تقلید


                                    تقلید

خداوند عالم نے ہماری سعادت اور دنیا و آخرت میں نجات کے لئے تمام احکام و قوانین کو اپنے نبی ۖ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا اور آپ ۖ نے اس امانت عظمیٰ کو ائمہ طاہرین  کوودیعت اعطا فرمایا ہے اور حضرت کے جانشین اور خلفائے برحق نے اپنی عمر کے تمام نشیب و فراز میں اس ذمہ داری کو پہنچانے کی کوشش فرمائی ہے جو آج تک ان تمام ادوار کو طے کرتا ہوا ہمارے سامنے حدیثوں اور روایتوں کی کتابوں میں موجود ہے ۔

اس زمانہ میں چونکہ امام زمانہ  تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو حضرت  سے دریافت کر سکیں ،لہذا مجبور ہیں کہ حدیثوں اور قرآنی آیات سے احکام کا استنباط کریں اور اگر اس پر بھی قادر اور دست رسی نہیں رکھتے تو ضروری ہے کہ کسی مجتہد اعلم (سب سے زیادہ علم رکھنے والا )کی تقلید کریں ۔
ان روایات و احادیث میں کھری کھوٹی ، صحیح و غلط وضعی جعلی وغیرہ کے سمندر سے گوہر کا الگ کرنا ہر ایک کے بس کا میں نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو اس بحر بیکراں میں غواصی کر رہے ہوں ، جو اس سمندر کی طغیان اور طوفان سے خوب واقف ہوں جنھوں نے اس کو حاصل کرنے کے لئے رات و دن نہ دیکھا ، عمر کے لمحات کو نہ شمار کیا ہو ، علوم کے سمندر کی تہہ میں بیٹھے ہوں اس کی راہوں سے خوب واقف ہوں اس میں سے گوہر و موتی نکالنے میں ان کے لئے کوئی مشکل کام نہ ہو ، ایسے افراد کو مجتہد کہتے ہیں ۔

لہذا ہم مجبور ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو طے کرنے کے لئے ان کے دامن کو تھامیں کیونکہ اس کام کے ماہر وہی ہیں ، مریض ڈاکٹر ہی کے پاس تو جائے گا ، یہ ایک عقلی قاعدہ ہے جس چیز کے متعلق معلوم نہیں اس علم  کے ماہر و متخصص سے پوچھو اور حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بھی دور دراز رہنے والوں کے لئے قریب کے عالم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ۔

البتہ تقلید میں یہ چیز ذہن نشین رہے ، کہ ایسے مجتہد کی تقلید کی جائے جو تمام مجتہدین میں اعلم ( جو احکام خدا کو سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو ) عادل و پرہیز گار ہو پس اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ، مجتہدین اکثر موارد میں اتفاق نظر رکھتے ہیں ، سوائے بعض جزئیات کے کہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان جزئیات میں ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ دیں ۔

اس مقام پر یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ خداوند عالم کے پاس فقط ایک حکم موجود ہے اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں پایا جاتا وہی حق ہے، اور حکم حقیقی و واقعی فتویٰ کے بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتا ہے ، مجتہدین بھی نہیں کہتے ہیں کہ خدا کے نظریات و احکام ہمارے نظریات و خیالات کے تابع ہیں یا ہمارے حکم کی تبدیلی سے خدا کا حکم بدل جاتا ہے۔

پھر آپ ہم سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے :فتویٰ میں اختلاف کی نوعیت کیا ہے ؟ فقہا آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں ؟

ایسی صورت میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہوگا کہ : فتویٰ میں اختلاف ان وجوہ میںسے کسی ایک کی بنا پر ممکن ہے ۔

پہلا : کبھی ایک مجتہد حکم واقعی کو سمجھنے میں شک کرتا ہے تو اس حال میں قطعی حکم دینا ممکن نہیں ہوتا لہذا احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے مطابق احتیاط فتویٰ دیتا ہے تاکہ حکم الٰہی محفوظ رہے ، اور مصلحت واقعی بھی نہ نکلنے پائے ۔

دوسرا : کبھی اختلاف اس جہت سے ہوتا ہے ، کہ دو مجتہدین جس روایت کو دلیل بنا کر فتویٰ دیتے ہیں وہ روایت کو سمجھنے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں ، ایک کہتا ہے امام اس روایت میں یہ کہنا چاہتے ہیں اور دوسرا کہتا ہے امام کا مقصود دوسری چیز ہے ، اس وجہ سے ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق فتویٰ دیتا ہے ۔

تیسرا : حدیث کی کتابوں میں کسی مسئلہ کے اوپر کئی حدیثیں موجود ہیں جو باہم تعارض رکھتی ہیں ہاں فقیہ کو چاہیے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دے اور اس کے مطابق فتویٰ دے۔

یہاں ممکن ہے کہ مجتہدین کا نظریہ مختلف ہو ایک کہے فلاں اور فلاں جہت سے یہ روایت اس روایت پر مقدم ہے اور دوسرا کہے ، فلاں و فلاں جہت سے یہ روایت اس روایت پر ترجیح رکھتی ہے پس ہر ایک اپنے مد نظر روایت کے مطابق فتویٰ دیتا ہے ۔

البتہ اس طرح کے جزئی اختلافات کہیں پر ضرر نہیں پہونچاتے بلکہ محققین اور متخصصین و ماہرین کے نزدیک ایسے اختلافی مسائل پائے جاتے ہیں آپ کئی انجینیر ، اور مہارت رکھنے والے کو نہیں پا سکتے جو تمام چیزوں میں ہم عقیدہ و اتفاق رای رکھتے ہوں ۔

ہم مذکورہ مطالب سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں :

١: تقلید کرنا کوئی نئی بات نہیں ، بلکہ ہر شخص جس فن میں مہارت نہیں رکھتا ہے اس فن میں اس کے متخصص وماہر کے پاس رجوع کرتا ہے ، جیسے گھر وغیرہ بنوانے کے معاملہ میں انجینیراور بیماری میں ڈاکٹر اور بازار کی قیمت کے متعلق دلال کے پاس جاتے ہیں ،پس احکام الٰہی حاصل کرنے کے لئے مرجع تقلید کی طرف رجوع کریں اس لئے کہ وہ اس فن کے متخصص و ماہر ہیں ۔

٢۔ مرجع تقلید : من مانی اور ہوا و ہوس کی پیروی میں فتویٰ نہیں دیتے بلکہ تمام مسائل میں ان کا مدرک قرآن کی آیات و احادیث پیغمبر ۖ اور ائمہ طاہرین  ہوتی ہے ۔

٣: تمام مجتہدین ، اسلام کے کلی مسائل بلکہ اکثر مسائل جزئی میں بھی ہم عقیدہ اور نظری اختلاف نہیں رکھتے ہیں ۔

٤: بعض مسائلِ جزئیہ جس میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مجتہدین اختلاف کرنا چاہتے ہیں بلکہ تمام مجتہدین چاہتے ہیں کہ حکم واقعی خدا جو کہ ایک ہے اس کو حاصل کریں اور مقلدین کے لئے قرار دیں ، لیکن استنباط اور حکم واقعی کے سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے پھر چارہ ہی کوئی موجود نہیں رہتا مگر یہ کہ جو کچھ سمجھا ہوا ہے اس کو بیان کر یں ا ور لکھیں جب کہ حکم واقعی ایک حکم کے علاوہ نہیں ہے ۔ مقلدین کے لئے بھی کوئی صورت نہیں ہے مگر اعلم کے فتوے پر عمل کریں اور خدا کے نزدیک معذور ہوں ۔

٥: جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ دنیا کا ہر متخصص و محقق و ماہر چاہے جس فن کے بھی ہوں ان کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے ، لیکن لوگ امر عادی سمجھتے ہوئے اس پر خاص توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس سے اجتماعی امور میں کوئی رخنہ اندازی بھی نہیں ہوتی ہے ۔

مجتہدین کے بعض جزئیات میں اختلافی فتوے بھی اس طرح کے ہیں ، اس کو امر غیر عادی نہیں شمار کرنا چاہیے ۔

٦: ہمیں چاہیے کہ ایسے مجتہد کی تقلید کریں جو تمام مجتہدین سے اعلم ہو ، اور احکام الٰہی کے حاصل کرنے میں سب سے زیادہ مہارت رکھتا ہو نیز عادل و پرہیز گار جو اپنے وظیفہ و ذمہ داری پر عمل کرتا ہو اور قانون و شریعت کی حفاظت کے لئے کوشاں ہو                                  ۔


تقلید و مرجعیت
کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟

ہرمسلمان ، بالغ و عاقل جو خود مجتہد نہ ہو۔ یعنی شریعت کے احکام کاقرآن و سنت سے استنباط کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم و عدل اور تقوی و زہد کے پیکر جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے چنانچہ اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: ” فاسئلوا ا ھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “(اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان علم سے پوچھ لو(۱)۔ جب ہم اس موضوع پر بحث کریں گے تو معلوم ہوگا کہ شیعہ امامیہ حادثات سے باخبر تھے پس ان کے یہاں وفات نبی(صلی اللہ علیہ و الہ)سے آج تک اعلمیت و مرجعیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔

شیعوں کی تقلید کا سلسلہ ائمہ اثنا عشرتک پہونچتا ہے اور ان ائمہ کا سلسلہ تین سو سال تک ایک ہی نہج پر جاری رہا۔ ان میں سے کبھی ایک نے دوسرے کے قول کی مخالفت نہیں کی، کیونکہ ان کے نزدیک نصوص قرآن وسنت ہی لائق اتباع تھیں۔لہذا انہوں نے کبھی بھی قیاس و اجتہاد پر عمل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے توان کا اختلاف بھی مشہور ہوجاتا جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اور قائدوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

معصوم امام کی غیبت کے بعد سے آج تک لوگ جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ سے آج تک مستقل طور پر مجتہد فقہاء کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ہر زمانہ میں امت میں سے ایک یا متعدد شیعہ مراجع ابھرتے ہیں اور شیعہ ان کے رسائل عملیہ کے مطابق عمل کرتے ہیں جو کہ انہوں نے کتاب و سنت سے استنباط کئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ مجتہدین ان جدید مسائل کے لئے اجتہاد کرتے ہیں جو اس صدی میں علمی پیشرفت و ارتقاء اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے سامنے آتے ہیں۔ جیسے آپریشن کے ذریعہ دل نکال کر دوسرے انسان کا دل رکھنا یا جسم کے کسی بھی عضو کی جگہ دوسرے انسان کا عضو رکھنا یا انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرنا یا بینک وغیرہ کے معاملات وغیرہ۔

اور مجتہدین کے درمیان سے وہ شخص نمایاںمقام پر فائز ہوتا ہے جو ان میں اعلم ہوتا ہے اسی کو شیعوں کا مرجع یا زعیم حوزات علمیہ کہاجاتا ہے۔

شیعہ ہر زمانہ میں اس زندہ فقیہ کی تقلید کرتے رہے ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو سمجھتا ہے۔ ان کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ لوگ اس سے سوال کرتے ہیں اور وہ انہیں جواب دیتا ہے۔

اس طرح شیعوں نے ہر زمانہ میں شریعت اسلامیہ کے دونوں اساسی مصادر یعنی کتاب وسنت کی حفاظت کی ہے اور آئمہ اثنا عشر سے منقول نصوص نے شیعہ علماء کو قیاس وغیرہ سے مستغنی بنائے رکھا ہے اور پھر شیعوں نے حضرت علی بن ابی طالب(علیہ السلام)ہی کے زمانہ سے تدوین حدیث کو اہمیت دی ہے(۲)۔

۱۔ سورہ نحل ، آیت ۴۳۔

۲۔ شیعہ ہی اہل سنت ہیں، ص ۱۸۷۔

امام زمانہ عج کی نیابت عام، مرجعیت تقلید سے ولایت فقیہ تک

غیبت کبری کے آغاز سے امام زمانہ عج کی جانب سے نائبین عام کی علمی نیابت کے علاوہ مالی اور سیاسی نیابت کا زمینہ معرض وجود میں آ گیا۔ غیبت کے طولانی ہونے اور خمس کے دینی احکام معطل ہونے کی وجہ سے امام زمانہ عج کے علمی نائبین نے ابتدا میں امین افراد اور بعد میں فقیہ اور نائب امام زمانہ عج کی حیثیت سے حضرت ولیعصر عج سے متعلق اموال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ولایت فقیہ کی شکل میں امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت کی زیادہ منظم صورت کا زمینہ فراہم ہوا۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی اور میدان عمل میں ولایت فقیہ کا مرجعیت تقلید کی تکامل یافتہ صورت کے طور پر تحقق پا لینے کے بعد اسکے گرد عوام کی ثابت قدمی اور اتحاد کے مرحلے کا آغاز ہو گیا۔
مقدمہ:
اہل تشیع عصر نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے 250 سال بعد تک جانشین پیغمبر ص کو اپنے درمیان موجود پاتے تھے اور ان سے معنوی، علمی، دینی سرپرستی، عدالتی فیصلوں اور کچھ حد تک سیاسی راہنمائی سے مستفیض ہوتے تھے۔ لیکن عصر غیبت کے شروع ہونے کے بعد شیعیان اہلبیت ع امام معصوم ع کے حاضر ہونے کی نعمت سے محروم ہو گئے اور اپنے درمیان شدید خلاء کا احساس کرنے لگے۔ اس خلاء کو پر کرنے کیلئے راہ حل کی تلاش ہونے لگی۔ امام زمانہ عج اور دوسرے معصومین علیھم السلام نے اپنی روایات میں ایسے امور کی ذمہ داری جنکا کوئی والی وارث نہ تھا، دینی علماء کے کندھوں پر ڈالی اور لوگوں نے بھی اپنی ایسی دینی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، علمای دینی کا رخ کیا۔

ان چار عناصر یعنی عوام، علماء، وقت کی تبدیلیاں اور دینی منابع کے باہمی تعامل کا نتیجہ مرجعیت تقلید کے ابھر کر سامنے آنے کی صورت میں نکلا۔ مرجعیت تقلید کے مرحلہ وار تکامل اور ترقی کا پھل نظام ولایت فقیہ تھا جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی سرزمین پر سیاسی اور اجتماعی حوالے سے فعال کردار کا حامل ہو گیا۔

اس مضمون میں امام زمانہ عج کی "نیابت عام" کے مرحلہ وار تکامل اور بتدریج ترقی کا جائزہ لیا گیا ہے جو تاریخ کے ایک مرحلے میں مرجعیت تقلید کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے آخرکار ولایت فقیہ کی صورت میں آشکارہو گئی۔

” شیعیان اہلبیت علیھم السلام کی جانب سے ولایت مداری کا یہ تجربہ اور اسے عالمی سطح پر پیش کرنا ظہور امام زمانہ عج کی جانب ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے۔ “
 امام زمانہ عج کی علمی نیابت:  

ائمہ معصومین علیھم السلام کے حضور کے زمانے میں عام افراد براہ راست یا شاگردوں کے ذریعے امام معصوم ع سے دینی تعلیمات حاصل کرتے تھے۔ غیبت صغری کے دوران بھی امام زمانہ عج سے رابطہ انکے نائبین خاص کے ذریعے کسی حد تک ممکن تھا۔ لیکن چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد یہ امکان بھی ختم ہو گیا۔ نہ خود امام زمان عج تک لوگوں کی رسائی ممکن تھی اور نہ ہی انکا کوئی شاگرد یا نائب خاص انکے درمیان موجود تھا۔ ایسی صورت میں شیعیان اہلبیت ع کو کیا کرنا چاہئے تھا؟۔

ائمہ معصومین علیھم السلام کی موجودگی میں کچھ ایسے افراد لوگوں میں معروف ہو گئے جو ان تک آپ ع کی احادیث پنچاتے تھے۔ ان کو "راویان حدیث" کہا جاتا تھا۔ ائمہ معصومین علیھم السلام بھی ہمیشہ علمی حوالے سے ان افراد کی حمایت اور تائید فرماتے تھے۔ امام زمانہ عج نے اپنے دوسرے نائب خاص کے ذریعے اپنی غیرموجودگی میں عام افراد کو انہیں راویان حدیث کی جانب رجوع کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔ یہی روایت چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد امام زمانہ عج کی نیابت عام کا زمینہ فراہم کرنے کا باعث بنی۔ روایت میں شیعیان اہلبیت ع کو مخاطب قرار دے کر فرماتے ہیں:

"پیش آنے والے حوادث اور واقعات میں ہمارے راویان حدیث کی جانب رجوع کریں، وہ میری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ہوں"۔ [صدوق، 1405، ص 484]

اس دستورالعمل کی رو سے راویان حدیث کی فرمانبرداری اور اطاعت امام زمانہ عج کی اطاعت قرار دی گئی ہے۔ یہی "نیابت" کا معنی و مفہوم ہے۔ لیکن یہ نیابت "نیابت خاص" نہیں کیونکہ امام زمانہ عج نے کسی ایک فرد کو مشخص نہیں کیا، بلکہ مخصوص افراد کے ایک گروہ کو مشخص کیا ہے جو خاص خصوصیات کے حامل ہیں [ان خصوصیات کی جانب اس روایت اور کچھ دوسری روایات میں اشارہ کیا گیا ہے]۔ یہ خصوصیات جس شخص میں بھی پائی جائیں گی وہ امام زمانہ عج کا نائب تصور کیا جائے گا۔ "نیابت عام" کا معنی و مفہوم یہی ہے۔ محقق کرکی [متوفای 940 ھ ق] نیابت عام کی تعریف یوں کرتے ہیں:

"نائب عام ایسا شخص ہے جس میں فتوا اور حکم دینے کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں۔ اسے نائب عام اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کلی طور پر امام معصوم ع کی جانب سے منصوب کیا گیا ہے"۔ [محقق کرکی، 1408، ج 11، ص 266]۔

غیبت کے آغاز سے ہی دینی علماء نے بڑے پیمانے پر ائمہ معصومین علیھم السلام سے منسوب روایات اور احادیث کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ آج حدیث کی معتبر اور بڑی کتابوں کی صورت میں موجود ہے جو اہل تشیع کیلئے اہم منابع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ عظیم کارنامہ

” ظام ولایت فقیہ میں امام زمان عج کی جانب سے فقیہ کو مزید وسیع اختیارات کی منتقلی باعث بنی ہے کہ "نیابت عام" کا تحقق وسیعتر بنیادوں پر انجام پائے۔ “

اس زمانے میں علمای دینی کی "علمی نیابت" کے تکامل کو ظاہر کرتا ہے۔ علمی نیابت کے مرحلے کا تحقق پانا نیابت عام کے اگلے مراحل کا زمینہ فراہم ہونے کا باعث بن گیا۔

چوتھی صدی ہجری کے آخری 25 سالوں میں اہل تشیع فقہاء کے کلام کو خود امام زمانہ عج کے کلام کی طرح معتبر سمجھتے ہوئے قبول کرتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں فقہاء امام زمانہ عج کے ترجمان کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔

                                              امام زمانہ عج کی مالی نیابت:

نیابت عام کی مرحلہ وار ترقی اور تکامل کا اگلا مرحلہ مالی نیابت کا تھا۔ البتہ تاریخی اعتبار سے مالی نیابت اور علمی نیابت کے درمیان فاصلہ پایا جاتا ہے۔ مالی نیابت کو مزید واضح کرنے کیلئے ہم خمس کے مسئلے پر تھوڑی روشنی ڈالیں گے۔

خمس ایک طرح کا ٹیکس ہے جسکا ادا کرنا خاص شرائط کے ساتھ افراد پر واجب ہو جاتا ہے۔ خمس کا آدھا حصہ "سہم امام" کہلاتا ہے جو امام معصوم ع کے اختیار میں قرار پاتا ہے اور باقی آدھا حصہ "سہم سادات" کہلاتا ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام کی موجودگی میں انکے وکلاء کا ایک نیٹ ورک موجود تھا جو افراد سے خمس اکٹھا کر کے ان تک پہنچاتے تھے۔ لیکن امام زمانہ عج کے چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد یہ نیٹ ورک ختم ہو گیا اور خمس اکٹھا کرنے کا سلسلہ رک گیا۔

کچھ علماء نے یہ فتوا دیا کہ خمس کی رقم کو امام زمانہ عج کے ظہور تک کسی محفوظ مقام پر دفن کر دیا جائے۔
کافی عرصہ گزر جانے کے بعد معروف فقیہ اور عالم دینی ابو صلاح حلبی نے پہلی بار یہ فتوا دیا کہ خمس کی رقم ایک امین فقیہ کو سونپی جائے۔ لیکن انکا یہ فتوا صرف "سہم سادات" کے ساتھ مخصوص تھا اور "سہم امام" کے بارے میں نہیں تھا۔ ان کے بعد قاضی ابن براج [متوفا 481 ھ ق] وہ دوسرے شیعہ فقیہ اور عالم دین تھے جنہوں نے یہ فتوا دیا کہ سہم امام فقیہ کو سونپا جائے۔ البتہ فقیہ سے انکی مراد امانت دار شخص ہے جو خود یا دوسروں کے ذریعے ظہور کے وقت یہ رقم امام زمانہ عج کو پہنچا دے۔

ساتویں صدی ہجری تک خمس کی رقم کو امام زمانہ عج کے ظہور تک محفوظ مقام پر نگہداری کرنے پر تمام فقہاء متفق تھے۔ لیکن جب غیبت کا دورانیہ طویل ہوتا گیا اور شیعیان اہلبیت علیھم السلام خمس کی رقم کے بارے میں مشکلات کا شکار ہونے لگے تو فقہاء خاص طور پر محقق حلی رہ نے سہم امام دریافت کرنا شروع کر دیا اور اسے مذہبی سرگرمیوں میں خرچ کرنے لگے۔ بعد میں آنے والے فقہاء نے بھی اسی طریقے پر عمل کیا۔ یہاں سے امام زمانہ عج کی جانب سے "مالی نیابت" کا مرحلہ شروع ہو گیا۔

                                            امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت:

شیعیان اہلبیت ع جو پیغمبر اکرم ص کی وفات کے وقت اقلیت کی صورت اختیار کر چکے تھے

” نیابت عام کی ترقی اور پیشرفت کا یہی سفر بالآخر نظام ولایت فقیہ تک آن پہنچا جو عصر حاضر کے بہترین اسلامی سیاسی نظام کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ “

اپنی دینی سیاسی زندگی میں انتہائی شدید دباو کا شکار رہے۔ اسی وجہ سے ائمہ معصومین ع نے تقیہ کا راستہ اختیار کیا۔

اہل تشیع کا سیاسی میدان سے دور ہو جانے کے باوجود ائمہ معصومین ع اپنے خاص اصحاب کو اسلام کے سیاسی نظام کے قواعد و ضوابط کی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ جب علماء تشیع نے روایات اور احادیث کی جمع آوری کا کام شروع کیا تو ایسی روایات جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اسلام کے سیاسی مسائل سے مربوط تھیں انہیں ایک الگ باب میں رکھا۔ اسی طرح چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے دوران شیعہ حکومتوں کے برسر اقتدار آنے سے شیعہ علماء کو سیاسی میدان میں فعالیت کرنے کیلئے مناسب موقع فراہم ہو گیا۔

چوتھی صدی ہجری میں مصر میں فاطمیون کی حکومت، شام میں حمدانیان کی حکومت، یمن میں زیدیوں کی حکومت اور عراق و ایران میں آل بویہ کی حکومت قائم ہوئی۔ ان حکومتوں کے درمیان آل بویہ کی حکومت نے تشیع کی ترویج میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا۔ آل بویہ حکمرانوں کے شیعہ علماء سے بہت اچھے تعلقات تھے۔
یہ تمام واقعات نیابت عام کے مفہوم میں بنیادی تبدیلی اور سیاسی نیابت کے مطرح ہونے کا باعث بنے۔ امام زمانہ عج کی توقیع میں دو الفاظ بہت اہم ہیں۔ ایک "راویان" اور دوسرا "حوادث واقعہ"۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق راویان سے مجتہدین کا معنا سمجھا جانے لگا۔ اسی طرح "حوادث واقعہ" سے مراد ایسے واقعات تھے جنکے رونما ہونے پر عام افراد کا وظیفہ شرعی معلوم ہونا ضروری تھا۔ ان واقعات میں سیاسی تبدیلیاں بھی شامل تھیں۔ لہذا سیاسی معاملات میں مجہتدین کی جانب رجوع کرنا ایسا دستورالعمل تھا جس نے نیابت عام کو سیاسی نیابت تک وسعت بخش دی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ مجتہدین نے امام معصوم ع کے ساتھ مخصوص امور جیسے نماز جمعہ کی امامت، حدود کا اجراء، خمس اور زکاۃ کی جمع آوری اور حکم جہاد صادر کرنا وغیرہ انجام دینا شروع کر دیئے۔ مرحوم کلینی رہ آل بویہ کے زمانے میں تاکید کرتے تھے کہ اہل تشیع اپنے جھگڑوں میں فیصلے کیلئے غیردینی افراد سے رجوع نہ کریں۔ اسی طرح شیخ مفید رہ حدود کے اجراء کو علماء کے ساتھ مخصوص قرار دیتے تھے۔
ایران میں صفویہ دور سلطنت [970 تا 1148 ھ ق] کا قیام اور صفویہ حکمرانوں کی جانب سے شیعہ مذھب کو رسمی مذھب کے طور پر اعلان کرنا اور دنیا بھر کے شیعہ مجتہدین کو ایران آنے کی دعوت دینا اس بات کا باعث بنا کہ یہاں "فقہ سیاسی تشیع" ترقی کے مراحل طے کرے۔ کیونکہ فقہ ہی وہ علم ہے جو دین کے قوانین کو بیان کرتا ہے اور قانون اجتماعی زندگی اور حکومت کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔

ولایت فقیہ:

حضرت امام خمینی رہ نے جب ایران

” امام خمینی رہ نے مجتہد جامع الشرائط کی جانب سے امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت کو مطرح کیا اور ثابت کیا کہ وہ عصر غیبت میں اسی دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات کا حامل ہے جو امام معصوم ع اپنی موجودگی کے زمانے میں برخوردار ہیں۔ “

میں سلطنتی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو یہ موقف اختیار کیا کہ "شاہ" کو ایران سے نکل جانا چاہئے۔ امام خمینی رہ نے عصر غیبت میں اسلامی حکومت کا نظریہ پیش کیا۔ وہ اس سے قبل اپنے فقہی دروس میں حاکم اسلامی کی شرائط اور اختیارات کو نظریہ ولایت فقیہ کی صورت میں بیان کر چکے تھے۔ انہوں نے امام معصوم ع کے روحانی مقام اور ولایت تکوینی کو انکے دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات سے جدا کرتے ہوئے ایک مجتہد جامع الشرائط کیلئے اسی دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات کا اثبات کیا۔ امام خمینی رہ نے مجتہد جامع الشرائط کی جانب سے امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت کو مطرح کیا اور ثابت کیا کہ وہ عصر غیبت میں اسی دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات کا حامل ہے جو امام معصوم ع اپنی موجودگی کے زمانے میں برخوردار ہیں۔

اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی رہ کی نظر میں حکومت سے مربوط وہ تمام ذمہ داریاں اور اختیارات جو انبیای الھی اور ائمہ معصومین ع سے متعلق ہیں، عصر غیبت میں عادل فقیہ انکا حامل ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ فقیہ عادل کا مرتبہ ائمہ معصومین ع یا انبیای الھی کے برابر ہے۔ ائمہ معصومین ع اور انبیای الھی کے روحانی مقامات اور مناصب صرف انکے ساتھ مخصوص ہیں۔ ولی فقیہ صرف دنیوی مقام اور حکومتی امور میں امام معصوم ع کا نائب اور جانشین ہے۔

نتیجہ:

بطور خلاصہ یہ کہ امام زمانہ عج کی جانب سے نیابت عام مرحلہ وار ترقی اور تکامل کے درجات طے کرتی آئی ہے۔ اپنے آغاز میں یہ نیابت علمی نیابت کی شکل میں ظاہر ہوئی، اسکے بعد مالی نیابت اور پھر سیاسی نیابت کی شکل اختیار کر گئی۔ البتہ اس مرحلہ وار ترقی میں بدلتے ہوئے حالات اور واقعات نے انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نیابت عام کی ترقی اور پیشرفت کا یہی سفر بالآخر نظام ولایت فقیہ تک آن پہنچا جو عصر حاضر کے بہترین اسلامی سیاسی نظام کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

نظام ولایت فقیہ میں امام زمان عج کی جانب سے فقیہ کو مزید وسیع اختیارات کی منتقلی باعث بنی ہے کہ "نیابت عام" کا تحقق وسیعتر بنیادوں پر انجام پائے۔ دوسرے الفاظ میں نظام ولایت فقیہ انسانی معاشرے میں امامت اور مھدویت کے زیادہ سے زیادہ متجلی ہونے کا باعث بنا ہے جسکی وجہ سے احکام دین کے اجراء کا زمینہ فراہم ہوا ہے۔ انسانی معاشرے میں دین کا اجراء امامت کے فوائد اور برکات میں سے ایک ہے جو نائب امام کے ذریعے معاشرے میں تحقق پایا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد نظام ولایت فقیہ پر مبنی اسلامی حکومت کی تشکیل سے شیعیان اہلبیت ع نے "ولایت مداری"، جو امام زمانہ عج کے ظہور کی شرائط اور مھدوی حکومت کی خصوصیات میں سے ہے، کا ایک بڑا تجربہ انجام دیا ہے۔ شیعیان اہلبیت علیھم السلام کی جانب سے ولایت مداری کا یہ تجربہ اور اسے عالمی سطح پر پیش کرنا ظہور امام زمانہ عج کی جانب ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے۔

ولايت فقيہ
مصنف:سید كاظم حائری

خلاصہ :
   ہماري موجودہ بحث كا ہدف و مقصد اس بات كو ثابت كرناہے كہ ولايت فقيہ نبي و امام عليہ السلام كي ولايت كے تسلسل كا نام ہے ۔ مسلمانوں كے نزديك ولايت كا سرچشمہ ذات كردگار ہے جو ہرچيز كي خالق و موجد ہے خدا ہي حقيقي مولا ہے اور تمام لوگ اسكے بندے ہيں اور ان پر اسكے احكام كا اتباع كرنا (يعني خدا نے جن كاموں سے منع كيا ہے انہيں ترك كرنا اور جنكا حكم ديا ہے انكو انجام دينا) واجب ہے۔
متن:كوئي بھي باصلاحيت حكومت وہ ہوتي ہے جس كي اساس درج ذيل دو چيزوں پر ہو:
1) صحيح ماٴخذ سے شرعي طور پر ولايت حاصل كرے ۔
2) معاشري كي سعادت و خوشبختي اور معاشرتي مفادات اور مصلحتوں كے تحقق كي كفيل و ضامن ہو اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ وہ ولايت فقيہ جو شيعہ مكتب فكر سے مطابقت ركھنے والي ايك الہي حكومت ہے اس كي اساس بھي ان دو چيزوں پر استوار ہے؟
ہماري موجودہ بحث كا ہدف و مقصد اس بات كو ثابت كرناہے كہ ولايت فقيہ نبي و امام عليہ السلام كي ولايت كے تسلسل كا نام ہے ۔ مسلمانوں كے نزديك ولايت كا سرچشمہ ذات كردگار ہے جو ہرچيز كي خالق و موجد ہے خدا ہي حقيقي مولا ہے اور تمام لوگ اسكے بندے ہيں اور ان پر اسكے احكام كا اتباع كرنا (يعني خدا نے جن كاموں سے منع كيا ہے انہيں ترك كرنا اور جنكا حكم ديا ہے انكو انجام دينا) واجب ہے۔
ان ہي احكام ميں سے ايك يہ ہے كہ خداوندحكيم نے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو ولايت عطا فرما كر لوگوں كوآپكي پيروي كا حكم ديا ہے ارشاد رب العزت ہے "بے شك نبي تمام مومنين سے ان كے نفس كي نسبت زيادہ اولي ہے"102 شيعہ عقيدے كے مطابق (نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد) يہ ولايت آپكے معصوم جانشينوں كي طرف منتقل ہوگئي جن كے (ناموں) كي تصريح (روايات) ميں كي گئي ہے۔ 103
واضح ہے كہ ہماري بحث كا ہدف و مقصد اللہ تعالي اورنبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ولايت كوثابت كرنا نہيں ہےكيونكہ تمام مسلمان اسےقبول كرتے ہيں اورنہ ہي ائمہ اطہار عليھم السلام كي ولايت كوثابت كرنا ہمارا مقصودہے كيونكہ عالم تشيع ائمہ اطہارعليھم السلام كي ولايت كا صدق دل سے اقرار كرتا ہے (اس كے باري ميں مفصل بحث مسلمانوں اور شيعوں كے عقائد سے متعلق كتابوں ميں كي گئي ہے)
ہماري يہاں پر بحث، اسلام اور تشيع كے مباني كے باري ميں ہے تاكہ معلوم ہوسكے كہ كيا مذہب شيعہ كے پاس موجود دلائل يہ ثابت كرنے كي صلاحيت ركھتے ہيں كہ ولايت فقيہ كا سرچشمہ اور ماخذ اسلام اور وحي پروردگار ہے؟ ہم يہاں پر اس بات كي طرف اشارہ كرنا ضروري سمجھتے ہيں كہ اگر شيعوں كا يہ دعوي صحيح نہ ہو كہ نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے نص اور تصريح كے ذريعہ اپنے بعدانے والے خليفہ كو معين فرمايا ہے تو وہ اسلا مي نظام (جسے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بشريت كو دنيا وآخرت ميں سعادت مند و خوشبخت بنانے كے لئے لائے تھے) لامحالہ طور پر ناقص رہ جائے گا۔
پھر اس نقص كي دو ہي صورتيں ہوسكتي ہيں يا تو يہ نقص خدا كي طرف سے ہے يا پھر نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے تبليغ ميں كوتاہي كي ہے اور يہ بات اسلام كے مسلمات ميں سے ہے كہ خدا اور رسول اس سے بہت بالاتر ہيں كہ ان كي طرف اس نقص كي نسبت دي جائے۔
اب جبكہ ہم تفصيل سے جان چكے ہيں كہ اسلام ميں رسول خدا كے بعد شوري كو اسلامي حكومت كي بنياد اور اساس قرار نہيں ديا گيا ہے اور يہ بھي واضح ہے كہ ايك طرف سے بشريت كي سعادت و خوشبختي اور دوسري طرف سے اسلامي احكام كا نفاذ اس وقت تك ممكن نہيں ہے جب تك كہ ايك اسلامي حكومت نہ قائم كي جائے ساتھ ہي ساتھ يہ بھي طے ہے كہ اسلام نے رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد اسلامي حكومت كے لئے شوري اور نص كے علاوہ كوئي اور بنياد اور اساس نہيں قرار دي ہے اور شوري كو قبول نہيں كيا جاسكتا لہذا اب نص كا انكار اسلام يا مبلغ اسلام (رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) پر كوتاہي كي تہمت لگانے كا باعث بنے گا۔ 104
شيعہ معتقد ہيں كہ بارہويں امام حضرت مھدي عليہ السلام نے اپني غيبت صغري ميں چار افراد كو اپنا نائب قرار دياتھا اوران ميں سے ہر ايك كے نام كي تصريح خود حضرت نے فرمائي۔ وہ چار نائب يہ ہيں:
1) عثمان بن سعيد العمري
2) محمدبن عثمان العمرى
3) حسين بن روح النوبختى
4) علي بن محمد السمري۔
شيعہ روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ ان چار نائبوں كي مدت ختم ہوجانے كے بعد امام زمانہ عليہ السلام نے اپني نيابت و نمايندگي اور عمومي ولايت ان فقہا كو عطا فرمائي جن كے اندرآئندہ ذكر ہونے والي صفات پائي جاتي ہوں، فقہاء كے لئے عمومي ولايت كے ثبوت كا مطلب يہ نہيں ہے كہ فقہاء نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و امام عليہ السلام كي طرح تمام مومنين سے ان كے نفس كي نسبت زيادہ اولي ہيں ۔ ولايت سے اگر مومنين كے نفسوں پر اولويت مراد لي جائے تو نص كے مطابق ايسي ولايت صرف نبي اور امام عليہ السلام كے پاس ہے ليكن عرفي 105 طور پر ولايت كے دلائل (خواہ وہ والد كي اولاد پر ولايت سے متعلق ہوں خواہ فقيہ كي معاشري پر ولايت كے باري ميں ہوں) جو بات ذہن ميں آتي ہے وہ يہ ہے كہ اس سے مراد ايسي ولايت ہے جس كے ذريعہ مولي عليہ (جس پر ولايت حاصل ہے) كا نقص برطرف كيا جاسكے اور اس كے خاميوں كا علاج ہوسكے۔
ولايت فقيہ سے متعلق حضرت امام خمينى عليہ الرحمۃ كا بيان
متعدد شيعہ علماء نے فتوي ديا ہے كہ اس طرح كي عمومي ولايت اس فقيہ كو حاصل ہے جس كے
اندر روايات ميں ذكر شدہ صفات پائي جاتي ہوں ہم ان علماء ميں سے بہ طور خاص آيت اللہ العظميٰ امام الحاج سيد روح اللہ الموسوي الخميني عليہ الرحمۃ كا ذكر كريں گے جنہوں نے فقيہ كے لئے عمومي ولايت ثابت كي ہے اور ان كے نزديك اسلامي نظام حكومت اسي ولايت كي بنياد پر استوار ہے انہوں نے اپني كتاب "البيع" ميں اس موضوع پر سير حاصل بحث كي ہے ہم ان كي بحث سے بعض اقتسابات نقل كررہے ہيں امام خمينى عليہ الرحمۃ نے فرمايا: اسلام نے حكومت كي بنياد نہ تو استبداد پر ركھي ہے كہ جس ميں فرد كي راي اور اس كے ذاتي رجحانات معاشري پر مسلط ہوتے ہيں اور نہ ہي آئيني بادشاہت پر يا ايسي جمہوريت پر جو ايسے بشري قوانين كي بنياد پر قائم ہو جو انسانوں كي ايك جماعت كے نظريات اور افكار كو پوري معاشري پر مسلط كرتے ہيں، بلكہ اسلامي حكومت كي بنياد و اساس يہ ہے كہ زندگي كے تمام شعبوں ميں خدائي قوانين سے الہام و امداد لي جائے، كسي بھي حكمران كو اپني ذاتي راي مسلط كرنے كا حق حاصل نہيں ہے بلكہ حكومت اوراس كے مختلف شعبوں اور اداروں ميں جاري ہونے والے تمام قوانين حتي صاحبان امر كي اطاعت بھى، لازمي ہے كہ خدائي قانون كے مطابق ہو ۔ مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے فيصلے كرنے البتہ يہ چيز اپني راي مسلط كرنا نہيں كہلاتي بلكہ انہيں مسلمانوں كي مصلحت كے پيش نظر كئے جانے والے فيصلے شمار كياجاتا ہے اس اعتبار سے حاكم كي راي اس كے عمل كي طرح عوام كي مصلحت كے تابع ہوتي ہے ۔۔
اب حكمران (صاحبان ولايت) سے متعلق بحث باقي رہ گئي ہے مذہب حق (شيعہ) كے مطابق اس ميں كوئي اختلاف نہيں كہ نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد صاحبان امر و ولايت ائمہ اطہارعليھم السلام ہيں جو سيد الوصيين اميرالمومنين حضرت علي ابن ابي طالب عليہ السلام اور آپكي معصوم اولاد ہيں، يہ ائمہ اطہار يكے بعد ديگري اس دنيا ميں آتے رہے اور يہ سلسلہ زمانہ غيبت تك جاري رہا ان ائمہ اطہارعليھم السلام كے لئے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي عمومي ولايت اور كلي خلافت ہي كي طرح خدا كي طرف سے ولايت و خلافت قرار دي گئي ہے زمانہ غيبت كبري ميں ولايت و حكومت كسي فرد خاص كے لئے قرار نہيں دي گئي ہے ليكن عقل و نقل كے اعتبار سے كسي نہ كسي شكل ميں باقي رہنا بہرحال واجب ہے۔
جب اسلامي حكومت ايك قانوني حكومت ہے بلكہ خدائي قانون كي حكومت فقط يہي ہے اور اس حكومت كا واحد ہدف يہ ہے كہ قانون كے نفاذ كے ساتھ ساتھ لوگوں كے درميان خداپسند عدالت كا رواج ہے تو والي (حكمران) ميں دو صفتوں كا پايا جانا ضروري ہے جو قانوني حكومت كي بنياد و اساس ہيں كيونكہ ان كے بغير كسي بھي (اسلامي) قانوني حكومت كا وجود ميں انا ممكن ہي نہيں ہے وہ صفات يہ ہيں ۔
1) قانون كا علم۔
2) عدالت۔
علم كے وسيع دائري ميں لياقت اور شايستگي بھي شامل ہے كيونكہ اس ميں شك نہيں كہ ان دونوں كا ہونا بھي حاكم كے لئے ضروري ہے اگرآپچاہيں تو يوں كہہ سكتے ہيں كہ يہ صفتيں حكومت كي تين بنيادي شرطوں ميں سے تيسري شرط ہيں، ولايت كي بازگشت اس فقيہ عادل كي طرف ہے جو مسلمانوں پر ولايت (سرپرستي) كي صلاحيت ركھتا ہو اب چونكہ يہ ضروري ہے كہ حاكم، فقہ و عدالت سے بہرہ مندہو لہذا حكومت اور اسلامي حكومت كو تشكيل دينا دنيا كے تمام عادل فقہاء پرواجب كفائي ہوجاتا ہے اس اعتبار سے ان ميں سے كوئي ايك حكومت تشكيل دينے ميں كامياب ہوجائے تو بقيہ پر اس كي اطاعت واجب ہوجاتي ہے ۔
اور اگر حكومت كا قيام اس وقت تك ممكن ہي نہ ہو جب تك ساري فقہاء اكھٹے ہوكر اسے انجام نہ ديں تويہ كام اجتماعي طور پر ان پر واجب ہوجاتا ہے ۔ يعني سب كے لئے ضروري ہوجاتا ہے كہ مل كر حكومت تشكيل ديں اور اگر كسي بھي صورت ميں حكومت كي تشكيل ممكن نہ ہو (نہ انفرادي طور پر اور نہ ہي اجتماعي طور پر) تو فقہاء كا منصب ساقط نہيں ہوتا ۔ اگرچہ تشكيل حكومت كے سلسلے ميں ان كا عذر قابل قبول ہوتا ہے اس كے باوجود ان سب فقہاء كو بيت المال ميں تصرف كا حق بھي حاصل ہوتا ہے اور ان كے لئے حدود كا جاري كرنا (اگر ممكن ہو تو) واجب ہوجاتا ہے، اسي طرح صدقات لينا ٹيكس اور خمس كا وصول كرنا اور اسے مسلمانوں اور تنگ دست سادات وغيرہ اور اسلام و مسلمين كي دوسري ضروريات پوري كرنے كے لئے خرچ كرنا بھي واجب ہوجاتا ہے كيونكہ فقہا ء كو حكومتي امور ميں وہي ولايت حاصل ہے جو ولايت پيغمبراكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور آپكے بعد ائمہ اطہارعليھم السلام كو حاصل تھى، اور حكومت و سياست جيسے امور ميں فقہ عادل كو وہ تمام حقوق حاصل ہيں
جو رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار كوحاصل تھے
يہ امام خمينى كي عبارت سے چند اقتباس تھے جنہيں ہم نے نقل كيا ۔ 106
اس اعتبار سے اگر ولايت فقيہ كو اسلامي حكومت كي بنياد و اساس قرار دينے كے لئے (شيعوں
كے پاس) تام و كامل دليل ہو تو يہ چيز اس مذہب كي حقانيت پر ايك اور شاہد قرار پائے گي كيونكہ مذہب تشيع كے علاوہ بقيہ ساري مذاہب كي شريعت ميں موجودہ زمانے ميں اسلامي حكومت كي تشكيل كے لئے اسي شورائي نظام كے علاوہ كوئي اور بنياد و اساس نظر نہيں آتي جس كابطلان واضح وآشكار ہوچكا ہے لہذا ان كے نظريہ كا لازمہ يہ ہے كہ اسلام ميں نقص ہے يا پھر العياذ باللہ مبلغ اسلام (رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے تبليغ ميں كوتاہي كي ہے ۔
اب ہم ولايت فقيہ كي عمومي دليلوں كو پيش كريں گے ۔
دو طريقوں سے ولايت فقيہ كا اثبات:
اس ولايت كو ثابت كرنے كے دو طريقے ہيں پہلا طريقہ، يقيني اور حتمي امور كو انجام دينا:
اس بات كي وضاحت كے لئے درج ذيل دو نكات پر توجہ ضروري ہے:
 پہلا نكتہ
يہ بات واضح و روشن ہے كہ زمانہ غيبت ميں (امكاني صورت ميں) اسلامي حكومت كي تشكيل واجب ہے اگر اسلام كي فطرت (حقيقت) ميں معمولي غور فكر كيا جائے تو يہ امر واضح اور آشكار ہوجاتا ہے ۔اسماني اديان ميں سے سب سےآخري دين اسلام ہے جس كے ذريعے اللہ تعالي نےاسماني اديان پر خاتمے كي مہر لگائي ہے اسلام تمام اديان كے درميان بہترين اور كامل ترين دين ہے ۔
جسے رسول اعظم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس زمانے ميں لے كراي جسے زمانہ فترت (يعني رسولوں سے خالي زمانہ) كہا جاتا ہے جب انسانيت ترقي كركے اس مرحلے تك پہنچ چكي تھي كہ اس عظيم اور كامل رسالت كي ہدايت سے استفادہ كرے گزشتہ زمانہ سے انسانيت (كسي حد تك) درك و فہم، علم و معرفت اور احساس ذمہ داري كے اعتبار سے كامل اور قدرتمند ہوچكي تھي اس كے پس پردہ بہت سے اسباب كارفرماتھے ان ميں سب سے اہم سبب يہ تھا كہ انسانيت ايسي متعدداسماني اور خدائي رسالتوں كا زمانہ ديكھ چكي تھي جو كہ انبياكرام كے ذريعہ آئي تھيں اور كامل ترين اور عظيم رسالت يعني اسلام كے لئے تمہيد اور مقدمہ قرار پائي تھيں اسلام نےآكر وہ تمام چيزيں مہيا كيں جن كا انسان اپني سعادت و خوشبختي اور اپني روحي و معنوي ضرورتوں نيز علمي اور عملي ترقي اور نشوونما كے سلسلے ميں محتاج ہے ساتھ ہي ساتھ اسلام نے وہ چيزيں بھي فراہم كيں جو بشري نظام زندگي عبد و معبود كے روابط انسانوں كے باہمي تعلقات اور فرد كے اپني ذات پر حقوق سے متعلق ہيں اگر اس دعوي كي حقانيت كي بہترين دليل حاصل كرنے كے لئے كتاب و سنت ميں موجود احكام كادقت كے ساتھ مطالعہ كيا جائے اور ان كے باري ميں غور و خوض سے كام ليا جائے تو معلوم ہوجائے گا كہ يہ احكام جامع، وسيع اور تمام ابواب پر محيط ہيں اس بات كي تصريح و وضاحت متعدد احاديث ميں ہوئي ہے ان احاديث ميں سے چند حديثيں درج ذيل ہيں:
1) عن علي بن ابراھيم عن محمد بن عيسي عن يونس عن حماد عن ابي عبداللہ عليہ السلام قال سمعتہ يقول: مامن شي الا وفيہ كتاب او سنۃ 107 كافي ميں شيخ يعقوب كليني نے علي ابن ابراھيم سے انہوں نے محمد بن عيسي سے انہوں نے يونس سے انہوں نے حماد سے اور حماد نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا، حماد كہتے ہيں ميں نے سنا كہ آپنے فرمايا كوئي بھي چيز ايسي نہيں ہے كہ جس كے باري ميں كتاب و سنت ميں (ذكر) نہ كيا ہو
2) كافي ميں يعقوب كليني نے اصحاب كي ايك جماعت سےانہوں نے احمد بن محمد سے
عن عدۃ من اصحابنا عن احمد ابن محمد عن ابن فضال عن عاصم عن حميد عن ابي حمزہ ثمالي عن ابي جعفرعليہ السلام قال: خطب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم في حجۃ الوداع فقال: ياايھاالناس واللہ ما من شي يقربكم من الجنۃ و يباعدكم من النار الا وقد امرتكم بہ ومامن شي يقربكم من النار و يباعدكم من الجنۃ وقد نھيتكم عنہ۔۔۔) 108
ترجمہ: انہوں نے ابن فضال سے انہوں نے عاصم بن حميد سے انہوں نے ابوحمزہ ثمالي سے اور ابوحمزہ ثمالي نے امام محمدباقرعليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطبہ ديتے ہوئے فرمايا: اے لوگو! خدا كي قسم جن چيزوں كا ميں نے حكم ديا ہے ان كے علاوہ كوئي بھي چيز ايسي نہيں رہ گئي ہے جو تمہيں جہنم سے قريب اور جنت سے دور كرسكے ۔
مندرجہ بالا دونوں حديثيں سند كے اعتبار سے كامل ہيں۔
واضح ہے كہ دين اسلام اپني جامعيت اور وسعت كے ساتھ انساني زندگي كے مختلف شعبوں كو منظم كرنے كے لئےكيا ہے لہذا يہ ممكن نہيں ہے كہ يہ دين حكومت سے بے نياز ہوجائے كيونكہ حكومت ہي كے ذريعہ اسلام مكمل نافذ ہوسكتا ہے خود رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے زمانے ميں اسلامي حكومت كے سربراہ تھے امير المومنين علي عليہ السلام كو بھي جتني مہلت ملے اتنے دن آپ اسلامي حكومت كے سربراہ رہے امام حسن عليہ السلام صلح سے پہلے اسلامي حكومت كے سربراہ تھے امام حسين عليہ السلام نے بھي حكومت حق قائم كرنے كے لئے قيام كياتھا، البتہ يہ اس بات سے منافات نہيں ركھتي كہ آپكو اپني شہادت كا علم تھا اور يہ بھي علم تھا كہ آپكي شہادت سے دين حنيف كي نصرت ہوگى اسي طرح امام زمانہ (ارواحنا فداہ) بھي انشاء اللہ اسلام كي بنياد پرحكومت قائم كرنے كے لئے ظہورفرمائيں گے۔
فطرت (حقيقت) اسلام سے يہ بات سمجھ ميں آتي ہے كہ امكاني صورت ميں اسلامي حكومت كا قائم كرنا واجب ہے حضرت امام خمينى عليہ الرحمۃ اپني كتاب "البيع" ميں ارشاد فرماتے ہيں: وہ دليل جو امامت ائمہ عليہم السلام كے سلسلے ميں ہے بعينہ وہي دليل امام زمانہ عليہ السلام كي غيبت كے زمانے ميں حكومت كي ضرورت كو ثابت كرتي ہے خصوصاايسے حالات ميں جب كہ امام زمانہ عليہ السلام كي غيبت كو شروع ہوئے كافي عرصہ گذرچكا ہے شايد اب بھي يہ غيبت كئي سال تك باقي رہے كيونكہ اس كا علم صرف خدا كے پاس ہے 109
دوسرا نكتہ
جيسا كہ جمہوريت كي بحث ميں بيان كيا گيا تھا كہ چونكہ حكومت كي اساس عمومي ولايت پر ہوئي ہے لہذا اسلام (جس كے لئے امت كي قيادت كرنا اور امت كو ساحل سعادت و خوشبختي اور خير و صلاح تك پہنچانا فقط حكومت كے ذريعے ہي ممكن ہے) كے ذريعے قائم ہونے والي حكومت ميں بھي يقينا عمومي ولايت پائي جاتي ہے اور اگر يہ شك ہوجائے كہ يہ ولايت كس كو حاصل ہے تو اس صورت ميں قدرمتيقن (يقيني مقدار) پر اكتفاكرنا واجب ہوجائےگا كيونكہ كسي بھي انسان كي كسي دوسري انسان پر ولايت، اسلامي اصولوں اورابتدائي قواعد (قواعد اوليہ) كےخلاف ہے 110 واضح ہے كہ ايسي صورت ميں قدر متيقن يہ ہے كہ يہ ولايت اس شخص كے حصے ميں آئےگي جس ميں درج ذيل مخصوص صفات پائي جاتي ہوں:
1) اسلام كےاحكام كي معرفت اس كامطلب يہ ہے كہ معاشرے كا ولي (سرپرست وحكمران) فقيہ ہو
2) عدالت
3) لياقت
امور حكومت كو چلانے كي اہليت و لياقت ركھتا ہو) لہذا معاشري كا ولي ايسا فقيہ ہوگا جو عادل اور باصلاحيت (لائق) ہو۔يہ تھا ولايت فقيہ كو ثابت كرنے كا پہلا طريقہ مگر يہ طريقہ صحيح نہيں ہے كيونكہ قدر متيقن كو اخذ كرنے كا تصور وہاں پر ہوتا ہے جہاں امر دو چيزوں كے درميان مشتبہ ہوجبكہ ان دو چيزوں ميں سے ايك كا دائرہ وسيع ہو اور دوسري كا دائرہ تنگ ہو كہ وہ وسيع دائري ميں شامل ہو 111 ايسے موقع پر قدر متيقن كا يہ تقاضا ہوتا ہے كہ تنگ دائرہ كو لے ليا جاتا ہے يعني اس تنگ دائرہ ميں اس حكم كا ثبوت يقيني ہوتا ہے ليكن جب حالت يہ ہو كہ امر ايسي دو عدد چيزوں كے درميان مشتبہ ہو اور ان كے درميان تباين اور اختلاف پايا جاتا ہو تو اس صورت ميں قدر متقين كا فرضيہ بے معني ہوجاتا ہے ۔
ہماري بحث بھي اسي دوسري قسم ميں شامل ہے كيونكہ جس طرح ہم يہ احتمال ديتے ہيں كہ عمومي ولايت، فقيہ كے ہاتھ ميں ہوتي ہے اسي طرح يہ احتمال بھي پايا جاتاہے كہ مذكورہ ولايت، (بہت سے ميدانوں اور شعبوں ميں) اكثرت كے ہاتھ ميں ہوسكتي ہے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ قوانين كے فقہي پہلوؤں پر فقيہ كي كڑي نظارت ہو، تاكہ يہ ضمانت فراہم كي جاسكے كہ قوانين، شريعت اسلامي سے مطابقت ركھتے ہوں اس قسم كي نظارت ايك دوسرا موضوع ہے جو فقيہ كي عمومي ولايت سے الگ ہے ۔
اسي طرح ہم يہ بھي ملاحظہ كرتے ہيں كہ انساني معاشرہ ميں بہت سے حياتي اور بے پناہ اہميت كے حامل شعبے پائے جاتے ہيں جن ميں سے ہر ايك كے لئےماہر افراد ہوتے ہيں اس سلسلے ميں فقيہ كي ولايت كے قائل افراد يہ احتمال ديتے ہيں كہ فقيہ كو (ان شعبوں ميں بھي) عمومي ولايت حاصل ہوتي ہے اور وہ ان شعبوں كے نقائص كو انہي شعبوں كےماہرين پر بھروسہ كرتے ہوئے دور كرتا ہے ۔ ليكن اس كے برعكس يہ احتمال بھي ديا جاسكتا ہے كہ خود ان شعبوں كےماہرين كو ولايت حاصل ہوتي ہے اور ان كے لئے ضروري ہوتا ہے كہ فقہ سے متعلق مسائل ميں فقيہ كي طرف رجوع كريں ۔ظاہر ہے كہ اس اعتبار سے يقيني اور حتمي امور كو انجام دينے كے نظرئيے ميں اختلاف نظر سے اس كے عملي نتائج ميں بھي اختلاف پيدا ہوجائے گا۔
دوسرا طريقہ: روايات سے تمسك
دوسرا طريقہ يہ ہے كہ اس سلسلے ميں موجود روايات سے تمسك كيا جائے اس موضوع سے متعلق سب سے عمدہ روايات يہ ہيں:
پہلي روايت
الروايات التي ذكرت قولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم"اللھم ارحم خلفائى: قيل، يارسول اللہ ومن خلفاؤك، قال: الذين ياتون من بعدي يروون حديثي و سنتي وزاد بعضھا، ثم يعلمونھا في بعض، فيعلمونھا الناس من بعدي۔ 112
يہ روايت متعدد طريقوں سے نقل ہوئي ہے جس ميں رسول خدا كا يہ قول ذكر ہوا ہے "اے خدا ميري خلفاء پر رحم فرما كہا گيا ! اے رسول اللہ آپكے خلفاء كون ہيں؟ آپنے فرمايا جو ميري بعدآئيں گے اور ميري حديث اور ميري سنت كو نقل كريں گے بعض روايات ميں اس جملے كا اضافہ ہے "پھر ميري سنت كي تعليم ديں گے "جبكہ بعض روايات ميں يوں نقل ہوا ہے پھر ميرے بعد لوگوں كو ميري سنت كي تعليم ديں گے ۔
اگر يہ مان لياجائے كہ يہ تمام روايات سند كے اعتبار سے كامل ہيں (چونكہ ان كے باري ميں دعوي ہے كہ اس قسم كي روايات استفاضہ 113 كي حد تك پہنچي ہوئي ہيں) ليكن پھر بھي ان كي دلالت كامل نہيں ہے كيونكہ ان روايات سے استدلال كے لئے زيادہ سے زيادہ يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان سے خلافت مطلق (قيد و شرط كے بغير خلافت) ثابت ہوتي ہے لہذا جن كے باري ميں يہ شبہ ہو كہ كيا ان كو رسول خدا نے خلافت عطا فرمائي تھي يا نہيں تو وہاں پر ان روايات كے اطلاق سے تمسك كر كے ان كے لئے ولايت مطلقہ كو ثابت كيا جاسكتا ہے۔
اس بات كي طرف توجہ كرني چاہيئے كہ اطلاق ہميشہ شمول اور سرايت كا موجب بنتا ہے ليكن محمول ميں اطلاق جاري نہيں ہوسكتا (يعني اطلاق كبھي بھي محمول ميں شمول اور سرايت كا موجب نہيں بنتا) مثلا اگر كہا جائے زيد عالم، زيد عالم ہے تو يہ قضيہ اپنے اطلاق كے ذريعہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ہر وہ چيز جس كے متعلق عالم ہونے كا احتمال ديا جائے زيد اس كا عالم ہے اگر كہا جائے فلاں شخص كي غذا نفع بخش ہے 114 تو يہ جملہ تمام احتمالي منفعتوں كے ثبوت پر دلالت نہيں كرتا كيونكہ محمول كي حالت اس كے موضوع كي حالت كي طرح نہيں ہے جس ميں اطلاق جاري ہوتا ہے اور سرايت كا سبب بنتا ہے جب كہا جائے "النار حارہ" آگ گرم ہے تو اطلاق كا تقاضہ يہ ہے كہ آگ كي تمام قسميں گرم ہيں ۔
اس سلسلے ميں تفصيلي گفتگو علم اصول ميں كي جاتي ہے وہاں مراجعہ كيا جائے ہماري اس بيان سے يہ واضح ہوجاتا ہے كہ ان روايات سے خلافت ثابت نہيں ہوتي اور جو خلافت ثابت ہوتي ہے وہ اجمالي ہے جس كا قدر متيقن يہ ہے كہ يہ خلافت تعليم و ارشادا و رراہنمائي كے سلسلے ميں ہے گويا يہ روايات راويوں، روايت اور راہنمائي و ارشاد كي عظمت كو بيان كررہي ہے اور اس روايت ميں اس عمل كو رسول خدا كي خلافت قرار ديا گيا ہے ۔
جب يہ روشن ہوگىا كہ كس نكتے كي بنياد پر محمول ميں اس معني كے ساتھ اطلاق نہيں ہوسكتا، تو اب اس بات كي ضرورت نہيں رہ گئي كہ كس قسم كي روايات (جن كا ذكر ابھي انے والا ہے) كے متعلق دلالت، سنداور متن كے اعتبار سے بحث كر كے كلام كو طولاني كيا جائے 115 وہ روايات درج ذيل ہيں:
1) رسول خداكا ارشاد گرامي ہے: ان العلماء ورثۃ الانبياء 116 علما انبياء كے وارث ہيں ۔
2) آپ كا ارشاد ہے: الفقہاء امناالرسل مالم يدخلوافي الدنيا 117 فقہاء رسولوں كے امين ہيں جب تك كہ دنيا ميں داخل نہ ہوجائيں۔
3) امام موسيٰ كاظم عليہ السلام كاقول ہے: ان المومنين الفقھاء حصون الاسلام كحصن سورالمدينۃ لھا 118
وہ مومن جو فقيہ ہوں اسلام كے محكم قلعے ہيں جس طرح پتھر كي ديوار شہر كے لئے محكم قلعہ ہوتي ہے۔
دوسري روايت
كتاب تحف العقول ميں يہ روايت ہے كہ:
عن سيد الشہداء حسين ابن علي عن اميرالمومنين علي عليہ السلام وقد جاء فيھا مجاري الامور والاحكام علي ايد العلماء باللہ الامناء علي حلالہ و حرامہ 119
سيدالشھداء امام حسين عليہ السلام نے اميرالمومنين علي عليہ السلام سے نقل كيا ہے"تمام امورواحكام كي باگ ڈورعلماء رباني كے ہاتھوں ميں ہے جو كہ خدا كے حلال وحرام كے امين ہيں"
يہ روايت دلالت كے اعتبار سے عبدالواحد احمدي كي اس روايت سے زيادہ قوي ہے جسے انہوں نے اپني كتاب غرر الحكم ميں اميرالمومنين علي سے نقل كيا ہےآپنے فرمايا: عن اميرالمومنين عليہ السلام قال "العلماء حكام علي الناس (علماء لوگوں پر حاكم ہيں) 120 يہ دونوں روايتيں سند كے اعتبار سے ناقابل عمل ہيں۔
بعض اوقات دوسري روايت كي دلالت ميں اشكال كيا جاتا ہے كہ روايت ميں لفظ حكام موضوع نہيں ہے بلكہ محمول واقع ہوئي ہے لہذا محمول ميں اطلاق كے جاري و ساري ہونے كا موجب نہيں بنے گا۔
اس اشكال كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ جب خطاب كے وقت قدرمتيقن نہ پايا جاتا ہو اور اطلاق بدلي بھي معقول ہو ساتھ ہي ساتھ امر ان دو چيزوں كے درميان منحصر ہو اطلاق شمولي روايت مہمل ہو اور قضيہ بھي ايسا ہو كہ جس ميں فقط خبر نہ دي جارہي ہو بلكہ اس قضيہ ميں حكم بيان ہورہا ہو تو ايسي صورت ميں عرف اس سے اطلاق سمجھتا ہے ۔
يہ جواب قابل قبول نہيں ہے كيونكہ جو مقدار يقيني ہے وہ يہ ہے كہ فقہاء كو تطبيق ميں ولايت حاصل ہے مثلا اگر دولوگ ايك دوسري كے خلاف مقدمہ دائر كريں تو فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ جو شخص حق پر نہ ہو اس پر حدود اور احكام كا نفاذ كرے فقيہ كو اس سے زيادہ ولايت حاصل نہيں ہے تاكہ وہ غير ضروري كو ضروري كرسكے يعني جو چيزعنوان اولي كے اعتبار سے غير ضروري ہو اسے ضروري قرار دے سكے كبھي يہ بھي اشكال كيا جاسكتا ہے كہ اتني مقدار (حدود و احكام كي تطبيق و نفاذ) بھي مقام خطاب ميں يقيني نہيں ہے
تيسري روايت
تيسري روايت"ما رواہ الكليني عليہ الرحمۃ عن محمد بن يحيٰ عن محمد بن الحسين عن محمد بن عيسيٰ عن صفوان بن يحيٰ عن داؤد بن الحصين عمر بن حنظلہ قال: سئلت اباعبداللہ عليہ السلام عن رجلين من اصحابنا بينھما منازعۃ في دين اوميراث فتحاكما الي السلطان والي القضاۃ ايحل ذالك؟ قال: من تحاكم اليھم في حق او باطل فانما تحاكم الي الطاغوت ومايحكم فانما ياخذ سحتاوان كان حقا ثابتاً لہ لانہ اخذہ بحكم الطاغوت وما امر اللہ ان يكفربہ قلت: فكيف يضعان؟ قال:
ينظر ان من كان منكم ممن قد روي حديثنا و نظر في حلالنا وحرامنا و عرف احكامنا فليرضوابہ حكما فاني قد جعلتہ عليكم حاكما فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانما استحف بحكم اللہ علينا رد والراد علينا الراد علي اللہ وھو علي حد الشرك باللہ۔
شيخ كليني عليہ الرحمۃ نے محمد بن يحي سے انھوں نے محمد بن الحسين سے انھوں نے محمد بن عيسيٰ سے انھوں نے صفوان بن يحيٰسے انھوں نے داؤد بن حصين سے اور انھوں نے عمر بن حنظلہ سے نقل كيا ہے، عمر بن حنظلہ كا كہنا ہے: ميں نے امام صادق عليہ السلام سے ہماري مسلك كے اصحاب كے باري ميں سوال كيا جن كے درميان قرض يا وراثت كے سلسلے ميں اختلاف ہو گيا تھا اور وہ دونوں اپنے شكايت حاكم وقت اور اس كے قاضيوں كے پاس لے گئے تھے تو كيا يہ كام جائز ہے؟ حضرت نے فرمايا: جس نے حق يا باطل ميں سے كسي كے لئے ان كي طرف رجوع كيا تو بيشك اس نے طاغوت كي طرف رجوع كيااور وہ (قاضي يا حاكم) جو حكم كرے گا اس حكم كے نتيجہ ميں حاصل ہونے والا مال ناحق اور ناجائز ہوگا۔اگر چہ حقيقتاً يہ مال اس شخص كا حق ہي كيوں نہ ہو كيونكہ اس نے طاغوت كے حكم كے ذريعے يہ مال حاصل كيا ہے، ميں نے كہا: پھر وہ كياكريں؟ حضرت نے فرمايا: وہ دونوں ڈھونڈتے كہ تم ميں سے جو ہماري احاديث كو نقل كرنے والا ہو ہماري حلال و حرام سےآگاہ ہو اور ہماري احكام كو جانتا ہو، تو اسے حاكم تسليم كرتے ميں نے اس شخص (ان صفات كے حامل مجتہد) كو تم لوگوں پر حاكم قرار ديا ہے، اگر وہ ہماے احكام كے مطابق فيصلہ كرے اور اس كا فيصلہ قبول نہ كيا جائے تو يہ حكم خدا كي اہميت كو كم كرنے اور ہماري بات كو رد كرنے اور ٹھكرانے كے برابر ہوگا اور جو ہميں ٹھكراي گا اس نے خدا كو ٹھكركيا اور جس نے خدا كو ٹھكركيا اس نے شرك اختيار كيا۔
اس روايت كو شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے اپنے سند كے ساتھ محمد بن يحيٰ سے نقل كيا ہے اور انھوں نے محمد بن الحسن بن شمون سے اور انھوں نے محمد بن عيسي ... سے نقل كيا ہے۔ 121
شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے اپنے سند كے ساتھ محمد بن علي بن محبوب سے انھوں نے محمد بن عيسيٰ سے اسي طرح نقل كيا ہے۔ 122 اوران تين سندوں ميں سے پہلي اور تيسري سند كامل ہے۔ 123
روايت عمربن حنظلہ كي دلالت
پہلا استدلال
دلالت كي بحث ميں بعض اوقات حضرت كے قول "فاني جعلتہ حاكما"كے اطلاق سے استدلال كيا جاتا ہے ليكن اس استدلال ميں وہي اشكال پايا جاتا ہے جو گذشتہ روايت ميں تھا وہ يہ كہ محمول ميں اطلاق جاري نہيں ہو تا (كيونكہ اطلاق شمول و عموم نہيں ركھتا) اور اگر قدر متيقن كو اخذ كيا جائے تو حديث كے موقع ومحل كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہا جائے گا كہ ولايت كي يقيني مقدار يہ ہے كہ فقہاء كو باب قضاوت ميں اور نزاع و اختلاف كو حل مرنے كے سلسلہ ميں ولايت حاصل ہے ۔ 124
دوسرا استدلال
بعض اوقات مذكورہ روايت سے استدلال كرتے وقت حضرت كے اس قول مبارك"فاذاحكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانما استخف بحكم اللہ"كے اطلاق 125 سے استفا دہ كيا جاتا ہے ليكن اس استدلال ميں يہ اعتراض ہے كہ عرف ميں اس بات كا احتمال پايا جاتا ہے كہ حضرت كے اس قول "اذاحكم "جب وہ حكم كرے "ميں موجد ضمير "ھو" اس حاكم كي طرف پلٹ رہي ہے جس كے پاس وہ دونوں افراد اپني شكايت اور اپنا مقدمہ لے كے گئے تھے۔
اس احتمال كے مطابق عرفي طورپر حضرت كے اس قول سے يہ مفہوم ليا جائے گا كہ "جب وہ ہماري حكم كے ذريعے نزاع و اختلا ف كو حل كرے اور فيصلہ كرے اور اس كے فيصلہ كو قبول نہ كيا جائے تو يہ خدا كے حكم كو كم اہميت اور سبك شمار كرنے كے برابر ہے، اس طرح مذكورہ روايت سے فقيہ كے لئے ولايت مطلقہ كو ثابت نہيں كيا جا سكتا ۔ 126
چوتھي روايت: "ما جاء في كتاب "اكمال الدين واتمام النعمۃ " عن محمدبن محمد بن عصام عن محمد بن يعقوب عن اسحٰق بن يعقوب قال: ساٴلت محمد بن عثمان العمري اٴم يوصل لي كتابا سئلت في عن مسائل اشكلت على، فوردالتوقيع بخط مولاناصاحب الزمان عليہ السلام: اما ما سئلت عنہ ارشدك اللہ وثبتك الي ان قال: واماالحوادث الواقعہ فارجعوا فيھا الي رواۃ احاديثنا فانھم حجتي عليكم وانا حجۃ اللہ "۔
"اكمال الدين واتمام النعمۃ" ميں صاحب كتاب نے محمد بن محمد بن عصام سے انھوں نے محمد بن يعقوب سے انھوں نے اسحٰق بن يعقو ب سے نقل كيا ہے كہ وہ كہتے ہين: ميں نے محمد بن عثمان سے كہا كہ وہ ميري خاطر (يہ زحمت كريں كہ ميري) ايك خط كو پہچاديں جس ميں، ميں نے ان مسائل كے باري ميں سوال كيا تھا جو ميري لئے واضح نہيں تھے پھر ہماري موليٰ صاحب الزمان عليہ السلام كے دست مبارك سے تحرير كي ہوئي توتوقيع 127 مجھ تك پہنچي (جس ميں لكھاتھا): اورجس چيز كے متعلق تم نے سوال كيا ہے خداوند تمہاري ہدايت كرے اور تمہيں ثابت قدم ركھے...يہاں تك كہ حضرت نے فرمايا: اور پيش انے والے حوادث و واقعات ميں ہماري احاديث نقل كرنے والوں كي طرف رجوع كرو وہ تم پر ميري حجت ہيں اور ميں حجت خدا ہوں۔
اس روايت كو شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے كتاب "الغيبۃ"ميں ايك جماعت سے نقل كيا ہے اور اس جماعت نے جعفر بن محمد بن قولويہ اور ابو غالب رازي سے نقل كيا ہے ۔ساتھ ہي ساتھ يہ روايت ان دو كے علاوہ دوسرون سے بھي نقل ہوئي ہے اور ان سب نے محمد بن يعقوب سے نقل كيا ہے اس روايت كو طبرسي نے بھي اپني كتاب "الاحتجاج"ميں اطر ح نقل كيا ہے۔ 128
اس روايت كي دوسري سند نقل كے اعتبار سے اسحاق بن يعقوب تك تقريباً يقيني ہے كيونكہ روايت كو ايك جماعت 129 نے ايك دوسري جماعت 130 سے اوراس جماعت نے شيخ كليني عليہ الرحمۃ سے نقل كيا ہے اور پہلي سند بھي اس كو اور قوي كر رہي ہے پس اس روايت كا شيخ كليني عليہ الرحمۃ سے نقل كيا جانا شخصي اطمينان كا باعث ہے ۔پھر شيخ كليني نے يہ روايت ايك شخص يعني اسحاق بن يعقوب كے واسطہ سے امام زمانہ عليہ السلام سے نقل كي ہے، سند ميں نقص يہ ہے كہ اسحاق بن يعقوب كا نام علماء رجال نے اپني كتابوں ميں نقل نہيں كيا ہے لہٰذا كيا يہ شخص مجہول الحال شمار كيا جائے گاجب كہ يہ شخصيت اتني عظيم الشان ہے كہ ان كے باري ميں شيخ كليني نے نقل كيا ہے كہ ان كے پاس امام زمانہ عليہ السلام كي توقيع مبارك آئي تھي۔لہٰذا اس صورت ميں اس جھوٹ اور كوتاہي كے باري ميں يوں بحث كي جائے گي ۔پہلي دفعہ اس شخصيت كے سلسلے ميں جھوٹ يا كوتاہي كا احتمال خود تو قيع كے صادر ہونے باري ميں ہے اور دسري دفعہ اس توقيع كے جملوں اور خصوصيات كے سلسلے ميں ہے ۔
ليكن پہلا فرضيہ بہت بعيد ہے كيونكہ يہ احتمال قابل توجہ نہيں ہے كہ شيخ كليني سے يہ بات چھپي رہي ہو كہ ان كے زمانے ميں كوئي شخص توقيع كا جھوٹا دعويٰ كررہا ہے، يعني توقيع كے باري ميں جھوٹے دعويٰ كا احتمال شيخ كليني كے لئے اس حد تك قابل اعتناء نہيں تھاكہ انھيں اس كے نقل كرنے سے روك ديتا، خصوصاً جب اس باب كو بھي ملحوظ خاطر ركھا جائے كہ معمولاً امام زمانہ عليہ السلام كي توقيع مبارك فقط خاص افراد كے لئے صادر ہو ئي تھى، كيونكہ اس وقت تك امام عليہ السلام كي غيبت كے زمانہ شروع ہو چكا تھا اور آپ معاشري اور خليفہ سے مخفي تھے، اس زمانے ميں تقيہ كي شدت كا يہ حال تھا كہ امام عليہ السلام نے لوگوں كے لئےآپكا نام لينا تك حرام قرار ديديا تھا، اگر چہ يہ حكم اس لئے تھا تاكہ لوگوں كي جان ومال كي حفاظت ہو سكے۔كيونكہ اگرامام عليہ السلام كا نام ليا جاتا تو اس شخص كو حاكم وقت كے پاس طلب كيا جاتا۔ان حالات ميں يہ بات كيسے تصور كي جاسكتي ہے كہ خاص افراد كے علاوہ كسي اور كے لئےآپكي توقيع مبارك صادر ہو؟! اور يہ كيسے فرض كيا جاسكتا ہے كہ شيخ كليني اپنے زمانے كے خواص كو عوام سے تميز دينے پر قادر نہيں تھے؟ يا يہ تصور كيسے ممكن ہے كہ خواص ميں سے كسي ايك كي طرف سے ايك مكمل توقيع جعل كي گئي ہو؟
كتاب "الغيبۃ"ہي ميں ايك اور جگہ ص22۰ پر اس حديث كي سند ذكر ہوئي ہے ليكن متن حديث كا ذكر نہيں ہے ۔اس سند ميں لفظ "وغيرھما" كے بجائے لفظ"وابي محمد التلعكبري" ذكر ہوئي ہے ۔يہ تينوں (جعفر بن محمد بن قولويہ ابو غالب رازي اور ابو محمد التلعكبري) ثقہ اور جليل القدر ہيں۔ليكن دوسري فرضيہ ميں جب يہ ثابت ہے كہ اصل نص (توقيع) كي بنا پر جھوٹ و بہتان پر نہيں تھي اور توقيع فقط خاص افراد كے لئے صادر ہوتي تھي تو پھر كيفيت نقل ميں كوتاہي عام طور پر درج ذيل صورتوں ہي ميں ممكن ہے:
(1) توقيع ميں تبديلي كسي اہم ذاتي مصحلت كي وجہ سے كي گئي ہو، ليكن ہماري محبت ميں ايسي كسي مصلحت كا كوئي تصورنہيں ہے۔
(2) نسيان يا شك و ترديد وغيرہ كي وجہ سے نقل كرنے ميں كوتاہي ہوئي ہو اور دقت سے كام نہ ليا گيا ہو، عام طور پر يہ چيز زباني نقل ميں پائي جاتي ہے ليكن اگر كتبي شكل ميں
نقل كيا جا ئے تو يہ چيز قابل تصور نہيں ہے، لہٰذا اب بڑے ہي اطمينان سے يہ دعويٰ كيا جا سكتا ہے كہ يقيناً اسحاق بن يعقوب نے اس روايت كے سلسلے ميں جھوٹ سے كام نہيں ليا، اوراس بات كا بھي يقين ہے كہ نہ تو اصل توقيع كے صادر ہونے ميں اور نہ ہي توقيع كي بعض خصو صيات ميں ايسا ہو اہے۔ 131 يہاں تك تو حديث كي سند كي كيفيت كے باري ميں بحث تھي۔
روايت كي دلالت: يہ روايت دلالت كے اعتبار سے كامل ہے كيونكہ عرف كي نگاہ ميں امام عليہ السلام كے اس جملے فانھم حجتي عليكم" ميں مناسبات مقام كي وجہ سے اطلاق پاياجاتا ہے، يعني امام عليہ السلام تمام ميدانوں اور تمام صورتوں ميں اہل بيت عليھم السلام كي حديث نقل كرنے والوں كي طرف رجوع كرنے كاحكم دے رہے ہيں ۔كيونكہ ارشاد وہدايت اور موقف عملي كي تعيين و تشخيص كے لئے امام كي طرف رجوع كيا جاتا ہے، اور يہ (راويان احاديث=فقہاء) امام عليہ السلام كي طرف سے لوگوں پر حجت ہيں ۔كيا اس كا مطلب (فقيہ كي) ولايت عامہ كے علاوہ كچھ اور ہو سكتا ہے؟ 132
پانچويں روايت: يہ روايت اصول كافى ميں محمد بن عبداللہ (حميري) ومحمد بن يحي (عطار) سے نقل ہوئي ہے كہ جسے ان دونوں نے عبد ابن جعفر حميري سے نقل كيا ہے ۔عبد اللہ بن جعفر حميري كہتے ہيں:
ميں اور شيخ ابو عمر و عثمان بن سعيد عمري رحمۃ اللہ عليہ احمدبن عبد اسحاق كے پاس آئے ہوئے تھے اس وقت احمد بن اسحاق نے اشارہ كيا كہ ميں عثمان بن سعيد عمري سے امام عسكرے كا نائب و جانشين كے متعلق سوال كروں، ميں نے ان سے كہا: اے ابو عمرو!آپ سے ايك چيز كے باري ميں پوچھنا چاہتا ہوں البتہ جس چيز كے متعلق سوال كر رہا ہوں مجھے اس ميں كوئي شك وشبہ نہيں ہے، ميرا عقيدہ اور دين يہ ہے كہ زمين حجت خدا سے خالي نہيں رہ سكتي سوائے ان چاليس دنوں كے جو قيامت سے پہلےآئيں گے جب حجت خدا كو زمين سے اٹھا ليا جائے گا اور توبہ كا دروازہ بند ہو جائے گا، جو لوگ اس وقت تك ايمان نہيں لائے ہوں گے اور جنھوں نے ايمان كے ساتھ نيك عمل نہيں گئے ہوں گے ا ب ان كا ايمان لانا انھيں كوئي فائدہ نہيں پہنچائے گا، يہ لوگ خدا كي بد ترين مخلوق ہوں گے اور ان پر ہي قيامت برپا ہوگى ۔ميں يہ سوال صرف اپنے يقين ميں اضافے كي خاطر كر رہاہوں، ابراہيم عليہ السلام نے خدا سے درخواست كي كہ اے خدا!مجھے يہ دكھلا دے كہ تو كيسے مردوں كو زندہ كرتا ہے؟ خدا نے فرمايا: كيا تم (اس پر) ايمان نہيں ركھتے ہو؟ ابراہيم عليہ السلام نے فرمايا: (ايمان تو ركھتا ہوں) ليكن اطميان قلب كي خاطر (سوال كررہا ہوں) ۔
ميري لئے ابو احمد بن اسحاق نے امام علي نقي عليہ السلام سے نقل كيا ہے ۔احمد بن اسحاق كہتے ہيں ميں نے امام علي نقي عليہ السلام سے پوچھا: ميں كس سے رابطہ ركھوں؟ كس سے احكام وغيرہ لوں؟ اور كس كا قول قبول كروں؟ امام عليہ السلام نے فرمايا: عمري ميرا قابل اعتماد شخص ہے وہ جو كچھ ہماري طرف نسبت ديتے ہوئے تم تك پہنچائے گا وہ درحقيقت ہماري ہي طرف سے ہوگا اور ہماري طرف سے جو كچھ تم سے كہے گا وہ حقيقۃً ہماري ہي طرف سے ہوگا۔اس كي باتوں كو سنواور اس كي اطاعت كرو (كيونكہ) وہ ہماري نگاہ ميں قابل اعتماد اورامين ہے ۔
مجھے ابو علي نے بتايا ہے كہ انھوں نے امام حسن عسكرے عليہ السلام سے مندرجہ بالا سوال كئے تو امام حسن عسكرے عليہ السلام نے ابو علي كے جواب ميں فرمايا: عمري اور اسكا بيٹا قابل اعتماد ہيں، يہ دونوں ہماري طرف سے جو كچھ تم تك پہنچائيں (نقل كريں) وہ ہماري طرف سے پہنچاتے ہيں جو كچھ ہماري طرف سے تم سے كہتے ہيں وہ واقعاً ہماري طرف سے كہتے ہيں، ان دونوں كي بات غور سے سنو اور ان دونوں كي اطاعت كرو كيونكہ يہ دونوں قابل اطمينان اور امين ہيں، يہ آپ (عمري) كے باري ميں ان دواماموں كا ارشاد تھا جو دنيا سے رحلت فرماچكے ہيں، عبد اللہ بن حميري كہتے ہيں (يہ سن كر) ابو عمر وعثمان بن سعيد عمري روتے ہوئے سجدے ميں گر گئے، پھر مجھ سے كہنے لگے اپنا سوال بيان كرو، ميں نے ان سے كہا
كياآپنے امام حسن عسكرے عليہ السلام كے جانشين كو ديكھا ہے؟ انھوں نے كہا خدا كي قسم ميں نے ديكھا ہے ان كي مبارك گردن اس طرح ہے (انھوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ كيا) پھر ميں نے
ان سے كہا: فقط ايك سوال اور رہ گيا ہے انھوں نے كہا: بيان كرو ميں نے كہا: ان (امام عسكرے عليہ السلام) كے جانشين كانام كيا ہے؟ انھوں نے جواب ديا: ان كے نام كے باري ميں سوال كرنا تم لوگوں پر حرام ہے يہ بات ميں اپنے طرف سے نہيں كہہ رہا ہوں كيونكہ مجھے كسي چيز كو حلال يا حرام كرنے كا حق حاصل نہيں ہے، ميں يہ (حكم) خود امام زمانہ عليہ السلام كي طرف نقل كر رہاہوں، حاكم وقت كو يہ اطلاع ملي ہے كہ امام حسن عسكرے عليہ السلام اس دنيا سے رحلت كر چكے ہيں اور ان كي كوئي اولاد نہيں ۔
لہٰذا اس نے امام حسن عسكرے عليہ السلام كي ميراث تقسيم كر دي ہے، اس طرح انحضرت كي ميراث اس نے حاصل كي ہے جو حقدار 133 نہ تھا، اس وقت حضرت كا خاندان در بدر ہے اور كسي ميں يہ جراٴت نہيں كہ ان كے سامنے اپنا تعارف كروائے يا ان تك كوئي چيز پہنچائے، اگر حضرت كا نام ليا جائے تو حاكم وقت انھيں ڈھونڈ ھنے لگے گا لہٰذا خدا كا تقويٰ اختيار كرو اور آپكا نام پوچھنے سے گريز كرو۔
شيخ كليني عليہ الرحمۃ فرماتے ہيں: ہماري اصحاب ميں سے ايك شيخ 134 (جن كا نام ميں بھو ل گيا ہوں) نے ميري لئے نقل كيا ہے كہ ابو عمرو نے احمد بن اسحاق سے اس طرح كے سوال كئے تھے اور انھوں نے اسي طرح كے جواب ديئے تھے ۔ 135
اس حديث كي سند تو اعليٰ درجے تك معتبر ہے ۔ (ليكن دلالت كے باري ميں ابھي بحث كي جائے گي)
روايت كي دلالت: روايت كي دلالت اس بات پرموقوف ہے كہ كلمہ "اطعہ " اس كي اطاعت كرو"اور "اطعھما" ان دو كي اطاعت كرو "سے عمري اور ان كے بيٹے كي اطاعت كو ان تمام صورتوں ميں واجب سمجھا جائے جب وہ كسي بھي طرح كا حكم ديں۔
امام عليہ السلام نے عمري اور ان كے بيٹے كي اطاعت كا حكم فقط اس صورت ميں نہيں ديا ہے كہ جب وہ امام عليہ السلام سے روايات نقل كررہے ہوں يا فقيہ ہونے كے اعتبار سے فتويٰ دے رہے ہوں، بلكہ امام عليہ السلام كا حكم اس فرضيہ كو بھي شامل كئے ہے كہ وہ جب بھي كسي چيز كا حكم ديں ان كي اطاعت واجب ہے اب وہ چاہے ولي امر كے طور پر حكم ديں يا حد اقل امام عليہ السلام كے نمايندے كے عنوان سے امر كريں كيونكہ اطاعت كا حقيقي مصدق روايت و فتويٰ ميں نہيں بلكہ حكم ميں جلوہ گر ہوتا ہے، اور پھر راوي يا مفتي (بعنوان راوي يا بعنوان مفتي) حكم دينے والا شمار نہيں ہوتا تاكہ اس كي اطاعت كي جائے بلكہ ہميشہ حاكم كو (بعنوان حاكم) امر كرنے والا شمار كيا جاتاہے ۔
امام كے اس قول "اطعہ يا اطعھما" كو روايت يا فتويٰ سے مخصوس كرنا، اطاعت كو مجازي اور ناقابل اعتنا معني سے مخصوص كرنے كے برابر ہے اوراس قسم كي تخصيص غير عر في ہے۔ 136
اگر چہ فطري طور پر حديث "عمرى" اور ان كے فرزند كے سلسلے ميں گفتگو ہوئي ہے ليكن چوں كہ روايت ميں حكم اطاعت كي يہ علت بيان كي گئي ہے كہ وہ دونوں ہماري نگاہ ميں قابل اعتماد ہيں اس لئے (ان كي اطاعت تم پر واجب ہے) لہٰذا اس تعليل كے قرينے سے روايت ميں مذكورہ حكم كو ان تمام فقہاء پر نافذ كيا جائے گا جو فہم اور نقل احكام ميں قابل اعتماد اور مورد اطمينان ہوں۔
اس تفصيلي بحث كے بعد بھي اگر كوئي يہ فرض كرے كہ ان روايات كے ذريعے ولايت فقيہ كو ثابت نہيں كياجا سكتا اور يہ كہے كہ ياتو سند كے اعتبار سے يہ روايتيں ضعيف ہيں يا پھر دلالت ميں نقص ہے ليكن پھر بھي در ج ذيل دوروشوں ميں سے كسي ايك كے ذريعے تو يقيناً ولايت فقيہ كو ثابت كيا جا سكتا ہے:
ولايت فقيہ كے اثبات كے لئے پہلي روش
واضح ہے كہ ہميشہ سے شيعوں كو ايك ايسے ولي كي شديد ضرورت رہي ہے جو ان كے امور كوآگے بڑھا ئے حتيٰ يہ ضرورت اسلامي حكومت كے قائم نہ ہونے كي صورت ميں بھي رہي ہے ہماري زندگي ميں متعدد ايسي صورتيں آتي ہيں جہاں حاكم شرعي كے حكم كي ضرورت محسوس ہوتي ہے، (چنانچہ واضح ہے) اگر يہ كہا جائے كہ فقيہ كا حكم صرف باب قضاوت اور باب شككيات يعني نزاع وغيرہ كے فيصلے كے باب ميں ہي نافذ ہوتا ہے تب بھي يہ ضرورتيں حكومت كے بغيرپوري نہيں ہو پاتيں اوران خلاؤں كو پر نہيں كرپاتے، اوراگر يہ فرض كر ليا جائے كہ بعض صورتوں ميں مؤمنين ہي ميں سے كسي ايك عادل شخص كو شرعي ولايت حاصل ہے جو ان كاموں كو انجام دے تو اگر اس فرض كو قبول كر بھي ليا جائے تب بھي يہ ضروريات پوري نہيں ہوتيں۔
اب وہ واحد نظر يہ جو ان خلاؤں كو پر كرنے كي صلاحيت ركھتا ہے اور جو روايات سے ان خلاؤں كو پر كرنے كے سلسلے ميں راہ حل كے طور پر سامنےآتا ہے (اگر چہ روايات ميں سند و دلالت كے اعتبار سے شكوك و شبہات پائے جاتے ہيں) وہ ہے ولايت فقيہ يا راويان حديث كي ولايت كا نظريہ ۔ان روايات كي سند كے متعلق اس وقت جو شكوك و شبہات پائے جاتے ہيں شايد وہ شبہات نص كے (صادر ہونے كے) زمانے ميں نہيں پائے جاتے تھے، اور اسي طرح دلالت كے متعلق پائے جانے والے شبھات بھي نص كے صادر ہونے كے زمانے ميں موجود نہيں تھے، كيونكہ وہ لوگ جس ماحول اور جن افكار كے درميان زندگي گذار رہے تھے ان كے پاس ايسے اطمينان بخش قرائن موجود تھے جو ان كو روايت كے مقصود كوسمجھنے ميں مدد ديتے تھے (ليكن اب وہ قرائن مفقود ہيں لہٰذا ان روايات كے مقصود كو سمجھنے م.....
مترجم:انيس الحسنين


Labels:

Post a Comment

[blogger][facebook][disqus]

MKRdezign

{facebook#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google-plus#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget