امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعزہ ؤ اصحاب کا چہلم
روز عاشورا سنہ 61 ہجری کو مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پیارے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعزہ ؤ اصحاب کی مظلومانہ شہادت اور اس کے بعد خاندان رسول اکرم (ص) کی عورتوں اور بچوں کی اسیری اور کوفہ ؤ شام کے درباروں اور بازاروں میں تشہیر کے چالیس دن پورے ہوجانے کی یادوں میں پورا عالم اسلام بیس صفر المظفر کو ہرسال امام مظلوم کا چہلم یا چالیسواں مناتا ہے۔
راہ حق و صداقت میں پیش کی جانے والی بہتر قربانیوں کے چالیس دنوں بعد شہداء کے وارثین سید سجاد امام زين العابدین ، باقرالعلوم امام محمد باقر اور ثانی زہرا حضرت زینب علیا مقام علیہم الصلوۃ و السلام کی قیادت میں کربلا سے کوفہ اور کوفے سے شام تک اسیری کی سخت ترین منزلوں سے گزر کر ظالم و جابر سفاک و خونخوار کوفیوں اور شامیوں کے قلب و دماغ تسخیر کرکے آج ہی کے دن دوبارہ سرزمین کربلا پر وارد ہوئے ہیں اور تمام عزیزوں، دوستوں اور وارثوں نے مل کر شہدائے کربلا کا چہلم منایا ہے۔
سوال:چہلم کی اہمیت کس وجہ سےہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ امام عالی کی شہادت کے چالیس دن گذر چکے ہیں ؟ آخر اس کی کیا خاصیت ہے ؟
چہلم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن سید الشہداء کی شہادت کی یاد تازہ ہوئی اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔ فرض کیجیےاگر تاریخ میں یہ عظیم واقعہ رونما ہوتا یعنی حسین ابن علی اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت ہوجاتی اور بنی امیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے یعنی جس طرح انہوں نے امام عالی مقام اور ان کے ساتھ یوں کے جسم ہائے مبارک کو خاک و خون میں غلطاں کیا اسی طرح اس وقت کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ان کی یاد بھی مٹا دیتے تو کیا ایسی صورت میں اس کا شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا ؟
یا یہ فرض کریں کہ اس وقت اس کا ایک اثر ہوتا لیکن کیا آنے والی نسلوں پر اور مستقبل کی بلاؤں ، مصیبتوں ، تاریکیوں اور یزیدان وقت پر بھی اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ؟
ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستمدیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے ۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک بھی پہنچے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتیں ایک آواز پر دوسری آواز بلند کرتی ہیں تاکہ ہماری فریاد بلند نہ ہونے پائے ۔ اسی لئے وہ بے تحا شا پیسہ خرچ کر رہے ہیں تاکہ دنیا نہ سمجھ پائے کہ تحمیلی جنگ کیا تھی ، کیوں پیش آئی ، اس کا محرک کون تھا ، کس کے ذریعہ تھوپی گئی ۔ اس وقت بھی استکباری طاقتوں کی پوری کوشش تھی کہ جو بھی جتنا بھی خرچ ہو کسی بھی طرح سے حسین کا نام ، ان کی یاد ، ان کی شہادت اور کربلا و عاشورا لوگوں کے لئے درس نہ بننے پائے اور اس کی گونج دوسری اقوام کے کانوں تک نہ پہنچے ۔ البتہ شروع میں خود ان کی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ یہ شہادت کیا کرسکتی ہے لیکن جتنا زمانہ گزرتا گیا ان کی سمجھ میں آنے لگا ۔ یہاں تک کہ بنی عباس کے دوران حکومت میں امام عالی مقام کی قبر کو منہدم کیا گیا ۔ اسے پانی سے گھیر دیا گیا ۔ تاکہ اس کا کوئی نام نشان باقی نہ رہے ۔ یہ ہے شہداء اور شہادت کی یاد کا اثر ۔ شہادت اس وقت تک اپنا اثر نہیں دکہاتی جب تک اسے زندہ نہ رکھا جائے گا اس کی یاد نہ منائی جائے اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو زندہ رکہنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا اب چاہے امام حسین (ع) کے پہلے چہلم میں اہل حرم کربلا آئے ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر،ان کی زیارت کو آئے ۔ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لئے ۔ جابر اگرچہ نابینا تھے لیکن عطیہ کاہاتھ پکڑ کر امام حسین علیہ السلام کی قبر پر آئے اور زار و قطار رونے لگے ۔ امام حسین علیہ السلام سے گفتگو کی ، درد دل بیان کیا ۔ امام حسین ( ع ) کی یاد کو زندہ کیا اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء کیا ۔ ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن ۔
Post a Comment