے سرگو شی کر رہے ہو تو دوسرے شخص کے ساتھ اسی حال میں سر گوشی مت کرو ،لوگوں پر بوجھ مت بنو کہ تم سے دنیا کی     بھلا ئیاں رو گردانی کر جا ئیں ،لوگوں میں تفرقہ نہ پیدا کرو ورنہ جہنم کے کتّے تم کو پاش پاش کرڈالیں گے خداوند عالم کا فرمان ہے :(وَالنّاشِطَاتِ نَشْطاً)''اور آسانی سے کھول دینے والے ہیں'' کیا تم جانتے ہو کہ ناشطات کیا ہے ؟یہ جہنم کے کتّے ہیں جو گوشت اور ہڈیوں کو کھا جاتے ہیں ۔
معاذ نے عرض کیا :ان خصلتوں کی کس میں طاقت ہے ؟
فرمایا :اے معاذیہ اس شخص کیلئے بہت آسان ہیں جن کیلئے خداوند عالم ان کو آسان کردیاہے
فرمایا :میں نے معاذ کو اتنی زیادہ قرآن کی تلا وت کرتے نہیں دیکھا جتنی وہ اس حدیث کی تلاوت کرتے تھے ''
اعمال کو اﷲ تک پہنچا نے والے اسباب
موانع کے بالمقابل کچھ ایسے اسباب ہیں کہ جب اعمال اﷲ کی بارگاہ تک پہنچنے سے عاجز  ہو جاتے ہیں تووہ اسباب جو انسان کے اعمال کو اﷲ کی بارگاہ تک پہنچا تے ہیں اور یہ اسباب ،موانع کے بالمقابل ہیں :ان اسباب کا روایت نبوی میں تذکرہ مو جود ہے جن کو ہم علامہ مجلسی کی نقل روایت کے مطابق جس کو انھوں نے امالی شیخ صدوق سے بحارالانوار میں نقل کیا ہے بیان کرتے ہیں :
شیخ صدوق نے ((امالی )میں سعید بن مسیب سے انھوں نے عبد الر حمن بن سمرہ سے نقل کیا ہے :(ہم ایک دن رسول اﷲ  ۖکی خدمت بابر کت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا :
فقال:ان رایت البارحة عجائب ،قال:فقلنا:یارسول اﷲ، ومار أَیت ؟ حدَّثنا بہ فداک انفسناواھلوناواولادنا ؟فقال:رأَیت رجلاً من اُمت وقد أَتاہ ملک الموت لیقبض روحہ،فجاء ہ برّہ بوالدیہ فمنعہ منہ ۔
ورأَیت رجلاًمن اُمت قد بسط علیہ عذاب القبر،فجائَ ہ وضو ؤہ فمنعہ منہ ۔
ورأَیت رجلاًمن اُمت قداحتوشتہ الشیاطین،فجائَ ہ ذکرُاﷲعزّوجلّ فنجّاہ من بینھم ۔
ورأ یت رجلاًمن اُمت والنبیّون حلقاًکلمااتیٰ حلقة طردوہ،فجائَ ہ اغتسالہ من الجنابة فاخذبیدہ فأجلسہ الی جنبھم ۔
ورأ یت رجلاً من اُمت بین یدیہ ظلمة ومن خلفہ ظلمة وعن یمینہ ظلمة وعن شمالہ ظلمة ومن تحتہ ظلمة مستنقعاًف الظلمة،فجائَ ہ حجہ وعمرتہ فأخرجاہ من الظلمة وادخلاہ النور ۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت یُکلّم المُؤمنین فلایُکلمونہ،فجائَ ہ صلتہ للرحم فقال:یامعشرالمؤمنین،کلّموہ فانّہ کان واصلاً  لرحمہ،فکلمہ المؤمنون وصافحوہ وکان معھم ۔
ورأ یت رجلاً من اُمت تقی وجہہ النیران و شررھا بیدہ ووجھہ،فجاء تہ صدقتہ فکانت ظلّاً علیٰ راسہ وستراً علیٰ وجھہ۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت قد اخذ تہ الزبانیة من کل مکان فجاء ہ امرہ بالمعروف ونھیہ عن المنکر فخلّصَاہ من بینھم وجعلاہ مع ملائکة الرحمة۔
ورأ یت رجلاً من اُمت جاثیاًعلیٰ رکبتیہ بینہ و بین رحمة اللّٰہ حجاب فجاء ہ حسن خلقہ فأخذ بیدہ فأدخلہ فی رحمة اللّٰہ ۔
ورأَ یت رجلاً من اُمتی قد ھوت صحیفتہ قبل شمالہ فجائَ ہ خوفہ من اللّٰہ عزّ وجلّ فأخذ صحیفتہ فجعلھا فی یمینہ ۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت قد خفت مو ازینہ،فجائَ ہ افراطہ فثقلوا مو ازینہ۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت قائماً علیٰ شفیرجھنم،فجائَ ہ رجائَ ہ فی اللّٰہ عزّو جلّ فاستنقذہ بذالک۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت قد ھویٰ ف النارفجائَ تْہ دموعہ الت بکیٰ من خشیة اللّٰہ فاستخرجتہ من ذلک۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت علیٰ الصراط یرتعدکما ترتعدالسعفة فی یوم ریح عاصف فجائَ ہ حسن ظنہ باللّٰہ فسکن رعدتہ ومضیٰ علی الصراط۔
ورایت رجلاً من اُمت علیٰ الصراط یزحف احیاناًویحبواحیاناًویتعلق احیاناًفجائَ تْہ صلاتہ علیہ فأقامتہ علیٰ قدمیہ ومضیٰ علیٰ الصراط۔
ورأَ یت رجلاً من اُمت انتھیٰ الیٰ ابواب الجنة کلماانتھیٰ الیٰ باب اُغلق دونہ،فجاء تہ شھادة ان لا الٰہ الّا اللّٰہ صادقاًبھا،ففتحت لہ الابواب و دخل الجنة''(١)
''میں نے متعدد عجائبات کا مشاہد ہ کیا ہے میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ آپ نے کن کن عجائبات کا مشاہدہ فرمایا؟ میری جان آپ پر فدا ہو ذراان عجائبات کی ہمارے اور ہماری اولاد کیلئے تفسیر تو فرما دیجیے؟ آپ نے فرمایا :میںنے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح قبض کر نے کیلئے آیا ہے تو وہ فرشتہ اس (شخص )کی اپنے والدین کے ساتھ نیکیوں کی وجہ سے اس کی روح قبض نہ کر سکا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جس کو شیا طین نے ڈرا رکھا تھا تو اﷲ عزوجل کے تذکرہ نے اس کو ان شیاطین سے نجات دلائی ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے پیاسے شخص کو دیکھا کہ جب بھی وہ پانی کے حوض پر پانی پینے کی غرض سے پہنچتا تھا تو اس کو پانی پینے نہیں دیاجاتا تھا تو ماہ رمضان کے روزوں نے آکر اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الا نوار جلد ٧ صفحہ ٢٩٠۔ ٢٩١ ۔
کو سیراب کیا گیا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ انبیاء علیہم السلام حلقہ ،حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے ہیں تو جب بھی یہ شخص حلقہ کے پاس پہنچتا تھا تو اس کو نزدیک آنے سے منع کردیا جاتا تھا ،لیکن جب وہ غسل جنابت کرکے آیا تو انھوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کراپنے پہلو میں بیٹھایا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکھا جسکے آگے پیچھے ،دائیں، بائیں اور اس کے نیچے کی طرف تاریکی ہی تاریکی تھی اور وہ اس تاریکی کے سبب جانکنی کے عالم میں تھا تو اس کے انجام دئے ہوئے حج وعمر ہ نے آکر اس کی جان بچائی اور تاریکی سے نکال کر روشنی میں داخل کیا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ مومنین سے کلام کر تا ہے لیکن مو منین اس سے بات نہیں کر تے ہیں ۔تو اس شخص کے صلۂ رحم نے کہا اے مومنواس سے کلام کرو کیو نکہ اس نے صلۂ رحم انجام دیاہے تو مومنوں نے اس سے کلام کیا ،مصافحہ کیا گو یا کہ وہ ان کے ساتھ تھا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ اور چہرہ آگ کی سوزش سے جل رہے تھے تو اس کے دئے ہو ئے صدقہ نے اس کے سر پر آکر سایہ کیا اور اس کے چہرے کو چھپالیا۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جس کی ہر جگہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے تو اس کے کئے ہوئے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر نے اس کو ان شعلوں سے نجات دلائی اور اس کے لئے رحمت کے فرشتہ مقررفرمائے ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو گھٹنیوں کے بھل چل رہا تھا اور اس کے اور اﷲ کی رحمت کے درمیان پر دے حائل ہو گئے تھے تو اس کے حسن خلق نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اﷲ کی رحمت میں داخل کیا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھا تو اﷲ کے خوف نے اس کا وہ نا مۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ سے لیکر اس کے دائیں ہاتھ میں دیدیا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے اعمال کا پلڑ ا بہت ہلکا تھا تو اس کے دوسروں کو سیراب کرنے نے اس کو وزنی بنایا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو جہنم کے پاس کھڑے دیکھا تو اﷲ تعالیٰ سے امید نے اس کو جہنم سے نجات دلائی ۔
میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو جہنم کی آگ میں جلتے دیکھا تو اس کے وہ آنسو جو اﷲ کے خوف کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے جاری ہوئے تھے انھوں نے اس کو جہنم کی آگ سے نکالا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو صراط پر دیکھا جو سخت آندھیوں میں خرمہ کے درخت کی شاخ کی طرح ہل رہا تھا تو اس کے اﷲ سے حسن ظن نے اس کو ہلنے سے روکا اور وہ صراط سے گذر گیا ۔
میں نے اپنی امت میں سے پل صراط پر ایک ایسے شخص کو دیکھا جو آگے بڑھنے کیلئے اپنے چاروں ہاتھ پیر مار رہا تھا اور کبھی اپنے کو کھینچے جارہاتھا اور کبھی اس پر لٹک رہا تھا تو اس کی نماز نے آکر اس کے قدموں پر کھڑ اکیا اور پل صراط سے گذارا ۔
میں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس پر جنت کے تمام دروازے بند ہو گئے تھے تو اس کی (اشھدا ن لا الٰہ الااﷲ )کی گواہی نے اس کی تصدیق کی تو اس کیلئے جنت کے دروازے کھل گئے اور وہ جنت میں چلا گیا ۔

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget