فروع دين

فروع دين

حضرت آیة الله وحید خراسانی

اس مقدمے ميں فروع دين کے اسرار اور حکمتوں کو بيان کرنے کی گنجائش نهيں، اس لئے کہ
فروع دين، انسان کے ذاتی اور اجتماعی احوال سے مربوط قوانين اور خالق و مخلوق کے ساته، اس کے
رابطے کا نام هے، کہ اس سے متعلق فقہ کا ايک حصہ اڑتاليس ابواب پر مشتمل هے، ليکن اس مجموعے
ميں سے هم نماز و زکات کی حکمت کو مختصر طور پر بيان کرتے هيں:
الف۔ نماز
نماز چند اجزا، شرائط اور موانع پر مشتمل هے۔ ان ميں سے بعض کی حکمت ذکر کرتے هيں:
نماز ادا کرنے کی جگہ مباح هونے کی شرط انسان کو متوجہ کرتی هے کہ کسی کے حق سے
تجاوز نہ کرے اور نماز ميں خبث و حدث سے پاکيزہ هونے کی شرط اسے اس بات کی طرف متوجہ کرتی
هے کہ پانی سے دهل جانے والی نجاست يا مثال کے طور پر روح کے آئينے ميں بے اختيار جنابت سے
پيدا هونے والی کدورت، نماز کے باطل هونے کا سبب اور ذوالجلال و الاکرام کی بارگاہ ميں جانے سے
مانع هے، لہٰذا جهوٹ، خيانت، ظلم، جنايت اور اخلاق رذيلہ جيسے قبيح اعمال، انسان کو حقيقتِ نماز سے
محروم کرنے ميں، جو مومن کی معراج هے، کتنی تا ثٔير رکهتے هوں گے۔
اذان، جو خدا کے حضور حاضر هونے کا اعلان هے اور اقامت جو مقام قرب کی طرف روح کی
پرواز کے لئے ايک مقدماتی عمل هے، معارفِ دين کا خلاصہ هيں۔
--------------
1 سورہ نمل، آيت ۶٢ ۔"بهلا وہ کون هے جو مضطر کی فريا د کو سنتا هے جب وہ اس کو آواز ديتا هے اور اس کی
مصيبت کو دور کرديتا هے"۔
2 بحار الانوار، ج ۴٧ ، ص ٧١ ۔"کيا تم نهيں جانتے کہ همارے امر تک نائل نهيں هوسکتے مگر تقویٰ کے ذريعہ"۔
3 مصباح متهجد، ص ٨۴٢ ۔
اسلام کی تعليم و تربيت بيان کرنے کے لئے فقط اذان و اقامت ميں يہ تا مٔل اور تفکر هی کافی هے
کہ ان دونوں ميں تکبير سے ابتداء اور تهليل پر اختتام هوتا هے اور چونکہ تکبير کی ابتداء اور تهليل کی
انتها ((اللّٰہ)) هے، لہٰذا اس مکتب نماز سے نماز گذار يہ سيکهتا هے کہ<هُوَاْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ> ١
اذان و اقامت کی ابتداء و انتهاء ميں لفظ ((اللّٰہ)) کا هونا، بچے کے دائيں کان ميں اذان اور بائيں
کان ميں اقامت اورمحتضر کے لئے کلمہ توحيد کی تلقين کا مستحب هونا، اس بات کا اعلان هے کہ انسان
کی زندگی کی ابتداء و انتهاء خدا کے نام پر هونا چاهيے۔
تکبير کے بعد ((لاإلہ إلا اللّٰہ)) کی دو بار گواهی ديئے جانے کے بعد آخر ميں اس جملے کو
تکرار کرنا انسان کے علمی و عملی کمال ميں اس کلمہ طيبّہ کے کردار کی وضاحت کرتا هے۔
لفظ و معنی کے اعتبار سے اس جملے ميں يہ خصوصيات موجود هيں:
اس جملے کے حروف بهی وهی کلمہ ((اللّٰہ)) والے حروف هيں اور چونکہ اظهار کئے بغير
اسے زبان سے ادا کيا جاسکتا هے، لہٰذا اس ميں رياکاری کی کوئی گنجائش نهيں هے۔
نفی و اثبات پر مشتمل هے، لہٰذا اس پر راسخ اعتقاد انسان کو اعتقادات، اخلاق اور اعمال ميں
باطل کی نفی اور اثباتِ حق تک پهنچاتا هے اور حديث سلسلة الذهب کے معانی آشکار و واضح هوتے هيں
کہ ((کلمة لاإلہ إلا اللّٰہ حصنی فمن دخل حصنی ا مٔن من عذابی)) ٢
اور بشريت، رسول اکرم(ص) کے بيان کی گهرائی کو درک کرسکتی هے کہ آپ(ص) نے فرمايا:
((قولوا لاإلہ إلا اللّٰہ تفلحوا)) ٣ اور يهی منفی و مثبت هيں جو انسان کی جان کو مرکز وجود کے جوهر سے
متصل کر کے فلاح و رستگاری کے نور سے منور کرتے هيں۔
((لاإلہ إلا اللّٰہ)) ميں تدّبر کے وسيلے سے، روحِ نماز گزار ميں پاکيزگی آنے پر وہ اس مقام تک
رسائی حاصل کرليتا هے کہ کهے :<إِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَالْا رََٔضَ حَنِيْفاً وَّ مَا ا نََٔا مِنَ
الْمُشْرِکِيْنَ> ٤ اور فاطر السماوات والارض کی طرف توجہ کے ذريعے زمين و آسمان سے گذر کر، سات
تکبيروں کی مدد سے سات حجابوں سے بهی گذر جاتا هے اور هاتهوں کو کانوں تک بلند کر کے خدا کے
سوا باقی سب کو پيٹه پيچهے ڈال ديتا هے۔ اس کی هر حدّو وصف سے کبريائی کا اعلان کر کے اس کی
عظمت کے سامنے سے اوهام و افکار کے پردے ہٹا ديتا هے ((اللّٰہ ا کٔبر من ا نٔ يوصف)) اور خدا سے
کلام کے لئے تيار هو جاتا هے، کيونکہ نماز، خدا کے ساته انسان کی گفتگو هے اور قرآن، انسان کے ساته
خدا کی گفتگو هے۔ ليکن خدا کے ساته انسان کی گفتگو کلام خدا هی سے شروع هوتی هے، اس لئے کہ
انسان نے غير خدا سے جو کچه سيکها هے اس کے ذريعے خدا کی حمد و تعريف ممکن هی نهيں هے اور
کلام خدا کی عزت و حرمت کی بدولت اس کی گفتگو سنے جانے کے قابل هوتی هے ((سمع اللّٰہ لمن
حمدہ))۔
((لا صلاة لہ إلّا ا نٔ يقرا بها)) ٥ کے تقاضے کے مطابق نماز کا حمد پر مشتمل هونا ضروری هے
اور جس طرح قرآن جو خالق کی مخلوق کے ساته گفتگو هے، سورہ حمد سے شروع هوا هے، نماز بهی
چونکہ مخلوق کی خالق کے ساته گفتگو هے، سورہ حمد سے شروع هوتی هے۔
نماز گزار کے لئے ضروری هے کہ وہ حمد و سورہ کو کلام خدا کی قرائت کی نيت سے پڑهے
ليکن روحِ نماز، نماز کے اقوال و افعال ميں موجود معانی، اشارات اور لطيف نکات کی طرف توجہ دينے
سے حاصل هوتی هے، لہٰذا هم سورہ حمد کی بعض خصوصيات کی طرف اشارہ کرتے هيں:
اس سورہ مبارکہ ميں مبدا و معاد کی معرفت، اسماء و صفات خداوندمتعال، خدا کا انسان اور
انسان کا خدا سے عهد اور بعض روايات ٦ کے مطابق اس سورے ميں الله کے اسم اعظم کو اجزاء ميں تقسيم
--------------
1 سورہ حديد، آيت ٣۔"وهی اول هے وهی آخر"۔
2 بحار الانوار، ج ۴٩ ، ص ١٢٣ ۔"کلمہ لا الہ الاالله ميرا قلعہ هے جو اس ميں داخل هو گيا وہ ميرے عذاب سے بچ
جائے گا"۔
3 بحار الانوار، ج ١٨ ، ص ٢٠٢ ۔"لا الہ الا الله کهوتاکہ فلاح و بهبودی پاسکو"۔
4 سورہ انعام، آيت ٧٩ ۔ "ميں تو سچے دل اور اطاعت گزاری کے لئے صرف اس کی طرف اپنا رخ کرتا هوں جس
نے آسمانوں کو اوز زمين کو پيدا کيا هے اور ميں مشرکين ميں سے نهيں هوں"۔
5 وسائل الشيعہ، ج ۶، ص ٣٧ ، با ب اول از ابواب قرائت حديث ١۔"اس کی نماز نہ هو گی مگر سورہ حمد کے ساته"۔
6 وسائل الشيعہ، باب اول از ابواب قرائت حديث ۵، ج ۶، ص ٣٨ ۔
کرکے سمو ديا گيا هے۔ اس سورہ مبارکہ کا ايک امتياز يہ بهی هے کہ اس کا نصف يعنی <مَالِکِ يَوْمِ
الدِّيْنِ> تک خدا کے لئے اور بقيہ حصہ يعنی <اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ> سے آخر تک انسان کے لئے اور
درميانی آيت خدا و عبد کے درميان اس طرح تقسيم هوئی هے کہ عبادت خدا کے لئے اور استعانت انسان
کے لئے هے۔
سورے کی ابتداء((بِسْمِ اللّٰہِ)) سے هے کہ صبحِ رسالت بهی اسی سے طلوع هوئی تهی <اِقْرَءْ بِاسْمِ
رَبَِّکَ> ١
اسم الله کی خصوصيت يہ هے کہ يہ وہ اسمِ ذات هے جس ميں تمام اسماء حسنیٰ جمع هيں <وَلِلّٰہِ
الْا سَْٔمَاءُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِهَا> ٢
اور اس سے مراد ايسا معبود هے جس کے بارے ميں مخلوق متحيّر اور اس کی پناہ چاہتے هيں
((عن علی (ع): اللّٰہ معناہ المعبود الذی يا لٔہ فيہ الخلق و يولہ إليہ)) ٣ اور خدا کی نسبت انسان کے لئے جو
کمال معرفت ممکن هے وہ يہ هے کہ اس کی معرفت کو نہ پاسکنے کا ادراک رکهتا هو۔
((اللّٰہ)) کی صفات ((رحمٰن و رحيم)) بيان کی گئی هيں اس کی رحمتِ رحمانيّہ و رحيميّہ کی شرح
اس مقدمے ميں بيان کرنا ناممکن هے۔ بس فقط يہ بات مورد توجہ رهے کہ خداوندمتعال نے انسان سے
اپنے کلام اور اپنے ساته انسان کے کلام کو <بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ> سے شروع فرمايا، اس آسمانی
جملے کو مسلمانوں کے قول وفعل کا سرچشمہ قرار ديا اور پانچ واجب نمازوں ميں صبح و شام اس جملے
کو تکرار کرنے کا حکم فرمايا هے اور انسان کو يہ تعليم دی کہ نظام آفرنيش کا دارومدار رحمت پر هے
اور کتاب تکوين و تشريع رحمت سے شروع هوتی هے۔
اس کی رحمتِ رحمانيّہ کی بارش هر مومن و کافر اور متقی و فاجر پر هوتی هے۔ جس طرح اس
کی رحمت رحيميہ کی شعاع سے هر پاک دل روشن هوتا هے <کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ> ٤
دين خدا، دين رحمت اور اس کا رسول <رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ> ٥ هے اور دين ميں موجود حدود و
تعزيرات بهی رحمت هيں۔ يہ مطلب مراتبِ امر بہ معروف و نهی از منکر کے ذريعے واضح هو جاتا هے
کہ اگر پيکر اجتماع کا ايک عضو، فرد و معاشرے کی مصلحت کے برخلاف عمل کرے يا فردی و نوعی
فساد کا مرتکب هو، تو سب سے پهلے ملائمت و نرمی کے ساته اس کے علاج کی کوشش کرنا ضروری
هے، جيسا کہ حضرت موسیٰ بن عمران (ع)، نو معجزات کے هوتے هوئے جب فرعون جيسے طاغوت
کے زمانے ميں مبعوث هوئے تو خداوندمتعال نے آپ اور آپ کے بهائی هارون کو حکم ديا کہ اس کے
ساته نرمی سے پيش آئيں کيونکہ بعثت کا مقصد تسلّط و قدرت نهيں بلکہ تذکر، خشيت اور هدايت هے
<فَقُوْلَا لَہ قَوْلًالَيِّنًا لَّعَلَّہ يَتَذَکَّرُا ؤَْ يَخْشٰی> 6 اور جب تک طبابت کے ذريعے علاج ممکن هو اس عضو کو
نشتر نهيں لگانا چاهيے اور اگر دوا سے علاج ممکن نہ هو تو معاشرے کے جسمانی نظام ميں خلل ڈالنے
والے فاسدمادے کو نشتر کے ذريعے نکال دينا چاہئے اورجهاں تک ممکن هو اس عضو کی حفاظت
ضروری هے اور اگر نشتر کے ذريعے بهی اس کی اصلاح نہ هو تو معاشرے کی سلامتی کے لئے اسے
پيکر اجتماع سے جدا کردينا ضروری هے۔
اسی لئے نظامِ تکوين اورقوانين دين کی تفسير<بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ> هے۔ اس تعليم و تربيت
کے ساته خدا کے بندوں کے لئے هر مسلمان کو رحمت کا پيام آور هونا چاهيے۔
خدا کے نام سے شروع کرنے کے بعد نماز گذار <اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ> کے جملے کی طرف
متوجہ هوتا هے کہ تمام تعريفيں خدا کے لئے هيں، اس لئے کہ وہ رب العالمين هے اور هر کمال و جمال
اسی کی تربيت کا مظهر هے۔ يہ جملہ کہتے وقت اس کی ربوبيت کے آثار کو اپنے وجود اور کائنات ميں
ديکهنے کے بعد، آسمان، زمين، جمادات، نباتات، حيوانات اور انسان، تمام تعريفوں کوفقط اسی کی ذات سے
منسوب کرتے هيں۔ اور چونکہ پست ترين موجودات سے لے کر کائنات کے اعلیٰ ترين وجود تک ميں،
--------------
1 سورہ علق، آيت ١۔"اپنے پروردگار کے نام سے پڑهو"۔
2 سورہ اعراف، آيت ١٨٠ ۔"خدا کے اسماء حسنیٰ هيں پس اس کو ان کے وسيلہ سے پکارو"۔
3 بحار الانوار، ج ٣، ص ٢٢١ ۔"حضرت علی عليہ السلام سے نقل هوا هے کہ آپ نے فرمايا: الله کا معنی ايسا معبود
هے کہ مخلوق جس ميں متحير و حيران هے اور اس کی پناہ ميں رہتی هے"۔
4 سورہ انعام، آيت ۵۴ ۔"تمهار ے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دے لی هے"۔
5 سورہ انبياء، آيت ١٠٧ ۔"رحمت هے عالمين کے لئے "۔
6 سورہ طہ، آيت ۴۴ ۔"اس کے ساته نرمی کے ساته بات کرو شايد پند ونصيحت قبول کرے يا خوف کهائے"۔
خدا کی تربيت کے آثار اس کی عمومی و خصوصی رحمت کا ظهور هيں، لہٰذا دوبارہ <اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ> کو
اپنی زبان پر جاری کرتا هے۔
فضل و رحمتِ خدا ميں مستغرق هوتے هوئے اس غرض سے کہ کهيں عدلِ خدا سے غافل نہ هو
جائے کہتا هے: <مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ> اس لئے کہ معصيت، خدا کی ہتک حرمت هے اور لامتناهی عظمت کی
حرمت لامتناهی هوتی هے اور لامتناهی کی ہتک حرمت کسی بهی ہتک حرمت کے ساته قابل قياس نهيں
هے اور انسان کے بارے ميں جس هستی کے حق اور نعمتوں کا اندازہ نهيں لگايا جاسکتا، اس هستی کی
نافرمانی کی سزا بهی اس عمل کے تناسب سے هوگی۔
اور هر گناہ ميں صرف هونے والی قوت و قدرت اسی دنيا سے حاصل شدہ هے، اس لئے کہ
انسان کی زندگی اس دنيا سے وابستہ هے۔ انسان جو گناہ انجام ديتا هے وہ زمين و آسمان کی نعمتوں کے
ساته خيانت هے اور اسے حساب و کتاب اور روز جزاء درپيش هيں، کہ خدا نے فرمايا هے <يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ
اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِيْمٌ ة يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا ا رَْٔضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ
حَمْلَهَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکَاریٰ وَ مَا هُمْ بِسُکَاریٰ وَلٰکِنْ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِيْدٌ> 1 ،اسی لئے <مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ> پر توجہ
عرفاء کو لرزہ بر اندام کر ديتی هے، کہ امام العارفين حضرت زين العابدين(ع) جب اس جملے پر پهنچتے
تهے تو اتنا دهراتے تهے کہ((کاد ا نٔ يموت)) ٢
<اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ> اور <مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ> نماز گذار کو خوف و رجا کے بال و پر عطا کرتے
اور خدا کی رحمت و عزت سے آشنا کرتے هيں۔ پهلے جملے ميں انسان کی نظر مغفرت و ثواب اور
دوسرے جملے ميں سزا و عقاب پر هوتی هے۔
اور اس وقت الوہّيت، ربوبيت، رحمانيت، رحيميت، فضل اور عدل خدا کی عظمت اس کے دل کو
تسخير کر ليتی هيں اور وہ صيغہ غائب سے خطاب کی طرف اس ادراک کے ساته متوجہ هوتا هے کہ اس
کے سوا کوئی عبادت کے لائق نهيں، لہٰذا کہتا هے:<إِيَّاکَ نَعْبُدُ> اور اس توجہ کے ساته کہ يہ عبادت بهی
اسی کی هدايت اور حول و قوت سے هے، کہتا هے: <وَإِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُ>۔
<نَعْبُدُ> ميں ديکهتا هے کہ عبادت عبد کی جانب سے هے اور <نَسْتَعِيْنُ> ميں اسے نظر آتا هے
کہ مدد خدا کی جانب سے هے کہ ((لاحول ولاقوة الّا باللّٰہ))
<إِيَّاکَ نَعْبُدُ> ميں نظريہ جبر اور <وَإِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُ> ميں نظريہ تفويض کی نفی هے اور انهيں اس
لئے صيغہ جمع کے ساته بيان کيا گيا هے تا کہ خود کو مسلمانوں سے جدا نہ سمجهے اور <إِيَّاکَ نَعْبُدُ
وَإِيَّاکَ نَسْتَعِيْن> ميں کلمہ توحيد اور توحيدِ کلمہ، دونوں کو جامہ عمل پهناتا هے۔
فريضہ عبوديت انجام دينے کے بعد عبد کی مولا سے دعا و درخواست کی باری هے، لہٰذا کہتا
هے: <اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ>، انسانيت کی علوّهمت اور الوهيّت کے جلال و اکرام کا تقاضا يہ هے کہ اس
سے قيمتی ترين گوهر کی درخواست کی جائے اور وہ گوهر صراط مستقيم کی هدايت هے جو هر طرح کی
افراط و تفريط سے دور هے اور راہ مستقيم متعدد نهيں هيں۔ خدا ايک هے اور اس کی راہ بهی ايک اور
اس راستے کی ابتداء انسان کے نقطہ نقص سے هوتی هے <وَاللّٰہُ ا خَْٔرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ ا مَُّٔهَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
شَيْئاً> 3 اور کمالِ مطلق اس کی انتها قرار پاتی هے کہ ((ماذا وجد من فقدک، وماالذی فقدمن وجدک)) ٤ اور
<وَا نَّٔ إِلیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَهیٰ> 5
<صِرَاطَ الَّذِيْنَ ا نَْٔعَمْتَ عَلَيْهِمْ> راہ مستقيم ان کا راستہ هے جن پر خداوندعالم نے اپنی نعمتيں نازل
فرمائی هيں <وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَا ؤُْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ ا نَْٔعَمَ اللّٰہُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ
وَالصَّالِحِيْنَ وَ حَسُنَ ا ؤُْلٰئِکَ رَفِيقْاً> 6
--------------
1 سورہ حج، آيت ١،٢ ۔"لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قيامت کا زلزلہ بہت بڑی شئے هے۔ جس دن تم ديکهو گے
کہ دوده پلانے والی عورتيں اپنے دوده پيتے بچوں سے غافل هو جائيں گی اور حاملہ عورتيں اپنے حمل کو گراديں گی اور
لوگ نشہ کی حالت ميں نظر آئيں گے حالانکہ وہ مست نهيں هوں گے بلکہ الله کا عذاب هی بڑا سخت هوگا"۔
2 بحار الانوار، ج ۴۶ ، ص ١٠٧ ۔"نزديک تها کہ مرجائے"۔
3 سورہ نحل، آيت ٧٨ ۔"خدا نے تم کو تمهارے ماو ںٔ کے پيٹ سے با هر نکالا حالانکہ تم کچه نهيں جانتے تهے"۔
4 بحار الانوار، ج ٩۵ ، ص ٢٢۶ ۔"جس نے تجهے کهوديا اس کيا ملا ؟اور وہ جس نے تجهے پاليا اس نے کيا کهويا"۔
5 سورہ نجم، آيت ۴٢ ۔"بس هر امر کی انتها تمهارے پروردگار کی طرف هے"۔
6 سورہ نساء، آيت ۶٩ ۔"اور جو بهی الله اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساته رهے گاجن پر خدا نے
نعمتيں نازل کی هيں انبياء صديقين،شهداء اور صالحين اور يهی بہترين رفقاء هيں"۔
مسلمان اپنے خدا سے انبيا، مرسلين، شهدا اور صديقين کی صف ميں شامل هونے کی دعا اور
غضبِ الٰهی ميں گرفتار و گمراہ لوگوں سے دوری کی درخواست کرتا هے۔ اس دعا کا تقاضہ يہ هے کہ
انسان خود کو اخلاقِ انبياء سے آراستہ اور اهل غضب و اضلال کے رويّے سے اجتناب کرے اور <اَللّٰہُ
وَلِیُّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلیَ النُّوْرِ> 1 کا تقاضا يہ هے کہ ذات قدوس جو <نُوْرُالسَّمَاوَاتِ
وَالْا رَْٔضِ> 2 هے کی طرف متوجہ رهے اور حقيقت ايمان سے منور دل کی آنکهوں سے اس کی عظمت
کو جانے اور حکمِ <فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِيْمِ> 3 کو بجالاتے هوئے اس کے سامنے سرتسليم خم کرے اور
کهے ((سبحان ربی العظيم و بحمدہ))
رکوع سے سر اٹهائے اور سجدے کے ذريعے حاصل هونے والے مقام قرب کے لئے تيار هو اور
حکمِ <سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلا عََٔلیٰ> ٤ کی اطاعت کرتے هوئے خاک پر سجدہ ريز هو جائے اور پيشانی خاک پر
رکه کر اس عنايت کو ياد کرے کہ اس ناچيز خاک سے خلق کرنے کے با وجود اس کے دل کو چراغِ عقل
سے روشن و منور فرمايا، خاک پر سر رکهنے سے <وَلَقَدْ خَلَقْنَا اْلإِنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِّنْ طِيْنٍ> 5 پر نظر
کرے اور کهے ((سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ)) اور سر اٹهاتے وقت <ثُمَّ ا نَْٔشَا نَْٔاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ
ا حَْٔسَنُ الْخَالِقِيْنَ> ٦
اور اپنی حيات دنيوی پر نظر ڈالے اور کهے ((اللّٰہ ا کٔبر))۔ دوبارہ خاک پر گر کر اس دن کو ياد
کرے جب اس کی منزل اس تاريک و اندهيری خا ک ميں هوگی۔ زندگی کے بعد موت پر نظر کرے اور
دوبارہ سر اٹها کر موت کے بعد کی زندگی کو ديکهے اور دو سجدوں ميں <مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَ فِيْهَا نُعِيْدُکُمْ وَ
مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً ا خُْٔریٰ> ٧کے معنی کو سمجهے اور اپنے وجود کے مراحل کی معرفت کو طے کرے۔
جو کچه بيان کيا گيا هے وہ نماز ميں موجود حکمت و هدايت کے انوارِ خورشيد ميں سے ايک
شعاع کی مانند هے اور سورہ حمد کے بعد پڑهی جانے والی سورہ، اذکار، قيام، قعود، قنوت، تسبيحات
اربعہ، تشهد، سلام اور آداب نماز کے اسرار کو اختصار کی غرض سے بيان نهيں کيا گيا هے۔
يہ تها اسلام ميں عبادت کا نمونہ، اس کے مدمقابل عيسائيوں کی عبادت يہ هے:"اور عبادت کرتے
هوئے سابقہ امتوں کی طرح بے کار ميں تکرار نہ کرو، چونکہ وہ گمان کرتے تهے کہ زيادہ کهنے کے
سبب ان کی عبادت قبول هوگی، پس ان کی طرح نہ هونا، کيونکہ تمهارا باپ، اس سے پهلے کہ تم سوال
کرو، تمهاری حاجات سے واقف هے، پس تم اس طرح سے دعا مانگو: اے همارے پدر! کہ تيرا نام آسمان
پر مقدس رهے۔ تيرا ملکوت آجائے، جس طرح تيرا ارادہ آسمان ميں هے زمين ميں ويسے انجام پائے۔ هميں
آج کے دن کافی هو جانے والی روٹی دے دے اور همارے قرضے معاف فرما دے جيسا کہ هم بهی اپنے
قرض داروں کو بخش ديتے هيں۔ هميں امتحان ميں نہ ڈال، بلکہ هميں شرير سے نجات دے، کيونکہ
ملکوت، قوت و جلال ابدالآباد تک تيرے لئے هے۔ آمين" ٨
هم اس عبادت ميں بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے هيں:
١۔ "اے همارے پدر!" خدا پر باپ کا اطلاق يا حقيقی هے يا مجازی، اگر حقيقی هو تو خدا کو
توليد کی نسبت دينا، درحقيقت اس کے لئے مخلوق کی صفت ثابت کرنا اور خالق کو مخلوق تصور کرنا
هے اور اگر مجازی هو تو تشبيہ هے اور خالق کی مخلوق سے تشبيہ، مخلوق کی صفت کو خالق کے لئے
ثابت کرنا هے۔ اور ايسی عبادت مخلوق کے لئے هوسکتی هے، خالق کی نهيں، جبکہ اسلام ميں عبادت،
ايسے خداوندمتعال کی عبادت هے جس کی معرفت سے عقول کو رهائی نهيں اور غير سے تشبيہ دينے کی
اجازت نهيں هے۔
--------------
1 سورہ بقرہ، آيت ٢۵٧ ۔"الله صاحبان ايمان کا ولی هے وہ انهيں تاريکيوں سے نکال کر روشنی ميں لے آتا هے"۔
2 سورہ نور، آيت ٣۵ ۔"آسمان اورزمين کا نور هے"۔
3 سورہ واقعہ، آيت ٧۴ ۔"اب آپ اپنے عظيم پرور دگار کے نام کی تسبيح کريں"۔
4 سورہ اعلیٰ ، آيت ١۔"اپنے بلند ترين رب کے نام سے تسبيح کرو"۔
5 سورہ مومنون، آيت ١٢ ۔"اور هم نے انسان کو گيلی مٹی سے پيدا کيا هے"۔
6 سورہ مومنون، آيت ١۴ ۔"پهر هم نے اسے ايک دوسری صورت ميں پيدا کيا تو کس قدر بابرکت هے وہ خدا جو سب
سے بہترخلق کرنے والا هے"۔
7 سورہ طہ، آيت ۵۵ ۔"تم کو اس سے پيدا کيا اور اسی ميں واپس لے جائيں گے اور دوبارہ پهر اس سے نکاليںگے"۔
8 انجيل متیٰ باب ششم۔
٢۔ ثناء پروردگار کے بعد ان کی خدا سے درخواست، اس دن کفايت کرنے والی روٹی هے۔
عيسائی نماز ميں پيٹ کی روٹی چاہتا هے کہ جو انسان کے جسم کے لئے ايسے هی هے جيسے حيوان کے
لئے گهاس۔ جب کہ مسلمان، صراط مستقيم کی هدايت جيسی پسنديدہ راہ کی درخواست کرتا هے، جو عقل
کی آنکه کا نور اور جس کا مقصد خدا هے،کہ نہ تو هدايت سے بڑه کر،کہ جو کمال انسانيت هے،کوئی
قيمتی گوهر هے۔ اور نہ هی خداوند عز و جل سے بڑه کر کوئی موجود هے۔
٣۔"همارے قرض معاف فرما دے، جيسا کہ هم اپنے قرض داروں کو بخش ديتے هيں۔" جهوٹ،
خدا کی نافرمانی و معصيت هے اور معصيت کے ساته عبادت کرنا ممکن نهيں، کيا عيسائی اپنے قرض
داروں کا قرضہ معاف کرتے هيں جو اپنے خدا سے اس طرح کہتے هيں؟!
اختصار کے پيش نظر، بقيہ اديان کی عبادتوں کے ساته مقايسے سے صرف نظر کرتے هيں۔
ب۔ زکات:
نماز انسان کا خالق سے اور زکات انسان کا مخلوق سے رابطہ هے۔ قرآن مجيد کی بہت سی آيات
ميںزکات کا تذکرہ نماز کے ساته کيا گيا هے ((عن ا بٔی جعفر و ا بٔی عبداللّٰہ عليهما السلام قالا:فرض اللّٰہ
الزکاة مع الصّلاة)) ١
انسان مدنی الطبع هے۔ مال، مقام، علم و کمال ميں سے جو کچه بهی اس کے پاس هے، سب
معاشرتی روابط کی بدولت هے اور کيونکہ جس معاشرے ميں زندگی بسر کر رها هے وہ اس کی مادی و
معنوی کمائی ميں حقدار هے، لہٰذا ضروری هے کہ معاشرے کا قرض ادا کرے۔
اور اسلام کے زکات و صدقات سے متعلق قوانين پر عمل کے ذريعے، هر فرد معاشرے کا قرض
ادا کرسکتا هے۔
اسلام ميں زکات، صدقات و انفاقات کا سلسلہ اتنا وسيع هے کہ اگر اس پر صحيح عمل هو تو
معاشرے ميں کوئی ضرورت مند باقی نہ رهے، جس کے نتيجے ميں دنيا آباد هو جائے اور ضرورت
مندوں و بهوکوں کی سرکشی و طغيان کے وجود سے مطمئن هوکر امن و امان کے تمدن کا گهوارہ بن
جائے۔
امام جعفر صادق(ع) فرماتے هيں: ((إن اللّٰہ عزوجل فرض للفقراء فی مال الا غٔنياء مايسعهم،
ولوعلم ا نٔ ذلک لايسعهم لزادهم ا نٔهم لم يؤتوا من قبل فريضة اللّٰہ عزّوجلّ لکن ا ؤتوا من منع من منعهم حقّهم
لا ممّا فرض اللّٰہ لهم ولوا نّٔ الناس ا دّٔواحقوقهم لکانوا عائشين بخيرٍ)) ٢
اور محتاجوں کو نہ ملنے کے مفسدہ کی اهميت کے پيش نظر فرمايا <وَالَّذِيْنَ ےَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ
وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِی سَبِيْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ ا لَِٔيْمٍ> ٣
عطا و بخشش کے اثر کے ذريعے معاشرے سے فقر کی بنيادوں کو نابود کرنے، انسان کے
سخاوت و کرم سے آراستہ هونے اور فرد و معاشرے کی سعادت ميں اس کے کردار کی اهميت کے باعث
رسول اکرم(ص) نے سخاوت مند مشرک کو امان عطا کر دی ٤ اور اسی سخاوت کی بدولت اسے اسلام
کی هدايت نصيب هوئی۔ روايت ميں هے کہ حضرت موسیٰ(ع) کو پروردگار عالم نے وحی فرمائی کہ
سامری کو قتل نہ کرو ٥کيونکہ وہ سخاوتمند هے۔
--------------
1 وسائل الشيعہ،ج ٩، ص ١٣ ، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فيہ الزکاة، باب ١، حديث ٨۔"خدا نے زکوٰة کو نماز کے ساته
واجب کيا هے"۔
2 وسائل ج ٩ ص ١٠ ، کتاب الزکاة ابواب ماتجب فيہ الزکاة، باب اول ح ٢۔خدا نے مالداروں کے مال ميں فقراء کا اتنا
حصہ معين کرديا هے جس سے وہ اپنی زندگی بسر کر سکيں اور اگر اس کے علم ميں اس سے زيادہ ان کے لئے ضروری هو
تاتو اس کو معين کر ديتا ليکن فقيروں کا يہ حال ان مالداروں کی وجہ سے جو ان کا مال روکيں هيں نہ کہ خدا کی طرف سے اور
اگر لوگ فقراء کے حقوق کو ادا کريں تو ان کی مشيعت با خير (اچهی) هوگی۔
3 سورہ توبہ، آيت ٣۴ ۔"وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے هيں اور راہ خدا ميں خرچ نهيں کرتے ان کو دردناک
عذاب کی بشارت ديدو"۔
4 وسائل الشيعہ ج ٩ ص ١٧ ، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فيہ الزکاة، باب ٢، حديث ۴۔
5 وسائل الشيعہ ج ٩ ص ١٧ ، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فيہ الزکاة، باب ٢، حديث ۶۔
فقراء کی ديکه بهال کی اهميت اتنی زيادہ هے کہ کسی فقير کو پيٹ بهر کر کهلانے، لباس پهنانے
اور ايک خاندان کو سوال کی شرمندگی سے بچا کر ان کی آبرو کی حفاظت کرنے کو ستر بار حج بيت الله
سے افضل قرار ديا گيا هے ۔ ١
صدقہ و احسان کا دائرہ اتنا زيادہ وسيع هے کہ امام محمد باقر(ع) نے فرمايا:((إن اللّٰہ تبارک و
تعالیٰ يحّب إبراد الکبدالحرّی و من سقی کبداً حرّی من بهيمة وغيرها ا ظٔلّہ اللّٰہ يوم لاظل إلّاظلہ)) ٢
اسلام ميں صدقات کے آداب معين هيں۔ ان ميں سے ايک ادب، صدقے کو چهپا کر دينا هے، تا کہ
صدقہ لينے والے کی حيثيت و آبرو محفوظ رهے، ٣ جتنا بهی زيادہ هو اسے کم جانے ٤ کيونکہ صدقہ و
احسان جتنا بهی زيادہ هو، لينے والا ان سے زيادہ بڑا هے ٥۔
اس پرا حسان نہ جتائے ٦ بلکہ اس کا شکر گذار هو کہ وہ اس کے مال و جان کی طهارت کا وسيلہ
بنا هے۔ اس کے سوال و درخواست کرنے سے پهلے عطا کرنے ميں جلدی کرے، کہ امام جعفر صادق(ع)
فرماتے هيں:"کسی کے سوال کرنے کے بعد جو تم نے اسے عطا کيا هے وہ اس کی عزت و آبرو کے
مقابلے ميں هے۔" ٧، اپنے چهرے کو اس سے مخفی رکهے ٨ صدقہ لينے والے سے التماس دعا کهے ٩اور
جس هاته ميں صدقہ دے اس هاته کا بوسہ لے اس لئے کہ بظاهر لينے والے کو صدقہ دے رها هے اور
حقيقت ميں لينے والا خدا هے 10 <ا لََٔمْ يَعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰہَ هُوَيَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہ وَ يَا خُْٔذُ الصَّدَقَاتِ> ١١
اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اتنی توجہ کی کہ ايثار کا دروازہ کهول ديا
اور ارشاد هوا: <وَيُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ ا نَْٔفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ> 12 اور ايثار کو کمال کے اس درجے تک
پهنچاتے هوئے کہ جس کے بعد کوئی اور درجہ قابل تصور نهيں ،فرمايا: <وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہ
مِسْکِيْناً وَّيَتِيْماً وَّ ا سَِٔيْراًة إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَاشَکُوْرًا> 13
دين اسلام نے انفاق و صدقے کو فقط مال تک محدود نهيں کيا بلکہ کمزور کی مدد اور نابينا کی
راهنمائی کو بهی صدقہ قرار ديا هے۔ اعتبار و حيثيت کی بدولت کسی کی مشکلات حل کرنے کو جاہ و مقام
کی زکات قرار ديا۔ فقط حوائج مادی پوری کرنے پر اکتفا نہ کيا بلکہ فرمايا:<وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ> 14 اور
هر وہ چيز انسان کا رزق هے جس پر زندگی کا دارومدار هو اسی لئے فرمايا:((و ممّا علمناهم يبثون)) ١٥ ۔
جو کچه بيان کيا گيا وہ زکات و صدقات سے متعلق مختصر طور پر اسلام کی حکمت کا تذکرہ تها۔
اسلام نے اس مقدس قانون کے ذريعے اغنياء کے نفوس کو بخل، حرص اور طمع کی کدورت اور زنگ
سے بچايا اور ان کے اموال کو فقراء کے حقوق، جو ان کے خون کے مترادف هيں، کی آلودگی سے پاک
--------------
1 وسائل الشيعہ ج ٩ ص ١٧ ، کتاب الزکاة، ابواب صدقہ، باب ٢، حديث ١۔
2 وسائل الشيعہ ج ٩ ص ۴٠٩ کتاب الزکاة ابواب صدقہ باب ١٩ حديث ٢۔(بے شک خدا وند تبارک تعالیٰ دوست رکهتا
هے کہ کسی مصيبت زدہ کو خوش کيا جائے اور جو شخص ايسے شخص کو سيراب کرے (مدد کرے)چهارپا جانور يا کسی اور
چيز کو خدااس دن سايہ دے گا جس دن اس کے ساته کے علاوہ کوئی سايہ نہ هوگا،اس کا ساته دے گا جب اس کے علاوہ کوئی
اور ساته دينے والا نہ هوگا۔
3 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴۵٧ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٣٩ ، حديث ٣۔
4 من لايحضرہ الفقيہ،ج ٢، ص ٣١ ، ح ١٢ ۔
5 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴٣٣ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٢٩ ۔
6 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴۵١ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٣٧ ۔
7 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴۵۶ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٣٩ ۔ حديث ١۔
8 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴۵۶ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٣٩ ۔حديث ٢۔
9 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴٢۴ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٢۵ ۔
10 وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ۴٣٣ ، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ٢٩ ۔
11 سورہ توبہ، آيت ١٠۴ ۔"کيا يہ نهيں جانتے کہ الله هی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا هے اور زکوٰةوخيرات کو
وصول کرتا هے"۔
12 سورہ حشر، آيت ٩۔"اور اپنے نفس پر دوسروں پر مقدم کرتے هيں چاهے انهيں کتنی هی ضرورت کيوں نہ هو"۔
13 سورہ انسان، آيت ٨۔ ٩۔"يہ اس کی محبت ميں مسکين ،يتيم اور اسير کو کهانا کهلاتے هيں۔ هم صرف الله کی
مرضی کی خاطر تمهيں کهلاتے هيں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے هيں نہ شکريہ"۔
14 سورہ بقرہ، آيت ٣۔"اس ميں سے همارے راہ ميں خرچ کرتے هيں"۔
15 بحار الانوار ، ج ٢، ص ١٧ ۔"جو کچه هم نے سيکها هے اس ميں سے نشر کرتے هيں دوسروں تک"۔
کيا ۔ اور اس طرح سے غنی و فقير کے رشتے کو مستحکم کيا اور ان دو طبقات، جن سے معاشرے کا
بنيادی ڈهانچہ تشکيل پاتا هے، کے درميان تمام فاصلے مٹاکر کدورت کو الفت ميں تبديل کر ديا اور ان
قوانين و آداب کی برکت سے نہ صرف يہ کہ ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کيا بلکہ ان کی عزت
نفس، آبرو، شرافت اور عظمتِ انسانی کی حفاظت فرمائی۔
غنی کو بخشش،کے بعد فقراء کا احسانمند اور شکر گذار هونے کا حکم ،ايسی باران رحمت کی
مانند هے جس کے ذريعے خداوند تعالیٰ نے فقراء کی آتش حسد کو بجهايا، اموالِ اغنياء کو، جن کا
معاشرے کی رگوں ميں خون کی مانند دوڑنا ضروری هے تاکہ امت کے معاشی نظام کی حفاظت هوتی
رهے، زکات و صدقات کے حصار ميں بيمہ کر ديا۔ اميرالمومنين(ع) فرماتے هيں:((و حصّنوا ا مٔوالکم
بالزکاة)) ١
کيا اغنياء کے مال اور دانشوروں کے علم کی اس کميّت و کيفيت کے ساته عطا و بخشش کے
ذريعے معاشرے سے مادی و معنوی فقر کی بنيادوں کو نهيںڈهايا جاسکتا؟!
