اور انکی کتاب‘‘اصول الفقہ’’کا تعارف
سید موسیٰ رضا نقوی
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ۱۳۱۲ ھ ۔ ق کو شھرِ‘‘اراک ’’ میں(جو اس زمانے میں ‘‘عراق’’ کے نام سے شہرت رکھتا تھا) مقیم ایک مذھبی گھرانے میں پیدا ھوئے،انھوں نے بچپن ھی سے دینی تعلیم کا آغاز کیا اور ۱۳۴۰ ھ ۔ ق میں مرحوم آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری(حوزہ علمیہ قم کے بانی) کے ساتھ اراک سے قم کی طرف ھجرت کی اور حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی،آپ نے تقریباً ۳۰ برس اساتید کے محضر سے استفادہ کیاجس میں ۱۵ سال کی مدت آپ نے اراک میں تحصیل علم کی اور باقی ۱۵ سال حوزہ علمیہ قم المقدس میں مرحوم حضرت آیت اللہ حائری کی حیات یعنی ۱۳۵۵ ھ۔ ق تک آپ کے شاگرد رہے ،اس طرح آپ نے ایک صدی علوم اسلامی کی تحصیل، تحقیق،تدریس کے بعد۱۴۱۵ ھ ۔ ق کو وفات پائی۔۱
مرحوم آیت اللہ اراکی بھت بڑے عارف اور تقوی کے مجسم پیکر تھے،اگر یہ کھا جائے کے ھم نے اپنی زندگی میں اُن کی مانند آداب اسلامی سے آراستہ شخصیت کو نھیں دیکھا تو غلو نھیں ،آپ اخلاق میں مرحوم آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کی مکمل جھلک دکھائی دیتے تھے۔
حوزہ علمیہ میں آنے والے ھر ابتدائی طالب علم کو اس حدیث شریف کی تعلیم دی جاتی ہے:
‘عن رسول الله صلّی اللہ علیہ و الہ: اول العلم معرفۃ الجّبار، و آخرالعلم تفویض الامر الیہ’’
ترجمہ: علم کی ابتدا پروردگار کی شناخت و پھچان اور علم کی انتھاء توکل اوراپنے امورمادی ومعنوی(مادی و معنوی رزق)معاملات کو اس کے سپرد کر دینا ہیں۔
جی ھاں! علم کی ابتداءحضرت حق متعال کی معرفت کا عارف ھونا ھے، مرحوم آیت اللہ اراکی ‘‘عالم باللہ’’ اور ‘‘عالم بامر اللہ’’ کے مصادیق میں بھترین مصداق تھے،آپ عارف باللہ بھی تھے اور فقیہ بھی،اور اگر علم کی انتھاء توکل ہے(اپنے امور کو حضرت حق متعال کے سپرد کرنا ھو) تو مرحوم آیت اللہ اراکی دور حاضر میں اسکے بارز ترین مصداق تھے۔
مرحوم آیت اللہ اراکی نے فقہ و اصول کادرس خارج مرحوم آیت اللہ حاج شیخ عبد الکریم حائری سے حاصل کیا اور پھرخود مجتھد مسلم اور مرجعیت کے مقام پر فائز ھوئے۔آپ نے چندین سال حوزہ علمیہ قم میں تدریس کی اور متعددمفید و دیقیق کتابیں تألیف کیں۔
تصانیف
آپ کی کتب میں سے بعض درج ذیل ہیں۔۲
۱۔ کتاب الطهارة۲جلد (عربی،مؤلف عروۃ الوثقی کی حیات میں ھی ان کی کتاب عروۃ الوثقی پر لکھی جانے والی ۷۱۲صفحات پر مشتمل یہ کتاب شاید عروۃ الوثقی کی پھلی شرح ہو جو ۱۴۱۵ ھ۔ق میں مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۲۔ کتاب البیع ۲جلد (عربی، یہ کتاب مرحوم شیخ حائری کی زندگی میں تألیف ھوئی اور ۱۴۱۵ھ۔ق مؤسسہ در راہِ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۳۔ المکاسب المحرمہ (۲۶۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۵۵ھ ۔ ق شیخ عبد الکریم حائری کی میں تألیف ھوئی اور ۱۴۱۳ ھ قمری میں مؤسسہ در راہِ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۴۔ رسالۃ فی الخمس (عربی، یہ کتاب مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کی زندگی میں تألیف کی گئی اور ۱۴۱۳ ھ۔ق کوضمیمہ کے ساتھ پرنٹ ھوئی)
۵۔ رسالۃ فی الارث (عربی، ۲۴۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۳ ھ ۔ ق مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۶۔ رسالۃ فی نفقہ الزوجہ (عربی، ۵۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۳ ھ ۔ ق کو ضمیمہ کے ساتھ پرنٹ ھوئی)
۷۔ الخیارات (عربی، ۶۱۹ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۴۵شمسی کو تألیف ھوئی اور ۱۴۱۴ ھ ۔ ق کو کتاب البیع کے ساتھ مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۸۔ کتاب النکاح (یہ کتاب شیخ عبد الکریم حائری کے دروس پر مشتمل ھے جو مرحوم آیت اللہ اراکی نے لکھی لیکن پرنٹ نھیں ھوئی)
۹۔ رسالہ ای در صلاة الجمعہ
۱۰۔ رسالۃفی الارث (جو ۱۴۱۳ ھ ۔ ق میں مؤسسہ در راہِ حق قم کی جانب سے پرنٹ ھوا)
۱۱۔ رسالۃ فی نفقۃالزوجۃ (۵۰ صفحات پر مستمل یہ رسالہ ۱۴۱۳ ھ ۔ ق رسالہ ارث کے ساتھ ضمیمہ ھو کر پرنٹ ھوا)
۱۲۔ رسالۃفی الاجتهاد والتقلید (عربی، ۸۵ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ کتاب البیع کی ساتھ ضمیمہ ھو کر پرنٹ ھوا)
۱۳۔ تعلیقۃ علی الدرر الفوائد (عربی، یہ کتاب ۱۴۰۸ ھ۔ ق کو جامعہ مدرسیں قم کی جانت سے خود کتاب درر الفوائد سے ساتھ پرنٹ کروائی گئی)
۱۴۔ رسالہ فی دماء الثلاثہ و احکام الاموات والتیمّم (یہ رسالہ۱۳۶۶ شمی کو تألیف کیا گیا)
۱۵۔ رسالۃ فی اثبات ولایۃ الامام علی بن ابیطالب علیہالسلام (یہ رسالہ شیخ عبد الکریم حائری کی اصول عقائد پر مشتمل تقاریر کا مجموعہ ھے)
۱۶۔ دورہ اصول فقہ (عربی ، مرحوم شیخ حائری کی کتاب ‘‘دررالاصول’’ کی ترتیب پر لکھی جانے والی اس کتاب کی دو جلدیں ھیں جو‘‘مؤسسہ درراہ حق قم’’ کی جانب سے پرنٹ ھوئیں اوراس کتاب کی دوسری جلد کے ساتھ کچھ تعلیقات بھی ضمیمہ ھو کر پرنٹ کروائے گئے)
۱۷۔ اصول الفقہ (عربی ، کفایۃ الاصول کی ترتیب پر ۲ جلدوں میں لکھی جانے کتاب ھے)
۱۸۔ رسالہ توضیح المسائل (مرحوم آیت اللہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی توضیح المسائل میں مندرج فتاوا کے ساتھ آیت اللہ اراکی کے فتاوا کو تطبیق کر کے پرنٹ کروایا گیا)
۱۹۔ رسالہای در ولایت تکوینی (فارسی زبان میں لکھا جانے والا یہ رسالہ مرحوم آیت اللہ اراکی کے حالات زندگی پر لکھی جانے والی کتاب میں ۱۳۷۵ شمسی کو ‘‘انجمن علمی،فرھنگی و ھنری آستان مرکزی’’کی جانب سے پرنٹ ھوا ہے)
کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کا تعارف
اجتھاد اور علم فقہ کی اھمیت واضح اور روشن ھے،چونکہ اجتھاد کے بغیر قدیمی و (سنتی) طرز کے مطابق جدید فقھی مسائل کا جواب دینا اور لوگوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نھیں،جبکہ اجتھاد اصول فقہ میں مھارت حاصل کیے بغیرممکن نھیں ، لھذا جو کوئی بھی دین کے بارے میں اظھار نظر(فتوی) دینا چاھے تو اسے اصول فقہ میں ماہر ھونا ضروری ھے۔
بہرحال ‘‘اصول فقہ’’ ،‘‘فقہ’’ تک پہنچنے کے لیے مقدمہ ہے لہٰذا یہ علم بھی ‘‘فقہ’’ کی شرافت ،ارزش و اہمیت سے برخوردار ہو گا۔طول تاریخ میں سینکڑوں علماء نے اس موضوع پرکتابیں تدوین کی ہیں جن میں سے ایک بہترین اور جدیدترین کتاب مرحوم آیت اللہ العظمیٰ اراکی کی لکھی ہوئی کتاب‘‘اصول الفقہ’’ ہے۔
کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کی خصوصیات
اس کتاب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اور اس سے بہتر استفادہ کرنے کے لیے ہم اس کتاب کی خصوصیات کو ذکر کرتے ہیں:
۱۔علم اصول فقہ کا تعلق مقدماتی علوم سے ہے لہٰذا اسے استقلالی طور پر نہیں پڑھناچاہیے یعنی ایسا نہ ہو کہ محقق طالب علم اپنی تمام عمر اس مقدمے کو حاصل کرنے میں گذار دے اور اپنے اصلی ہدف ‘‘فقہ’’سے غافل رہے۔
حقیقت پر مبنی اس قسم کا طرز تفکرمرحوم آیت اللہ اراکی کی تمام تألیفات میں قابل مشاہدہ ہے۔لہٰذا آپ نے اپنی کتاب میں ایسی اضافی ابحاث کو ‘ جن کا علمی نتیجہ نہ ہو’ ذکر نہیں کیا۔
۲۔ مرحوم آیت اللہ العظمیٰ اراکی نے اپنے استاد مرحوم آیت اللہ العظمیٰ حائری سے متاثر ہوتے ہوئے اس کتاب میں یہ کوشش کی ہے کہ بے جا نقل اقوال کو ذکر کرکے طالب علموں کے قیمتی اوقات کوتلف ہونے سے بچا یا جائے،لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں علم اصول کے ماہرین کے اختلافی نظریات دیکھنے کو نہیں ملتے بلکہ تمام موارد میں مؤلف نے فقط اپنی تحقیقات و نظریات کو بیان کیا ہے۔
۳۔اس کتاب میں مؤلف کتاب کا فقہاء کے لیےخاص احترام دیکھنے کو ملتا ہے،جس بارے میں مفصل مقالہ لکھا جاسکتا ہےجبکہ بعض نادر مقامات پر کچھ بزرگان کا نام ان کے القابات اور ان کے لیے دعائیہ کلمات کے ساتھ ان کی تعریف کی گئی ہے.۳
۴۔اس کتاب کی تینوں جلدیں مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کی زندگانی میں ہی لکھی گئی ہیں لہٰذا تمام مقامات پر اُن کے لیے یہ کلمات «شیخنا الاستاد دام بقاءه» و«طال عمره الشریف» لکھے گئے ہیں ۔ ۴
اور تمام وہ مطالب جو مرحوم اراکی نے اپنے استاد سے نقل کیے ہیں وہ تمام کے تمام انھوں نے ان کی محفل درس سے استفادہ کرتے ہوئےنقل کیے ہیں لہٰذا استاد کےبعض اشارات جو انھوں نے استاد سے اس کتاب میں نقل کیے ہیں وہ خود استاد کی کتاب ‘‘درد الاصول’’ سے تفاوت رکھتے ہیں یا فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں پہلے استاد محترم کی نظر یہ تھی لیکن ابھی تبدیل ہو چکی ہے اس جہت سے اس کتاب کی بہت اہمیت ہے مراحظہ فرمائیں۔ ۵
۵۔اس کتاب میں مبتکرانہ طور پر جدید اصولی ابحاث مباحث کو بیان کیا گیا ہے بطور مثال مسئلہ«مقدمہ واجب» جیسی مباحث کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے. ۶
۶۔ وافر فقہی مثالوں کے ساتھ بحث کی تفصیل اور علم اصول کو پریکٹیکلی طور پر پیش کرنا بھی اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے مثلاً
فرماتے ہیں کہ اگر مباح پانی غصبی برطن میں پایا جائے تو اس صورتحال میں وظیفہ وضو کرنا ہے یا تیمم کرنا؟۔۷
۷۔کتاب خود آیت اللہ اراکی کے قلم سے تحریر ہوئی ہے لہٰذا دقیق اور استحکام رکھتی ہے جیسے متن کتاب کا سلیس ہونا ،ادبیات عرب کے قواعد کی مراعات کرنا اور محتویات متن کا درست ہونا قابل ذکر ہیں جبکہ بعض دوسری اصولی کتب جن کو شاگروں نے تقریر کیا ہے ان میں یہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں۔
۸۔ کتاب کی پہلی جلد ‘‘وضع’’ کی بحث سے شروع ہوتی ہے اور علم اصول کے موضوع کوبھی بیان کرتے ہوئے دلیل انسداد کی بحث کو تمام کرتے ہوئے پہلی جلد ختم ہو جاتی ہے، مؤلف فرماتے ہیں کہ : ہم نے پہلے علم اصول کے موضوع کو بیان کردیا ہے‘‘اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف نے یہ بحث پہلے ذکر کردی ہے لیکن ناشر نے اسے حذف کردیا ہے یا اسے اسکی جگہ پر ذکر نہیں کیا۔۸
۹۔مرحوم آیت اللہ اراکی نے اس تین جلدی کتاب میں اصول فقہ کے دو دورے بیان کیے ہیں یعنی کتاب کی دوسری جلد اسی پہلے دورے کی مباحث کا تسلسل ہے جو برائت کی بحث سے شروع ہوتی ہے اور تعادل و تراجح کی بحث کے اختتام تک ہے۔پھر اسی کے آگے دوبارہ استصحاب کی بحث کی طرف لوٹ آتے ہیں جہاں بعض عبارات تکراری ہیں۔ پھر اس کتاب کی تیسری جلد(ضمیمہ جات) علم اصول کو ابتدائی بحث‘‘تعریف،موضوع’’سے شروع ہوتی ہے اور پھر وضع کی بحث دوبارہ تکرار ہوئی ہے۔۹
۱۰۔بہتر یہ تھا کہ ناشر محترم اس کتاب کی ترتیب کو رعایت کرتے اور ہر بحث کو اس کی جگہ پر درج کرتے مخصوصاً دوسری جلد کے آخر میں درج تعلیقات کو،او ر آیات و روایات کے ایڈریس کو نیچے حاشیے میں درج کرتے، ثالثاً کتابی اغلاط(اگرچہ کم ہیں)اصلاح کرتے۔
نتیجہ
آخر میں ہم تمام محققیق کو اس کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔
منابع و مأخذ
۱۔ رضااستادی،شرح احوال حضرت آیت اللہ العظمیٰ اراکی،ناشر انجمن علمی،فرہنگی،و ہنری استان مرکزی،۱۳۷۵ش،ص۱۴۱
۲۔ایضاً ص۱۶۵
۳۔ اراکی محمدعلی،اصول الفقہ،۳ جلدی وزیری، قم، مؤسسہ در راه حق، ۱۳۷۵ش،ج۱، ص۱۶۸۔
۴۔ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج ۱ ، ص ۵۹۶ و ج ۳ ، ص ۲۴۶ .
۵۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۳۷ ص۲۴۶ و ص۳۵۸
۶۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۱ ص۱۳۰۔
۷۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۱، ص۱۴۳۔
۸۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج1، ص۵۵۲۔
۹۔ ایضاً جلد ۳ص۳۹۶۔
حضرت آية الله العظمی سيدعلی حسينی سيستانی
آپ کے خاندان کاتعلق حسینی سادات سے ہے،یہ خاندان صفوی دورمیں اصفہان میں رہتاتھا جب آپ کے پردادسیدمحمدکو،سلطان حسین صفوی نے سیستان میں شیخ الاسلام ک ا عہدہ سپرد کیاتووہ اپنے گھروالوں کے ساتھ وہ ی ں جاکر بس گئے ۔
سیدمحمدکے پوتے، سیدعلی،جوآپ کے دادا ہیں ا نہوں نے وہاں سے مشہد مقدس کی طرف ہجرت کی اوروہاں مرحوم محمدباقرسبزواری کے مدرسہ میں رہنے لگے بعدمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں سے نجف اشرف چلے گئے۔
اَیت اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) نے پانچ سال کی عمرمیں اپنی تعلیم کاآغازقرآن کریم سے کیا اور لکھناپڑھناسیکھنے کے لئے دارالتعلیم نامی ایک دینی مدرسہ میں داخلا لیا، اس ی دوران ا ٓ پنے استادمرزاعلی آقاظالم سے کتابت سیکھی۔
سن ۱۳۶۰ ہجری میں اپنے والدبزرگوارکے حکم سے دینی تعلیم شروع کی اورعربی ادب کی کچھ کتابیں جیسے شرح الفیہ ابن مالک ،مغنی ابن ہشام، مطول تفتازانی ،مقامامت حریری اورشرح نظام ،مرحوم ادیب نیشابوری اوردوسرے استادوں سے پڑھی ں اورشرح لمعہ وقوانین مرحوم سیداحمدیزدی جونہنگ کے لقب سے مشہورتھے، سے پڑھی ں۔ مکاسب ورسائل اورکفایہ جیسی کتابیں جلیل القدرعالم دین شیخ ہاشم قزوینی سے پڑھی ں ۔ فلسفہ کی کچھ کتابیں جیسے منظومہ سبزواری وشرح اشراق اوراسفار استادیاسین سے پڑھی ں اورشوارق الالہام شیخ مجتبی قززینی کے پاس پڑھی ۔ موصوف نے علامہ محقق مرز ا مہدی اصفہانی ،متوفی۱۳۶۵ہجری،سے بہت زیادہ کسب فیض کیا ۔ اس ی طرح مرزامہدی آشتیانی اورمرزا ہاشم قزوینی سے بھی کافی استفادہ کیا ۔ مقدماتی وسطحی تعلیم سے فار غ ہونے کے بعد کچھ استادوں کے پاس علوم عقلیہ اورمعارف الہیہ سیکھنے میں مشغول ہوگئے ۔ اس کے بعد سن ۱۳۶8ہجری میں مشہدمقدس سے شہر قم کی طرف ہجرت کی اوربزرگ مرجع تقلیدآیة اللہ العظمی بروجردی کے فقہ واصول کے درس خارج میں شریک ہوکرعلمی فیض حاصل کیا۔ موصوف نے ان کی فقہی بصارت ،مخصوصا علم رجال اورحدیث سے بہت زیادہ کسب فیض کیا،اسی طرح موصوف نے فقیہ وعالم فاضل سیدحجت کہکمری اوراس زمانے کے دوسرے مشہورعلماء کے درسوں میں بھی شرکت کی۔
موصوف نے قم کے قیام کے دوران مرحوم سیدعلی بہبانی (جواحوازکے جلیل القدرعالم دین اورمرجع محقق شیخ ہادی تہرانی کے تابعین میں سے تھے) سے قبلہ کے مسائل کے سلسلہ میں کافی خط وکتابت کی ، آپ اپنے خطوں میں مرحوم محقق تہرانی کے نظریوں پراعتراض کرتے تھے اور مرحوم بہبانی اپنے استادکادفاع کرتے تھے یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتارہا یہاں تک کہ مرحوم بہبانی نے آپ کوشکریہ کا خط لکھااورآپ کی کافی تعریف کی اوریہ طے پایاکہ ب اقی بحث مشہدمیں ملاقات کے موقع پرہوگی۔
سن۱۳7۱ہجری میں آپ نے قم سے نجف اشرف کاسفرکیااورامام حسین علیہ السلام کے چہلم کے دن کربلامیں واردہوئے ۔ پھروہاں سے نجف چلے گئے ۔ نجف پہنچ کرمدرسہ بخارائی میں قیام کیااورآیة اللہ العظمی خوئی ،شیخ حسین حلی جیسے بزرگ مراجع اکرام کے فقہ واصول کے درسوں میں شرکت کی، اسی طرح موصوف آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ شہرودی جیسے بزرگ علماء کے درسوں میں بھی شریک ہوئے۔
جب سن ۱۳8۰ہجری میں آپ نے مستقل قیام کی نیت سے اپنے وطن مشہدواپس ا ٓ نے کاارادہ کیاتواس وقت آیة اللہ العظمی خوئی اورشیخ حسین حلی نے آپ کو اجتہاد کا اجازہ لکھ کردیا،اسی طرح مشہورمحدث آقابزرگ تہرانی نے رجال اورحدیث میں موصوف کے تبحرعلمی کی کتبی تصدیق کی۔
موصوف سن ۱۳8۱ ہجری میں دوبارہ نجف تشریف لے گئے اور وہاں شیخ انصاری کی کتاب مکاسب سے فقہ کادرس خارج کہناشروع کردیا ۔ اس کے بعدشرح عروة الوثقی سے کتاب طہارت اورصلاة کی تدریس کی اورجب سن ۱۴۱8 ہجری میں کتاب صوم تمام ہوئی تو آپ نے کتاب الاعتقادک ی ت در ی س شروع ک ی ۔
اسی طرح اس عرصہ میں آپ نے مختلف موضوعوں جیسے کتاب القضا،کتاب الرباء ،قاعدہ الزام، قاعدہ تقیہ ،وغیرہ پرفقہی بحث کی، آپ نے اس دوران علم رجال پربھی بحث کی ، جس میں ابن ابی عمیرکی مرسلہ روایت وں کے اعتبار اور شرح مشیخة التہذی بین پربحث ہوئی۔
موصوف نے سن۱۳8۴ہجری میں شعبان کے مہینہ سے علم اصول کادرس دیناشروع کیا اورآپ کے درس خارج کاتیسرا دورا سن۱۴۱۱ ہجری کے شعبان ماہ میں تمام ہوا ۔ سن 1397ہجری سے آج تک کے ، آپ کے فقہ واصول کے تمام درسوں کے آڈیوکیسٹ موجودہیں ۔ آج کل آپ کا(شعبان ۱۴۲۳ہجری)شرح عروة الوثقی کی کتاب الزکواة کادرس خارج چل رہاہے۔
علمی کارنامے:
حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) ہمیشہ اپنے استادوں کے درسوں میں اپنی بے پنہاذہانت وصلاحیتوں کاثبوت دیاکرتے تھے اورہمیشہ ہی تمام شاگردوں میں ممتازرہتے تھے ۔ آپ اپنے علمی اعتراضوں ،حضورذہن،تحقیق،فقہ ورجال کے مسائل کے مطالعہ ،دائمی علمی کاوشوں اورمختلف عل م ی نظریوں سے آشنائی کے بل بوتے پرحوزہ میں اپنی مہارت کاثبوت پیش کرتے رہتے تھے
قابل ذکربات یہ ہے کہ آپ کے اورشیہدصدر(قدس سرہ)کے درمیان عل م ی کارناموں کے سلسلہ میں مقابلہ رہاکرتاتھا ۔ اس بات کااندازہ آپ کے دونوں استادوں، آیة اللہ خوئی(رضوان اللہ تعالی علیہ) اورعلامہ حسین حلی (قدس سرہ) کے اجازہ اجتہادسے لگایاجاسکتاہے ۔ یہ بات بھی مشہورہے کہ آیة اللہ خوئی(قدس سرہ)نے ایة اللہ العظمی سیستانی (دام ظلہ) اورآیة اللہ شیخ علی فلسفی(جوکہ مشہدکے مشہورعلماء میں سے ہیں) کے علاوہ اپنے شاگردوں میں سے کسی کوبھی کتبی اجازہ نہیں دیا ۔ اسی طرح اپنے زمانے کے شیخ المحدثین علامہ آقابزرگ تہرانی نے آپ کے لیے سن1380 ہجری قمری میں جواجازہ لکھاہے اس میں آپ کی مہارت اورعلم رجال اورحدیث میں آپ کی درایت کوکافی صراحاہے آقابزرگ تہرانی نے آپ کے لیے یہ اس وقت لکھاتھا جب موصوف کی عمرصرف ۳۱ سال تھی۔
تالیفات اور فکری کارنامے:
تقریبا ۲۴ سال پہلے ،آپ نے فقہ ،اصول اوررجال کادرس خارج کہناشروع کیااور اسی طرح مکاسب کی کتاب الطہارت ،صلاة،قضا، خمس،اوردوسرے قواعدفقہی جیسے ربا،تقیہ اورقاعدہ الزام کوپوراکیا،آپ اصول کی تدریس کے تین دورہ ختم کرچکے ہیں، جس میں کی کچھ بحثیں جیسے اصول عم ل ی ،تعادل وتراجیح اورکچھ فقہی بحثیں جیسے ابواب نماز،قاعدہ تقیہ والزام چھپای کے لے تیار ہے۔حوزہ کے کچھ مشہور علما و فضلا جن میں سے بعض درس خارج بھی کہتے ہیں، جیسے علامہ شیخ مہدی مروارید،علامہ سیدمرتضی مہری،علامہ سیدحسین حبیب حسینیان،سیدمرتضی اصفہانی، علامہ سیداحمد مددی،علامہ شیخ باقرایروانی اورحوزہ علمیہ کے کچھ دوسرے استادآپ کی بحثوں پرتحقیق کی ہے۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی( دام ظلہ ) نے درس دینے کے ساتھ ساتھ کچھ اہم کتاب وں اوررسالوں کی تصنیف وتالیف بھی ہ ے۔ اسی طرح آپ نے ، ا پنے استادوں کی تمام تقریرات کوبھی تالیف کیا ہے ۔
درس وبحث کاطریقہ:
آپ کے درس دینے کاطریقہ حوزہ کے دوسرے استادوں اوردرس خارج کہنے والوں سے الگ ہے ،جیسے آپ کے اصول کے درس کی خصوصیت ذیل میں بیان کی جارہی ہے ۔
۱ ۔ بحث کی تاریخ کاذکر:
اصول کی شناخت اوراس کی بنیادی چیزیں ،جوشایدایک فلسفی مسلہ ہے جیسے سہولت وآسانی "مشتق" اوراس کے ترکیبات ہوں یاعقیدتی وسیاسی، جسیے تعادل وتراجیح کی بحث، جس میں آپنے بیان کیاہے کہ حدیثوں کااختلاف ،اس زمانے کے فکری اورعقائدی جھگڑوں ،کشمکشوں اورا ٓ ئمہ کے زمان ے کے سیاسی حالات کانتیجہ تھا اس بارے میں تھوڑی سی تاریخی معلومات بھی ہمیں اس مس ئ لہ کے افکارونظریوں کے حقیقی پہلوؤں تک پہنچادیت ی ہے۔
۲ ۔ حوزوی اورجدیدفکرکاسنگم:
کتاب کفایةکے م ؤ لف نے ، معانی الفاظ کی بحث کے ضمن میں ، معانی الفاظ کے بارے میں اپنے نظریات کوجدیدفلسفی نظریہ کے تحت،جس کانام ”نظریہ تکثرادراکی“ ہے اورجوانسانی ذہن کی استعدادوخلاقیت پرمبنی ہے،بیان کیاہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ انسان کاذہن ایک بات کودوالگ الگ شکلوں میں تصورکرسکتاہے: ایک کومستقل طورپردقت ووضاحت کے ساتھ ، اسے اسم کہاجاتاہے اوردوسرے کوغیرمستقل طورپرکسی دوسری چیزکی مددسے اسے حرف کہتے ہیں ، اورجب ”مشتق“ کی بحث شروع کرتے ہیں توآپ زمان کواس فلسفہ کی نظرسے دیکھتے ہیں جومغربی دنیامیں رائج ہے اور اس بارے میں بھی اظہارخیال کرتے ہیں کہ زمان کومکان سے روشنی اوراندھیروں کے لحاظ سے الگ کیاجاناچاہئے ،صیغہ امراورتجری کی بحث میں سوشیالسٹس کے نظریوں کوذکرکرتے ہیں ۔جنکا ماننا ہے کہ بندے کی سزاکامعیاراللہ کی نافرمانی ہے اوریہ حالت پرانے انسانی سماج کی طبقہ بندی اورتقسیم بندی پرہے جس میں آقا،غلام،بڑے ،چھوٹے…… کافرق پایاجاتاتھا ۔ درحقیقت یہ نظریہ اس پرانے سماج کے باقیات میں سے ہے جوطبقاتی نظام پرمبنی تھا ، نہ کہ اس قانونی نظام پرجس میں عام انسان کے فائدوں کی بات کی جاتی ہے۔
۳ ۔ ان اصول کااہتمام جو فقہ سے مربوط ہیں :
لہذاایک طالب علم بھی علماء کی دقیق اورپیچیدہ فقہی بحثوں کو،جن کاکوئی علمی اورفکری نتیجہ نہیں ہوتا، دیکھ سکتاہے جیسے وہ بحثیں جووضع کے بارے میں کی جاتی ہیں کہ کیاوضع ایک امرتکوینی ہے یااعتباری، یاایک ایساامرہے جوتعہدوتخصیص سے متعلق ہے، یاوہ بحثیں جوعلم کے موضوع اورعلم کے موضوع کی تعریف کے ذاتی عوارض کے بارے میں ہوتی ہیں اور انہیں جیسی کچھ دیگر چیزیں جو بیان ک ی جاتی ہیں ، لیکن جوکچھ آیة اللہ العظمی سیستانی کے درسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ موصوف محکم اورمضبوط علمی مبن ا کوحاصل کرنے کے لیے سخت محنت وزحمت کرتے ہ یں خاص طور پر روش استنباط اور اصول کی بحث وں میں ، جیسے اصول عملی، تعادل وتراجیح ،عام وخاص وغیرہ کے متعلق جوبحثیں ہیں۔
۴ ۔ جدت :
حوزہ کے بہت سے استادوں میں تخلیق کافن نہیں پایاجاتاہے لہذا وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کتاب یارسالہ پرتعلیقہ یاحاشیہ لکھے، بجائے اس کے کہ اس پربحث کریں، لہذاہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے استادصرف موجودااستادوں کے نظریوں پربحث کرتے ہیں یا”ففہم“ یااس شکل پردواشکال واردہوتے ہیں اوران دواشکالوں میں غورکرناچاہئے، جیسی عبارتوں میں مشغول کرلیتے ہیں۔
۵ ۔ مشرکوں کے ساتھ نکاح جائز ہے :
آیة اللہ سیستانی اس قاعدہ کوجیسے قاعدہ ”تزاحم“ کہتے ہیں اورجسے فقہاء واصولین صرف ایک عقلی ،عقلائی قاعدہ مانتے ہیں ،قاعدہ اضطرارکے ضمن میں جوایک شرعی قاعدہ ہے اوراس کے بارے میں بہت سی نصوص کاذکرہواہے ،جیسے(ہروہ چیزجسے اللہ نے حرام کیاہے ،اسے ہی مضطر کے لیے حلال کیاہے) کوحلال جانتے ہیں لہذا قاعدہ اضطراراصل میں وہی قاعدہ تزاحم ہے، یایہ کی فقہاء واصولین بہت سے قاعدوں کوفضول میں طول دیتے ہیں جیسے جوکچھ قاعدہ لاتعادمیں دیکھنے میں آتاہے کہ فقہا ء اسے نص کی وجہ سے نمازمیں سے مخصوص مانتے ہیں جبکہ آیة اللہ سیستانی اس حدیث ”لاتعادالصلاة الامن خمس“کومصداق کبری مانتے ہیں جونمازاوربہت سے مختلف واجبات کوشامل ہے اوریہ کبری روایت کے آخرمیں موجودہے، ولاتنقض السنة الفریضہ لہذاجوکچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ نمازمیں بھی اوراس کے علاوہ بھی واجبات سنت پرترجیح رکھتے ہیں جیسے ترجیح وقت وقبلہ ،اس لیے کہ وقت اور قبلہ واجبات میں سے ہے نہ کہ سنت سے۔
۶ ۔ اجتماعی نظر :
کچھ فقہاء ایسے ہیں جومتن کاتحت اللفظی ترجمہ کرتے ہیں یادوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ وہ وسیع معنی کوبیان کر نے کے بجائے خودکوم تن کے حروف کاپابندبنالیتے ہیں ۔ کچھ دوسرے فقہاء ان حالات پربحث کرتے ہیں جس میں وہ م تن کہاگیاہے تاکہ ان باتوں سے آگاہ ہو سکیں جن کی وجہ سے اس م تن پراثرہواہے ،جیسے اگرپیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث پرغوروفکرکریں جس میں آپنے (خیبرکی جنگ میں)پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیاہے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ فقہاء اس حدیث کے ایک ایک حرف پرعمل کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس حدیث کے مطابق پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیتے ہیں، جبکہ ہمیں ان حالات پربھی توجہ دینی چاہئے ج ن میں یہ حدیث بیان کی گ ئی تھی تاکہ پیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث کوبیان کرنے کے اصلی اوربنیادی مقصدتک پہنچاجاسکے اوروہ یہ ہے کہ خیبرکے یہودیوں کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے ہتھیاراوراورفوجی سازوسامان کی سخت ضرورت تھی جبکہ اس زمانے میں جس میں مسلمانوں کے حالات اچھے نہیں تھے اوراسلاح کو ڈھونے کے لیے چارپایوں کے علاوہ کوئی دوسرا ذر یعہ نہیں تھااس لیے ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ اس حدیث سے مرادایک حکومتی پابندی تھی جس میں ایک ایسی مصلحت تھی جس کی ان دنوں ضرورت تھی ، اس لیے اس طرح کا حکم صادرہوا لہذااس حدیث کوحکم یاحلال وحرام کے طورپرنہیں لیناچاہئے۔
۷ ۔ استنباط میں علم ودرایت کاہونا:
آیة اللہ العظمی سیستانی کا نطریہ یہ ہے کہ ایک فقیہ کوعربی زبان اور قواعد میں ماہر ہونا چاہئے ۔ ساتھ ہی ساتھ عربی نثر و نظم اورحقیقت مجازکے استعمال سے بھی مکمل طورپر واقف ہونا چاہئے تاکہ متن کوموضوع کے اعتبارسے سمجھ سکے،اسی طرح اہلبیت علیہم السلام کی حدیثوں اوران کے راویوں پر پوری طرح سے تسلط ہون ا چاہئے اس لیے کہ علم رجال کی معرفت ہرمجتہدکے لیے واجب وضروری ہے ۔ اسی طرح آپ کے کچھ نظریے ایسے ہیں جومنحصربہ فردہیں اورمشہورسے کافی مختلف ہیں ، جیسے ابن غزائری اور ان کی کتاب ک ے بارے میں موصوف کی رائے مشہورسے مخ ت لف ہے آپ کی نظرمیں وہ کتاب ابن غزائری کی ہی ہے اورغزائری، نجاشی اورشیخ وغیرہ سے زیادہ قابل اعتمادہے ۔ آپ کایہ بھی مانناہے کہ کسی حدیث کو مسندیامرسل قرارد ینے اور راوی کی شخصیت کو معین کرنے کے لیے، طبقات کی روش پراعتمادکرنا چاہئے اور یہی روش مرحوم آیة اللہ بروجردی کی بھی تھی۔
آپ کایہ بھی مانناہے کہ فقیہ کوحدیث کی کتابوں،نسخوں کے اختلاف وں ، حدیث کوصحیح سمجھنے کے لحاظ سے مؤلف کے حالات اور جس روش کو مؤلف یا راوی نے اپنایاہے اس سے آگاہی ضروری ہے ۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی اس بات کوقبول نہیں کرتے کہ شیخ صدوق حدیثوں وروایتوں کو نقل کرنے میں دوسروں سے زیادہ دقت کرتے تھے ،بلکہ وہ شیخ صدوق کوکتابوں اورقرینوں کی وجہ سے ایک امین اورقابل اعتمادناقل حدیث مانتے ہیں جبکہ آپ نے اورشہیدصدرنے اس بارے میں کافی محنت وزحمت کی ہے اورہمیشہ خلاقیت کاثبوت دیتے رہے ہیں ، اورجب آیة اللہ سیستانی ”تعادل و”ت راجیح “ کی بحث میں واردہوتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس بحث کارازاحادیث کے اختلاف میں پوشیدہ ہے لہذا اگرہم متون شرعی کے اختلاف کی وجہوں پربحث کریں تویہ بڑی اورحل نہ ہونے والی مشکل بھی حل ہوسکتی ہے ، تب ہم دیکھیں گے کہ ”ترجیح“ وتغیر“ کی وہ روایت یں جنہیں صاحب کفایة ، استحباب پرحمل کرتے ہیں، ہم ہم ان سے بے نیاز ہیں ۔ شہیدصدرنے بھی اس بارے میں بحث کی ہے لیکن انہوں نے تاریخی وحدیثی شواہدکوبنیادنہ یں بنا یا ہے بلکہ صرف عقل کوبنیادبنا تے ہوئے ، اختلاف ک و حل کرنے کے ل ئے کچھ اہم قاعدوں کوپیش کیاہے ۔
۸ ۔ مختلف مکتبوں کے درمیان مقایسہ:
ہم سب جانتے ہیں کہ اکثراساتذہ ایک مکتب یاعقیدہ کونظرمیں رکھ کرکسی موضوع،کی تحقیق یامطالعہ کرتے ہیں ، لیکن آیة اللہ سیستانی کی روش اس سے مختلف ہے۔ مثلاجب وہ کسی موضوع پرتحقیق کرتے ہیں توحوزہ مشہدو حوزہ قم اور حوزہ نجف اشرف کے درمیان مقایسہ کرتے ہیں ۔ وہ مرزا مہدی اصفہانی (قدس سرہ) جومشہدکے ایک مشہور عالم ہیں ،آیة اللہ بروجردی(قدس سرہ) ، جو حوزہ علمیہ قم کی فکرک ا سمبل ہیں اور اسی طرح حوزہ علمیہ نجف کے مشہورمحققوں جیسے آیة اللہ خوئی اورشیخ حسین حلی(قدس سرہ ما ) کے نظریوں کوایک ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر اس طرح بحث ہوتی ہے تو اس کے سارے گوشے اورنکتے ہمارے سامنے اچھی طرح واضح ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کی فقہی روش میں بھی چندخوبیاں پائی جاتی ہیں جوحسب ذیل ہیں:
۱ ۔ شیعہ اور دیگر مذاہب کی فقہ کے درمیان مقایسہ:
اس لیے کہ اس زمانے میں ، ہمارا اہل سنت کے فقہی افکارسے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، جیسے موتامالک اورخراج ابویوسف اوراس جیسی دوسری کتابوں سے ، تاکہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے آئمہ کے مقصداوراس کے بارے میں اہل سنت کے نظریہ کوسمجھاجاسکے۔
۲ ۔ کچھ فقہی بحثوں میں،دورحاضرکے ق وانین کاسہارا:
جیسے کتاب بیع وخیارات کی بحث میں ،کچھ فقہی مناسبتوں کی وجہ سے عراق،مصر اور فرانس کے قانون کاسہارالی تے ہیں۔ اس لئے کہ اس زمانے کے قانون کے اسلوب کو ج اننے ک ے بعد انسان کوبہت سے تجرب ے حاصل ہوتے ہیں، جب دور حاضرکے قانون کے ذریعے فقہی قواعد کی تحلیل کی جاتی ہے اور ان دونوں میں مطابقت پیدا کیا جاتا ہے تو بحث کے تمام اہم نکت ے روشن ہوجاتے ہیں۔
حضرت آية الله العظمی سيدعلی حسينی سيستانی
۳ ۔ ہمارے اکثرعلماء ان فقہی قاعدوں پرجوبزرگوں سے ہم تک پہنچے ہیں،کوئی ردوبدل نہیں کرتے ہیں:
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیة اللہ سیستانی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فقہی قواعدمیں تبدلی لائی جائے جیسے قاعدہ ”الزام“،جسے کچھ فقہاء قاعدہ ”مصلحت“کے طورپربھی جانتے ہیں ۔ اس قاعدہ کی بنیاد پرمسلمانوں کو یہ حق ہے کہ اپنے ذاتی فائدوں کے لیے کبھی کسی دوسرے اسلامی مسلک کے قوانین کی اتباع کرسکتے ہیں(چاہے وہ قوانین اس کے اصلی مسلک کے مخالف ہی ہو) لیکن آیة اللہ سیستانی اس کوقبول نہیں کرتے ۔ بلکہ وہ مذہب اور اس کے قوانین کو دوسرے مذ ا ہب سے زیادہ لائق احترام و ضروری سمجھتے ہ یں جیسے یہ قاعدہ ”لکل قوم نکاح“ یعنی ہرمذہب میں نکاح اورشادی کی اپنی مخصوص رسمیں ہوتی ہیں۔
آیة اللہ سیستانی( دام ظلہ ) کی شخصیت کی خصوصیتیں:
آپ سے مل اقات کرنے والے حضرات ، جلدی ہی آپ کی ممتازاورآیڈیل شخصیت کوسمجھ جاتے ہیں آپ کی شخصیت کی ان ہی خوبیوں نے آپ کوایک مکمل نمونہ عمل اورعالم ربانی بنادیاہے ۔ آپ کے فضائل اوراخلاق کے کچھ نمونہ جن کا میں نے نزدیک سے مشاہدہ کیاہے ،انہیں یہاں بیان کر رہا ہوں:
۱ ۔ دوسروں کی را ئے کا احترام
چونکہ آپ علم کے شیدائی ہیں اورمعرفت وحقائق تک پہنچن ا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیشہ دوسروں کی را ئے کااحترام کرتے ہیں ۔ انکے ہاتھ میں ہمیشہ کوئ نا کوئ کتاب رہتی ہے ۔ وہ کبھی بھی مطالعہ ،تحقیق،بحث اورعلماء کے نظریات کونظراندازنہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ غیر معروف علماء کے نظریات کوبھی پڑھتے ہیں اوران پرتحقیق بھی کرتے ہیں ۔ یہ روش اس بات کی علامت ہے کہ آیة اللہ سیستانی دوسروں کی را ئے کے لیے خاص توجہ اوراحترام کے قائل ہیں۔
۲ ۔ بات چیت میں ادب و نزاکتوں کا لحاظ :
جیساکہ سبھی جانتے ہیں کہ طلباء کے درمیان جومباحث ے ہوتے ہیں یاایک طالب علم اوراستادکے درمیان جو بحث ہوت ی ہ ے ، خاص طورپرحوزہ نجف میں ،وہ نہایت ہی سخت وگرم ہوت ی ہے ۔ کبھی کبھی یہ چیزطلباء کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی بحث وگفتگومیں ہمیشہ سختی وگرمی کاہوناصحیح نہیں ہے ۔ یہ ہرگزکسی صحیح علمی مقصدتک نہیں پہنچاتی ،وقت کی بربادی کے علاوہ طلباء میں مذاکرہ کے جذبہ کوبھی ختم کردیت ی ہے ۔ اسی وجہ سے جب آیة اللہ سیستانی اپنے شاگردوں کو درس دیتے ہیں یاان سے بحث کرتے ہیں تو اس بحث کی بنیادایک دوسرک ے عزت واحترام پرہوتی ہے ۔ وہ اپنے شاگردوں کےاحترام کا خاص خیالرکھتے ہیں چاہے ان کے سامنے جوبحث ہو رہی ہو وہ کمزوراوربے بنیاد ہی کیوں نہ ہو ۔ آپ کی ایک دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو جو جواب دیتے ہیں ،اس کودہراتے ہیں تاکہ وہ ، اس بات کواچھی طرح سمجھ لیں ۔ لیکن اگرسوال کرنے والااپنے نظریہ کے بارے میں ضدکرتاہے توآپ خاموش رہن ا ہی پسندکرتے ہیں۔
۳ ۔ تربیت:
تدریس ،پیسہ کمانے کاذریعہ نہیں ہے ، بلکہ ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ اسی لئے ایک اچھے ، مہربان اورشفیق استادکی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کی اچھی تربیت کرے اورانہیں ایسے بلندعلمی مقام تک پہنچائے جہاں سے ترقی کے موقع فراہم ہوں ۔ اور ان ساری باتوں کالاز م ہ محبت ہے ۔ لیکن اچھے اور برے لوگ ہرجگہ پائے جاتے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ لاپروا اورغیرذمہ دار ہو تے ہیں ، وہیں ایسے لوگوں ک ی بھی کمی نھیں ہے جومخلص،ہمدرد،مہربان، اورسمجھدار ہوتے ہیں اورجن کااصلی مقصد تدریس کی ذمہ داریوں کواچھی طرح ادا کر نا ہوتا ہے ۔
یہاں پریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ خوئی دونوں ہی ہمیشہ بہترین اخلاق کانمونہ رہے ہیں اورجوکچھ میں نے آیة اللہ سیستانی کی زندگی میں دیکھا ، وہ وہی ان کے استادوں وال ا اخلاق ہے۔ وہ اپنے شاگردوں سے ہمیشہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ درس ختم ہوجانے کے بعد ان سے سوال کریں، حضرت آیة اللہ سیستانی ہمیشہ اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ اپنے استادوں اورع الموں کااحترام کرواوربحث وسوالات کے وقت ان کے ساتھ نہایت ادب سے پیش آؤ ۔ وہ ہمیشہ اپنے استادوں کے کردار کی بلند ی کے قصہ سناتے رہتے ہیں۔
۴ ۔ تقوی اورپرہیزگاری:
نجف کے کچھ علماء خودکو لڑائ جھگڑوں اور شکوے شکایتوں سے دوررکھتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اسے حقیقت سے بچنااور فرارکرنا مانتے ہیں یااسے ڈراورکمزوری سمجھتے ہیں ۔ لیکن اگراس مسئلہ کودوسرے نکتہ نظرسے دیکھاجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مثبت امرہ ی نہیں، بلکہ بہت سی جگہوں پرضروری اورمہم بھی ہے ۔ لیکن اگروہی علماء احساس کریں کہ امت اسلامی یاحوزہ، کسی خطرہ میں پڑگیاہے تویقینا وہ بھی میدان میں کودپڑیں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہرعالم کوسخت اورحساس موقعوں پراپنے علم کااظہارکرناچاہئے ۔
ایک اہم نکتہ جسے یہاں پرذہن میں رکھناضروری ہے، وہ یہ ہے کہ آیة اللہ سیستانی فتنوں اوربلوں کے موقعوں پرہمیشہ خاموش رہتے ہیں، جیسے جب آیة اللہ بروجردی اورآیة اللہ حکیم کے انتقال کے بعد، علماء مقام ومنصب حاصل کرنے کے لیے اپن ی شخصیت کو چمکانے کے چکرمیں پڑ ے ہوئے تھے، تب بھی آیة اللہ سیستانی اپنی ثابت سیاست پرعمل کرتے رہے ۔ انہوں نے کبھی بھی دنیوی لذتوںاورعہدے ومقام کواپنامقصدنہیں بنایا۔
۵ ۔ فکری آثار:
حضرت آیة اللہ سیستانی صرف ایک فقیہ ہی نہیں بلکہ ایک بلند فکر اور نہایت ذہین انسان ہیں اوراقتصادی وسیاسی میدان پر بھی آپ کی گہری نظرہے ۔ سماجی نظام وسیسٹم پربھی آپ کے بہت اہم نظریے پائے جاتے ہیں اورآپ ہمیشہ اسلامی سماج کے حالات سے باخبررہتے ہیں ۔
قابل ذکر بات ہے کہ جب آپ ۲۹/ ربیع الثانی سن ۱۴۰9 ھجری میں اپنے استادآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کی عیادت کے لیے گئے توآپ کے استادنے آپ سے چاہاکہ آپ ان کی جگہ پرمسجدخضراء میں امامت کی ذمہ داری س نبھا ل ل یں ، لیکن آپ نے قبول نہیں کیا ۔ مگرجب استادمحترم نے اصرارکیااورفرمایا: ”کاش میں تمہیں اسی طرح حکم دے سکتا جس طرح مرحوم حاج آقاحسین قمی نے دیاتھا، تو میں بھی تمہیں قبول کرنے پرمجبورکردیتا“ تو یہ سن کر آپ اس ذمہ ذاری کو س نبھا ل نے کے لئے تیارہوئے۔
لیکن آپ نے چندروز کی مہلت مانگی اوراس کے بعد 5 / جمادی ا لاول سن ۱۴۰9 میں امامت کی ذمہ داری قبول فرمائی اوراس فریضہ کو ۱۴۱۴ ہجری کے ذی الحجہ کے آخری جمہ تک انجام دیا اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس مسجد کو بندکردی ا گ یا اوریہ سلسلہ قطع ہوگیا۔
آپ سن۱۳۷۴ ہجری میں پہلی بار فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ الحرام تشریف لے گئے اورا سکے بعد سن ۱۴۰۴اور ۱۴۰۵ ہجری میں بھی بیت اللہ الحرام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
آپ کی مرجعیت :
حوزہ علمیہ نجف اشرف کے کچھ علماء نقل کرتے ہیں کہ آیة اللہ سیدنصراللہ مستنبط کے انتقال کے بعد کچھ علماء وفضلاء نے آیة اللہ خوئی سے یہ آرزو ظاہر کی کہ آپ مرجعیت کی صلاحیت رکھنے والے اپنے کسی شاگرد کو اپنے جانشین کے طور پر معین فرمادیں ، تو انہوں نے، آیة اللہ سیستانی کو ، ان کے علم،پرہیزگاری اورمضبوط نظریات کی وجہ سے انتخاب کیا ۔ شروع میں آپ آیة اللہ خوئی کی محراب میں نمازپڑھایاکرتے تھے پھرآپ ان کے رسالہ پربحث کرنے لگے اوراس پرتعلیقہ لگایا ۔ آیة اللہ خوئی کے انتقال کے بعد ان کے تشیع جنازہ میں شریک ہونے اوران کے جنازہ پرنمازپڑھنے والوں میں آپ بھی تھے ۔ آیة اللہ خوئی کے بعدحوزہ نجف کی مرجعیت کی باگ ڈورآپ کے ہاتھوں میں آگئی اورآپ نے اجاز ے دینے، شہریہ تقسیم کرنے اورمسجدخضراء میں آیة اللہ خوئی کے منبرسے تدریس کرنے کاکام شروع کردیا ۔ اس طرح آیة اللہ سیستانی عراق ،خلیجی ممالک،ہندوستان اورافریقہ وغیرہ کے جوان طبقہ میں جلدی ہی مشہورہوگئے۔
حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی ایک جانے مانے عالم دین ہیں اور ا ن کی مرجعیت مشہورہے ۔ حوزہ علمیہ قم ونجف کے استاد اور ایک بڑی تعدادمیں اہل علم حضرات آپ ک ی عالم یت ک ے گواہ ہیں ۔آخرمیں ہم اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ ان کے سایہ کو ہمارے سروں پرباقی رکھے۔
حضرت آية الله العظمی خامنه ای
حضرت آية الله العظمی وحيدخراسانی
حضرت آیة اللہ العظمی وحیدخراسانی سن ۱۳۰۰ ہجری شمسی میں مقدس شہرمشہدمیں پیداہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم آیة اللہ حاج شیخ محمدنہاوندی سے حاصل کی۔ موصوف نے بعدمیں آیة اللہ العظمی مرزامہدی اصفہانی اورآیة اللہ العظمی آشتیانی کے درس خارج سے استفادہ کیا ۔ انہوں نے فلسفہ اورحکمت کومرحوم مرزاابوالقاسم الہی اورمرزامہدی اصفہانی سے پڑھا۔
۲۷ سال کی عمرمیں وہ اپنی علمی صلاحیت ب ڑھا نے کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے اوروہاں پرآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کے درس خارج سے کسب فیض کرنے لگے ۔ دورحاضر میں وہ آیة اللہ العظمی خوئی کے خاص شاگردوں میں گنے جاتے ہیں۔
انہوں نے سن ۱۳۷۸ ہجری قمری میں فقہ واصول کادرس خارج کہناشروع کیااور ۱۲ سال تک نجف کے حوزہ میں درس خارج کہتے رہے۔
۱۳۹۰ ہجری قمری میں ایران آنے کے بعدانہوں نے مشہدمقدس میں درس دیناشروع کیااورایک سال وہاں رکنے کے بعد قم میں آگئے اوریہاں پرفقہ واصول کادرس خارج کہنے لگے ۔ دور حاضرمیں حوزہ علمیہ قم کے بہت سے طالب علم ان کے درس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔
حضرت آية الله العظمی ناصر مکارم شيرازی
آیة اللہ ناصرمکارم شیرازی کی ولادت سن ۱۳۴۵ ہجری قمری میں شیرازنامی شہرمیں ہوئی ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی ت عل ی م اپنے آبائی شہرشیرازمیں ہی حاصل کی۔ بعدمیں ۱۴ سال کی عمرمیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے شیرازکے باباخان مدرسے میں داخلہ لیا اور چارسال تک وہ اں علم حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم تشریف لا ئے ۔ یہاں پر انہوں نے آیة اللہ العظمی بروجردی کے درس میں شرکت کی۔
سن ۱۳۶9 ہجری قمری میں وہ نجف اشرف گئے اوروہاں پرآیةاللہ العظمی حکیم،آیة اللہ العظمی،خوئی، آیة اللہ العظمی سیدعبدالہادی شیرازی کی خدمت میں رہ کراپنے علم میں اضافہ ک یا۔ سن ۱۳۷۰ ہجری قمری میں شعبان کے مہینہ میں وہ ایران واپس آئے اوریہاں پر سطح عالی کی تدریس کرنے کے بعد فقہ واصول کادرس خارج کہناشروع کیا۔
انہوں نے قم میں مدرسہ امیرالمومنین ،مدرسہ امام حسن مجتبی اورمدرسہ امام حسین علیہ السلام کی بنیاد بھی رکھی۔
آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کی تصنیفات:
آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے ویسے تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن ہم یہاں پران کی خاص کتابوں کے ہی نام ذکرکر ہ ے ہیں جومندرجہ ذیل ہیں:
۱ ۔ انوارالاصول
۲ ۔ انوارالفقہاء
۳ ۔ تفسیرنمونہ
۴ ۔ تعالیقات عروةالوثقی
۵ ۔ رسالہ توضیح المسائل
حضرت آية الله العظمی صافی گلپايگانی
حضرت آية الله العظمی شبيری زنجانی
حضرت آیة اللہ العظمی شبیری زنجانی کی ولادت سن ۱۳۴۷ ہجری قمری میں قم کے ایک ر و حانی خاندان میں ہوئی ۔ ان کے والد جناب آیة اللہ حاج سیداحمدزنجانی حوزہ علمیہ قم کے بزرگ علماء میں گنے جاتے تھے ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد اپنے والداورآیة اللہ العظمی محقق داماداورآیة اللہ العظمی بروجردی سے فقہ واصول میں کسب فیض کیا ۔ دور حاضرمیں وہ حوزہ علمیہ قم میں سطح اول کے فقہ واصول ک ی ت در ی س میں مشغول ہیں۔
آية الله العظمی نوری همدانی
مراجع تقلید:
* آیت الله العظمی امام خمینی(ره) www.imam-khomeini.com
* آیت الله العظمی خامنه ای(مد ظله)، رهبر معظم انقلاب www.khamenei.com.ir
مرحوم آیت اللہ اراکی بھت بڑے عارف اور تقوی کے مجسم پیکر تھے،اگر یہ کھا جائے کے ھم نے اپنی زندگی میں اُن کی مانند آداب اسلامی سے آراستہ شخصیت کو نھیں دیکھا تو غلو نھیں ،آپ اخلاق میں مرحوم آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کی مکمل جھلک دکھائی دیتے تھے۔
حوزہ علمیہ میں آنے والے ھر ابتدائی طالب علم کو اس حدیث شریف کی تعلیم دی جاتی ہے:
‘عن رسول الله صلّی اللہ علیہ و الہ: اول العلم معرفۃ الجّبار، و آخرالعلم تفویض الامر الیہ’’
ترجمہ: علم کی ابتدا پروردگار کی شناخت و پھچان اور علم کی انتھاء توکل اوراپنے امورمادی ومعنوی(مادی و معنوی رزق)معاملات کو اس کے سپرد کر دینا ہیں۔
جی ھاں! علم کی ابتداءحضرت حق متعال کی معرفت کا عارف ھونا ھے، مرحوم آیت اللہ اراکی ‘‘عالم باللہ’’ اور ‘‘عالم بامر اللہ’’ کے مصادیق میں بھترین مصداق تھے،آپ عارف باللہ بھی تھے اور فقیہ بھی،اور اگر علم کی انتھاء توکل ہے(اپنے امور کو حضرت حق متعال کے سپرد کرنا ھو) تو مرحوم آیت اللہ اراکی دور حاضر میں اسکے بارز ترین مصداق تھے۔
مرحوم آیت اللہ اراکی نے فقہ و اصول کادرس خارج مرحوم آیت اللہ حاج شیخ عبد الکریم حائری سے حاصل کیا اور پھرخود مجتھد مسلم اور مرجعیت کے مقام پر فائز ھوئے۔آپ نے چندین سال حوزہ علمیہ قم میں تدریس کی اور متعددمفید و دیقیق کتابیں تألیف کیں۔
تصانیف
آپ کی کتب میں سے بعض درج ذیل ہیں۔۲
۱۔ کتاب الطهارة۲جلد (عربی،مؤلف عروۃ الوثقی کی حیات میں ھی ان کی کتاب عروۃ الوثقی پر لکھی جانے والی ۷۱۲صفحات پر مشتمل یہ کتاب شاید عروۃ الوثقی کی پھلی شرح ہو جو ۱۴۱۵ ھ۔ق میں مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۲۔ کتاب البیع ۲جلد (عربی، یہ کتاب مرحوم شیخ حائری کی زندگی میں تألیف ھوئی اور ۱۴۱۵ھ۔ق مؤسسہ در راہِ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۳۔ المکاسب المحرمہ (۲۶۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۵۵ھ ۔ ق شیخ عبد الکریم حائری کی میں تألیف ھوئی اور ۱۴۱۳ ھ قمری میں مؤسسہ در راہِ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۴۔ رسالۃ فی الخمس (عربی، یہ کتاب مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کی زندگی میں تألیف کی گئی اور ۱۴۱۳ ھ۔ق کوضمیمہ کے ساتھ پرنٹ ھوئی)
۵۔ رسالۃ فی الارث (عربی، ۲۴۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۳ ھ ۔ ق مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۶۔ رسالۃ فی نفقہ الزوجہ (عربی، ۵۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۳ ھ ۔ ق کو ضمیمہ کے ساتھ پرنٹ ھوئی)
۷۔ الخیارات (عربی، ۶۱۹ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۴۵شمسی کو تألیف ھوئی اور ۱۴۱۴ ھ ۔ ق کو کتاب البیع کے ساتھ مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی)
۸۔ کتاب النکاح (یہ کتاب شیخ عبد الکریم حائری کے دروس پر مشتمل ھے جو مرحوم آیت اللہ اراکی نے لکھی لیکن پرنٹ نھیں ھوئی)
۹۔ رسالہ ای در صلاة الجمعہ
۱۰۔ رسالۃفی الارث (جو ۱۴۱۳ ھ ۔ ق میں مؤسسہ در راہِ حق قم کی جانب سے پرنٹ ھوا)
۱۱۔ رسالۃ فی نفقۃالزوجۃ (۵۰ صفحات پر مستمل یہ رسالہ ۱۴۱۳ ھ ۔ ق رسالہ ارث کے ساتھ ضمیمہ ھو کر پرنٹ ھوا)
۱۲۔ رسالۃفی الاجتهاد والتقلید (عربی، ۸۵ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ کتاب البیع کی ساتھ ضمیمہ ھو کر پرنٹ ھوا)
۱۳۔ تعلیقۃ علی الدرر الفوائد (عربی، یہ کتاب ۱۴۰۸ ھ۔ ق کو جامعہ مدرسیں قم کی جانت سے خود کتاب درر الفوائد سے ساتھ پرنٹ کروائی گئی)
۱۴۔ رسالہ فی دماء الثلاثہ و احکام الاموات والتیمّم (یہ رسالہ۱۳۶۶ شمی کو تألیف کیا گیا)
۱۵۔ رسالۃ فی اثبات ولایۃ الامام علی بن ابیطالب علیہالسلام (یہ رسالہ شیخ عبد الکریم حائری کی اصول عقائد پر مشتمل تقاریر کا مجموعہ ھے)
۱۶۔ دورہ اصول فقہ (عربی ، مرحوم شیخ حائری کی کتاب ‘‘دررالاصول’’ کی ترتیب پر لکھی جانے والی اس کتاب کی دو جلدیں ھیں جو‘‘مؤسسہ درراہ حق قم’’ کی جانب سے پرنٹ ھوئیں اوراس کتاب کی دوسری جلد کے ساتھ کچھ تعلیقات بھی ضمیمہ ھو کر پرنٹ کروائے گئے)
۱۷۔ اصول الفقہ (عربی ، کفایۃ الاصول کی ترتیب پر ۲ جلدوں میں لکھی جانے کتاب ھے)
۱۸۔ رسالہ توضیح المسائل (مرحوم آیت اللہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی توضیح المسائل میں مندرج فتاوا کے ساتھ آیت اللہ اراکی کے فتاوا کو تطبیق کر کے پرنٹ کروایا گیا)
۱۹۔ رسالہای در ولایت تکوینی (فارسی زبان میں لکھا جانے والا یہ رسالہ مرحوم آیت اللہ اراکی کے حالات زندگی پر لکھی جانے والی کتاب میں ۱۳۷۵ شمسی کو ‘‘انجمن علمی،فرھنگی و ھنری آستان مرکزی’’کی جانب سے پرنٹ ھوا ہے)
کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کا تعارف
اجتھاد اور علم فقہ کی اھمیت واضح اور روشن ھے،چونکہ اجتھاد کے بغیر قدیمی و (سنتی) طرز کے مطابق جدید فقھی مسائل کا جواب دینا اور لوگوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نھیں،جبکہ اجتھاد اصول فقہ میں مھارت حاصل کیے بغیرممکن نھیں ، لھذا جو کوئی بھی دین کے بارے میں اظھار نظر(فتوی) دینا چاھے تو اسے اصول فقہ میں ماہر ھونا ضروری ھے۔
بہرحال ‘‘اصول فقہ’’ ،‘‘فقہ’’ تک پہنچنے کے لیے مقدمہ ہے لہٰذا یہ علم بھی ‘‘فقہ’’ کی شرافت ،ارزش و اہمیت سے برخوردار ہو گا۔طول تاریخ میں سینکڑوں علماء نے اس موضوع پرکتابیں تدوین کی ہیں جن میں سے ایک بہترین اور جدیدترین کتاب مرحوم آیت اللہ العظمیٰ اراکی کی لکھی ہوئی کتاب‘‘اصول الفقہ’’ ہے۔
کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کی خصوصیات
اس کتاب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اور اس سے بہتر استفادہ کرنے کے لیے ہم اس کتاب کی خصوصیات کو ذکر کرتے ہیں:
۱۔علم اصول فقہ کا تعلق مقدماتی علوم سے ہے لہٰذا اسے استقلالی طور پر نہیں پڑھناچاہیے یعنی ایسا نہ ہو کہ محقق طالب علم اپنی تمام عمر اس مقدمے کو حاصل کرنے میں گذار دے اور اپنے اصلی ہدف ‘‘فقہ’’سے غافل رہے۔
حقیقت پر مبنی اس قسم کا طرز تفکرمرحوم آیت اللہ اراکی کی تمام تألیفات میں قابل مشاہدہ ہے۔لہٰذا آپ نے اپنی کتاب میں ایسی اضافی ابحاث کو ‘ جن کا علمی نتیجہ نہ ہو’ ذکر نہیں کیا۔
۲۔ مرحوم آیت اللہ العظمیٰ اراکی نے اپنے استاد مرحوم آیت اللہ العظمیٰ حائری سے متاثر ہوتے ہوئے اس کتاب میں یہ کوشش کی ہے کہ بے جا نقل اقوال کو ذکر کرکے طالب علموں کے قیمتی اوقات کوتلف ہونے سے بچا یا جائے،لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں علم اصول کے ماہرین کے اختلافی نظریات دیکھنے کو نہیں ملتے بلکہ تمام موارد میں مؤلف نے فقط اپنی تحقیقات و نظریات کو بیان کیا ہے۔
۳۔اس کتاب میں مؤلف کتاب کا فقہاء کے لیےخاص احترام دیکھنے کو ملتا ہے،جس بارے میں مفصل مقالہ لکھا جاسکتا ہےجبکہ بعض نادر مقامات پر کچھ بزرگان کا نام ان کے القابات اور ان کے لیے دعائیہ کلمات کے ساتھ ان کی تعریف کی گئی ہے.۳
۴۔اس کتاب کی تینوں جلدیں مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کی زندگانی میں ہی لکھی گئی ہیں لہٰذا تمام مقامات پر اُن کے لیے یہ کلمات «شیخنا الاستاد دام بقاءه» و«طال عمره الشریف» لکھے گئے ہیں ۔ ۴
اور تمام وہ مطالب جو مرحوم اراکی نے اپنے استاد سے نقل کیے ہیں وہ تمام کے تمام انھوں نے ان کی محفل درس سے استفادہ کرتے ہوئےنقل کیے ہیں لہٰذا استاد کےبعض اشارات جو انھوں نے استاد سے اس کتاب میں نقل کیے ہیں وہ خود استاد کی کتاب ‘‘درد الاصول’’ سے تفاوت رکھتے ہیں یا فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں پہلے استاد محترم کی نظر یہ تھی لیکن ابھی تبدیل ہو چکی ہے اس جہت سے اس کتاب کی بہت اہمیت ہے مراحظہ فرمائیں۔ ۵
۵۔اس کتاب میں مبتکرانہ طور پر جدید اصولی ابحاث مباحث کو بیان کیا گیا ہے بطور مثال مسئلہ«مقدمہ واجب» جیسی مباحث کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے. ۶
۶۔ وافر فقہی مثالوں کے ساتھ بحث کی تفصیل اور علم اصول کو پریکٹیکلی طور پر پیش کرنا بھی اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے مثلاً
فرماتے ہیں کہ اگر مباح پانی غصبی برطن میں پایا جائے تو اس صورتحال میں وظیفہ وضو کرنا ہے یا تیمم کرنا؟۔۷
۷۔کتاب خود آیت اللہ اراکی کے قلم سے تحریر ہوئی ہے لہٰذا دقیق اور استحکام رکھتی ہے جیسے متن کتاب کا سلیس ہونا ،ادبیات عرب کے قواعد کی مراعات کرنا اور محتویات متن کا درست ہونا قابل ذکر ہیں جبکہ بعض دوسری اصولی کتب جن کو شاگروں نے تقریر کیا ہے ان میں یہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں۔
۸۔ کتاب کی پہلی جلد ‘‘وضع’’ کی بحث سے شروع ہوتی ہے اور علم اصول کے موضوع کوبھی بیان کرتے ہوئے دلیل انسداد کی بحث کو تمام کرتے ہوئے پہلی جلد ختم ہو جاتی ہے، مؤلف فرماتے ہیں کہ : ہم نے پہلے علم اصول کے موضوع کو بیان کردیا ہے‘‘اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف نے یہ بحث پہلے ذکر کردی ہے لیکن ناشر نے اسے حذف کردیا ہے یا اسے اسکی جگہ پر ذکر نہیں کیا۔۸
۹۔مرحوم آیت اللہ اراکی نے اس تین جلدی کتاب میں اصول فقہ کے دو دورے بیان کیے ہیں یعنی کتاب کی دوسری جلد اسی پہلے دورے کی مباحث کا تسلسل ہے جو برائت کی بحث سے شروع ہوتی ہے اور تعادل و تراجح کی بحث کے اختتام تک ہے۔پھر اسی کے آگے دوبارہ استصحاب کی بحث کی طرف لوٹ آتے ہیں جہاں بعض عبارات تکراری ہیں۔ پھر اس کتاب کی تیسری جلد(ضمیمہ جات) علم اصول کو ابتدائی بحث‘‘تعریف،موضوع’’سے شروع ہوتی ہے اور پھر وضع کی بحث دوبارہ تکرار ہوئی ہے۔۹
۱۰۔بہتر یہ تھا کہ ناشر محترم اس کتاب کی ترتیب کو رعایت کرتے اور ہر بحث کو اس کی جگہ پر درج کرتے مخصوصاً دوسری جلد کے آخر میں درج تعلیقات کو،او ر آیات و روایات کے ایڈریس کو نیچے حاشیے میں درج کرتے، ثالثاً کتابی اغلاط(اگرچہ کم ہیں)اصلاح کرتے۔
نتیجہ
آخر میں ہم تمام محققیق کو اس کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔
منابع و مأخذ
۱۔ رضااستادی،شرح احوال حضرت آیت اللہ العظمیٰ اراکی،ناشر انجمن علمی،فرہنگی،و ہنری استان مرکزی،۱۳۷۵ش،ص۱۴۱
۲۔ایضاً ص۱۶۵
۳۔ اراکی محمدعلی،اصول الفقہ،۳ جلدی وزیری، قم، مؤسسہ در راه حق، ۱۳۷۵ش،ج۱، ص۱۶۸۔
۴۔ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج ۱ ، ص ۵۹۶ و ج ۳ ، ص ۲۴۶ .
۵۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۳۷ ص۲۴۶ و ص۳۵۸
۶۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۱ ص۱۳۰۔
۷۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۱، ص۱۴۳۔
۸۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج1، ص۵۵۲۔
۹۔ ایضاً جلد ۳ص۳۹۶۔
حضرت آية الله العظمی سيدعلی حسينی سيستانی
- ولادت:حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی ۱/ ربیع الاول سن ۱۳۴۹ ہجری قمری میں مقدس شہرمشہدمیں پیداہوئے ۔ آپ کے والدنے اپنے جدکے نام پر آپ کانام علی رکھاآپ کے والدمحترم کانام سیدمحمدباقراورداداکانام سیدعلی ہے، وہ ایک بہت بڑے عالم اورزاہد انسان تھے ان کے زندگی نامہ کو مرحوم آقابزرگ تہرانی نے طبقات عالم شیعہ نامی کتاب کے چوتھے حصہ میں صفحہ نمبر ۱۴۳۲ پرذکرکیاہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ نجف اشرف میں مولاعلی نہاوندی اورسامر ہ میں مجدد شیرازی کے شاگردوں میں تھے اوربعدمیں وہ مرحوم سیداسماعیل صدرکے خاص شاگردوں میں رہے ۔ سن ۱۳۰ ۸ ہ جری میں مشہدمقدس لوٹ آئے اوروہی سکونت اختیارکرلی مرحوم شیخ محمدرضاآل یاسین ان کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔
آپ کے خاندان کاتعلق حسینی سادات سے ہے،یہ خاندان صفوی دورمیں اصفہان میں رہتاتھا جب آپ کے پردادسیدمحمدکو،سلطان حسین صفوی نے سیستان میں شیخ الاسلام ک ا عہدہ سپرد کیاتووہ اپنے گھروالوں کے ساتھ وہ ی ں جاکر بس گئے ۔
سیدمحمدکے پوتے، سیدعلی،جوآپ کے دادا ہیں ا نہوں نے وہاں سے مشہد مقدس کی طرف ہجرت کی اوروہاں مرحوم محمدباقرسبزواری کے مدرسہ میں رہنے لگے بعدمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں سے نجف اشرف چلے گئے۔
اَیت اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) نے پانچ سال کی عمرمیں اپنی تعلیم کاآغازقرآن کریم سے کیا اور لکھناپڑھناسیکھنے کے لئے دارالتعلیم نامی ایک دینی مدرسہ میں داخلا لیا، اس ی دوران ا ٓ پنے استادمرزاعلی آقاظالم سے کتابت سیکھی۔
سن ۱۳۶۰ ہجری میں اپنے والدبزرگوارکے حکم سے دینی تعلیم شروع کی اورعربی ادب کی کچھ کتابیں جیسے شرح الفیہ ابن مالک ،مغنی ابن ہشام، مطول تفتازانی ،مقامامت حریری اورشرح نظام ،مرحوم ادیب نیشابوری اوردوسرے استادوں سے پڑھی ں اورشرح لمعہ وقوانین مرحوم سیداحمدیزدی جونہنگ کے لقب سے مشہورتھے، سے پڑھی ں۔ مکاسب ورسائل اورکفایہ جیسی کتابیں جلیل القدرعالم دین شیخ ہاشم قزوینی سے پڑھی ں ۔ فلسفہ کی کچھ کتابیں جیسے منظومہ سبزواری وشرح اشراق اوراسفار استادیاسین سے پڑھی ں اورشوارق الالہام شیخ مجتبی قززینی کے پاس پڑھی ۔ موصوف نے علامہ محقق مرز ا مہدی اصفہانی ،متوفی۱۳۶۵ہجری،سے بہت زیادہ کسب فیض کیا ۔ اس ی طرح مرزامہدی آشتیانی اورمرزا ہاشم قزوینی سے بھی کافی استفادہ کیا ۔ مقدماتی وسطحی تعلیم سے فار غ ہونے کے بعد کچھ استادوں کے پاس علوم عقلیہ اورمعارف الہیہ سیکھنے میں مشغول ہوگئے ۔ اس کے بعد سن ۱۳۶8ہجری میں مشہدمقدس سے شہر قم کی طرف ہجرت کی اوربزرگ مرجع تقلیدآیة اللہ العظمی بروجردی کے فقہ واصول کے درس خارج میں شریک ہوکرعلمی فیض حاصل کیا۔ موصوف نے ان کی فقہی بصارت ،مخصوصا علم رجال اورحدیث سے بہت زیادہ کسب فیض کیا،اسی طرح موصوف نے فقیہ وعالم فاضل سیدحجت کہکمری اوراس زمانے کے دوسرے مشہورعلماء کے درسوں میں بھی شرکت کی۔
موصوف نے قم کے قیام کے دوران مرحوم سیدعلی بہبانی (جواحوازکے جلیل القدرعالم دین اورمرجع محقق شیخ ہادی تہرانی کے تابعین میں سے تھے) سے قبلہ کے مسائل کے سلسلہ میں کافی خط وکتابت کی ، آپ اپنے خطوں میں مرحوم محقق تہرانی کے نظریوں پراعتراض کرتے تھے اور مرحوم بہبانی اپنے استادکادفاع کرتے تھے یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتارہا یہاں تک کہ مرحوم بہبانی نے آپ کوشکریہ کا خط لکھااورآپ کی کافی تعریف کی اوریہ طے پایاکہ ب اقی بحث مشہدمیں ملاقات کے موقع پرہوگی۔
سن۱۳7۱ہجری میں آپ نے قم سے نجف اشرف کاسفرکیااورامام حسین علیہ السلام کے چہلم کے دن کربلامیں واردہوئے ۔ پھروہاں سے نجف چلے گئے ۔ نجف پہنچ کرمدرسہ بخارائی میں قیام کیااورآیة اللہ العظمی خوئی ،شیخ حسین حلی جیسے بزرگ مراجع اکرام کے فقہ واصول کے درسوں میں شرکت کی، اسی طرح موصوف آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ شہرودی جیسے بزرگ علماء کے درسوں میں بھی شریک ہوئے۔
جب سن ۱۳8۰ہجری میں آپ نے مستقل قیام کی نیت سے اپنے وطن مشہدواپس ا ٓ نے کاارادہ کیاتواس وقت آیة اللہ العظمی خوئی اورشیخ حسین حلی نے آپ کو اجتہاد کا اجازہ لکھ کردیا،اسی طرح مشہورمحدث آقابزرگ تہرانی نے رجال اورحدیث میں موصوف کے تبحرعلمی کی کتبی تصدیق کی۔
موصوف سن ۱۳8۱ ہجری میں دوبارہ نجف تشریف لے گئے اور وہاں شیخ انصاری کی کتاب مکاسب سے فقہ کادرس خارج کہناشروع کردیا ۔ اس کے بعدشرح عروة الوثقی سے کتاب طہارت اورصلاة کی تدریس کی اورجب سن ۱۴۱8 ہجری میں کتاب صوم تمام ہوئی تو آپ نے کتاب الاعتقادک ی ت در ی س شروع ک ی ۔
اسی طرح اس عرصہ میں آپ نے مختلف موضوعوں جیسے کتاب القضا،کتاب الرباء ،قاعدہ الزام، قاعدہ تقیہ ،وغیرہ پرفقہی بحث کی، آپ نے اس دوران علم رجال پربھی بحث کی ، جس میں ابن ابی عمیرکی مرسلہ روایت وں کے اعتبار اور شرح مشیخة التہذی بین پربحث ہوئی۔
موصوف نے سن۱۳8۴ہجری میں شعبان کے مہینہ سے علم اصول کادرس دیناشروع کیا اورآپ کے درس خارج کاتیسرا دورا سن۱۴۱۱ ہجری کے شعبان ماہ میں تمام ہوا ۔ سن 1397ہجری سے آج تک کے ، آپ کے فقہ واصول کے تمام درسوں کے آڈیوکیسٹ موجودہیں ۔ آج کل آپ کا(شعبان ۱۴۲۳ہجری)شرح عروة الوثقی کی کتاب الزکواة کادرس خارج چل رہاہے۔
علمی کارنامے:
حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) ہمیشہ اپنے استادوں کے درسوں میں اپنی بے پنہاذہانت وصلاحیتوں کاثبوت دیاکرتے تھے اورہمیشہ ہی تمام شاگردوں میں ممتازرہتے تھے ۔ آپ اپنے علمی اعتراضوں ،حضورذہن،تحقیق،فقہ ورجال کے مسائل کے مطالعہ ،دائمی علمی کاوشوں اورمختلف عل م ی نظریوں سے آشنائی کے بل بوتے پرحوزہ میں اپنی مہارت کاثبوت پیش کرتے رہتے تھے
قابل ذکربات یہ ہے کہ آپ کے اورشیہدصدر(قدس سرہ)کے درمیان عل م ی کارناموں کے سلسلہ میں مقابلہ رہاکرتاتھا ۔ اس بات کااندازہ آپ کے دونوں استادوں، آیة اللہ خوئی(رضوان اللہ تعالی علیہ) اورعلامہ حسین حلی (قدس سرہ) کے اجازہ اجتہادسے لگایاجاسکتاہے ۔ یہ بات بھی مشہورہے کہ آیة اللہ خوئی(قدس سرہ)نے ایة اللہ العظمی سیستانی (دام ظلہ) اورآیة اللہ شیخ علی فلسفی(جوکہ مشہدکے مشہورعلماء میں سے ہیں) کے علاوہ اپنے شاگردوں میں سے کسی کوبھی کتبی اجازہ نہیں دیا ۔ اسی طرح اپنے زمانے کے شیخ المحدثین علامہ آقابزرگ تہرانی نے آپ کے لیے سن1380 ہجری قمری میں جواجازہ لکھاہے اس میں آپ کی مہارت اورعلم رجال اورحدیث میں آپ کی درایت کوکافی صراحاہے آقابزرگ تہرانی نے آپ کے لیے یہ اس وقت لکھاتھا جب موصوف کی عمرصرف ۳۱ سال تھی۔
تالیفات اور فکری کارنامے:
تقریبا ۲۴ سال پہلے ،آپ نے فقہ ،اصول اوررجال کادرس خارج کہناشروع کیااور اسی طرح مکاسب کی کتاب الطہارت ،صلاة،قضا، خمس،اوردوسرے قواعدفقہی جیسے ربا،تقیہ اورقاعدہ الزام کوپوراکیا،آپ اصول کی تدریس کے تین دورہ ختم کرچکے ہیں، جس میں کی کچھ بحثیں جیسے اصول عم ل ی ،تعادل وتراجیح اورکچھ فقہی بحثیں جیسے ابواب نماز،قاعدہ تقیہ والزام چھپای کے لے تیار ہے۔حوزہ کے کچھ مشہور علما و فضلا جن میں سے بعض درس خارج بھی کہتے ہیں، جیسے علامہ شیخ مہدی مروارید،علامہ سیدمرتضی مہری،علامہ سیدحسین حبیب حسینیان،سیدمرتضی اصفہانی، علامہ سیداحمد مددی،علامہ شیخ باقرایروانی اورحوزہ علمیہ کے کچھ دوسرے استادآپ کی بحثوں پرتحقیق کی ہے۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی( دام ظلہ ) نے درس دینے کے ساتھ ساتھ کچھ اہم کتاب وں اوررسالوں کی تصنیف وتالیف بھی ہ ے۔ اسی طرح آپ نے ، ا پنے استادوں کی تمام تقریرات کوبھی تالیف کیا ہے ۔
درس وبحث کاطریقہ:
آپ کے درس دینے کاطریقہ حوزہ کے دوسرے استادوں اوردرس خارج کہنے والوں سے الگ ہے ،جیسے آپ کے اصول کے درس کی خصوصیت ذیل میں بیان کی جارہی ہے ۔
۱ ۔ بحث کی تاریخ کاذکر:
اصول کی شناخت اوراس کی بنیادی چیزیں ،جوشایدایک فلسفی مسلہ ہے جیسے سہولت وآسانی "مشتق" اوراس کے ترکیبات ہوں یاعقیدتی وسیاسی، جسیے تعادل وتراجیح کی بحث، جس میں آپنے بیان کیاہے کہ حدیثوں کااختلاف ،اس زمانے کے فکری اورعقائدی جھگڑوں ،کشمکشوں اورا ٓ ئمہ کے زمان ے کے سیاسی حالات کانتیجہ تھا اس بارے میں تھوڑی سی تاریخی معلومات بھی ہمیں اس مس ئ لہ کے افکارونظریوں کے حقیقی پہلوؤں تک پہنچادیت ی ہے۔
۲ ۔ حوزوی اورجدیدفکرکاسنگم:
کتاب کفایةکے م ؤ لف نے ، معانی الفاظ کی بحث کے ضمن میں ، معانی الفاظ کے بارے میں اپنے نظریات کوجدیدفلسفی نظریہ کے تحت،جس کانام ”نظریہ تکثرادراکی“ ہے اورجوانسانی ذہن کی استعدادوخلاقیت پرمبنی ہے،بیان کیاہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ انسان کاذہن ایک بات کودوالگ الگ شکلوں میں تصورکرسکتاہے: ایک کومستقل طورپردقت ووضاحت کے ساتھ ، اسے اسم کہاجاتاہے اوردوسرے کوغیرمستقل طورپرکسی دوسری چیزکی مددسے اسے حرف کہتے ہیں ، اورجب ”مشتق“ کی بحث شروع کرتے ہیں توآپ زمان کواس فلسفہ کی نظرسے دیکھتے ہیں جومغربی دنیامیں رائج ہے اور اس بارے میں بھی اظہارخیال کرتے ہیں کہ زمان کومکان سے روشنی اوراندھیروں کے لحاظ سے الگ کیاجاناچاہئے ،صیغہ امراورتجری کی بحث میں سوشیالسٹس کے نظریوں کوذکرکرتے ہیں ۔جنکا ماننا ہے کہ بندے کی سزاکامعیاراللہ کی نافرمانی ہے اوریہ حالت پرانے انسانی سماج کی طبقہ بندی اورتقسیم بندی پرہے جس میں آقا،غلام،بڑے ،چھوٹے…… کافرق پایاجاتاتھا ۔ درحقیقت یہ نظریہ اس پرانے سماج کے باقیات میں سے ہے جوطبقاتی نظام پرمبنی تھا ، نہ کہ اس قانونی نظام پرجس میں عام انسان کے فائدوں کی بات کی جاتی ہے۔
۳ ۔ ان اصول کااہتمام جو فقہ سے مربوط ہیں :
لہذاایک طالب علم بھی علماء کی دقیق اورپیچیدہ فقہی بحثوں کو،جن کاکوئی علمی اورفکری نتیجہ نہیں ہوتا، دیکھ سکتاہے جیسے وہ بحثیں جووضع کے بارے میں کی جاتی ہیں کہ کیاوضع ایک امرتکوینی ہے یااعتباری، یاایک ایساامرہے جوتعہدوتخصیص سے متعلق ہے، یاوہ بحثیں جوعلم کے موضوع اورعلم کے موضوع کی تعریف کے ذاتی عوارض کے بارے میں ہوتی ہیں اور انہیں جیسی کچھ دیگر چیزیں جو بیان ک ی جاتی ہیں ، لیکن جوکچھ آیة اللہ العظمی سیستانی کے درسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ موصوف محکم اورمضبوط علمی مبن ا کوحاصل کرنے کے لیے سخت محنت وزحمت کرتے ہ یں خاص طور پر روش استنباط اور اصول کی بحث وں میں ، جیسے اصول عملی، تعادل وتراجیح ،عام وخاص وغیرہ کے متعلق جوبحثیں ہیں۔
۴ ۔ جدت :
حوزہ کے بہت سے استادوں میں تخلیق کافن نہیں پایاجاتاہے لہذا وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کتاب یارسالہ پرتعلیقہ یاحاشیہ لکھے، بجائے اس کے کہ اس پربحث کریں، لہذاہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے استادصرف موجودااستادوں کے نظریوں پربحث کرتے ہیں یا”ففہم“ یااس شکل پردواشکال واردہوتے ہیں اوران دواشکالوں میں غورکرناچاہئے، جیسی عبارتوں میں مشغول کرلیتے ہیں۔
۵ ۔ مشرکوں کے ساتھ نکاح جائز ہے :
آیة اللہ سیستانی اس قاعدہ کوجیسے قاعدہ ”تزاحم“ کہتے ہیں اورجسے فقہاء واصولین صرف ایک عقلی ،عقلائی قاعدہ مانتے ہیں ،قاعدہ اضطرارکے ضمن میں جوایک شرعی قاعدہ ہے اوراس کے بارے میں بہت سی نصوص کاذکرہواہے ،جیسے(ہروہ چیزجسے اللہ نے حرام کیاہے ،اسے ہی مضطر کے لیے حلال کیاہے) کوحلال جانتے ہیں لہذا قاعدہ اضطراراصل میں وہی قاعدہ تزاحم ہے، یایہ کی فقہاء واصولین بہت سے قاعدوں کوفضول میں طول دیتے ہیں جیسے جوکچھ قاعدہ لاتعادمیں دیکھنے میں آتاہے کہ فقہا ء اسے نص کی وجہ سے نمازمیں سے مخصوص مانتے ہیں جبکہ آیة اللہ سیستانی اس حدیث ”لاتعادالصلاة الامن خمس“کومصداق کبری مانتے ہیں جونمازاوربہت سے مختلف واجبات کوشامل ہے اوریہ کبری روایت کے آخرمیں موجودہے، ولاتنقض السنة الفریضہ لہذاجوکچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ نمازمیں بھی اوراس کے علاوہ بھی واجبات سنت پرترجیح رکھتے ہیں جیسے ترجیح وقت وقبلہ ،اس لیے کہ وقت اور قبلہ واجبات میں سے ہے نہ کہ سنت سے۔
۶ ۔ اجتماعی نظر :
کچھ فقہاء ایسے ہیں جومتن کاتحت اللفظی ترجمہ کرتے ہیں یادوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ وہ وسیع معنی کوبیان کر نے کے بجائے خودکوم تن کے حروف کاپابندبنالیتے ہیں ۔ کچھ دوسرے فقہاء ان حالات پربحث کرتے ہیں جس میں وہ م تن کہاگیاہے تاکہ ان باتوں سے آگاہ ہو سکیں جن کی وجہ سے اس م تن پراثرہواہے ،جیسے اگرپیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث پرغوروفکرکریں جس میں آپنے (خیبرکی جنگ میں)پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیاہے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ فقہاء اس حدیث کے ایک ایک حرف پرعمل کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس حدیث کے مطابق پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیتے ہیں، جبکہ ہمیں ان حالات پربھی توجہ دینی چاہئے ج ن میں یہ حدیث بیان کی گ ئی تھی تاکہ پیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث کوبیان کرنے کے اصلی اوربنیادی مقصدتک پہنچاجاسکے اوروہ یہ ہے کہ خیبرکے یہودیوں کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے ہتھیاراوراورفوجی سازوسامان کی سخت ضرورت تھی جبکہ اس زمانے میں جس میں مسلمانوں کے حالات اچھے نہیں تھے اوراسلاح کو ڈھونے کے لیے چارپایوں کے علاوہ کوئی دوسرا ذر یعہ نہیں تھااس لیے ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ اس حدیث سے مرادایک حکومتی پابندی تھی جس میں ایک ایسی مصلحت تھی جس کی ان دنوں ضرورت تھی ، اس لیے اس طرح کا حکم صادرہوا لہذااس حدیث کوحکم یاحلال وحرام کے طورپرنہیں لیناچاہئے۔
۷ ۔ استنباط میں علم ودرایت کاہونا:
آیة اللہ العظمی سیستانی کا نطریہ یہ ہے کہ ایک فقیہ کوعربی زبان اور قواعد میں ماہر ہونا چاہئے ۔ ساتھ ہی ساتھ عربی نثر و نظم اورحقیقت مجازکے استعمال سے بھی مکمل طورپر واقف ہونا چاہئے تاکہ متن کوموضوع کے اعتبارسے سمجھ سکے،اسی طرح اہلبیت علیہم السلام کی حدیثوں اوران کے راویوں پر پوری طرح سے تسلط ہون ا چاہئے اس لیے کہ علم رجال کی معرفت ہرمجتہدکے لیے واجب وضروری ہے ۔ اسی طرح آپ کے کچھ نظریے ایسے ہیں جومنحصربہ فردہیں اورمشہورسے کافی مختلف ہیں ، جیسے ابن غزائری اور ان کی کتاب ک ے بارے میں موصوف کی رائے مشہورسے مخ ت لف ہے آپ کی نظرمیں وہ کتاب ابن غزائری کی ہی ہے اورغزائری، نجاشی اورشیخ وغیرہ سے زیادہ قابل اعتمادہے ۔ آپ کایہ بھی مانناہے کہ کسی حدیث کو مسندیامرسل قرارد ینے اور راوی کی شخصیت کو معین کرنے کے لیے، طبقات کی روش پراعتمادکرنا چاہئے اور یہی روش مرحوم آیة اللہ بروجردی کی بھی تھی۔
آپ کایہ بھی مانناہے کہ فقیہ کوحدیث کی کتابوں،نسخوں کے اختلاف وں ، حدیث کوصحیح سمجھنے کے لحاظ سے مؤلف کے حالات اور جس روش کو مؤلف یا راوی نے اپنایاہے اس سے آگاہی ضروری ہے ۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی اس بات کوقبول نہیں کرتے کہ شیخ صدوق حدیثوں وروایتوں کو نقل کرنے میں دوسروں سے زیادہ دقت کرتے تھے ،بلکہ وہ شیخ صدوق کوکتابوں اورقرینوں کی وجہ سے ایک امین اورقابل اعتمادناقل حدیث مانتے ہیں جبکہ آپ نے اورشہیدصدرنے اس بارے میں کافی محنت وزحمت کی ہے اورہمیشہ خلاقیت کاثبوت دیتے رہے ہیں ، اورجب آیة اللہ سیستانی ”تعادل و”ت راجیح “ کی بحث میں واردہوتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس بحث کارازاحادیث کے اختلاف میں پوشیدہ ہے لہذا اگرہم متون شرعی کے اختلاف کی وجہوں پربحث کریں تویہ بڑی اورحل نہ ہونے والی مشکل بھی حل ہوسکتی ہے ، تب ہم دیکھیں گے کہ ”ترجیح“ وتغیر“ کی وہ روایت یں جنہیں صاحب کفایة ، استحباب پرحمل کرتے ہیں، ہم ہم ان سے بے نیاز ہیں ۔ شہیدصدرنے بھی اس بارے میں بحث کی ہے لیکن انہوں نے تاریخی وحدیثی شواہدکوبنیادنہ یں بنا یا ہے بلکہ صرف عقل کوبنیادبنا تے ہوئے ، اختلاف ک و حل کرنے کے ل ئے کچھ اہم قاعدوں کوپیش کیاہے ۔
۸ ۔ مختلف مکتبوں کے درمیان مقایسہ:
ہم سب جانتے ہیں کہ اکثراساتذہ ایک مکتب یاعقیدہ کونظرمیں رکھ کرکسی موضوع،کی تحقیق یامطالعہ کرتے ہیں ، لیکن آیة اللہ سیستانی کی روش اس سے مختلف ہے۔ مثلاجب وہ کسی موضوع پرتحقیق کرتے ہیں توحوزہ مشہدو حوزہ قم اور حوزہ نجف اشرف کے درمیان مقایسہ کرتے ہیں ۔ وہ مرزا مہدی اصفہانی (قدس سرہ) جومشہدکے ایک مشہور عالم ہیں ،آیة اللہ بروجردی(قدس سرہ) ، جو حوزہ علمیہ قم کی فکرک ا سمبل ہیں اور اسی طرح حوزہ علمیہ نجف کے مشہورمحققوں جیسے آیة اللہ خوئی اورشیخ حسین حلی(قدس سرہ ما ) کے نظریوں کوایک ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر اس طرح بحث ہوتی ہے تو اس کے سارے گوشے اورنکتے ہمارے سامنے اچھی طرح واضح ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کی فقہی روش میں بھی چندخوبیاں پائی جاتی ہیں جوحسب ذیل ہیں:
۱ ۔ شیعہ اور دیگر مذاہب کی فقہ کے درمیان مقایسہ:
اس لیے کہ اس زمانے میں ، ہمارا اہل سنت کے فقہی افکارسے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، جیسے موتامالک اورخراج ابویوسف اوراس جیسی دوسری کتابوں سے ، تاکہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے آئمہ کے مقصداوراس کے بارے میں اہل سنت کے نظریہ کوسمجھاجاسکے۔
۲ ۔ کچھ فقہی بحثوں میں،دورحاضرکے ق وانین کاسہارا:
جیسے کتاب بیع وخیارات کی بحث میں ،کچھ فقہی مناسبتوں کی وجہ سے عراق،مصر اور فرانس کے قانون کاسہارالی تے ہیں۔ اس لئے کہ اس زمانے کے قانون کے اسلوب کو ج اننے ک ے بعد انسان کوبہت سے تجرب ے حاصل ہوتے ہیں، جب دور حاضرکے قانون کے ذریعے فقہی قواعد کی تحلیل کی جاتی ہے اور ان دونوں میں مطابقت پیدا کیا جاتا ہے تو بحث کے تمام اہم نکت ے روشن ہوجاتے ہیں۔
حضرت آية الله العظمی سيدعلی حسينی سيستانی
۳ ۔ ہمارے اکثرعلماء ان فقہی قاعدوں پرجوبزرگوں سے ہم تک پہنچے ہیں،کوئی ردوبدل نہیں کرتے ہیں:
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیة اللہ سیستانی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فقہی قواعدمیں تبدلی لائی جائے جیسے قاعدہ ”الزام“،جسے کچھ فقہاء قاعدہ ”مصلحت“کے طورپربھی جانتے ہیں ۔ اس قاعدہ کی بنیاد پرمسلمانوں کو یہ حق ہے کہ اپنے ذاتی فائدوں کے لیے کبھی کسی دوسرے اسلامی مسلک کے قوانین کی اتباع کرسکتے ہیں(چاہے وہ قوانین اس کے اصلی مسلک کے مخالف ہی ہو) لیکن آیة اللہ سیستانی اس کوقبول نہیں کرتے ۔ بلکہ وہ مذہب اور اس کے قوانین کو دوسرے مذ ا ہب سے زیادہ لائق احترام و ضروری سمجھتے ہ یں جیسے یہ قاعدہ ”لکل قوم نکاح“ یعنی ہرمذہب میں نکاح اورشادی کی اپنی مخصوص رسمیں ہوتی ہیں۔
آیة اللہ سیستانی( دام ظلہ ) کی شخصیت کی خصوصیتیں:
آپ سے مل اقات کرنے والے حضرات ، جلدی ہی آپ کی ممتازاورآیڈیل شخصیت کوسمجھ جاتے ہیں آپ کی شخصیت کی ان ہی خوبیوں نے آپ کوایک مکمل نمونہ عمل اورعالم ربانی بنادیاہے ۔ آپ کے فضائل اوراخلاق کے کچھ نمونہ جن کا میں نے نزدیک سے مشاہدہ کیاہے ،انہیں یہاں بیان کر رہا ہوں:
۱ ۔ دوسروں کی را ئے کا احترام
چونکہ آپ علم کے شیدائی ہیں اورمعرفت وحقائق تک پہنچن ا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیشہ دوسروں کی را ئے کااحترام کرتے ہیں ۔ انکے ہاتھ میں ہمیشہ کوئ نا کوئ کتاب رہتی ہے ۔ وہ کبھی بھی مطالعہ ،تحقیق،بحث اورعلماء کے نظریات کونظراندازنہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ غیر معروف علماء کے نظریات کوبھی پڑھتے ہیں اوران پرتحقیق بھی کرتے ہیں ۔ یہ روش اس بات کی علامت ہے کہ آیة اللہ سیستانی دوسروں کی را ئے کے لیے خاص توجہ اوراحترام کے قائل ہیں۔
۲ ۔ بات چیت میں ادب و نزاکتوں کا لحاظ :
جیساکہ سبھی جانتے ہیں کہ طلباء کے درمیان جومباحث ے ہوتے ہیں یاایک طالب علم اوراستادکے درمیان جو بحث ہوت ی ہ ے ، خاص طورپرحوزہ نجف میں ،وہ نہایت ہی سخت وگرم ہوت ی ہے ۔ کبھی کبھی یہ چیزطلباء کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی بحث وگفتگومیں ہمیشہ سختی وگرمی کاہوناصحیح نہیں ہے ۔ یہ ہرگزکسی صحیح علمی مقصدتک نہیں پہنچاتی ،وقت کی بربادی کے علاوہ طلباء میں مذاکرہ کے جذبہ کوبھی ختم کردیت ی ہے ۔ اسی وجہ سے جب آیة اللہ سیستانی اپنے شاگردوں کو درس دیتے ہیں یاان سے بحث کرتے ہیں تو اس بحث کی بنیادایک دوسرک ے عزت واحترام پرہوتی ہے ۔ وہ اپنے شاگردوں کےاحترام کا خاص خیالرکھتے ہیں چاہے ان کے سامنے جوبحث ہو رہی ہو وہ کمزوراوربے بنیاد ہی کیوں نہ ہو ۔ آپ کی ایک دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو جو جواب دیتے ہیں ،اس کودہراتے ہیں تاکہ وہ ، اس بات کواچھی طرح سمجھ لیں ۔ لیکن اگرسوال کرنے والااپنے نظریہ کے بارے میں ضدکرتاہے توآپ خاموش رہن ا ہی پسندکرتے ہیں۔
۳ ۔ تربیت:
تدریس ،پیسہ کمانے کاذریعہ نہیں ہے ، بلکہ ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ اسی لئے ایک اچھے ، مہربان اورشفیق استادکی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کی اچھی تربیت کرے اورانہیں ایسے بلندعلمی مقام تک پہنچائے جہاں سے ترقی کے موقع فراہم ہوں ۔ اور ان ساری باتوں کالاز م ہ محبت ہے ۔ لیکن اچھے اور برے لوگ ہرجگہ پائے جاتے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ لاپروا اورغیرذمہ دار ہو تے ہیں ، وہیں ایسے لوگوں ک ی بھی کمی نھیں ہے جومخلص،ہمدرد،مہربان، اورسمجھدار ہوتے ہیں اورجن کااصلی مقصد تدریس کی ذمہ داریوں کواچھی طرح ادا کر نا ہوتا ہے ۔
یہاں پریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ خوئی دونوں ہی ہمیشہ بہترین اخلاق کانمونہ رہے ہیں اورجوکچھ میں نے آیة اللہ سیستانی کی زندگی میں دیکھا ، وہ وہی ان کے استادوں وال ا اخلاق ہے۔ وہ اپنے شاگردوں سے ہمیشہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ درس ختم ہوجانے کے بعد ان سے سوال کریں، حضرت آیة اللہ سیستانی ہمیشہ اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ اپنے استادوں اورع الموں کااحترام کرواوربحث وسوالات کے وقت ان کے ساتھ نہایت ادب سے پیش آؤ ۔ وہ ہمیشہ اپنے استادوں کے کردار کی بلند ی کے قصہ سناتے رہتے ہیں۔
۴ ۔ تقوی اورپرہیزگاری:
نجف کے کچھ علماء خودکو لڑائ جھگڑوں اور شکوے شکایتوں سے دوررکھتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اسے حقیقت سے بچنااور فرارکرنا مانتے ہیں یااسے ڈراورکمزوری سمجھتے ہیں ۔ لیکن اگراس مسئلہ کودوسرے نکتہ نظرسے دیکھاجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مثبت امرہ ی نہیں، بلکہ بہت سی جگہوں پرضروری اورمہم بھی ہے ۔ لیکن اگروہی علماء احساس کریں کہ امت اسلامی یاحوزہ، کسی خطرہ میں پڑگیاہے تویقینا وہ بھی میدان میں کودپڑیں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہرعالم کوسخت اورحساس موقعوں پراپنے علم کااظہارکرناچاہئے ۔
ایک اہم نکتہ جسے یہاں پرذہن میں رکھناضروری ہے، وہ یہ ہے کہ آیة اللہ سیستانی فتنوں اوربلوں کے موقعوں پرہمیشہ خاموش رہتے ہیں، جیسے جب آیة اللہ بروجردی اورآیة اللہ حکیم کے انتقال کے بعد، علماء مقام ومنصب حاصل کرنے کے لیے اپن ی شخصیت کو چمکانے کے چکرمیں پڑ ے ہوئے تھے، تب بھی آیة اللہ سیستانی اپنی ثابت سیاست پرعمل کرتے رہے ۔ انہوں نے کبھی بھی دنیوی لذتوںاورعہدے ومقام کواپنامقصدنہیں بنایا۔
۵ ۔ فکری آثار:
حضرت آیة اللہ سیستانی صرف ایک فقیہ ہی نہیں بلکہ ایک بلند فکر اور نہایت ذہین انسان ہیں اوراقتصادی وسیاسی میدان پر بھی آپ کی گہری نظرہے ۔ سماجی نظام وسیسٹم پربھی آپ کے بہت اہم نظریے پائے جاتے ہیں اورآپ ہمیشہ اسلامی سماج کے حالات سے باخبررہتے ہیں ۔
قابل ذکر بات ہے کہ جب آپ ۲۹/ ربیع الثانی سن ۱۴۰9 ھجری میں اپنے استادآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کی عیادت کے لیے گئے توآپ کے استادنے آپ سے چاہاکہ آپ ان کی جگہ پرمسجدخضراء میں امامت کی ذمہ داری س نبھا ل ل یں ، لیکن آپ نے قبول نہیں کیا ۔ مگرجب استادمحترم نے اصرارکیااورفرمایا: ”کاش میں تمہیں اسی طرح حکم دے سکتا جس طرح مرحوم حاج آقاحسین قمی نے دیاتھا، تو میں بھی تمہیں قبول کرنے پرمجبورکردیتا“ تو یہ سن کر آپ اس ذمہ ذاری کو س نبھا ل نے کے لئے تیارہوئے۔
لیکن آپ نے چندروز کی مہلت مانگی اوراس کے بعد 5 / جمادی ا لاول سن ۱۴۰9 میں امامت کی ذمہ داری قبول فرمائی اوراس فریضہ کو ۱۴۱۴ ہجری کے ذی الحجہ کے آخری جمہ تک انجام دیا اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس مسجد کو بندکردی ا گ یا اوریہ سلسلہ قطع ہوگیا۔
آپ سن۱۳۷۴ ہجری میں پہلی بار فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ الحرام تشریف لے گئے اورا سکے بعد سن ۱۴۰۴اور ۱۴۰۵ ہجری میں بھی بیت اللہ الحرام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
آپ کی مرجعیت :
حوزہ علمیہ نجف اشرف کے کچھ علماء نقل کرتے ہیں کہ آیة اللہ سیدنصراللہ مستنبط کے انتقال کے بعد کچھ علماء وفضلاء نے آیة اللہ خوئی سے یہ آرزو ظاہر کی کہ آپ مرجعیت کی صلاحیت رکھنے والے اپنے کسی شاگرد کو اپنے جانشین کے طور پر معین فرمادیں ، تو انہوں نے، آیة اللہ سیستانی کو ، ان کے علم،پرہیزگاری اورمضبوط نظریات کی وجہ سے انتخاب کیا ۔ شروع میں آپ آیة اللہ خوئی کی محراب میں نمازپڑھایاکرتے تھے پھرآپ ان کے رسالہ پربحث کرنے لگے اوراس پرتعلیقہ لگایا ۔ آیة اللہ خوئی کے انتقال کے بعد ان کے تشیع جنازہ میں شریک ہونے اوران کے جنازہ پرنمازپڑھنے والوں میں آپ بھی تھے ۔ آیة اللہ خوئی کے بعدحوزہ نجف کی مرجعیت کی باگ ڈورآپ کے ہاتھوں میں آگئی اورآپ نے اجاز ے دینے، شہریہ تقسیم کرنے اورمسجدخضراء میں آیة اللہ خوئی کے منبرسے تدریس کرنے کاکام شروع کردیا ۔ اس طرح آیة اللہ سیستانی عراق ،خلیجی ممالک،ہندوستان اورافریقہ وغیرہ کے جوان طبقہ میں جلدی ہی مشہورہوگئے۔
حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی ایک جانے مانے عالم دین ہیں اور ا ن کی مرجعیت مشہورہے ۔ حوزہ علمیہ قم ونجف کے استاد اور ایک بڑی تعدادمیں اہل علم حضرات آپ ک ی عالم یت ک ے گواہ ہیں ۔آخرمیں ہم اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ ان کے سایہ کو ہمارے سروں پرباقی رکھے۔
حضرت آية الله العظمی خامنه ای
حضرت آیة اللہ العظمی خامنہ ای سن ۱۳۱8 ہجری شمسی میں شہر مشہد کے ایک روحانی خاندان میں پیداہوئے ان کے والدآیة اللہ آقا ی سیدجوادمشہدکے محترم علماء ومجتہدوں میں گنے جاتے تھے اوران کے دادآیة اللہ سیدحسین خامنہ ای آذربایجان کے رہنے والے تھے اورنجف اشرف میں رہتے تھے۔
آیة اللہ العظمی سیدعلی حسینی خامنہ ای پانچ سال کی عمرمیں اپنے بڑے بھائی آقاسیدمحمدکے ساتھ ایک مکتب میں جانے لگے اورکچھ وقت کے بعد ”دارالتعلیم دینیات“ نامی مدرسے میں داخلہ لیا انہوں نے چھٹی کلاس کاامتحان دینے کے بعد انٹرکالج میں ایڈمیشن لیا اوروہاں سے انٹرپاس کیا۔
موصوف نے حوزہ علمیہ ک ے سطح اول کے کورس کوساڑے پانچ سال میں پوراکیا- انہوں نے لمعہ کاایک تہائی حصہ اپنے والدسے اورباقی کتاب آقای مرزااحمدمدرس تبریزی سے پڑھی ۔ ،اوررسائل ومکاسب کو حاج شیخ ہاشم قزوینی سے پڑھااوراس کے بعد آیة اللہ العظمی میلانی کے درس خارج سے کسب فیض کیا ۔
سن ۱۳۳۶ ہجری شمسی میں انہوں نے نجف کاسفرکیااوروہاں تھوڑے عرصہ رک کرآقای حکیم، آقای خوئی اورآقای شاہرودی کے درس خارج میں شرک ت کی۔
ایران واپس آنے کے بعد انہوں نے آیة اللہ العظمی بروجردی اورحاج آقاحائری کے درس خارج میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ امام خمینی کے فقہ واصول کے درس سے بھی پوری طرح استفادہ کیا۔
کیونکہ انہوں نے سن ۱۳۳۴ ہجری شمسی کے بعدسے رضاشاہ پہلوی ک ی ظ الم حکعمت کی مخالفت شروع کردی تھی ، اس لئے انقلاب اسلامی کی کامیابی تک انہیں کئی مرت ب ہ مختلف چیزوں کے بارے میں پوچھ تاچھ کاسامناکرناپڑایاپھرجلاوطن ہوناپڑا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ کئی بڑے عہدوں پرمنتخب ہوئے جیسے وہ تہران سے پارلیامینٹ کے نمائندے ،شورای انقلاب کے نمائندے، وزارت دفاع میں شورای انقلاب کے نمائندہ ،نائب وزیردفاع اورتہران کے امام جمعہ رہے۔ وہ دوبارایران کے صدر بھی چنے گئے۔
اسلامی انقلاب کے رہبرامام خمینی (رہ) کے انتقال کے بعد وہ مجلس خبرگان کی طرف سے ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر کے عہدےکے لئے منتخب کئے گئے۔
آیةاللہ العظمی خامنہ ای ایک فقہی ہونے کے ساتھ ساتھ علم رجال، تاریخ اورادبیات کے بھی بہت بڑے عالم ہیں۔ اسلامی انقلاب کے رہبرجیسے عظیم عہدے پررہتے ہوئے بھی آپ فقہ کادرس کہتے ہیں اورآپ نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
آیة اللہ العظمی سیدعلی حسینی خامنہ ای پانچ سال کی عمرمیں اپنے بڑے بھائی آقاسیدمحمدکے ساتھ ایک مکتب میں جانے لگے اورکچھ وقت کے بعد ”دارالتعلیم دینیات“ نامی مدرسے میں داخلہ لیا انہوں نے چھٹی کلاس کاامتحان دینے کے بعد انٹرکالج میں ایڈمیشن لیا اوروہاں سے انٹرپاس کیا۔
موصوف نے حوزہ علمیہ ک ے سطح اول کے کورس کوساڑے پانچ سال میں پوراکیا- انہوں نے لمعہ کاایک تہائی حصہ اپنے والدسے اورباقی کتاب آقای مرزااحمدمدرس تبریزی سے پڑھی ۔ ،اوررسائل ومکاسب کو حاج شیخ ہاشم قزوینی سے پڑھااوراس کے بعد آیة اللہ العظمی میلانی کے درس خارج سے کسب فیض کیا ۔
سن ۱۳۳۶ ہجری شمسی میں انہوں نے نجف کاسفرکیااوروہاں تھوڑے عرصہ رک کرآقای حکیم، آقای خوئی اورآقای شاہرودی کے درس خارج میں شرک ت کی۔
ایران واپس آنے کے بعد انہوں نے آیة اللہ العظمی بروجردی اورحاج آقاحائری کے درس خارج میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ امام خمینی کے فقہ واصول کے درس سے بھی پوری طرح استفادہ کیا۔
کیونکہ انہوں نے سن ۱۳۳۴ ہجری شمسی کے بعدسے رضاشاہ پہلوی ک ی ظ الم حکعمت کی مخالفت شروع کردی تھی ، اس لئے انقلاب اسلامی کی کامیابی تک انہیں کئی مرت ب ہ مختلف چیزوں کے بارے میں پوچھ تاچھ کاسامناکرناپڑایاپھرجلاوطن ہوناپڑا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ کئی بڑے عہدوں پرمنتخب ہوئے جیسے وہ تہران سے پارلیامینٹ کے نمائندے ،شورای انقلاب کے نمائندے، وزارت دفاع میں شورای انقلاب کے نمائندہ ،نائب وزیردفاع اورتہران کے امام جمعہ رہے۔ وہ دوبارایران کے صدر بھی چنے گئے۔
اسلامی انقلاب کے رہبرامام خمینی (رہ) کے انتقال کے بعد وہ مجلس خبرگان کی طرف سے ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر کے عہدےکے لئے منتخب کئے گئے۔
آیةاللہ العظمی خامنہ ای ایک فقہی ہونے کے ساتھ ساتھ علم رجال، تاریخ اورادبیات کے بھی بہت بڑے عالم ہیں۔ اسلامی انقلاب کے رہبرجیسے عظیم عہدے پررہتے ہوئے بھی آپ فقہ کادرس کہتے ہیں اورآپ نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
حضرت آية الله العظمی وحيدخراسانی
حضرت آیة اللہ العظمی وحیدخراسانی سن ۱۳۰۰ ہجری شمسی میں مقدس شہرمشہدمیں پیداہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم آیة اللہ حاج شیخ محمدنہاوندی سے حاصل کی۔ موصوف نے بعدمیں آیة اللہ العظمی مرزامہدی اصفہانی اورآیة اللہ العظمی آشتیانی کے درس خارج سے استفادہ کیا ۔ انہوں نے فلسفہ اورحکمت کومرحوم مرزاابوالقاسم الہی اورمرزامہدی اصفہانی سے پڑھا۔
۲۷ سال کی عمرمیں وہ اپنی علمی صلاحیت ب ڑھا نے کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے اوروہاں پرآیة اللہ العظمی سیدابوالقاسم خوئی کے درس خارج سے کسب فیض کرنے لگے ۔ دورحاضر میں وہ آیة اللہ العظمی خوئی کے خاص شاگردوں میں گنے جاتے ہیں۔
انہوں نے سن ۱۳۷۸ ہجری قمری میں فقہ واصول کادرس خارج کہناشروع کیااور ۱۲ سال تک نجف کے حوزہ میں درس خارج کہتے رہے۔
۱۳۹۰ ہجری قمری میں ایران آنے کے بعدانہوں نے مشہدمقدس میں درس دیناشروع کیااورایک سال وہاں رکنے کے بعد قم میں آگئے اوریہاں پرفقہ واصول کادرس خارج کہنے لگے ۔ دور حاضرمیں حوزہ علمیہ قم کے بہت سے طالب علم ان کے درس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔
حضرت آية الله العظمی ناصر مکارم شيرازی
آیة اللہ ناصرمکارم شیرازی کی ولادت سن ۱۳۴۵ ہجری قمری میں شیرازنامی شہرمیں ہوئی ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی ت عل ی م اپنے آبائی شہرشیرازمیں ہی حاصل کی۔ بعدمیں ۱۴ سال کی عمرمیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے شیرازکے باباخان مدرسے میں داخلہ لیا اور چارسال تک وہ اں علم حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم تشریف لا ئے ۔ یہاں پر انہوں نے آیة اللہ العظمی بروجردی کے درس میں شرکت کی۔
سن ۱۳۶9 ہجری قمری میں وہ نجف اشرف گئے اوروہاں پرآیةاللہ العظمی حکیم،آیة اللہ العظمی،خوئی، آیة اللہ العظمی سیدعبدالہادی شیرازی کی خدمت میں رہ کراپنے علم میں اضافہ ک یا۔ سن ۱۳۷۰ ہجری قمری میں شعبان کے مہینہ میں وہ ایران واپس آئے اوریہاں پر سطح عالی کی تدریس کرنے کے بعد فقہ واصول کادرس خارج کہناشروع کیا۔
انہوں نے قم میں مدرسہ امیرالمومنین ،مدرسہ امام حسن مجتبی اورمدرسہ امام حسین علیہ السلام کی بنیاد بھی رکھی۔
آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کی تصنیفات:
آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے ویسے تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن ہم یہاں پران کی خاص کتابوں کے ہی نام ذکرکر ہ ے ہیں جومندرجہ ذیل ہیں:
۱ ۔ انوارالاصول
۲ ۔ انوارالفقہاء
۳ ۔ تفسیرنمونہ
۴ ۔ تعالیقات عروةالوثقی
۵ ۔ رسالہ توضیح المسائل
حضرت آية الله العظمی صافی گلپايگانی
حضرت آیة اللہ العظمی صافی گلپایگانی سن ۱۳۳۷ ہجری قمری میں جمادی الاول کی ۱۱ تاریخ کوگلپایگان نامی شہرکے ایک روحانی خاندان میں پیدا ہوئ ے۔ ان کے والدآیة اللہ اخوندملامحمدجوادگلپایگانی ایک بہت بڑے عالم دین تھے انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔
آیة اللہ العظمی لطف اللہ صافی گلپایگانی نے ادبیات،کلام،تفسیر،اورحدیث کاعلم گلپایگان میں اپنے والداورآخوندملاابوالقاسم سے (جوکہ قطب کے نام سے مشہورتھے) حاصل کیا۔
بعدمیں وہ حوزہ علمیہ قم میں تشریف لا ئے اوریہاں پرانہوں نے آقامحمدتقی خوانساری ،آقاسیدمحمدحجت کوہ کمری ،آقاسیدصدرالدین صدرآملی، آقاحاج سیدمحمدحسین بروجردی،آقاحاج سیدمحمدرضاگلپایگانی سے علم حاصل کیا۔ بعد نجف تشریف لے گئے اور حوزہ علمیہ نجف میں رہ کرآقاشیخ محمدکاظم شیرازی،آقاسیدجمال الدین گلپایگانی اورآقاشیخ محمدعلی کاظمی کے دروس سے اپنے علم میں اضافہ کیا۔ آیة اللہ صافی گلپایگانی نے ۱۷ سال تک آیة اللہ الالعظمی بروجردی کی خدمت میں رہ کرعلم حاصل کیا ۔ آیة اللہ صافی گلپایگانی اس وقت حوزہ علمیہ قم کے ان گنے چنے علماء میں سے تھے جودرس خارج میں شرکت کرنے والے طلبہ کاکاامتحان لیاکرتے تھے ۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدایران کاقانون لکھنے والی کمیٹی " مجلس خبرگان " کے م ئم بر کے چنے گئے۔جب امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی طرف سے شورای نگہبان بنائی گئی تو انہیں بھی اسکا م ئم بربنا یا گ یا۔ و ہ کئی سال تک اس کے سکریٹری کے عہدے پربھی رہے۔
آیة اللہ صافی گلپایگانی کی تصنیفات:
آیة اللہ صافی گلپایگانی کی بہت سی تصنیفات ہیں ان میں سے چندیہ ہیں:
۱ ۔ امامت ومہدویت۔
۲ ۔ شرح حدیث عرض دین
۳ ۔ نویدامن وامان
۴ ۔ فروغ ولایت دردعائے ندبہ
۵ ۔ ولایت تکوینی اورولایت تشریعی
آیة اللہ العظمی لطف اللہ صافی گلپایگانی نے ادبیات،کلام،تفسیر،اورحدیث کاعلم گلپایگان میں اپنے والداورآخوندملاابوالقاسم سے (جوکہ قطب کے نام سے مشہورتھے) حاصل کیا۔
بعدمیں وہ حوزہ علمیہ قم میں تشریف لا ئے اوریہاں پرانہوں نے آقامحمدتقی خوانساری ،آقاسیدمحمدحجت کوہ کمری ،آقاسیدصدرالدین صدرآملی، آقاحاج سیدمحمدحسین بروجردی،آقاحاج سیدمحمدرضاگلپایگانی سے علم حاصل کیا۔ بعد نجف تشریف لے گئے اور حوزہ علمیہ نجف میں رہ کرآقاشیخ محمدکاظم شیرازی،آقاسیدجمال الدین گلپایگانی اورآقاشیخ محمدعلی کاظمی کے دروس سے اپنے علم میں اضافہ کیا۔ آیة اللہ صافی گلپایگانی نے ۱۷ سال تک آیة اللہ الالعظمی بروجردی کی خدمت میں رہ کرعلم حاصل کیا ۔ آیة اللہ صافی گلپایگانی اس وقت حوزہ علمیہ قم کے ان گنے چنے علماء میں سے تھے جودرس خارج میں شرکت کرنے والے طلبہ کاکاامتحان لیاکرتے تھے ۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدایران کاقانون لکھنے والی کمیٹی " مجلس خبرگان " کے م ئم بر کے چنے گئے۔جب امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی طرف سے شورای نگہبان بنائی گئی تو انہیں بھی اسکا م ئم بربنا یا گ یا۔ و ہ کئی سال تک اس کے سکریٹری کے عہدے پربھی رہے۔
آیة اللہ صافی گلپایگانی کی تصنیفات:
آیة اللہ صافی گلپایگانی کی بہت سی تصنیفات ہیں ان میں سے چندیہ ہیں:
۱ ۔ امامت ومہدویت۔
۲ ۔ شرح حدیث عرض دین
۳ ۔ نویدامن وامان
۴ ۔ فروغ ولایت دردعائے ندبہ
۵ ۔ ولایت تکوینی اورولایت تشریعی
حضرت آية الله العظمی شبيری زنجانی
حضرت آیة اللہ العظمی شبیری زنجانی کی ولادت سن ۱۳۴۷ ہجری قمری میں قم کے ایک ر و حانی خاندان میں ہوئی ۔ ان کے والد جناب آیة اللہ حاج سیداحمدزنجانی حوزہ علمیہ قم کے بزرگ علماء میں گنے جاتے تھے ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد اپنے والداورآیة اللہ العظمی محقق داماداورآیة اللہ العظمی بروجردی سے فقہ واصول میں کسب فیض کیا ۔ دور حاضرمیں وہ حوزہ علمیہ قم میں سطح اول کے فقہ واصول ک ی ت در ی س میں مشغول ہیں۔
آية الله العظمی نوری همدانی
آیة اللہ العظمی نوری ہمدانی کی ولادت سن ۱۳۰۴ ہجری شمسی میں ایران کے ہمدان نامی شہرمیں ہوئی ۔ انہوں نے سات سال کی عمرمیں اپنے والدسے ادبیات فارسی،کتاب گ لستان،انشاء ،حساب اوردوسر ے موضوعات پڑھناشروع ک ئے۔ انہوں نے لمعہ تک ت ع ی لم حاصل کرنے کے بعدسن ۱۳۲۲ ہجری شمسی میں حوزہ علمیہ قم میں قدم رکھا اور یہاں پر انہوں نے آیة اللہ سیدمحمدباقرسلطانی طباطبائی ،آیة اللہ داماد،آیة اللہ شیخ محمدمجاہدی، آیة اللہ مرزامہدی تبریزی، آیة اللہ العظمی بروجردی،آیة اللہ رفیعی قزوینی ،آیة اللہ حاج میرسیدعلی یثربی اورحضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے درسوں میں شرکت کرکے اپنے علم میں اضافہ کیا۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی نے انہیں یورپ ین ملکوں میں اپنا سفیربنایا۔موصوف دور حاضر میں حوزہ علمیہ قم میں فقہ واصول کا درس خارج کہنے میں مشغول ہیں۔
آیة اللہ العظمی نوری ہمدانی کی تصنیفات:
آیة اللہ العظمی نوری ہمدانی نے ویسےتو بہت سی کتابیں لکھیں ہیں لیکن ہم یہاں پر ان کی کچھ خاص کتابوں کے ہی نام دے رہے ہیں:
۱ ۔ امربالمعروف ونہی ازمنکر
۲ ۔ رسالہ توضیح المسائل
۳ ۔ ہزارویک مسائل فقہی۔
۴ ۔ منتخب المسائل
۵ ۔ مناسک حج
۶ ۔ آمادگی رزمی ومرزداری دراسلام
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی نے انہیں یورپ ین ملکوں میں اپنا سفیربنایا۔موصوف دور حاضر میں حوزہ علمیہ قم میں فقہ واصول کا درس خارج کہنے میں مشغول ہیں۔
آیة اللہ العظمی نوری ہمدانی کی تصنیفات:
آیة اللہ العظمی نوری ہمدانی نے ویسےتو بہت سی کتابیں لکھیں ہیں لیکن ہم یہاں پر ان کی کچھ خاص کتابوں کے ہی نام دے رہے ہیں:
۱ ۔ امربالمعروف ونہی ازمنکر
۲ ۔ رسالہ توضیح المسائل
۳ ۔ ہزارویک مسائل فقہی۔
۴ ۔ منتخب المسائل
۵ ۔ مناسک حج
۶ ۔ آمادگی رزمی ومرزداری دراسلام
مراجع تقلید:
* آیت الله العظمی امام خمینی(ره) www.imam-khomeini.com
* آیت الله العظمی خامنه ای(مد ظله)، رهبر معظم انقلاب www.khamenei.com.ir
* حضرت آیت الله العظمی سیستانی www.sistani.org
* حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی www.makaremshirazi.org
* حضرت آیت الله العظمی نوری همدانی www.noorihmedani.com
* حضرت آیت الله العظمی وحید خراسانی www.vahid-khorasani.ir
* حضرت آیت الله العظمی وحید خراسانی www.vahid-khorasani.ir
* حضرت آیت الله العظمی سید صادق شیرازی www.s-alshirazi.com
* حضرت آیت الله العظمی صافی www.saafi.net
* حضرت آیت الله العظمی علوی گرگانی
* حضرت آیت الله العظمی علوی گرگانی
* حضرت آیت الله العظمی جوادی آملی
* حضرت آیت الله العظمی سبحانی
* حضرت آیت الله العظمی سبحانی
خداوندعالم بحق امام زمانه (عج) همارے علما و مراجع عظام کو طول عمر دے اور انهییں اپنے حفظ و امان میں رکهے.آمین یا رب العالمین
Post a Comment