شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما(پہلي فصل )
اسلام اور تسليم
مشہور لغت داں، ابن منظور کے بقول اسلام اور تسليم يعني: اطاعت شعاري۔
اسلام، شرعي نقطہٴ نظر سے يعني: خضوع کے ساتھ شريعت کے قوانين کا اعتراف اور نبي اکرم کے لائے ہوئے احکام کا پابند ہوناہے اور انھيں امور کے سبب خون محترم اور خداوند تعاليٰ سے برائي ٹالنے کي التجا کي جاتي ہے اور ثعلب نے مفيد و مختصر طور پر کتني اچھي بات کہي ہے کہ: اسلام، زباني اقرار کا نام ہے اور ايمان دل سے اعتراف کا اسلام کے بارے ميں ابابکر محمد بن بشار نے کہا کہ اگر يہ کہا جائے کہ فلاں شخص مسلمان ہے تو اس سے دو بات سمجھ ميں آتي ہيں:
۱- وہ احکام الٰہيہ کا تابعدار ہے ۲- عبادت خداوندي ميں مخلص ہے۔[1]
يہاں پر ہم دونوں کے درميان فرق پيدا کرسکتے ہيں جو کہ پہلي فرصت ميں آساني سے بيان نہيں کيا جاسکتا کيونکہ ”استسلام لامر اللّٰہ“ (احکام الٰہيہ کي تابعداري) اور ”اخصلاص للعبادة“ (عبادت خداوندي ميں خلوص) کے درميان فرق ہے۔
پہلے معني کے رو سے اسلام اس حقيقت ايمان سے زيادہ وسيع دائرہ رکھتا ہے جو انسان کے پروردگار کے رابطہ کو مضبوط کرتا ہے کيونکہ حکم خدا کي تابعداري، اوامر و نواہي الٰہي کي مکمل پيروي پر مشتمل ہے اور حکم خداوندي پر اپني رائے کو مقدم نہ کرنا ہے۔
اسي کے پيش نظر مسلمان جو کچھ نبي اکرم لائے ہيں ان کے سامنے سر اطاعت خم کرديتاہے کيونکہ آپ خدا کي جانب سے آئے ہيں اور اس بات کا عقيدہ رکھتا ہے کہ رسول اکرم اپني طرف سے کوئي بات نہيں کہتے بلکہ آپ پر وحي کا نزول ہوتا ہے وہ چاہے احکامات شريعت ہوں يا عبادات کي ادائيگي، آپسي اختلافات ہوں يا نظرياتي چپقلش اور يہ سب خدا کے اس حکم کے پيش نظر ہے
<وَ مَا آتٰاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَانَہَيٰاکُمْ عَنہُ فَانْتَہُوْا> [2]
<فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيءٍ فَرُدُّوہُ اِلَي اللّٰہِ وَ الرَّسُولِ اِنْ کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ اليَومِ الآخِرِ>[3] <فَلا وَرَبِّکَ لايُؤمِنُونَ حَتَّي يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَينَہُم ثُمَّ لايَجِدُوا فِي اٴَنفُسِہِم حَرَجاً مِمَّاقَضَيتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيماً>[4]
(اور جو کچھ بھي رسول تمہيں ديدے اسے لے لو، اور جس چيز سے منع کردے اس سے رک جاوٴ،پھر اگر آپس ميں کسي بات ميں اختلاف ہو جائے تو اسے خدا اور رسول کي طرف پلٹا دو، پس آپ کے پروردگار کي قسم کہ يہ ہرگز صاحب ايمان نہ بن سکيں گے جب تک آپ کو اپنے اختلاف ميں حکم نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ کرديں تواپنے دل ميں کسي طرح کي تنگي کا احساس نہ کريں اور آپ کے فيصلہ کے سامنے سراپا تسليم ہو جائيں)
مذکورہ بيان سے يہ بات واضح ہوتي ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں سے جس اسلام کو چاہا ہے اس سے مراد کيا ہے؟ اور وہ ہے فرامين نبوت کي تمام معني ميں اطاعت، چاہے يہ احکام عام انساني نظريات و آراء کے برخلاف ہي کيوں نہ ہوں، يا خود انسان يہ سوچے کہ مصلحت اس کي خلاف ورزي ميں ہے۔
لہٰذا خدا نے بتلاديا ہے کہ خدا و رسول کے آگے سر تسليم خم کرنا ان تمام مصلحتي تقاضوں پر مقدم ہے جو انسان کي اپني فکري يا بعض فکري بيمار سياست کي کوششوں کا نتيجہ ہوتا ہے اور يہ کہ اسلام کو خضوع و خشوع کا مرقع ہونا چاہئے اور ارادہٴ نبوي کا مطلق مطيع و فرمانبردار ہونا چاہئے کيونکہ آپ خدا کے رسول ہيں اور آپ کي اطاعت، استمرار اطاعت خداوندي ہے۔!
ليکن دوسري اصطلاح کے مطابق عبادات الٰہيہ ميں اخلاص کا ہونا يعني مسائل شرعيہ ميں اخلاص پيدا کرنا ہے جو کہ اعضاء و جوارح سے متعلق ہيں جيسے نماز، روزہ، حج اور ان جيسے احکامات، اس کے مفہوم کا دائرہ پہلے معني کے بنسبت محدود ہے جو اوامر و نواہي نبوي سے متعلق ہے، اس لئے کہ احکام شرعيہ کي پابندي ميں لوگوں کي اکثريت شامل ہے اور وہ اس کو بجالانے ميں کوشاں ہيں۔
البتہ بسا اوقات کچھ لوگ کسي مشکل کي وجہ سے اس قانون کي تاب نہيں لاپائے يا کبھي کسي حکم کي نافرماني اس وجہ سے کر بيٹھتے ہيں کہ ان کي نظر ميں وہ حکم مصلحت کے برخلاف ہوتا ہے۔
قرآن کريم نے ان دونوں صورتوں کي بڑي حسين تقسيم کي ہے، پہلے کا نام ايمان، اور دوسرے کا نام اسلام رکھا ہے۔
باديہ نشينوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:
<قَالَتِ الاٴعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَم تُوٴمِنُوْا وَ لٰکِنْ قُوْلُوْا اٴَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِکُمْ>[5]
(يہ بدو عرب کہتے ہيں کہ ہم ايمان لے آئے ہيں تو آپ کہہ ديجئے کہ تم ايمان نہيں لائے بلکہ يہ کہو کہ اسلام لائيں ہيں کہ ابھي ايمان تمہارے دلوں ميں داخل نہيں ہوا ہے)
باديہ نشينوں نے احکام شرعيہ کي بجا آوري ميں سہل انگاري سے کام ليا تو ان کو تنبيہ کي کہ تمہاري يہ حرکتيں ايمان کے (جوکہ اطاعت خدا و رسول کے معني ميں ہيں) بالکل منافي ہيں، (قرآن نے) ان
کے موقف کا اظہار بھي کرديا، اور ان ميں سے بعض افراد کے غلط نظريات کو طشت از بام کرديا جنھوں نے غزوہٴ تبوک کے مسئلہ ميں حکم رسالت کي نافرماني کي تھي، خدا نے ان کي مذمت کي ہے، کيونکہ وہ لوگ يہ سمجھ رہے تھے کہ حکم رسالت کي نافرماني ہي ميں بھلائي اور مصلحت ہے وہ يہ گمان کر رہے تھے کہ اس حکم ميں وسعت اور اختيار ہے لہٰذا مخالفت کر بيٹھے۔
قرآن کريم نے ان کي سرزنش کي اور بعض اصحاب کي تنبيہ کي جنھوں نے علم بغاوت بلند کر رکھا تھا، اور قرآن کا لہجہ اس سلسلہ ميں بہت سخت تھا۔
اجتہاد کے سلسلہ ميں بعض اصحاب کا موقف
بعد حيات رسول اس موضوع کي زيادہ وضاحت ہوئي کہ تمام کے تمام اصحاب اطاعت نبوي ميں ايک مرتبہ پر فائز نہيں تھے، دو دھڑے ميں تقسيم ہوگئے تھے، بعض اس نظريہ کے قائل تھے کہ رسول کے اوامر و نواہي مسلّمات ديني ميں سے ہيں ان کي خلافت ورزي کسي صورت ميں صحيح نہيں ہے اور ايسے افراد کي تعداد بہت کم تھي اور انھيں کے بيچ وہ افراد بھي تھے جو اس حد تک روشن فکر تھے کہ احکام نبوي ميں کتر بيونت کرتے تھے بلکہ اس بات کے بھي قائل تھے کہ عصري تقاضوں کے تحت اس کي مخالفت بھي کي جاسکتي ہے، حديہ کہ مصلحت کے پيش نظر بعض سنت نبوي سے بھي لوگوں کو دور رکھا جاسکتا ہے، جس کے ثبوت ميں اوارق تاريخ گواہ ہيں۔
رسول اکرم جب اپنے اصحاب کے ہمراہ ابوسفيان کے قافلہ کي تلاش ميں نکلے تو اس وقت ابوسفيان کي قدرت و تدبير بھي اس کو مسلمانوں سے نہيں بچاسکتي تھي او رمشرکين مکہ ان کي پشت پناہي اوران کے اموال کي حفاظت بھي نہيں کرسکتے تھے جب مشرکين مکہ اور مسلمانوں کي مڈبھيڑ ہوئي، تو اس وقت نبي کا ارادہ سب پر واضح اور روشن تھا کہ ”ہم نہيں يا تم نہيں“ اس وقت مشرکين مکہ خاص طور سے ان کا سردار ابوجہل مسلمانوں سے جنگ پر اتاولہ ہورہا تھا اور وہ يہ سوچ رہا تھا کہ يہ سنہري موقع ہے کہ ان (مسلمانوں) کي بيخ کني کرديں گے اور ہميشہ ہميشہ کے لئے نبوت کا چين چھين ليں گے۔
ايسے روح فرسا حالات ميں پيغمبر کا مسلمانوں کے ہمراہ جنگ کئے بغير واپس آجانا جنگ سے فرار ہي شمار کيا جائے گا۔
بسا اوقات تو مشرکين مسلمانوں کے محلہ ميں آپسي جھگڑوں ميں جسارت کي حد تک پہنچ جاتے تھے اور يہ تو بہت بڑا الميہ تھاکہ اصحاب، جنگ ميں مرضيٴ نبوت کے خلاف اقدام کرتے تھے اور ايک کثير تعداد فکري تائيد نہيں کرتي تھي بعض زبان دراز تو يہاں تک کہہ بيٹھے کہ جنگ کي بات کيوں نہيں ختم کرتے تاکہ ہم سکون کي سانس لے سکيں! ہم تو مال و متاع کے لئے نکلے تھے۔
روايت ميں آےا ہے کہ (کسي نے کہا) يارسول اللہ! ”آپ مال و متاع پر نظر رکھئے دشمن کو جانے ديں“ تو آپ کے چہرے کا رنگ متغير ہوگيا۔
ابو ايوب کہتے ہيں: کہ ايسے ہي وقت يہ آيت نازل ہوئي
<کَمَا اٴخرَجَکَ رَبُّکَ مِن بَيتِکِ بِالحَقِّ وَ إنَّ فَرِيقاً مِنَ المُؤمِنِينَ لَکَارِہُونَ>[6]
(جس طرح تمہارے رب نے تمہيں تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کيا اگر چہ مومنين کي ايک جماعت اسے ناپسند کر رہي ہے)
پيغمبر جب جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے تو رمضان کا مہينہ تھا آپ نے اس وقت ايک، يا دو روزہ رکھا تھا اس کے بعد واپس آئے تو آپ کے نقيب نے يہ صدا دي کہ: اے گنہگارو! ميں نے افطار کرليا ہے لہٰذا تم بھي افطار کرلو اس کے قبل ان سے يہ کہا جاچکا تھا کہ افطار کرلو ليکن ان کے کان پہ جوں نہيں رينگي تھي۔[7]
بلکہ بعض افراد کي رائے، جنگ کے سلسلہ ميں ارادہٴ نبوت کے بالکل خلاف تھي جب رسول نے اصحاب سے مشورہ کيا تو عمر بن الخطاب نے کھڑے ہوکر کہا کہ يارسول اللہ خدا کي قسم وہ قريش ہيں اور صاحبان جاہ و حشم، جب سے وہ صاحب عزت ہوئے ہيں آج تک ذليل نہيں ہوئے، جب سے کفر اختيار کيا آج تک ايمان نہيں لائے، خدا کي قسم وہ اپني آبرو کا کبھي بھي سودا نہيں کريں گے وہ آپ سے ضرور بالضرور اور ہميشہ برسرپيکار رہيں گے يہ سننے کے بعد پيغمبر نے عمر کي جانب سے منہ پھير ليا۔[8]
دوسري جانب ہم ديکھتے ہيں کہ وہيں ايسے اصحاب بھي تھے جن کا نظريہ اور ان کي سونچ ان سے بالکل مختلف تھي۔
مقداد بن عمرو کھڑے ہوئے اور کہا: يارسول اللہ آپ حکم خدا کي پيروي فرمائيں ہم آپ کے ساتھ ہيں، خدا کي قسم ہمارا وہ جواب نہيں ہوگا جو قوم بني اسرائيل نے اپنے نبي کو ديا تھا:
<فَاذْہَبْ اٴنتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا إنَّا ہٰاہُنَا قَاعِدُونَ>[9]
(آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جاکر جنگ کيجئے ہم يہاں بيٹھے ہوئے ہيں)
بلکہ آپ اور آپ کا خدا جنگ کرے اور ہم آپ کے شانہ بشانہ ہيں، قسم ہے اس ذات کي جس نے آپ کو خلعت نبوت سے نوازا، اگر آپ کے ساتھ پاتال ميں بھي جانا ہوا تو ہم تيار ہيں۔
پيغمبر اسلام نے کہا: خير ہے۔
سعد بن معاذ جو کہ انصار ميں سے تھے کھڑے ہوئے اور عرض کي:
يارسول اللہ! ہم آپ پر ايمان لائے آپ کي تصديق کي، جو کچھ لائے اس پر گواہ ہيں، ہم بسر و چشم آپ پر بھروسہ کرتے ہيں اور وفاء عہد کا وعدہ کرتے ہيں۔
اے نبي خدا! آپ کو جو قدم اٹھانا ہے و کر گذريں، قسم ہے اس ذات کي جس نے آپ کو رسالت کے عہدے پر فائز کيا، اگر آپ کا حکم اور مرضي اس بات ميں ہے کہ اتھاہ سمندر کے پاني کو متھ کر رکھ ديں تو ہمارا آخري آدمي بھي پيچھے نہيں ہٹے گا، جو چاہے انجام ديجئے اور جس سے چاہے چشم پوشي اختيار کيجئے، ہمارے اموال و اثاث ميں سے جو اور جتنا چاہيں لے سکتے ہيں۔
جتنا آپ انتخاب کرليں گے وہ ہمارے بچے ہوئے مال سے زيادہ محبوب ہوگا، قسم ہے اس ذات کي جس کے دست قدرت ميں ميري جان ہے ہم اس راہ (اسلام) پر جب سے گامزن ہوئے کبھي آئندہ کي فکر لاحق نہيں ہوئي اور نہ ہي دشمنوں سے مڈبھيڑ ميں گھبرائے، ہم وقت جنگ صابرين ميں سے ہيں۔
روز محشر اس بات کي تصديق فرما ديجئے گا، شايد خدا ہمارے ان اعمال کو قبول کرے جو آپ کے آنکھوں کي ٹھنڈک کا سبب بنے۔[10]
ان کلمات سے اصحاب کے موقف کا علم ہوتا ہے کہ وہ تسليم يا عدم تسليم ميں کس چيز کو اہميت ديتے تھے۔
اس سے اور آگے بعض اصحاب کے آراء و نظريات اس درجہ روشن تھے کہ نبي کي رائے پر غالب تھے يا دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ نص نبوي کے مقابل اجتہاد فرما رہے تھے جس کا نتيجہ يہ نکلتا تھا کہ وہ حکم نبوي کي پيروي کسي صورت ميں نہيں کرنا چاہتے تھے، اور ايسے حادثات متعدد مقامات پر رونما ہوئے ہيں۔
ابو سعيد خدري سے روايت ہے کہ ايک بار ابوبکر رسول کے پاس آئے اور عرض کي يارسول اللہ! ميں ايک وادي سے گذر رہا تھا وہاں پر ايک نہايت حسين اور وجيہ زاہد کو عبادت ميں مشغول پايا، تو اس وقت رسول نے ابوبکر سے کہا کہ جاؤ اور اس کو قتل کردو۔
سعيد کہتے ہيں: ابوبکر گئے اور اس کو اس حالت ميں ديکھ کر پس و پيش ميں پڑ گئے کہ اس کو کيسے قتل کريں، واپس آئے تو رسول نے عمر کو حکم ديا : ”جاؤ اور اس کو قتل کردو“ عمر گئے جس کيفيت ميں ابوبکر نے ديکھا تھا انھوںنے ديکھ کر قتل کا فيصلہ بدل ديا واپس آکے عرض کيا، يا رسول اللہ وہ جس خضوع و خشوع کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے ميرا دل مَسوس کر رہ گيا کہ اس کو ناحق قتل کردوں۔
آپ نے امير المومنين حضرت علي کو حکم ديا: ”جاؤ اور اس کو قتل کردو“ امير المومنين گئے تو وہ وہاں نہيں تھا آپ واپس آئے اور آکر خبر دي کہ ميںنے اس کو نہيں ديکھا۔
آپ نے فرمايا: وہ اور اس کے ہمنوا قرآن کا رٹا لگائيں گے، مگر قرآن ان کے حلق سے نيچے نہيں اترے گا وہ لوگ دين سے ايسے خارج ہوگئے ہيں جيسے تير کمان سے چھوٹ جاتا ہے، وہ دين ميں واپس نہيں آسکتے مگر تير سوفا، (کمان) ميں واپس آجائے (اور دونوں ناممکن ہے) لہٰذا ان کو قتل کردو وہ گنہگار گروہ ہے۔[11]
صلح حديبيہ کے وقت پيغمبر نے قريش کے ہر مطالبہ کو پورا کيا، جس کے سبب اصحاب ميں يہ خبر گشت کرنے لگي کہ رسول نے ہم سب کو رسوا کيا ہے ہر چند کہ نبي نے اس پر مصلحت کے تحت دستخط کيا تھا اور وہ بخوبي اس کو جانتے تھے اور يہ بات روز روشن کي طرح واضح ہے کہ رسول کبھي اسلام و مسلمين کا نقصان نہيں چاہيں گے، اس کے باوجود بعض اصحاب اس بات کے معتقد تھے کہ پيغمبر کے دستاويز پر دستخط کے خلاف حق اعتراض رکھتے ہيں۔
عمر بن الخطاب نے بطور اعتراض پيغمبر سے کہا، جس کو بخاري نے عمر ہي کي زباني کچھ يوں نقل کيا ہے۔
عمر۔ يا رسول اللہ! کيا آپ حق پر نہيں ہيں؟
رسول اسلام۔ ہم حق پر ہيں۔
عمر۔ کيا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہيں ہيں؟
رسول اسلام۔ ہاں ايسا ہي ہے۔
عمر۔ پھر ہم اپنے دين کے سلسلہ ميں کيوں رسوا ہوں؟
آپ نے فرمايا: ميں اللہ کا رسول ہوں اور ميں نے اب تک اس کي نافرماني نہيں کي وہ ميرا ناصر و مددگار ہے۔
عمر نے کہا: کيا آپ نے ہم لوگوں سے نہيں کہا تھا کہ ہم لوگ اپنے گھر جائيں گے اور طواف کريں گے؟
آپ نے فرمايا: ہاں بالکل، ليکن کيا ميں نے يہ نہيں کہا تھا کہ ايک سال ايسا آئے گا (جب ہم گھر لوٹ کر خانہٴ خدا کا طواف کريں گے)۔
عمر نے کہا: نہيں!
آپ نے فرمايا: وہ دن آنے والا ہے اور تم طواف کو انجام دے سکو گے۔
عمر کہتے ہيں کہ ميں ابوبکر کے پاس گےا اور کہا کہ کيا يہ اللہ کے سچے نبي نہيں ہيں؟
انھوں نے کہا: ہاں۔
ميں نے کہا کہ کيا ہم حق اور ہمارے دشمن باطل پر نہيں ہيں؟
ابوبکر نے مثبت جواب ديا، تو ميںنے کہا کہ تو پھر ہم اپنے دين ميں کيوں رسوا ہوں؟۔
ابوبکر نے کہا: اے مرد! وہ اللہ کے رسول ہيں اور وہ معصوم ہيں اور اللہ ان کا ناصر و مددگار ہے ان سے متمسک اور ان کے ہمرکاب رہو، واللہ وہ حق پر ہيں۔
ميں نے کہا کہ کيا انھوں نے يہ نہيں کہا تھا ايک دن اپنے گھر لوٹيں گے اور خانہٴ خدا کا طواف کريں گے ابوبکر نے کہا: ہاں ۔
ابوبکر نے کہا: کيا انھوں نے يہ خبر دي تھي کہ اس سال خانہٴکعبہ جاؤ گے؟ ميں نے کہا، نہيں۔
ابوبکر نے کہا: وہ سال آنے والا ہے اور تم طواف کرو گے۔
عمر کہتے ہيں کہ ميں نے ابوبکر کے منشور پر عمل کيا۔
جب حديبيہ کے دستاويز پر دستخط ہوگئي تو آپ نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمايا: اٹھو قرباني کرو! اور سر کے بال تراشو، کوئي ايک بھي نہ اٹھا يہاں تک آپ نے اس جملہ کو تين بار دہرايا، پھر بھي جب کوئي اپني جگہ سے نہ ہلا تو آپ ام سلمہ کے خيمہ ميں تشريف لے گئے اور سارا ماجرا بيان کيا تو ام سلمہ نے کہا کہ يارسول اللہ کيا اس بات کو پسند فرماتے ہيں؟ آپ خيمہ سے باہر تشريف لے جائيں کسي سے کلام تک نہ کريں قرباني کريں اور اپنے سر کے بال ترشواليں؟
آپ باہر آئے کسي سے کوئي کلام نہيں کيا اور قرباني کي، سر کے بال ترشوائے، جب لوگوں نے ديکھا تو قرباني پيش کي اور ايک دوسرے کے سر کے بال تراشے، کيفيت کچھ يوں تھي کہ شدت غم اور بے چيني کے سبب ايک دوسرے کے قتل کے درپے ہوگئے تھے۔[12]
يہ حادثہ خود اس بات کا غماز ہے کہ اصحاب کے نظريات مختلف اور متعدد تھے جب پيغمبر نے عمر بن الخطاب سے کہہ ديا تھا کہ وہ اللہ کے رسول ہيں اور انھوں نے کبھي خدا کي نافرماني نہيں کي تو عمر کے لئے پيغمبر کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے اتنا کافي تھا، اس کے علاوہ پيغمبر نے يہ بھي بتا ديا تھا کہ وہ عنقريب اپنے گھر لوٹيں گے اور خانہٴ خدا کا طواف کريں گے اس سال يہ کام نہيں ہوسکتا عمر کے لئے رسول کا اتنا جواب کافي نہيں تھا! جو وہ اطاعت نبوي کے بجائے عمل رسالت پر تبصرہ کرنے لگے، بلکہ وہ ابوبکر کے پاس گئے اور وہي بات من و عن دہرائي اور بات تو اس وقت اور بگڑ گئي جب اصحاب نے اطاعت رسالت سے انکار کرديا، اور قرباني و حلق (سر کے بال تراشنے) سے منع کرديا اس کے بعد تو حکم رسالت کي مخالفت زوروں پہ شروع ہوگئي يہاں تک کہ رسول نے علي الاعلان تکليف اور مخالفت کو لوگوں کے سامنے بيان کرنا شروع کرديا۔
حضرت عائشہ سے روايت ہے کہ ذي الحجہ کي چوتھي يا پانچويں تاريخ تھي رسول خدا اس حال ميں تشريف لائے کہ چہرے پہ غصہ کے آثار تھے ميں نے عرض کي يا رسول اللہ! کس نے آپ کو غضبناک کيا خدا اس کو جہنم رسيد کرے۔
آپ نے فرمايا: کيا تم کو نہيں معلوم کہ ميں نے لوگوں کو ايک بات کا حکم ديا اور وہ لوگ اس ميں شک ميں مبتلا ہيں، اگر ميں کسي بات کا حکم ديتا ہوں تو اس کو واپس نہيں ليتا، ميں نے اپنے ساتھ قرباني پيش کرنے کا ارادہ ہي نہيں کيا کہ مجھ کو بھي ديگر حجاج کي مانند قرباني خريد کر ان کي طرح احرام سے خارج ہونا پڑے۔
حضرت عائشہ ہي سے دوسري روايت ہے کہ رسول خدا نے کسي حکم ميں اختيار ديا تھا ليکن اصحاب نے اس حکم سے پہلو تہي اختيار کي جب اس کي اطلاع آپ کو ہوئي تو آپ نے حمد خدا کے بعد فرمايا: اس قوم کو کيا ہوگيا ہے ميں ايک حکم بيان کرتا ہوں اور يہ اس سے کنارہ کشي اختيار کرتے ہيں۔
واللہ ميں ان سے بہتر اللہ کے سلسلہ ميں علم رکھتا ہوں اور ان سے کہيں زيادہ خوف الٰہي کا حامل ہوں۔[13]
گويا اس وقت کي امت اس بات سے بالکل بے خبر تھي کہ نبي تقويٰ و خوف الٰہي کا مظہر ہے آخر ان کو کيا ہوگيا تھا کہ وہ نبوت کے بارے ميں طرح طرح کي بدگمانياں کر رہے تھے اور يہاں تک سوچ بيٹھے تھے کہ رسول کا عمل حکم خدا کے خلاف بھي ہوسکتا ہے، يہاں تک کہ آپ سے کنارہ کش اور آپ کو ننگ و عار کا سبب گرداننے لگے تھے۔
بعض تو کھلم کھلا رسول کے اوامر و نواہي کي مخالفت کرنے لگے تھے، چاہے چھوٹي بات ہو يا بڑا مسئلہ، وہ تو يہ گمان کرنے لگے تھے کہ ان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ ہر چيز ميں عمل دخل اور فتوي صادر فرمائيں، جو قول رسول کے منافي ہو۔
جابر بن عبد اللہ انصاري سے روايت ہے کہ رسول نے اس بات سے منع کيا تھا کہ عورتوں سے مقاربت نہ کريں اس کے باوجود ہم نے مجامعت کي۔
حکم کے دو ر خ
بعض اصحاب کي جراٴت اس حد تک بڑھ گئي تھي کہ احکامات و تعليمات نبي کا علي الاعلان انکار کرنے لگے اور وہ لوگ وحي الٰہي اور حکم نبي، جو کہ عبادات سے مخصوص تھيں ان کے مقابل خود کو قانع تصور کرنے لگے تھے بلکہ اجتماعي، موروثي امور اور بعض عادات و رسومات يہاں تک کہ نبي کے بعد سياسي مسائل اور حکومت کي تشکيل ميں وہ اپنا حق سمجھتے تھے کہ ان امور ميں مداخلت کريں اور جس چيز ميں بھلائي سمجھيں اس ميں نص نبوي کے خلاف عمل کريں۔[14]
اوراس بات کا بين ثبوت اسامہ بن زيد کي سرداري کا مسئلہ ہے پيغمبر نے اسامہ بن زيد کو لشکر کي سرداري اور اپنے دست مبارک سے علم عطا کيا تھا رسول کے اس عمل پر يہ خصوصي اہتمام بھي بعض
اصحاب کو اعتراض سے باز نہ رکھ سکا اور اسامہ پر يہ طعن و تشنيع کرنے لگے کہ يہ تو ناتجربہ کار نوجوان ہيں، اور مہاجرين و انصار ميں سے سن رسيدہ اصحاب کي سرداري کي اہليت نہيں رکھتے، جن ميں ابوبکر، عمر، ابي عبيدہ جيسے افراد شامل تھے۔<[15]
پيغمبر بيت الشرف سے غصہ کي حالت ميں باہر آئے او رمنبر پر تشريف لے گئے اس وقت آپ کي طبيعت بھي ناساز تھي۔
آپ نے فرمايا: لوگو! اسامہ بن زيد کي سرداري کے بارے ميں بعض لوگوں کي کيسي چہ مي گوئياں مجھ تک پہنچي ہيں؟ اگر تم لوگ اسامہ کي سرداري کے بارے ميں طعن و طنز کر رہے ہو تو اس کے پہلے ان کے باپ کے بارے ميں اعتراض کرچکے ہو۔
خدا کي قسم وہ شخص اس سرداري کا اہل تھا او راس کے بعد اس کا بيٹا (اسامہ) اس کي اہليت رکھتا ہے۔
جب کہ رسول اکرم اسامہ کي جلد روانگي پر مصر تھے ليکن لوگ ٹال مٹول کرتے رہے، قبل اس کے کہ اس لشکر کي مقام جرف سے روانگي ہوئي رسول وفات پاگئے اور آپ لشکر کو تبديل کرنے والے تھے يا ارادہ رکھتے تھے۔
بعض اصحاب کا موقف حکم نبوت کي خلاف ورزي ميں اس حد تک آگے بڑھ گيا تھا کہ آپ کے سامنے اس کا اظہار کرنے لگے تھے، اور وفات رسول سے تھوڑا قبل اس کي مثال موجود ہے۔
محدثين، مورخين، ارباب سير اور صحيح بخاري کے الفاظ کچھ يوں ہيں:
ابن عباس سے روايت ہے کہ رسول کي احتضاري کيفيت کے وقت آپ کے بيت الشرف ميں بہت سارے لوگ جمع تھے جن ميں عمر بن الخطاب بھي تھے اس وقت رسول نے کہا: لاؤ تمہارے لئے ايسي تحرير لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو۔
جس کے بعد عمر نے بے ساختہ کہا: ان پر بخار کا غلبہ ہے تم لوگوں کے پاس قرآن ہے اور کتاب خدا ہمارے لئے کافي ہے۔
اہل بيت اطہار٪ نے اس نظريہ سے اختلاف کيا اور وہيں وہ افراد بھي تھے جو يہ کہہ رہے تھے کہ رسول کو وہ تحرير لکھنے دو جس کے سبب تم گمراہي سے بچ جاؤ گے۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو عمر کے نظريہ کا حامي تھا، جب يہ اختلاف زيادہ بڑھا تو رسول نے ناراض ہوکر فرمايا: ميرے پاس سے تم لوگ چلے جاؤ۔
ابن عباس کہتے ہيں: ہائے مصيبت اور سب سے بڑي مصيبت اس وقت تھي جب لوگ اس بات پر اڑ گئے اور شور مچانے لگے کہ رسول تحرير نہ لکھيں۔<[16]
بخاري نے سعيد بن مسيب اور ابن عباس سے روايت کي ہے کہ ابن عباس نے کہا: پنجشنبہ، ہائے پنجشنبہ! رسول کي طبيعت بہت ناساز تھي اس وقت آپ نے فرمايا: لاؤ ميں تمہارے لئے ايسي تحرير لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو۔
اس وقت رسول کے حضور اختلاف پيدا ہوگيا جبکہ آپ کے حضور شور و غل مچانا بہتر نہيں تھا، اور آپ کے شان ميں گستاخي کي گئي کہ آپ ہذيان بک رہے ہيں، اور لوگ اسي کے پيش نظر بدگماني کے شکار ہوگئے۔
اس وقت رسول اسلام (ص) نے فرمايا: جو ميں کر رہاہوں وہ اس سے بہتر ہے کہ جو تم مجھ سے چاہتے ہو، اور آپ نے تين چيزوں کي وصيت کي:
۱۔ مشرکين کو جزيرة العرب سے باہر نکال دو۔
۲ ۔جيسا ميں چاہتا تھا ويساہي لشکر تيار کرو۔
۳۔اس کے بعد خاموش ہوگئے اور اگر کچھ فرمايا تو مجھے ياد نہيں ہے۔[17]
نہيں معلوم ،آخر رسول کو اس نوشتہ کے لکھنے سے کيوں منع کيا گيا جبکہ آپ کي کوشش يہ تھي کہ امت گ-مراہي سے بچ جائے اور ابن عباس نے اس دن کو عظيم مصيبت سے تعبير کيا ہے ابن عباس اتنا گريہ کر رہے تھے کہ آپ کے آنسوؤں کے سبب زمين نم ہو جاتي تھي۔
جيسا کہ بعض کتابوں ميں اس کا تفصيلي تذکرہ ہے مگر مصلحت کے پيش نظر ہم اس کو چھوڑ رہے ہيں بعد ميں اس کا تذکرہ کريں گے۔
--------
[1]لسان العرب، ج۱۲، ص ۲۹۳
[2] سورہٴ حشر، آيت۷
[3]سورہٴ نساء، آيت ۵۹
[4] سورہٴ نساء، آيت ۶۵
[5] سورہٴ حجرات، آيت۱۴
[6] سيرة نبويہ و آثار محمديہ، زيني دحلان حاشيہ سيرحلبيہ، ج۱، ص ۳۷، سورہٴ انفال، آيت ۵
[7] المغازي للواقدي، ج۱ ص ۴۸۔ ۴۷
[8] المغازي للواقدي، ج۱، ص ۴۸۔ ۴۷
[9] سورہٴ مائدہ، آيت ۲۴
[10] المغازي ،للواقدي، ج۱، ص ۴۸۔ ۴۷
[11] مسند احمد، ج۳، ص ۱۵
[12] صحيح بخاري، ج۲، ص ۸۱، کتاب شرط، باب شروط في الجہاد و المصالحہ مع اہل الحرب و کتابة الشروط، صحيح مسلم، باب صلح حديبيہ
[13] صحيح بخاري، ج۵، ص ۱۴۵
[14] مسند احمد، ج۳، ص ۳۰۸، مسند ابي يعلي، ج۳، ص ۳۷۳
[15] الطبقات الکبريٰ، ابن سعد، ج۲، ص ۱۹۰؛ تاريخ يعقوبي، ج۳، ص ۷۴، بيروت؛ الکامل لابن الاثير، ج۲، ص ۳۱۷؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابي الحديد، ج۱، ص ۵۳؛ السيرة الحلبيہ، ج۳، ص ۲۰۷؛ کنز العمال، ج۵، ص ۳۱۲
[16] صحيح بخاري، ج۱، ص ۲۲، کتاب العلم
[17]صحيح بخاري، ج۵، ص ۱۳۷، باب مرض النبي و وفاتہ اور اسي طرح کے الفاظ صحيح بخاري کي کتاب الجزية باب اخراج اليہود من جزيرة العرب کي ج۴، ص ۶۵ پر وارد ہوا ہے اور تيسري وصيت کے بارے ميں خموشي ابن عباس کي جانب سے يا سعيد کے بھول جانے کي بات ايک موضوع ہے جس کو آنے والي بحثوں ميں پيش کريں گے مزيد بخاري، جلد ۸ ، ص ۶۱، صحيح مسلم، ج۵، ص ۷۵، کتاب الوصيہ، مسند احمد، ج۴، ص ۳۵۶، حديث ۲۹۹۲، پر ملاحظہ فرماسکتے ہيں۔
حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما(دوسري فصل)
ديني مرجعيت
گذشتہ امتوں ميں دين کي باگ ڈور متدين يا کاہنوں (جو علم غيبي يا اسرار الٰہي کے علم کے مدعي تھے) کے ہاتھ رہي ہے اگر ثاني الذکر کي تعبير صحيح ہے تو، وقتي اور دنياوي حکومت ديني حکومت سے جد ا رہي ہے۔
فراعنہ(بادشاہان مصر) اس بات کے مدعي تھے کہ وہ الٰہي نسل کے چشم و چراغ ہيں جب کہ يہ ايک اعزازي اظہار لقب تھا اور حقيقت سے دور دور تک اس کا کوئي واسطہ نہيں تھا۔
بادشاہان وقت ديني امور کے ذمہ دار نہيں رہے مگر بعض معاملات ميں جس کو کاہن حضرات عام طور سے مذہبي رنگ و روغن لگا کر پيش کرتے تھے، يہ کاہن افراد شہر کے ديني مرجع ہوتے تھے، بادشاہان مصر (فراعنہ) عام طور سے سياسي امور اور آباديوں کي ديکھ ريکھ ميں حکمراني کرتے تھے، کاہن (مسيحي روحاني رہنما) عبادت گاہوںميں اپنے ديني افکار کے تحت امور کي انجام دہي کرتے تھے، ان افراد کو دوسرے لفظوں ميں معظم الامم (سربراہان قوم) کہتے ہيں۔
آسماني اديان کي باگ ڈور يہودي خاخاموں اور عيسائي پوپ حضرات کے ہاتھ ميں تھي، سياسي حکومت سياست مداروں کے ہاتھ تھي جو شہريوں کي امداد اور ديکھ بھال کر رہے تھے اگرچہ ان کي گرفت مختلف قبيلوں پر تھي ليکن اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ وہ متدين و روحاني رہنما کي باتوں کو سنتے ہيں اور ان کي تعظيم و تکريم کرتے ہيں، اور دين سے متعلق امور ميں ان افراد کو مکمل اختيار دے رکھا تھا، ان لوگوں کے درميان وہ افراد بھي تھے جو مملکت کے استحکام اور عصري سياست کي تمرين سے دور تھے۔
جب پيغمبر نے مدينہ کي جانب ہجرت کي تو وہاں اپني حکومت کے مراکز اور نائبين کا تعين فرمايا، اس وقت رسول ديني اور دنيوي دونوں حکومت کے زمامدار تھے اور امور شريعت کے تنہا سرتاج و مرشد، احکام شريعت کے مبيّن و مفسّر اور سنت کے باني تھے۔
آپ نے فرمايا: ”صلوا کما راٴيتموني اصلي“ جيسے ميں نماز پڑھتا ہوں اسي طرح نماز پڑھو۔
آپ ايک ہي وقت ميں سياسي رہنما تھے جس کے ذريعہ سے بنياد حکومت استوار ہوسکتي تھي جيسا کہ ہجرت کے شروع ہي ميں آپ نے پروگرام مرتب کرديا تھا اور مسلمان اور يہود کے سامنے پيش کيا تھا۔
دوسرے رخ سے آپ سپہ سالار لشکر تھے کيونکہ آپ نے بڑے بڑے معرکوں ميں لشکر کي سرداري کے فرائض کو انجام ديا ہے بلکہ سرايہ (جس جنگ ميں آپ نے شرکت نہيں کي) ميں بعض اصحاب کو حسب ضرورت اپنا نائب مقرر کيا ہے۔
گويا پيغمبر ہر رخ سے قائد و رہبر تھے اور ايک ہي وقت ميں دوہري حکومتوں کے زمام دار تھے۔
پيغمبر کي حسن تدبير سے مسلمانوں نے يہ بخوبي جان ليا تھا کہ يہ سلسلہ چلتا رہے گا اور رسول کے بعد جو بھي ان کا خليفہ ہوگا اس کي اقتدا واجب ہے۔
خليفہ مراد وہ امام ہے کہ جس کي اطاعت واجب ہے، اور حفاظت شريعت جو حکم خدا اور سنت نبيوي کے تحت ہے اس ميں وہ قابل اعتماد ہے۔
اور حکومت اسلامي کے سياسي، اقتصادي اور عسکري امور کي وہ سربراہي کرتا ہے لہٰذا دين اسلام سياست عامہ اور حکومت اسلامي سے جدا نہيں ہے جو بھي رسول کا خليفہ ہے اس کے لئے ضروري ہے کہ وہ اسي راہ پر گامزن ہو۔
اور ظاہر سي بات ہے کہ امت کے تمام افراد ميں اس عظيم ذمہ داري کے لئے حسب ضرورت شرطيں نہيں پائي جاتيں لہٰذا ضروري ہے کہ کسي ايک فرد ميں جو کہ خليفہ کے عہدے پر فائز ہو تمام صفات حميدہ اور کمالا حسنہ پائے جاتے ہوں تاکہ امور کي انجام دہي، شريعت کي حفاظت، اور حکومت کي پشت پناہي، ان تمام خطرات سے کرسکے جس کا امکان کسي بھي رخ سے پايا جاتا ہے۔
اگر عصري تقاضوں کے تحت بعض دنيوي حکومت ميں تبديلي اوراجتہاد کا امکان پايا جائے تو دوسرے رخ سے مسائل شرعيہ ميں اس طرح کا اجتہاد جو توہين اور سبکي کي جانب لے جائے اور ايک کے بعد دوسرے ميں مداخلت کي سبب بنے، بالکل روا نہيں ہے۔
جب ديني مرجعيت ايسي آندھيوں کے سامنے آجائے گي تو آنے والے دنوں ميں کوئي اس پر بھروسہ نہيں کرے گا اور شريعت ميں تحريف کا ايسا رخنہ پيدا ہوجائے گا جو پُر نہيں ہوسکتا، نيز آنے والے دنوں ميں شريعت پر بہت بڑا دھچکا لگے گا، اور حقيقت کي تشخيص و تعيين ميں بہت سے لوگ پھسل جائيں گے، لہٰذا يہ کہنا پڑے گا کہ ديني مرجعيت کے شرطوں ميں سے ايک يہ ہے کہ جو اس مرجعيت کو ان انجانے خطرات سے نہ بچاسکے وہ بالکل اس عہدے کا اہل نہيں ہوسکتا۔
انھيں کے پيش نظر ہم کو اس بات کي اہميت معلوم ہوتي ہے کہ پيغمبر نے اس (خلافت) کے حدود و خطوط معين فرماديئے تھے، اور عہدہ داروں کي شرطوں کو بيان کر ديا تھا، اور فرد، يا افراد کي تعيين اپنے سامنے کردي تھي، يا يہ عظيم ذمہ داري امت کے کندھوں پر ڈال دي تھي تاکہ جس کو چاہيں معين کرليں اور اصلح (نيک) کو مصلحت و تقاضوں کے تحت اس ديني مرجعيت کے لئے چن ليں؟
رہبري کے عمومي شرائط
شريعت کي حفاظت کے لئے ديني رہبري کي اہميت بيان کرنے کے بعد ضروري ہے کہ رہبري کے شرائط بھي پيش کرديئے جائيں اور جو شخص اس کا مدعي ہے اس کے لئے لازم ہے کہ ان شرائط کا حامل ہو، اور اس کي تعيين کے لئے نص يا نصوص نبوي کي تلاش ضروري ہے تاکہ اس مسئلہ پر کسي قسم کا اختلاف يا تشتت نہ ہو جس کے سبب امت کے نظريات ٹکڑوں ميں بٹ جائيں اور ايسا رخنہ پيدا ہو کہ جس سے شريعت نے منع کيا ہے۔
اہليت، عمومي مرجعيت کي برترين شرط ہے
جب ہم اسلام کي تاريخ و سير کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہم کو وہ نصوص ملتي ہيں کہ جن ميں اس شخص کي جانب رسول نے اشارہ کيا ہے جس ميں يہ تمام شرطيں بدرجہٴ اتم پائي جاتي ہيں۔
محدثين نے لکھا ہے کہ رسول جب آخري حج سے واپس ہو رہے تھے تو جحفہ نامي جگہ جس کو غدير خم بھي کہتے ہيں اجلال نزول فرمايا اور وہاں موجود بڑے بڑے درختوں کے نيچے سے خس و خاشاک جمع کرنے کا حکم ديا تو لوگوں نے اس پر عمل کيا پھر آپ کے لئے اونٹوں کے کجاوے کا منبر بنايا گيا آپ اس پر تشريف لے گئے تاکہ سب لوگ آپ کو صحيح طريقہ سے ديکھ سکيں، اس وقت آپ نے فرمايا:
”مجھے (خدا کي جانب) طلب کيا گيا ہے ميں نے قبول کيا ہے ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑ کر جارہا ہوں اس ميں سے ايک دوسرے سے بڑي ہے۔
کتا ب خدا اور ميري عترت ديکھو تم لوگ ان دونوں ميں ميري کيسي اطاعت کرتے ہو يہ دونوں ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کريں گے“
بعض روايات ميں ايک خاص جملہ کا اضافہ ہے (جب تک ان سے متمسک رہو گے گ-مراہ نہ ہوگے)۔[18]
ابن حجر ھيثمي مکي نے اس روايت (حديث ثقلين) کو متعدد طريقوں سے روايت کرنے کے بعد کہا ہے، کہ حديث تمسک، متعدد طريقوں سے بيس سے زيادہ صحابيوں نے روايت کي ہے بعض طرُق ميں کہا گيا ہے کہ يہ حديث حجة الوداع کے موقع پر، مقام عرفہ ميں آنحضرت نے ارشاد فرمائي ہے، بعض کے مطابق مدينہ ميں جب رسول اکرم احتضاري کيفيت ميں تھے اور آپ کا حجرہ مبارک اصحاب سے بھرا ہوا تھا، بعض طرُق نے غدير خم کے حوالہ سے نقل کيا ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ جب آپ طائف سے واپس آرہے تھے۔
ان متعدد طريقوں سے اس حديث کا نقل ہونا کوئي منافات نہيں رکھتا اور کوئي مشکل بھي نہيں ہے کہ آپ نے متعدد مقامات پر قرآن و اہلبيت کي عظمت کے پيش نظر حديث کي تکرار فرمائي ہو۔[19]
نصوص حديث اور ابن حجر کے تعلقيہ سے ہم اس بات کا نتيجہ نکال سکتے ہيں کہ نبي اکرم نے اپنے بعد ان افراد کي نشان دہي فرمادي ہے جو آپ کے بعد ديني مرجعيت کي منھ بولتي تصوير ہيں۔
اور اہل بيت و عترت طاہرہ کي مرجعيت کي نص يہي حديث ہے آپ نے اہل بيت کو قرآن کے ہم پلہ قرار ديا ہے، قرآن شريعت کا پہلا مرکز ہے اور ثقل اکبر ہے اور اہلبيت رسول دوسرے مرکز ہيں اور ثقل اصغر ہيں۔
اہلبيت کي جانب اشاروں کي تکرار اور متعدد مقامات و مناسبتوں پر اس کو دہرانا اس امر کي عظمت و اہميت کے باعث ہے، درحقيقت ايک طرح کي فرصت تھي ان افراد کے لئے جو اس کو سن نہيں سکے ہيں اور جو سن چکے ہيں ان کي ياد دہاني کے لئے ہے۔
رسول نے اہلبيت کے حوالہ سے صرف اسي نص پر اکتفا نہيں کي بلکہ مسئلہ کي اور وضاحت فرمادي، جيسا کہ محدثين نے نقل کيا ہے کہ ابوذر غفاري نے در کعبہ کو پکڑ کر کہا: اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہيں جانتا ہے وہ جان لے کہ ميں ابوذر ہوں، ميں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا ہے، کہ ميرے اہلبيت کي مثال سفينہٴ نوح کي سي ہے جو اس ميں سوار ہوگيا، نجات يافتہ ہوگيا، اور جس نے اس سے روگرداني کي وہ ہلاک ہوگيا۔[20]
دوسري روايت ابن عباس وغيرہ سے ہے کہ رسول اکرم نے فرمايا: آسمان کے ستارے زمين پر بسنے والوں کے لئے سبب امان ہيں تاکہ لوگ غرق ہونے سے بچ جائيں، (دوران سفر سمندروں ميں ستاروں کے ذريعہ راہوں کي تعيين کي جانب اشارہ ہے) ميرے اہلبيت ميري امت کے لئے سبب امان ہيں، تاکہ آپسي اختلافات سے بچے رہيں، اگر عرب کے قبيلوں ميں سے کسي گروہ نے ان (اہلبيت) سے اختلاف کيا تو وہ شيطاني گروہ ہوگا۔[21]
رسول اکرم نے اپنے دوسرے فرمان ميں ثقلين کي اور صراحت فرمادي ہے:
”ان دونوں پر سبقت نہ لے جانا ان دونوں سے پيچھے نہ رہ جانا، ورنہ ہلاکت مقدر بن جائے گي اور کبھي ان کو کچھ سکھانے کي کوشش نہ کرنا، اس لئے کہ يہ تم سے اعلم ہيں۔[22]
اس بات کي جانب امير المومنين - نے اپنے ايک خطبہ ميں کافي تاکيد کي ہے، آپ نے فرمايا: اپنے نبي کے اہلبيت کو ديکھو اور ان کے نقش قدم پر چلو، کيونکہ وہ تم کو راہ ہدايت سے دور نہيں کريں گے، اور قعر مذلت ميں نہيں گرائيں گے، اگر وہ گوشہ نشين ہوجائيں تو تم بھي ان کے ساتھ رہو، اگر وہ قيام کريں تو ان کے ہمرکاب رہو، ان پر سبقت نہ لے جاؤ، ورنہ بہک جاؤ گے ان سے پيچھے نہ رہو، ورنہ ہلاکت مقدر بن جائے گي۔[23]
حضرت سيد سجاد سے روايت ہے کہ آپ نے فرمايا:
”کيا اس سے زيادہ کوئي بھروسہ مند ہے کہ جو حجت کو پہنچائے، حکم (خدا) کي تاويل پيش کرے ،مگر وہ افراد جو کتاب (قرآن) کے ہم پلہ ہيں اور ائمہ ہديٰ کے روشن چراغوں کي ذريت ميں سے ہيں، يہ وہي لوگ ہيں جن کے ذريعہ سے خدا نے بندوں پر حجت تمام کي اور لوگوں کو بغير کسي حجت کے حيران و سرگردان نہيں چھوڑ ديا، کيا تم لوگ شجرہٴ مبارکہ کي شاخوں کے علاوہ کسي کو جانتے ہو ياکسي اور کو پاسکو گے اور يہ ان برگزيدہ بندوں کي يادگاريں ہيں، جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے اور ان کي طہارت کا اعلان کيا ہے اور تمام آفات ارضي و بليّات سماوي سے محفوظ رکھا ہے اور قرآن ميں ان کي محبت و مودّت کو واجب قرار ديا ہے۔[24]
گذشتہ باتوں سے يہ بات واضح ہوجاتي ہے کہ بلاشک و ترديد رسول نے اپني امت کے لئے ان افراد کا اعلان و تعين فرماديا ہے جن کي جانب ہر امر ميں رجوع کرنا ہے اور وہ والا صفات اہلبيت کي ذوات مقدسہ ہيں اور اس بات کي تاکيد ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ ان کے دامن سے متمسک رہو، بلکہ ان سے روگرداني کرنے کي صورت ميں ڈرايا بھي ہے اور ان کي مخالفت اور دوري ميں ہلاکت و گمراہي بتايا ہے۔
اگر يہ سوال ہو کہ ديني مرجعيت کے مرکزيت کو رسول نے اہلبيت ميں کيوں محدود کرديا؟
تو اس کا جواب يہ ہوگا کہ يہ تو مسلّمات ميں سے ہے کہ رسول اپني طرف سے کوئي بات نہيں کرتے، گويا رسول کا يہ عمل حکم خداوندي کے تحت تھا اور اللہ نے اہلبيت کو ان مراتب سے نوازا اور اس عظيم امر کي اہليت بخشي ہے! جيسا کہ قرآن ميں اسي بات کا اعلان بھي ہے:
<إنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰہُ لِيُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴہلَ البَيتِ وَ يُطَہِّرَکُمْ تَطْہِيراً>۔[25]
اے اہل بيت! اللہ کا ارادہ يہ ہے کہ تم اہل بيت سے رجس کو دور رکھے اور ويسا پاک رکھے جيسا پاک رکھنے کا حق ہے۔
اللہ نے ان کي طہارت کو ثابت کيا ہے اور وہ عيوب جن سے بڑے بڑے لوگ نہيں بچ پاتے ان سے ان کو دور رکھا ہے ان کي طہارت اس بات کي متقاضي ہے کہ يہ گناہ، عيوب، پستي، جن ميں سے جھوٹ اور خدا کي جانب افترا پردازي او ران باتوں کا ادعا کرنا جو خدا کے لئے مناسب نہيں ہے، ان سب سے معصوم و محفوظ ہيں۔
اور دوسرے رخ سے نبي اکرم نے دوسري صفات ان کے لئے بيان کي ہے، جيسے: احکامات
(۱)شريعت کے سلسلہ ميں امت ميں سب سے اعلم ہيں اور يہ اس بات کا لازمہ ہے کہ يہ امت کے مرجع و مرکز ہيں۔
پيغمبر کا ا س جانب توجہ دلانا کہ ان سے ہدايت حاصل کرو ان پر سبقت نہ لے جاؤ ا ن سے پيچھے نہ رہو، ان کو کچھ سکھانے کي کوشش نہ کرو، يہ سب رسول کا اس عظيم امر ميں اہلبيت کي مدد کرنا نہيں ہے اور نہ ہي قرابت داري کے باعث اظہار محبت ہے، کيونکہ اقرباء ميں توابولہب بھي رسول کا چچا تھا مگر رسول نے اس رشتہ کو کبھي نہيں سراہا۔
اہلبيت کون لوگ ہيں؟
بعض لوگوں نے اہلبيت ميں ان افراد کو شامل کرنا چاہا ہے جو اہلبيت ميں سے نہيں تھے! متعدد مقامات پر مختلف انداز ميں رسول نے اہلبيت کي وضاحت و نشان دہي کردي ہے تاکہ دھوکا اور ہر طرح کا احتمال ختم ہوجائے۔
علماء حديث نے اصحاب کے حوالہ سے بہت ساري روايتوں کا تذکرہ کيا ہے جس ميں صاف صاف وضاحت ہے، انھيں ميں سے ايک ام المومنين حضرت ام سلمہ کي روايت ہے، پيغمبر اسلام نے حضرت فاطمہ سے فرمايا: اپنے فرزندوں اور شوہر کے ساتھ يہاں آؤ! آپ سب کے ہمراہ حاضر ہوئيں، رسول نے ان سب کے اوپر فدک کي چادر ڈال دي اس کے بعد اس پر ہاتھ رکھ کر فرمايا: خدايا! يہ آل محمد ہيں، معبود! محمد و آل محمد پر رحمات و نعمات کا نزول فرما! تو لائق تعريف و صاحب عظمت ہے۔
ام سلمہ کہتي ہيں کہ ميں نے چادر کا گوشہ ہٹايا تاکہ ميں بھي اس کے اندر داخل ہوجاؤں رسول نے اس کو ميرے ہاتھ سے لے لي اور فرمايا: ”تم خير پر ہو“[26]
حضرت عائشہ سے روايت ہے: کہ ايک صبح رسول اس حالت ميں نکلے کہ آپ کے دوش پہ سياہ رنگ کي اوني چادر پڑي ہوئي تھي، اتنے ميں حسن آئے آپ نے ان کو اس کے اندر داخل کرليا پھر حسين آئے تو ان کو بھي اندر داخل کرليا پھر فاطمہ آئيں ان کو بھي داخل کرليا پھر علي آئے اور ان کو بھي داخل کرليا اس کے بعد رسول نے اس آيت کي تلاوت فرمائي:
<إنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰہُ لِيُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴہلَ البَيتِ وَ يُطَہِّرَکُمْ تَطْہِيراً>[27]
يہ بات بالکل مسلّمات ميں سے ہے کہ رسول اکرم نے نصاريٰ نجران سے مباہلہ کيا تھا اور يہي افراد شريک کار تھے، علماء تفسير و حديث نے اس بات کو متعدد اصحاب کے حوالہ سے نقل کيا ہے جن ميں سے سعد ابن ابي وقاص ہيں، کہتے ہيں کہ: جب آيہٴ مباہلہ نازل ہوئي تو رسول نے علي ، فاطمہ ، حسن و حسين کو بلايا اور فرمايا:”اللّٰہم ہٰؤلآء اہلي“ خدايا! يہ ميرے اہل بيت ہيں۔<[28]
لوگ سوال کرتے ہيں کہ جب رسول کے اہلبيت يہي ہيں تو شيعہ حضرات کيوں کہتے ہيں کہ بقيہ نو امام بھي اہلبيت رسول ہيں۔
تو اس کا جواب يہ ہے کہ رسول سے بہت ساري روايات نقل ہوئيں ہيں جس ميں آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کي تعيين کي ہے اور ان کي تعداد بارہ بتائي ہے، علماء حديث، حافظين حديث اور بخاري کے الفاظ يہ ہيں:
جابر بن ثمرہ راوي ہيں کہ: ”ميں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا ہے کہ بارہ ہادي و امام ہوں گے“اس کے بعد ايک جملہ کہا جس کو ميں سن نہ سکا، پھر ميرے والد نے بتايا کہ آپ نے فرمايا ہے کہ ”سب کے سب قريشي ہوں گے“[29]
--------
[18] المستدرک، ج۳، ص ۱۰۹، ۵۳۳؛ مسند احمد بن حنبل، ج۵، ص ۱۸۱، ۱۸۹؛ جامع ترمذي، ج۲، ص ۳۰۸، حديث ۳۸۷۴؛ خصائص امير المومنين للنسائي، ص ۲۱؛ کنز العمال، ج۱، ص۴۴، ۴۷، ۴۸؛ صحيح مسلم، باب فضائل علي؛ سنن الدارمي، ج۲، ص ۴۳۱؛ صواعق محرقہ، ص ۸۹؛ الطبقات الکبريٰ، ج۲، ص۲؛ فيض القدير للمناوي، ج۳، ص ۱۴؛ حلية الاولياء ج۱، ص ۳۵۵، حديث۶۴؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۶۳، ۱۶۴
[19] صواعق محرقہ، ص ۲۳۱۔ ۱۳۰
[20] المستدرک علي الصحيحين للحاکم النيشابوري، ج۴، ص ۳۴۳؛ کنز العمال، ج۶، ص ۲۱۶؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۶۸؛ حلية الاولياء، ج۴، ص ۳۰۶؛ تاريخ بغداد، ج۱۲، ص ۱۹، ذخائر العقبيٰ، ص ۲۰؛ کنوز الحقائق، ۱۳۲؛ فيض القدير، للمناوي، ج۴، ص ۳۵۶؛ صواعق محرقہ، ص ۳۵۲، بعض روايات ميں آيا ہے کہ، يہ (اہلبيت) باب حطہ کي مانند ہيں جو اس ميں داخل ہوا امان پاگيا اور جو اس سے نکل گيا وہ کافر ہوگيا۔
[21] المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص ۱۴۹۔ ۱۴۸؛ کنز العمال، ج۶، ص ۱۶؛ صواعق محرقہ، ص ۳۵۳؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۷۴؛ فيض القدير، للمناوي، ج۶، ص ۲۹۷؛ ذخائر العقبيٰ، للمحب الطبري، ص ۱۷،
[22] صواعق محرقہ، ص ۲۳۰
[23] نہج البلاغہ، خطبہ۲
[24] صواعق محرقہ، ص ۲۲۳
[25] سورہٴ احزاب، آيت ۳۳
[26] مسند احمد، ج۶، ص ۲۹۶، ۳۲۳؛ المستدرک، ج۳، ص ۱۰۸، ۱۴۷؛ کنز العمال، ج۷، ص۱۰۲، ۲۱۷؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۶۷
[27] صحيح مسلم، کتاب فضائل صحابہ باب فضائل اہلبيت نبي؛ المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص۱۴۷، انھوں نے کہا کہ شيخين کي تائيد کے باعث يہ حديث صحيح ہے، سنن البيہقي، ج۲، ص۱۴۹؛ تفسير طبري، ج۲۲، ص۵؛ فخر رازي نے بھي اس کو آيہٴ مباہلہ کے ذيل ميں ذکر کيا ہے اور کہا کہ اس روايت کي صحت علماء تفسير و حديث کے نزديک متفق عليہ ہے: جامع ترمذي، ج۲، ص۲۰۹، ۳۱۹؛ مسند احمد، ج۶، ص۳۰۶، اسد الغابہ، ج۴، ص۲۹
[28] جامع ترمذي، ج۲، ص۱۶۶؛ المستدرک علي الصحيحين ج۳، ص۱۵۰؛ سنن البيہقي، ج۷، ص۶۲؛ اسباب النزول، ص ۷۵
[29] صحيح بخاري، ج۹، ص۱۰۱، کتاب الاحکام باب الاستخلاف؛ سنن ترمذي، ج۴، ص ۵۰۱؛ سنن ابي داؤد، ج۴، ص۱۰۶؛ المعجم الکبير، ج۲، ۱۹۴، بعض نسخوں ميں خليفہ، رجل، قيم، کا لفظ آيا ہے۔
حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما(تیسری فصل)
آغاز تشیع
مسلک اجتہاد جو کہ وصیت و تعلیمات نبوی کے مقابل کبھی بھی سرتسلیم خم کرنے کے قائل نہیں تھا، اس کے مقابل ایک فرمانبردار گروہ وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ نبی اکرم کے تمام احکامات کا مطیع ہونا چاہئے وہ جس امر سے بھی متعلق ہو، چاہئے وہ احکامات شریعت ہوں یا رحلت رسالت کے بعد امور کی انجام دہی، لہٰذا کچھ مردان خدا نے نص کی پیروی کے مسلک کی بنیاد رکھی اوران کی تعداد شاید دس سے زیادہ نہ ہو، لیکن بعد میں افراد ان کے گروہ میں شامل ہوتے چلے گئے۔
ظاہر سی بات ہے کہ نص کی اتباع میں شریعت کے وہ امور جن میں ان کا موقف دینی مرجعیت اور رسول کے بعد سیاسی مراحل سے متعلق ہے ان میں رسول سے مدد طلب کی ہوگی، اور انھوں نے ولایت و شخصی اختیارات میں شخصی اجتہاد نہیں کیا ہوگا، اور یہ ایسا گروہ ہے جس پر نصوص نبوی کی تائید ہے حضرت علی کے مانند حسین وجامع کمالات شخص کے لئے جو نفسانی اور اخلاقی صفات کے حامل ہیں تاکہ یہ عظیم منصب صحیح جگہ مستقر ہوسکے جس پر وہ پیغام متوقف ہے جس کے قوانین رسول نے مرتب کئے اور اس کی بنیاد ڈالی۔
لہٰذا رسول کے بعد آنے والے شخص پر لازم ہے کہ اس مرکز کی حفاظت کرے اوراس کو ان مخالف آندھیوں سے بالکل محفوظ رکھے جو تبدیلیٴ زمان اور مرور ایام کے سبب طویل سفر میں درپیش ہوسکتی ہیں، خاص طور سے مسلمانوں کا وہ دور، جن کا زمانہ عہد ماضی سے بہت قریب ہے، اور ہجرت رسول کے بعد نفاق کی ریشہ دوانیوں کی شدت کے وقت، اور بعض افراد کا مسلمین و مشرکین کے بیچ پیس دینے والی جنگ کے کینوں کے سبب متحد ہونا جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو فتح مکہ کے بعد شریک اسلام ہوئے ہیں اور یہ وہ وہی لوگ ہیں جن کو رسول نے (طلقاء) آزاد شدہ کہا ہے، اور مال وغیرہ کے ذریعہ ان کی قلبی مدد کی تھی۔
اس بات کے پیش نظر کی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف جو ان کے دلوں میں کینے چھپے ہیں وہ ختم ہو جائیں اور بعض لوگوں کے دلوں میں جو حب دنیا اور اس کی رنگینیوں سے دلچسپی رکھتے تھے وہ بجھ جائیں۔
نبی اکرم یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ سرداران قریش جو کچھ ان کے ہاتھ میں تھا (سرداریٴ قوم) اس کو چھوڑ نے کے بعد بادل نخواستہ اسلام میں شامل ہوئے ہیں اور سردست ان کے پاس اس نئے اسلام کو اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا جبکہ اسلام ایک عظیم دین ہے پھر بھی وہ اس کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں تھے۔
اس کے علاوہ آئندہ دنوں میں جزیرہٴ عرب کے باہر کی اسلام دشمن طاقتیں مسلسل ڈرا رہیں تھیں اور اس کا نظیر صاحب قوت و قدرت حکومتیں تھیں۔
اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کا سبب مسلمانوں کا تحول ان حکومتوں کے لئے اور حیرت انگیز تھا جو حکومتیں اپنے آس پاس کے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہیں تھیں ہر چند کہ ان کی گیدڑ بھبھکی کے مقابل مسلمانوں کے پاس حفاظت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
لہٰذا نص کی مکمل پیروی، اس اجتہادی روش کے سامنے جو نص شرعی اور نص نبوی کے مقابل علم بغاوت بلند کئے ہے، مدد کی خواہاں ہے جبکہ ایک لحاظ سے نص شرعی و نبوی کا مرکز حضرت علی ہیں اور دوسرے لحاظ سے وجود ظاہری میں اس نبوی موقف کے مصداق بھی حضرت علی ہی ہیں۔
رسول خدا نے فرمایا:
”مَن اطاعنی فقط اطاع اللّٰہ و مَن عصانی فقد عصی اللّٰہ و مَن اطاع علیاً فقد اطاعنی و مَن عصی علیاً فقد عصانی“[1]
جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”انا و علیّ حجة اللّٰہ علی عبادہ“[2]
ہم اور علی بندگان خدا پر حجت خدا ہیں۔
قال رسول اللہ:
”اُوحِیَ اِلَیَّ فی علیّ ثلاث، انہ سید المسلمین، امام المتقین، قائد الغرّ المحجّلین“
اللہ نے علی کے سلسلہ میں میرے پاس تین چیزوں کے بارے میں وحی نازل کی کہ: ۱۔وہ سید المسلمین ۲۔امام المتقین ۳۔قائد الغر المحجلین ہیں۔
قال النبیّ : ”علیّ مع الحق والحق مع علی و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة“[3]
علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کریں گے۔
اور آپ کا قول حضرت علی کے بارے میں گذر چکا ہے کہ ”الحق مع ذا الحق مع ذا“[4]
یہ اور اس کے مثل نصوص نبوی سے ان اصحاب نے یہ جانا کہ رسول اکرم نے اس عظیم امر کو علی کے لئے ثابت کیا ہے یہ وہ ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق پر ہیں اور ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بات گذر چکی ہے کہ رسول نے قرآن و اہلبیت کو ایک دوسرے کا ساتھی و ہمنوا بتایا ہے اوراس بات کی ضمانت لی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کریں گے۔
اس کے بعد یہی بات حضرت علی سے مخصوص کی اور فرمایا: ”علی مع القرآن والقرآن مع
فخر رازی کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب ہمیشہ بسم اللہ کو بآواز بلند کہا کرتے تھے اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے اور جو کوئی بھی دین میں علی کی اقتدا کرے گا وہ ہدایت یافتہ ہے اور اس بات کی دلیل رسول کا یہ قول ہے: ”اللّٰھم ادر الحق مع علیّ حیث دار“ خدایا حق کو اس طرف موڑ جدھر علی جائیں تفسیر کبیر، ج۱، ص۲۰۴، باب الجہر بالبسملة
علی، لن یفترقا حتی یردا علی الحوض“[5] جب قرآن حق ہے اوراس میں شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے اور علی قرآن کے ساتھ ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور بالکل واضح ہے کہ علی حق پر ہیں لہٰذا ان کی اتباع اسی طرح واجب ہے جس طرح حق کی اتباع واجب ہے۔
یہ وہ اہم دلائل ہیں اس گروہ کے جواتباع نص کو واجب کہتے ہوئے علی سے تمسک کو ضرورت دین سمجھتے ہیں اور ان کی مخالفت کو ناجائز،اور ان کا موقف حیات رسول ہی میں سب پر واضح تھا۔
محمد کرد علی کہتے ہیں: کہ عصر رسول ہی میں بزرگ صحابہ کرام ولایت علی کے حامی تھے، جیسا کہ سلمان فارسی کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کی بیعت مسلمین کے اتحاد، علی ابن ابی طالب کے امام اور ان کی ولایت کے لئے کیا تھا۔
انھیں کے مانند ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ لوگوںکو پانچ چیزوں کا حکم دیا گیا تھا انھوں نے چار کو اپنایا اور ایک کو چھوڑ بیٹھے جب ان سے ان چاروں کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ: نماز، زکاة، ماہ رمضان کا روزہ اور حج۔
پوچھا گیا وہ کیا چیز ہے جس کو چھوڑ دیا گیا: تو کہا کہ ولایت علی بن ابی طالب ، پوچھنے والے نے کہا کہ کیا یہ بھی ان چیزوںکے ہمراہ فرض تھی۔
توابوسعید نے کہا: ہاں۔
اور انھیں کے ہمرکاب تھے، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، حذیفہٴ بن الیمان و ذو الشہادتین خزیمہ بن ثابت، ابو ایوب انصاری، خالد بن سعید بن العاص، قیس ابن سعد ابن عبادہ۔[6]
اور اس حقیقت کی جانب ڈاکٹر صبحی صالحی مائل ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود حیات رسول
میں شیعہ گروہ موجود تھا جو پروردہٴ رسول حضرت علی کے تابع تھے، ابوذر غفاری، مقداد بن الاسود، جابرابن عبد اللہ، ابی ابن کعب، ابوطفیل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور ان کے سارے فرزند، عمار بن یاسر ابو ایوب انصاری یہ سب شیعیان علی تھے۔[7]
کلمہٴ(شیعہ) کی اصطلاح بھی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ رسول کے حیات مبارک کے آخری دنوں میں رائج ہوئی ہے جیسا کہ بعض افراد کا نظریہ ہے بلکہ رسول کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں اور آخری ایام میں اس لفظ کی تکرار فرماتے تھے تاکہ علی کی پیروی کرنے والوں پر دلالت کرے اوران کواس بات کی بشارت دی کہ وہ حق پر ہیں اور کامیاب ہیں اور وہ خیر الناس ہیں۔
مفسرین و حافظین قرآن نے یہ بات لکھی اور کہی ہے کہ جب یہ آیت <ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اٴولٰئک ہم خیر البریة>، ایمان دار اور نیک عمل انجام دینے والے یقینا بہترین گروہ ہیں، نازل ہوئی تو رسول نے فرمایا: ”انت یا علی و شیعتک“[8] اے علی! وہ نیک گروہ (خیر البریہ) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔
سیوطی نے کہا کہ ابن عساکر نے جابربن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ ہم سب رسول کے پاس بیٹھے تھے اور علی وارد ہوئے تو رسول نے ان کودیکھ کر فرمایا: ”والذی نفسی بیدہ ان ہذا و شیعتہ لہم الفائزون یوم القیامة“ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ (علی) اور ان کے شیعہ کامیاب ہیں اور آیت نازل ہوئی: <ان الذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰئک ہم خیر البریة>، جب کبھی علی آتے تواصحاب رسول بے ساختہ کہہ اٹھے خیر البریہ آگئے اور ابن عدی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول نے علی سے کہا: ”ہو انت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضین“ وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں جو روز محشر خدا سے اور خدا ان سے راضی ہے، ابن مردویہ نے اسی آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ رسول نے کہا: ”انت و شیعتک موعدی و موعدکم الحوض اذا جائت الامم للحساب تدعون غراً محجّلین“ تم او رتمہارے شیعوں اور میری وعدہ گاہ حوض کوثر ہے جب امتیں حساب کتاب کے لئے آئیں گے تو تم کو نوارنی پیشانی والے ”غر المحجّلین“ کہہ کے پکارا جائے گا۔
راستہ کی نشاندہی
وہ اصحاب جو شیعیان علی تھے ان کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت بنی ہاشم اور ان کے سردار سے خارج نہیں ہے اور اس پر رسول کی تاکید بھی ہے اور مستقل لوگوں کو اس بات پر اکسایا ہے کہ علی اور اہل بیت رسول سے متمسک رہیں، لیکن سقیفائی حادثات نے حالات کو یکسر بدل دیااور علی اور ان کے حامیوں کے لئے یہ بہت بڑا المیہ تھا، جبکہ کوئی ایک بھی ان کے ہم پلہ نہ تھا، علامات و نشانیوں کے باوجود اجتہادی مسلک کے پیرو اس مسئلہ (خلافت) میں ارادہٴنبوت کے حامی نہیں تھے ان کے سرداروں میں سے ایک نے ا بن عباس سے صراحتاً کہا: قریش اس بات سے کترا رہے ہیں کہ نبوت و خلافت خاندان بنی ہاشم میں جمع ہو جائے۔
اور سارے حادثات اسی ناپسندیدگی کے باعث وجود میں آئے جس کے آثار سقیفہ بنی ساعدہ کی صورت میں نمودار ہوئے۔
اس مسلک کے ارادے کے اثرات حضرت علی کے پیروؤں پر پوشیدہ نہیں تھے بلکہ ان افراد کے بیچ ایسے باشعور افراد تھے جواس بات کو بخوبی درک کر رہے تھے کہ قریش کی ساری کوشش اس بات کی ہے کہ اس (خلافت) کو سردار قریش اور ان کے فرزندوں سے چھپالیا جائے جیسا کہ براء بن عازب نے بیان کیا کہ: میں ہمیشہ بنی ہاشم کا دوست تھا جب رسول کی وفات ہوئی تو مجھ کو اس بات کا ڈر پیدا ہوا کہ قریش کہیں بنی ہاشم سے خلافت کو ہتھیا نہ لیں، اس وقت میری کیفیت ایک حواس باختہ شخص کی سی تھی، اور رسول کی وفات کے سبب میں بہت غمزدہ تھا میں بنی ہاشم کے پاس آمد و رفت کر رہا تھا تو وہ حجرہٴ رسالت میں جمع تھے اور میں قریش کے بزرگوں کا جائزہ لینے جارہا تھا، اور عمر و ابوبکر کی وفات کے وقت بھی میں اسی کیفیت میں تھا، اتنے میں کسی کہنے والے نے یہ آواز لگائی! لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں، دوسرے نے ہانک لگائی کہ ابوبکر کی بیعت کرلی گئی۔
تھوڑی ہی دیر میں کیا دیکھا کہ ابوبکر دکھائی دیئے اور عمر بن الخطاب ابوعبیدہٴ جراح اور سقیفائی گروہ ان کے ساتھ تھا وہ سب ایک کمر بند کا تنگ گھیرا بنائے تھے اور جو کوئی بھی ادہر سے گذرتا تھا اس کوزبردستی پکڑ کر لاتے تھے اور ابوبکر کے سامنے پیش کرتے تھے اور اس کے ہاتھ کو بڑھا کر ابوبکر کی بیعت لے لیتے تھے وہ چاہے راضی ہو یا نہ ہو۔
میں مبہوت رہ گیا دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا، اوربے تکان بھاگتا ہوا محلہٴ بنی ہاشم آیا تو دروازہ بند پایا میں نے دروازے کو بہت زور سے کھٹکھتایا اور چیخا کہ لوگوں نے ابوبکر ابن ابی قحافہ کی بیعت کرلی ہے تو ابن عباس نے اندر سے آواز دی روز قیامت تک تمہارے ہاتھ بندھے رہیں، میں نے تم لوگوں کوایک بات کا حکم دیا تھا مگر میرے حکم کی نافرمانی کی! میں اس وقت عجیب کیفیت میں مبتلا ہوگیا اور رات میں مقداد، سلمان، ابوذر، عبادہ بن صامت، ابا الہیثم بن تیہان، حذیفہ بن الیمان کو دیکھا کہ وہ لوگ اس امر (خلافت) کو مہاجرین کی شوریٰ کے درمیان پیش کر کے اس کا حل تلاش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔[9]
سقیفہ کے حادثہ اور ابوبکر کی اچانک بیعت سے علی کے طرفداروں کا موقف بیش از پیش واضح ہونے لگا۔
یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی جس کو براء نے بیان کیا، اس کے بعد دوسرے بہت سارے مراحل ایک ناآگاہ اور اچانک بیعت کے سبب وجود میں آئے اسی حوالے سے سلمان نے کہا کہ: تم لوگوں نے ایک بوڑھے کا انتخاب کرلیااور اپنے نبی کے اہل بیت کو چھوڑ دیا اگر تم اہلبیت رسول کو اپنا رہنما بناتے تو تم لوگوں میں کسی دو کے درمیان بھی کسی قسم کا اختلاف پیدا نہ ہوتا اور ان کی ہمراہی میں خوشحالی کی زندگی بسر کرتے۔
جب لوگوں کی اکثریت نے ابوبکر کی بیعت کی اور ابوبکر و عمر دونوں نے اس مسئلہ پر بڑا زور دیا اور شدت بھی برتی، تو اس وقت ام مسطح بن اثاثہ باہر نکلیں اور قبر رسول پر کھڑے ہوکر یہ اشعار پڑھے:
آپ کے بعد ایسے حادثات پےش آئے کہ اگر اپ زندہ ہوتے تو وہ وجود میں نہ آتے، ہم نے آپ کو اس طرح کھودیا جس طرح زمین میں بڑے بڑے قطروں والی بارش سما جاتی ہے، آپ کی قوم میں تفرقہ پڑگیاہے لہٰذا ان کی طرف نظر عنایت کیجئے۔[10]
گذشتہ بیان میں حادثات سقیفہ میں براء ابن عازب کا بیان گذر چکا ہے کہ انھوں نے اصحاب سے ملاقات کی اور بات یہاں ان کے قول پر ختم ہوئی تھی کہ: میں دل شکستہ ہوا، جب رات ہوئی تو میں نکل پڑا جب مسجد میں داخل ہوا تو مجھ کو اس وقت مسجد سے رسول کے تلاوت قرآن کی آواز کا گمان ہوا، میں اپنی جگہ ٹھٹک گیا، باہر بنی بیانہ کے کشادہ مکان میں آیا تو وہاں میں نے کچھ لوگوں کو سرگوشی کرتے پایا، جب میں ان کے پاس گیا تو وہ سب خاموش ہوگئے میں پلٹ پڑا۔
ان لوگوں نے مجھے پہچان لیا میں نے کسی کو نہیں پہچانا، انھوں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گیا، تو کیا دیکھا کہ مقداد بن الاسود، عبادہ بن صامت، وہاں موجود ہیں اور حذیفہ ان سب سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں کہ وہ اس امر (خلافت) کو حاضرین کی شوریٰ (کمیٹی) کے سامنے پیش کریں گے۔
اس کے بعد کہا: ابیّ بن کعب کے پاس چلتے ہیں وہ امت کے ارادوں سے قطعی واقف ہے، براء کہتے ہیں کہ ہم سب ابیّ بن کعب کے پاس گئے اور دق الباب کیا وہ دروازے کے پیچھے آیا اور پوچھا کون؟
مقداد نے کہا: ہم ۔
اس نے کہا: کیا بات ہے؟
مقداد نے کہا: دروازہ کھولو کچھ اہم بات پر گفتگو کرنی ہے جس کے لئے محفوظ جگہ ضروری ہے۔
اس نے کہا: ہم دروازہ نہیں کھولیں گے میں سمجھ گیا تم لوگ کس لئے آئے ہو؟ تم لوگ اس معاملہ( بیعت) پر نظر ثانی کرنا چاہتے ہو؟
ہم سب نے ایک زبان ہوکر کہا: ہاں۔
اس نے پوچھا: کہ کیا حذیفہ تم لوگوں کے ساتھ ہیں؟
ہم سب نے کہا: ہاں۔
اس نے کہا حذیفہ کی بات آخری ہوگی، خدا کی قسم میں دروازہ کھول رہا ہوں تاکہ حالات معمول پر رہیں اس کے بعد جو حالات پیش آئیں گے وہ ان سے بدتر ہوں گے اور ہم خدا سے اس کا گلہ کرتے ہیں۔
ابیّ ابن کعب اس راز کو اپنے سینہ میں لئے پھرتا رہا برسوں بعد اس کو فاش کرنا چاہا، اے کاش! اس کو موت ایک دن کی مہلت دیدیتی۔[11]
علی بن صخرہ سے روایت ہے کہ : میں نے ابی ابن کعب سے کہا کہ اصحاب رسول آپ کا کیا حال ہے؟ ہم دور سے آئے ہیں آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیںکہ آپ ہمارے ساتھ نرمی برتیں گے۔
انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم اگر اس جمعہ تک زندہ رہا تو تم لوگوں کو ایک راز بتاؤں گا جس کے برملا کہنے پر تم لوگ چاہے زندہ رکھو یا مجھے قتل کردو۔
روز جمعہ میں گھر سے نکلا تو کیا دیکھا کہ مدینہ کی گلیوںمیں لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہے میں نے پوچھا کہ، کیا ہوا؟تو لوگوں نے بتایا کہ سید المسلمین ابیّ ابن کعب کا انتقال ہوگیا۔[12]
ابن سعد راوی ہیں کہ خدا قسم میں اخفاء راز میں اس دن جیسا دن نہیں دیکھا جیسا اس شخص نے راز کو چھپایا تھا۔[13]
حاکم کی روایت ہے کہ ابیّ بن کعب نے کہا کہ اگر میں اس جمعہ تک زندہ رہا تو وہ بات بتاؤں گا جو رسول اکرم سے سنا ہے اور اس کو بتانے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کروں گا۔[14]
مشہور مورخ یعقوبی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار میں بہت سارے افراد نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا اور علی کی طرف مائل ہوئے من جملہ عباس بن عبد المطلب، فضل بن عباس، زبیر بن العوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، براء بن عازب، ابیّ بن کعب۔[15]
شاید اسی کے سبب بعض محققین اور مستشرقین کا خیال خام ہے کہ سقیفہ کے حادثہ کے بعد تشیع وجود میں آئی ہے، مغربی مورخ گولڈ شیارڈ کہتا ہے کہ خلافت کی مشکل کے وقت بزرگ اصحاب کے درمیان اس فرقہ (شیعیت) نے وجود پایا، اور اس گروہ نے خلفاء ثلاثہ ابوبکر، عمر، عثمان، کے انتخاب کی ملامت کی، جو کہ خاندان رسالت سے کسی قسم کی کوئی قربت نہیں رکھتے تھے او راسی سبب اس گروہ نے حضرت علی کو اس خلافت کے لائق جانتے ہوئے ان کو صاحب فضیلت جانا اور علی کو رسول کے قریب ترین لوگوں میں شمار کیا اور جو چیز اس میں مزید فضیلت کا سبب بنی وہ دختر رسول حضرت فاطمہ کا شوہر ہونا تھااور اس گروہ کو سنہری موقع نہ مل سکا جس میں اپنی بات ببانگ دہل کہہ سکیں۔[16]
خالد بن سعید بن العاص کو رسول اکرم نے کسی کام کے لئے بھیجا تھا جب رسول کی وفات ہوگئی اور لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تو اس وقت واپس آیا جب اس سے بیعت طلب کی گئی تو اس نے انکار کردیا۔
عمر نے کہا: چھوڑ دو میں اس کو دیکھ لیتا ہوں۔
ابوبکر نے ان کو روکا، اسی طرح ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔
ابوبکر جارہے تھے وہ اپنے دروازے پر بیٹھا تھا، خالد نے ابوبکر کو آواز دی، ابوبکر آپ کو بیعت چاہیئے؟
انھوں نے کہا: ہاں۔
اس نے کہا: آؤ، وہ آئے اور خالد نے ابوبکر کی بیعت اپنے دروازے پر بیٹھے بیٹھے کرلی۔[17]
حضرت علی کے طرفداروں کی یہ رسہ کشی ان دنوں تک چلی، جس دن تک عثمان کی زمامداری کا اعلان نہیں ہوگیا، جب تک عثمان کی تولیت کا اعلان ہوتا ان دنوں تک اصحاب علی کا موقف سب پر واضح ہوگیا تھا تیسرے دن جس دن تک عمر نے لوگوں کو مشورہ کی اجازت دی تھی وہ آخری دن تھا۔
عبد الرحمن بن عوف نے کہا: اے لوگو! مجھے ان دو لوگوں یعنی عثمان و علی کے بارے میں مشورہ دو۔
عمار بن یاسر نے کہا: اگر تم یہ چاہتے ہو کہ لوگوں کا اختلاف نہ ہو تو علی کی بیعت کرو۔
مقداد نے کہا: سلمان سچ کہتے ہیں اگر تم نے علی کی بیعت کی تو ہم بسر و چشم اس امر میں تمہاری اتباع کریں گے۔
عبد اللہ بن ابی شرح[18] نے کہا:اگر تم چاہتے ہو کہ قریش اختلاف رائے نہ کریں تو عثمان کی بیعت کرو۔
عبد اللہ بن ربیعہ مخزومی نے کہا: اس نے سچ کہا اگر تم نے عثمان کی بیعت کی تو یہ تمہارے ساتھ ہیں۔
عمار بن یاسر نے ابن ابی سرح کو بہت برا بھلا کہا اور کہا کہ تو کب سے اسلام کا خیر خواہ ہوگیا؟
بنی ہاشم اور بنی امیہ میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں تو عمار کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! خدا نے تم کو اپنے نبی کے ذریعہ سرفراز کیا اپنے دین کے سبب تم کو صاحب عزت بنایا آخر کب تک تم مسئلہ خلافت میں اہل بیت سے روگردانی کرتے رہوگے۔
(۱)ابن عبد البر عبد اللہ ابن ابی سرح کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لایا تھا اور ہجرت کر گیا تھا اور رسول کے پاس وحی کی کتابت کرتا تھا پھر مرتد ہوگیا اور مشرک ہوگیا اور قریش مکہ کے پاس رہنے لگا اور کہتا پھر تا تھا کہ میں جیسے چاہتا تھا ویسے محمد کو گھما دیتا تھا علی (عزیز حکیم) لکھتے تھے تو میں نے کہا یا (علیم حکیم) تو انھوں نے کہا کہ دونوں صحیح ہے فتح مکہ کے وقت رسول نے اس کے قتل کا فرمان جاری کیااور فرمایا تھا کہ اگر کعبہ کے پردے کے پیچھے بھی چھپے تو بھی قتل کردو، کیونکہ اس نے عبد اللہ بن خطل، مقیس بن حبابہ کو قتل کیا تھا یہ وہاں سے بھاگا اور عثمان کے پاس جاکر پناہ لی یہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا عثمان کو اس کی ماں نے دودھ پلایا تھا، عثمان نے اس کو چھپا دیا او رجب مکہ کی فضا پر امن ہوگئی تو عثمان رسول کے پاس لیکر آئے اور اس کی امان چاہی رسول بہت دیر تک خاموش رہے اس کے بعد کہا: ”بہتر ہے“ جب عثمان چلے گئے تو رسول نے موجودہ لوگوں سے کہا کہ میں صرف اس لئے خاموش ہوگیا تھا کہ اتنے میں ایک شخص اس کی گردن اڑادے انصار میں سے ایک نے کہا: آپ نے اشارہ نہیں کیا؟ آپ نے فرمایا: یہ رسالت کے شایان شان نہیں استیعاب، ج۳، ص۵۰، رقم ۱۵۷۱
بنی مخزوم سے ایک شخص نے کہا کہ اے فرزند سمیہ! تم اپنی حد سے باہر نکل گئے ہو تم کون ہوتے ہو جو قریش کو اپنے میں سے اپنا حاکم معین کرنے سے روکو۔
سعد نے کہا: اے عبد الرحمن! اپنے کام کر گذرو، اس سے پہلے کہ لوگوں میں فتنہ برپا ہوجائے، اس وقت عبد الرحمن نے حضرت علی کے سامنے شیخین (ابوبکر و عمر) کی پیروی کی تجویز رکھی تو آپ نے فرمایا: کہ میں اپنے ذاتی فیصلہ پر عمل کروں گا (ان دونوں کی اتباع نہیں کروں گا) جب عثمان کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو انھوں نے قبول کرلی اوران کی بیعت کرلی گئی۔
حضرت علی نے فرمایا: یہ پہلا دن نہیں ہے جب تم لوگ ہمارے خلاف اکٹھے ہوئے ہو لہٰذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگار ہے بخدا تم نے خلافت ان کے حوالے اسی لئے کی تھی تاکہ وہ اس کو تمہارے حوالہ کردیں، اور خدا ہر روز ایک نئی شان والا ہے۔
عبد الرحمن نے کہا: اے علی ! ان لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریئے گا وہ اس بات کا ارادہ کئے تھا کہ عمر ابوطلحہ کو حکم دے تاکہ اپنے مخالف کی گردن اڑادیں، اتنے میں حضرت علی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے ہوئے نکل آئے کہ عنقریب مقررہ مدت پوری ہو جائے گی۔
عمار نے کہا: اے عبد الرحمن! خدا کی قسم تم نے اس ذات کا ساتھ چھوڑا ہے جو حق کے ساتھ بہترین فیصلہ کرنے والا تھا اور معاملات میں حق و انصاف سے کام لیتا تھا۔
مقداد نے کہا: خدا کی قسم اہل بیت رسول میں رسول کے بعد اس شخص کے مثل کسی کو نہیں پایا۔
قریش پر تعجب کا مقام ہے! کہ انھوں نے اس شخص کو چھوڑ دیا جس سے بہتر کسی کو عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے والا، اعلم اور متقی میں نہیں جانتا، خدا کی قسم اے کاش میرا کوئی مددگار ہوتا۔[19]
عبد الرحمن نے کہا: اے مقداد! تقویٰ الٰہی اختیار کرو مجھے خوف ہے کہ تمہارے خلاف فتنہ نہ برپا ہوجائے۔
جب عثمان کی تولیت کا مسئلہ ختم ہوگیا تو دوسرے دن مقداد نکلے اور عبد الرحمن بن عوف سے ملاقات ہوگئی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اگر تو نے رضایت پروردگار کی خاطر یہ کام انجام دیا ہے تو خدا تجھ کو اجر دے اور اگر حصول دنیا کی خاطر یہ ڈھونگ رچایا ہے تو خدا تیرے مال دنیا میں بہتات کرے۔
عبد الرحمن نے کہا: سنو! خدا تم پر رحمت نازل کرے، سنو! مقداد نے کہا: میں بالکل نہیں سنوں گا اوراس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا، اور وہاں سے حضرت علی کے پاس گئے اور کہا کہ آپ قیام کریئے ہم آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے۔
حضرت امیر نے فرمایا: ”کس کے ساتھ مل کر جنگ کریں؟“
عمار یاسر آئے اور آواز دی کہ: اے لوگو! اسلام کا فاتحہ پڑھو، کیونکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور منکرات جنم لے چکے ہیں۔
خدا کی قسم اگر میرے مددگار ہوئے توان سب سے جنگ کرتا، خدا کی قسم اگر کوئی ایک بھی ان سے جنگ کرنے کو تیار ہو تو میں اس کی دوسری فرد ہوں گا۔
اس وقت حضرت امیر نے فرمایا: اے ابو الیقطان! خدا کی قسم ان لوگوں کے خلافت میں اپنا مددگار نہیں پا رہا ہوں میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں پر اس چیز کو تحمیل کروں جس کی تم لوگ طاقت نہیں رکھتے۔[20]
یہاں سے علی کے چاہنے والوں کی اکثریت میں اضافہ ہونے لگا بلکہ بسا اوقات تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حق کو آزاد کرانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ان سب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔
اگر حضرت امیر ان افرادکی باتوں کو مان لیتے تو حکومت ہاتھ آجاتی، لیکن حضرت کی دور رس
نگاہیں ان خطرات پر تھیں جو ان کے بعد سر اٹھاتے اور خط خلافت کے راہرؤں کے دلوں سے خوب
واقف تھے وہ لوگ ذکر مولائے کائنات کے سبب اکثریت کا اندازہ لگا رہے تھے اور اس بات کی وضاحت جندب بن عبد اللہ ازدی کی اس روایت سے ہو جائے گی۔
جندب کہتے ہیں: کہ میں مسجد رسول میں داخل ہوا تو کیا دیکھا ایک شخص زانو کے بل بیٹھا ہے اور ایسے فریاد کر رہا ہے جیسے اس کی دنیا لٹ گئی ہو اور کہتا جاتا ہے کہ تعجب ہے قریش پر کہ انھوں نے اہلبیت رسول سے خلافت رسول کو دور کردیا جبکہ اہلبیت رسول میں وہ شخص موجود ہے جو اول المومنین، رسول کا چچازاد بھائی، سب سے بڑا عالم، دین الٰہی کا فقیہ اعظم، اسلام کا ان داتا،راہوں کا واقف، صراط مستقیم کا ہادی ہے، قریش نے خلافت کو ہادی، رہبر، طاہر، نقی سے دور کرلیا ان لوگوں نے امت کی اصلاح کی فکر نہیں کی اور نہ ہی مذہب کا بھلا چاہا، بلکہ ان لوگوں نے دنیا کو مقدم کر کے آخرت کو پس پشت ڈال دیا، خدا قوم ظالمین کو اپنی نعمتوں سے دور رکھے۔
میں تھوڑا اس کے قریب گیا اور کہا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے تم کون ہو؟ اور یہ شخص کون ہے؟ اس شخص نے کہا: میں مقداد بن عمرو اور یہ علی بن ابی طالب ہیں۔
جندب کہتے ہیں، میں نے کہا: تم اس اس امر کے لئے قیام کرو تاکہ میں تمہاری مدد کرسکوں؟
اس شخص نے کہا:اے میرے بھتیجے یہ ایک یا دو آدمیوں کا کام نہیں ہے، میں نکل کر باہر آیا اورابوذر سے ملاقات ہوئی میں نے سارا ماجرا بیان کیا، توانھوں نے کہا: بھائی مقداد نے سچ کہا ہے۔
پھر میں عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو انھوں نے کہاکہ مقداد ہم کو بتا چکے ہیں اور ہم نے اس کوشش میں کوتاہی نہیں کی۔[21]
ابن ابی الحدید نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ اس روایت کو بیان کیا ہے[22]
خلافت عثمان میں اس کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے جو لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے اور نئی حقیقتوں کو دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور عثمانی سیاست کے خلاف یہ اختلاف شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا اور لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگیا جو خطا انھوں نے حضرت علی کے حق میں کی تھی ۔
اور اس راہ میں لوگوں نے اس بات کو درک کیا کہ علی اور اہلبیت سے روگردانی کے بہت گہرے نتیجے نکلے۔
علی کے ابتدائی شیعہ، عمار، ابن مسعود، ابوذر غفاری، راہ راست کے قیام اور حق کو اصلی مرکز تک پلٹانے میں پیش پیش تھے اور ان کی دعوت پر ایک کثیر تعداد گوش برآواز ہوگئی اور بہت تیزی کے ساتھ کلامی رد و بدل اسلحہ کی صورت میں خلیفہٴ ثالث کے خلاف تبدیل ہوگئی۔
حذیفہٴیمانی جو کہ علی کے پہلے درجہ کے شیعہ تھے وہ بستر موت پر تھے، جب ان سے خلافت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں وصیت کرتا ہوں کہ عمار کی پیروی کرنا۔
لوگوں نے کہا: وہ علی سے جدا نہیں ہوئے۔
حذیفہ نے کہا: حسد جسم کو ہلاک کردیتا ہے! علی سے قربت کے سبب تم لوگوں کوعمار سے نفرت ہے، خدا کی قسم عمار سے علی افضل ہیں مٹی اور بادل میں کتنا فرق ہے عمار احباب میں سے ہیں۔
حذیفہ جانتے تھے کہ اگر وہ لوگ عمار کے ساتھ رہیں گے تو وہ علی کے ساتھ تو ہیں ہی۔[23]
جب حذیفہ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت (ذی قار نامی مقام پر) پہنچ گئے ہیں اور لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر رہے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو طلب کیا اور ان کو ذکر خدا، زہد دنیا اور آخرت کی طرف رغبت کی دعوت دی اور کہا کہ امیر المومنین جو کہ سید المرسلین کے وصی ہیں ان سے ملحق ہو جاؤ اور حق یہی ہے کہ ان کی مدد کرو۔[24]
حذیفہ فتنہ کے خطرہ سے خائف تھے اور لوگوں کو حضرت کی ولایت کی دعوت دے رہے تھے جن دنوں شیعیان علی کو دعوت دی جارہی تھی اور یہ بات کہی کہ جو گروہ علی کی ولایت کی دعوت دے اس گروہ سے متمسک ہو جاؤ کیونکہ وہ حق اور راہ ہدایت پر ہیں۔[25]
ابوذر مسجد میں بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ، محمد علم آدم اور انبیاء کے جملہ فضائل کے وارث ہیں اور علی ابن ابی طالب وصی محمد اور وارث علم محمد ہیں، اے نبی کے بعد سرگرداں امت! اگر تم لوگوں نے اس کو مقدم کیا ہوتا جس کو خدا نے مقدم کیا اور اس کو مؤخر کیا ہوتا جس کو خدا نے مؤخر کیا اور اہل بیت رسول کی ولایت و واراثت کا اقرار کیا ہوتا تو ہر طرف و ہر طرح سے خوشحال رہتے، ولی خدا اپنے حق سے محروم نہ رہتا، نیز و اجبات الٰہی پر عمل ہوتا اور کوئی دو فرد بھی نہ ملتی جو حکم الٰہی میں اختلاف نظر رکھتے اور اہلبیت کے پاس تم کو قرآن و سنت کا علم مل جاتا، مگر جو تم لوگوں نے کیا سو کیا، اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتو، عنقریب ظالمین کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس صورت میں پلٹائے جائیں گے۔[26]
عدی بن حاتم کہتے تھے کہ، خدا کی قسم اگر علم کتاب (قرآن) اور سنت نبوی کی بات ہے تو وہ یعنی علی تم لوگوں میں ان دونوں کے بہترین عالم ہیں، اگر اسلام کی بات ہے تو یہ رسول کے بھائی اور مرکز اسلام ہیں اگر زہد و عبادت محور ہے تو لوگوں میں ان کا زہد نمایاں اور عبادت آشکار ہے، اگر عقل اور مزاج معیار ہے تو لوگوں میں عقل کل اور مزاج کے اعتبار سے کریم النفس انسان ہیں۔[27]
بیعت کے بعد وہ اصحاب جو حضرت علی کے خط تشیع پر گامزن تھے وہ پیغام جاری و ساری اور بڑھتا جارہا تھا اور روز بروز اس کے دائرہٴ اطاعت میں وسعت آتی جارہی تھی اس میں اصحاب و تابعین شامل ہو رہے تھے، لہٰذا ہم حضرت علی کے روز بیعت، مالک اشتر کو یہ کہتے ہوئے نہیں بھول سکتے کہ، اے لوگو! یہ وصی اوصیاء، وارث علم انبیاء، عظیم تجربہ کار، بہترین دین داتا، جس کے ایمان کی گواہی کتاب نے دی اور رسول نے جنت کی بشارت دی، جس پر فضائل ختم ہیں، متقدمین و مؤخرین نے ان کے علم ، فضل اور اسلام میں سبقت پر شک نہیں کیا ۔
مالک اشتر نے اہل کوفہ کی نیابت میں حضرت علی کی بیعت کی، طلحہ و زبیر نے مہاجرین و انصار کی نیابت میں بیعت کی، ابو الھیثم بن تیہان، عقبہ بن عمرو اور ابو ایوب نے مل کر کہا: ہم آپ کی بیعت اس حال میں کر رہے ہیں کہ انصار و قریش کی بیعت ہماری گردنوں پر ہے (ہم ان کی نمایندگی کر رہے ہیں)۔
انصار کا ایک گروہ اٹھا اور گویا ہوا، ان میں سب سے پہلے ثابت بن قیس بن شماس انصاری جو کہ رسول کے خطیب تھے کھڑے ہوئے اور کہا کہ: خدا کی قسم اے امیر المومنین! اگرچہ انھوں نے آپ پر خلافت میں سبقت حاصل کرلی، لیکن دین الٰہی میں پہل نہ کرسکے گو کہ انھوں نے کل آپ پر سبقت حاصل کرلی، لیکن آج آپ کو ظاہری حق مل گیا، وہ لوگ تھے اور آپ تھے لیکن کسی پر بھی آپ کا مقام پنہاں نہیں تھا، وہ جس کا علم نہیں رکھتے تھے اس میں آپ کے محتاج تھے، اور آپ اپنے بے کراں علم کے سبب کبھی کسی کے محتاج نہیں رہے۔
اس کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری ذوالشہادتین (جن کی ایک گواہی دو کے برابر رسول خدا نے قرار دی تھی) کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا امیر المومنین ہم نے خلافت کو آپ کے علاوہ کسی کے حوالے سے قبول نہیں کیا، آپ کے سوا کسی کے پاس نہیں گئے، اگر ہم سچے ہیں تو آپ ہماری نیتوں سے بخوبی واقف ہیں، آپ لوگوں میں ایمان پر سبقت رکھتے ہیں، احکام الہٰی کے سب سے بڑے عالم ہیں، رسول خدا کے بعد مومنین کے مولا ہیں، جو آپ ہیں وہ، وہ کہاں! اور جو وہ ہیں، وہ آپ جیسے کہاں!
صعصعة بن صوحان کھڑے ہوئے اور عرض کی: خدا کی قسم اے امیر المومنین! آپ نے خلافت کو زینت بخشی ہے خلافت نے آپ کی زینت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، آپ نے خلافت کو بلندی عطا کی اس نے آپ کو رفعت نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ خلافت آپ کی محتاج ہے۔[28]
سخت ترین مرحلہ!
عثمان کے روح فرسا دوران خلافت کے اختتام کے بعد شیعیان علی کے عروج کا زمانہ تھا، لوگوں کی ہجومی اور ازدحامی بیعت نے حضرت علی کو سریر آراء سلطنت کیا اور زمام حکومت آپ کے سپرد کی، جس کی منظر کشی خود امیر المومنین نے یوں کی ہے ”لوگوں کا ازدحام مجھ پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے پیاسے اونٹ کا غول گھاٹ پر ٹوٹ پڑتا ہے گویا ان کے چرواہے نے ان کو آزاد اور بے مہار چھوڑ دیا ہو لگتا تھا کہ یہ بھیڑ مجھے یا میرے کسی فرزند کو ختم کرڈالے گی۔[29]
مگر اس محبت کا دکھاوا اس وقت بالکل بدل گیا جب بعض اصحاب نے حضرت علی سے گفتگو کی اور علی نے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ ہم قانون حکومت کو فرمان رسول کے مثل بنانا چاہتے ہیں یعنی سب لوگ عطا و بخشش میں مساوی ہیں اور کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتے، اور یہ وہی کیفیت تھی جس کی بنیاد عمر نے رکھی تھی اور یکسر بدل ڈالا تھا اور عثمان نے آکر من و عن اس کی پیروی کی تھی خاص طور سے عثمان کے وہ اہلکار جو بداخلاقی کے شکار تھے ان کی معزولی (ایک اہم مسئلہ تھا) لہٰذا تنور جنگ بھڑک اٹھا اور حضرت کی خلافت کے آخری لمحات تک جو تقریباً پانچ برسوں پر مشتمل تھا شعلہ ور رہا۔
اور یہ پیس دینے والی جنگوں کی خلیج، جمل و صفین کے دنوں تک باقی رہی اور ان جنگوں نے اکثریت کواپنی لپیٹ میں لے لیا حضرت کے مخلص اور صحیح عقیدے کے شیعہ صرف انگشت شمار ہی رہ گئے، صرف تھوڑے سے افراد کے سوا سب حالات کے تیز دھارے میں بہہ گئے، اور حالات بہت ہی غیر مساعد ہوگئے اور جو بچ گئے ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی جو اتباع و پیروی و اخلاص میں کھرے اتریں، جنگ نے ان سب کو بدبیں کردیا تھا، جس کے سبب جنگ بندی کی پہلی دھوکہ باز آواز پر ان لوگوں نے لبیک کہا (اور جنگ بند کردی) جب امیر المومنین نے اس سازش کا پردہ چاک کر کے ان کو ان کے ارادوں سے باز رکھنا چاہا، تو ان لوگوں نے مخالفت کی اس حد پر قدم رکھ دیا تھا کہ حضرت علی کے قتل، یا دشمن کے سپرد کرنے کی دھمکی تک دے دی تھی، ان کی نیتوں کے پیش نظر عقب نشینی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیا یہ لوگوں کے روگردانی کی انتہا نہ تھی۔
کیونکہ انھوں نے واقعہ تحکیم کے سلسلہ میں بہت جلد ندامت و خطا کا اظہار کیا تھا اور اکثریت کی بقاء پر اس امر کا علاج سوچا اور اپنے نفسوں سے کیئے وعدہ کی وفا چاہی یعنی جنگ میں واپسی، ان افراد کی گر گٹ کے مانند آراء کی تبدیلی، اس بات کی غماز ہے کہ یہ لوگ صاحبان بصیرت نہیں تھے اور نہ ہی حضرت علی کے شیعہ تھے بلکہ انھوں نے علی کی شیعیت کا خول چڑھا رکھا تھا اور ان کے عقیدوں میں کسی قسم کی پختگی نہیں تھی اور ان کی یہ حرکتیں اجتہادی اصحاب کی راہ و روش کی مکمل پیروی تھی، جو اولی الامر حضرات کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے تھے اور اس اجتہادی اسلحہ کی ضرب اتنی کاری تھی کہ ذات رسالت کے حکم کا انکار ممکن بنا ڈالا۔
اس باغی گروہ کی سرکشی، مزید پیچیدہ ہوگئی جب خود امیر المومنین کواسی دو راہے پر لاکر کھڑا کر دیا کہ آپ ان مخالفین سے جنگوں کا سلسلہ شروع کریں جنھوں نے کچھ علاقوں میں فساد مچا رکھا تھا اور بے گناہوں کو قتل کیا تھا۔
اور نتیجہ اس وقت زیادہ ہی جان لیوا ہوگیا کیونکہ اس جنگ نے آپ کے چاہنے والوں کی قوت کو مضمحل کردیا اور روز بروز وہ سستی و تساہلی کے شکار ہونے لگے اور جہاد کی جانب امیر المومنین کا رغبت دلانا بے سود ہوگیا، جو لوگ آپ کے خاص شیعہ بچ رہے تھے ان کے ارادوں کے تجدید کی ضرورت تھی، اوراس وقت تو قیامت کبریٰ ٹوٹ پڑی جب ایک جہنمی نے آپ کو عبادت کی حالت میں محراب میں شہید کر دیا۔
تاکہ خالص شیعہ کے تربیتی مرکز کو ختم کرسکیں اس سبب آپ کے بڑے فرزند حضرت حسن مجتبیٰ کے پاس ان کے دور حکومت میں قیام کے اس عظیم بوجھ کو اٹھانے کے لئے کوئی سہارا نہیں تھا۔
صحیح اور راسخ عقیدوں کے مالک افراد کا بالکل فقدان تھا نیز بچے ہوئے افراد کی اکثریت نے بھی ساتھ چھوڑ دیاتھا، لہٰذا حسن مجتبیٰ نے جب یہ درک کرلیا کہ اس کیفیت میں اور ان لوگوں کی ہمراہی میں جنگ کو طول دینا معقول نہیں تو ان کے پاس معاویہ ابن ابی سفیان سے صلح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔
معاویہ کے زمام حکومت سنبھالنے کے سبب تشیع بہت ہی اختناقی دور میں داخل ہوگئی، اب معاویہ نے شیعوں کو ظلم کی آخر ی حدوں سے کچلنے اور انتقام کی صورت شروع کردی، اور شیعوں کے بہت تھوڑے سے افراد کے سوا کوئی نہیں بچا، معاویہ نے حجر بن عدی جیسے اور ان کے ساتھیوں کو تراش ڈالا اور قتل کر ڈالا، اپنے بیس سالہ دور حکومت میں بقیہ افراد پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا، اور اذیت کی تمام صورتوں کو ان پر روا جانا۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے مدائنی کی ”الاحداث“ نامی کتاب سے یوں نقل کیا ہے کہ: معاویہ نے ۴۱ ھ ء میں اپنے اہلکاروں اور گماشتوں کو یہ لکھ بھیجا کہ ابوتراب اوران کے گھرانے کے جو فضائل ہیں میں ان سے بَری و منکر ہوں، یہ پیغام پاتے ہی ہر شہر و گوشہ و کنار میں ہر منبر پر زبان دراز خطیب چڑھ دوڑے اور علی اوران کی آل پاک پر لعن و طعن شروع کردیا، اس دوران سب سے زیادہ روح فرسا حالات سے اہل کوفہ گذر رہے تھے۔
کیونکہ یہ آپ کے شیعوں کا مرکز تھا، ان پر زیاد بن سمیہ کو مامور کردیا اور بصرہ کی حکومت کو اس سے ضم کردیا، اس نے شیعوں کی چھان بین شروع کردی یہ علی کے شیعوں سے بخوبی واقف تھا کیونکہ حضرت علی کے دور خلافت میں ان لوگوں کے ساتھ رہ چکا تھا لہٰذا جس کو جہاں کہیں دشت و جبل میں پایا موت کے گھاٹ اتار دیا، ان کو ڈرایا دھمکایا، ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے، آنکھیں پھوڑ دیں، کھجوروں پر سولی دی، عراق سے نکال باہر کیا، اس وقت کوئی بھی سرشناس افراد میں سے نہیں بچا۔
معاویہ نے اپنی حدود مملکت کے چار گوشوں میں یہ لکھ بھیجا کہ مبادا آل علی اور محبان علی کی گواہی کو قبول کیا جائے، عثمان کے چاہنے والوں اور ان کے فدائیوں کو سرآنکھوں پر بٹھاؤ، اور جو لوگ عثمان کے فضائل و مناقب کو بیان کرنے والے ہیں ان کو اپنی مجلسوں کی زینت بناؤ ان کواہمیت دو، انعام و اکرام سے نوازو، اور ان افراد کی فہرست باپ اور قبیلوں کے نام کے ساتھ ہم تک ارسال کرو یہ دھندا شروع ہوا اور دن ورات عثمان کے فضائل کی تخلیق شروع ہوگئی، کیونکہ معاویہ نے اپنے اہلکاروں کو آب و دانہ خیمہ و چادر، خراج (کی معافی) اور عرب میں اس کو اور اس کے خاندان والوں کو فوقیت کی لالچ دی تھی، لہٰذا ہر نگری میں یہ بدعت شروع ہوگئی گھر اور گھر کے باہر اس بدعتی آندھی کی مبالغہ آرائی شروع ہوگئی، اب کیا تھا معاویہ کے اہلکاروں میں، جس کسی کا نام عثمان کے قصیدہ خوانوں کی فہرست میں آجاتا اس کی کایا پلٹ جاتی، اس کا نام مصاحبوں میں شامل، تقرب و شفاعت میں داخل، اور وہ سب اس میں داخل ہوگئے۔
اس کے بعد معاویہ نے دوسرا پلندہ تیار کیا اور اہلکاروں کو روانہ کیا کہ!، عثمان کے فضائل قرب و جوار شہر و دیہات میں اٹے پڑے ہیں”بس“ جیسے ہی میرا خط تم لوگوں کو ملے اصحاب اور گذشتہ دونوں خلیفہ (ابوبکر و عمر) کے فضائل کے لئے لوگوں کو تیار کردو، اور کسی بھی شخص کو ابوتراب کی فضیلت میں حدیث نہ بیان کرنے دو، بلکہ اس حدیث کو اصحاب کی شان میں مڑھ دو، کیونکہ یہ فعل میرے نزدیک محبوب، میری آنکھوں کی ٹھنڈک، نیز ابوتراب اور ان کے شیعوں کو کچل دینے کا سامان ہے، معاویہ نے عثمان کی فضیلت و منقبت کے لئے ان لوگوں پر بہت زور دیا تھا۔
اس کا یہ پلندا لوگوں کے سامنے پڑھا گیا جس کے سبب اصحاب کی فضیلت میں فوراً سے پیشتر بہت ساری حدیثیں تخلیق کردی گئیں جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہاں تک کہ اس مہم میں منبروں کا دھڑلے سے استعمال کیا گیا، اور یہ ذمہ داری معلمین کے حوالے کردی گئی، انھوں نے ان کے بچوں اور نوجوانوں کو کافی مقدار میں سکھایا اور قرآن کی مانند اس کی روایت اور تعلیم دی، حد یہ کہ ان کی لڑکیوں، عورتوں، خادموں اور ہرکاروں کو اس کی مکمل تعلیم دی گئی، اور ان لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس کے بعد حدود مملکت کے تمام شہروں کے لئے صرف ایک تحریر لکھی: ”دیکھو جس کے بھی خلاف یہ ثبوت مل جائے کہ یہ علی اوراولاد علی کا چاہنے والا ہے اس کا نام دفتر سے کاٹ دو اور وظیفہ بند کردو“
اس کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی تھا ”جس کسی کو بھی ان سے میل جول رکھتے پاؤ اس کی بیخ کنی کردو اور اس کا گھر ڈھا دو“
اب اس سے زیادہ اور مشکل دور عراق میں نہیں آسکتا تھا خاص طور سے کوفہ میں، حد یہ کہ اگر کسی شخص کے بارے میں مطمئن ہونا چاہتے تھے کہ یہ علی کا شیعہ ہے یا نہیں؟ تو اس کے گھر میں جاسوس کو چھوڑ دیتے تھے، وہ شخص اپنے غلام و خادم سے ڈرتا تھا جب تک اس سے مطمئن نہیں ہوجاتا تھا کسی قسم کے راز کی بات نہیں کرتا تھا۔
من گڑھت حدیثوں کی بھرمار اورالزامات کی بارش ہوگئی اوراس (جرم) میں فقیہوں، قاضیوں اور امیروں کے ہاتھ رنگین تھے۔
سب سے بڑی مصیبت تو یہ تھی کہ جو قاریان قرآن اور رواویان حدیث تھے اور وہ لوگ جو تقویٰ و زہد کا اظہار کرتے تھے، انھوں نے بھی حدیث کی تخلیق میں خاطر خواہ حصہ لیا تاکہ امیر شہر کی نگاہوں میں باوقار اور ان کی نشستوں میں مقرب، مال دو دولت کے حصہ دار اور مکانوں کے مالک بن جائیں، حد یہ کہ یہ خودساختہ حدیثیں جب ان متدین افراد کے ہاتھوں پہنچیں جو جھوٹ اور بہتان کو حرام گردانتے تھے تو انھوں نے بے چوں و چرا ان کو قبول کرلیں اوران کو حق اور سچ سمجھتے ہوئے دوسروں سے نقل بھی کیں، اگر وہ یہ جانتے کہ یہ باطل ہیں تو نہ ہی اس کو نقل کرتے اور نہ ہی اس کی حفاظت کرتے۔
یہ سلسلہ حضرت حسن مجتبیٰ کی شہادت تک چلتا رہا، ان کے بعد تو فتنہ و بلا میں اضافہ ہوتا گیا اور علی کے حامیوں میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جواپنے جان و مال اور شہر بدر ہونے سے خائف نہ ہو۔
امام حسین کی شہادت کے بعد حالات نے دوسرا رخ اختیار کرلیا اورعبد الملک بن مروان امیر بنا اس نے شیعوں پر سختی شروع کردی اور حجاج بن یوسف ثقفی کو ان پر مسلط کردیا، بس کیا تھا زہد کے ڈھونگی، اصلاح ودین کے بہروپیئے، علی کے بغض اور دشمنان علی کی محبت، اور عوام میں جو بھی یہ دعوی کرتا کہ ہم بھی علی کے دشمن ہیں ان سے دوستی کے سبب مقرب بارگاہ ہوگئے، اور شہ کی مصاحبی پر اترانے لگے، اس کے بعد خاندان بنی امیہ کے گرگوں کی ثنا خوانی، فضائل بیانی اور یاد ماضی کی روایتوں میں اضافہ شروع ہوگیا، دوسری طرف حضرت علی کی ہجو، عیب تراشی اور طعن و تشنیع کا دروازہ کھلا رہا۔
ایک شخص حجاج بن یوسف کے سامنے آکے کھڑا ہوا، کہا جاتا ہے کہ اصمعی عبد الملک بن قریب کا دادا تھا، وہ چیخا، اے امیر! میرے گھر والوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے او رمجھے علی کہہ کر پکارتے ہیں میں مجبور و لاچار شخص ہوں، میں امیر کی عنایتوں کا محتاج ہوں، حجاج اس پر بہت ہنسا اور بولا کہ: تمہارے اس توسل حاصل کرنے کے لطف میں تم کو فلاں جگہ کا حاکم بناتا ہوں۔
ابن عرفہ جو کہ نقطویہ کے نام سے مشہور ہیں اور بزرگ محدثین میں ان کا شمار ہوتا ہے اس خبر سے متعلق تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ: اصحاب کی شان میں گڑھی جانے والی اکثر حدیثیں بنی امیہ کے دور حکومت کی ہیں ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تخلیق کی گئیں ہیں کیونکہ فرزندان امیہ یہ سونچ رہے تھے کہ اس کے سبب بنی ہاشم کو ذلیل کردیں گے۔[30]
جیسا کہ ابن ابی الحدید نے دوسری روایت حضرت امام باقر سے روایت کی ہے: جواسی معنی کی عکاسی کرتی ہے، آپ نے اپنے کچھ اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اے فلاں! قریش نے ہم پر کیا کیا مصیبتیں نہیں ڈھائیں اور ہمارے شیعوں نے کیسے کیسے ظلم نہیں برداشت کئے۔
لوگوں سے رسول اللہ نے قبض روح کے وقت فرمایا تھا: ”ہم (اہل بیت) لوگوں میں سب سے برتر ہیں“ قریش نے ہم سے روگردانی کرلی یہاں تک کہ خلافت اپنے محور سے ہٹ گئی اور انصار کے مقابل ہمارے حق و حجت پر احتجاج کیا، اس کے بعد قریش ایک کے بعد دوسرے کی طرف اس کو لڑھ کاتے رہے یہاں تک کہ ایک بار پھر ہم تک واپس آئی پھر ہماری بیعت توڑ دی گئی، ہمارے خلاف علم جنگ بلند کردیا گیا اور اس خلافت کا مالک و پیشوا مشکلات و پریشانیوں میں گھٹتا رہا یہاں تک کہ شہادت اس کا مقدر بن گئی، پھر ان کے فرزند حسن کی بیعت کی گئی اور عہد و پیمان کئے گئے لیکن ان کے ساتھ عہد شکنی کی اور ان کو تسلیم کرادیا گیا۔
اہل عراق نے ان کے خلاف بغاوت کی اور خنجر کا وار کیا، ان کا لشکر تتر بتر ہوگیا، ان کی اولاد کی ماؤوں کے زیورات چھین لئے گئے۔
جب معاویہ سے صلح کی تو حسن اور ان کے فرزندوں کا خون محفوظ ہوا، ان کی تعداد بہت ہی کم تھی اس کے بعد اہل عراق نے حسین کی بیس ہزار کی تعداد میں بیعت کی، لیکن اپنی بیعتوں سے منحرف ہوگئے اوران کے خلاف نکل پڑے جب کہ ان کی گردنوں میں حسین کی بیعت کا قلادہ پڑا تھا۔
پھر بھی حسین کو شہید کرڈالا اس کے بعد ہم اہلبیت ہمیشہ پستے رہے اور رسوا ہوتے رہے ہم دور، امتحان میں مبتلا، محروم و مقتول، خوف زدہ، ہمارا اور ہمارے محبوں کا خون محفوظ نہیں رہا، دروغ بافوں اور ملحدوں نے جھوٹ اورالحاد کے سبب اپنے امیروں، شہر کے بدکردار قاضیوں اور بد دین اہلکاروں کی قربت حاصل کی، انھوں نے جھوٹی اور من گڑھت حدیثوں کا جال بنا، او رہماری طرف ان چیزوں کی نسبت دی جن کو نہ ہم نے کہا تھا اور نہ ہی انجام دیا تھا یہ سب، صرف لوگوں کو ہمارا دشمن بنانے کے لئے کیا گیا، اور سب سے بڑا اور برا وقت حسن مجتبی کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور خلافت میں آیا تھا، ہر شہر میں ہمارے شیعہ قتل کئے جارہے تھے، صرف گمان کے سبب ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے! جو کوئی بھی ہماری محبت یا تعلقات کا اظہار کرتا اس کو یا قید کردیتے یا اس کا مال لوٹ لیتے یا اس کا گھر ویران کردیتے، یہ کیفیت روز بروز بڑھتی گئی یہاں تک کہ قاتل حسین، عبید اللہ بن زیاد کا زمانہ آیا ، اس کے بعد حجاج آیا اس نے ہر طرف موت کا بازار گرم کردیا، ہر گمان و شک کی بنیاد پر گرفتار کرا لیتا (زمانہ ایسا تھا کہ) اگر ایک شخص کو زندیق و کافر کہتے تو برداشت کرلیتا بجائے اس کے کہ اس کوعلی کا شیعہ کہا جائے، حد یہ کہ وہ شخص جو کہ مستقل ذکر الٰہی کرتا تھا شاید سچا تقویٰ ہو، مگر وہ عجیب و غریب حدیثوں کو گذشتہ حاکموں کی فضیلت میں بیان کرتا تھا جب کہ خدا نے ان میں سے کسی ایک شیء کو خلق نہیں کیا تھا، اور نہ وجود میں آئی تھی وہ لوگوں کی کثرت روایت کو سبب حق سمجھتا تھا اور نہ ہی جھوٹ کا گمان تھا اور نہ ہی تقویٰ کی۔[31]
یہ دونوں عظیم اور بھروسہ مند عبارتیں بنی امیہ کے دوران حکومت میں شیعوں کی حقیقی کیفیت کی عکاس ہیں، جبکہ اموی حکومت سوا سو سال (۱۲۵) پر محیط ہے، لیکن عباسی حکام نے آل محمد کی رضا کا ڈھونگ رچایا تھا اور ان کے فرزندوں کے دعویدار بن کر اموی حکومت کا تختہ پلٹ کر انقلاب لانا چاہا تھا لیکن انھوں نے چچازاد بھائی ہونے کے باوجود اہلبیت کے ساتھ غداری کی۔
ہر چند کہ اموی عہد کے آخری ایام اور عباسی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اہلبیت اور ان کے شیعوں کے لئے تھوڑا سکون کا سانس لینے کا موقع ملا تھا، مگر عباسی خلفاء اس جانب بہت جلد متوجہ ہوگئے، خاص طور سے منصور کے زمانے میں تشیع کی مقبولیت اہلبیت کے گرد حلقہ بنانے کے سبب تھی اور جب انھوں نے یہ محسوس کیا تو ابتدائی شعار کی خول اتار دیئے اور اموی ظالم و جابر حکومت کہ جس کو ظلم کے سبب ختم کیا تھا اس سے آگے نکل گئے اہلبیت اور ان کے شیعوں پر سختی شروع کردی، جس کے سبب گرد و نواح سے انقلاب کی آواز اٹھنے لگی جس میں علوی سادات کرام شریک کار تھے جن میں سے محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی ملقّب بہ نفس ذکیہ پیش پیش تھے جنھوں نے عباسی خلیفہ منصور کے نام ایک خط روانہ کیا تھا جس میں اس بات کا اشارہ تھا کہ تم لوگوں نے اہلبیت سے قربت ثابت کر کے اموی حکومت کیسے ہتھیایا ہے اور حکومت ہاتھ آتے ہی ان کو برطرف کردیا، وہ کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ یہ ہمارا حق ہے، تم نے اس کو ہمارے واسطہ سے حاصل کیا ہے اور ہمارے شیعوں کی مدد سے تم نے خروج کیا تھا ہماری فضیلت کے سبب اس کے حصہ دار بنے ہو، ہمارے باپ علی (ابن ابی طالب) وصی اور امام تھے ان کی اولادوں کے ہوتے ہوئے تم اس (خلافت) کے وارث کیوں کر بن بیٹھے، تم اس بات کو بخوبی جانتے ہو کہ اس کا حقدار ہمارے سوا کوئی نہیں کیونکہ حسب و نسب اور اجدادی شرف میں کوئی ایک بھی ہمارے ہم پلہ نہیں۔
ہم نہ ہی فرزندان لعنت خوردہ، نہ ہی شہر بدر اور نہ ہی آزاد شدہ ہیں، بنی ہاشم میں قرابت داری کے لحاظ سے ہم سے بہتر نہیں جو قرابت سابقہٴ اسلامی اور فضل میں بہتر ہو، اللہ نے ہم میں سے اور ہم کو چنا ہے، محمد ہمارے باپ اور نبیوں میں سے تھے، اور اسلاف میں علی اول مسلمین ہیں، نبی کی ازواج میں سب سے افضل خدیجہ طاہرہ تھیں جنھوں نے سب سے پہلے قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کی، رسول کی نیک دختر حضرت فاطمہ زہرا تھیں جو خواتین بہشت کی سردار ہیں، اسلام کے دو شریف مولود حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔[32]
جب منصور نفس ذکیہ کو گرفتار نہ کرسکا تو اس نے کینہ کے تیروں کا رخ ان کے خاندان اور اہل قبیلہ کی جانب کردی، منصور نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کو جاحظ نے یوں نقل کیا ہے:
منصور فرزندان حسن مجتبیٰ کو کوفہ لے گیا اور وہاں لے جا کر قصر ابن ہبیرہ میں قید کردیا اور محمد بن ابراہیم بن حسن کو بلاکر کھڑا کیا او ران کے گرد دیوار چنوا دی او راسی حال میں چھوڑ دیا یہاں تک وہ بھوک و پیاس کی شدت کے سبب جان بحق ہوگئے اس کے بعد ان کے ساتھ جو فرزندان حسن تھے ان میں سے اکثر کو قتل کردیا۔
ابراہیم ا لفہر بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب کو زنجیروں میںجکڑ کر مدینہ سے انبار لے جایا گیا، اور وہ اپنے بھائیوں، عبد اللہ اور حسن سے کہہ رہے تھے کہ ہم بنی امیہ کے خاتمہ کی تمنا کر رہے تھے اور بنی عباس کی آمد پر خوش ہو رہے تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتے جس میں اس وقت ہیں۔[33]
نفس ذکیہ کے انقلاب کو کچل دینے کے بعد اور مدینہ میں ان کے قتل اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے قتل کے بعد ”جنھوں نے بصرہ میں قیام کیا تھا اور کوفہ کے نزدیک باضری نامی مقام پر جاں بحق ہوئے تھے“ جس کو لوگ بدر صغریٰ بھی کہتے تھے۔[34]
عباسی حکام کے خلاف انقلابات بپا ہوتے رہے ، محمد بن جعفر منصور کے زمانے میں علی بن عباس بن حسن بن حسن بن علی ٪ نے قیام کیا، لیکن اس علوی انقلابی کو دستگیر کرنے میں کامیاب ہوگیا، حسن بن علی کی سفارش پر ان کو آزاد کردیا لیکن شہد کے شربت میں زہر دیدیا گیا جس نے اپنا کام کردیا، چند دن نہیں بیتے تھے کہ وہ مدینہ کی طرف چل پڑے لیکن ان کے جسم کا گوشت جابجا سے پھٹ گیا تھا اور اعضائے بدن جدا ہوگئے تھے اور مدینہ میں پہنچ کر تین دن بعد انتقال ہوگیا۔[35]
موسی ہادی خلیفہ کے زمانے میں حسین بن علی بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب ٪ نے قیام کیا او ران کا یہ قیام فخ نامی مقام پر ان کے قتل کے ساتھ ختم ہوگیا، وہ شہید فخ کے نام سے مشہور ہیں،ہادی کے بعد جب رشید حاکم ہوا تو اس نے یحییٰ بن عبد اللہ بن حسن کو گرفتار کراکر زندہ دیوار میں چنوا دیا۔[36]
جب مامون نے حکومت سنبھالی تو علویوں سے محبت کا دکھاوا کیا اور علی بن موسیٰ الرضا کو بلاکر جبراً ولی عہدی دی اس کے بعد زہر دے کر شہید کرا دیا۔
عباسی حکمرانوں کی عادات قبیحہ جڑ پکڑ گئیں اور ائمہ علیہم السلام کو اس کا نشانہ بنایا اور زندہ و مردہ سب پر ظلم کیا۔
(۱) (۲)(۳)
چنانچہ متوکل نے قبر امام حسین پر ہل چلوا دیئے اور پانی بھروا دیا اور لوگوں کو آپ کی زیارت سے منع کردیا بلکہ مسلح افراد کے ذریعہ ناکہ بندی کرادی کہ کوئی شخص بھی امام حسین کی زیارت کو نہ جائے اور اگر جائے تو فوراً اس کو گرفتار کر لیا جائے۔
متوکل نے اہلبیت کے خلاف قید و بند کی سیاست اختیار کی، عمر بن الفرج کو مکہ و مدینہ کا مختار کل بنادیا، اور فرزندان ابوطالب پر کڑا پہرہ بٹھا دیا کہ یہ لوگوں سے میل جول نہیں رکھ سکتے اور لوگوں پر پابندی لگادی تھی کہ ان کے ساتھ حسن رفتار نہ کریں اور کوئی اس وقت ایک شخص بھی کسی قسم کی معمولی سی بھی ان کی اطاعت نہیں کرسکتا تھا، مگر یہ کہ سختی جھیلے اور نقصان اٹھائے، بلکہ انتہا یہ تھی کہ سیدانیوں کی ایک جماعت کے پاس صرف ایک پیراہن ہوتا تھا جن میں باری باری نماز ادا کرتی تھیں اس کے بعد اس پر پیوند لگا تی تھیں اور چرخہ کے پاس سر برہنہ بیٹھ جاتی تھیں۔[37]
جب مستعین باللہ حاکم ہوا تو اس نے یحییٰ ابن عمر بن حسین کو قتل کردیا، جن کے بارے میں ابوالفرج اصفہانی نے کہا ہے کہ: وہ بہادر، دلیر، قوی الجثہ، نڈر، جوانی کی غلطیوں سے پاک شخص تھا اس کا مثل نہیں مل سکتا، جب ان کا سر بغداد میں لایا گیا تو اہل بغداد مستعین کے خلاف چیخنے لگے، ابوحاتم علی بن عبد اللہ بن طاہر داخل ہوئے اور کہا کہ: اے امیر! میں تجھے اس شخص کی موت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اگر رسول خدا زندہ ہوتے تو ان کو اس حوالے سے تعزیت پیش کرتا، یحییٰ کے دوستوں کو قیدی بنا کر بغداد میں لایا گیا، اس سے قبل کسی اسیر و قیدی کارواں کو اس بدحالی اور بگڑی کیفیت میں نہیں دیکھا گیا تھا، وہ لوگ ننگے پیر زبردستی پھرائے جارہے تھے اگر ان میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا تواس کی گردن اڑادی جاتی تھی۔[38]
کئی صدی تک شیعوں نے چین کا سانس نہیں لیا، مگر جب بہائی حکمراں کا دور ۳۲۰ھء میں آیا اور انھوں نے بعض اسلامی ممالک کی باگ ڈور سنبھالی تو سکون ملا، یہ اخلاق کے بہت اچھے تھے، انھیں کے دور حکومت میں شیعی ثقافت نے نمو پائی، یہاں تک سلجوقیوں کا دور آیا اور وہ ۴۴۷ھء میں بغداد کے حکمراں بن گئے ان کا سردار طغرل بیگ تھا اس نے شیعہ کتب خانہ کو نذر آتش کا حکم دے دیا اور شیعوں کے مرجع شیخ طوسی جس کرسی پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے، اس کو بھی جلوایا، اس کتب خانہ کو بھی نذر آتش کردیا ،جسے ”ابونصر سابور بن اردشیر “نے مرتب کیا تھا جو بہاء الدولہ البویھی کے وزیر تھے، وہ وقت بغداد میںعلم کا دور تھا، اس وزیر جلیل نے کرخ میں اہل شام کے محلہ میں ۳۸۱ھ ء میں ہارون کے بیت الحکمہ کی مانند اس کتب خانہ کو بنایا تھا یہ بہت اہمیت کا حامل کتب خانہ تھا، اس وزیر نے اس میں ایران و عراق کی ساری کتابیں جمع کردی تھیں، اہل ہند، چین، روم کے مولفین کی کتابوں کو جمع کردیا تھا ان کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی جو عظیم آثار اور اہم سفر ناموں پر مشتمل تھی، اس میں موجود اکثر کتابیں مولف کی ہاتھوں کی لکھی ہوئی اصل خط میں تھیں، ان کتب میں ابن مقلة کے ہاتھوں کا لکھا مصحف بھی تھا۔[39]
یاقوت حموی اس کتاب خانہ کی تعریف میں کہتا ہے کہ: پوری دنیا میں اس سے بہتر کتابیں نہیں تھیں اس کی ساری کتابیں معتبر ذمہ داروں کے خط اوراصول تحریر پر مشتمل تھیں۔[40]
خلافت عثمانیہ (ترکیہ) کے زمانے میں بھی شیعوں پر کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے گئے، سلیم عثمانی بادشاہ کے، کان خبر چینوں نے بھر دیئے کہ آپ کی رعایا میں مذہب شیعیت پھیل رہی ہے اور بعض افراد اس سے منسلک ہو رہے ہیں، سلیم عثمانی نے ان تمام افراد کو قتل کا حکم صادر کردیا جو اس مذہب شیعہ میں شامل ہو رہے تھے۔[41]اس وقت تقریباً چالیس ہزار افراد کا قتل عام کیا گیا۔
شیخ الاسلام نے فتوی دیا کہ ان شیعوں کے قتل پر اجرت ملے گی اور شیعوں کے خلاف جو جنگ کو ہوا دے گا اس کو بھی انعام دیا جائے گا[42]
ایک شخص نے شیخ نوح حنفی سے شیعوں کے قتل اور جنگ کے جواز کا مسئلہ پوچھا تھا اس کے جواب کے تحت شہر حلب میں ہزاروں لوگوں کو قتل کردیا گیا، اس خود باختہ مفتی نے اس کے جواب میں لکھا کہ: خدا تمہارا بھلا کرے تم جان لو کہ وہ (شیعہ) لوگ کافر، باغی، فاجر ہیں، ایک قسم کے کفار باغی، دشمنان خدا، فاسقین، زندیق و ملحدین جمع ہوگئے ہیں۔
جو شخص ان کے کفر و الحاد اور ان کے قتل کے وجوب و جواز میں ڈانواں ڈول ہو، وہ بھی انھیں کے مثل کافر ہے، آگے کہتا ہے کہ: ان اشرار کفار کا قتل واجب ہے، چاہے توبہ کریں یا نہ کریں، ان کے بچوں اور ان کی عورتوں کو کنیز بنانے کا حکم ہے۔[43]
یہ تو تاریخ میں سے بہت کم ہے جس کو شیعیت نے تاریخ کی مشکلات و پریشانیوں کو جھیلا ہے، ہم نے صرف بطور اختصار پیش کیا ہے ان اسباب سے پردہ اٹھانے کے لئے جس کا بعض حکومتیں دفاع کرتی ہیں اور جو لوگ شیعیت کے چہرے کو خاطر خواہ لبادہ میں لپیٹ کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں اس لئے کہ شیعیت ہمیشہ تاریخ کے ظالم و جابر بادشاہوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ہے، جیسا کہ انھوں نے ہم کو ایسے فکر ی مقدمات فراہم کئے کہ شیعہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جائیں، ظاہر سی بات ہے ان اقدامات کے تحت بہت سارے لوگ اندھیرے میں رہ گئے او روہ اقدامات و اسباب جو انحراف کی نشو و نما کے لئے اس میں داخل کئے گئے تھے تاکہ لوگ اصلی خط شیعیت سے منحرف ہو جائیں، بعض اسباب کے تحت منحرفین اور وسواسی لوگ صفوف شیعہ میں داخل ہوگئے اور بعض نے فاسد عقائد کا اظہار اور باطل نظریات کواس سے ضم کردیا تاکہ شیعیت کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنے بدنام ہو جائے۔
جو ظالم حکمرانوں کے لئے ایک موقع تھا اور اس اصلی انقلابی اسلامی تحریک کے خلاف ان ظالموں کی مدد تھی، یہ اسلامی خط اس دین کا محافظ تھا جس کو رسول عربی لے کر آئے تھے اور اہل بیت کرام کو ا سکی حفاظت پر ماٴمور کیا تھا جو کہ رسول کے بقول قرآن کے ہم پلہ تھے۔
تشیع کا خصوصی مفہوم
حضرت علی کا رسول کے بعد تمام لوگوں پر افضلیت رکھنا نبی اکرم کے صریح نص سے ثابت ہے اور ان کی امامت کے حوالے سے رسول کی حدیث موجودہے اور خدا کا حکم بھی ہے، رسول اکرم کے بعد آپ کی امامت ثابت ہے۔
یہ وہ مفہوم ہے جو عہد رسالت میں موجود تھا جس کو رسول کے بعض قریبی اصحاب نے درک کیا اور دوسرے افراد تک اس کو پہنچایا اور روز و شب کی گردش سے دوام پاتا گیا، یہاں تک کہ آج اس کو حیات جاویدانی مل چکی ہے اور خدا اس کو مزید حیات عطا کرے، اثنی عشری شیعہ حضرات نے اس کو عقیدہ کا جزء جانا ہے جس کو بطور خلاصہ ہم پیش کریں گے۔
اثنا عشری عقیدہ
شیعہ اثنا عشری حضرات اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے امام بارہ ہیں اور وہ یہ ہیں، علی ابن ابی طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن الحسین السجاد، محمد بن علی الباقر، جعفر بن محمد الصادق، موسی بن جعفر الکاظم، علی بن موسیٰ الرضا، محمد بن علی التقی، علی بن محمد النقی، حسن بن علی عسکری، محمد بن حسن المنتظر صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین اور اپنے عقیدہ کے ثبوت میں ان نصوص کو سند بناتے ہیں جو فریقین کے درمیان متفق علیہ ہیں اور ولایت علی ابن ابی طالب جو کہ اللہ و رسول کے حکم سے ثابت ہے ان میں کچھ گذشتہ بحثوں میں گذر چکی ہیں ان میں سے خاص طور سے حدیث غدیر، حدیث ثقلین جس میں رسول اکرم نے اہل بیت سے تمسک کی ضرورت پر نص کے طور پر حکم دیا ہے، بحثوں میں اہل بیت کا تعارف کراچکے ہیں اوران کے بعد بقیہ ائمہ ان کی کل تعداد بارہ ہے۔
اس کے علاوہ وہ نصوص جس کے وہ لوگ تنہا دعویدار ہیں، متفق علیہ اسناد ہیں جو کہ اہل سنت کے بزرگ علماء نے درج کیاہے، ان میں سے بخاری و مسلم ہیں نیز اصحاب صحاح و مسانید اوراحادیث کے معجم مرتّب کرنے والے افراد، نے اس کو نقل کیا ہے۔
بخاری کے الفاظ ہیں کہ: جابر بن سمرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا کہ ”بارہ امیر ہوں گے“ اس کے بعد ایک جملہ کہا جس کو میں سن نہ سکا تو میرے والد نے کہا ”وہ سب کے سب قرش سے ہوں گے“ علماء اہل سنت بارہ کی عدد میں متحیر ہوگئے۔
ابن کثیر بارہ ائمہ کے حوالے سے جو کہ سب قریش سے ہوں گے، کہتے ہیں کہ یہ وہ بارہ امام نہیں ہیں جن کے بارے میں رافضی دعویٰ کرتے ہیں، یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ لوگوں کے امور صرف علی ابن ابی طالب سے مربوط ہیں پھر ان کے فرزند حسن اور ان کے عقیدے کے مطابق ان کے سب سے آخر مہدی منتظر جو کہ سامرہ کے سرداب میں غائب ہوئے ہیں اور ان کا کوئی وجود نہیں ہے، نہ ہی کوئی اثر ہے نہ ہی کوئی نشانی، بلکہ ا س حدیث میں جن بارہ کے بارے میں خبر دی گئی ہے وہ چار خلیفہ ابوبکر، عمر،عثمان، علی اور عمر بن عبد العزیز ان دو اقوال کے درمیان اہل سنت کی تفسیر اثنا عشری میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ابن کثیر نے حدیث کو نقل کرنے کے بعد علماء کے اقوال کو نقل کیا ہے جن میں سے بیہقی بھی ہیں لیکن عدد کے سلسلہ میں غلطی کی ہے اور ان علماء نے خلفاء راشدین کے ساتھ بنی امیہ کے خلفاء کو بھی بیان کیا ہے اور یزید بن معاویہ، ولید بن یزید بن عبد الملک جس کوابن کثیر نے کہا ہے کہ ”یہ فاسق ہے جس کی مذمت میں ہم حدیث پیش کرچکے ہیں“ ان دونوں کواس فہرست میں داخل کرنے میں بہت ساری مشکلات سے دو چار ہوئے ہیں۔
یہ لوگ بارہ کی عدد کو مکمل کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ ان میں سے بعض کو حذف کریں کیونکہ لوگوں کا ان افراد پر اجتماع نہیں ہے اور وہ خاطر خواہ نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
آخر میں ابن کثیر نے اس بات کا اعتراف کیاہے کہ ابو جلد کی روایت صحت سے قریب ہے کیونکہ ابوجلد وہ شخص ہے جس کی نظر قدیم کتب پر ہے اور توریت میں بھی اس کے معنیٰ کودرک کیا ہے: اللہ نے ابراہیم کو اسماعیل کی بشارت دی اوراس بات کی بھی بشارت دی ہے کہ ان کی نسل پاک سے بارہ عظیم شخصیتوں کو خلق کرے گا۔
اس کے بعد ابن کثیر نے اپنے شیخ ابن تیمیہ حرانی کے قول کو نقل کیا ہے ”جابر بن سمرہ کی حدیث میں انھیں لوگوں کی بشارت دی گئی ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ امت میں فاصلہ فاصلہ سے وجود میں آئیں گے، جب تک ان کی تعداد پوری نہیں ہوگی قیامت نہیں آئے گی۔
یہودیوں میں سے مشرف بہ اسلام ہونے والے وہ افراد غلطی پر ہیں، جن کا خیال ہے کہ رافضی فرقہ جو کہتا ہے وہی ہماری کتابوں میں لکھا ہے لہٰذا رافضیوں کی بات مانو۔[55]
ان لوگوں کا اس بات کا اعتراف کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں اثنا عشر سے مراد اہلبیت کو بتایاہے جن کو شیعہ حضرات بارہ امام کہتے ہیں کیونکہ یہاں اہل کتاب اسلام میں داخل ہوکر شیعہ کہلائے۔
اور ابن تیمیہ وغیرہ کا یہ خیال درست نہیں کہ وہ خلفاء امت میں فاصلہ فاصلہ سے ہوں گے کیونکہ حدیث میں اس طرح کا کوئی مفہوم نہیں ہے، جب کہ ان افراد کی تعداد خلافت اسلامی کے سقوط سے لے کر اب تک مکمل نہیں ہوئی۔
ابن حجر عسقلانی نے بعض علماء کے آراء کو پیش کیا ہے جس میں سے ابن جوزی اور ابن البطال اوردوسرے افراد ہیں۔
ابن جوزی اس حدیث کے سلسلہ میں کہتے ہیں: اس حدیث کے معنی کے بارے میں بہت طولانی بحث کی اوراس کے تمام مفاہیم پر غور کیا لیکن مجھ کو روایت کا اصل مفہوم معلوم نہ ہوسکا، اس لئے کہ حدیث کے الفاظ مختلف ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں یہ خلط ملط راویوں نے کیا ہے۔[56]
اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کا اس حدیث کے بارے میں مضطرب و سرگردان رہنے کا راز یہ ہے کہ اس حدیث میں ”خلیفہ اور امیر“ جیسے الفاظ ہیں، لوگوں نے اس کا مطلب خلفاء بنی امیہ و بنی عباس اور ان کے علاوہ دوسرے سرکش حکمرانوں کو سمجھ لیا اور وہ یہ بھول بیٹھے کہ خلافت و امارت در حقیقت امامت ہے جو کہ حکم واختیار کے حساب سے زیادہ وسعت رکھتا ہے۔
شیعیت کے باقی عقائد حسب ذیل ہیں:
۱۔ توحید : یعنی خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک و ہم پلہ نہیں، وہ ذاتاً واجب الوجود ہے، نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، وہ آفات و نقصان سے منزہ ہے، وہ زمان و مکان میں محدود نہیں، اس کے مثل کوئی چیز نہیں، وہ جسمانیات و حدوث سے پاک و پاکیزہ ہے دنیا و آخرت میں اس کو آنکھیں دیکھ نہیں سکتی، اس کی تمام صفات ذاتی مثلاً: حیات، قدرت، علم، ارادہ اور ان کے مانند دیگر صفات اس کی عین ذات ہیں۔
۲۔ عدل: شیخ مفید نے اس اصل کا خلاصہ یوں کیا ہے کہ خدا عادل و کریم ہے اس نے بندوں کو اپنی عبادت کے لئے خلق کیا ہے او ران کو اطاعت کا حکم دیاہے اور گناہ و معصیت سے منع کیا ہے اور اپنی ہدایت سب پر یکساں رکھی ہے، کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیا، اس کی خلقت نہ ہی عبث ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی اونچ نیچ ہے، اس کا فعل قبیح نہیں، اعمال میں بندوں کی شرکت سے منزہ ہے ،کسی کو اس کے گناہ کے سوا عذاب نہیں دیتا، کسی بندے کی ملامت نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ کوئی قبیح فعل انجام دے:
إنَّ اللّٰہَ لا یَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ فَاِن تَکُ حَسَنَةً یُضَاعِفُہَا وَ یُؤتَ مِن لَّدُنہُ اٴجراً عَظِیماً[57]
اسی جگہ پر دوسرے مذاہب کے سربراہ افراد یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی نیکوکار کو بغیر کسی گناہ کے سزا دے سکتا ہے اور کسی بھی گنہگار پر نعمتیں نازل کرکے جنت میں بھیج سکتا ہے، یہی ہے خدا کی جانب ظلم کی نسبت دینا، اور خدا ان خرافات سے پاک و منزہ ہے۔
معتزلہ نے شیعوں کے اس مسئلہ میں اتفاق رائے کیا ہے اسی سبب سےاصطلاح میں ان دونوں فرقوں کو ”عدلیہ“ کہتے ہیں۔
۳۔ نبوت: یعنی مخلوقات کی جانب مبشر و نذیر کی صورت میں انبیاء کی بعثت واجب ہے اور خداوند تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم اور آخر میں انبیاء کے سردار، افضل بشر، سید خلائق اجمعین حضرت محمد بن عبد اللہ خاتم النبیین کی صورت میں مبعوث کیا، قیامت تک آپ کی شریعت کا بول بالا رہے گا، آپ خطا و نسیان اور قبل بعثت و بعد بعثت معاصی کے ارتکاب سے محفوظ تھے۔
آپ کبھی اپنی طرف سے کوئی گفتگو نہیں کرتے جب تک وحی الٰہی کا نزول نہ ہو جائے، آپ نے حق رسالت کو مکمل طور پر ادا کیا، مسلمانوں کے لئے حدود شریعت کو بیان کیا، قرآن آپ کے قلب پر نازل ہوا دررانحالیکہ جب وہ قدیم نہیں تھا،کیونکہ قدیم صرف ذات پروردگار ہے، اس کتاب کے سامنے یا پیچھے سے باطل نفوذ نہیں کرسکتا یہ تحریف سے قطعی محفوظ ہے۔
۴۔ امامت: امامیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت ایک طرح کا لطف الٰہی ہے اور نبی اکرم کے لئے ضروری کہ اس مسئلہ سے تغافل نہ کرے او رنبی اکرم نے غدیر خم میں حضرت علی کی ولایت و امامت کا اعلان کیا تھا اور ان سے تمسک کی سفارش بھی کی تھی اور بہت ساری احادیث میں ان کی اتباع کا حکم دیا تھا جس طرح سے اہلبیت سے تمسک کا حکم دیا تھا۔
۵ ۔ معاد: یعنی روز قیامت تمام مخلوقات زندہ ہو کر واپس آئیں گی تاکہ خدا ہر شخص کو اس کے عمل کے سبب جزا سزا دے سکے، جس نے نیکی کی اس کو جزا دے گا، جس نے برائی کی اس کو سزا دے گا اور شفاعت ایک طرح کا حق ہے جو گنہگار مسلمانوں کے لئے ہوگی اور کفار و مشرکین ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، یہ شیعہ عقائد تھے جن کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔[58]
یہ درحقیقت ان افراد کے جھوٹے دعوؤں کا جواب تھا جو شیعوں کی جانب نہایت ہی غیر اور اس کے بعد معقول باتوں کی نسبت دی ہے، جیسے خدا کو مجسم بنانا اور دیگر نازیبا الزامات، جن کا مقصد صرف شیعیت کو بدنام کرنا ہے۔
انحرافی پہلو
وفات رسول اکرم کے بعد جو سب سے بڑی مصیبت آئی وہ تھی اجتہادی فکر کی نشو و نما جو کہ شیعی نظریات کو یکسر بدلنے کی کوشش کر رہے تھے خاص طور سے اموی حکمرانوں کے دور سلطنت میں اور ان کے بعد آنے والے ان کے ہم فکر عباسی خلفاء تھے جنھوں نے اس بات کی قسم کھا رکھی تھی کہ شیعیت کی اصلیت کو مختلف وسایل کے ذریعہ بدل دیں گے اور ان کے خلاف فیصلہ کریں گے لیکن جب ان کو یہ مشکل نظر آئی اور تمام ایذاء رسانیاں، قتل و بربریت، تباہی و بربادی، شیعوں کے خلاف، ناکام ہوتی ہوئی نظر آئی، اور ان کے یہ ہتھکنڈے مسلمانوں کے ذہن میں شیعیت کے چہرہ کو مسخ کرنے سے عاجز رہے تو انھوں نے پینترا بدلہ اور شیعیت میں غلط فکروں کو شامل کرنے کی مہم چلائی اور اس زہریلی فکر کی تعلیم عوام میں دینی شروع کی، جس کا اصل مقصد لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا تھی کہ شیعہ ان افکار کے حامل ہیں نتیجتاً لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے اور ان کی عظمت و شوکت میں ا نحطاط آئے گا اور ان کے خلاف فیصلہ کرنا آسان ہوگا یا کم سے کم ان کی حد بندی ہو جائے گی اور ان کی فکری نشوونما میں گراوٹ آئے گی اوراس امر میں حکومت کو کسی قسم کی قوت کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہیں سے بعض فاسد نظریات اور منحرف افراد کی ٹکڑی وجود میں آئی، جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا، جبکہ اس بات کا گمان کیا جاتا تھا کہ یہ اہلبیت سے منسوب ہیں اور ان کے افکار و افعال شریعت کے زیر سایہ انجام پارہے ہیں اور عوام کے جاہل طبقہ میں اس بات کی تشہیر و ترویج بھی ہو رہی تھی، اس ٹکڑی میں بہت سارے افراد آکر شامل ہوگئے، اور ان کے باطل اہداف کے سیلاب میں اس وقت سارے افراد فکری سیلاب زدگی کے شکار ہوگئے جس کے سبب اہل بیت نے ان انحرافی افکار، باطل عقائد سے لوگوں کو منع کیا تھا، یہاں تک شیعیت اپنے اصلی چہرے اور واقعی راہ و رسم پر گامزن ہوگئی ہر چند کہ مخالفین و معاندین نے اس کے حسین چہرہ کو مسخ کرنا چاہا تھا، جب کہ منحرفین اور گمراہوں کی یہ ناکام کوششیں حالات کے تحت تھوڑی بہت اثر انداز ہوئی تھی۔
منحرفین کی اہم ترین سازش یہ تھی کہ سلاطین دہر نے ان کو خفیہ طور پر استعمال کیا تھا تاکہ ان کے ذریعہ شیعیت میں پھوٹ پڑ جائے اور انھیں ارادوں کے تحت کچھ فرقوں نے جنم لیا جو حقیقی شیعیت سے بالکل جدا تھے، نیز ان فرقوں اور گروہوں میں غلو کرنے والے بھی شریک تھے جو کہ کچھ برے ارادہ و عقائد کے ساتھ مذہب تشیع میں گھس گئے ہم ان کا مختصر سا تعارف کرائیں گے اور اس کے بعد ان کے سلسلہ میں ائمہ ٪ کے آراء و نظریات پیش کریں گے۔
قارئیں محترم! آپ جان چکے ہیں کہ بارہ امام سے تمسک گویا عملی پیروی ہے جن کے بارے میں نص نبوی موجود ہے کہ یہ (اہلبیت ) وہ لوگ ہیں جن سے خدا نے ہر طرح کے رجس کو دور رکھا ہے اور ان کی طہارت کا اعلان کیا ہے۔
اور یہ وہی (عقیدہ) ہے جو شاہراہ نص کی تصویر کشی کرتا ہے اوراس سے جدا ہوکر خط اجتہاد پر جانے نہیں دیتا، مگر یہ کہ بعض افراد اس پر قائم و دائم نہ رہ سکے، درمیان راہ ساتھ چھوڑ کر الگ ہوگئے اور ”زیدیہ، اسماعیلیہ“ فرقوں سے جاملے جو کہ اثنی عشریوں کے کچھ عقیدوں میں تو ساتھ چلے پھر بقیہ عقائد میں ساتھ چھوڑ دیا۔
ان کے عقائد کا خلاصہ آپ کے پیش خدمت ہے:
۱۔ زیدیہ، یہ لوگ تمام اصحاب رسول پر حضرت علی کی افضلیت کے قائل ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ابوبکر وعمر کی صحت خلافت کے بھی قائل ہیں اور برتر پر کم تر کے تقدم کو جائز سمجھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ حسین بن علی کی امامت کے بعد اولاد حضرت زہرا میں جو شخص بھی عالم، زاہد، شجاع ہو اور تلوار کے ذریعہ قیام کرے اس کو حق امامت حاصل ہے۔
زیدیہ ہی کی ایک شاخ ”جارودیہ“ ہے جو حضرت علی کی افضلیت کے قائل ہیں اور کائنات ہست و بود میں کسی کو بھی ان کے ہم پلہ نہیں سمجھتے اور جو اس بات کا قائل نہ ہو اس کو کافر گردانتے ہیں اور حضرت علی کی بیعت نہ کرنے کے سبب اس وقت پوری امت کفر کی شکار ہوگئی، یہ لوگ حضرت علی کے بعد امامت حضرت امام حسن اور ان کے بعد حضرت امام حسین کا حق سمجھتے ہیں، ان دونوں کے بعد ان کی اولادوں کی کمیٹی کے تحت جو مستحق امامت ہوگا وہی امام ہے۔[59]
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ زیدیہ کا عقیدہ شیعیت سے عمومی طور پر تھوڑا بہت میل کھاتا ہے جو کہ ان کو بغدادی معتزلہ اور بعض بصریوں سے جدا کرتا ہے، اس حوالہ سے یہ باتیں گذر چکی ہیں۔
۲۔ اسماعیلیہ، یہ وہ لوگ ہیں جو امام صادق کے بعد امامت کو ان کے بیٹے اسماعیل کو امام سمجھتے ہیں جب کہ اسماعیل اپنے باپ (امام صادق ) کی حیات ہی میں گذر گئے اور ان لوگوں نے یہ مان لیا کہ اسماعیل مرے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو موت آسکتی ہے جب تک وہ پوری دنیا پر حکومت نہ کرلیں۔
یہ اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کا ظاہر و باطن الگ الگ ہے، لہٰذا سماوات سبع (سات آسمانوں) و الارضون السبع (زمین کے ساتوں طبق) سے مراد، یہ ساتوں امام ہیں (حضرت علی سے لیکر امام صادق کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل)، قواعد عقائد آل محمد میں لکھا ہے کہ شریعت کے باطن کو امام اور نائب امام کے سوا دوسرا نہیں جان سکتا، لہٰذا یہ جو حشر نشر وغیرہ کا لفظ استعمال ہواہے یہ سب کے سب رموز و اسرار ہیں اور اس کے بواطن (پیچیدگیاں) ہیں، غسل یعنی امام سے تجدیدعہد، جماع یعنی باطن میں امام سے کوئی معاہدہ نہیں ہے، نماز سے مراد امام کی سلامتی کی دعا، زکوٰة یعنی علم کی نشر و اشاعت اور اس کے حاجت مندوں تک اس کو پہنچانا، روزہ یعنی اہل ظاہر سے ظلم کو چھپانا، حج یعنی علم حاصل کرنا، نبی کعبہ کی مانند ہیں اور حضرت علی اس کے دروازے ہیں، صفا یعنی نبی، مروہ یعنی علی، میقات یعنی امام، لبیک کہنا (دوران حج) بلانے والے کے باطن کا جواب دینا، طواف کعبہ یعنی اہلبیت رسول کے بیت الشرف کا سات چکر لگانا اور ان جیسے بہت سارے عجیب و غریب عقائد کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔[60]
اگر ہم ان فرقوں کو بغور ملاحظہ کریں تو اس بات کا انکشاف ہوگا کہ وہ شیعیت جس کی بنیاد رسول اکرم نے ڈالی تھی اور آج تک اپنے آب و تاب کے ساتھ پیغام رسالت کی حامل اور اثناعشری عزائم و عقائد کا مرکز ہے ان لوگوں کا شیعہ فرقوں سے کوئی واسطہ نہیں۔
غلو اور غلو کرنے والے!
اس بحث کو چھیڑ نے کا مقصد غلو کرنے والے اوراس کے فرقوں کی نقاب کشائی ہے اور وہ اختلاط جو متقدمین و متاخرین علماء نے اس فرقہ اور شیعیت کے درمیان جان بوجھ کر یا انجانے میں پیش کیا ہے ان کو بیان کرنا مقصود ہے، ان علماء نے غلو کرنے والوں کے بہت سارے عقائد کو شیعہ اثنا عشری فرقہ کی جانب نسبت دی ہے بعض نے ان کو ”رافضی“ کے لفظ سے یاد کیا ہے بظاہر وقت کلام شیعوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور ان پر لعن طعن کیا ہے،ان لوگوں نے غلو کرنے والے (فرقہٴ غالیہ) کے مختلف عقائد اور دوسرے فرقہ کے عقائد کو رافضہ یا روافض کے عقائد کے نام سے یکجا کردیاہے۔
جیسا کہ ابن تیمیہ نے بہتیرے فاسدو باطل عقائد اور عجیب و غریب باتوں کو رافضیوں کے نام ایسا منسوب کیا ہے کہ قاری کے ذہن میں یہ بات ایسے راسخ ہو جائے کہ یہ شیعوں کے عقائد ہیں، لیکن چند صفحات سیاہ کرنے کے بعد کچھ یوں اظہار نظر کرتے ہیں:
”جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ شیعوں کی قسموں میں جو لائق مذمت اقوال و افعال جو کہ مذکورہ باتوں سے کہیں زیادہ ہیں یہ سب کے سب نہ ہی شیعہ اثنی عشری فرقہ میں ہیں اور نہ ہی زیدیہ میں، بلکہ ان میں سے زیادہ تر فرقہٴ غالیہ اور ان کے سطحی افراد میں پائی جاتی ہیں۔[61]
مشکل اس بات کی ہے کہ یہ سارے منحرف اور غلاة گروہ اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے اور ان خرافاتی گروہ کا مرکز شہر کوفہ تھا اور یہ شر پسند افراد اپنے تمام تر عقائد میراث میں پائے تھے اور اپنے شہر ”مانویہ، ثنویہ“ سے کسب کیا تھا جو کہ مجوسیوں کے تراشیدہ و خود ساختہ عقائد تھے، نیز حلول، اتحاد، تناسخ (آواگون)، جیسے عقائد ہندوستان کے فرسودہ عقائد کا چربہ تھا یااس کے مانند دیگر ممالک جو اسی دسترخوان کے نمک خوار تھے، انھیں سب اسباب کے تحت یہ باطل عقائد فطری طور پر منحرف اور سادہ لوح افراد کے درمیان بہت تیز پھیلے، جب انھوں نے عام مسلمانوں بالخصوص شیعیان کوفہ کو اہلبیت کرام کے لطف و کرم سے فیضیاب ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے آپ کو اہلبیت سے منسوب کردیا اور خود کو ان کا شیعہ ظاہر کیا ،تاکہ لوگوں کے دلی لگاؤ کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں ،جس کے سبب ان کے عقائد کی ترویج میں ان کو آسانی ہوئی۔
جبکہ اہلبیت نے ان خطوط سے لوگوں کو ہوشیار اور مسلمانوں و شیعوں کو غلاة کی مکاریوں سے آگاہ بھی کیا جیسا کہ گذر چکا ہے، مزید کچھ ذکر آئے گا۔
غلو کے سلسلہ میں جو اصل مشکل ہوئی وہ یہ کہ اس کے مفہوم کی حد بندی نہیں ہوئی اور واضح نہ ہوسکا جس کا فطری اثر خلط عقائد ہوا، لہٰذا ان امور کی وضاحت ضروری ہے۔
غلو کے لغوی معنیٰ: قصد و ارادہ کے ساتھ نکلنا اور حد سے بڑھ جانا ہے، لہٰذا ہر وہ چیز جو حد سے باہر نکل جائے وہ غلو ہے۔
ابن منظور کے بقول: اس نے دین و امر میں غلو کیا یعنی، حد سے باہر نکل گیا۔
غلو قرآن کی نظر میں:
<لاتغلوا فی دینکم> دین میں غلو نہ کرو۔
بعض لوگوں نے کہا: ”فلاں شخص نے اس امر میں غلو کیا“ یعنی وہ حد سے گذر گیا اور تفریط سے کام لیا۔[62]
اصطلاح میں اس کی کوئی جامع و مکمل تعریف دستیاب نہ ہوسکی، لیکن علماء کے نظریات و تعریف کی روشنی میں جو کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ:کچھ افراد کے سلسلہ میں قصد و ارادہ کے ساتھ حد سے بڑھ جانا یا ان کو ان کی حیثیت سے زیادہ مرتبہ دینا۔
فضیلت و کمال میں غلو کرنا یعنی اس کو اس حد تک بڑھا دینا کہ نبوت و الوہیت کے مرتبہ تک پہنچ جائے تو اس کو ایک قسم کا غلو کہیں گے۔
بنی امیہ کے دور حکومت میں بعض حدیثیں صرف بغض و حسد کے سبب کچھ اصحاب کی شان میں گڑھ دی گئیں اور ان کا اصل مقصد صرف اہلبیت کے فضائل کو مٹانا اور ان کو ان کے مراتب سے گھٹانا تھا۔
جیسا کہ مدائنی و نفطویہ جیسے علماء اہل سنت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے، مثلا عمر بن الخطاب کے فضائل، یا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ خدا سارے لوگوں پر اپنا نور آشکار کرتا ہے لیکن ابوبکر پر عنایت خاص تھی، یا یہ کہ آسمان کے فرشتے عثمان سے حیاء کرتے ہیں اس کے علاوہ ام المومنین عائشہ و طلحہ و زبیر کی قصیدہ خوانی، کہ جنھوں نے حضرت علی جیسے واجب الطاعہ امام کے خلاف جنگ کی۔
بعض صوفیوں نے اپنے پرووٴں اور مریدوں کے بارے میں نہایت ہی رکیک باتیں مشہور کیں اور ان کو بسا اوقات انبیاء سے بھی بڑھا دیا، اور مذاہب اربعہ کے ماننے والوں نے اپنے اماموں کے لئے تو بہت کچھ تیار کر ڈالا اور ان کی شان میں از حد غلو سے کام لیا۔
روندیہ فرقہ نے بنی عباس کے سلسلہ میں کفر کی حدتک غلو کیا، اس فرقہ نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ ابو ہاشم نے محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب کو وصی بنایا تھا، اس لئے کہ یہ ”شراہ“ نامی مقام جو کہ ملک شام میں ہے، وہیں ان کے پاس مرے تھے اور علی اس وقت چھوٹے بھی تھے لہٰذا وہی امام وہی خدا ہیں وہی ہر چیز کے عالم کل ہیں، جو ان کو پہچان لے وہ جو چاہے انجام دے سکتا ہے، اس کے بعد محمد بن علی نے اپنے بیٹے ابراہیم بن محمد ملقب بہ امام کو وصی بنایا، یہ فرزندان عباسی کی پہلی فرد ہیں جن کو امامت ملی، ابو مسلم خراسانی نے بھی اس بات کا دعویٰ کیاہے۔
اس کے بعد ابراہیم نے اپنے بھائی ابو العباس عبد اللہ بن محمد ملقب بہ سفاح کو وصی بنایا، یہ عباسی سلسلہ کا پہلا خلیفہ تھا، اس نے اپنے زمانے میں اپنے بھائی ابو جعفر عبد اللہ بن محمد منصور کو وصی بنایا اس نے اپنے بیٹے مہدی بن عبد اللہ کو وصی بنایا اس نے ولایت سنبھالتے ہی وصیت کو بدل دیااور اس بات کا منکر ہوا کہ نبی نے محمد بن حنفیہ کو وصی نہیں بنایا تھا، بلکہ رسول نے عباس بن عبد المطلب کو وصی بنایا تھا، کیونکہ عباس رسول کے چچا اور ان کے وارث تھے نیز اور لوگوں کے بہ نسبت زیادہ رسول سے قریب تھے، ابوبکر و عمر و عثمان و علی جو کہ رسول کے بعد خلیفہٴ رسول بنے یہ سب غاصب تھے اور حکومت کوان سے چھین لیا تھے، اس نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ رسول کے بعد امامت کا حق عباس کا تھا ان کے بعد ان کے وارث، عبد اللہ بن عباس، پھر ان کے بیٹے علی بن عبد اللہ، پھر ابراہیم بن محمد الامام، پھر ان کے بھائی عبد اللہ، پھر ان کے بھائی ابو العباس، پھر ان کے بھائی ابی جعفر منصور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔
عبد اللہ روندی کے بارے میں روندیہ فرقہ کا کہنا ہے: امام، یعنی ہر شیء کا عالم اور وہی خداوند عالم ہے جو ہر ایک کو موت و حیات دینے والا ہے، ابو مسلم خراسانی اللہ کے رسول اور عالم غیب ہیں، ابو جعفر منصور نے ان کو رسالت عطا کی تھی کیونکہ وہ الوہیت کے درجہ پر فائز تھے اور وہ ان کے اسرار و رموز سے واقف تھے، منصور کے رسولوں نے دعوت کا اعلان کیا۔
جب منصور کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک گروہ کو طلب کیا تو انھوں نے اس بات کا اقرار کیا، اس نے اس بات سے توبہ اور روگردانی کا حکم دیا تو انھوں نے کہا کہ منصور ہمارا خدا ہے وہی ہم کو شہید کرتا ہے، جس طرح سے انبیاء و مرسلین جن کے ہاتھوں وہ چاہتا ہے، شہید کئے گئے، اور ان میں سے بعض کے عمارت ڈھاکر یا غرق کر کے ہلاک کیا، بعض کے اوپر درندے چھوڑ دیئے، بعض کی روحوں کو حادثاتی یا دل بخواہ علتوں سے قبض کرلیا، وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ جیسا چاہے برتاؤ کر اسی کو اختیار ہے اس سے کسی بات کا سوال نہیں ہوگا۔[63]
اسلام سے قبل ادیان و مذاہب میں بھی غلو پایا جاتا تھا۔
یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوہیت کا دعویٰ کیا، جس کو روایات نے بھی بیان کیا ہے اور قرآن نے بھی اس کی عکاسی کی ہے۔
<اٴو کَالَّذِی مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَ ہِیَ خَاوِیَةٌ علٰی عُرُوشِہَا قَالَ اٴنیٰ یُحیِی ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعدَ مَوتِہَا فَاٴَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاٴئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ>[64]
(یا اس بندے کے مثال جس کا گذر ایک بستی ہوا جس کے عرش و فرش گر چکے تھے تو اس بندے نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندہ کو سو (۱۰۰) سال کے لئے موت دیدی اور پھر زندہ کیا)۔
قرآن کریم نے ان کے خرافاتی نظریہ کو کچھ یوں نقل کیا ہے:
<وَ قَالَتِ الیَہُودُ عَزِیزٌ ابنِ اللّٰہِ>[65]
(یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں)۔
روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے، یہودیوں کے مثل نصاری کے یہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، انھوں نے حضرت عیسیٰ کے سلسلہ میں غلو کیا اوران کی الوہیت کا دعویٰ کیا، قرآن کریم نے گذشتہ آیت میں یہودیوں کے نظریات کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے:
<وَ قَالَتِ الیَہُودُ عَزَیرٌ ابنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصاریٰ المَسِیحُ ابنُ اللّٰہُ ذٰلِکَ قَولُہُم یُضَاہِئُونَ قَولَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن قَبلِ قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ اٴنّٰی یُؤفَکُونَ>[66]
(اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں وہ بالکل ان کے مثل ہیں، جو ان کے پہلے کفار کہتے تھے اللہ ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے چلے جارہے ہیں)۔
اسی سبب قرآن نے ان کی مذمت کی اور ان باطل خیالات و خرافات کی تنبیہ کی ہے۔
قال اللّٰہ: <یَا اٴہلَ الکِتَابِ لاتَغلُوا فِی دِینِکُم وَ لاتَقُولُوا علٰی اللّٰہِ إلا الحَقِّ>[67]
(اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو)
یہ بات بالکل ممکن تھی کہ غلو مسلمین میں سرایت کر جائے، کیونکہ اہل کتاب کی شر پسندیاں ان کے فاسد و باطل عقائد سے واضح ہیں۔
دوسری جانب وہ دوسری اشرار قومیں جو مجوسیت اور دیگر ادیان سے خارج ہوکر اسلام میں داخل ہوئیں تھیں اور اسلام کا دکھاوا کر رہیں تھیں۔
نیز اہل کتاب اور دیگر افراد جنھوں نے بظاہر اپنی گردنوں میں قلادہٴ اسلام ڈال رکھا تھا، انھوں نے ضعیف الایمان مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان کے درمیان غلو جیسے باطل عقیدہ کو خوب ہوا دی، درحقیقت یہ اسلام کو اندر ہی اندر کچل ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
غلو سے اسلامی فرقے محفوظ نہیں ہیں، ان فرقے کے علماء وغیرہ نے اپنے بزرگوں کی ثنا خوانی میں عقل کی شاہراہ کو چھوڑ دیااور حدود منطق سے یکسر خارج ہوگئے۔[68]
۱.بعض افراد کے نظریات:
وہ کہتے ہیں کہ خداوند عالم نے ابو حنیفہ کو شریعت و کرامت سے نوازا ہے ان کی کرامات میں سے یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ہر صبح ان کے پاس آتے تھے اور احکام شریعت کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور یہ سلسلہ پانچ سال تک قائم تھا جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت خضر نے خدا سے دعا کی، خدایا! اگر تیری بارگاہ میں میری کوئی قدر و منزلت ہے تو اس کے سبب، ابو حنیفہ کو اجازت دیدے تاکہ وہ قبر میں رہ کر حسب عادت مجھے کچھ تعلیم دیتے رہیں اور میں شریعت محمد کی مکمل تعلیم حاصل کرلوں، اللہ نے ان کو دوبارہ زندہ کیا اور حضرت خضر نے ان سے پچیس سال علم حاصل کیا جب حضرت خضر کی تعلیم مکمل ہوگئی تو خدا نے حکم دیا کہ قشیری کے پاس جاؤ اور جو کچھ ابوحنیفہ سے سیکھا ہے ان کو سکھاؤ۔
حضرت خضر نے جو کچھ ابوحنیفہ سے سیکھا تھا قشیری کو سکھایا اس کے بعد انھوں نے ایک ہزار (۱۰۰۰) کتاب تصنیف کی، اور یہ جیحون نامی نہر کی آغوش میں بطور امانت رکھی ہے جب حضرت عیسیٰ چرخ چہارم سے آئیں گے تو اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں گے، اس لئے کہ جس زمانے میں حضرت عیسیٰ آئیں گے سردست شریعت محمدی کی کوئی کتاب مسیر نہ ہوگی حضرت عیسیٰ جیحون کی امانت کو واپس لیں گے وہ قشیری کی کتاب ہوگی،الاشاعة فی الشراط الساعة، ص۱۲۰، الیاقوتہ، ابن الجوزی، ص۴۵۔
ابو حنیفہ کی موت پر جناتوں نے گریہ کیا ان کے پاس ثبوت ہے کہ جس رات ابوحنیفہ مرے تھے اس رات گریہ کی آواز آرہی تھی مگر رونے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ذہب الفقہ فلا فقہ لکم
فاتقوا اللّٰہ و کونوا خلفائ
مات نعمان فمن ہذا الذی
یحیی اللیل اذا ما سدنا
(فقہ ختم ہوگئی اب تمہارے پاس کوئی فقہ نہیں تقوی الٰہی اختیار کرو اوران کے خلف صالح بنو۔
نعمان گذر گئے ان کے مثل کون ہوگا جو راتوں کو جاگتا تھا جب رات کی تاریکی پھیل جاتی تھی)
وہ اس بات کے قائل ہیں کہ، احمد بن حنبل امام المسلمین سید المومنین ہیں انھیں کے ذریعہ ہم کو موت و حیات ملتی ہے اور انھیں کے ذریعہ ہمارا معاد ہوگااور جو اس نظریہ کا قائل نہیں ہے وہ کافر ہے ذیل طبقات الحنابلہ، ج۱، ص۱۳۶۔
انھوں نے احمد بن حنبل کے بغض کو کفر اور محبت کو سنت قرار دیا ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی شخص کو ان کی محبت میں سرشار پاؤ تو سمجھو کہ یہ سنت و جماعت کا پیروکار ہے الجرح و التعدیل، ج۱، ص۳۰۸۔
شافعی کی طرف نسبت دے کر کہتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ جو احمد بن حنبل سے بغض رکھے وہ کافر ہے ان سے کسی نے کہا کہ کیا اس پر کفر باللہ صادق آئے گا؟ تو آپ نے کہا: ہاں جو شخص ان سے بغض رکھے گویا صحابہ سے عناد رکھتا ہے جس نے صحابہ سے دشمنی کی گویا اس نے رسول سے عداوت برتی اور جس نے رسول سے عداوت کی وہ کافر ہے طبقات الحنابلہ، ج۱، ص۱۳۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمد ابن حنبل سے بغض رکھنے والا اللہ کا منکر ہے ابن جوزی نے علی بن اسماعیل سے نقل کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ قیامت برپا ہے سارے لوگ ایک پل کے پاس جمع ہیں اور کوئی شخص اس سے گذر نہیں سکتا جب تک اس ایک پروانہ مل نہ جائے کونے میں ایک شخص ہے جو پروانہ عطا کرتا ہے جو اس کو لے کر آتا ہے اس سے گذر جاتا ہے میں نے پوچھا: یہ کوں شخص ہے جو پروانے عطا کرتا ہے؟
لوگوں نے جواب دیا: یہ احمد ابن حنبل ہیں مناقب ابن الجوزی، ص۴۴۶۔
اسود ابن سالم کہتا ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اسود، اللہ نے تم کو سلام کہا ہے اور تم کو پیغام دیا ہے کہ احمد بن حنبل کے ذریعہ امت گناہوں سے بچی ہے لہٰذا تم کیا کر رہے ہم؟ اگر تم ان سے متمسک نہ ہوئے تو تم ہلاک ہو جاوٴ گے ۔
حسن صواف کہتا ہے کہ میں نے خدا کو خواب میں دیکھا اس نے مجھ سے کہا: جس نے احمد بن حنبل کی مخالفت کی وہ مستحق عذاب ہے۔ مناقب احمد بن حنبل، ص۴۶۶۔
ابو عبد اللہ سجستانی کہتا ہے کہ میں نے رسول اکرم کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے بعد اس امت میں آپ کا خلیفہ و نمائندہ کون ہے تاکہ دین میں اس کی اقتدا کریں؟
تو آپ نے فرمایا: احمد بن حنبل کی پیروی کرو مناقب احمد بن حنبل، ص۴۶۸۔
امام مالک نے خود اپنے خوابوں کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ ”کوئی ایسی رات نہیں بیتی جس میں ہم نے رسول کو نہ دیکھا ہو الدیباج، ص۲۱۔
خلف بن عمر کہتا ہے: میں امام مالک کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ میرے مصلے کے نیچے دیکھو کیا ہے میں نے اس کے نیچے ایک کتاب پائی انھوں نے کہا:اس کو پڑھو! اس میں وہ سارے خواب ہیں جس کو برادارن نے دیکھا ہے، پھر انھوں نے کہا کہ میں نے ایک رات خواب دیکھا کہ رسول مسجد میں تشریف فرما ہیں اورلوگ ان کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے ہیں آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”ہم نے تم لوگوں سے علم خوشبو چھپالی، اور اب مالک کو حکم دیتا ہوں کہ اس کو لوگوں میں پھیلائیں لوگ وہاں سے یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ، اب مالک حکم رسول کے مطابق نفاذ حکم کریں گے“اس کے بعد مالک روئے اور میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ مناقب مالک، ص۸، حلیہ الاولیاء، ج۶، ص۳۱۶۔
محمد بن رمح کہتا ہے: کہ میں نے اپنے باپ کے ساتھ حج انجام دیا ابھی میں بالغ بھی نہیں ہوا تھا اور میں مسجد نبی میں قبر رسول و منبر رسول کے درمیان سوگیا میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم عمر و ابوبکر کے شانوں کا سہارا لئے قبر سے باہر آئے میں نے ان سب کو سلام کیا، انھوں نے جواب سلام دیا۔
میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ! کہاں جانے کا قصد رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مالک کے لئے صراط پر کھڑے ہونے جارہا ہوں، میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد میں اور میرے والد مالک کے پاس گئے تو کیا دیکھا لوگ ان کے پاس جمع ہیں انھوں نے سب سے پہلے لوگوں کے لئے موطاٴ لکھی ، مناقب مالک، عیسیٰ بن مسعود مرزواوی، ص۱۷۔
محمد بن رمح ہی اس بات کا ناقل ہے کہ میں نے چالیس سال کی عمر میں بھی رسول کو خواب میں دیکھا اور عرض کی: یارسول اللہ! مالک اور لیث نے ایک مسئلہ پر اختلاف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: مالک میرے جد ابراہیم کے میراث کے وارث ہیں ۔ الجرح والتعدیل، ج۱، ص۲۸۔
بشیر ابن ابی بکر کہتا ہے کہ: میں نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوگیاہوں میں نے اوزاعی اور سفیان ثوری کودیکھا لیکن امام مالک نظر نہ آئے، میں نے پوچھا: مالک کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا: مالک کہاں ہیں؟ مالک بلند ہوئے، بلند ہوئے وہ کہتا جارہا تھا کہ مالک ہاں ہیں؟ مالک ہاں ہیں؟ مالک بلند ہوئے جاتے تھے اور اتنی بلندی تک پہنچ گئے کہ اگر دیکھو تو ٹوپی گر جائے الجرح و التعدیل، ج۱، ص۲۸۔
ابونعیم نے ابراہیم بن عبد اللہ سے اسماعیل بن مزاحم مروزی کی بات کو نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے: کہ میں نے خواب میں رسول اللہ کو دیکھا تو میں نے سوال کیا یا رسول اللہ! آپ کے بعد کس سے مسائل دریافت کریں؟ تو آپ نے فرمایا: مالک ابن انسحلیة الاولیاء، ج۶، ص۳۱۷۔
مصعب بن عبد اللہ زبیری کہتا ہے کہ: جب ایک شخص رسول کے پاس آیا تو آپ کو فرماتا سنا کہ تم میں مالک کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ آپ نے ان کو سلام کیا گلے سے لگایا سینے سے چمٹایا وہ کہتا ہے کہ: خدا کی قسم کل میں نے رسول کو اسی جگہ بیٹھے دیکھا تھا اس وقت آپ نے حکم دیا مالک کو بلاؤ جب آپ آئے تو آپ کے اعضاء کانپ رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ: اے ابا عبد اللہ! تم کو کچھ ایسا نہیں ہونا چاہیئے ہم تمہارے ساتھ ہیں اس کے بعد حکم دیا بیٹھ جاؤ، آپ بیٹھ گئے، پھر حکم دیا اپنا دامن پھیلاؤ آپ نے پھیلایا، رسول نے آپ کے دامن کو مشک سے بھر دیا اور حکم دیا ا سکو سینہ سے لگا لو اور میرے امت میں اس کو تقسیم کرو مصعب کہتا ہے کہ: مالک یہ سن کر بہت روئے اور فرمایاکہ خواب سرور بخش ہوتے ہیں دھوکہ باز نہیں اگر تمہارا خواب صحیح ہے تو یہ وہی علم ہے جس کو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے الانتقاء، ص۳۹، شرح موٴطاٴ، زرقانی، ج۱، ص۴
عدوی کہتا ہے کہ: جب ہماری امت و اسلام کے شیخ اللقانی دنیا سے گذر کئے تو بعض متدین افران نے ان کو خواب میںدیکھا کسی نے پوچھا خدا نے کیا برتاؤ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا: جب قبر میں دونوں فرشتوں نے بٹھایا تاکہ سوال کریں اس دم امام مالک تشریف لے آئے اور پوچھا کہ کیا ایسے افراد کے ایمان کے سلسلہ میں بھی سوال کی ضرورت ہے؟ ان سے تم دونوں دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ مشارق الانوار، عدی، ص ۲۲۸۔
انھیں لوگوں میں سے منقول ہے کہ: رسول اکرم نے مالک کی کتاب کا نام موطاٴ رکھا ہے آپ سے جواب میں سوال کیا گیا کہ لیث و مالک کسی مسئلہ پر اختلاف رائے رکھتے ہیں ان میں کون عالم ہے؟ تو نبی نے فرمایا: مالک میرے جد ابراہیم کے وارث ہیں مناقب مالک، زاوی، ص۱۸۔
اس شخص نے دوبارہ رسول اکرم سے خواب میں پوچھا: کہ آپ کے بعد کس سے مسائل دریافت کریں تو آپ نے فرمایا: مالک ابن انس مناقب مالک زاوی، ۱۸، ماخوذ، الامام الصادق و المذاہب الاربعہ، اسد حیدر۔
جیسا کہ اسلام سے پہلے کے ادیان غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے چنانچہ ان کے عقائد و نظریات سے واضح ہے،اسی طرح اسلامی فرقے اس کی لپیٹ میں آگئے، مگر یہ کہ بعض مورخین و سیرت نگاروں نے غلو کو صرف ایک فرقہ کی جانب منسوب کردیا کہ فرقہ شیعہ اس میں گرفتار ہے یہ کام اس راہ پر چلتے ہوئے انجام دیا گیا، جس کو شر پسند حکومتوں نے مذہب اہلبیت کے خلاف کئی صدیوں سے قائم کر رکھا تھا۔
جب کہ ہم نے اثنا عشری عقائد کو خلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے، توحید، خدا کا پاک و منزہ ہونا جو کہ شیعیت کے اصلی و حقیقی عقائد میں سے ہے اس کو بیان کیا ہے، ہم عنقریب غلو کے سلسلہ میں شیعہ متقدمین و متاخرین و معاصرین علماء کے نظریات کو بیان کریں گے تاکہ غلو و غلاة کے سلسلہ میں شیعہ اثناعشری فرقہ کا نظریہ واضح ہو جائے۔
شیخ مفید کہتے ہیں: غلاة اسلام کا دکھاوا کرنے والے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے امیر المومنین اوران کی اولاد پاک کے سلسلہ میں الوہیت و نبوت کی نسبت دی اور ان کے حوالے سے فضیلت کی وہ نسبت دی جو حد سے گذر جانے والی ہے وہ گمراہ و کافر ہیں، امیر المومنین نے ان کے قتل اور آگ میں جلا دینے کا حکم دیا ہے، ائمہ کرام نے ان کے کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا فیصلہ دیا ہے۔[69]
شیخ صدوق فرماتے ہیں: غلاة اور مفوضہ کے سلسلہ میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں یہ لوگ اشرار ہیں جو یہودی، نصاریٰ، مجوسی، قدریہ، حروریہ سے منسلک ہیں یہ تمام بدعتوں اور گمراہ فکروں کے پیروکار ہیں۔[70]
محقق حلی کہتے ہیں: غلاة اسلام سے خارج ہیں گو کہ انھوں نے اسلام کا بظاہر اقرا رکر رکھا ہے۔[71]
نراقی کہتے ہیں: غلاة کی نجاست میں کسی قسم کا شک نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی یا دوسرے افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔[72]
دوسری جگہ فرماتے ہیں: ناصبیوں اور خارجیوں کی نماز میت پڑھنا جائز نہیں، اگرچہ اجماع کے حساب سے یہ لوگ اسلام کا اظہار و اقرار کرتے ہیں۔[73]
شیخ جواہری کہتے ہیں: غلاة، خوارج، ناصبی اور ان کے علاوہ دیگر افراد جو ضروریات دینی کے منکر ہیں یہ کبھی بھی مسلمین کے وارث نہیں ہوسکتے۔[74]
آقا رضا ہمدانی فرماتے ہیں: وہ فرقہ جن کے کفر کا حکم دیا گیا ہے وہ غلاة کا ہے اور ان کے کفر میں شک و شبہ نہیں ہے اس بات کے پیش نظر کہ یہ لوگ امیر المومنین اور دیگر افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔[75]
اپنے وقت کے اعلم دوراں السید محمد رضا گلپائیگانی ۺنے مسئلہ ۷۴۸ میں فرمایا:کہ ذبح کرنے والے کے لئے شرط ہے کہ مسلمان ہو یا حکم مسلمان میں ہو یعنی مسلمان نطفہ سے پیدا ہوا ہو کافر، مشرک یا غیر مشرک کا ذبیحہ حلال نہیں ہے بنابر اقویٰ کتابی کا بھی ذبیحہ حلال نہیں ہے، اس میں ایمان کی شرط نہیں ہے۔
تمام اسلامی فرقوں کے ہاتھوں کا ذبیحہ حلال ہے سوائے ناصبیوں کے جن کے کفر کا مسئلہ واضح ہے یہ وہ لوگ ہیں جوعلی الاعلان اہلبیت سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، ہر چند کہ یہ لوگ اسلام کا دکھاوا کرتے ہیں۔
انھیں کے مانند وہ گروہ بھی ہے جواسلام کا دکھاوا کرتا ہے اور کفر ان کے لئے ثابت ہے، جیسے خوارج اور ناصبی۔[76]
یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علماء شیعہ غلاة کے کفر اور ان کی نجاست کا حکم دے چکے ہیں اور ان کے سلسلہ میں فقہی مسائل بھی بیان کردیئے ہیں، مثلاً ان کی نجاست، ان کے ذبیحہ حرام ہے اور یہ مسلمانوں کی میراث نہیں پاسکتے۔
جرح و التعدیل کے شیعہ علماء کا غلاة کے سلسلہ میں موقف نہایت واضح ہے۔
عبد اللہ بن سبا
کشی نے ابن سبا کے حالات میں کہا ہے کہ اس نے ادعائے نبوت کیا اور اس بات کا معتقد تھا کہ علی ہی خدا ہیں،اس سے تین دن تک توبہ کے لئے کہا گیا لیکن اس نے انکار کیا تواس کو مزید ستر آدمیوں کے ساتھ جلا دیا گیا جواس کے نظریہ کے قائل تھے۔[77]
شیخ طوسی اورابن داؤد نے کہا ہے کہ، عبد اللہ بن سبا کفر کی طرف پلٹ گیا تھا اور غلو کا اظہار کرتا تھا۔[78]
علامہ حلی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: (عبد اللہ بن سبا) غلو کرنے والا ملعون تھا امیر المومنین نے اس کو جلا دیا تھا وہ اس بات کا معتقد تھا کہ حضرت علی خدا ہیں اور نبی ہیں، خدا اس پر لعنت کرے۔[79]
کشی نے ابان بن عثمان سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابا عبد اللہ یعنی امام صادق کو فرماتے سنا، خدا عبداللہ بن سبا پر لعنت کرے وہ حضرت امیر کی ربوبیت کا قائل تھا جبکہ خدا کی قسم آپ خدا کے عبادت گذار خالص بندے تھے، ہم پر جھوٹ باندھنے والوں پر وائے ہو۔
ایک گروہ ہمارے بارے وہ کچھ کہتا ہے جو ہم اپنے بارے میں کبھی نہیں کہتے، ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔[80]
کشی نے امام صادق سے روایت نقل کی ہے، آپ نے فرمایا: ہم اہل بیت صدیق ہیں، ہم ان دروغ باتوں سے محفوظ ہیں جو ہماری جانب جھوٹ کی نسبت دیتے ہیں اور ہماری سچائی کواپنے جھوٹ سے لوگوں میں مشکوک کرتے ہیں، رسول خدا لوگوںمیں سب سے سچے تھے، مجسمہٴ خیر تھے لیکن مسیلمہٴ آپ پر جھوٹ باندھتا تھا۔
بعد رسول اکرم حضرت امیر المومنین سب سے بڑے صادق، لیکن عبد اللہ بن سبا نے جھوٹ باتیں ان کی جانب منسوب کیں اوران کی سچائی کو اپنے جھوٹ سے مخدوش کیا اوراللہ پر افتراء پردازی سے کام لیا۔[81]
۲۔ جو کچھ گذر چکا اس سے اور آگے بحار الانوار میں درج ہے کہ:
امام حسین بن علی مختار ثقفی کے سبب مشکلات سے دوچار ہوئے، پھر امام صادق نے حارث شامی اور بتان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں، حضرت امام سجاد پر جھوٹ باندھا کرتے تھے اس کے بعد مغیرہ بن سعید، بزیع، سری، ابوالخطاب، معمر، بشار الشعیری، حمزہ ترمذی اور صائد نہدی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ ان لوگوں پر لعنت کرے ہم پر ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی جھوٹ باندھنے والا رہا ہے، یا عاجز الرای رہا ہے۔
خدا نے ہم کو ہر جھٹلانے والے کے شر سے محفوظ رکھا اوران کو تہ تیغ کیاہے۔[82]
غلاة کے سلسلہ میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کا موقف
پیغمبر اسلام نے اصحاب کرام کو اپنی امت میں رونما ہونے والے فتنوں سے باخبر کردیا تھا، انھیں امور میں سے ایک وہ راز تھا جس سے حضرت علی کو آگاہ کیا تھا کہ ایک قوم تمہاری محبت کا اظہار کرے گی اوراس میں غلو کی حد تک پہنچ جائے گی اور اسی کے سبب اسلام سے خارج ہوکر کفر و شرک کی حدوں میں داخل ہو جائے گی۔
احمد بن شاذان سے اپنی اسناد کے ساتھ روایت ہے کہ امام صادق نے آباء و اجداد سے انھوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا: اے علی تمہاری مثال ہماری امت میں حضرت عیسیٰ کی سی ہے ان کی قوم نے ان کے بارے اختلاف رائے کر کے تین گروہ بنالیا تھا، ایک گروہ مومن، وہ ان کے حواری تھے، دوسرا گروہ ان کا دشمن جو کہ یہودی تھے، تیسرا گروہ ان کا تھا جنھوں نے غلو کیا اور حد ایمان سے باہر نکل گئے، میری امت تمہارے بارے میں تین گروہ میں تقسیم ہوگی، ایک گروہ تمہارے شیعہ اور وہی مومنین ہیں، دوسرا گروہ تمہارے دشمن جو شک کرنے والے ہیں تیسرا گروہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والے اور وہ منکرین کا گروہ ہوگا، علی جنت میں تم، تمہارے شیعہ، اور تمہارے شیعوں کے دوست مستقر ہوں گے، اور تمہارے دشمن اور غلو کرنے والے جہنم میں پڑے ہوں گے۔[83]
غلاة کے بارے میں امیر المومنین کا موقف
حضرت امیر نے غلو کرنے والوں پر بہت پابندی لگائی ان پر لعنت بھیجی ان پر سختی کی ان سے برائت اختیار کی۔
ابن نباتہ سے روایت ہے کہ، امیر المومنین نے فرمایا: خدا یا میں غلو کرنے والوں سے ایسے ہی دور و بری ہوں جس طرح حضرت عیسیٰ نصاریٰ سے بری تھے، خدایا ہمیشہ ان کو ذلیل خوار کر او ران میں سے کسی ایک کی نصرت نہ فرما۔[84]
آپ نے دوسری جگہ فرمایا: ہمارے سلسلہ میں غلو سے پرہیز کرو، کہو کہ ہم پروردگار کے بندے ہیں، اس کے بعد ہماری فضیلت میں جو چاہو کہو۔[85]
امام صادق سے روایت ہے کہ: یہودی علماء میں سے ایک شخص امیر المومنین کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! آپ کا خدا کب سے ہے؟
آپ نے فرمایا: تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، میرا خدا کب نہیں تھا؟جو کہ یہ کہا جائے کہ کب تھا! میرا رب قبل سے قبل تھا جب قبل نہ تھا، بعد کے بعد رہے گا جب بعد نہیں رہے گا، اس کی کوئی غایت نہیں اوراس کی غایت و انتہا کی حد نہیں، حد انتہا اس پر ختم ہے وہ ہر انتہا کی انتہا ہے۔
اس نے کہا: اے امیر المومنین کیا آپ نبی ہیں؟
آپ نے فرمایا: تجھ پر وائے ہو میں تو محمد کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔[86]
آپ نے فرمایا: حلال و حرام ہم سے دریافت کرو لیکن نبوت کی نسبت نہ دینا۔[87]
غلاة اور امام زین العابدین کا موقف
آپ نے فرمایا: جو ہم پر دروغ بافی کرے خدا کی لعنت ہو اس پر میں نے عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں سوچا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اس نے بہت بڑی چیز کا دعویٰ کیا اس کو کیا ہوگیا تھا، خدا اس پر لعنت کرے، خدا کی قسم حضرت علی خدا کے نیک بندے، رسول خدا کے بھائی تھے، ان کو کوئی بھی فضیلت نہیں ملی مگر اطاعت خدا و رسول کے سبب، اور رسول خدا کو کرامت سے نہیں نوازا گیا مگر اطاعت خدا کے باعث۔
امام سجاد نے ابو خالد کابلی کو امت میں ہونے غلو سے باخبر کیا جس طرح سے یہود و نصاریٰ نے کیا تھا، آپ نے فرمایا: یہودی عزیر سے محبت کرتے تھے لہٰذا ان کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو کچھ نہیں کہنا چاہیئے تھا، لہٰذا عزیر نہ ان میں سے رہے اور نہ وہ عزیر میں سے رہے، نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ سے محبت کی اور وہ سب کھ کہا جو ان کے شایان شان نہیں تھا، نہ ہی عیسیٰ ان میں سے رہے اور نہ وہ عیسیٰ سے رہے اور ہم بھی اس بدعت کے شکار ہوئے ہمارے چاہنے والوں میں سے ایک گروہ ہمارے بارے میں وہ باتیں کہے گا جو یہود نے عزیر کے لئے کہا اور نصاریٰ نے عیسیٰ کے لئے کہا، لہٰذا نہ وہ لوگ ہم میں سے ہیں اور نہ ہم ان لوگوں میں سے۔[88]
غلاة اور امام محمد باقر کا موقف
زرارہ نے امام محمد باقر سے نقل کیا کہ آپ کو فرماتے سنا، خدا بنان کے بیان پر لعنت کرے،
خدا بنان پر لعنت کرے، اس نے میرے باپ پر دروغ بافی کی، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد علی بن الحسین عبد صالح تھے۔[89]
غلاة اور امام صادق کا موقف
امام صادق کے دور میں غلاة کا مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا، انھیں کے پیش نظر امام نے اپنے شاگردوں کے درمیان مختلف علوم کی نشر و تعلیم شروع کردی، آپ کی آواز و تحریک آفاقی ہوگئی اور آپ کے شاگرد و پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، لوگوں کو ان علوم سے آگاہ کرنے لگے جس سے وہ بالکل جاہل تھے، اور جو کچھ اپنے آباء اور رسول اکرم سے سینہ بہ سینہ ملا تھا اس کو لوگوں کے دلوں تک منتقل کرنے لگے، اس کے سبب سطحی اور سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ امام غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کا علم رکھنے والا الوہیت (خدائی) کے درجہ پر فائز ہوتا ہے، بعض فتنہ پرور افراد نے سادہ لوح افراد کو آلہٴ کار بنایا تاکہ لوگوں کے عقائد کی تخریب کے سلسلہ میں اپنے اغراض کو پورا کرسکیں جو ان کا اصلی مقصد تھا، یہ کام خاص طور سے ان لوگوں سے لے رہے تھے جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تعلق سوڈان، زط وغیرہ سے تھا، جو اپنے ساتھ اپنے میراثی عقائد لیکر آئے تھے، اس طرح سے بعض مادی او ر روحانی احتیاج کے پیش نظر غلو کو اپنایا اور صراط حق و مستقیم سے دور ہوگئے اورامام صادق کے بارے میں طرح طرح کے خرافات پھیلانے لگے۔
مالک ابن عطیہ نے امام صادق کے بعض اصحاب سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن امام صادق بہت غیظ وغضب کی کیفیت میں باہر آئے اور آپ نے فرمایا: میں ابھی اپنی ایک حاجت کے لئے باہر نکلا، اس وقت مدینہ میں مقیم بعض سوڈانیوں نے مجھ کو دیکھا تو ”لبیّک یا جعفر بن محمد لبیّک“ کہہ کر پکارا، تو میں اپنے گھر الٹے پیر لوٹ آیا اور جو کچھ ان لوگوں میرے بارے میں بکا تھا اس کے لئے بہت دہشت زدہ تھا، یہاں تک کہ میں نے اپنی مسجد جاکر اپنے رب کا سجدہ کیا اور خاک پر اپنے چہرے کو رگڑا اور اپنے نفس کو ہلکا کر کے پیش کیا، اور جس آواز و نام سے مجھے پکارا گیا تھا اس سے اظہار برائت کیا، اگر حضرت عیسیٰ اس حد سے بڑھ جاتے جو خدا نے ان کے لئے معین کی تھی آپ ایسے بہرے ہوگئے ہوتے کہ کبھی نہ سنتے، ایسے نابینا بن جاتے کہ کبھی کچھ نہ دیکھتے، ایسے گونگے بن جاتے کہ کبھی کلام نہ کرتے، اس کے بعد آپ نے فرمایا: خد اابو الخطاب پر لعنت کرے اور اس کو تلوار کا مزہ چکھائے۔[90]
ابوعمرو کشی نے سعد سے روایت کی ہے کہ، مجھ سے احمد بن محمد بن عیسیٰ ، انھوں نے حسین ابن سعید بن ابی عمیر سے اور انھوں نے ہشام بن الحکم سے انھوں نے امام صادق سے روایت کی کہ امام نے فرمایا: خد ابنان، سری، بزیع پر لعنت کرے، وہ لوگ سرتا پا انسان کی حسین صورت میں درحقیقت شیطان دکھائی دیتے تھے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے آپ سے عرض کی کہ وہ اس آیت <ہُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إلٰہٌ وَ فِی الاٴرضِ إلٰہٌ>[91] وہ، وہ جو زمین و آسمان کا خدا ہے کی یوں تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا خدا دوسرا ہے اور جو آسمان کا خدا ہے و زمین کا خدا نہیں ہے، اور آسمان کا خدا زمین کے خدا سے عظیم ہے، اور اہل زمین آسمانی خدا کی فضیلت سے آگاہ ہیں اوراس کی عزت کرتے ہیں، امام صادق نے فرمایا: خدا کی قسم ان دونوں کا خدا صرف ایک و اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں و ہ زمینوں اور آسمانوں کا رب ہے، بنان جھوٹ بول رہا ہے خدا اس پر لعنت کرے اس نے خدا کو چھوٹا کر کے پیش کیا اور اس کی عظمت کو حقیر سمجھا ہے۔[92]
کشی نے اپنے اسناد کے ساتھ امام صادق سے روایت کی ہے کہ، آپ نے اس قول پروردگار <ہَل اٴُنَبِّئُکُم علٰی مَن نُنَزِّلُ الشَّیَاطِینَ، نُنَزِّلُ عَلٰی کُلِّ اٴفّاکٍ اٴثِیمٍ>[93] کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں، کے بارے میں فرمایا: کہ وہ (جھوٹے و بدکردار) لوگ، سات ہیں: مغیرہ بن سعید، بنان، صائد، حمزہ بن عمار زبیدی، حارث شامی، عبد اللہ بن عمرو بن حارث، الو الخطاب۔[94]
کشی نے حمدویہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یعقوب نے، انھوں نے ابن ابی عمیر سے، انھوں نے عبد الصمد بن بشیر سے، انھوں نے مصادف سے روایت کی ہے، جب کوفہ سے کچھ لوگ آئے[95] تو میں نے جاکر امام صادق کو ان لوگوں کے آمد کی خبر دی، آپ فوراً سجدے میں چلے گئے اور زمین سے اپنے اعضاء چپکا کر رونے لگے، اورانگلیوں سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ کر فرمارہے تھے، نہیں بلکہ میں اللہ کا بندہ اس کا ذلیل و پست ترین بندہ ہوں اور اس کی تکرار کرتے جارہے تھے جب آپ نے سر اٹھایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو آنکھوں سے چل کر ریش مبارک سے بہہ رہا تھا، میں اس خبر دینے پر نہایت شرمندہ تھا، میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ! میری جان آپ پر فدا ہو، آپ کو کیا ہوا، اور وہ کون ہیں؟۔
آپ نے فرمایا: مصادف! عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ جو کچھ کہہ رہے تھے اگر اس کے سبب وہ خموشی اختیار کرلیتے تو ان کا حق تھا کہ اپنی سماعت گنوا دیتے، بصارت دے دیتے، ابو الخطاب نے جو کچھ میرے بارے میں کہا اگر اس کے سبب سکوت کرلوں اوراپنی سماعت و بصارت سے چشم پوشی کرلوں تو یہ میرا حق ہے۔[96]
شیخ کلینی نے سدیر سے روایت کی ہے کہ، میں نے حضرت امام صادق کی خدمت میں عرض کی کہ ایک گروہ ہے جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ ہی خدا ہیں، اور اس کے ثبوت میں اس آیت <ہُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إلٰہٌ وَ فِی الاٴرضِ إلٰہٌ>[97] کو ہمارے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور رُواں رُواں ان لوگوں سے بیزار ہے او رخدا بھی ان سے بیزار ہے، وہ لوگ میرے او رمیرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں ہیں خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ غضب و عذاب الٰہی کے شکار ہوں گے۔[98]
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول خدا ! ایک گروہ ایساہے جو اس بات کا معتقد ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اوراس آیت کی تلاوت کرتے ہیں:
<یَا اٴَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیبَاتِ وَ اعْمَلُوا صَالِحاً إنِّی بِمَاتَعمَلُونَ عَلِیمٌ>[99]
”اے میرے رسولو! پاکیزہ غذا ئیں کھاؤ اور نیک اعمال انجام دو کہ میں تمہارے نیک اعمال سے خوب باخبر ہوں“
آپ نے فرمایا: اے سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست، خون ان لوگوں سے اظہار برائت کرتا ہے، ان سے اللہ اور ان کا رسول بھی اظہار برائت کرتے ہیں یہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ عذاب و غضب الٰہی کے شکار ہوں گے۔
راوی کہتا ہے، میں نے عرض کی: فرزند رسول خدا پھر آپ کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا: ہم علم الٰہی کے خزانہ دار، احکام الٰہی کے ترجمان اور معصوم قوم ہیں، اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے، اور ہماری نافرمانی سے منع کیا ہے، ہم زمین پر بسنے والے اور آسمان کے رہنے والوں کے لئے حجت کامل ہیں۔[100]
مغیرہ بن سعید غلو کرنے والوں کے گروہ کی ایک فرد تھا جو سحر و جادو کے ذریعہ سطحی اور عام فکر کے حامل لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتاتھا پھر ان لوگوں کے لئے اٴئمہ اہل بیت کے حوالے سے غلو کو آراستہ کردیتاتھا امام صادق نے اس غالی شخص کی حقیقت اپنے اصحاب کے سامنے واضح کردی۔
ایک دن اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے اوراس یہودیہ پر لعنت کرے جس سے وہ مختلف قسم کے جادو، ٹونے اور کرتب سیکھتا تھا، مغیرہ نے ہماری جانب جھوٹ باتوں کی نسبت دی جس کے سبب خدا نے اس سے نعمت ایمان کو لے لیا ایک گروہ نے ہم پر جھوٹا الزام لگایا خدا نے ان کو تلوار کا مزہ چکھایا خدا کی قسم ہم کچھ نہیں صرف اللہ کے بندے ہیں اس نے ہم کو خلق کیا اورانتخاب کیا ہم کسی ضرر و فائدہ پر قدرت نہیں رکھتے اگر کچھ (قدرت) ہے تو رحمت الٰہی ہے اگر مستحق عذاب ہوئے تو اپنی غلطیوں کے سبب ہوں گے۔
خدا کی قسم! خدا پر ہماری کوئی حجت نہیں اور نہ ہی خدا کے ساتھ کوئی برائت ہے، ہم مرنے والے ہیں قبروں میں رہنے والے محشور کیئے جانے والے، واپس بلائے جانے والے، روکے جانے والے اور سوال کیئے جانے والے ہیں، ان کو کیا ہوگیا ہے خدا ن پر لعنت کرے، انھوں نے خدا کو اذیت دی اور رسول اکرم کو قبر میں اذیت دی اور امیر المومنین و فاطمہ زہرا، حسن، حسین، علی بن الحسین، محمد بن علی ٪ کو اذیت دی۔
آج کل تمہارے درمیان میں ہوں جو رسول اکرم کا گوشت پوست ہوں، لیکن راتوں کو جب کبھی بستر استراحت پر جاتا ہوں تو خوف و ہراس کے عالم میں سوتا ہوں، وہ لوگ چین و سکون کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
میں دشت و جبل کے درمیان لرزہ براندام ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو کچھ میرے بارے میں بنی اسد کے غلام اجرع براد، ابوالخطاب نے کہا: خدا اس پر لعنت کرے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ ہمارا امتحان لیتے اور ہم کو اس کا حکم دیتے تو واجب ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ لوگ ہم کو خائف و ہراس پارہے ہیں؟ ہم ان کے خلاف اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔
میں تم سب کو گواہ بناکر کہتا ہوںکہ میں فرزند رسول خدا ہوں اگر ہم نے ان کی اطاعت کی تواللہ ہم پر رحمت نازل کرے اوراگر ان کی نافرمانی کی تو ہم پر شدید عذاب نازل کرے۔
امام صادق نے غلاة کی جانب سے دی گئی ساری نسبتوں کی نفی کی ہے، مثلاً علم غیب، خلقت، تقسیم رزق وغیرہ۔
ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کی، یابن رسول اللہ! وہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ بارش کے قطرات، ستاروں کی تعداد،درختوں کے پتوں، سمندر کے وزن، ذرات زمین کا علم رکھتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! سبحان اللہ! خدا کی قسم خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا۔
آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص، آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ، آپ بندوں کے رزق تقسیم کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: ہم سب کا رزق صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے، مجھ کو اپنے اہل و عیال کے لئے کھانے کی ضرورت پڑی تو میں کشمکش میں مبتلا ہوا، میں نے سوچ بچار کے ذریعہ ان کی روزی فراہم کی اس وقت میں مطمئن ہوا۔
زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کی کہ عبد اللہ بن سبا کے فرزندوں میں سے ایک تفویض کا قائل ہے!
آپ نے فرمایا: تفویض سے کیا مراد ہے؟
میں نے کہا: کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد و علی کو خلق کیا اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض (حوالے) کردیئے، لہٰذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں۔
آپ نے فرمایا: کہ وہ دشمن خدا جھوٹ بولتاہے، جب تم اس کے پاس جانا تو اس آےت کی تلاوت کرنا:
<اٴَمْ جَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَاءِ خَلَقُوا کَخَلقِہِ فَتَشَابَہَ الْخَلقُ عَلَیہِم قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیءٍ وَ ہُوَ الوَاحِدُ القَہَّارُ>[101]
(یا ان لوگوں نے اللہ کے لئے ایسے شریک بنائے ہیں جنھوں نے اس کی طرح کائنات خلق کی ہے اور ان پر خلقت مشتبہ ہوگئی ہے کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر شی کا خالق ہے وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔
میں واپس گیا اور جو کچھ امام نے کہا تھا وہ پیغام سنا دیا تو گویا وہ پتھر کی طرح ساکت رہ گیا یا بالکل گونگا ہوگیا۔
مفضل راوی ہیں کہ امام صادق نے ہم سے اصحاب خطاب اور غلاة کے حوالے سے فرمایا: اے مفضل! ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے وارث بنو اور ان کو اپنا وارث بناؤ۔
غلاة اور امام موسیٰ کاظم کا موقف
اپنے آباء و اجداد کی مانند امام موسیٰ کاظم بھی غلاة سے دوچار رہے، جنھوں نے ان کے اور ان کے آباء و اجداد کے بارے میں بہت ساری باتیں کیں جن کی تائید الٰہی کلام سے نہیں ہوتی۔
امام موسیٰ کاظم کے عہد امامت میں خطرناک غلو کرنے والا، محمد بن بشیر تھا یہ امام کا صحابی تھا، پھر غالی ہوگیا یہاں تک کہ امام کی شہادت کے بعد آپ کی ربوبیت کا قائل ہوگیا اور خود کو نبی گرداننے لگا۔
محمد بن بشیر قتل ہوا اور اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ شعبدہ باز اور جادوگر تھا، وہ واقفیہ فرقہ کے افراد کے سامنے اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ میں نے علی بن موسیٰ پر توقف کیا ہے یہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی ربوبیت کا قائل اور اپنی نبوت کا مدعی تھا۔[102]
اس کے فاسد عقیدوں کی اتباع لوگوں کے ایک سادہ لوح گروہ نے کی، جس کو اس نے دھوکا دے رکھا تھا اور وہ لوگ محمد بن بشیر کے عقیدہ کی طرف منسوب ہونے کے سبب ”بشیریہ“ کے نام سے مشہور ہوئے۔
ان کے باطل عقائد میں سے یہ تھا کہ وہ عبادات جو ان پر فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا واجب ہے، وہ یہ ہیں: نماز، روزہ، ادائیگی خمس، لیکن زکوٰة، حج اور دوسری ساری عبادات ان سے ساقط ہیں۔
یہ لوگ امام کے تناسخ (آواگون) کے قائل ہیں یعنی سارے اٴئمہ کا ایک جسم ہے صرف ایک دوسرے پیکر میں زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
وہ لوگ اس نظریہ کے قائل تھے کہ وہ سب چیزوں کے درمیان ایک دوسرے کے شریک ہیں، کھانا، پینا، مال و دولت، عورتیں ، یہ لوگ لواط (اغلام بازی) کو مباح جانتے تھے اور اس عقیدہ پر قرآن کی یہ آیت پیش کرتے تھے:
<اٴَو یُزَوِّجُہُم ذُکرَاناً وَّ إنَاثاً>[103]
(یا پھر بیٹے اور بیٹیاں دونوں کو جم کردیتا ہے)
جب امام موسیٰ کاظم کی شہادت واقع ہوئی تو ان لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ مرے نہیں ہیں،نگاہوں سے غائب ہوگئے ہیں اور وہ وہی مہدی ہیں، جن کی بشارت دی گئی ہے، انھوں نے امت میں اپنا خلیفہ محمد بن بشیر کو قرار دیا ہے اور ان کو اپنا قائم مقام بنایا ہے۔
کشی نے علی بن حدید مدائنی سے روایت کی ہے کہ میں نے ابا الحسن اول یعنی امام کاظم سے ایک شخص کو سوال کرتے سنا کہ ”میں نے سنا ہے کہ محمد بن بشیر کہتا ہے کہ آپ موسیٰ بن جعفر نہیں ہیں جو کہ ہمارے امام اور خدا اور ہمارے درمیان حجت ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ امام نے فرمایا: خد اس پر لعنت کرے (تین بار تکرار کی) خدا اس کو لوہے کی گرمی کا مزہ چکھائے خدا اس کو بری طرح قتل کرے۔
میں نے عرض کی: فرزند رسول میں آپ پر فدا ہوں، جب میں نے آپ کا یہ حکم اس کے بارے میں سنا تو کیا اب اس کا خون ہم پر مباح نہیں ہے جس طرح سے رسول و امام پر سب و شتم کرنے والے کا خون حلال ہے۔
تو آپ نے فرمایا: ہاں! خدا کی قسم تم پر اس کا خون حلال ہے اور جو کوئی بھی اس کے حوالے سے یہ بات سنے اس پر بھی اس کا خون حلال ہے۔
میں نے عرض کی: کہ کیا آپ پر سب و شتم کرنے والا نہیں ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ خدا و رسول و میرے اجداد اور مجھ پر سب و شتم کرنے والا ہے، اس سے بڑھ کر سب و شتم کرنے والا کون ہوگا؟ اور اس پر کون سبقت حاصل کرسکتاہے؟
میں نے عرض کی، اگر میں اس سے برائت میں خوف نہ کروں اور چشم پوشی کرلوں اور اس حکم پر عمل نہ کروں اور اس کو قتل نہ کروں تو آپ کی نظر میں مجھ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
آپ نے فرمایا: تم پر بہت بڑا گناہ ہوگا اور اس کی شدت میں کمی نہیں آئے گی۔
کیا تم نہیں جانتے کہ روز قیامت شہداء میں سب سے بلند پایہ وہ ہوگا جو اللہ و رسول کی مدد کرے گا اور ظاہر و باطن میں خدا و رسول کا مدافع ہوگا۔[104]
امام موسیٰ کاظم نے محمد بن بشیر پر لعنت کی ہے اور اس کے حق میں بددعا کی ہے۔
کشی نے علی بن حمزہ بطائنی سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابا الحسن موسیٰ سے سنا کہ ”خدا محمد بن بشیر پر لعنت کرے اس کو لوہے کے مزے کو چکھائے اس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، خدا
اس سے بری ہے او رمیں بھی اس سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں، خدایا! جو کچھ ابن بشیر نے میرے بارے میں کہا ہے میں تیرے لئے اس سے برائت کا اظہار کرتا ہوں۔
خدایا! مجھ کو اس سے نجات دے، اس کے بعد فرمایا: ”اے علی! جس کسی نے جان بوجھ کر ہم پر جھوٹ الزام لگانا چاہا ہے خدا نے اس کو تلوار کا مزہ چکھایا ہے۔
ابومغیرہ بن سعید نے ابو جعفر پر جھوٹا الزام لگایا تھا خدا نے اس کو تلوار کا مزہ چکھایا، ابوخطاب نے میرے باپ پر جھوٹاالزام لگایا تھا، خدا نے اس کو تلوار کا مزہ چکھایا، محمد بن بشیر خدا اس پر لعنت کرے، اس نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا تھا، میں اس سے خدا کی پناہ مانگتاہوں، خدایا! محمد بن بشیر نے جو کچھ میرے بارے میں کہا ہے میں اس سے اظہار برائت کرتا ہوں، خدایا! اس کے شر سے محفوظ رکھ، خدایا! محمد بن بشیر رجس نجس سے دور رکھ، شیطان اس کے باپ کے ساتھ اس کے نطفہ میں شریک تھا۔
خدا نے امام کاظم کی دعا قبول کی، علی بن حمزہ کہتے ہیں کہ جس بری طرح محمد بن بشیر کو قتل کیا گیا، میں نے ک سی کو نہیں دیکھا، خدا اس پر لعنت کرے۔[105]
غلاة اور اما م رضا کا موقف
غلاة سے جنگ اور ان کے باطل عقائد کے بطلان کے سلسلہ میں ان کو برملا کہنے اوران سے لوگوں کو دور رکھنے کے سلسلہ میں امام رضا اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر ہوبہو چلے۔
حسین بن خالد صیرفی سے روایت ہے کہ امام رضا نے فرمایا: ”جو تناسخ (آواگون) کا قائل ہے وہ کافر ہے، اس کے بعد فرمایا: خدا غلو کرنے والوں پر لعنت کرے، آگاہ رہو! کہ یہ یہودی تھے، نصاریٰ تھے، مجوسی تھے، قدریہ، مرجئہ و حروریہ (خوارج) تھے “۔
اس کے بعد فرمایا: ان کے ساتھ نشست و برخاست رکھو نہ ان سے دوستی کرو، ان سے برائت اختیار کرو، خدا ان سے بری ہے۔[106]
امام رضا غلاة کو تمام فاسد اور تحریف شدہ ادیان و مذاہب کی بدترین فرد سمجھتے تھے۔
آپ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے”خدا یا! میں تما م قوت و طاقت سے اظہار برائت کرتا ہوں تیرے سوا کوئی قدرت و طاقت نہیں، خدایا! وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں اس بات کاا دعا کیا جس کے ہم حقدار نہیں،ان سے تیری پناہ مانگتے ہیں، خدا وہ بات جس کو ہم نے اپنے بارے میں کبھی نہیں کہا اور لوگ ہماری جانب منسوب کرتے ہیں اس سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
خدایا! امر خلقت تیرا حق ہے، ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی مد دچاہتے ہیں، خدایا! تو میرا اور میرے اولین و آخرین آباء و اجداد کا خالق ہے، خدایا! ربوبیت صرف تیرا حق ہے، الوہیت صرف تجھ کو زیب دیتی ہے۔
نصاریٰ پر لعنت ہو جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹایا اور ان لوگوں پر لعنت ہو جنھوں نے تیری عظمت کے خلاف لب کھولے۔
خدایا! ہم تیرے بندے ہیں اور تیرے بندوں کی اولاد ہیں، خدایا! اپنی جان کے نفع و نقصان پر گرفت نہیں رکھتے، موت و حیات اور قبر سے اٹھائے جانے پر ہماری گرفت نہیں۔
خدایا! جن لوگوں نے ہمارے بارے میں خیال کیا کہ ہم خدا ہیں تو ہم ان سے اسی طرح بری ہیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم نصاریٰ سے بری تھے۔
خدایا! میں نے ان کے باطل عقائد کی کبھی دعوت نہیں دی، خدایا! ان کی باتوں کے سبب مجھ سے بازپرس نہ کرنا اور وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں اس کے سبب ہماری مغفرت فرما، <رَبِّ لاتَذَر عَلٰی الاٴرضِ مِنَ الکافِرِینَ دَیَّاراً ، إنَّکَ إن تَذَرہُم یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَ لایَلِدُوا إلا فَاجِراً کفاراً>[107]
(پروردگار! اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا کہ تو اگر انہیں چھوڑ دے گا تویہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی نہ پیدا کریں گے)۔
ابو ہاشم جعفری سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا سے غلاة اور مفوضہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: غلاة کفار ہیں اور مفوضہ مشرک ہیں، جو کوئی بھی ان کے ساتھ رفت و آمد رکھے، کھانا پینا رکھے، صلہٴ رحم کرے، شادی کرے، یا ان کی لڑکی اپنے گھر میں لائے، یا ان کی امانت رکھے، یا ان کی باتوں کی تصدیق کرے، یا صرف کسی ایک کلمہ سے ہی ان کی مدد کرے، وہ اللہ و رسول اور ہم اہلبیت کی ولایت سے خارج ہو جائے گا۔[108]
امام رضا نے غلاة کے اصل ظہور کی اہم علت کو بتایا،ابراہیم بن ابی محمود نے امام رضا سے روایت کی ہے:اے ابن ابی محمود! ہمارے مخالفوں نے ہماری فضیلت میں روایات گھڑھی اوران کی تین قسمیں ہیں، ۱ غلو ۲ ہمارے امر میں کمی، ۳ ہمارے دشمنوں کی عیب جوئی ، جب ہمارے بارے میں لوگوں نے غلو کو سنا تو ہمارے چاہنے والوں کی تکفیر کی اور ان لوگوں نے ہمارے شیعوں کی جانب ہماری ربوبیت کے قائل ہونے کی نسبت دی ، جب ہماری کمی کو سنا تو اس کے معتقد ہوگئے اور جب ہمارے دشمنوں کی عیب جوئی سنی تو انھوں نے ہم کو نام بنام دشنام دیا۔
خدا نے فرمایا: <وَ لاتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْواً بِغَیرِ عِلمٍ>[109]
(اورخبردار تم لوگ انھیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کہہ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سوچے سمجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔
اے ابن ابی محمود! جب لوگ ادھر ادھر کے نظریات کے معتقد ہو جائیں تو اس وقت تم ہمارے راستے پر قائم رہنا اس لئے کہ جو ہمیں اپنائے گا ہم اس کو اپنائیں گے اور جو ہم کو چھوڑ دے گا ہم اس کو چھوڑ دیں گے۔[110]
امام رضا نے واضح کردیا کہ غلاة کس طرح عام شیعوں کی جانب غلو منسوب کرنے کا سبب ہوئے، اسی سبب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر فرقوں کے مولفین، غلو کے صفات کو مطلقاً شیعوں او رخصوصاً امامیہ کی جانب نسبت دیتے ہیں، وہ لوگ ان احادیث پر بھروسہ کرتے ہیں جن کوغلاة نے لوگوں کے درمیان رائج کر رکھا تھا لہٰذا اہل سنت افراد نے یہ سمجھ لیا کہ یہ روایات شیعہ طریقوں سے وارد ہوئیں ہیں اورغلو کو شیعوں کی جانب منسوب کردیا۔
جیسا کہ بعض مولفین بالکل فاش غلطی کے شکار ہوگئے اورتجسیم و تشبیہ کی نسبت شیعوں کی طرف د ے بیٹھے، جبکہ ہم نے اصول عقائد شیعہ میں اس بات کی مکمل وضاحت کردی ہے اورتوحید کی بحث میں یہ بات کہی ہے کہ تشبیہ و تجسیم کے سلسلہ میں شدید مخالف ہیں اور خدا کوان سب چیزوں سے بہت دور جانا ہے۔
امام رضا نے اپنے اس آنے والے قول میں اس بات کی اور وضاحت کردی ہے
آپ نے فرمایا: جن لوگوں نے تشبیہ اور جبر کی باتوں کو گڑھ کر ہم شیعوں کی جانب منسوب کردیا ہے وہ غلاة ہیں جنھوں نے عظمت پروردگار کو گھٹایا ہے، جو ان لوگوں سے محبت کرے گا وہ ہمارا دشمن ہے جو ان سے نفرت کرے گا وہ ہمارا محبوب ہے، جو ان سے لگاوٴ رکھے گا وہ ہمارا دشمن ہے، جو ان کو دشمن ہے وہ ہمارا چاہنے والا ہے، جو ان سے صلہٴ رحم کرے وہ ہم سے جدا ہوگا، جو ان سے جدا ہوگیا وہ ہم سے مل گیا، جس نے ان سے جفا کی اس نے ہمارے ساتھ حسن رفتار کیا، جس نے ان کے ساتھ حسن رفتار کیا گویا اس نے ہم پر جفا کی، جس نے ان کا اکرام کیا اس نے میری توہین کی، جس نے ان کی توہین کی اس نے میری عزت کی، جس نے ان کو قبول کیا اس نے ہماری تردید کی اور جس نے ان کی تردید کی اس نے ہم کو قبول کیا، جس نے ان کے ساتھ حسن رفتار کیا اس نے ہمارے ساتھ سوء ادب سے کام لیا، جس نے ان سے بدخلقی سے برتاوٴ کیا اس نے ہمارے ساتھ خوش خلقی کی، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہم کو جھٹلایا اور جس نے ان کو جھٹلایااس نے ہماری تصدیق کی، جس نے ان کو عطا کیا گویا ہم کو محروم کردیا، اور جس نے ہم کو عطا کیا گویا ان کو محروم کیا، اے ابن خالد، جو بھی ہمارا شیعہ ہوگا کبھی بھی ان کو اپنا ولی و مددگار قرار نہیں دے گا۔[111]
غلاة اور امام علی بن محمد ہادی کا موقف
امام ہادی بھی غلاة کے اس گروہ سے دوچار ہوئے جو ائمہ کی ربوبیت و الوہیت کے قائل تھے، اور ان کے زمانے کے غلاة کا سردار محمد بن نصیر غیری تھا، اور نصیری فرقہ اسی جانب منسوب ہے، اور ایک قلیل گروہ نے اس فرقہ کی پیروی کی ہے، جن میں نمایاں فارس بن حاتم قزوینی اور ابن بابا قمی ہے۔
کشی نے لکھا ہے کہ: ایک فرقہ محمد بن نصیر غیری کی رسالت کا قائل ہے اور وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی و رسول ہے اور اس کو علی بن محمد ہادی نے رسالت بخشی ہے، حضرت امیر کے بارے میں تناسخ کا قائل تھا اور غلو کرتا تھا اور اس بات کا دعویٰ کرتا تھا کہ ان میں ربوبیت پائی جاتی ہے۔
وہ کہتا تھا کہ: تمام محارم مباح ہیں، مرد کا مرد کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے وہ اس نظریہ کا موجد و قائل تھا کہ فاعل و مفعول دونوں لذات میں سے ایک ہیں اور خدا نے ان میں سے کسی ایک کو حرام نہیں قرار دیا۔
محمد بن موسیٰ بن حسن بن فرات اس کے نظریہ کی حمایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ بعض لوگوں نے محمدبن نصیر کو علی الاعلان اغلام بازی کی کیفیت میں دیکھا ہے اور اگر اس کے غلام نے اس فعل سے انکار کیا تو اس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ لذتوں سے ایک ہے! یہ درحقیقت خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے اور جبر و رکاوٹ کو ختم کرنا ہے۔
نصر بن صباح کہتے ہیں کہ: حسن بن محمد معروف بہ ابن بابا، محمد بن نصیر غیری، فارس بن حاتم قزوینی، ان تینوں پر امام علی نقی نے لعنت بھیجی ہے۔
ابو محمد فضل بن شاذان نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ابن باباء قمی مشہور جھوٹوں میں سے تھا۔
سعد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیدی نے بتایا کہ ابتدائے دور میں امام علی نقی نے میرے پاس ایک خط لکھا کہ ”میں فہری، حسن محمد بن بابا قمی، ان دونوں سے اظہار برائت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی ان دونوں سے بیزار ہو جاوٴ، میں تم کو اور اپنے چاہنے والوں کو ان دونوں سے خبردار کرتا ہوں، ان دونوں پر اللہ کی لعنت ہو یہ ہمارے نام پر لوگوں سے کھا رہے ہیں، یہ دونوں اذیت دینے والے اور فتنہ پرور ہیں خدا ان دونوں کواذیت دے، خدا ان دونوں کو فتنہ کی رسّی میں جکڑ دے، ابن بابا (قمی) یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے اس کو نبوت دی ہے اور وہ رئیس ہے اس پر خدا کی لعنت ہو، شیطان نے اس کو مسخر کر کے اس کا اغوا کرلیا ہے، اس پر بھی خدا کی لعنت ہو جو ان کی باتوں کو قبول کرے۔
اے محمد! اگر تم اس بات پر قدرت رکھتے ہو کہ پتھر سے اس کا سر کچل دو تو ایسا کر گذرو کیونکہ اس نے مجھ کو اذیت دی ہے، خدا اس کو دنیا و آخرت میں اذیت دے“[112]
کشّی نے ابراہیم بن شیبہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام علی نقی کو خط لکھا کہ ”آپ پر ہماری جان فدا ہو، ہمارے یہاں کچھ لوگ ہیں جو آپ کی فضیلت کے سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں جن کے سبب دل ٹیڑھے اور سینہ تنگ ہوگیاہے اوراس حوالہ سے حدیث بھی بیان کرتے ہیں ہم اس کو قبول نہیں کرسکتے ہیں جب تک کہ تائید الٰہی نہ ہو اور ان کی تردید بھی مشکل امر ہے کیونکہ ان کی نسبت آپ کے آباء و اجداد کی جانب ہے لہٰذا ہم لوگوں نے ان حدیثوں پر توقف کیا ہے۔
وہ لوگ اس قول خدا <إنَّ الصَّلٰوٰةَ تَنہیٰ عَنِ الفَحشَاءِ وَ الْمُنکَرِ>[113] اور <وَ اٴقِیمُوا الصَّلوٰةَ وَ آتُوا الزَّکوٰة>[114] کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو نہ ہی رکوع کرے اور نہ سجدہ، اور زکوٰة کے بارے میں بھی یہی نظریہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ہی درہموں کی تعداد ہے اور نہ ہی مال کی ادائیگی مراد ہے، اور اسی طرح واجبات و مستحبات اور منکرات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اور ان سب کو اسی حد تک بدل ڈالا ہے جس طرح میں نے آپ سے عرض کی۔
اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ کے چاہنے والے ان خرافات سے سلامت رہیں جو ان کو ہلاکت و گمراہی کی جانب لے جارہی ہیں” وہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اولیاء (الٰہی) ہیں اور اپنی اطاعت کی دعوت دیتے ہیں“ ان میں سے علی بن حسکہ، اور قاسم یقطینی ہیں، ان ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرنے کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟۔
امام نے جواب میں تحریر فرمایا کہ: اس کا ہمارے دین سے کوئی سروکار نہیں لہٰذا اس سے پرہیز کرو۔[115]
سہل بن زیاد آدمی راوی ہیں کہ ہمارے دوستوں نے امام علی نقی کے پاس خط لکھا: اے میرے مولا و آقا! آپ پر ہماری جان فدا ہو، علی بن حسکہ آپ کی ولایت (نیابت) کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ آپ اول و قدیم ہیں اور وہ آپ کا نبی نمائندہ ہے اور آپ نے لوگوں کو اس بات کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا ہے، وہ یہ خیال کرتا ہے کہ نماز، حج، زکوٰة، اور یہ سب کے سب آپ کی حقیقت و معرفت ہیں اور ابن حسکہ کی نبوت و نیابت جس کا وہ مدعی ہے اس کو قبول کرنے والا مومن کامل ہے اور حج و زکوٰة و روزہ جیسی عبادات اس سے معاف ہیں، اور شریعت کے دیگر مسائل اور ان کے معانی کو ذکر کیا ہے جو آپ کے لئے ثابت ہوچکا ہے اور بہت سارے لوگوں کا میلان بھی اس جانب ہے، اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو کرم فرما کر ان کا جواب عنایت فرمائیں تاکہ آپ کے چاہنے والے ہلاکت سے بچ سکیں۔
امام نے جواب میں تحریر فرمایا: ابن حسکہ جھوٹ بولتا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو، تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ میں اس کو اپنے چاہنے والوں میں شمار نہیں کرتا، اس کو کیا ہوگیا ہے؟! اس پر خدا کی لعنت ہو۔
خدا کی قسم خدا نے محمد اکرم اور ان سے ماقبل رسولوں کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ دین نماز، زکوٰة ، روزہ، حج اور ولایت ان کے ہمراہ تھی، خدا نے خدا کی وحدانیت کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دی اور وہ خدا ایک و لاشریک ہے، اسی طرح ہم اوصیاء (الٰہی) اس بندہ خدا کے صلب سے ہیں کبھی خدا کا شریک نہیں مانتے مگر ہم نے رسول کی اطاعت کی تو خدا ہم پر رحمت نازل کرے اوراگر ان کی خلاف ورزی کی تو خدا عذاب سے دوچار کرے، ہم خدا کے لئے حجت نہیں ہیں بلکہ خدا کی حجت ہم اور تمام مخلوقات عالم پر ہے۔
وہ جو کچھ کہتا ہے ان سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں اور اس قول سے دوری اختیار کرتے ہیں خدا ان پر لعنت کرے ان سے دوری اختیار کرو، ان پر عرصہٴ حیات تنگ کردو اور ان کو کبھی گوشہٴ تنہائی میں پاوٴ تو پتھر سے ان کا سر کچل دو۔[116]
ان باتوں سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ دینی فرائض جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، حج، وغیرہ سے فرار کرنا غلو کی ایک قسم ہے۔
امام صادق نے غلاة کی بدنیتی کو اس وقت واضح کردیا تھا جب آپ کے اصحاب میں سے کسی نے لوگوں کے اس قول کے بارے میں سوال کیا تھا کہ ”حضرت امام حسین شہید نہیں ہوئے اور انھوں نے لوگوں پر اپنے امر کو پوشیدہ رکھا“ یہ ایک طویل حدیث ہے، یہاں تک اس صحابی نے امام سے سوال کیا، اے فرزند رسول ! آپ کے شیعوں میں سے کچھ لوگ جو یہ خیال رکھتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
آپ نے فرمایا: وہ لوگ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہیں، میں ان سے اظہار برائت کرتا ہوں، انھوں نے عظمت الٰہی کو چھوٹا کر کے پیش کیا اور اس کی کبریائی کا انکار کیا وہ مشرکت و گمراہ ہوگئے ہیں وہ لوگ دینی فرائض سے فرار اور حقوق کی ادائیگی سے دور ہیں۔
ان سب (کلمات) سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہٴ کرام نے غلو اور غلاة کے خلاف کتنی سخت اور فیصلہ کن جنگ کی ہے، اور ان کی بدنیتی اور ناپاک ارادوں سے نقاب کشائی کی ہے، اور اپنے شیعوں کو ان سے دور رکھا ہے جیسا کہ امام صادق نے اپنے چاہنے والے کو نصیحت کی ہے، آپ فرماتے ہیں: ”اپنے جوانوں کو غلاة سے دور رکھو! کہیں ان کو برباد نہ کردیں، کیونکہ غلاة مخلوقات الٰہی کے لئے ایک قسم کے شر ہیں انھوں نے عظمت الٰہی کو گھٹایا ہے، اور بندگان خدا کی ربوبیت کا دعویٰ کیا ہے، خدا کی قسم غلاة، یہود و نصاریٰ و مجوس و مشرکین سے بدتر ہیں
اس کے بعد امام نے فرمایا: اگر غلو کرنے والا ہماری طرف رجوع کرے تو اس کو ہرگز قبول نہیں کریں گے لیکن اگر ہماری شان کم کرنے والا اگر ہم سے (توبہ کے بعد) ملحق ہونا چاہے تو اس کو قبول کرلیں گے، کہنے والے نے آپ سے کہا کہ ایسا کیسے؟۔
تو آپ نے فرمایا: اس لئے کہ غلو کرنے والا نماز و روزہ و حج و زکوٰة کے ترک کی عادت ڈال چکا ہے لہٰذا وہ اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتا اور خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف کبھی بھی پلٹ کر نہیں آسکتا، لیکن مقصر (کمی کرنے والا) جب حقیقت کو درک کر لے گا تو عمل واطاعت کو انجام دے گا۔
وہ خطوط جن کو بعض افراد ائمہٴ کرام کے پاس غلاة کے سلسلہ میں ائمہ کا موقف جاننے کے لئے ارسال کرتے تھے اور ان کی باتوں کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے اور شیعوں میں ان کے افکار کے فروغ و انتشار سے کبیدہ خاطر تھے، یہ تمام خط و کتابت اس لئے تھی کہ وہ مخلص شیعہ حضرات غلاة کی ناپاک فکروں سے دین کی حفاظت چاہتے تھے اور یہ افراد غلاة کے مد مقابل پورے اعتماد کے ساتھ کھڑے تھے ان سے مناظرہ کرتے تھے اور اکثر ان کو محکم دلیلوں سے خاموش بھی کرتے تھے اور انھوں نے ان غلاة کا بائیکاٹ کرنے میں اپنے اماموں کے حکم کی مکمل اطاعت کی ہے، جب کہ وہ دور عصبیت کا دور تھا اور ظالم و جابر سلاطین کا ظلم زوروں پر تھا اور انھوں نے ان (شیعوں) پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا تھا۔
ان شیعوں کے فرائض میں یہ تھا کہ اپنے دین، عقیدہ کا دفاع کریں اور اسلام کی حمایت ان انحرافات سے کریں جو غلاة کی صورت وجود میں آئے تھے اور لوگوں کو ان سے دور رکھیں، خود ان پر کڑی نظر رکھیں، ان کے جھوٹ، خرافات اور عیبوں کو برملا کریں۔
اور یہ سب اس وقت میں کرنا تھا جب ان غلاة کے خلاف حد کافی قدرت و طاقت نہیں رکھتے تھے، ان کے پاس اس حد تک آزادی بھی نہیں تھی کہ حقیقی اسلام کے عقائد کی تعلیم دے سکیں، جبکہ اس وقت اُموی، عباسی، اور دیگر فرقہ غلو کے نظریات اور انحرافات کو مسلمانوں کے درمیان دھڑلے سے پھیلا رہے تھے۔
ان تمام باتوں کے باوجود پروردگار کے رحم و کرم کے ہمراہ شیعوں کی انتھک کوششیں اور اسلام حقیقی کی دفاع میں اٴئمہ کرام کی ناقابل شکست جنگیں رنگ لائیں اور اسلام انحرافاتی ہتھکنڈوں سے محفوظ رہا۔
--------
[1] المستدرک علی الصحیحین،ج۳، ص۱۲۱، ابوذر سے روایت کی گئی ہے اور کہا گیاہے کہ یہ حدیث صحیح السند ہے، ج۳، ص۷۱۲۸ الریاض النضرة، ج۲، ص۱۶۷
[2] (۲)کنوز الحقائق للمناوی، ص۴۳، تاریخ بغداد، ج۷۲ ص۸۸، الریاض النضرة، ج۲، ص۱۹۳، ذخائر العقبیٰ، ص۷۷، نقاش سے انھوں نے روایت کی ہے
[3] المستدرک، ج۳، ص۱۳۷، پر کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، کنز العمال، ج۶، ص۱۵۷، الاصابہ، ج۴، ص۳۳، اسد الغابہ، ج۱، ص۶۹، ج۳، ص۱۱۴، الریاض النضرة، ج۲، ص۱۷۷، حلیة الاولیاء، ج۱، ص۶۶، تاریخ بغداد، ج۱۳، ص۱۲۲، الاستیعاب، ج۲، ص۶۵۷، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۲، فیض القدیر للمناوی، ج۴، ص۳۵۸، وغیرہ
[4] تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۲۲۱، المستدرک، ج۳، ص۱۱۹، ۱۲۴، جامع ترمذی، ج۲، ص۲۹۸، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۳۴، ج۷ ،ص۲۳۵،
[5] المستدرک، ج۳، ص۱۲۴، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۲۴، کنز العمال، ج۶، ص۱۵۳، فیض القدیر، ج۴، ص۳۵۶
[6] خطط الشام، ج۵، ۲۵۱
[7] النظم الاسلامیہ، ص۶۹
[8] تفسیر طبری، ج۳۰، ص۱۷۱، درمنثور،
[9] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۱۹
[10] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۵۰۔ ۴۹
[11] شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۵۲۔ ۵۱
[12] سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۳۹۹
[13] طبقات الکبریٰ، ج۳، ص۵۰۱
[14] المستدرک، ج۳، ص۳۰۵
[15] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۴
[16] العقیدة و الشریعة فی الاسلام، ص۱۸۶، فجر الاسلام، احمد امین، ص۲۶۶
[17] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۶، ص۴۱
[18]
[19] شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۹۴۔ ۱۹۳
[20] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۹، ص۵۵
[21] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۵۷
[22] شرح نہج البلاغہ، ج)، ص۵۸۔ ۵۷
[23] مجمع الزوائد، ج۷، ص۲۴۳، پر کہا ہے کہ اس کو طبرانی نے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے روائی ثقہ ہیں
[24] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۱۸۸۔ ۱۸۷
[25] مجمع الزوائد، ج۷، ص۲۳۶، پر کہا ہے کہ اس کو بزار نے روایت کی ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں، فتح الباری، ج۳، ص۴۵
[26] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۸۔ ۶۷
[27] جمہرة الخطب، ج۱، ص۳۷۹۔ ۲۶۷
[28] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۷۵
[29] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۴، ص۶
[30] شرح نہج البلاغہ، ج۱۱، ص۴۴، ۴۶ وہ تکالیف اور مشکلات جو آل بیت کی زندگی کا حصہ بن گئیں
[31] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۱، ص۴۳
[32] تاریخ طبری، ج۷، ص۵۶۷
[33] النزاع و التخاصم، ص ۷۴
[34] مقاتل الطالبین، ابی الفرج الاصفہانی، ص۳۶۵
[35] مقاتل الطالبین، ابی الفرج الاصفہانی، ص۳۶۵
[36] مقاتل الطالبین، ص۴۰۳
[37] مقاتل الطالبین، ص۴۰۳
[38] مقاتل الطالبین، ص۴۰۳
[39] خطط الشام، ج۳، ص ۱۸۵، الکامل فی التاریخ، ج۱۰، ص۳
[40] معجم البلدان، ج۲، ص۳۴۲
[41] معجم البلدان، ج۲، ص۳۴۲
[42] الامام الصادق و المذاہب الاربعہ، اسد حیدر، ج۱، ص۲۴۴
[43] الفصول المہمہ، تالیف سید عبد الحسین شرف الدین، ص ۱۹۶۔۱۹۵، فتاوی حامدیہ، ج۱، ص۱۰۴؛ تاریخ الشیعہ، شیخ مظفر، ص۱۴۷؛ التقیہ فی فقہ اہل البیت، ج۱، ص۵
[55] البدایہ والنہایہ، ج۶، ص۲۷۸، ۲۸۰، ج۲، ص۱۷۶، جناب ہاجرہ سے اسماعیل کی ولادت کے تذکرہ کے ضمن میں
[56] فتح الباری، ج۱۳، ص۱۸۱
[57] اوائل المقالات، ص۲۴
[58] عقائد الامامیہ، شیخ مظفر، ص ۳۶،
[59] تاریخ الفرق الاسلامیہ، الفرق بین الفرق، ص۳۹
[60] قواعد عقائد آل محمد، ص۸، اختصار کے ساتھ
[61] منہاج السنہ النبویہ، ج۱، ص۵۷
[62] لسان العرب، ج۱۵، ص۱۳۲
[63] فرقہ الشیعہ، نوبختی، ص۵۰۔ ۴۶
[64] سورہٴ بقرہ، آیت ۲۵۹
[65] سورہٴ توبہ، آیت ۳۰
[66] سورہ توبہ، آیت ۳۰
[67] سورہٴ نساء، آیت ۱۷۱
[68] آکام المرجان، قاضی شبلی، ص ۱۴۹
[69] تصحیح الاعتقاد، ص۶۳
[70] اعتقادات، ص ۱۰۹
[71] المعتبر، ج۱، ص ۹۸
[72] مستند الشیعہ، ج۱، ص۲۰۴
[73] مستند الشیعہ، ج۶، ص۲۷۰
[74] جواہر الکلام، ج۳۹، ص ۳۲
[75] مصباح الفقیہ، ج۹، ق۲، ص۵۶۸
[76] ہدایة العباد، ج۲، ص۲۱۷
[77] رجال کشی، ج۱، ص۳۲۳، شمارہ ۱۷۰
[78] رجال طوسی، ص ۵۱، رجال ابن داود، ص ۲۵۴
[79] الخلاصہ، ص۲۵۴
[80] رجال کشی، ج۱، ص۳۲۴، شمارہ ۱۷۱
[81] رجال کشی، ج۱، ص۳۲۴، شمارہ ۱۷۴
[82] بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۶۳
[83] بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۶۵
[84] امالی شیخ طوسی، ص۵۴
[85] بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۷۰
[86] اصول کافی، ج۱، ۸۹
[87] بحار الانوار، ج۲۶، حدیث و محدثین، ہاشم حسنی، ص ۲۹۹
[88] رجال کشی، ج۲، ص۳۳۶
[89] رجال کشی، ج۴، ص۵۹۰
[90] الکافی، ج۸، ص۲۲۶
[91] سورہٴ زخرف، آیت ۸۴
[92] رجال کشی، ج۴، ص۵۹۲
[93] سورہٴ شعراء، آیت ۲۲
[94] رجال کشی، ج۴، ص۵۹۱
[95] جو امام کی الوہیت و ربوبیت کے قائل تھے
[96] رجال کشی، ج۴، ص۵۸۸
[97] سورہٴ زخرف، آیت ۸۲
[98] سورہٴ موٴمنون، آیت ۵۱
[99] سورہٴ موٴمنون، آیت ۵۱
[100] اصول کافی، ج۱، ص۲۶۹
[101] سورہٴ رعد، آیت۱۶
[102] رجال کشی، ج۶، ص۷۷۷
[103] سورہٴ شوریٰ، آیت ۵۰
[104] رجال کشّی ، ج۶، ص۷۷۸
[105] رجال کشّی، ج۶، ص۷۷۹
[106] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۱۸، باب۴۶، حدیث ۲
[107] اعتقادات شیخ صدوق، ص۹۹، سورہٴ نوح، آیت ۲۷۔ ۲۶
[108] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۱۹، باب ۴۶، حدیث ۴
[109] سورہٴ انعام، آیت ۱۰۸
[110] عیون اخبا رالرضا ج۲، ص۲۷۲، باب ماکتبہ الرضا ، حدیث ۶۳
[111] عیون اخبار الرضا ، ج۲، ص۱۳۱۔ ۱۳۰، حدیث ۴۵
[112] رجال کشّی، ج۶، ص ۸۰۵، شمارہ ۹۹۹
[113] سورہٴ عنکبوت، آیت ۴۵
[114] سورہٴ بقرہ، آیت ۴۳
[115] کشّی ، ج۶، ص۸۰۳
[116] کشی ، ج۶، ص۸۰۴
Post a Comment