يہ فرد و معاشرے کی سعادت کے لئے نماز و زکات کی حکمت و اثر کا نمونہ تها۔ لہٰذا جس دين
نے هر حرکت وسکون اور فعل و ترک ميں انسان کی کچه ذمہ دارياں معيّن کی هوں جو واجبات، محرمات،
مستحبات، مکروهات اور مباحات کے مجموعے کو تشکيل ديتی هيں اور افراد کی جان، عزت و آبرو اور
مال کی حفاظت کے لئے جو قوانين، حقوق اور حدود معيّن کئے گئے هيں، ان پر عمل کرنے سے کيسا
مدينہ فاضلہ تشکيل پاسکتا هے؟
مثال کے طور پر وہ حيوان جس سے انسان کام ليتا هے، اس کے حقوق کا مطالعہ کرنے سے يہ
بات واضح وروشن هو جاتی هے کہ اس دين مبين ميں انسانی حقوق کی کس طرح ضمانت دی گئی هے۔
جس جانور پر انسان سوار هوتا هے، اس کے حقوق يہ هيں: منزل پر پهنچنے کے بعد، اپنے
کهانے کا انتظام کرنے سے پهلے، اس کے لئے چارہ مهيا کرے، جب کهيں پانی کے پاس سے گزرے اسے
پانی پلائے تا کہ پياسا نہ رهے، اس کے منہ پر تازيانہ نہ مارے، اس کی پيٹه پر ميدان جهاد ميں ضرورت
کے وقت کے علاوہ، کهڑا نہ هو، اس کی طاقت سے زيادہ سنگين وزن نہ لادے اور کام نہ لے، اسے بُرا
بهلا نہ کهے، اس کے چهرے کو بدصورت نہ بنائے، خشک زمين پر تيز اور علف زار ميں آهستہ چلائے
اور اس کی پيٹه پر گفتگو کی محفل نہ جمائے۔
اور اگر دريا کے کنارے دسترخوان لگائے، باقی بچنے والی غذا کو پانی ميں ڈال دے تا کہ دريائی
جانور اس کی همسائيگی سے بے بهرہ نہ رهيں۔
اور جس زمانے ميں پانی ميں موجود خوردبين سے نظر آنے والے جانداروں کی کسی کو خبر
تک نہ تهی، حکم ديا کہ پانی ميں پيشاب نہ کريں کہ پانی کی بهی کچه مخلوق هے۔
حيوانات کے بعض حقوق اور ان کے بارے ميں انسانی ذمہ داريوں کو ذکر گيا گيا، جس سے
اجتماعی عدالت اور انسانی حقوق کے سلسلے ميں دين اسلام کا آئين واضح هوتا هے۔
دين اسلام کا مقصد دنيا و آخرت کو آباد کرنا اور انسان کے جسم و جان کو قوت و سلامتی عطا
کرنا هے <رَبَّنَا آتِنَا فِیِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَاعَذَابَ النَّارِ> ٢
دنيا و آخرت اور جسم و روح کی ايک دوسرے سے وابستگی اور عدل و حکمت کے تقاضے کے
مطابق انسان کی مادی و معنوی زندگی ميں سے هر زندگی کی جتنی اهميت و ارزش تهی ،اتنی هی اس کی
جانب توجہ دلائی اور فرمايا:<وَابْتَغِ فِيْمَا آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَالْآخِرَةَ وَلَا تَنْسِ نَصِےْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا> 3
دنيا کو آباد کرنے اور انسان کی آسودگی و آرام پر مکمل توجہ رکهی،دنيا وآخرت کو ان کی خلقت
کے تقاضے کے مطابق بالترتيب ثانوی و طفيلی اور بنيادی و مرکزی حيثيت ديتے هوئے، دنيا و آخرت ميں
نيکی و حسنات کو انسان کی درخواست اور دعا قرار ديا کہ کلام امام معصوم(ع) ميں دنيا کے حسنہ کو
رزق و معاش ميں وسعت اور حسنِ خلق، جبکہ آخرت کے حسنہ کو رضوان خدا و بهشت بتلايا گيا
--------------
1 نهج البلاغہ، حکمت، شمارہ، ١۴۶ ۔"زکوٰة کے ذريعہ اپنے مال کو محفوظ کرو"۔
2 سورہ بقرہ، آيت ٢٠١ ۔"پروردگار هميں دنيا ميں بهی نيکی عطا فرما اور آخرت ميں بهی اور هم کو عذاب جهنم سے
محفوظ فرما"۔
3 سورہ قصص، آيت ٧٧ ۔"اور جو کچه خدا نے ديا هے اس سے آخرت ميں گهر کا انتظام کرو اور دنيا ميں اپنا حصہ
بهول نہ جاو "ٔ۔
هے۔اقتصادی ترقی بالخصوص زراعت و تجارت کو اهميت دی اور <وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُو مِْٔنِيْنَ> 1
کے حکم کے مطابق مؤمن کو سخاوت اور بے نيازی کی بدولت عزيز جانا۔ امام جعفر صادق (ع)سے
روايت نقل هوئی هے:((و ما فی الا عٔمال شی ا حٔب إلی اللّٰہ من الزراعة)) 2 ۔ اميرالمومنين علی بن ابی
طالب(ع) نخلستان ميں کاشتکاری و آبياری کيا کرتے تهے۔
ايک دوسری روايت ميں هے کہ امام جعفر صادق(ع)نے بازار سے کنارہ گيری کرنے والے سے
فرمايا: ((ا غٔد إلی عزّک)) 3 اور ايک روايت ميں اميرالمومنين(ع) فرماتے هيں:((تعرضوا للتجارات)) ٤
اسلام ميں بازار و تجارت کی بنياد هوشياری، امانت، عقل ، درايت اور احکام تجارت کا خيال
رکهنے پر هے((لايقعدن فی السوق إلامن يعقل الشراء و البيع)) 5 ((الفقہ ثم المتجر)) ٦
ليکن دين کے لئے اسلام ميں واجبات و مستحبات اور محرمات و مکروهات مقرر کئے گئے هيں،
يهاں ان کی تفصيل ذکر کرنا تو ممکن نهيں هے، البتہ ان ميں سے چند ايک کی طرف اشارہ کرتے هيں:
هر قسم کے لين دين ميں سود، قسم کهانا، بيچنے والے کا اپنی چيز کی تعريف کرنا، خريدار کا
خريدی جانے والی چيز ميں عيب نکالنا، عيب کو چهپانا، دهوکہ دينا اور ملاوٹ کرنا ممنوع قرار ديا گيا
هے۔
تاجر کو چاهيے کہ حق دے اور حق لے، خيانت نہ کرے۔ اگر مد مقابل پشيمان هو تو سودا کالعدم
کردے اور اگر تنگدستی و مشکل ميں گرفتار هو جائے تو اسے مهلت دے، اگر کوئی شخص کسی چيز کے
خريدنے کو کهے جو کچه اس کے پاس هو اس سے اسے نہ بيچے، اور اگر کسی چيز کے فروخت کرنے
کو کهے اسے اپنے لئے نہ خريدے، ترازو هاته ميں لينے والا کم لے اور زيادہ دے، چاهے اس کی نيت يہ
هو کہ اپنے فائدے سے کچه کم يا زيادہ نہ کرے۔ اپنی گفتار ميں سچے تاجر کے علاوہ باقی سب تاجر،
فاجرهيں۔
اور جس سے يہ کهے: "سودے اور لين دين ميں تم سے احسان و اچهائی کروں گا ،"اس سے
منافع نہ لے، کسی رابطے کا خيال کئے بغير تمام خريداروں کو برابر سمجهے اور جس چيز کی قيمت
معلوم و معين هو، قيمت کم کر وانے والے اور خاموش شخص کو ايک هی قيمت پر بيچے، حساب اور
لکهنا جانتا هو کہ حساب اورلکهائی سيکهے بغير سودا نہ کرے، لوگوں کو جس چيز کی ضرورت هے
اسے ذخيرہ نہ کرے، لين دين ميں نرمی سے پيش آئے، آسانی کے ساته خريد و فروخت کرے،سهولت کے
ساته لوگوں کو ان کا حق دے اور ان سے اپنا حق لے، مقروض پر سختی نہ کرے، لين دين طے هونے کے
بعد قيمت کم کرنے کو نہ کهے، مؤذن کی آواز سن کر بازار سے مسجد کی طرف جانے ميں جلدی کرے،
اپنے دل کو ذکر خدا کے ذريعے صفا عطا کرے اور نماز کے ذريعے عالم طبيعت سے ماوراء طبيعت کی
جانب پرواز کرے<فِیْ بُيُوْتٍ ا ذَِٔنَ اللّٰہُ ا نَْٔ تُرْفَعَ وَ يُذْکَرَ فِيْهَا اسْمُہ يُسَبِّحَ لَہ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَاْلآصَالِ ة رِجَالٌ لاَّ
تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَيْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ إِقَامِ الصَّلوٰةِ وَ إِيْتَاءِ الزَّکَاةِ يَخَافُوْنَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيْہِ الْقُلُوْبُ وَ اْلا بََٔصَارُ> ٧
اگر چہ اسلام کی تعليم و تربيت کے معجزانہ اثرات کی تلاش و جستجو، قرآن کی تمام آيات اور
سنت اهل بيت عِصمت و طهارت عليهم السلام ميں کرنا ضروری هے، ليکن چونکہ آفتابِ قرآن و سنت کی
هر شعاع، علم و هدايت کے نور کا مرکز و سرچشمہ هے ، لہٰذا سورہ فرقان کی آخری آيات اور تين احاديث
کو ذکر کرتے هيں،جو اس مکتب سے تربيت يافتہ افراد کی عکاسی کرتی هيں:
--------------
1 سورہ منافقون، آيت ٨۔"عزت فقط خدا کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنين کے لئے هے"۔
2 وسائل الشيعہ، ج ١٧ ، ص ۴٢ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ١٠ ،حديث ٣۔"خدا کے نزديک زراعت سے محبوب تر کوئی کام نهيں هے"۔
3 وسائل الشيعہ، ج ١٧ ، ص ١٠ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ١،حديث ٢۔"اپنی عزت کے ساته سويرا کرو۔"
4 وسائل الشيعہ، ج ١٧ ، ص ١١ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ١،حديث ۶۔"تجارت کی طرف توجہ کرو"۔
5 وسائل الشيعہ، ج ١٧ ، ص ٣٨٢ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ١،حديث ٣۔"بازار ميں نہ بيٹهو مگر يہ کہ خريدو فروش کی عقل رکهتے هو"۔
6 وسائل الشيعہ، ج ١٧ ، ص ٣٨١ ، کتاب تجارت، ابواب مقدمات تجارت، باب ١،حديث ١۔"اور فقاہت بعد تجارت"۔
7 سورہ نور ، آيت ٣۶ ۔ ٣٧ ۔ "يہ چراغ ان گهروں ميں هے جن کے بارے ميں خدا کا حکم هے کہ ان کی بلندی کا
اعتراف کيا جائے اور ان ميں اس کے نام کا ذکر کيا جائے کہ ان گهروں ميں صبح و شام اس کی تسبيح کرنے والے هيں"۔
آيات
١۔ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَی اْلا رَْٔضِ هونًا وَّ إِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوا سَلاَمًا ة وَّ اَّلذِےْنَ
يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ة إِنَّہَا سَائَتْ
مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ إِذَا ا نَْٔفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ کَانَ بَيْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ لاَ يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہًا
آخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ لاَ يَزْنُوْنَ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِکَ يَلْقَ ا ثََٔامًا ة يُّضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ وَ يَخْلُدْ فِيْہِ مُہَانًا ة إِلاَّ مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا فَا ؤُْلٰئِکَ يُبَدِّلُ اللّٰہُ سَيِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّ کَانَ اللّٰہُ
غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ة وَّ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّہ يَتُوْبُ إِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ة وَّ الَّذِيْنَ لاَ يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ
مَرُّوْا کِرَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآيَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْہَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا ة وَّ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ
ا زَْٔوَاجِنَا وَ ذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ ا عَْٔيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا ة ا ؤُْلٰئِکَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ يُلَقَّوْنَ فِيْہَا تَحِيَّةً وَّ
سَلاَماًة خَالِدِيْنَ فِيْهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَاماً> 1
خداوند رحمان جس کی رحمت واسعہ سے هر متقی و فاجر فيض ياب هو رها هے، کی بندگی کا
اثر يہ هے کہ عبادالرحمن کا زمين پر چلنا، جو ان کے اخلاق کا آئينہ دار هے، نہ تو اکڑ کے ساته هے اور
نہ هی اس ميں تکبّر هے۔
عبادالرحمن وہ لوگ هيں جو خدا کے سامنے ذليل اور مخلوق کے مقابل متواضع هيں۔ نہ صرف يہ
کہ کسی کو اذيت نهيں پہچاتے بلکہ دوسروں کی تکاليف کو بهی برداشت کرتے هيں اور جهل و نادانی سے
بات کرنے والوں کے ساته جيسے کو تيسا کے بجائے نہ صرف يہ کہ اپنے حلم و بردباری کی بدولت ان
سے جهگڑا نهيں کرتے بلکہ ان کے لئے جهالت کی بيماری سے نجات کی بهی آرزو کرتے هيں<وَ إِذَا
خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوا سَلاَماً>
اجنبيوں اور مخالفين کے ساته جن کا رويہ سلام و سلامتی هے، ان سے اپنوں اور موافق افراد کے
ساته مواسات و ايثار کے علاوہ کوئی اور اميد نهيں کی جاسکتی۔
يہ تو دن ميں ان کی رفتار و کردار هے اور رات ميں ان کا طريقہ يہ هے کہ آفاق آسمان پر نظريں
جماکر ستاروں اور کہکشاؤںميں موجود، خداوند متعال کے علم و قدرت اور حکمت کی نشانيوں ميں تدبّر و
تفکر کرتے هيں اور ان آيات و نشانيوں ميں خداوند متعال کی تجلّی کی عظمت کو ديکه کر، رات قيام و
سجود ميں گزار ديتے هيں<يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا>اور جب غور سے ديکهتے هيں کہ کروڑوںستارے
اس کے حکم کے مطابق حرکت کر رهے هيں اور اپنے مدار سے ذرہ برابر بهی منحرف نهيں هوتے، دين
اور قانون الٰهی ميں اپنے انحراف کے خوف سے کہتے هيں:<رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا کَانَ
غَرَاماً>
اور اپنے اموال کی نسبت، جو خون کی طرح معاشرے کے لئے مايہ حيات هے، اس طرح عمل
کرتے هيں کہ روک لينے کی صورت ميں فشار خون اور بخشش ميں اسراف سے قلت خون جيسی
بيماريوں ميں مبتلا نهيں هوتے اور ميانہ روی سے تجاوز نهيں کرتے تا کہ اپنی اور دوسروں کی
ضروريات کو پورا کرسکيں <وَالَّذِيْنَ إِذَا ا نَْٔفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْترُوْا وَکَانَ بَيْنَ ذٰلِکَ قَوَاماً>
--------------
1 سورہ فرقان، آيت ۶٣ ۔ ٧۶ ۔"اور الله کے بندے وهی هيں جو زمين پر آهستہ چلتے هيں اور جب جاهل ان سے خطاب
کرتے هيں تو سلامتی کا پيغام دے ديتے هيں۔يہ لوگ راتوں کواس طرح گذارتے هيں کہ اپنے رب کی بارگاہ ميں کبهی سر
بسجود رہتے هيں اور کبهی حالت قيام ميں رہتے هيں۔اور يہ کہتے هيں پروردگار هم سے عذاب جهنم کو پهيردے کہ اس کا
عذاب بہت سخت اور پائيدار هے۔وہ بد ترين منزل اور محل اقامت هے۔اور يہ لوگ جب خرچ کرتے هيں تو نہ اسراف کرتے هيں
اور نہ کنجوسی سے کام ليتے هيں بلکہ ان دونوں کے درميان اوسط درجہ کا راستہ اختيار کرتے هيں ۔اور وہ لوگ خدا کے ساته
کسی اور کو نهيں پکارتے هيں اور کسی بهی نفس کو اگر خدا نے محترم قرار ديديا هے تو اسے حق کے بغير قتل نهيں کرتے
هيں اور زنا بهی نهيں کرتے هيں کہ جو ايسا عمل کرے گا وہ اپنے عمل کی سزا بهی برداشت کرے گا۔ جسے روز قيامت دگنا
کر ديا جائے گا اور وہ اسی ميں ذلت کے ساته هميشہ هميشہ پڑا رهے گا۔علاوہ اس شخص کے جو توبہ کرلے اور ايمان لے آئے
اور نيک عمل بهی کرے کہ پروردگار اس کی برائيوں کو اچهائيوں سے تبديل کر دے گا اور خدا بہت زيادہ بخشنے والا اور
مهربان هے۔اور جو توبہ کرلے گا اور عمل صالح انجام دے گا وہ الله کی طرف واقعا رجوع کرنے والا هے ۔اور وہ لوگ جهوٹ
اور فريب کے پاس حاضر بهی نهيں هوتے هيں اور جب لغو کاموں کے قريب سے گذرتے هيں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے
هيں ۔ اور ان لوگوں کو جن آيات الٰهيہ کی ياد دلائی جاتی هے تو بهرے اندهے هوگر گر نهيں پڑتے هيں۔ اور وہ لوگ برابر دعا
کرتے رہتے هيںکہ خدايا هميں هماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرمااور هميں صاحبان تقویٰ کا پيشوا بنا
دے۔يهی وہ لوگ هيں جنهيں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے بالا خانے عطا کئے جائيں گے اور وهاں انهيں تعظيم اور سلام کی
پيش کش کی جائے گی ۔ وہ انهيں مقامات پر هميشہ هميشہ رهيں گے کہ وہ بہترين مستقر اور حسين ترين محل اقامت هے۔"
١٠٨
ان کی دوسری صفات يہ هيں کہ وہ دل و زبان کو شرک، هاتهوں کو خونِ ناحق اور اپنے دامن کو
زنا سے آلودہ نهيں کرتے<وَالَّذِيْنَ لاَ يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰهاً آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا
يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَل ذٰلِکَ يَلْقَ ا ثََٔاماً>
جهوٹ اور باطل سے دوری اختيار کرتے هيں، لغو اور عبث رفتار و گفتار کے مقابلے ميں
بردباری کے ساته گذر جاتے هيں۔ ايسے افراد جو باطل و ناحق مجالس سے پرهيز کرتے هيں اور اپنی
عظمت و بردباری کے سبب خود کو لغو و عبث سے آلودہ نهيں کرتے۔ ان کے درختِ وجود سے فقط علم،
حکمت، امانت، صداقت اور عدالت کے پهل حاصل هوتے هيں<وَ الَّذِيْنَ لاَ يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ
مَرُّوْا کِرَامًا>
جب آيات خدا کے ذريعے انهيں ياد دهانی کرائی جاتی هے تو اندهوں اور بهروں کی طرح ان آيات
پر نهيں گرتے بلکہ ان آيات کو دل و جان سے سنتے هيں اور تفکر و تدبر کی نظر سے ان ميں غور کرتے
هيں<وَالَّذِيْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُماًّ وَّ عُمْيَانًا>
ايسے افراد کو حق حاصل هے کہ وہ خدا سے پرهيز گاروں کی امامت کی درخواست کريں اور
کهيں<وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَاماً>فکری، اخلاقی اور عملی عواملِ انحراف کے مقابلے ميں خودسازی کرنے
والوں کے لئے خداوندمتعال کی جانب سے وہ حجرہ عطا هوگا جس کا انهيں وعدہ ديا گيا هے اور اس
حجرے ميں سلام و تحيت جيسے بلند و بالا عطيہ الٰهی کو پائيں گے<ا ؤُْلٰئِکَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَاصَبَرُوْا
وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلَاماً>، <سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍِّ رَّحِيْمٍ> 1
٢۔رسول خدا(ص) سے روايت هے کہ آپ(ص) نے فرمايا: مؤمن کا ايمان اس وقت تک کامل نهيں
هوتا جب تک اس ميں ايک سو تين صفات جمع نہ هوں۔ ان صفات ميں سے چند ايک کے مفهوم کو ذکر
کرتے هيں:
مومن کا علم کثير اور حلم عظيم هے، غافل کے لئے ياد دهانی کا باعث اور جاهل کے لئے معّلم
هے، جو اسے اذيت دے وہ ا سکی جوابی ايذا رسانی سے محفوظ هے، بے کار کے کام ميں هاته نهيں ڈالتا،
مصيبت ميں کسی کو برا بهلا نهيں کہتا، کسی کی غيبت نهيں کرتا، پرديسی کا مددگار اور يتيموں کا
غمخوار هے، اس کی خوشی اس کے چهرے پر اور غم واندوہ اس کے دل ميں هوتا هے۔کسی کے اسرار
سے پردہ نهيں اٹهاتا، کسی کے دامن عفت پر کيچڑ نهيں اچهالتا، امانتوں کا امين اور خيانت سے دور هے،
اس کا کردار مؤدبانہ اور گفتار شگفت انگيز هے، امور ميں اعلیٰ اور اخلاق ميں بہترين کا طلبگار هے،
اس کا دل باتقویٰ اور علم پاکيزہ هے، قدرت پانے کے باوجود عفو کرتا هے، جو وعدہ دے اسے پورا کرتا
هے، نہ تو بغض ميں غرق هوتا هے اور نہ هی اسے حب هلاک کرتی هے (حب اور بغض اسے اعتدال
سے خارج نهيں کرتے)، باطل کو دوست سے بهی قبول نهيں کرتا اور دشمن کے کهے هوئے حق کو بهی
رد نهيں کرتا، باخبر هونے کے لئے سيکهتا هے، علم حاصل نهيں کرتا مگر اس پر عمل پيرا هونے کی
غرض سے، اگر اهل دنيا کے ساته چلے تو ان ميں هوشيار ترين اور اگر اهل آخرت کے ساته هو تو ان
ميں پارسا ترين هوتا هے۔ 2
٣۔دين کے پيشواؤں کے کلمات ميں کمال کا دارومدار عقل علم اور ايمان پر هے۔ اور ان ميں سے
هر ايک کے لئے، امام زين العابدين(ع) سے منقول روايت کا اقتباس کافی هے، جس کا مضمون تقريباًکچه
يوں هے:
اگر کسی شخص کو ديکهو جو اپنی سيرت و منطق کے ذريعے خوف، عبادت و زهد اور اپنے
کردار ميں خضوع و فروتنی کا اظهار کرتا هے، جلد بازی نہ کرو، اس کے چکر ميں نہ آؤ، کتنے هی افراد
ايسے هيں جو دنيا کی دسترسی سے عاجز هيں، دين کو دلوں کے شکار کا وسيلہ بناتے هيں، ليکن اگر ان
کے لئے حرام ممکن هو تو اس ميں ڈوب جاتے هيں۔
اور اگر ديکهو کہ حرام سے بهی پرهيز کرتے هيں، پهر بهی دهوکہ نہ کهانا، افراد کی شهوت و
هوس مختلف هے، کتنے هی افراد ايسے هيں جو مال حرام سے دور بهاگتے هيں چاهے کتنا هی زيادہ هو،
ليکن شهوت کے مقابلے ميں اپنا دامن آلودہ کرليتے هيں، اور اگر ديکهو کہ اس سے بهی اپنا دامن آلودہ
نهيں کرتے تب بهی دهوکہ نہ کهانا جب تک يہ نہ ديکه لو کہ اس کی عقل کيسی هے؟ کيونکہ کتنے هی
--------------
1 سورہ يس، آيت ۵٨ ۔"ان کے حق ميں ان کے مهربان پروردگار کا قول صرف سلامتی هے"۔
2 بحار الانوار ، ج ۶۴ ، ص ٣١٠ ۔
افراد ايسے هيں جو ان سب کو ترک کرتے هيں ليکن عقلِ متين کی طرف رجوع نهيں کرتے اور عقل کو
بروئے کار لاکر ترقی و اصلاح کرنے سے کهيں زيادہ اپنے جهل کے ذريعہ تباهی پهيلاتے هيں،اگر اس
کی عقل کو متين پاؤ پهر بهی دهوکہ نہ کهانا بلکہ عقل و هوائے نفس کے درميان مقابلے کے وقت ديکهو کہ
آيا عقل کے برخلاف هونے کا ساته ديتا هے يا هویٰ کے خلاف عقل کا ساته ديتا هے، جاہ طلبی کا کتنا رسيا
هے کيونکہ لوگوں ميں بہت سے افراد ايسے هيں جو دنيا کی خاطر تارکِ دنيا هيں۔ 1
نتيجہ يہ هوا کہ کمال کا معيار فريب دينے والی باتيں اور متواضعانہ اعمال، مال و شکم اور دامن
کی شهوت کو ترک کرنا نهيں هے بلکہ کمال کا معيار وہ عقل هے جو جهالت کی کدورت سے پاک هو کر
صلاح و اصلاح کا مبدا و سرچشمہ قرار پائے اور وہ هویٰ هے جو الله تعالیٰ کے احکام اور فرمان کے
تابع هو کہ جسے کوئی بهی هوس حتی شهوتِ جاہ و مقام اسے فريب نہ دے سکے اور باطل کی همراهی
ميں ملنے والی عزت کو ٹهکراتے هوئے، حق کے سائے ميں ملنے والی ذلت کو گلے لگائے۔
۴۔عنوان بصری جس کی زندگی کے چورانويں سال گذر چکے تهے اور سالها سال سے مالکی
مذهب کے امام، مالک ابن انس، کے پاس تحصيل علم کے لئے جس کی آمد ورفت تهی۔ چهٹے امام(ع) کے
مدينہ تشريف لانے پر اس نے آپ سے کسبِ علم کی درخواست کی، حضرت امام صادق(ع) نے
فرمايا:"ميں ايک مطلوب فرد هوں، کہ ميری طلب ميں هيں، اور اس کے باوجود رات و دن کی هر گهڑی
ميں اوراد و اذکار ميں مشغول هوں"۔
يہ جواب سن کر عنوان نهايت غمگين هوا، رسول خدا(ص) کے روضہ اقدس پر حاضری دی ا ور
دو رکعت نماز پڑه کر امام(ع) کے قلب کو اپنی طرف معطوف کرنے اور آپ کے علم سے بهرہ مند هو کر
خدا کی راہ مستقيم کی جانب هدايت کے لئے دعا کی اور اسی غمگين حالت ميں گهر لوٹ آيا۔ دل آپ(ع) کی
محبت ميں اسير تها، تحصيل علم کے لئے مالک کے پاس جانا بهی چهوڑ ديا اور واجب نماز ادا کرنے کے
علاوہ گهر سے باهر نہ آتا تها۔
جب صبر کا پيمانہ لبريز هوا تو ايک دن نماز عصر کے بعد آپ(ع) کے دروازے پر آيا، خادم نے
پوچها: تمهاری حاجت کيا هے؟
جواب ديا: ميری حاجت شريف کی خدمت ميں سلام کرنا هے۔
خادم نے کها: اپنے مصلّے پر عبادت ميں مشغول هيں۔
عنوان چوکهٹ پر بيٹه گيا، خادم نے باهر آکر کها: برکت خدا کی خدمت ميں حاضر هو۔
عنوان کہتا هے: داخل هو کر ميں نے سلام کيا۔ آپ (ع)نے سلام کا جواب ديا اور فرمايا: بيٹه
جاؤ، خدا تمهاری بخشش فرمائے۔ کچه دير تک آپ سر جهکائے بيٹهے رهے، اس کے بعد سراٹها کر ميری
کنيت کے بارے ميں پوچها اور دعا دی۔
ميں نے خود سے کها: اس سلام و زيارت سے اگر اس دعا کے علاوہ کوئی دوسری چيز ميرے
نصيب ميں نہ هو تو يهی دعا بہت هے۔
اس کے بعد سر اٹها کر فرمايا: کيا چاہتے هو؟
ميں نے کها: خدا سے التجا کی هے کہ آپ کے دل کو ميری طرف متوجہ اور آپ کے علم سے
مجهے بهی کچه نصيب کرے، اميدوار هوں ميری دعا قبول هوچکی هو۔
آپ (ع)نے فرمايا: اے اباعبدالله! علم تعلم سے نهيں، علم ايسا نور هے کہ خدا جس کی هدايت
چاہتا هے اس کے دل ميں قرار دے ديتا هے، پس اگر تمهاری مراد علم هے تو اپنے اندر حقيقت بندگی کو
طلب کرو اور علم کو اس کے استعمال و عمل کے ذريعے طلب کرو اور خدا سے فهم مانگو تاکہ تمهيں
سمجهائے۔
ميں نے کها: حقيقت بندگی کيا هے؟
آپ نے فرمايا: تين چيزيں هيں:
يہ کہ خدا کا بندہ، جو کچه اسے خدا نے عطا کيا هے، خود کو اس کا مالک نہ سمجهے، کيونکہ
بندگان خدا کسی چيز کے مالک نهيں هوتے، مال کو خدا کا مال سمجهتے هيں اور جس جگہ خدا حکم دے
وهاں خرچ کرتے هيں۔
--------------
1 بحار الانوار ، ج ٢، ص ٨۴ ۔
اور يہ کہ بندہ اپنے لئے کوئی تدبير نہ کرے۔
اور يہ کہ وہ صرف اس بات ميں مصروف هو کہ خدا نے اسے کس چيز کا حکم ديا هے اور کن
امور سے روکا هے۔
پس جب خود کو کسی مال کا مالک نہ سمجهے گا تو خدا نے جهاں جهاں مال کے انفاق کا حکم ديا
هے اس کے لئے انفاق آسان هو جائے گا، جب اپنی تدبير اپنے مدبّر کو سونپ دے گا تو مصائبِ دنيا اس پر
آسان هوجائيںگے اور خدا کے امر و نهی ميں مصروف عمل هونے سے اسے لوگوں کے ساته فخر و
مباهات اور رياکارانہ بحث کی فرصت نہ ملے گی۔ پس جب خدا نے اپنے بندے کا ان تين صفات کی وجہ
سے اکرام و احترام کرديا تو دنيا شيطان اور خلق اس کے لئے سهل و آسان هو جائيں گے، مال و دولت کو
جمع آوری اور فخر فروشی کے لئے طلب نهيں کرے گا اور جو کچه لوگوں کے پاس هے اسے اپنی عزت
و برتری کے لئے نهيں چاهے گا اور اپنی زندگی کے ايّام لغوو بے کار باتوں ميں نهيں گنوائے گا۔
يہ تقویٰ کا پهلا درجہ هے، کہ خداوندتبارک و تعالیٰ نے فرمايا:<تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لاَ
يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْا رَْٔضِ وَلاَ فَسَاداً> 1
ميں نے کها: اے ابا عبدالله !مجهے وصيت فرمائيں۔
امام (ع)نے فرمايا: تمهيں نو چيزوں کے بارے ميں وصيت کرتا هوں اور جن کا مقصود و
مطلوب راہ خدا هے، ان کے لئے بهی ميری يهی وصيت هے، خدا تمهيں ان پر عمل پيرا هونے ميں کامياب
فرمائے۔
تين وصيتيں رياضت نفس، تين وصيتيں حلم اور تين وصيتيں علم کے بارے ميں هيں۔ رياضت کے
بارے ميں ميری وصيت يہ هے کہ: اس چيز کے کهانے سے پرهيز کرو جسے کهانے کی طلب نہ هو کہ
يہ کم عقلی و نادانی کا سبب هے۔ جب تک بهوک نہ هو نہ کهاؤ۔ جب بهی کهاؤ، حلال کهاؤ، خدا کے نام
سے شروع کرو اور پيغمبر اکرم(ص) کی حديث ياد رکهو کہ آپ(ص) نے فرمايا: انسان نے اپنے شکم سے
بدترظرف کو پُر نهيں کيا، پس اگر ناچار هو تو اس کی ايک تهائی کو کهانے، ايک تهائی کو پينے اور ايک
تهائی کو سانس لينے کے لئے خالی رکهے۔
حلم کے بارے ميں ميری وصيت يہ هے کہ: جو کوئی تم سے کهے: اگر ايک کهی تو دس
سنوگے، اس کے جواب ميں کهو: اگر دس بهی کهو تو ايک نہ سنو گے۔ جو تمهيں ناروا باتيں کهے اس کے
جواب ميں کهو: جو کچه تم نے کها اگر اس ميں سچے هو ميری خدا سے التجا هے کہ مجهے بخش دے
اور اگر جهوٹے هو تو خدا سے تمهاری بخشش چاہتا هوں اور جو تمهيں نازيبا و رکيک کهنے کا وعدہ دے
تم اسے نصيحت کا وعدہ دو۔
اور علم کے بارے ميں ميری وصيت يہ هے کہ: جو کچه نهيں جانتے صاحبان عقل سے پوچهو،
ليکن ان کو آزمانے يا شرمسار کرنے کی غرض سے کبهی ان سے نہ پوچهنا، جس چيز کو نهيں جانتے اس
کے بارے ميں اپنی ذاتی رائے اور گمان پر هرگز عمل نہ کرنا،جهاں تک ممکن هو احتياط پر عمل کرو،
فتویٰ دينے سے اس طرح پرهيز کرو جيسے شير سے دور بهاگتے هو اور اپنی گردن کو لوگوں کے
گزرنے کے لئے پل قرار نہ دو۔
اٹه کهڑے هو کہ تمهيں وصيت کرچکا اور ميرے وِرد کو ميرے لئے فاسد قرار نہ دو کہ ميں اپنے
آپ ميںمشغول هوں <وَالسَّلاَمُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ> 2
اس مختصر مقدمے ميں ان آيات و روايات کی تشريح بيان کرنا ناممکن هے۔ ان آيات ميں سے هر
آيت اور روايات کے هر جملے کو سمجهنے کے لئے مفصل بحث کی ضرورت هے، لہٰذا جو کچه بيان کيا
گيا اسی پر اکتفا کرتے هيں۔
آخر ميں دو نکات کی جانب توجہ ضروری هے۔
--------------
1 سورہ قصص، آيت ٨٣ ۔"يہ دار آخرت وہ هے جسے هم ان لوگوں کے لئے قرار ديتے هيں جو زمين ميں بلندی اور
فساد کے طلبگار نهيں هوتے هيں"۔
2 بحار الانوار ، ج ١، ص ٢٢۴ ۔
١۔ دين کے سامنے سر تسليم خم کرنا
دين اسلام کے اصول و فروع کا ملاحظہ، عبادات و معاملات ميں تفکر، نفس انسانی،گهر اور
شهر کی تدبير کے بارے ميں اس دين کے طور طريقوںميں تا مّٔل اور مستحبات و مکروهات کے سلسلے
ميں اس دين کے بتائے هوئے آداب ميں تدبر، ان قوانين ميں حکمت بالغہ کے بيان گر هيں۔ يہ طبيعی امر
هے کہ تمام احکام کی حکمت کو درک کرنا بلکہ انسان کی سعادت پر مبنی دين ميں، کسی بهی ايک حکم
کی تمام حکمت کا درک سوائے اس فرد کے لئے ميّسر نهيں جو اِن عوالم اور ان ميں موجود انسان کی
ضروريات اور ان ضروريات کو پورا کرنے کے طريقوں پر محيط هو۔ کسی حکم کی حکمت کو نہ جاننا
اس حکم ميں عدمِ حکمت کی دليل نهيں هوسکتا۔
اور جس طرح کتابِ خلقت ميں محکمات و متشابهات موجود هيں اسی طرح کتاب تشريع ميں بهی
محکمات و متشابهات پائے جاتے هيں اور متشابهات کی بنا پر محکمات سے هاته نهيں اٹهايا جاسکتا، اسی
طرح متشابهات کو نظامِ خلقت و دين ميں عبث و لغو قرار نهيں ديا جاسکتا<وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ آمَنَّا
بِہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا> ١
اور يہ جاننا ضروری هے کہ انسان کی دنيوی زندگی، آخرت کی بہ نسبت رحم مادر ميں جنين کی
زندگی کے مانند هے، کہ رحم مادر ميں اسے جو اعضاء اور طاقتيں عطا کی جاتی هيں، اگر جنين عقل و
شعور رکهتا بهی هو تو ان اعضاء کے استعمال اور ان کے فوائد کو درک کرنا اور انهيں عملی جامہ پهنانا
اس کے لئے ناممکن هے، وہ دماغ کی پيچيدہ اور پر اسرار بناوٹ کی حکمت کو نهيں جان سکتا يا اسی
طرح وہ نهيں سمجه سکتا کہ ديکهنے اور سننے کی مشينری اور نظام تنفس اس کے کس کام کے هيں۔ دنيا
ميں آنے کے بعد اس کے لئے ان سب کی حکمت واضح هوگی۔
اسی طرح طبيعت کے رحم مادری ميں زندگی گزارنے والے انسان کے لئے ضروری هے کہ وہ
وحی الٰهی کی تعليم و تربيت کے وسيلے سے ان اعضاء و صلاحيتوں سے ليس هو جو اس کی حيات ابدی
کے سازوسامان هيں اور اس کے لئے ان احکامات کی حکمت عالم آخرت ميں قدم رکهنے کے بعد واضح و
روشن هوگی، جهاں کی اس دنيا سے وهی نسبت هے جو دنيا کی رحم مادر سے هے۔
لہٰذا ، دين کے سامنے سر تسليم خم کرنا، انسانی خلقت کی ضروريات ميں سے، بلکہ کمالِ انسانی
کی ضروريات ميں سے هے، کيونکہ عامل کی اهميت عمل سے اور عمل کی اهميت اس عمل کے داعی
اور محرّک عامل سے هے۔ معصوم عليہ السلام کا بيان بهی اسی حقيقت کی جانب هماری راهنمائی کرتا
هے((إنما الا عٔمال بالنيات و لکل امرءٍ ما نوی)) 2
لہٰذا کسی قسم کی مصلحت و مفسدہ اور نفع و ضرر سے چشم پوشی کرتے هوئے، صرف خدا
کے لئے اطاعت خدا بجالانا، مقام مقربيّن کی علامت هے۔
٢۔ علماء دين کی تقليد کا لازم و ضروری هونا
ايسے افرادکے لئے علماء دين کی تقليد کرنا ضروری هے، جو احکام خدا کے استنباط کی قدرت
نهيں رکهتے۔ انسان، جس کی زندگی و سلامتی، قوانين و قواعد کے تابع هے، اس کی حفاظت و سلامتی
کے لئے ضروری هے کہ يا خود طبيب هو يا کسی قابلِ اعتماد و ماهر طبيب کی طرف رجوع کرے اور
اس کے احکامات کے مطابق عمل کرے يا احتياط کا دامن تهام لے اور جس چيز کے بارے ميں اسے يہ
احتمال هو کہ اس سے اسے نقصان پهنچ سکتا هے اس سے پرهيز کرے، يهاں تک کہ اس کے بارے ميں
جان لے يا کسی صاحب علم سے پوچه لے۔
بلکہ چاهے عالم هو يا جاهل، تقليد انسان کی ضرورياتِ زندگی ميں سے هے۔ جاهل کے لئے تقليد
کی ضرورت کسی دليل کی محتاج نهيں هے۔ عالم کے لئے بهی اس اعتبار سے تقليد کی ضرورت هے کہ
هردانشمند کے علم کا دائرہ محدود هے۔ مثال کے طور پر گهربنوانے کے سلسلے ميں ڈاکٹر کے لئے
انجينئر اور معمار کی تقليد کرنا ضروری هے۔ اسی طرح هوائی جهاز ميں سوار هونے کے بعد اس کے
--------------
1 سورہ آل عمران، آيت ٧۔"اور انهيں جو علم کے اندر رسوخ رکهتے هيں جن کا کهنا يہ هے کہ هم کتاب پر ايمان
رکهتے هيں اور يہ سب کی سب محکم ومتشابہ همارے پروردگار هی کی طرف سے هے"۔
2 وسائل الشيعہ، ج ١، ص ۴٩ ، ابواب مقدمہ عبادات، باب ۵، حديث ١٠ ۔"فقط اعمال کو ان کی نيتوں سے تولا جائے هر
شخص کے لئے وهی هے جس کی اس نے نيت کر رکهی هو"۔
١١٢
لئے هواباز اور بحری جهاز ميں قدم رکهنے کے بعد بغير کسی چوں و چرا کے ناخدا کی تقليد ضروری
هے۔
بلکہ علم طب ميں مختلف شعبوں کے وجود ميں آنے کی وجہ سے اگر کوئی ايک عضو ميں
مهارت حاصل کرچکا هو تب بهی باقی اعضاء ميں اس کے لئے دوسرے ڈاکٹروں کی تقليد ضروری هے۔
نتيجے کے طور پر کسی بهی فرد کے لئے تقليد کے بغير زندگی گزارنا ناممکن هے۔
اسی لئے دين پر ايمان رکهنے والا جانتا هے کہ اس کے لئے دين ميں جو احکام معين کئے گئے
هيں، بحکم عقل و فطرت انسان مجبور هے کہ وہ ان احکام کو جاننے اور ان پر عمل پيرا هونے کے لئے
ان تين ميں سے کسی ايک راستے کا انتخاب کرے۔ يا ان کے بارے ميں تحصيل علم کرے يا ان کا علم
رکهنے والے ماهر و متخصص کی پيروی کرے اور يا احتياط کا راستہ اختيار کرے۔ ليکن ايسی صورت
ميں کہ جب نہ تو ان احکام کا علم رکهتا هو اور نہ هی احتياط پر عمل پيرا هو اس کے لئے فقط ايک هی
راستہ باقی رہ جاتا هے اور وہ يہ هے کہ کسی عالم کے نظريات کے مطابق ان احکام پر عمل کرے اور
اگر ان احکام ميں محققين و ماهرين کے درميان اختلافِ رائے پايا جاتا هو تو ان ميں سے اعلم کی تقليد
کرے۔ جيسا کہ کسی بيماری کی تشخيص و علاج ميں اگر چند ڈاکٹروں کے درميان اختلاف نظر هو ان ميں
سے اعلم کی طرف رجوع کرنا ضروری هے۔
اور چونکہ دين اسلام دين علم هے اور هر عمل کی بنياد، چاهے بالواسطہ هی سهی، ضروری
هے کہ علم کی بنياد پر هو، تقليد کی بنياد بهی علم، عقل اور فطرت پر هے جو در حقيقت احکامِ دين ميں
عالم و مجتهد کی مستند رائے و نظر پر اعتماد کرنے کا نام هے<وَلاَ تَقْفُ مَالَيْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ
وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ ا ؤُْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً> ١
تمت بالخير
--------------
1 سورہ اسراء، آيت ٣۶ ۔"اور جس چيز کا تمهيں علم نهيں هے اس کی پيروی مت کرنا کہ روز قيامت کان، آنکه اور
قلب سب کے بارے ميں سوال کيا جائے گا"۔
Labels:

Post a Comment

[blogger][facebook][disqus]

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget